یہ میری کتاب حیات ہے،
اسے دل کی آنکھ سے پڑھ ذرا،
میں ہوں ورق ورق تیرے سامنے، ترے روبرو، ترے آس پاس۔۔۔
تمہیں اس طرح پبلک پلیس پر بے صبر نہیں ہونا چاہئیے تھا دعا یہ گاؤں نہیں شہر ہے اور وہ دلاور خان وہ اپنے کئے قتل کا ہرجانہ دے چکا ہے اب دنیا کا کوئی قانون ہماری مدد نہیں کرے گا کیونکہ پنچائیت کے فیصلے پنچائیت خود لیتی ہے نہ تو کوئی نعوذبللہ مذہب جھٹلا سکتا ہے، نہ عدالت اور دلاور کے کیس کی پنچائیتی تم نے خود کی ہے۔۔۔
اب کیوں صبر نہیں کر رہی ہو۔۔ اس طرح مرد مار بن کر دلاور سے لڑ کر تم شاہ کمال کو واپس لے آؤگی؟؟۔۔
دعا نے چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ ہم لا نہیں سکتے ان کو مگر خود تو ان کے پاس جا سکتے ہیں۔ دعا کی بے بسی پر وہ ششد رہ گیا۔۔
خبردار جو ایسی بات منہ سے نکالی دعا۔۔ میں اپنی دعا کو کبھی ہارنے نہیں دوں گا زندگی صرف ایک شاہ کمال پر ختم نہیں ہوتی۔
“مگر ہماری تو کل کائنات ہی وہ تھے اب وہ نہیں رہے تو ہم کیوں کر زندہ ہیں”
ازلان نے لب بھینچے اور قدرے خفگی سے بولا “میں اور بابا کچھ نہیں ہیں، ہماری محبت کچھ نہیں ہے؟”
” تم نہیں سمجھ سکتے ماری اذیت، تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانتے ہم کس کرب سے دن رات گزارتے ہیں۔
میں نے محبت نہیں کی؟ ازلان نے اسے دیکھا
محبت کا کیا رشتہ ہوتا ہے؟ ازلان نے پوچھا، میں نے محبت کی ہے دعا۔
اپنی ماں سے تم سے اور بابا سائیں سے۔ تم تینوں سے بے حد بے حساب اور اس محبت کی چوٹی شاہ کمال کی محبت سے بھی بلند ہے۔۔ میں نہیں چاہتا تم اس کے نام پر گھٹ گھٹ کر مر جاؤ میں چاہتا تھا تم کچھ پڑھ لکھ کر قابل بن جاؤ ان تلفظوں کو سمجھ جاؤ جن کو سمجھنے میں تم آس پاس کی ہر چیز سے غافل ہو جاتی ہو ان لفظوں سے دوستی کر لو جن کو سمجھنے کے لئے تمہارے شاہ جی نے کبھی تمہاری مدد نہیں کی۔۔
ازلان ہم جو بھی پڑھ سکے انکی وجہ سے پڑھے ورنہ حویلی میں آج تک کسی خان زادی نے قلم کو چھو کر نہیں دیکھا۔۔ اور ہم نے مڈل پاس کر لیا۔۔
” مڈل کی کیا اہمیت ہے خان زادی تم جانتی ہو جس دلاور سے تم لڑنے گئیں تھیں وہ ڈاکٹر ہے بہت بڑے ہسپتال کو چلاتا ہے ہزاروں ڈاکٹر اسکی ناک کے نیچے کام کرتے ہیں۔۔ اور اسکی بہن اس نے ایم بی اے کیا ہے۔ تم بنا پڑھے ان سے مقابلہ کروگی تو ہار جاؤگی۔۔ اس سے بہتر ہے میں تمہاری کہیں شادی کردوں۔
ازلان نے اسے اکسایا۔۔
وہ ہوسپٹل دلاور کا ہے ؟ دعا نے چونک کر پوچھا۔۔ نہ نہیں ازلان نے نفی میں سر ہلایا۔۔ مگر اس وقت موسٹ سینئر وہی ہے جس کا وہ ہوسپٹل ہے وہ کبھی کبھار جاتا ہے۔۔
یہ سب تمہیں کیسے پتہ دعا نے چہرہ صاف کرتے چونک کر پوچھا۔۔
میں نے پتہ لگوایا تھا وہ بات گول کر گیا۔۔ وہ اسے نہیں بتا سکتا تھا شاہ کمال کے دھوکے کا نہ ہی دلاور سے دوستی کا یہ سب وہ برداشت نہ کر پاتی۔
“تو پھر تم پڑھ رہی ہو اب دعا؟” ازلان نے پوچھا۔ “ہم ضرور پڑھیں گے”۔ دعا نے عظم سے کہا۔
“پانی میں اترنا ہے تو مگر مچھ سے دوستی کرنی پڑے گی۔۔” ازلان نے مزید اکسایا۔۔۔
“ہم پڑھتے تو تھے مگر تمہاری بیوی نے ہماری سب کتابیں پھاڑ دیں اور ہمیں بہت مارا تھا۔” دعا نے شکوہ کناں لہجے میں کہا۔ “اور تم نے میری بیوی کے ڈر سے پڑھنا چھوڑ دیا جانتی ہو اس نے تمہیں اسے لئے مارا تاکہ تم اس سے زیادہ نہ پڑھ سکو۔۔۔”
“اب ہم پڑھیں گے بہت سارا” دعا نے پہلے سے زیادہ مظبوط لہجے میں کہا ۔۔۔”گڈ گرل” ازلان نے شکر کیا اس طرح اسکا دھیان بٹ جائے گا اور وہ منفی سوچوں سے نکل آئے گی۔۔۔۔
********
ٹن ٹن ٹن کی آواز دماغ پر ہتھوڑا بن کر برس رہی تھی۔۔ ڈاکٹر شان نے گہری نیند سے اٹھتے جا کر دروازہ کھولا اپارٹمنٹ کے باہر کھڑے لال بھبو ہوئے دلاور کو دیکھ کر چونک گیا۔۔ کیا ہوا سب خیریت ہے اندر آنے کا رستہ دیتے ڈاکٹر شان نے پوچھا۔۔۔
جب بنا جواب دئے دلاور سیدھا اسکے بیڈ روم میں گیا اور جوتوں سیمت وہیں دراز ہو گیا۔۔
جوتے تو اتار لو اور کیا ہوا تیرے گھر میں جگہ نہیں ہے کیا۔۔۔
گیٹ آؤٹ دلاور دھاڑا۔۔
یہ میرا گھر اور یہ کمرہ تو میرے ذاتی استعمال میں ہے۔۔ میں کیوں کر اور کہاں جاؤں شان نے پوچھا۔۔
جاتے ہو کے ہاتھ سے پکڑ کر نکالوں دلاور اٹھ کر بیٹھا سب نے مل کر دماغ چاٹ لیا ہے۔۔۔
میں پھنس چکا ہوں دو عورتوں کے درمیان میرے بھی بے غیرت دل کو پھدکنے کے لئے وہ خان زادی ہی ملی تھی۔ اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی آ گئی وہ چوٹ لگوا کر اور اسے دیکھو ہر وقت دعا دعا کے نام کی تسبیح کرتا ہے عجیب دل ہے میرا بھی آیا بھی تو میرے خون کی پیاسی دشمن پر۔۔۔
شان ہنستے ہوئے کہنے لگا تو یہ منہ پر سٹیمپ دعا بھابی سے لگوا کر آیا ہے۔۔
ہنسنا بند کر دلاور نے منہ پر ہاتھ رکھتے کہا اور اٹھ کر آئینہ دیکھا۔ یار اتنے لوگوں کے سامنے مارا ہے میرا تو سوچ کر خون کھول رہا ہے کہ میرے بے غیرت دل کو یہی ملی تھی لٹو ہونے کو؟ ایک لڑاکا عورت؟
بھول مت تو نے اسکے ایک گھٹنے کے شوہر پر سرے عام گولی چلائی تھی۔۔ شان کی یاد پر وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔۔۔
شان نے اسکے پاس بیٹھتے اسے دلاسہ دیا۔۔۔
مجھے لگتا ہے یہ محبت مجھے سزا ملی ہے۔ دلاور نے کہا۔
کیسی سزا تو نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔ شان کی گود میں سر رکھے دلاور نے وہ لمحہ یاد کیا۔۔۔
کون جیتا ہے زندگی اپنی!۔۔۔۔۔
ہر کسی پر کوئی مسلط ہے ۔۔۔۔۔۔
مجھے محبت کی وہ تلخ کلامی یاد ہے۔۔۔۔
جب بے آبرو کر کے محبت نے میرے ضمیر کو جگایا تھا۔۔۔!!!
دلاور سو گئے شان نے کسی سگھڑ بیوی کی طرح جھک کر پوچھا۔۔۔
نہیں مجھے نیند نہیں آتی اب وہ بڑبڑایا۔۔
یار اگر تو دعا بھابی کو سب سچ بتا دے گا تو ہو سکتا ہے وہ تجھ سے دوستی کر لیں اور پھر تو شادی کر لینا ان سے۔۔۔
میں اسے نہیں بتا سکتا وہ مغرور ہے اور غرور جو کبھی ٹوٹے تو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔۔
اتنا بھی غرور اچھا نہیں اس کا صرف رنگ ہی گورا ہے اور جو اس کے چہرے پہ جو دو تل ہیں بڑے بڑے اور ہاں ایک شہ رگ پر بھی تو تھا شان اپنے تبصرے پر مصروف تھا جب دلاور نے اسکی گود میں سر رکھے ہی اسکی گردن دبوچ لی۔۔۔
آہ۔ ہاہ۔ کیا کر رہا ہے جنگلی۔۔
تو نے اسے اتنے گھور کر دیکھا ہے چہرے تک تو ٹھیک تھا یہ تو شہ رگ تک کیسے پہنچ گیا۔۔ اور دعا نے چہرہ کیوں نہ چھپایا۔۔۔
شان گڑبڑا گیا چھوڑ یار میں تو دیور مطلب بھائی بن کر دیکھ رہا تھا تو میرا بھائی اور میری بھابھی ہیں نا وہ۔۔ شان نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔۔۔ اور وہ انکا چیک اپ کرنا تھا اس لئے ان کے بھائی نے چہرہ سامنے کردیا۔۔
دلاور نے اسے گھورا۔ کل میں بھی تمہارا بھائی بنتے اتنی ہی محبت اور گھور گھور کر شازیہ کو دیکھوں گا آخر کو میرے بھائی کی زندگی کا سوال ہے دلاور نے سر اسکی گود سے اٹھا کر قدرے زور سے اسکا شانہ تھپکا اور تکیے پر سر رکھتا بولا دروازہ بند کر کے جانا اور لائٹ بھی اوف کر دینا۔۔
گلا بھی دبا دوں شان یہ کہنے کی حسرت لئے لائٹ اوف کرتا واپس اسی کے پاس گر گیا۔۔۔
دلاور کی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر وہ ڈھٹائی سے بولا “میں نہیں سو سکتا یار اپنے بستر کے علاوہ کہیں جتنا مرضی مار لو۔۔”
شان کی بے بسی پر دلاور نے ہنسی دبا لی۔۔”آجا پھر میری پیاری بیوی” دلاور کی بات پر شان چلا اٹھا۔۔
*****
بھائی آپ مجھے معاف کیوں نہیں کر دیتے میرے ساتھ ہی تو سب برا ہوا ہے اب میرا بھائی بھی مجھے چھوڑ رہا ہے ادینہ کی سسکیوں پر دلاور کا دل پسیجنے لگا۔۔
تمہیں خان زادی پر بری نظر بھی نہیں ڈالنی چاہئیے تھی کجا کہ جان لیوا حملہ کرنا۔۔ ادی اس کے ساتھ بھی برا ہوا ہے تمہارا تو ہرجانہ ہوگیا مگر اسکا نہیں ہوا نا ہوسکے گا۔۔۔
آپ دو دن بعد گھر آئے ہیں اور اس دعا کی سائیڈ لے رہے ہیں کیا جادو کرتی ہے وہ سب پر جسے دیکھو ہر وقت دعا دعا دعا، ایک یہی لفظ رہ گیا ہے پہلے شاہ کمال پھر ازلان اور ڈاکٹر سارا بھی اب آپ روانی میں ادینہ کے منہ سے نکل گیا۔۔
تم سارا کو جانتی ہو؟
کون سارا؟ ادینہ سٹپٹا گئی۔ تم نے ابھی کہا نا ادی ڈاکٹر سارا وہ والی سارا۔۔
میں نے تو سارا نام لیا ہی نہیں اور یہ شاہ کمال سے تمہاری پہلے بات چیت تھی جو اس نے دعا کی بات کی؟
ایسا کچھ نہیں ہے بھائی ادینہ پلٹ گئی اس سے کوئی جواب نہ بن پایا۔
میں نے خود سنا ہے ادینہ تم نے سارا کا نام لیا ہے مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔۔
میں نے نہیں لیا ہر وقت میرے پیچھے مت پڑ جایا کریں۔
یہ کس لہجے میں مجھ سے بات کر رہی ہو ادینہ۔۔ دلاور کا لہجہ سخت سنجیدہ اور حیران کن تھا۔۔
آپ کو میری ہر بات میں کیڑے کیوں نظر آتے ہیں ادینہ نے پوچھا۔۔ ہر وقت یہ کیوں کر دیا وہ کیوں کر دیا وہاں کیوں گئی تھیں یہاں کیوں گئی تھیں پابندیوں سے تھک گئی ہوں جان چھوڑ دیں میری اب ادینہ نے ہاتھ جوڑے۔۔
بھائی ہوں تمہارا۔۔ تمہارا سرپرست تمہارا محافظ تمہیں منع نہیں کروں گا تو کسے منع کروں گا۔۔
اس دعا کو منع کریں نا جس نے شاہ کمال کو ازلان کو اور آپکو اپنے اشارے پر نچایا ہے مجھے تو اسکا کردار ہی اچھا نہیں لگتا جسے دیکھو وہی نظر آتی ہے۔۔
ادینہ بس کرو دلاور کی آواز اتنی اونچی تھی کہ لحظہ بھر کو ادینہ کانپ گئی۔۔۔
بس کرو مجھے سچ بتاؤ کیا شاہ کمال تم سے بات کرتا تھا اور سارا تمہیں کہاں ملی ؟ خدا کی قسم تم نے نہ بتایا تو آج میں خود کو بھی گولی مارلوں گا اور تمہیں بھی۔۔
کہتی ہے پھر جو دنیا کہے۔۔
*****
بھائی آپکا فون ہے ادینہ نے فون بجتے دیکھ کر کہا مگر دلاور شاور لینے میں دیر لگا رہا تھا ادینہ نے کال اٹھائی۔
ہیلو ہارٹ ڈاکٹر ایمرجنسی ہے ابھی آجاؤ۔۔
بھائی تو شاور لینے گئے ہیں ادینہ نے اطلاع دی۔۔
اوہ اوکے فائن وہ آتے ہیں تو انکو امیجئٹلی انفارم کر دینا۔۔سارا نے فون رکھنا چاہا۔
آپ ڈاکٹر ہیں ادینہ نے پوچھا؟
آہ ہاں سارا چونکی۔۔
میں آپ سے مل سکتی ہوں بھائی کو مت بتائیے گا پلیز۔
کیوں نہیں جب چاہو مل لو سارا حیران ہوئی مگر دلاور کی بہن کو منع نہیں کر پائی۔۔۔
آپ کو میں اپنے فون سے کال کروں گی ابھی بھائی آنے والے ہیں اللہ حافظ ادینہ نے فون بند کیا اور دلاور کے فون سے نمبر کاپی کرنے لگی۔ فون بند کرکے رکھتے ادینہ نے اپنی پیشانی پر چمکی چاندنی صاف کی اور کانپتے اپنے مومی ہاتھوں کو دیکھا۔۔
بھائی کسی کا فون تھا آپ کو جانا ہے ایمرجنسی میں ادینہ اطلاع دیتی اندر چلی گئی۔۔ کس کا ادی؟ دلاور نے پوچھا۔۔
پتہ نہیں میں نے بنا دیکھے اٹھایا ہے۔۔
فائن دلاور نے دھیان دئے بنا کہا اور اپنا فون چیک کیا۔۔۔
*******
میں آپ سے کب مل سکتی ہوں سارا؟
آپ کل آٹھ بجے مجھے او پی ڈی کے باہر مل لیجئے گا۔۔ سارا نے میسج کرکے فون رکھ دیا مگر اگلی صبح ساڑھے سات بجے ادینہ او پی ڈی کے باہر تھی جب آٹھ بجے کر پندرہ منٹ پر سارا آتی دکھائی دی لمبے انتظار کے بعد ابھی تک وہ امید کی کرن پر لٹکی تھی۔۔
سارا اسے لیتی اسٹاف روم کی طرف جانے لگی۔۔
آپ تو بہت پیاری ہیں دلاور نے اسے لئے آپ کو چھپا کر رکھا تھا سارا کے تبصرے پر ادینہ جھینپ گئی۔۔
دراصل مجھے ایک ہیلپ کی ضرورت ہے سارا آئی ہوپ آپ کر دیں گی چند یہاں وہاں کی باتوں کے بعد ادینہ نے کہا۔۔
شیور وائے ناٹ دلاور کی بہن میری بہن سارا نے اسے حوصلہ دیا۔۔
آپ بھائی سے تو بات نہیں کریں گی؟ ادینہ نے جھجھکتے کہا۔ بے فکر رہو۔۔۔ادینہ نے ساری بات سارا کو بتا دی۔ مجھے جھوٹی رپورٹ چاہئیے اس سے شاہ کمال کو مجھ سے نکاح کرنا پڑے گا۔۔۔۔
مگر یہ بہت خطر ناک ہے گناہ بھی ہے اور جرم بھی سارا نے تفکر سے کہا۔ تم دلاور سے بات کرو مے بی کہ وہ تمہاری ہیلپ کر سکے گاؤں میں تو ویسے بھی دو شادیاں عام بات ہے۔۔
مجھے دعا کے ساتھ سمجھوتا نہیں کرنا شاہ کمال مجھے چاہئیے ہر قیمت پر۔۔
مگر ادینہ یہ نا ممکن ہے میرا مشورہ یہی ہے کہ تم شاہ کمال والے کیس سے نکل آؤ اس میں ہر صورت تمہاری رسوائی ہے۔۔
آپ کے بھائی کو باہر جا کر پڑھنے کا شوق ہے نا اور اس کے لئے آپ اپنا گھر بیچ رہی ہیں؟ ادینہ کی غیر متوقع بات پر سارا چونک گئی۔۔
ہاں مگر تم کیسے جانتی ہو ادینہ مسکرائی۔۔ ہم گھر میں دو لوگ ہیں اور بات سے بات نکل کر پتہ چل جاتی ہے۔ واقعات یاد رہتے ہیں مگر جب انسان کو کسی اپنے مطلب کے انسان کی تلاش ہو تو تب نام بھی یاد رہتے ہیں۔۔ ادینہ نے کہتے بیگ سے بہت سارے زیور کی پوٹلی سامنے رکھی۔ انسان کے سب خواب پورے ہونے چاہئیے زندگی ایک بار ملتی ہے بار بار نہیں۔ سارا اسکی بات سمجھ گئی۔۔
مگر میں یہ نہیں کر سکتی یہ گناہ ہے سارا نے زیور دیکھتے کہا۔ ایک پل کو دل کیا ہاتھ بڑھا کر پکڑ لے یہی وقت تھا زندگی سنوارنے کا۔
ادینہ دلکشی سے مسکرائی اسکے مومی چہرے پر دلفہم تاثرات تھے۔
آپ پر بہت قرض ہیں ڈاکٹر سارا آپکے والد کی ساری جمع پونجی کا دیوالیہ ہوگیا آپکو ڈاکٹر بنانے میں چچ چچ اور آپ یہ صلہ دے رہی ہیں انکو؟ ادینہ نے بیگ سے نوٹ نکال کر سامنے رکھے۔
سوچ کر بتا دیجئیے گا ورنہ یہ کام تو دو ہزار میں کوئی بھی گلی محلے کی ڈاکٹر بھی کر دے گی۔۔۔ کل تک جواب دے دیجئیے گا۔۔
ادینہ نے سب کچھ اپنے پرس میں ڈالنا شروع کیا سارا کی پیشانی پر تفکر تھی حریض و لالچ سے زیادہ مجبوری، اسے قرض اتارنے تھے تو بھائی کے خواب بھی پورے کرنے تھے جو اگر وقت گزر جاتا تو تاعمر وہ ایک کسک بھری زندگی گزارتا۔
“مجھے منظور ہے سارا کو اپنی آواز کھائی سے آتی سنائی دی”
ادینہ کے مومی چہرے پر شاہ کمال کو پا لینے کا نشہ جھومنے لگا یہ منزل کی دوسری سیڑھی تھی۔ تیسری سیڑھی اسکی شادی والے دن رپورٹس دکھا کر اس سے نکاح کرنا تھا مگر دلاور کی غیرت جاگ اٹھی اور شاہ کمال بنا گناہ کے شہرے خاموشاں چل بسا۔۔
“نا ادی میری، نا ملی مجھے کوئی دعا”
“مجھے بادشاہت کرنی تھی حوروں کے دربار میں”
*********
دلاور کا تو حال تھا کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، وہ قاتل تھا بنا تصدیق کئے چند کاغذات کو پڑھ کر اور ایک نام سن کر۔۔۔
” میں نے آپکے ہوسپٹل سے رپورٹس اس لئے بنوائیں تاکہ آپ کہیں دوبارہ چیک اپ کے لئے مجھے نہ لے جائیں۔۔ میں کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔۔۔
” چلی جاؤ میرے سامنے سے ورنہ میں تمہیں شوٹ کردوں گا۔۔
بھائی مجھے معاف کردو ادینہ نے دلاور کا گھٹنہ پکڑا۔۔
گیٹ آؤٹ۔۔ دلاور نے ٹیبل پر ہاتھ مار کر ٹیبل توڑدیا۔۔ ادینہ ہرن کے بچے کی طرح کانپ اٹھی۔۔۔
چلی جاؤ ورنہ میں خود کو بھی مار دوں گا۔۔ وہ دھاڑا۔۔
چلی جاؤ تم، تم نے مجھ سے ایک بے گناہ کا قتل کروایا ہے اور ایک معصوم کی زندگی خراب کروا دی۔۔۔
تب بھی تم خوش نہ ہوئیں تو خاموشی سے ازلان کی زندگی خراب کردی تب کیوں نہ سچ بولا تب ہی بول دیتیں۔۔ چلی جاؤ مجھے شکل بھی دوبارہ نہیں دیکھنی تمہاری۔۔
تم صرف دعا کو مارنے کے لئے ازلان کے گھر گئیں۔۔
میں کیا جواب دوں گا ازلان کو کہاں ہے وہ وجود جس کی سیاہی دھونے کو دعا کی زندگی تباہ کی اور پھر اسکی۔۔
گیٹ آؤٹ وہ چیخا ادینہ شکستہ قدموں سے اوپر چلی گئی۔۔۔۔
دلاور نے ہوسپٹل میں اپنا ٹرمینش لیٹر دیا اور فرانس کی اگلی سیٹ بک کروالی وہ اس آب و ہوا میں مزید سانس نہیں لے سکتا تھا جہاں وہ اپنی محبت کی محبت کا قاتل ہو۔۔۔۔ ادینہ کی آہیں قسمیں اور دہائیاں بھی اسے روک نہ سکی۔۔۔
میں اس گھر میں تب ہی آؤں گا جب مجھے یقین ہو تم یہاں مجھے نہ ملو ادی۔۔ تمہیں دیکھتا ہوں تو ہر پل ہر لمحہ یہ احساس کچوکے لگاتا ہے کہ میں ایک بے گناہ کا قاتل ہوں۔۔ اور تم ایک بد کردار فریبی عورت، میری روح یہ سوچ کر کانپ جاتی ہے کہ تم میری بہن ہو اس لئے مجھے کبھی مت ڈھونڈنا نہ ہی مجھے یاد کرنا ہو سکے تو میرے جانے کے بعد خان زادی کو سب سچ بتا دینا۔۔۔ وہ اگر سر بھی مانگے تو اس بار میں اسے وہ بھی دوں گا اپنے ہاتھ سے اتار کر دلاور نے دعا کے نام میسج چھوڑا اور چلا گیا۔۔۔
ادینہ خالی خالی نظر سے خالی گھر کو گھورتی رہی صبح سے رات، رات سے دن ہو گیا مگر وہ ساکت وہیں بیٹھی رہی ایک بار پھر سے ڈھلتے سورج کی شعاع کا تعاقب کرتی وہ اپارٹمنٹ کی چھت پر گئی اور وہاں سے کود گئی۔۔ ادینہ اوندھے منہ پڑی تھی۔۔ خون کی ایک لمبی دھار بہہ رہی تھی۔۔ دیکھنے والوں کا اور چہ مگوئیاں کرنے والوں کا ہجوم تھا۔۔ وہ ساکت ہی رہی۔۔۔۔
********
7 Years Later۔۔۔۔
سفید گھیردار بے شکن بے داغ فراک میں، آدھے سر پر دوپٹہ ڈالے وہ خفا سی کھڑی تھی فون ہاتھ میں چل رہا تھا تو منہ میں کچھ بڑبڑا رہی تھی وہ آج بھی ویسی ہی تھی جیسی سات سال پہلے، نہ اسکی خوبصورتی ماند پڑی تھی نہ ہی عمر کا اس پر کوئی اثر ہوا تھا نہ ہی وہ اب خوش نصیب ہوئی تھی وہ آج بھی خالی دامن اور سبز قدم ہی تھی۔۔
اسی وقت اسکا فون بجا۔۔ ہم پوچھتے ہیں کہاں گیا وہ انسان، زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔۔
سات سال سے ایک انسان ڈھونڈ رہے ہو۔۔ کسی کام کے ہو تم لوگ؟ ہر مہینے بس پیسے دے دو۔ پیسے دے دو۔۔ کبھی کسی اچھی نیوز کے لئے بھی فون کردیا کرو۔ ہمیں ہر حال میں وہ انسان چاہئیے زندہ۔۔۔ اگر نہیں تو ہمیں کہہ دیں ہم کسی اور کو رکھ لیں گے۔۔
دعا نے جھلاتے فون بند کیا۔۔۔
ماما اوپر سے ایک بچی بھاگتے دعا کے پاس آئی۔۔ یہ دیکھو بابا کیا لائے ہیں۔
دھیان سے پری گر جاؤگی دعا نے اسے تیسری سیڑھی سے تھام لیا۔۔ اور گود میں بٹھاتے چوما دکھائیں بابا کیا لائے ہیں ہماری جان کے لئے؟
یہ آئی پیڈ۔۔ آئی پیڈ دیکھتے دعا چلائی۔۔ ازلان ازلان یہاں آنا زرا۔۔۔ یس کمنگ وہ ٹائی باندھتا اس تک آیا۔۔
یہ کیوں لائے ہو تم اس کے لئے؟جانتے ہو نہ تم یہ پڑھتی ہے، اب وہ ہر وقت گیمز میں لگی رہے گی۔۔
دعا نے گیم کھیلتی پری کی طرف اشارہ کیا۔۔ ازلان نے اسکی خفا ناک دبائی اور پری کو جھک کر پیار کیا۔۔
یہ اب تمہارا کام ہے۔ تم کیسے اسے ہینڈل کرتی ہو ازلان نے آنکھ دبائی۔۔ اور اسکے بال پیار سے بگاڑتے نیچے اتر گیا۔۔۔
موم کہاں ہیں آپکی؟ اٹھ گئیں؟؟۔۔یس مما پری نے جواب دیا۔ اوکے آپ بابا کے ساتھ جا کر نیچے بریک فاسٹ کریں دعا نے اسکی پونی ٹھیک کرتے کہا۔۔
ہم آپکی موم کو لاتے ہیں۔۔ ” اوکے “پری نے دعا کی طرح ناک سکوڑی۔
دعا حاکمانہ قدم اٹھاتی ازلان کے کمرے تک گئی۔۔۔
اور جوتے کی نوک سے دروازہ واہ کیا۔۔
سامنے پری کی ماں کھڑی تھی گلے میں چین پہنتے دعا کو دیکھ کر جلدی سے بیڈ پر رکھا دوپٹہ اٹھایا اور اپنے بھیگے بالوں والے سر پر رکھا۔۔۔اور نظر جھکائی۔۔۔
وقت دیکھا ہے تم نے مہارانی صاحبہ؟ جی وہ رات دیر سے سوئی تھی تو آنکھ ہی نہیں کھلی وہ پس مردہ سی بولی۔۔
پانچ بج کر پچاس منٹ ہو چکے ہیں۔۔ اور نفرت ہے ہمیں پانچ بجے کے بعد بستر توڑنے والوں سے دعا چلائی۔۔ پری کی ماں ڈر کر دو قدم پیچھے ہٹی۔۔
اگر دوبارہ ایسا کیا نہ تو دعا نے انگلی اٹھاتے کہا تو ملازمہ کے ساتھ سونا صبح جو ٹھوکر کھا کر اٹھو تو معلوم ہو اپنی اوقات۔۔۔
دعا نے وارننگ دے کر اسکے ہونٹ دیکھے جن پر ہلکی گلابی لپ اسٹک تھی۔۔ اتارو اسے اور یہ کیا پہنا ہے دعا نے چٹکی بھر کر اسکے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا یہ یہ تو ازلان نے دیا۔۔۔ وہ خوف زدہ ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آتا اس گھر میں صرف سفید رنگ پہن سکتے ہیں۔۔ پہلے دن آئی ہو جو سمجھانا پڑ رہا ہے۔۔۔
اتارو اسے ابھی اسی وقت پری کی ماں آنسو ضبط کرتی باتھروم میں گئی اور پرانے سفید لباس میں واپس آئی۔۔۔ یہاں دو مجھے دعا نے اسکا ہلکا گلابی سوٹ کھینچ لیا۔۔۔ اور ملازمہ کو آواز لگائی۔
جی خان زادی۔ وہ بھی ہانپتی آئی پکڑو اسے یہ تم پہن کر آؤ ابھی دعا نے آرڈر دیا۔۔۔
اور تم۔۔ دعا نے پری کی ماں کے چہرے کو تھوڑی سے دبوچہ آئندہ کوئی رنگ خوشبو کوئی سنگھار تمہارے قریب بھی نہ آئے ورنہ ساری دنیا کے سامنے بولی لگا دوں گی کرتی رہنا سنگھار دعا زہر خندہ بولی۔۔
اسے پیچھے کو گراتے وہ باہر گئی۔۔ ادینہ بستر پر گری بے آواز رو دی۔۔۔
کر لو جو کرنا ہے دعا تم حق رکھتی ہو میری تمام عمر پر، تمہاری زندگی کے رنگ چھینے تھے تو میں کون ہوتی ہوں رنگ پہننے والی کاش اس دن مجھے لوگوں نے نہ بچایا ہوتا نہ ہی میرے فون سے ازلان کو کسی نے کال کی ہوتی میں مرجاتی اور میری اذیت ختم ہو جاتی میرا بھائی بھی لوٹ آتا جس کے خون کی تم دن بہ دن بہت پیاسی ہوتی جارہی ہو۔۔۔ میں نے نیم بے ہوشی میں سچ نہ بولا ہوتا تو تم میرا یہ حال نہ کرتیں، شاہ کمال تو ایک ہی بار مرگیا تھا میں ہر روز بے گناہی کی موت مرتی ہوں بس فرق یہ ہے کہ سانس بھی چلتی ہے اور دل بھی دھڑکتا ہے۔۔ اے کاش میں اب ہی مرجاؤں تمہاری بھی اذیت ختم ہوگی اور میری بھی۔۔
باجی آپکو خان زادی بلا رہی ہیں ملازمہ نے اسے ہلایا۔۔ادینہ نے دیکھا ابھی کچھ دیر پہلے کا سوٹ اب ملازمہ کے تن پر تھا۔۔ سوٹ تو یہ بھی سفید تھا مگر اس پر گلابی شیڈ ڈل رہی تھی پری کے اسکول پہن کر جانے کو کوئی جوڑہ نہ تھا تو بہت کہنے کے بعد ازلان نے اس پر یہ مہربانی کی تھی۔۔ جو دعا نے فورا چھین لی۔۔۔ ویسے ہی جیسے اسکا شاہ کمال چھینا گیا تھا۔۔ آ رہی ہوں۔ ادینہ آنسو صاف کرتی نیچے گئی۔۔
*********************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...