الفاظ تھے یا لہجہ۔۔۔وہ مُڑی اور آنکھوں میں بےیقینی لئے اسے دیکھا۔
کیا ہوا؟
حیران نظر آ رہی ہو۔سامنے کھڑے شخص نے مسکرا کر کہا تھا۔اس کی سرخ انگارہ آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔وہ رات بھر سے سویا نہ تھا۔اس کی آنکھیں گواہ تھیں۔
ت۔۔۔تم یہاں۔۔۔نتاشا کی آنکھوں میں بےیقنی تھی۔مگر لہجہ سب سے زیادہ بول رہا تھا۔
ہاں میں یہاں۔۔۔اور مجھے ہی یہاں ہونا چاہے تھا۔ہنستے ہوئے اس نے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔سیاہ نقاب ہٹا کر اس نے اسے کرسی کی جانب اُچھال دیا۔جو سیدھا ٹارگٹ پہ گِرا۔۔۔
تم یہاں کیسے؟نتاشا کو خوف تھا۔پکڑے جانے کا رسوائی کا یا پھر کچھ اور۔۔۔
تم جو کام کرنے آئی ہو۔اس کو کروانے والا میں ہی ہوں۔سو جسٹ چیل۔۔۔اس کی مسکراہٹ میں بہت کچھ بدلا تھا۔وہ پہلے والا شخص نہیں تھا جسے وہ جانتی تھی۔
وہ مسکراتا کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا۔اور پھر جا کر واپس کرسی پہ بیٹھ گیا۔
تم میرےساتھ کیا گیم کھیل رہے ہو؟نتاشا کا غرور برادشت کر گیا کافی تھا۔اس نے اب کی بار رعب سے پوچھا۔تو سامنے بیٹھا شخص ایک دم سے قہقہہ لگا کر ہنسا۔
کھیل؟
نتاشا بی بی کھیل تو شروع آپ نے کیا تھا۔ہم تو اس کے معمولی مہرے ہیں۔ہماری کیا مجال تھی۔جو ملکہ کے خلاف بغاوت کرتے۔۔۔سامنے بیٹھا شخص عجیب لب و لہجے میں مخاطب تھا۔
مگر اندز اب بھی پیادہ والے نہیں ہیں۔۔۔ایک ابرو اُٹھاتی وہ کہتی اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
جی۔۔۔کیونکہ طاقت کسی ایک کو وراثت میں نہیں دی جاتی۔کبھی آپ کی کبھی ہماری یہی زندگی کا اصول ہے۔یہی یہاں چلتا ہے۔۔۔وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔چہرے پہ کوئی تاثر نہیں تھا۔سامنے کھڑے شخص نے ایک جھٹکے سے اپنی جگہ چھوڑی اور اس کا مقابل کھڑا ہو کر دائیں بائیں بازو رکھ کر اس کا رستہ روکا۔اور جب بولا۔تو لہجے میں تلخی۔۔۔اس لہجے اور اس محبت کی چاشنی سے نابلد تھی۔جس کی نتاشا عادی تھی۔وہ خوف سے پیچھے ہٹی۔
اب کی بار بازی میرے ہاتھ میں۔۔۔اور اس بار کھیل کا فیصلہ میں کروں گا۔اس کے لہجے میں کاٹ تھی۔نتاشا کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا۔۔
مبارک ہو نتاشا بی بی۔۔۔فیصلے کا دن آ گیا۔آپ کے لئے حشر کا دن سمجھیں آج ہی ہے۔وہ اپنی جگہ پہ کھڑا کہہ رہا تھا۔لہجہ مدھم سرگوشی کرتا تھا۔مگر محسوس کرو تو جیسے سرد و سخت۔۔۔چھو کر دیکھو تو لاوے کی طرح پکتا ۔۔۔پھٹنے کو بے تاب۔۔۔
ک۔۔۔کیا مطلب؟
ظلم کر کے بعد میں مطلب پوچھنے والے تم مجبوب صفت لوگوں کے بھی عجیب رنگ ہوتے ہیں۔ہر ادا پہ مات دیتے ہو۔ہرا دیتے ہو۔۔۔مارتے ہو تو عاشق کو تب بھی شکوہ کر نے کا دل نہیں چاہتا۔مگر جانتی ہو۔۔یہاں معملہ مختلف تھا۔
مجھے۔۔۔
مجھے ذریت حسن کو تو تم سے کبھی عشق تھا ہی نہیں۔۔۔
نہ میں اندھا ہوں آذر کی طرح نہ اس کی طرح دیوانہ۔۔۔
نہ۔۔۔نہ نتاشا بی بی نہ۔۔۔اس کھیل کو تم نے راکھیل بن کر پیش کیا تھا۔تم نے۔۔۔تم نے میرے دوست میرے بھائی۔کو اس کردار کی شکل دی۔۔۔ جو اس ساری کہانی میں سب سے مظلوم تھا۔۔۔تم نے اسے مار ڈالا۔تم نے اسے سرکس کا کھلاڑی سمجھ کر استعمال کیا۔اور آخر میں خود ہی انچائی سے دھکا دے کر مار دیا۔اس کے چہرے کا ایک ایک نقش نتاشا کو بلکتا روتا محسوس ہو رہا تھا۔
نتاشا کی آنکھیں خوف سے پھیلیں۔۔۔
تم۔۔آذر کے؟اس کے الفاظ آدھے مگر ذریت کے لئے مکمل تھے۔وہ اپنی جگہ سے ہٹا۔اور اثبات میں سر ہلایا۔
ہاں۔۔۔میں ۔۔۔اس کا بھائی ۔۔اس کا دوست تھا۔میں ہوں ذریت حسن۔۔۔۔جس کو آذر کی محبت سے شدید نفرت ہے۔وہ بول رہا تھا۔لفظ لفظ نتاشا کی شہ رگ کو کاٹ رہا تھا۔مگر لہجہ کمال دھیمہ۔
وہ آگے بڑھی۔۔۔
مزاق مت کرو۔۔۔تم مجھ سے محبت کرتےہو۔تم نہ جانے کتنی بار مجھ سے وعدہ کر چکے ہو۔وہ بے یقین تھی۔
وہ ہنسا۔۔۔ہاں۔کئے وعدے۔۔۔مگر صرف تمہیں یاد دلانے کے لئے۔کہ یاد رکھو۔کہ جب وعدے ٹوٹتے ہیں۔تو کتنی تکلیف پہنچتی ہے۔
ذر۔۔۔ذریت۔۔۔تم ۔۔۔تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔تم جانتے ہوناں مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔میں۔۔۔اس نے کہنے کے دوران ہاتھ اس کے چہرے کی جانب بڑھایا تھا۔وہ اس کے قریب آئی ۔۔۔آگے بھی۔اوراس نے بے دردی سے اس کے ہاتھ کو جھٹک دیا۔نتاشا کو بے اختیار آذر یاد آیا تھا۔جب اس نے نتاشا کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئےکہا تھا۔کہ نتاشا دل مت توڑو۔اللہ ناراض ہو گا۔تو نتاشا نے تب بہت غرور اور بے دردی سے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا۔یوں جیسے اس کے لئے عدالت کبھی نہ سجے گی۔
ظلموں کو اللہ کبھی نہیں چھوڑتا۔
نتاشا محبت کانام مت لو۔۔۔یہ تمہارے منہ پہ سجتی نہیں ہے۔تم ہی وہ قاتلہ ہو۔جس نے میرے بھائی کو مارا۔
یار اگر تم اسے نہیں چاہتی تھی۔تو کیوں تم نے اسے ورغلایا۔کیوں؟ تم نے اسے خواب دیکھائے
کیوں؟۔۔۔کیوں تم نے اسے محبت کے جال میں پھنسا کے مارا؟۔۔۔۔اس کی آنکھوں کی سرخی میں مزید شدت آئی۔وہ ایک دم دھاڑا۔نتاشا سہم کر پیچھے ہٹی۔
مگر اس نے خود۔۔۔خودکشی کی تھی ذریت۔۔۔میں نے اسے نہیں مارا۔لفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہوئے۔
اپنی بکواس بند کرو۔۔۔وہ چیخا۔۔۔
تم۔۔۔تم دو ٹکے کی لڑکی تمہاری اوقات تھی۔اس جیسے معصوم کی محبت کی۔۔۔تم۔۔۔تم کہتی ہو۔اس نے خودکشی کی۔۔۔
تم۔۔۔۔جانتی تھی۔وہ زہر پی رہا ہے۔اس نے جب تمہیں فون کر کے کہا تھا۔کہ نتاشا ایک بار کہہ دو کہ میں آذر تم سے محبت کرتی ہوں۔میں نے جو بھی کنسرٹ پہ تم سے کہا۔اپنے دوستوں کے سامنے کہا۔سب مزاق تھا۔تو تم نے پتہ ہے آگے سے کیا کہا تھا۔وہ اسے یاد دلا رہا تھا۔اور نتاشا کب بھولی تھا۔اسے ہی تو حرف بہ حرف تمام الفاظ یاد تھے۔مگر وہ پھر بھی کہہ رہا تھا۔
تم نے اس سے کہا تھا۔محبت کا ثبوت دو۔ثابت کرو کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔زہر پی کر اپنی محبت کی گواہی دو۔۔۔
تم نے ۔۔۔تم نے اس سے اس کی زندگی کی گواہی مانگی نتاشا۔تم نے اس کی محبت کا مزاق اُڑایا۔۔۔اس کی آنکھ سے آنسو نکلا۔اور گال پہ بیہہ گیا۔نتاشا نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
نہیں۔۔۔نہیں ذریت۔۔۔میں نے آذر کو نہیں مارا۔وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔جس سٹیج سے آذر گُزرا تھا۔اس سٹیج پہ وہ کھڑی تھی۔وہ ذریت حسن کو اپنی زندگی کا مقصد تصور کرتی تھی۔وہ آگے بڑھی۔۔۔ذریت پیچھے ہٹا۔
محبت اور نتاشا دو الگ الگ چیزیں ہیں نتاشا۔تم سے ذریت حسن نے کبھی محبت کی اور نہ کبھی کرے گا۔وہ کہہ رہا تھا۔اور نتاشا کی ٹانگوں سے جیسے جان نکلتی جا رہی تھی۔
نہیں ذریت۔۔۔تمہیں اللہ کا واسطہ ہے۔مجھ سے جھوٹ مت بولو۔وہ روئی۔اس کی آنکھ سے پہلا آنسو نکل کر اس کی گال پہ پھسلتا۔گرد آلود مٹی پہ گِرا۔اور ساتھ ہی وہ خودبھی بھر بھری مٹی کی مانند زمین پہ آتی رہی۔
مجھ سے محبت نہ کرنے کا جھوٹ۔۔۔وہ کہہ رہی تھی۔
مت بولو۔۔۔۔
تم جانتی ہو۔جس کی تم نے جان لی۔مجھے اس شخص سے عشق تھا۔مجھے آذر سے محبت تھی۔بےتحاشا محبت۔۔۔جس وقت وہ مر رہا تھا۔پتہ ہے۔اس نے کیا کہا تھا۔وہ پشت کی جانب چلتے چلتے رکا۔اور زمین پہ بیٹھ کر گرد آلود زمین پہ چند لکیریں کھینچیں۔
کہتا رہا۔۔۔ذریت محبت ہمیشہ کہ لئے امر ہونے جا رہی ہے۔اسے میری زندگی میں ہوتے ہوئے۔میری محبت پہ یقین نہیں ہے۔تو میں اسے مر کر ثبوت دوں گا۔کہ آذر کی محبت سے بڑھ کر نتاشا کے لئے دنیا کی اور کوئی محبت نہیں ہو سکتی۔دنیا کے کسی شخص نے اس سے اس طرح محبت نہیں کی ہوگی۔جس۔۔۔جس طرح میں نے اسے چاہا۔دوسرا آنسو بھی نکلا۔اور گرد میں جزب ہو گیا۔نتاشا کے رونے میں مزید شدت آئی۔
ذریت پلیز۔۔۔پلیز ذریت مجھے معاف کر دو۔میں نہیں جانتی تھی۔کہ آذر سچ میں خودکشی۔۔۔۔
خودکشی نہیں کی تھی اس نے۔مت ۔۔۔مت کہو بار بار۔اس کی بات کاٹ کر ایک دم وہ دھاڑا۔تو وہ اپنے الفاظ چھوڑ کر پھپھک کر رو دی۔میں نے اسے نہیں مارا۔وہ بھی بےجان سی چیخی۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
میں نے ضیاء سے ڈیل کر کے تمہیں یہاں بلوایا تھا۔وہ جیسے سُن ہی نہیں رہا تھا۔وہ آج اسے سنانے آیا تھا۔
تم آذر کی موت کی ذمہ دار ہو میں جانتا ہو۔قانون نہیں۔مگر تم منشیات فرشی میں شامل ہو۔پولیس جانتی ہے۔فیصلہ اب قانون کر ے گا۔ذریت حسن نے اپنے دوست کا بدلہ لے لیا۔کہہ کر وہ وہاں رکا نہیں۔تھا۔اس کے الفاظ کی بازگشت نتاشا کو سن رہی تھی۔مگر وہ نتاشا کی محبت کو ٹھوکر مار کرجا چکا تھا۔
۔۔نتاشا کی چیخیں اس کا گڑگڑانا کچھ اس کو نہ روک سکا تھا۔اسے اس عورت سے نفرت تھی بے تحاشا نفرت۔
نتاشا کا سانس یہ سوچ کر ہی بند ہو رہا تھا۔کہ جس شخص کی محبت کو اس نے سر کا تاج بنایا۔وہی اسے ڈھونگی اور دغا باز کہہ گیا تھا۔وہ اس کے لئے چین اور رامش کو چھوڑ آئی تھی۔اس نے شخص کو اپنی زندگی میں جو مقام دیا تھا۔اس سے ذریت حسن کو برخاست کرنا ناممکن تھا۔وہ بلند آواز روتی رہی۔۔۔اور روتی چلی گئ۔اس کی زندگی کا انجام یہ ہوگا اس نے سوچا بھی نہ تھا۔وہ زمین پہ گھوٹنوں کو زمین پہ رکھے جھکی اور چیختی رہی۔اس کے آنسو۔۔۔۔اس کی پلکوں سے گرتے زمین پہ پڑ رہے تھے اور تبھی اسے آذر کی آواز سُنائی دی۔
نتاشادل مت توڑو۔۔۔وہ رو رہا تھا۔ہاں اس روز اس کا لہجہ بھیگا ہوا تھا۔وہ۔۔۔۔
وہ کہہ رہا تھا ۔نتاشا دل مت توڑو اللہ ناراض ہو گا۔نتاشا کے آنسو میں سیلاب کا سا جوش تھا۔مگر وہ آنسو اس تکلیف کو بھی بیان کرنے سے قاصر تھے جو اس وقت وہ محسوس کر رہی تھی۔
اس نے پھر سُنا۔۔۔وہ کہہ رہا تھا۔
نتاشا۔۔۔مجھ سے کہہ دو۔۔۔کہہ دو۔کہ آذر جو بھی میں نے کہا سب جھوٹ تھا۔نتاشا تمہیں اللہ کا واسطہ میرے دل کو میری محبت کو رد مت کرو۔میرا زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔وہ گڑگڑا رہا تھا۔نتاشا ایک دم چیخی۔۔۔کمرے کی دیواریں۔کان لپیٹ چکی تھیں۔ظالموں کا انجام بُرا ہی ہوتا ہے۔
نتاشا دل مت توڑو اللہ ناراض ہو گا۔وہ ایک بار پھر سے کہہ رہا تھا۔اور نتاشا رو رہی تھی۔زمین پہ اپنا سر مار رہی تھی۔اور کہہ رہی تھی۔ذریت واپس آ جاءو۔نتاشا مر جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم گھر آ رہی ہو ۔یا میں خود لینے آءوں۔وہ کمرے میں کھڑی بال برش کر رہی تھی۔ساتھ فون کان سے لگا تھا۔ابرار بھائی اور بابر آفس جا چکے تھے۔اور وہ ابھی ابھی برتن دھو کر کمرے میں آئی تھی۔جب ذریت کی دوبارہ کال آئی۔
رات ملازم نے اسے ذریت کا پیغام دے دیا تھا۔مگراس کے انتظار کر نے باوجود بعد میں اس نے کال نہیں کی تھی۔اور اب صبح کر رہا تھا۔
آپ کو آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔بال کھول کر سر کو سہلاتے اس نے کہا تھا۔
وجہ؟آفس کی کرسی پہ بیٹھے ذریت کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے۔اور لہجہ خشک ہوا۔
وجہ آپ جانتے ہیں۔اس نے سنجیدگی سے کہا۔تو وہ افسوس سے سر ہلا کر رہ گیا۔
تم عورتوں کے دماغ سچ میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔۔۔یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی۔کہ تم میرے آنے کا انتظار کئے بغیر ۔۔۔مجھ سے بات کئے بغیر اپنے بھائی کے ہاں پہنچ گئ۔
ہاں۔۔۔آپ کے لئے تو ظاہر ہے غیر اہم ہی ہو گی۔پر میرے لئے بہت اہم تھی۔مجھے اندازہ ہو گیا ہے۔کہ آپ کی زندگی میں میری کیا حیثیت ہے۔اس نے منہ بنا کر کہا۔تو ذریت کے ہونٹ بے ساختہ مسکرائے۔
اچھا کیسے۔۔۔ایک اداکارہ کی وجہ سے۔۔۔؟
واہ کیا بات ہے آپ کی ذہانت کی۔۔۔وہ محظوظ ہوا۔ماہ نور کو بُرا لگا۔
میں نے آپ سے بس مزیز بات نہیں کرنی۔آپ کو لگتا ہے۔کہ میں بے وقوف یوں۔ایک فضول سی بات پہ اپنے بھائی کے گھر آ گئ ۔تو پھر ایسے ہی صحیح۔
اللہ حافظ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا۔وہ فون کھٹاک سے رکھ چکی تھی۔
ذریت نے بہت ناگواری سے فون کی سکرین کو دیکھا۔اور پھر سامنے کار کی چابی دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
جب تک عورتوں کی عقل ٹھیکانے پہ نا لگائی جائے۔یہ ایسے ہی مردوں کو پاگل بناتی رہتی ہیں۔بڑ بڑا کر اس نے آفس کا دروازہ دھکیلا اور سیکٹری کو چند ہدایات دے کر باہرنکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور نے بال برش کر کے ان کو چوٹی میں مقید کیا۔اور پھر کھڑکی سے چھن کر آتی دھوپ دیکھ کر کمرے سے نکل کر لان میں آ گئ۔
لان میں آ کر اس نے پودوں کی صفائی ستھرائی کے کام کا بیڑا اُٹھایا۔اور پھر اس میں جُت گئ۔ساتھ ہی ساتھ دل ہی دل میں نتاشا اور ذریت کو خوب کوسنے بھی دے رہی تھی۔
ہم عورتیں جاہل ہوتی ہیں۔تو مردوں نے بھی کم ظرف ہونے میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔
کیا تھا اللہ میاں۔۔۔کوئی اچھا۔۔۔رومینٹک سا شوہر مل جاتا تو۔اب دیکھیں۔۔۔ذریت کو پتہ بھی ہے۔کہ میں ناراض ہوں۔مجال ہے۔جو ایک بار کان پکڑ کر سوری بول دیں۔یا کہہ دیں۔کہ ماہ نور سوری۔۔۔
کیا تھا۔جو کہہ دیتے کہ ماہ نور میری زندگی میں تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔کہو تو ناک سے لکیریں کھینچ کر یقین دلا دوں۔بڑبڑاہٹ عروج پہ تھی۔اس نے آخر میں سر جھٹک کر کیاری میں اکھٹی کی گھاس اور جلے ہوئے پتے اکھٹے کئے اور اُٹھا کرپھر انہیں کچھ فاصلے پہ نسب کوڑے دان میں ڈال دیا۔
میں نے کونسا۔کہہ دینا تھا۔کہ ناک سے ہی لکیریں کھینچیں۔۔۔بس مرودوں کو محض اپنی انا کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔سوچ سوچ کر ہی اس کا دل جل رہا تھا۔
کیسے اس لڑکی کے ساتھ پوز دے دے کر تصویریں بنائی تھیں۔اور ایک میں ہوں۔جس کے ساتھ کبھی ایک بھی تصویر نہیں بنائی۔اس کا من مزید افسردہ ہوا۔
میں نے تم سے کہا تھا۔تیار رہنا میں لینے آ رہا ہوں۔اور تم کس کام کو لگ گئی ہو۔اپنی شرٹ کی آستین فولڈ کرتے ذریت نے اس کی بڑبڑاہٹ سُن کر بھی اگنور کرتے ہوئے کہا۔تو ماہ نور کی زبان جو شاندار گل افشانی کرنے والی تھی۔وہ ڈر کر مُڑی۔اور پھر ذریت کو دیکھ کر منہ بھی بگاڑا۔۔۔
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟دائیں کندھے پہ جھولتی چوٹی کو پشت پہ ڈالتے اس نے ناگواری سے پوچھا۔تو وہ جو اس کے مٹی سے اٹے ہاتھ دیکھ کر،اس کا عجیب سا حولیہ دیکھ کر محظوظ ہوا تھا ۔اسے گھور کر دیکھنے لگا۔وہ اپنی کار باہر چھوڑ آیا تھا۔
میں نے تم سے کہا تھا ۔کہ تیار رہنا میں لینے آ رہا ہوں۔اور تم مجھے یہاں کھڑے ہو کر بد دعائیں دے رہی ہو۔
اللہ۔۔۔توبہ بد دعا کب دی۔اس الزام پہ تو اس کا منہ ہی کھل گیا تھا۔
اچھا تعریف بھی نہیں کر رہی تھی۔اس کی طرف ایک نظر دیکھ کر اس نے ایک بار مُڑ کر گیٹ کی جانب گارڈ کو دیکھا۔جو ان کی جانب پشت کئے کھڑا تھا۔اور پھر جھک کر ماہ نور کے چھوڑے ہوئے کام کو کرنے لگا۔ماہ نور نے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کی تھی۔
یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔اسے کیاری کی مٹی صاف کرتے دیکھ کر ماہ نور نے اچھنبے سے کہا تھا۔
جاءو مجھے وہ کٹر لا کر دو۔اس پودے کی صفائی ہونے والی ہے۔اس کی بات کا جواب دئے بغیر اس نے کہا۔تو ماہ نورنے کچھ فاصلے پہ پڑے کٹر کو دیکھ کر ایک نظر دوبار مُڑ کر اسے دیکھا۔اور پھر جا کے لے آئی۔
ذریت میں آپ سے کچھ پوچھ رہی ہوں۔پتے دوبارہ سے اُٹھاتے اس نے چھوڑا سوال دوبارہ پوچھا۔تو وہ جو اپنے کام میں مصروف تھا۔ایسے لگتا تھا۔جیسے اس کا کام ہی یہ ہو۔
کوئی ڈھنگ کا سوال پوچھو۔۔۔جواب نہ ملے تو کان پکڑوا لینا۔مسکراہٹ روک کر اس نے کہا۔تو ماہ نور نے ناک چڑھائی۔
کسی کی باتیں نہیں سُنتے۔۔۔اخلاق سے گری حرکت ہوتی ہے۔۔۔
کسی کی نہیں سنی تمہاری سنی ہے۔۔۔
آج خاصی فراغت معلوم ہوتی ہے۔
ظاہر ہے۔۔۔تبھی تو بیٹھا ہوں۔۔۔پتے کاٹ کاٹ کر پودے کی صفائی کر تے اس نے کہا۔تو ماہ نور نے اس کے پاس پڑے پتے بھی اُٹھا لئے۔
میرے پودوں کی شکل تباہ مت کریں۔۔۔۔پودے کے مزیز پتے کٹتے دیکھ کر اس نے ٹوکا۔تو وہ تو جیسے بعض آنے والا تھا۔
بگاڑ نہیں رہا سنوار رہا ہوں۔۔۔خیر۔۔۔
تم بتاءو۔۔۔تم گھر کیوں چھوڑ کر آئی ؟
ذریت آپ بار بار مجھ سے ایک ایسی بات پوچھ رہے ہیں۔جس کا جواب آپ خود جانتے ہیں۔اس نے چڑھ کر کہا۔تو وہ جو دوزانوں ہو کر قمیض کے بازو فولڈ کئے۔اپنے اہم کام چھوڑ کر کیاری صاف کر رہا تھا۔محض اسے یہ یقین دلانے کے لئے ۔کہ وہ اس کی زندگی میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔رُکا۔۔۔۔اور آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔۔
ماہ نور وہ لڑکی آذر کی قاتلہ ہے۔تم جانتی ہو۔۔۔میں آزر سے کتنا اٹیچ تھا۔تو تم مجھے بتاءوکہ کیا۔۔میں ایک ایسے انسان کے ساتھ دلی طور پہ وابستہ ہو سکتا ہوں۔جس کے بارے میں مَیں جانتا ہوں۔کہ میرے بھائی کی قاتلہ ہے؟وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔ماہ نور خاموشی سے اس کے برابر آ بیٹھی۔اور مٹی صاف کرنے لگی۔
ذریت آپ کو میں غلط نہیں سمجھ رہی تھی۔۔۔وہ کہہ رہی تھی۔میں نے آپ کی اور اکمل بھائی کی باتیں سُن لی تھیں۔ذریت چونکا۔
میں جانتی تھی۔کہ وہ لڑکی آذر بھائی کی قاتلہ ہے۔پر میں ہرٹ اس بات پہ ہوئی تھی۔کہ آپ کو مجھ پہ بھروسہ ہی نہیں ہو سکا۔میری خواہش تھی۔کہ آپ اپنی تمام تر تکالیف مجھ سے شئیر کرتے۔پر۔۔۔آپ۔۔۔اس کے لہجے میں افسوس تھا۔ذریت نے اس کے مٹی میں حرکت کرتے ہاتھ پکڑے۔۔۔اور آہستہ سے پشت پہ بوسہ لیا۔ماہ نور نے خائف ہو کر دیکھا۔اور ہاتھ کھینچا۔مگر اس نے گرفت مضبوط کر لی۔
ماہ نور۔۔۔اگر میں تم سے اپنی تکلیف شئیر نہیں کر رہا تھا۔تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا۔کہ مجھے تم پہ بھروسہ نہیں تھا۔میں بس تمہیں ٹینشن نہیں دینا چاہتا تھا۔مجھے لگا تھا۔وہ چین چلی جائے گی۔تو سب ٹھیک ہو جائے گی۔پر وہ واپس آ گئ۔اور یہ سب ہو گیا۔۔۔اس کے ہاتھ کہ نرم غلابی غلابی مٹی سے اٹی ہتھیلی پہ انگلی سے لکیریں کھینچتے اس نے کہا۔۔۔بلکہ سمجھایا۔تو ماہ نور نے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔اور پتے اکٹھے کرنے لگی۔
آپکو اس لڑکی کی وجہ سے عورتوں سے نفرت ہوئی تھی ناں؟اس نے پوچھا۔تو اس نے جواب میں سر ہلا دیا۔
ذریت ۔۔۔آپ جانتے ہیں۔معاشرے میں جب بُرے لوگوں کی بات کی جاتی ہے ناں۔۔۔تب اُن لوگوں میں عورت اور مرد دونوں شامل ہوتے ہیں۔اگر کہا جائے کہ صرف عورت بُری ہے۔یا صرف وہی نفرت کے قابل ہے۔تو غلط ہو گا۔۔۔
میری دوست نے در در ٹھوکریں کھائیں۔اس کی وجہ بھی مرد تھے۔اس کے خاندان کے مرد،معاشرے کے کچھ بُرے لوگ۔۔۔اس نے بہت تکلیفیں برداشت کیں۔میں اس کی حالت کی گواہ ہوں۔انتہائی معصوم تھی وہ۔مگر اس کی معصومیت نے ہی اسے بے گھر کیا۔میرے لئے بھی وہ بہن ہی ہے۔مگر اس کی حالت دیکھ کر میں اللہ کا شکر ادا کرتی تھی۔کہ مجھے ایک اچھے انسان کا ساتھ ملا۔اچھے بھائی۔۔اور اعتبار کرنے والے والدین ملے۔۔۔میرے ذہن میں لمحے کو نہیں آیا۔کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔تو آپ نے مجھے کیوں ایسا سمجھا۔۔۔۔آج وہ معاف کرنے کے موڈ میں نہیں لگ رہی تھی۔ذریت اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔
تم ٹھہری عقل مند عورت۔۔ اور میں جلد باز اور ناک پہ غصہ رکھنے والا۔انا پرست مرد۔۔۔ہونٹوں پہ اُمڈتی مسکراہٹ روکتے اس نے کہا۔ توماہ نور جو اب پودے کی شاخوں کودھاگے سے باندھ رہی تھی۔ایک ابرو اُٹھا کر اسے دیکھا۔چلو شکر آپ مانے تو سہی۔
اچھا اب تم بھی مان جاءو۔تمہارے ساتھ کام کروایا۔۔۔تمہارے پودے ٹھیک کئے۔۔۔کیاری بھی ٹھیک کر دی۔اب تو مان جاءو۔
اب کیا سچ میں ناک سے لکیریں کھینچواءو گی۔بیچاری سی شکل بنا کر اس نے کہا۔تو ماہ نور بےساختہ ہنس دی۔
آپ بہت خراب ہو۔آپ نے میری ساری باتیں سُن لی تھیں۔۔۔
ظاہر ہے۔۔۔جتنی آواز تمہاری تھی۔کوئی بھی تمہاری لفاظی سے محظوظ ہو سکتا تھا۔خیر۔۔۔اب صُلح؟اس کو ہنستا دیکھ کر ذریت ہلکا پھلکا ہو گیا تھا۔
ہاں۔۔۔لیکن ایک شرط پہ؟
ابھی بھی کوئی شرط پڑی ہے؟تم زیادہ ہی سر پہ سوار ہو رہی ہو۔۔۔
تو؟ اپنے میاں جی سے بول رہی ہوں۔اب کیا آپ میری چھوٹی سی خواہشیں بھی پوری نہیں کریں گی۔کمال کا نداز تھا۔ذریت محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔اس کا سادھا مگر دلکش انداز ذریت حسن کے لئے نیا مگر انوکھا تھا۔
پہلی شرط یہ ہے۔کہ چائے پی کر آپ کو گھر جانے دیا جائے گا۔رات کا کھانا آپ میرے ہاتھ سے بنا کھا کر جانا چاہیں تو آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ۔تمام کھانے آپ کی پسند کے بنائے جائیں گے۔ذریت نے اسے گھورا تھا۔ماہ نور مسکراتی رہی۔
دوسری شرط یہ کہ۔میں اب ابرار بھائی کی شادی کے بعد ہی آءوں گی۔کیونکہ۔۔۔میں بات کر چکی ہوں۔اور اللہ پاک نے چاہا تو کچھ دنوں میں ہم ان کی شادی کی ڈیٹ فیکس کر دیں گے۔اس نے بہت مزے سے بتایا ۔تو ذریت کو مان کے ہی بنی۔
تم گھر آءو۔تمہارے سارے پر کاٹتا ہوں۔گھر کی جانب جاتے اس نےبڑبڑا کر کہا۔تو ماہ نور ہنستی چلی گئی تھی۔
اب اندر آ کر ہنس لو۔۔۔مجھے جانا ہے۔جلدی سے ایک کپ چائے بنا دو۔وہ کبھی بھی نارمل مردو کی طرح ایکٹ نہیں کرتا تھا۔کوشش بھی کرتا ۔تو مزاج سخت ہی رہتا۔خواہ انداز پیار لئے ہی ہوتا۔ماہ نور نے افسوس سے اسے دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرح نے چائے کے تین کپ ٹرے میں ترتیب سے رکھے۔شیلف سے بسکٹوں کی پلیٹ اُٹھا کر ابھی اس نے رکھی ہی تھی۔جب لاءونج کا فون بجا۔۔۔
اس وقت وہی تھی۔جو وہاں موجود تھی۔ملازمہ باہر لان میں امی جی کے پاءوں کی ورزش کروا رہی تھی۔بابا کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔وہ آج گھر پہ ہی تھے۔اس نے ایک نظر ساری ٹرے کی سیٹنگ کو دیکھا۔اور کیچن سے نکل کر فون سٹنڈ کی جانب آ گئ۔
بجتے فون کو اس نے ایک سانس لے کر اُٹھایا۔
اسلام علیکم۔۔۔بردبار انداز دوسری جانب بیٹھا ابرار مسکرایا۔اور آنکھوں پہ لگا۔چشمہ درست کیا۔
وعلیکم اسلام ۔۔۔اس نے بظاہر لہجے کو نارمل رکھا تھا۔مگر اندر سے وہ کتنا پر جوش اور خوش تھا۔وہی جانتا تھا۔
ابرار کی آواز سُن کر فرح کے دل کی دھڑکن کی ایک بیٹ مِس ہوئی۔۔۔دل سکڑ کر پھولا۔۔۔اس نے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔۔۔گویا نروس ہوئی۔
میرے خیال میں آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔۔۔اس کی خاموشی پا کر اسے یہی لگا تھا۔
نہ ۔۔۔۔نہیں۔۔۔میں تو سوچ رہی تھی۔کہ آپ نے مجھے کیونکر کال کر لی۔اس نے صاف گوئی اختیار کی۔تو ابرار مسکرا دیا۔
وہی بیان کروں گا۔اگر آپ وقت اور اجازت دیں تو۔
جی۔بولیں۔۔۔
آپ اس رشتے پہ راضی ہیں؟میرا مطلب ہے۔ماہ نور کی وجہ سے یا اپنے۔گھر والوں کی وجہ سے تو آپ ہاں نہیں بول رہیں۔؟اس نے جو سوال پوچھا تھا۔اس نے فرح کو حیران کر دیاتھا۔وہ ہونٹ کاٹنے لگی۔وہ تو جانتی ہی نہیں تھی۔کسی رشتے کے بارے میں۔
بابا نے آپ کو جواب دے دیا؟اس نے عجیب سا سوال پوچھا تھا۔
جی ہاں۔۔۔لیکن میری خواہش تھی۔کہ آپ مطمئن ہو جائیں۔وہ ابرار تھا۔اس کی فکر کرنے والا۔کیسے اس کی خوشی کا خیال نہ رکھتا۔
فرح کی آنکھیں نم ہوئیں۔
میری چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔اللہ حافظ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا۔وہ فون رکھ چکی تھی۔اسے شدید حیرت ہوئی ۔ماہ نور نے کب بات کی۔اور بابا کیا مجھ سے پوچھے بغیر ہی مان گئے۔اس حیرت پہ حیرت تھی۔اور اسی حیرت میں گھری وہ چائے تک واپس آئی۔اور ٹرے لئے باہر کی جانب چل دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرح آپ کا اگلے ہفتے ہم نے نکاح طے کر دیا ہے۔چائے کا گھونٹ لیتے بابا نے کہا تھا۔فرح جو امی جی کو چائے پکڑا رہی تھی۔اس کا ہاتھ کامپا۔۔۔۔
با۔۔۔۔
آپ کو عتراض ہے۔۔۔؟وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔مگر ان کے ٹوک کر پوچھنے پہ اس نے سر نفی میں ہلا دیا۔اس نے پوچھا نہیں کس سے۔
پوچھیں گی نہیں کس سے؟
بابا آپ پہ مجھے بھروسہ ہے۔آپ مجھے اب کنویں میں چھلانگ لگانے کو بھی کہیں گے تو یقین جانے سوال نہیں کروں گی۔یہ تو پھر نکاح ہے۔اس نے ہاتھ کی ہتھیلی دیکھتے کہا۔تو امی جی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
مجھے افسوس ہے۔کہ میں اپنی بیٹی کے اس حال کی ذمہ دار خود ہوں۔ان کے لہجے میں گہری شرمندگی تھی۔فرح نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے۔
نہیں امی جی۔۔۔۔مجھے آپ سے کوئی شکائت نہیں۔بلکہ میں شرمندہ ہوں۔میں ہی اچھی نہ تھی۔اس کی آنکھیں مزید نم ہو گئیں۔بڑی بیگم نے اس کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا۔
بیٹا آپ کل شاپنگ کر لیں۔بوا۔۔۔آپ بھی فرح کے ساتھ چلی جائیں۔دو تین دن میں بیگم کا پلاسٹر کھل جائے گا۔تو آسانی ہو جائے گی۔اُنہوں نے تو سب ترتیب سے سیٹ کر چھوڑا تھا۔فرح نے اثبات میں سر ہلایا تو ملازمہ کی کیا جرت تھی جو انکار کرتی۔
مسائل ہماری زندگیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔آتے ہی رہتے ہیں۔کبھی بھی کچھ بھی ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا۔خوشی اور نہ غم۔۔۔سب آتے ہی جانے کے لئے ہیں۔اگر یہ لکھوں کے اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے خوش رہنے لگی۔تو غلط ہوگا۔وہ انسان تھی۔زندگی گُزار رہی تھی۔خوشی اور غم کا سلسلہ اس کی زندگی میں بھی مسلسل تھا۔ہاں پر اب لوگ اس کا خاندان اس پہ عتماد کر رہے تھے۔اس کی زندگی میں آسانیاں آ رہی تھیں۔ایک اچھے انسان کا ساتھ مل رہا تھا۔یہ تھا جو زندگی رہنے تک مستقل تھا۔
فرح نے خاموشی سے کپ اُٹھایا اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ لینے لگی۔اس کی نظر ان سے کچھ فاصلے پہ دانا چُگتی چڑیا پہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھانے میں معمول کی گہما گہمی تھی۔بھانت بھانت کی آوازیں۔شور اور سلاخوں کے پار نیم تاریکی۔۔۔۔
اس نے تھانے کے اندر قدم رکھا۔تو اسے محسوس ہوا جیسے اس کے قدم ایک دم سے من من بھاری ہو گئے ہوں۔اور چلنا محال ہو۔مگر وہ پھر بھی چلتا رہا۔۔۔
زمان؟تھاندار صاحب دفتر میں ہی ہیں۔؟سامنے سے آتے جوان سے اس نے پوچھا ۔
ہاں جی۔۔۔اندر ہی ہیں۔۔۔اس کے مثبت جواب پہ اسفند ایک کمرے کا دروازہ دھکیلتا اندر غائب ہو گیا۔
پیلی دیواریں۔۔۔۔معمولی سا فرنیچر اور ڈھیر فائلیں لئے الماری۔۔۔
تقی مصروف ہو؟اس نے اندر آتے ہوئے پوچھا۔تو اٹھائیس کو جاتا نوجوان تقی جو کسی فائل کی ورق گردانی میں مَیں مصروف تھا۔اس کی آواز سن کر سیدھا ہوا۔
آءو اسفند۔۔۔۔خیریت؟
تم تو آج کل عادی مجرموں کی طرح روز تھانے حاضری دے رہے ہو۔۔۔سر سے ٹوپی اُتارکر میز پہ رکھتے اور بالوں پہ ہاتھ پھیرتے اس نے پوچھا۔تو اسفند مسکرا دیا۔
ایک جان پہچان کا مجرم ہے۔جسے آپ نے قید کر رکھا ہے۔بس روز اسی کو دیکھنے آتا ہوں۔کہ زندہ ہے۔یا ۔۔۔۔آخر سے فقرہ چھوڑ دیا۔۔۔وہ اس کے لئے کبھی غلط الفاظ استعمال نہیں کر سکتا تھا۔
ابھی تو کیس چل رہا ہے۔اتنی جلدی اُنہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔تم روز مت آیا کرو۔خامخواہ شور مچا کر سارے تھانے کا ماحول بگاڑتی ہیں۔تقی کے چہرے پہ ناگواری کے تاثر تھے۔اسفند افسردگی سے مسکرایا۔مجھے کیوں ان لوگوں میں شامل کرنا چاہتے ہو۔جن کی محبت بھی مطلبی ہوتی ہے۔۔۔
محبت تم بڑے لوگوں کا کام ہے۔سو سمجھ بھی تمہی کو ہے۔۔۔۔اس نے ہاتھ اُٹھائے تو اسفند اُٹھ کھڑا ہوا۔
کوئی بات نہیں تم بھی سمجھ جاءو گے۔۔۔میں ذرا مل لوں۔وہ جس کام سے آیا تھا۔وہ اس کے لئے اہم تھا۔تقی کے سر ہلانے پہ باہر کی جانب بڑھا۔
تقی نے بڑے افسوس سے اس کی پشت کو دیکھا تھا۔وہ اس کا دس سال پرانا دوست تھا
اس کی رگ رگ سے واقفیت رکھتا تھا۔وہ جانتا تھا۔اس کے لئے مووآن کرنا مشکل تھا۔
سلاخوں کے پیچھے وہ سر جھکائے سیلن زدہ دیوار سے پشت ٹکائے اونگ رہی تھی۔اس کے دونوں ہاتھوں کے ناخن بڑھے ہوئے گندے اور بال میلے اور بدبودار تھے۔اس کا چہرہ جو صبح شام میک اَپ میں اٹا رہتا تھا۔آج گرد سے اٹا تھا۔چند دنوں میں ہی اس کی خوبصورت آنکھوں تلے بڑے بڑے سیاہ دائرے بن چکے تھے۔اس کے چہرے کی ہڈی کچھ اُبھری ہوئی تھی۔اور ہونٹ خشک تھے۔جیسے صحرا کا سفر طے کر آئی ہو۔
نتاشا۔۔۔۔اسفند سے اس کی حالت پوشیدہ نہیں تھی۔وہ روز اس کو ایسے ہی دیکھتا تھا۔
نتاشا نے جھکے سر کو جھٹکے سے اُٹھا کر سامنے سیاہ کھدر کے شلوار سوٹ میں ملبوس صوبر سے اسفند اکرام کو دیکھا۔اور چند لمحے دیکھتی رہی ۔
تم روز کیا دیکھنے آتے ہو؟اس کے لہجے میں آج غرور کی بجائے صرف سختی تھی۔
یہی کہ تم زندہ ہو۔۔۔
میرے زندہ رہنے یا نہ رہنے سے تمہیں کیا فرق پڑے گا۔مجھے بھی نہیں پڑا اس کے رہنے سے۔۔۔۔اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے عجیب سے لہجے میں کہا۔تو اسفند کے دل کو تکلیف ہوئی۔
نتاشا تم اتنی ظالم نہ ہوتی ۔تو میں اپنے پہ کئے تمام گناہ و ظلم معاف کر کے تمہیں یہاں سے باہر نکلوا دیتا۔مگر تم جانتی ہو۔ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہی ہوتا ہے۔
اسفند کی بات سن کر اس کے چہرے پہ مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
اور تمہیں لگتا ہے۔کہ میں تم سے احسان لیتی۔۔۔ایک ابرو اُٹھا کر پوچھا۔اسفند اس کی خود عتمادی اور غرور دیکھ کر حیران نہیں ہوا تھا۔وہ عادی تھا۔
جاءو۔مجھے تم سے بات نہیں کرنی۔آج میں نے جس کو خواب میں دیکھا ہے۔مجھے صرف اس کا انتظار ہے۔اس نے اس سے نظریں ایک دم پھیر کر کہا۔تو اسفند اُلجھا۔
نتاشا تم نے ضیاء کے خلاف بیان ریکارڈ کروا دیا۔تو تم یہاں سے جلد نکل جاءو گی۔تم کو سزا ہوگی بھی تو زیادہ لمبی نہیں ہوگی۔۔۔اس کا انداز دیکھ کر اس نے اگنور کرتے ہوئے کہا۔تو نتاشا کا چہرہ تعش سے سرخ ہونے لگا۔اسے جیسے اپنی توہین محسوس کوئی۔۔۔
میں کہہ رہی ہوں یہاں سے جاءو۔وہ دھاڑی۔۔۔اسفند نے ہونٹ بھینچ لئے۔
جا تا ہوں۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔کہہ کر اس کے چہرہ موڑ لینے پہ اسے وہ وہاں چند لمحے دیکھتا رہا۔اور پھر واپس مُڑ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت اور حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ان کا بدلنا فطری عمل ہے۔زندگی میں خوشیاں اگر ایک وقت ہیں تو ممکن ہے۔کہ کل دکھ کا سامنا کرنا پڑے۔دلیر اور اللہ پہ یقین رکھنے والے چاہے خوش ہوں یا غمگین ہر صورت میں مضبوط رہتے ہیں۔اور اللہ پاک سے طاقت مانگتے ہیں۔
ان کا حال اس کھجور کے مضوط درخت سا ہوتا ہے۔جو شدید سیلاب میں بھی کھڑا رہتا ہے۔طوفان آئے آندھی آئے کوئی چیز اس کی جڑوں کو کمزور نہیں کر سکتی۔
میں آخر میں یہ نہیں لکھوں گی ۔کہ پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ان کی زندگیوں سے مسائل بالکل ختم ہو گئے۔نہیں۔۔۔۔
مسائل تھے۔۔۔خوشیوں کے ساتھ غم بھی تھے۔مگر اس بار ان سے مقابلے کے لئے کسی ایک کو قربان نہیں ہونا تھا۔وہ سب ساتھ تھے۔اتحاد میں ہی تو طاقت ہے۔
فرح اور ابرار کا نکاح جمعے کے روز سوات میں فرح کے آبائی گاءوں میں۔۔۔۔بہت سادگی سے مگر خوب خوشی کے ساتھ انجام پایا۔۔۔نکاح کے خوبصورت تعلق نے لمحوں میں زندگی کا رخ بدل ڈالا تھا۔
ماہ نور اور بابر سوات پہلے نکاح سے ایک روز پہنچ گئے تھے۔ان کو حویلی کا بلائی حصہ رہائش کے لئے دے دیا گیا تھا۔جہاں انہیں تین روز تک قیام کرنا تھا۔
ماہ نور نے ہی فرح کے نکاح کا جوڑا خریدا تھا۔
خوبصورت سفید اور مونگیا رنگ گھیری دار پاءوں کو چھوتی فراک کے ساتھ چوڑی دار پجامے میں۔سر کو سفید دپٹے سے ڈھکے۔۔۔کندھے کو مونگیا اور سرخ و سفید چادر سے ڈھکے فرح خان ہلکے پھولکے میک اپ میں خوب جچ رہی تھی۔اس کے ہونٹ شوخ رنگ سے رنگے گئے تھے۔گالوں کی سرخی اگرچہ قدرتی تھی۔مگر پھر بھی ہلکا ٹچ دیا گیا۔
کانوم میں جھولتے گول گول آویزے اس کے گالوں کو چھوتے کھلکھلاتے محسوس ہوتے تھے۔اور اس پہ اس کا شرما کے مسکرانا وہاں مجود تمام مہمانوں کو رشک میں مبتلا کر رہا تھا۔
دوسری طرف ابرار تھا۔جو اپنے نکاح سے تقریباًآدھا گھنٹہ پہلے پہنچا تھا۔ماہ نور اس کا نکاح کا لباس ساتھ ہی لائی تھی۔اس نے نکاح پہ سفید شلوار قمیض پہ نیوی بلو واسکٹ پہن رکھی تھی۔اور اس پہ اس کی مسکراہٹ۔۔۔
ان دونوں کی جوڑی چاند سورج کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح سےکچھ دیر قبل وہ کمرےمیں آئی تھی۔
گولڈن درمیانی قمیض اور سفید شرارے میں کندھے پہ سفید ہی دوپٹے کو سیٹ کئے۔بالوں کو مصنوعی کرل دے کے پشت پہ چھوڑے۔سرخ لپسٹ لگائے۔وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
ذریت ابھی بیس منٹ پہلے دادی جان کو لے کر پہنچا تھا۔وہ دادی جان سے مل کر کچھ سامان لینے میں کمرے میں آ گئ تھی۔اس لئے ذریت سے مل نہ سکی۔
ذریت جب راہداری سے ہوتا۔مہمانوں اور میزبانوں سے ملتا لاءنج میں آیا۔تو وہاں بہت سی خواتین موجود تھیں ایک سوائے ماہ نور کے۔اس نے مسکرا کر سب کو پہلے سلام کیا۔اور پھر چند لمحوں تک بیٹھ کر اس کے آنے کا انتظار کرتا رہا۔
جب وہ نہ آئی تو اسے خود ہی اُٹھنا پڑا۔
سیڑھیاں چڑھتے اُوپر کمروں میں تیسرا کمرہ تھا۔جہاں ماہ نور الماری کھولے کچھ تلاش کر رہی تھی۔
وہ خاموشی سے جا کر کھڑا ہو گیا۔
ماہ نور کے ہاتھ میں جولری باکس تھا۔اس نےفرح کے لئےنکاح پہ پہنے کے لئے ابھی نیا ہی بنوایا تھا۔
وہ ڈبہ لے کر جیسے ہی پلٹی۔ذریت کو ایک دم سے سامنے دیکھ کر گھبرا گئ۔
آ۔۔۔آپ۔۔۔دل ڈر کر اُچھلا اور ہلق میں آنے کو تھا۔۔۔ذریت مسکرا دیا۔۔۔ماہ نور سے شادی کے بعد اب اسے عید کے عید مسکرا نہیں پڑتا تھا۔وہ جب جب اسے دیکھتا تھا۔اس کے چہرے پہ مسکراہٹ اُمڈ آتی۔
میں دیکھنے آیا تھا۔کہ میری بیوی کہاں گئ۔نظر نہیں۔آ رہی۔
کیا آپ نے میری ماہ نور کو دیکھا ہے؟اس کے دائیں جانب بازو رکھ کر رستہ روکتے اس نے آنکھوں میں چمک لئے پوچھا۔تو ماہ نور دھیمے سے ہنس دی۔
ہاں جی دیکھا ہے۔۔۔ابھی یہں تھی۔کچھ دیر پہلے۔۔۔بالوں میں ہاتھ پھیر کر اُنہیں بار بار چہرے پہ آنے سے روکتے اس نے کہا۔تو وہ اب کی بار محض مسکرایا۔
اچھا۔۔۔کہا ہے اس وقت؟مجھے اس سے ملنا ہے۔کیا آپ مجھے اس کے پاس لے جائیں گیں۔
اچھا۔۔۔بس باتیں ہو گئیں بہت۔۔۔سامنے سے ہٹیں۔اور جا کر چینج کریں۔آپ کی وجہ سے نکاح شام میں رکھوایا تھا۔مگر آپ پھر بھی لیٹ۔۔۔چہرے پہ مصنوعی ناراضی لئے۔اس نے اس کے سامنے سے ہٹ کر بائیں جانب سے نکلنے کی تھی۔پر وہ پھر سے سامنے کھڑا رہا۔
میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔مجھے میری بیوی ڈھونڈ دیں۔اور آپ مجھ سے بحث کر رہی رہیں۔اس کے چہرے پہ پھیلتے رنگین دھنک سے رنگ ذریت کو دلچسپ لگ رہے تھے۔سو وہ مزید چوڑا ہو کر کھڑا ہو گیا۔ماہ نور نے اُمڈتی مسکراہٹ روکی۔۔۔
آپ ہٹ رہے ہیں یا۔۔۔۔
یا؟انداز چڑانے والا تھا۔
کچھ نہیں۔۔۔ذریت ہٹیں۔جائیں جا کر تیار ہوں۔وہ جانتی تھی۔وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔اس لئے بیچارگی سے کہا۔تو اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے جھمکے میں اٹکے بالوں کو نکالنا شروع کر دیا۔
ماہ نور تمہیں پتہ ہے۔مجھے لگتاتھا۔کہ تمہارے بال بہت لمبے اور سیاہ ہوں گے۔جب میں نے تمہیں پہلی بار سڑک پہ دیکھا تھا۔تو میں نے یہی سوچا تھا۔کہ اس لڑکی کے بال پتہ نہیں کس رنگ کے ہوں گے۔پھر دوسری بار جب میں نے تمہیں یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں دیکھا۔تو میرا خیال تھا۔کہ تمہارے بال لمبے اور بہت کالے ہوں گے۔اور۔۔۔
اور؟ماہ نور کو اسے سُننااچھا لگ رہا تھا۔
اور تم اس کے بالکل مختلف تھی۔مجھے یقین مانو شدید افسوس ہوا تھا۔اس کے چہرے پہ حقیقتاًافسوس اور دکھ کے تاثرات دیکھ کر ماہ نور ہنستی چلی گئ۔
اوہ۔۔۔پھر تو آپ کے ساتھ بہت بُری ہوئی۔لمبے بال تو میں نے کبھی زندگی میں نہیں رکھے۔اس کے چہرے پہ مسکراٹ تھی۔
چلو اب کیا کیا جا سکتا ہے۔جب کھا لیا دھوکا تو۔اسے دلچسپی سے دیکھتے ذریت کی شوخی عروج پہ تھی۔ماہ نور نے گھور کے دیکھا۔اور پھر اس کے دائیں کندھے پہ ایک دھپ لگاتی سائڈ سے نکل گئ۔ذریت حسن مسکرا دیا۔
دس منٹ میں باہر آ جائیں۔کہتی وہ ایک نظر اسے دیکھتی باہر نکل گئ۔
جو حکم مادام۔۔۔۔مسکراتے ذرا ساجھکتے اس نے حکم بجا لانے والے انداز میں کہا۔مگر وہ جا چکی تھی۔ذریت مسکراتا سر جھٹکتا باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔جہاں ماہ نور نے اس کے کپڑے لٹکا دئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کا وقت تھا۔جب اسفند بھاگتا دوڑتا اس کے نکاح پہ پہنچا تھا۔نائلہ بھی ساتھ تھی۔
نائلہ نے فیروزی اور جامن رنگ ساڑھی پہن رکھی تھی۔اور ساتھ ہی ہم رنگ خوبصورت امتزاج کھاتے چھوٹے چھوٹے ٹوپس اور ایک ہار تھا۔جو آج ہی اسفند نے اسے تحفے میں دیا تھا۔
حال میں ذریت اکمل سے کوئی بات کرتے اطراف میں دیکھ رہا تھا۔جب اس کی نظر ان دونوں پہ پڑی تھی اور پھر پلٹنا بھول گئ۔
یہ ۔۔۔یہاں کیا کر رہا ہے؟ذریت کا چہرہ اسفند کی طرف تھا۔جبکہ اکمل کی ان کی جانب پشت تھی۔اکمل فوراًموڑا۔
اسفند اور نائلہ ماہ نور اور ابرار کے ساتھ بات کر رہے تھے۔ماہ نور نے مسکراتے ایک نظر ہال میں لوگوں پہ ڈالی اور پھر کچھ فاصلے پہ کھڑے ذریت کو دیکھ کر مسکراتے اس نے اس کی جانب اشارہ کیا تھا۔وہ شائد اس سے ذریت کا پوچھ رہے تھے۔ان دونوں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور ذریت جو کچھ حیران حیران سا اسفند کو دیکھ رہا تھا۔بد وقت مسکرایا۔
تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ۔کہ ابرار اسفند کو جانتا ہے؟دانت کچکچا کر بظاہر مسکراتے اس نے اکمل کو گھور کر دیکھا تھا۔اکمل نے مسکرا کر پنٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال لیا۔
مجھے تو خود معلوم نہیں تھا۔ویسے یہ والا سرپرائز اچھا ہے۔اس کی مسکراہٹ میں گہری چوٹ تھی۔۔۔جیسے کہہ رہا ہو۔کہ ہمیشہ ویسا نہیں ہو سکتا جیسا ہم سوچتے ہیں۔ذریت نے اسے گھورا۔اور پھر ان لوگوں کی جانب بڑھا۔جہاں کھڑی ماہ نور مسلسل بولتی اسے وقفے وقفے سے دیکھ بھی رہی تھی۔
بیگم صاحبہ تھوڑی سپیڈ ہلکی رکھیں۔جوش میں بولتے اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہوتا وہ دیکھ سکتا تھا۔اس کے برابر جاتے اور اس کے کندھے کے گرد اپنا بازو پھیلاتے اس نے مسکرا کر کہا۔تو نائلہ اور اسفند مسکرا دئے۔
اسفند نے ذریت کو نہیں پہچانا تھا۔
السلامُ علیکم۔۔۔ان دونوں کو سلام کرتے۔اس نے اسفند کی جانب ہاتھ بڑھایا۔تو اسفند نے بہت پرجوش انداز میں تھام لیا۔ذریت پرسکون تھا۔وہ نہیں جانتا تھا۔کہ ذریت حسن اس پہ نتاشا سے پیچھا چھڑوا کر کتنا بڑا احسان کر چکا تھا۔اور نہ ہی وہ ایسی کوئی خواہش رکھتا تھا۔ہاں وہ ماہ نور کو اس کے بارے میں ضرور بتائے گا۔یہ اس نے ابھی ابھی سوچ لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ مصروف ہیں؟
رات کا پہلا پہر شروع ہونے والا تھا۔جب اس نے ماتھے پہ لگے ٹیکے کو اُتارتے پاس پڑے فون کو بجتے سن کر اُٹھایا تھا۔یہ وہی فون تھا۔جو ابرار کےپاس تھا۔اس نے کچھ دیر پہلے ماہ نور کے ہاتھ اس کے ہاں پہنچایا تھا۔
فرح نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا۔جیسے وہ دیکھ رہا ہو۔
گُڈ ۔۔۔کام کرنا اچھی بات ہے۔اس اس کا سر ہلانا جیسے وہ محسوس کر چکا تھا۔فرح کے گال چمکے۔۔۔
آپ۔۔۔کو۔۔۔کوئی بات کرنی تھی۔اٹک اٹک کر اس نے پوچھا۔تو ابرار جو کمرے کی قد آدم کھڑکی کے سامنے کھڑا۔۔۔سوات کے اونچے اونچے دھند میں لپٹے پہاڑو ں کو دیکھ رہا تھا۔ہنس دیا۔
آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں۔۔۔
نہ۔۔۔نہیں میں گھبرا کیوں رہی ہوں۔۔۔منہ میں چلتی زبان اور دماغ دونوں اس وقت دل کے غلام تھے جو اس وقت ایک سو بیس کی سپیڈ پکڑے کوئے تھا۔
اچھا۔تو آپ نہیں گھبرا رہیں؟اسے جیسے مزہ آیا۔
نہیں۔۔۔آنکھیں بند کر کے کھولیں۔جیسے چاہتی ہو۔کہ راز اُگلا نہ جائے۔جیسے اپنا آپ پاگل لگا رہا ہو۔جیسے خوشی کی انتہا ہو۔۔۔۔
ہم۔۔۔آپ تو پھر بہت بہادر ہیں۔ابرار کی انکھوں میں شرارت کی چمک جبکہ لہجے میں مسکراہٹ کی آمیزیش تھی۔
چلیں باہر ملتے ہیں۔مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔اور آپ کو دیکھنا ہے۔
جی؟فرح کی دونوں آنکھیں ایک دم سے پوری وا ہوئیں۔ابرار نے مسکراہٹ دبا کر ایک نظر پہاڑوں پہ اُڑتی ۔۔۔ناچتی گاتی دھند کو ایک آخر نظر دیکھا۔اور واڈ روعب کی جانب بڑھا۔جبکہ وہ کہہ رہی تھی۔
نہیں۔۔۔میرا مطلب ہے۔کہ کیسے۔۔۔۔میں
آپ سے مل سکتی ہوں۔بابا اجازت نہیں دیں گے۔۔۔اس کو دونوں ہاتھوں میں شدید کپکپاہٹ تھی۔
اچھا تو یہ مسلہ ہے۔۔۔
یار آپ پہلے کامپنا تو بند کرو۔ماہرِنفسیات اس وقت اس کے ہر ہر انداز کو بغیر دیکھے پڑھ رہا تھا۔اور خوب محظوظ ہو رہا تھا۔فرح کو دل چاہا رو دے۔وہ اسے کتنے اچھے انداز میں ۔اس کی ایک ایک خاموشی اور ہر ہر لہجے کو بن دیکھے زبان دے رہا تھا۔اور فرح بحوش ہونے کو تھی۔
وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
اچھا۔۔۔پھر میں ماہ نور کو بھیج رہا ہوں۔وہ آپ کو میرے پاس لے آئے گی۔اس کی خاموشی بتا رہی تھی۔کہ وہ رونے کو ہے۔
پر۔۔۔وہ ۔۔
اب کیا بابا اس پہ بھی ناراض ہوں گے؟
نہ۔۔۔نہیں۔پر جھوٹ۔۔۔بول کر ملنا اچھی بات تو نہیں ہے۔معصومیت کی انتہا پہ تھی وہ۔ابرار کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔اس لڑکی کا ہر ہر انداز اسے اس کا گرویدہ بنا دیتا تھا۔
پھر میں ان سے بات کر لے خود آ جاتا ہوں۔۔۔
اللہ توبہ۔۔۔ابھی میں نے آپ کو کیا کہا ہے۔۔۔بابا کیا سمجھیں گے۔
ابرار اس کے لہجے کو سن کے بے اختیار ہنس دیا۔فرح نے سر جھکا لیا۔
اچھا۔تو پھر میں انکار سمجھ لیتا ہوں۔آپ خود ہی مجھ سے ملنا نہیں چاہتیں۔لہجے میں مصنوعی بے چارگی لئے۔اس نے لئے کہا۔تو فرح ہونٹ کاٹتی شیسشے کے سامنے سے ہٹتی بیڈ پہ آ بیٹھی۔اور سر سے دوپٹہ اُتارنے لگی۔فون کندھے اور کان کے درمیان رکھا تھا۔
نہیں۔۔۔۔ایسی بات نہیں ہے۔پر میرے والدین مناسب نہیں سمجھتے۔آپ کو جو بات کرنی ہے۔کریں میں سن رہی ہوں۔اب کی بار گھبراہٹ میں کمی آئی۔ابرار سر ہلاتا۔فون کان سے ہی لگائے دروازے کی جانب بڑھا۔وہ اس پہاڑ کی جانب اب اکیلا جا رہا تھا۔
آپ نے اس دن مجھے بتایا نہیں تھا۔کہ آیا کہ آپ اس نکاح سے خوش ہیں یا نہیں۔میں اب کی بار آپ سے دوبارہ پوچھنا چاہتا ہوں۔پلیز آپ مجھے بغیر کسی ڈر اور خوف کے کسی جھجک یا گھبراہٹ کے بتائیں۔
فرح جو کسی اور بات کی توقع میں تھی۔اس کے اگلے الفاظ سن کر مسکرا دی۔
وہ بندا خود غرض نہیں تھا۔اپنی خوشی کو قربان کرنا اسے آتا تھا۔
آپ کو کیا لگتا ہے۔؟مسکراتے ہوئے اس نے سر سے اُتارا دوپٹہ سامنے سنگل صوفے پہ طریقے سے رکھتے پوچھا تھا۔
مجھے تو لگتا ہے۔کہ آپ خوشی سے ساری رات بھنگڑا ڈالتی رہی ہیں۔پر پھر بھی میں نے سوچ کنفرم کر لوں۔سوات کی ریت ،پہاڑ کی بجری اور مٹی اس کے قدموں کے نیچے تھی۔اور وہ گاءوں کی آوارہ سڑک پہ تنہا چلتا۔دلچسپی سے کہہ رہا تھا۔
یہ مجھے آپ کے لئے کہنا تھا۔اس کی بات سن کر ہنستے اس نے کہا۔تو ابرار نے ایک ابرو اُٹھایا۔
وہ کیوں۔۔۔؟
وہ اس لئے۔کہ آپ کا راز اب راز نہیں رہا۔آپ کے دل کی بات ہم جانتے ہیں۔اور پہلے سے جانتے ھیں۔ہنستے ہوئے سرخ پڑتے اس نے بات مکمل کر کے دوسری جانب حیران پریشان سے سڑک کے بیچ و بیچ کھڑے ابرار کو کہا۔اور اس کی بات سننے سے پہلے فون کاٹ دیا۔ابرار نے دانت پیس کر بند فون کو دیکھا۔اور تیزی سے واپس نمبر دبایا۔مگر اب کی بار فون بند جا رہا تھا۔
وہ فون بند کر کی ہنستی لباس بدلنے جا چکی تھی۔ابرار نے افسوس اور کچھ خوشی سے آسمان کی جانب دیکھا۔
شکریہ اللہ۔۔۔۔مسکراتے مالک کا شکر ادا کرتے اس نے ہاتھ میں پکڑے فون کو جیکٹ کی جیب میں ڈالا ۔اور سفر پھر سے شروع کیا۔اب کی بار وقفے وقفے سے گونجتے قہقہے اس کی خوشی کا پتہ دے رہے تھے۔اور سوات کی اس گاءوں کی ویران گلی میں اس کی خوشی پاءوں میں گھونگرو پہنے محوِرقص تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور ابھی ابھی بھاری بھرکم لباس بدل کر کمرے سے نکل کر دادی جان کی طرف جا رہی تھی۔جب سامنے سے آتے ذریت نے رستہ روکا۔اور اس کی کلائی پکڑی۔ماہ نور نے گھبرا کے ارد گرد دیکھا۔
ذریت یہ کیا طریقہ ہے۔اس کے ہاتھ سے بازو نکالتے اس نے دانتے پیس کر کہا۔پر وہ ڈھیٹ بنا کھڑا رہا۔
باہر چلیں۔۔۔۔
ہیں؟اسے اس کی دماغی حالت پہ شک گُزا۔
اس وقت؟اس کی روشن آنکھوں میں اپنا عکس دیکھتے وہ بھی مسکرا دی۔
ہاں کیوں ابھی کیا ہے۔صبح ہم واپس چلے جائیں گے۔پھر یہ وقت کبھی واپس نہیں آئے گا۔مدھم سا مسکراتے اس نے کہا۔اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی۔اس کے کندھے پہ جھولتی اونی چادر کو پیچھے سے اس کے سر پہ ڈالتے ایک نظر اس کے مسکراتے چکرے کو دیکھتے وہ اسے لئے باہر کی جانب بڑھا۔ماہ نور اس کے برابر چلنے لگی۔
حویلی سے نکل کر ان کو کا رخ بائیں جانب تھا۔جہاں پہ چھت سے دیکھو تو ایک گول سا گنبد نظر آتا۔سبز سے گنبد کے قریب بڑا سا شیشم کا درخت تھا۔جہاں بیٹھا بوڑھا سواتی مدھم آواز میں کوئی دھن بجاتا رات کی تاریکی میں پشت پہ اور دائیں جانب آتے سنسان پہاڑی سلسلوں میں ایک عجیب محبوبکن سی ردھم منوا رہا تھا۔ذریت نے وہ آواز لان میں اکمل سے گفتگو کے دوران سُنی تھی۔اور اب وہ اور ماہ نور اسی جانب جا رہے تھے۔
ذریت ایک بات پوچھوں۔ذریت نے اس کے کندھے کے گرد اپنا بازو پھیلا رکھا تھا۔وہ دونوں چلتے خاموش تھے۔جب ماہ نور نے پوچھا۔
ہم۔۔۔اس نے ایک نظر ماہ نور کے نیم اندھیرے میں چمکتے چہرے کو دیکھ کر اجازت دی۔
ذریت نتاشا اب کہاں ہے؟اس کے چہرے پہ ایک نظر ڈال کر سامنے کی جانب دیکھتے اس نے پوچھا تھا۔ماہ نور وہ ہماری زندگی سے نکل چکی ہے۔وہ اب کہیں نہیں ہے۔اس کا ذکر مت کرو۔کہ وہ واپس لوٹ آئے۔رک کر اس کے دونوں ہاتھ پکڑتے اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔تو ماہ نور مسکرا دی۔مجھے پتہ ہے۔وہ آپ کو مجھ سے نہیں چھین سکتی۔پر وہ ہے کہاں۔؟
باز مت آنا تم۔۔۔ایک نظر گھور کر پھر سے چلتے اس نے کہا۔تو ماہ نور ہنس کر سر نفی میں ہلا گئی۔
وہ اس وقت جیل میں ہے۔ضیاء کے ساتھ منشیات فروشی میں وہ بھی شامل تھی۔اسے سات سال کی سزا اور تین کروڑ جرمانہ ہوا ہے۔
اور ضیاء؟
وہ ملک سے بھاگ گیا۔ایف آئی اے اس کی تلاش میں ہے۔اور اس کا باقی کا گروہ پکڑا جا رہا ہے۔
بس اب اور سوال نہیں۔اب یہ لوگ ہماری زندگی میں کہیں نہیں ہیں۔سو چپ کر کے۔۔۔چلتی رہو۔۔۔۔
اور ہاں اسفند نتاشا کا منگیتر رہ چکا ہے۔سو اس کے سامنے احتیاط کرنا۔اس کا کھولتا منہ دیکھ کرفوراًاس کےمنہ پہ ہاتھ رکھا۔ماہ نور نے گھورا
اور ہاں۔۔۔۔چلتے چلتے وہ ایک بار پھر سے رکا۔ماہ نور نےابرو اُٹھایا۔
کل تم میرے ساتھ گھر جا رہی ہو۔ظفر نے بد مزہ کھانا کھلا کھلا کر منہ کا ضائقہ خراب کر دیا ہے۔اور دادی جان کے ڈانٹ سن سن کر میں سخت پریشان ہو چکا ہوں۔
ماہ نور اسے سنجیدگی سے دیکھے گئ۔ذریت کو محسوس ہوا جیسے وہ جانا نہ چاہتی ہو۔اس نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹادیا
ماہ نور مجھے تمہاری ضرورت ہے۔پلیز گھر چلو۔اس کے دونوں ہاتھوں کو نرمی سے دباتے وہ کہہ رہا تھا۔
پہلے مجھے گھٹنوں پہ جھک کر آئی مس یو بولیں۔۔۔
ہیں؟اس کی اگلی بات سن کر ذریت دل بھر کا بد مزہ ہوا۔
یہ کام نہں میرے سے ہوتا۔ناک سے مکھی اُڑائی۔ماہ نور کا منہ بنا۔
یہ کیا بات ہوئی۔
دیکھو۔میرے لئے اپنے جزبات کو اظہار کرنا بہت مشکل ہے۔پلیز ایسے ہی مان جاءو۔
ماہ نور نے جواب میں سر نفی میں ہلایا۔تو وہ چند لمحوں تک اسے دیکھت رہا۔
اگر تم ایسے خوش ہوتی ہو تو۔یہ لو۔۔۔۔وہ اپنے گھوٹنوں پہ جھکا۔
ماہ نور پلیز گھر واپس آ جاءو۔ذریت حسن اور اس گھر کے درودیوار سب تمہیں یاد کر رہے ہیں۔تمہارے بغیر زندگی بہت ویران ہے۔۔۔۔ہاتھ اس کی جانب پھیلاتے اس نے زندگی میں پہلی بار لہجے کو بہت نرم بناتے کہا۔تو ماہ نور کا دل کیا قربان ہی پو جائے۔وہ ہنستی چلی گئ۔ذریت اُٹھ کھڑا ہوا۔اور ساتھ ہی اس کے گرد بازو پھیلاتا پھر سے چلنے لگا۔اور ماہ نور متواتر ہنستی آنکھوں میں آئی نمی کو چھپا رہی تھی۔اور ماحول اور آسمان اور ارد گرد کے پہاڑ سب مسکرا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...