یہ دو مہینے بھی زوہیب کے لئے پہلے دو ہفتوں کے مترادف ہی تھے۔ وہ معمول زندگی میں واپس آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اپنے گھر کے افراد سے اس کی روزانہ بات ہوجاتی پر اس نے دوبارہ کبھی حارث انکل یا ان کی فیملی کے بارے میں پوچھنے کی ہمت نہیں کی۔ اسے خوف تھا کہ اگر اب کسی نے اسے مسکان کے متعلق کوئی بات بتائی تو وہ پھر آپے سے باہر ہوجائے گا ان دو مہینوں کی کوشش ضائع چلی جائے گی۔ اس نے اپنے دل پر پتھر باندھ لئے تھے کہ اب سے وہ مسکان کو کبھی یاد نہیں کریں گا ہاں البتہ اس کے لئے دعا ضرور کرتا کہ وہ جہاں بھی رہے جس کے ساتھ بھی رہے خوش رہے۔
اپنے روٹین کے مطابق اس نے یونیورسٹی اور لائبریری جانا شروع کر دیا تھا پر اب اس کے ساتھ کوئی دوست نہیں ہوتا تھا وہ بلکل تنہا ہو کر رہ گیا تھا۔
یونیورسٹی سے لائبریری اور لائبریری سے رات دیر تک کسی اکیلے جگہ پر خالی ذہن بیٹھے رہنا اور پھر گھر جانا یہی اس کے معمولات بن گئے تھے۔
اُس رات وہ جلدی آگیا تھا اس وقت سب کھانے سے فارغ ہوگئے تھے اور وہ فاروق کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ بچے بھاگ دوڑ میں لگے تھے لیکن اب اسے بچوں کے شور سے چڑ نہیں ہوا کرتی تھی۔
زوہیب:”( یہی عمر ہوتی ہے کھیل کود کی بڑے ہوکر تو زندگی ایک سے بڑھ کر ایک تکلیف دیتی ہے) اس نے چائے پیتے ہوئے سوچا۔
شیزا کوفت کے عالم میں زور سے برتن پٹختی کچن میں لگی تھی۔ اس نے سوچا شاید فاروق بھائی سے کوئی جھگڑا ہوا ہے۔
شیزا:” صبح مسزز رچرڈ نے بتایا تم رات 3 بجے گھر آئے تھے۔۔۔۔ دیکھو زوہیب یہ شریفوں کی سوسائٹی ہے یہاں یہ سب پسند نہیں کیا جاتا۔۔۔۔ سب منفی اثرات مرتب کر رہے ہے تمہارے بارے میں” اس نے اپنے اسی انداز میں کوئی تہمید باندھے بغیر کہا۔ فاروق اپنی بیوی کے رویئے پر شرمندہ ہوگئے۔
زوہیب:” مسزز رچرڈ کو اتنی رات گئے میری جاسوسی کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے” زوہیب نے بھی اسی سپاٹ انداز میں کہا۔
شیزا:” تو غلط کیا کہا ہے۔۔۔ اگر تمہیں یہاں رہنا ہے تو وقت پر گھر آنا ہوگا۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کہاں آوارہ گردی کرتے رہتے ہو۔۔۔ میرے بچوں کی تربیت پر غلط تاثر پڑے گا۔” اس نے طیش میں بچوں کے جانب دیکھ کر کہا جو اپنی امی کو اتنا تیز بولتے سن کر خاموشی سے بیٹھ گئے تھے۔
زوہیب:” ابھی کونسی اچھی تربیت دے رہی ہے آپ۔” زوہیب بھی اپنے آداب اور تمیز کو بالائے طاق رکھ کر یک ٹک جوابی کاروائی کرتا رہا۔
شیزا:” آپ دیکھ رہے ہے یہ کس طرح مجھ سے زبان لڑا رہا ہے” اب کی بار شیزا نے فاروق پر وار کیا اور افسوس سے سر جھٹکا۔
فاروق:” شیزا تم اندر جاو میں بات کرتا ہوں۔” وہ اس کے پاس آیا اور شیزا کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا ۔
زوہیب:” آپ کو صرف باتیں کرنی ہی آتی ہے۔۔۔۔ ہمیں تو بتایا جاتا تھا آپ کا بہت اچھا کاروبار ہے بڑا عالی شان گھر ہے۔” اس نے ہاتھ اٹھا کر چاروں طرف اشارہ کیا
“سب جھوٹ ہے ڈھونگ ہے۔” اس نے طنزیہ ہنستے ہوئے سگریٹ نکالی
جہاں فاروق کو زوہیب کے اس روئیے سے دکھ ہوا وہی شیزا کا پارہ آسمان کو چھونے لگا۔
شیزا:” بس بہت ہوا اب میں اس بدتمیز کو ایک اور منٹ اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتی” اس نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کرتے ہوئے کہا اور زوہیب مزے سے سر اوپر کئے ہوا میں دھواں اڑاتا رہا۔
فاروق:” شیزا رہنے دو وہ اس وقت اپنے ہوش میں نہیں ہے۔” فاروق شیزا کو کمرے کے اندر لے جانے لگا۔
شیزا:” فاروق اس کی وجہ سے ہماری سوسائٹی میں بدنامی ہورہی ہے میرے گھر کا سکون غارت ہورہا ہے۔۔۔۔۔ آپ پر اپنے چچا کے احساس ہونگے جس کی وجہ سے آپ ان کے لاڈلے کو کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن مجھ پر نہیں۔۔۔۔ نکالے اسے میرے گھر سے۔۔۔۔” وہ اب رونا شروع ہوگئی تھی۔ اور فاروق اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا۔
زوہیب سگریٹ بجھاتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
دس منٹ بعد وہ اپنا بیگ اٹھائے کمرے سے باہر آیا۔ شیزا اور فاروق اس وقت لاؤنج کے صوفے پر بیٹھے تھے اور بچے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔
زوہیب کے ہاتھ میں بیگ دیکھ کر فاروق ہڑبڑا کر اس کے پاس آیا اور شیزا چپ چاپ ہاتھ باندھے بیٹھی بالکونی سے باہر برستی بارش کو دیکھ رہی تھی۔
فاروق اسے گھر چھوڑ کر جانے سے روکنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ فاروق کی ایک بھی سنے بغیر گھر سے نکل گیا۔
دو گھنٹے سڑک پر بے بسی سے پھرتے رہنے کے بعد وہ پوری طرح سے بارش میں بھیگا ہوا ایک دروازے کے آگے کھڑا تھا۔ کچھ جھجکتے ہوئے اس نے دستک دی۔ کچھ پل گزرے دروازہ کھلا اس نے معصومیت سے سر اٹھا کر دیکھا کیرل شب خوابی کے کپڑوں میں ملبوس ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔
زوہیب:” میں نے فاروق بھائی کا گھر چھوڑ دیا۔۔۔۔۔ رات کو اس وقت میں پاپا سے الگ اپارٹمنٹ کے پیسے نہیں منگوا سکتا۔۔۔۔ ڈیوڈ کو کال کی تھی اس نے اٹھایا نہیں شاید وہ مجھ سے اب تک ناراض ہے۔۔۔۔۔ تم دو دن کے لیے میرا سامان اپنے پاس رکھ لو گی پلیز۔۔۔ تب تک میں اپنے رہنے کا بندوبست کرتا ہوں۔۔۔” اس نے رو داد سنا کر پُر امیدی سے کیرل کو دیکھا۔ وہ سر کو جنبش دیتی سامنے سے ہٹ گئی اور سنجیدہ انداز سے اسے اندر آنے دیا۔ وہ بیگ گھسیٹتا ایک بیڈروم پر مشتمل اس لاؤنج میں داخل ہوا اور ایک کونے میں بیگ کھڑا کر کے واپس مڑا۔ کیرل اب بھی ہاتھ باندھے دروازے کے پاس سپاٹ تاثرات بنائے کھڑی تھی۔ زوہیب چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور کیرل کے آمنے سامنے کھڑے ہو کر سر جھکا دیا۔
زوہیب:” میں اپنے سلوک کے لئے شرمندہ ہوں کیرل۔۔ ان دنوں میں بہت شکست خوردہ تھا بہت مایوس تھا ڈپریشن کا شکار تھا اس لئے سارا غصہ تم پر اتر گیا۔۔۔ پلیز مجھے معاف کر دینا۔۔۔” وہ یہ کہہ کر زخمی سا مسکرایا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
کیرل کو وہ آج کوئی اور ہی زوہیب لگا تھا۔
کیرل:” زوہیب۔۔۔۔” اس نے زوہیب کو مخاطب کیا وہ دروازے پر رک گیا۔
“تم پوری طرح بھیگ گئے ہو۔۔۔ بارش کے رکنے تک یہاں ٹھہر سکتے ہو” یہ کہتے ساتھ وہ زوہیب کا جواب سنے بغیر اوپن کچن میں چلی گئی اور دو مگ نکال کر کافی بنانے لگی۔
کیرل ماں باپ کے علحیدگی کے بعد سے اکیلی رہتی تھی کچھ عرصہ قبل تک وہ جنیفر کے ساتھ ہوسٹل میں رہتی تھی اور اب اس ایک بیڈروم کے کرایہ کے گھر میں۔
زوہیب دروازہ بند کر کے گھر کے اندر آیا اور اپنا سوٹکیس کھول کر خشک کپڑے نکالے۔
جب تک وہ واشروم سے کپڑے تبدیل کر کے باہر آیا کیرل کافی بنا چکی تھی۔ وہ اس کے پاس آکر صوفے پر بیٹھا اور اپنے کافی کا مگ اٹھا کر پینے لگا۔ دونوں کے بیچ کی خاموشی کو بادل کے گرج کی آواز توڑتی اور پھر خاموشی چھا جاتی۔
اس نے چپ چاپ اپنی کافی ختم کی اور جانے کے لیے اٹھا۔ بادل برس برس کر خالی ہو چکے تھے آسمان روشن ہوگیا تھا۔ کیرل نے اسے دوبارہ رکنے کا نہیں کہا وہ زوہیب کے ساتھ دروازے تک آئی۔
زوہیب:” شکریہ کیرل تم بہت اچھی ہو تم نے واقعی ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے۔” اس نے دروازے کے پار کھڑے ہو کر سنجیدگی سے کہا۔ کیرل صرف مسکرا دی اور دروازہ بند کر دیا۔
******************
اس وقت وہ لندن پل کے سیڑھیوں پر بیٹھا تھا جب اس نے اپنے پاس کسی کو بیٹھتے محسوس کیا۔
فاروق:” کیسے ہو زوہیب” اس نے ساتھ بیٹھ کر زوہیب کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا۔
زوہیب:” ٹھیک ہوں بھائی۔۔۔ آپ کیسے ہے” اس نے نرمی سے کہا۔
فاروق:”میں تو ٹھیک ہوں پر تمہارے ساتھ کیا چل رہا ہے۔۔۔۔ میرا فون نہیں اٹھا رہے تھے۔۔۔۔ تمہارے یونیورسٹی گیا وہاں سے پتہ چلا تم ایک ہفتے سے یونیورسٹی بھی نہیں گئے ہو۔۔۔۔ ڈیوڈ سے پوچھا پر اسے بھی تمہاری کوئی خبر نہیں تھی۔۔۔” وہ سانس لینے کو رکا۔ اس نے زوہیب کو دیکھا وہ سر جھکائے اس کی بات سن رہا تھا تو وہ پھر سے گویا ہوا۔
” میرا ایک دوست ہے پاکستان سفارتخانے میں۔۔۔۔۔ اس کی مدد سے پولیس میں تمہارا نمبر ٹریس کورایا تو جا کر تمہاری لوکیشن معلوم ہوئی۔۔۔۔۔ اور یہاں آ کر دیکھ رہا ہوں تمہاری یہ حالت ہے۔۔۔” اس نے زوہیب کے سامنے پڑے سیگریٹ کے راکھ کی طرف اشارہ کیا۔
زوہیب اب بھی خاموش رہا۔ فاروق نے اس کے ہاتھ کو ہمدردی سے دبایا۔
” اگر میری جگہ عثمان ہوتا تو کیا تم اس سے بھی اپنی پریشانی شیئر نہیں کرتے۔۔۔۔ میرے لئے تو تم چھوٹے بھائی کے جیسے ہی ہو۔۔۔۔ پر شاید تم مجھے اپنا نہیں مانتے۔” فاروق نے افسوس سے سر جھٹکا۔
زوہیب:” کیا آپ کو پیار میں کبھی دھوکہ ملا ہے۔ ” اس نے سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
فاروق ہلکا سا مسکرایا۔
“ھممم تو یہ بات ہے۔۔۔۔ زوہیب مجھے پیار کا تو نہیں پتہ لیکن زندگی سے بہت دھوکے ملے ہیں۔۔۔ تم نے میرے بارے میں جو کہا سچ کہا۔۔۔ اب تو تم جان گئے ہو یہاں ایک پائی کمانا بھی کتنا مشکل ہے۔۔۔ لیکن میں نے ہار نہیں مانی میں آج سے دس سال بعد خود کو اسی مقام پر دیکھتا ہوں جس کا تم نے سن رکھا ہے۔۔۔۔ اور اسی کے لیے محنت بھی کر رہا ہوں۔”
زوہیب نے سگریٹ سلگائی تو فاروق نے اس کے ہاتھ سے لے کر اپنے لبوں میں دبایا۔ زوہیب اسے دیکھ کر مسکرایا اور اپنے لیے دوسرا سلگایا۔
فاروق:” زندگی کسی کے لیے نہیں رکتی۔ وقت کسی کے جانے سے تھم تو نہیں جاتا۔۔۔ کبھی بھی دوسرا رستہ کھلے بغیر پہلا بند نہیں ہوتا۔۔۔۔ تمہاری زندگی میں اگر محبت کا رستہ بند ہوا ہے پر کیرئیر کا رستہ تو کھلا ہے نا۔۔۔”
زوہیب یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا۔
“تم اس وقت اپنا سارا دھیان صرف پڑھائی پر لگاو۔ اس کو حاصل کرو جس کے لئے تم یہاں آئے ہو۔۔۔ کسی ایک حادثے کی وجہ سے انسان جینا تو نہیں چھوڑ دیتا۔۔۔۔ میرا تمہیں یہی مشورہ ہے کہ وقت سے ساتھ چلنا سیکھو اور کبھی بھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔۔۔ باقی تم سمجھدار تو ہو ہی”
اس نے اپنی بات مکمل کر کے زوہیب کو دیکھا۔ زوہیب نے رخ پھیرتے ہوے لمبی سانس لی۔
زوہیب:” شکریہ بھائی۔۔۔۔ میں کوشش کروں گا۔۔۔ اور اس دن کے اپنے برتاؤ کے لئے آئی ایم سوری۔” اس نے سنجیدگی سے کہا۔
فاروق:” چلو اب گھر چلتے ہیں۔” اس نے اس کے گرد بازو مائل کرتے ہوئے کہا۔
زوہیب:”نہیں میں یہی ٹھیک ہوں” اس نے سپاٹ انداز میں کہا۔
فاروق:” ضد مت کرو زوہیب۔۔۔ میں نے شیزا سے بات کی ہے اس نے خود مجھے تمہیں ساتھ لانے کا کہا ہے۔ آج تو میری بات مان لو”
زوہیب اضطراب میں مبتلا ہوا
“چلو بھی یار اتنے دنوں سے میرے بچوں نے کسی کو تنگ نہیں کیا۔۔ بور ہوگئے ہیں۔” فاروق نے شرارتی انداز میں آبرو اچکا کر کہا۔ دونوں ایک ساتھ ہنسنے لگے۔
“سامان کہاں ہے تمہارا” فاروق نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
زوہیب:” کیرل کے گھر پر “اس نے فاروق کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
فاروق:” کیرل۔۔۔ جھگڑا ختم ہوگیا تم دونوں کا” اس نے حیرت سے پوچھا۔
زوہیب نے اثابت میں سر ہلایا اور فاروق کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا اور فاروق کار سامان اٹھانے کیرل کے گھر کے راستے پر لے آیا۔
*******************
جیسے کہتے ہے وقت کے ساتھ ساتھ زخم بھر جاتے ہے۔
زوہیب کے دل کے زخم بھر تو گئے تھے لیکن کسی نہ کسی کونے میں تکلیف آج بھی اٹھتی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس کے شیزا اور بچوں کے ساتھ بھی تعلقات اچھے ہوگئے تھے وہ شیزا کے خواہش کے مطابق گھر جلدی آجایا کرتا۔ فارغ وقت میں ان کے بچوں کے ساتھ باہر سبزہ میں کھیل کھیلتا۔
یونیورسٹی اور لائبریری کے علاوہ اس نے فاروق کی مدد سے ایک بیکری میں سیلز مین کی نوکری کرنا شروع کر دی۔ ڈیڈ اور عثمان بھائی نے اس کو زیادہ پیسے بھیجنے کی پیشکش کی لیکن زوہیب نے منع کر دیا اس کا ہر دفعہ یہی جواب ہوتا کہ وہ نوکری پیسوں کی ضرورت کے لئے نہیں خود کو مصروف رکھنے کے لیے کر رہا ہے۔
کیرل نے اسے معاف کر دیا تھا اور کیرل کے ہی کہنے پر ڈیوڈ اور جنیفر نے بھی اس سے ناراضگی ختم کر دی تھی۔
اس سمسٹر میں اپنی کارکردگی بحال کرنے اس نے پھر سے محنت شروع کر دی۔
# 6 مہینے بعد #
دوسرا سمسٹر اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا اور آخری کچھ مہینوں کے محنت سے اس نے امتحانات کے نتیجے کا افاقہ کر لیا تھا۔
زوہیب کا ڈیڈ اور عثمان بھائی کے بھیجے ہوئے پیسوں پر کفایت ہوجاتی تھی اس لئے فاروق کی طرح زوہیب بھی اپنی تنخواہ شیزا کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی اسے دے دیتا۔ تاکی گھر خرچ میں اس کا بھی حصہ شامل ہو۔
اگلا سمسٹر شروع ہونے سے پہلے 2 ہفتوں کی چھٹیاں ملی تھی اور ان چھٹیوں میں ان سب نے فرانس جا کر جنیفر کے گھر تعطیلات گزارنے کا پراگرام بنایا۔
زوہیب کو ڈیڈ کی طرف سے اجازت مل گئی تھی وہ اس سیر و تفریح کے لئے خوش تھا۔ اس وقت وہ شاپنگ مال میں کھڑا اپنے لئے خریداری کر رہا تھا جب اس کا موبائل بجا۔
زوہیب:”ہائے عثمان بھائی۔۔ ” وہ اپنے کارڈ سے ادایگی کر کے عثمان کی بات سننے مال سے باہر آگیا۔
عثمان کی بات سن کر وہ گنگ ہوگیا شاک کے عالم میں موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا۔ چہرے کا رنگ زرد پڑھ گیا اور آنکھیں بھیگنے لگی۔
***********************
آج فجر کی نماز پڑھنے اور تلاوت کر کے لیٹنے میں مسکان کو 7 بج گئے تھے۔ اس کی آنکھ لگی ہی تھی کہ لاؤنج میں سے کسی کے رونے کی آوازیں سنی۔
وہ ہیبت میں آکر کمرے سے باہر آئی تو لاؤنج میں ثمرین آنٹی کو زار و قطار روتے دیکھا۔ امی مسلسل انہیں چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ قدم قدم چلتی سائرہ بھابھی کے پاس آئی۔
مسکان:” کیا ہوا بھابی چاچی اتنا رو کیوں رہی ہے۔” اس نے دل گرفتگی سے پوچھا۔
سائرہ بھابھی:” کومل کی ساس کا انتقال ہو گیا ہے۔” انہوں نے افسوس سے کہا ۔
مسکان:” (زوہیب کی مما) اس نے سانس روکے دل میں کہا۔ اس نے آنکھیں بند کر کے آسنو کا گولا گلے سے نیچے اتارہ۔
بابا چاچو عرفان بھائی سمت سب چاچی کے پاس بیٹھے تھے ستارہ ایک بیگ اٹھائے اشک بار آنکھوں سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔ امی گیلی سانس اندر کھینچتی مسکان کے پاس آئی۔
امی:” کومل بہت پریشان ہے۔ اس سب کے لئے بہت اکیلی ہے ہم سب کو آنے کے لیے کہا ہے تم جلدی سے جاکر تیار ہوجاؤ۔” وہ اسے ہدایت دے کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ مسکان بلکل وہاں جانا نہیں چاہتی تھی لیکن امی کو منع نہیں کر سکی۔
ایک گھنٹہ میں سب کومل کے گھر پہنچے۔ سہیل احمد کے گھر غم کا سماء تھا لوگوں کا آنا شروع تھا۔ زہرا آنٹی کے بے جان لاش کو دیکھ کر اس کا دل ڈگمگانے لگا۔
وہ کومل اور ستارہ کے ہمراہ کام میں ہاتھ بٹانے لگ گی۔
وہ وہاں تعزیت کے لئے موجود خواتین کو پانی پیش کر رہی تھی جب اس نے سہیل صاحب نے عثمان سے زوہیب کے آمد کا پوچھا۔
عثمان:” ڈیڈ وہ اسلام آباد ایرپورٹ پر لینڈ کر چکا ہے بس تھوڑی دیر میں مریم باجی کو لیئے پہنچ جائے گا۔” اس نے بھیگی آواز میں ڈیڈ کو معلومات فراہم کی۔
زوہیب کے آنے کا سن کر مسکان کے ہاتھوں میں لرزش ہونے لگی وہ کسی بھی صورت زوہیب کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ جلدی سے کچن میں آگئی اور وہی دروازے پر ہی کھڑی ہوگئی۔
کچھ ہی دیر میں اس نے مین گیٹ پر زار و قطار رونے کی آوازیں سنی وہ مریم کی آواز تھی جو لاؤنج کے سرے پر ہی باپ سے لپٹ کر آہ و بکا کر رہی تھی۔ اس پر سے ہوتی مسکان کی نظر زوہیب پر مرکوز ہوگئی۔ جو بنا آواز اشک بار آنکھوں سے لڑکھڑا کر چلتا آیا اور اپنی مما کے لاش سے لپٹ کر بلک بلک کر بے آواز رونے لگا۔
مسکان آج 14 ماہ بعد اسے دیکھ رہی تھی اور 8 ماہ بعد سن رہی تھی۔ زوہیب میں ہوئی تبدیلیاں وہ واضح طور پر دیکھ سکتی تھی۔ بالوں کا سٹائل بدل دیا تھا شیو پوری رکھ لی تھی آنکھوں پر عینک لگ گیے تھے اور ویران آنکھیں۔
مسکان کے لئے زوہیب کو اس حال میں دیکھنا گوارہ نہیں ہو سکا گو کہ وہ اسے اپنے دل سے نکال چکی تھی پر کچھ تھا جو اسے تکلیف دے رہی تھی۔۔۔ شاید زوہیب کے آنسو کیونکہ اس نے زوہیب کو ہمیشہ ہنستے اور دوسروں کو ہنساتے دیکھا تھا۔ اج پہلی مرتبہ روتے دیکھ رہی تھی۔
وہ اپنے آپ کو قابو کرتے کومل کے کمرے میں آگئی اور کومل کی سوئی ہوئی 1 سالہ بیٹی ماہی کے سرہانے بیٹھ گئی۔
اس رات شکیل چاچو اور ان کی فیملی وہی رک گئے۔ حارث صاحب اپنی فیملی کے ساتھ گھر لوٹ آئے۔ سب سوگوار بیٹھے تھے کسی نے کھانا کھایا کسی نے نہیں۔
مسکان کے آنکھوں سے نیند کوسو دور تھی پر آج وجہ اس کا اپنا ڈیپریشن نہیں بلکہ زوہیب کا دُکھ تھا۔ وہ بیڈ پر سے اٹھ بیٹھی اور دراز سے نیند کی گولیاں نکال کر نگل لی۔
****************
زوہیب اپنے بیڈروم میں کھڑکی کے سامنے کھڑا سموکنگ کر رہا تھا۔ آنکھیں خشک ہوچکی تھی۔ ان کے گھر سب اپنے کمروں میں جا چکے تھے لیکن سویا کوئی نہیں تھا۔ گھر میں کسی فرد کے اضافہ ہونے سے جتنی رونق ہوتی ہے کسی کے چلے جانے سے اس سے بھی زیادہ ملال۔
عثمان کے ساتھ کومل تھی اور ڈیڈ کے پاس مریم اس وقت سب سے زیادہ اکیلا ایک زوہیب ہی تھا۔ جس تنہائی اور اندھیرے میں اسے اتنے مہینوں سے سکون ملتا تھا آج اچانک اسے خوف آرہا تھا۔
وہ کھڑکی سے ہٹا اور کمرے سے باہر آگیا۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا اور ڈیڈ کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ ڈیڈ اکیلے بیٹھے چھت کو تاک رہے تھے مریم اپنے بچوں کے پاس چلی گئی تھی۔ وہ جھٹ سے آیا اور ان کی گود میں سر چھپائے لیٹ گیا۔ اس کا دل بھر آنے لگا اور ڈیڈ اپنے آنسو چھپاتے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو دلاسہ دینے لگے۔
******************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...