وہ تیزی سے نیچے آیا ۔۔ لفٹ کا دروازہ کھلا تھا۔۔ وہ بلاک سے باہر نکلا۔۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا وہ تھوڑے فاصلے پر جا رہی تھی۔۔ وہ تیزی سے اسکی طرف بڑھا۔۔ لوگ ادھر ادھر جا رہے تھے۔ اسے ماحول کی چہل پہل کااحساس ہوا اس نے بمشکل اپنے آپ کو بھاگنے سے روکا۔۔ وہ اب کسی بلاک میں داخل ہو رہی تھی۔ داؤد کا دل کیا اپنا سر پھاڑ لے۔۔وہ اسکے کتنے قریب تھی اور اسنے ڈھونڈنے کی کوشش بھی نہیں کر سکا تھا۔۔ وہ اندر داخل ہوا وہ لفٹ کے انتظار میں کھڑی تھی۔۔ وہ اسکے پیچھے آگیا۔۔
اشک ۔۔
اسے پیچھے سے کسی نے پکارا۔۔وہ آواز۔۔ وہ اسے لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔۔ وہ پورے وجود سے لرز گئی۔۔
اشک۔۔
کسی نے دوبارہ پکارا تھا۔وہ وہم نہیں تھا۔۔اسے واقعی کوئی پکار رہا تھا۔۔ وہ آہستہ آہستہ مڑی۔۔ وہ اسے دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی۔۔ وہ شلوار کرتے میں ملبوس باشرع نوجوان تھا۔۔ اسکی نظریں اسکے حلیے میں اٹک گئیں۔۔
اشک یہ تم ہو نا؟
وہ ایک قدم آگے بڑھ آیا وہ تصدیق چاہ رہا تھا۔۔ اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا۔کہ وہ داؤد ہی تھا۔۔ وہ اسکی آنکھوں کارنگ پہچانتی تھی۔۔
داؤد ۔۔
اسکے لب پھڑپھڑائے۔۔داؤد کا دل اچھل پڑا۔۔وہ اسے پہچان گئی تھی۔۔
ہاں یہ میں ہوں۔۔ تمہارا داؤد ۔۔ تم کہاں چلی گئی تھی۔۔ مجھ سے بات کیوں نہیں کی تم۔۔
وہایک سانس میں بولتا گیا۔۔ اشک ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئے۔۔ دن کا ٹائم تھا کوئی بھی آسکتا تھا۔۔اسےکچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے۔۔
بتاؤ مجھے ۔۔ تم مجھ سے مل کر کیوں نہیں گئی۔۔ مجھ سے فون پر بات کیوں نہیں کی۔۔
وہ وحشت زدہ انداز میں سوال کر رہا تھا اور اشک کی آواز نہین نکل رہی تھی۔۔
داؤد پلیز لیو می الون۔۔ میں تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتی۔۔
اس نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔خوف سے اسے پسینے آرہے تھے۔۔ نقاب میں اس کے لیئے سانس لینا مشکل ہوگیا تھا۔۔وہ اب مزید لفٹ کا انتظار نہیں کر سکتی تھی۔۔ وہ تیزی سے سیڑہیوں کیطرف بھاگی۔۔اس بس وہا ں سے جانا تھا کسی طرح۔۔
اشک۔۔ تم مجھ ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔۔کیوں سزا دے رہی ہو مجھے۔۔
وہ سیڑھیوں تک آکر رک گیا۔۔وہ بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔۔ داؤد کو لگا وہ کوئی سنڈریلا ہے جو پرنس کے سوالوں سے بچ کر بھاگ رہی ہے۔۔وہ چاہتا تھا آگے بڑھے اور اسے روک لے ۔۔ اسے اپنے ساتھ لیکر کہیں گم ہوجائے۔۔ پھر کبھی اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دے۔۔ لیکن وہ بے بسی سے اسے دور جاتا دیکھ رہا تھا۔۔
آہ ۔۔
اشک بھاگتے ہوئے بری طرح گری۔۔اسکا عبایا اسکے پاؤں تلے آیا تھا۔۔اسنے دونوں ہاتھ آگے کر دیے۔۔ سیڑھیوں میں اسکی چوڑیاں ٹوٹ کر بکھر گئی تھیں۔۔اسکی کلائیوں سے خون نکلنے لگا تھا۔۔
اشک۔۔۔۔
وہ بے قراری سے چار چار سیڑھیاں پلانگتا ہوا اوپر آیا۔۔
پلیز۔۔۔ ہاتھ مت لگانا ۔۔۔ پلیز۔۔۔ چلے جاؤ یہاں سے۔۔
وہ وحشت زدہ انداز میں بولی۔۔ خوف سے اسکی گھٹی گھٹی آواز نکل رہی تھی۔۔داؤد کا آگے بڑھتا ہاتھ رک گیا۔۔وہ رہ رہی تھی۔۔ اسکی آنکھوں میں آنسو تھے ۔۔وہ جب پہلی دفعہ ملی تھی تب بھی ایسی ہی تھی۔۔ لیکن آج اسکے آنسوؤں سے داؤد کو تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔
اشک میں مسلمان ہوں۔۔ میں تمہیں چاہتا ہوں۔۔ میں کب سے ترس رہا ہوں تم سے ایک بار بات کرنے لیئے۔۔
اشک اٹھنے کی کو شش کر رہی تھی۔۔اسکے انداز پر چونکی۔۔ اسکے چہرے سے اسکی سچائی ظاہر تھی۔۔
کیا چاہتے ہو تم؟
وہ کھڑی ہو کر بولی۔۔ آنسوؤں سے اسکا نقاب گیلا ہو رہا تھا۔۔
میں محبت کرتا ہوں تم سے۔۔
جہان سکندر کے اقرار پر مرمرا کا سمندر ایک تھال کی صورت میں حیا سلیمان کے سر پر کیسے گرا تھا اشک کو سمجھ آگیا تھا۔۔ ناولز میں لکھیں باتیں صرف فکشن نہیں ہوتیں وہ واقعتا جذبات ہوتے ہیں۔۔سچے جذبات۔۔
وہ جھومنا چاہتی تھی۔۔ خوش ہونا چاہتی تھی۔۔ اسے بتانا چاہتی تھی کہ اس نے بھی اذیت سہی ہے اسکے بغیر۔۔ لیکن وہ اقرار نہیں کر سکتی تھی۔۔
میں انگیجڈ ہوں۔۔ اب دیر ہو گئی ہے۔۔
وہ اسے کوئی امید نہیں دینا چاہتی تھی۔۔ وہ اب ایک بار پھر اسے ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی۔۔
اور حلیمہ آنٹی اور افضال انکل میرے لیے محترم ہیں۔۔ میں انکے پر پوزل کا انکار کر کے انکا دل نہیں توڑ سکتی۔۔
وہ پوری ہمت جمع کر کے بول رہی تھی۔۔ آنسوؤں سے اسکی آواز رندھ رہی تھی۔۔ اسے لگ رہا تھا وہ اپنی پھانسی کا فرمان خود جاری کر رہی ہو۔۔
پلیز میرا پیچھا نہ کرو۔۔ میرے لیئے مسئلہ ہو جائے گا۔۔ خدا کاواسطہ۔۔
اس نے داؤد کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔۔ اسکے ہاتھ مہیندی اور خون سے رنگے ہوئے تھے۔۔داؤد اپنے جگہ ساکت ہوگیا۔۔ اسے لگا وہ سانس نہیں لے سکتا۔۔ اشک مڑی اور بھاگتے ہوئے اوپر چلی گئی۔۔داؤد لڑکھڑا کر رہ گیا۔۔اسے لگا اس نے خواب دیکھا ہے۔۔ بھیانک خواب۔۔
وہ حنان کی منگیتر تھی۔۔ حنان کی۔۔جسکے ہاتھ پر اس نے اسلام قبول کیا تھا۔۔ جس کے گھر وہ پچھلے ڈیرھ ماہ سے رہ رہا تھا۔۔
اس نے جھک کر ساری ٹوٹی ہوئی چوڑیاں چن لیں۔۔ اسے لگا وہ اپنی ذات کے ٹکڑے چن رہا ہے۔۔وہ سارے ٹکڑے چن کر بلاک سے باہر نکل آیا۔۔
حلیمہ آنٹی اور افضال انکل میرے لیئے محترم ہیں۔۔ میں انکار کر کے انکا دل نہیں توڑ سکتی۔۔
وہ بھی انکا دل نہیں توڑ سکتا تھا۔۔ اسکے لئے بھی وہ دونوں محترم تھے۔۔ انہوں نے کبھی اس میں اور اپنی اولاد میں فرق نہیں کیا تھا۔۔ اس کے بدن پر کپڑے تک انکی محبت کی نشانی تھے۔۔ اگر وہ برلن میں ہوتا اور وہ مسلم نہ ہوتی۔۔ تو وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔۔ اسکا ہاتھ پکڑ کر سب کے سامنے سے لے جاتا لیکن اب وہ یہ سب نہیں کر سکتا تھا۔۔ اب اسے رشتوں کے تقدس کا پاس رکھنا تھا۔۔انکا مان توٹنے سے بچانا تھا۔۔ وہ اپنی سوچوں میں گم بلاک سے بہت دور نکل آیا تھا۔۔ تھک کر وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔۔۔ اسے جین شدت سے یاد آئی ۔۔ اس نے غیر ارادی طور پر موبائل نکال کر کال کر دی۔۔ دوسری تیسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا۔۔
ہیلو۔۔
اسے جین کی آواز سنائی دی۔وہ کچھ نہیں بول سکا۔۔
ہیلو کون بات کر رہا ہے۔۔
جین پوچھ رہی تھی ترکش نمبر ہونے کی وجہ سے وہ پہچان نہیں پائی تھی۔۔
مام
اس نے بمشکل کہا۔۔
ڈیوڈ میرے بچے۔۔۔ تم کہاں چلے گئے ہو۔۔ میں اور تمہارے ڈیڈ تمہیں بہت مس کرتے ہیں۔۔ پلیز واپس آجاؤ۔۔
اس کے لہجے سے بے قرار ممتا ظاہر تھی۔۔ وہ رہ رہی تھی۔۔
میں بھی آپکو بہت مس کرتا ہوں مام۔۔اور ڈیڈ کو بھی۔۔
وہ آنسو روک رہا تھا۔۔
تو واپس آجاؤ نا۔۔ تم جیسے رہنا چاہتے ہو رہ لو لیکن خود کو ہم سے دور نہ کرو پلیز۔۔
میرے بچے۔۔
میں واپس آجاؤںگا مام۔۔ بہت جلد۔۔
وہ اسے یقین دلا رہا تھا۔۔
اپنا خیال رکھیئے گا مام۔۔ ڈیڈ کا بھی۔۔
تم بھی اپنا خیال رکھنا۔۔ ہم تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔
داؤد نے فون کاٹ دیا۔۔ اسے زیا دہ ضبط نپہیں تھا اس کے اندر۔۔
وہ کتنی ہی دیر وہاں بیٹھا رہا۔۔ اسکا ذہن بلکل خالی تھا۔۔ ارد گرد کی ہر آواز جیسے میوٹ ہو چکی تھی۔۔ ہر چیز کا رنگ اڑ گیا تھا۔۔ وہ بس تار کول کی سڑک کو تکے جارہا تھا۔۔ کافی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ حنان وغیرہ پریشان ہو رہے ہونگے۔۔ وہ مردہ قدموں سے اٹھ کر گھر چلا آیا۔۔ لاؤنج میں حنان اور حلیمہ بیگم بیٹھی ہوئی تھیں۔۔
کہاں چلے گئے تھے یار۔۔ آؤ سویاں کھاؤ۔۔ بڑے مزے کی ہیں۔۔
حنان اسے دیکھتے ساتھ بولا۔۔
نہیں آپ لوگ کھائیں۔۔ میں زرا سونا چاہتا ہوں۔۔
اس نے اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھائے۔۔
کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی۔۔
حلیمہ آنٹی نے فکر مندی سے پوچھا۔۔
نہیں امی بس سر میں درد ہے۔۔
وہ وہاں سے جانا چاہتا تھا۔۔
آپ آرام کرلو۔۔ میں دودھ اور میڈسن لاتی ہوں۔۔
حلیمہ بیگم اٹھتے ہوئے بولیں۔۔
نہیں امی۔۔ میں بس سونا چاہتا ہوں۔۔
اس نے جلدی سے کہا۔۔ پھر مزید کوئی بات کیئے بغیر کمرے میں آگیا۔۔ اسے ان لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے شرمندگی ہو رہی تھی۔۔ اپنے محسن کی ہونے والی سے محبت کرنا ہی اسکو اذیت میں مبتلا کر رہا تھا۔۔ اس اب رشتوں کی سمجھ آرہی تھی۔۔اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ جہاں رشتے ہوں احساس ہو وہاں ایک محبت کو پانے کے لیئے کئی محبتیں ٹھکرائیں نہیں جا سکتیں۔۔وہ جائے نماز پر آگیا۔۔ اسے اپنے رب سے راز و نیاز کرنا تھا۔۔ اسکے آنسو اسکی داڑھی میں جذب ہونے لگے۔۔ اسکی زبان خاموش تھی لیکن وہ جس سے بات کر رہا تھا وہ آنسوؤں کی زبان سمجھتا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سیدھا اپنے کمرے میں آئی۔۔ اس نے بے دردی سے اپنا نقاب کھینچ کر اتارا۔۔
وہ ڈیوڈ سے مل کر آئی تھی۔۔ نہیں بلکہ داؤد سے۔۔ اسکے داؤد سے۔۔ وہ مسلمان ہو چکا تھا۔۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا۔۔
اور وہ۔۔ وہ اس سے محبت کرتا تھا۔۔۔ بلکل اس کی طرح۔۔۔ لیکن وہ کسی اور کی منگیتر تھی۔۔
اس نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔ اب وہ گھٹنوں پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رہ رہی تھی۔۔اس کی عید برباد ہوگئی تھی۔۔ اسکی ہچکیاں بلند ہونے لگ گئی تھیں۔۔ اس سے سانس نہیں لیا جا رہا تھا۔۔روتے روتے اسکی آنکھیں سوج گئی تھیں۔۔ اسے ذیشان صاحب کے آںے کا احساس ہوا تو اسنے اپنے آپ پر قابو پایا۔۔
اشک بیٹا۔۔
جج۔۔ جی بابا۔۔آئی
وہ انکی آواز سن کر تیزی سے اٹھی۔تھوڑی دیر بعد وہ منہ دھو کر باہر نکلی۔۔
جی بابا۔۔
اس نے انکی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔وہ نہیں چاہتی تھی وہ اسکی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔۔
آج میں نے افضال صاحب کو دعوت دی ہے۔۔ وہ رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں گے۔۔ ذرا اہتمام کرلیں۔۔
ذیشان صاحب نے بتایا۔۔ اسکا حلق خشک ہوگیا۔۔ وہ بھی آئے گا ان کے ساتھ۔۔ وہ جانتی تھی وہ انہیں کے گھر رہ رہا ہے۔۔ اس دن تلاوت کی آواز اسی کی تھی۔۔۔ خوف سے اسکے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔
کوئی مسئلہ تو نہیں بیٹا۔۔
وہ اسے خا موش کھڑی دیکھ کر بولے۔۔
نہیں ۔۔ میں کر لوں گی۔۔
اس نے مرے ہوئے انداز میں کہا۔۔وہ کام میں جت گئی۔۔ اسے سھی طرح اپنے ہاتھوں اپنی محبت کا قتل کرنے پر ماتم کا موقع بھی نہیں ملا تھا اور وہ دوبارہ انکے گھر آرہا تھا۔۔وہ خوفزدہ تھی۔۔ جس شخص کو وہ باکو میں سوتا چھوڑ آئی تھی وہ ایک بار پھر اسکے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔۔
باکو کے دو دنوں کی وجہ سے وہ اب تک بے قرار تھی وہ مزید آگے آنے والے وقت کی تکلیف اور اذیت سے ڈر رہی تھی۔۔ شام تک وہ سب کچھ تیار کر چکی تھی۔۔ وہ اسکے گھر آرہا تھا۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ خوش ہو یا خوفزدہ ہو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حنان داؤد کے کمرے میں آیا تو وہ سویا ہوا تھا۔۔ اسکا چہرہ سرخ تھا حنان نے اسکا ماتھا چیک کیا تو وہ بخار میں تپ رہا تھا۔۔
داؤد اٹھو۔۔
وہ اسکے لئے دودھ اور دوائی لایا تھا۔۔
کیا ابت ہے حنان۔۔
اسکا سر پھٹ رہا تھا۔۔ اس نے بمشکل آنکھیں کھولیں۔۔
یہ میڈیسن کھا لو۔۔
داؤد نے چپ چاپ اسکے ہاتھ سے دوائی لے لی وہ اسکے خلو ص کو ٹھکرانا نہیں چاہتا تھا۔۔
تم نے دعوت پر نہیں جانا ذیشان صاحب کی۔۔
حنان نے سوال کیا۔۔ ان سے ملو یہ حنان کے ہونے والے سسر ہیں۔۔ میں انکے پر پوزل کا انکار نہیں کر سکتی۔۔
اسکے ذہن میں صبح والے واقعات گھوم گئے۔۔
نہیں آپ لوگ چلے جائیں میرے اندر ہمت نہیں ہے۔۔
داوڈ نے ناظریں چرائیں۔۔
کیا ہوا ہے بیٹا۔۔اچانک طبیعت کیوں خراب ہوگئی۔۔
افضال صاحب اسی وقت کمرے میں آئے تھے۔۔ وہ لاجواب ہوگیا۔۔
پتہ نہیں انکل۔۔
لگتا ہے بابا اسے روزوں کی عادت نہیں تھی پہلی دفعہ رکھے ہیں تو ایسا ہو گیا ہے۔۔
حنان نے اسکی مشکل آسان کی۔۔
ہاں ہو سکتا ہے۔۔ چلو بیٹا آپ آرام کرو۔۔
وہ دونوں اسے دودھ پلا کر چلے گئے۔۔ وہ اپنے تکلیف دہ خیالات کے ساتھ اکیلا رہ گیا۔۔
اسکا دل کر رہا تھا کہ آج رات اشک کھانے میں زہر ملا دے اور حنان مر جائے تو اسے اشک مل جائے۔۔
اگلے ہی لمحے اسے اپنے خیالات کے بارے میں پچھتاوا ہو رہا تھا۔۔ وہ اپنے بہترین دوست کے بارے میں کیا سوچ رہا تھا۔۔ دوائی کھانے سے اسکی حالت سنبھلی تو وہ اٹھ کر شاور لینے چلا گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...