(Last Updated On: )
” رات سے تمہارے ابو کو فون کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ مگر ان کا فون ہی نہیں مل رہا۔“ امی نے ناشتہ میرے سامنے رکھتے ہوۓ جھنجلاۓ ہوۓ لہجے میں کہا تو میں چونک گئ۔
” کیوں فون کر رہی ہیں آپ انہیں؟“
” تاکہ وہ اپنی ماں سے بات کر کے انہیں سمجھاۓ ۔۔۔۔۔۔ اور کس لیٔے کروں گی؟ جانے کس بات کی دشمنی نکال رہی ہیں وہ میرے میکے والوں سے۔ پہلے اس بات پر طعنے دے دے کر میرا جینا حرام کیا کہ بھائی نے میری کوئیی بیٹی نہیں لی اور اب جب وہ رشتہ مانگنے آرہے ہیں تو بھی ان کا اعتراض ۔۔۔۔۔۔ میرے لئے ارمان ٬ معید اور فرخ میں کوئیی فرق نہیں ہے۔ مگر اماں کو معید چھٹا ہوا بدمعاش نظر آتا ہے اور ارمان اور فرخ شہزادے ٬ ورنہ صرف نوکری ہی نہیں ہے ناں معید کے پاس ٬ صورت میں ٬ مزاج میں ان دونوں سے بڑھ کر ہے۔ فرخ کا تو دماغ ہی ساتویں آسمان سے نیچے نہیں اترتا اور ارمان الگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر خوش ہے۔ ان میں بس معید اور آفاق ہی ہیں ہنس مکھ اور ملنسار ۔۔۔۔۔۔ مگر اماں کو تو مجھے نیچا دکھانے کا موقع چاہیے۔ وہ اسے بھی میری ذلت قرار دے رہی ہیں کہ بھائی نے قابل بیٹے کو چھوڑ کر اپنے ناکارہ بیٹے کیلیٔے میری بیٹی کا ہاتھ مانگا۔“ امی دل کی بھڑاس نکال رہی تھیں۔ دادی کے سامنے تو وہ کچھ بول نہیں پاتی تھیں ٬ مگر بعد میں جلے دل کے پھپھولے پھوڑے بنا انہیں چین نہیں آتا تھا اور ایسے میں ان کی بہترین سامع میں ہی ہوتی تھی۔
” تو اب آپ کیا کریں گی؟“ ناشتے سے میرا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ سو چاۓ کا کپ اٹھا کر گرما گرم چاۓ حلق میں انڈیلی۔
” وہی تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں۔“ وہ ہاتھوں میں سر تھامے بیٹھی تھیں۔ میں اضطراب سے اپنی پیشانی سہلانے لگی۔ پتا نہیں امی طرف داری سے کام لیتے ہوۓ بھتیجے کے حق میں ہو گئ تھیں یا پھر دادی ہی بےجا ضد میں آکر زیادتی کر رہی تھیں۔ جو بھی تھا جان میری پھنسی تھی اور میں خود سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔
________________________________________
اس دن مامی اور ماموں دوپہر کے بعد آۓ تھے اور تب تک میں جلے پیر کی بلی کی طرح پورے گھر میں چکراتی پھری تھی۔ صبا کو فضول میں اپنے چھٹی کرنے کا افسوس ہوا تھا۔ اور آفاق جو ویسے تو دن میں پانچ، چھ چکر لگا جاتا تھا ٬ اس دن ایک بار بھی جھانک کر نہیں گیا تھا۔
مگر ان کے آنے کے تھوڑی دیر بعد وہ بھی آن وارد ہوا۔ آنکھوں میں شرارت لئے ٬ بتیسی نکالے۔
” صبح سے کہاں مرے ہوۓ تھے؟ اب خیال آیا ہے آنے کا؟“ میں اس وقت کچن میں تھی ٬ جب اس نے جھانکا اور اس کے چہرے پر چھائی معنی خیز مسکراہٹ نے مجھے لمحوں میں سلگا دیا۔
” لگتا ہے تم کافی بےتابی سے میرا انتظار کر رہی تھی۔“ وہ اندر آتے ہوۓ ہنسا۔ وہی جان جلانے والی ہنسی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی وہ دوبارہ بول اٹھا۔
” ویسے سوری! میں نے سوچا ہے ٬ اب میں تمہیں ” تم“ نہیں کہوں گا ۔۔۔۔۔۔ بھابھی بننے جا رہی ہو ناں! وہ بھی بڑی ٬ معید ۔۔۔۔۔ میری کھال کھنچوا لے گا۔“ وہ یوں پوز کر رہا تھا جیسے وہ واقعی معید سے بہت ڈرتا ہو۔
” تم نے آج تک معید کو کبھی بھائی جان کہا ہے جو اسے بھابھی کہو گے؟“ سنک کے سامنے کھڑی برتن دھوتی صبا اس کی بات پر دخل دیے بغیر نہ رہ سکی۔
” بکواس بند کرو صبا!“ میں نے ناگواری سے اسے ٹوکا۔ یہ موضوع مجھے بےزار کیے دے رہا تھا۔
” نیلی! تم شرما رہی ہو؟“ آفاق نے بغور مجھے دیکھا۔
” یہ تم پوچھ رہے ہو کہ بتا رہے ہو؟“ صبا نے حیرانی سے اس سے پوچھا۔
” نہیں ۔۔۔۔۔ میں پوچھ رہا تھا۔ اصل میں نیلی کبھی شرمائی نہیں ہے ناں تو اسے پتا بھی نہیں ہوگا کہ شرمایا کیسے جاتا ہے۔“ وہ میری طرف دیکھتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔ میں کوئیی ردعمل ظاہر کیے بغیر ٹرے میں چاۓ کے کپ سیٹ کرنے لگی۔
” صبا! یہ برتن چھوڑو اور آکر یہ چاۓ اندر لے جاؤ۔“ میں صبا سے مخاطب ہوئی۔
وہ سب لوگ دادی کے کمرے میں بیٹھے تھے جو کچن سے کافی ہٹ کر تھا۔ یہاں تک باتوں کی آواز تو نہیں آرہی تھی ٬ مگر مجھے پریشانی تھی کہ اندر پتا نہیں کیا صورتحال ہوگی۔ کل رات تو دادی بہت برہم تھیں۔ کہیں وہ انکار کیلیٔے بھی زیادہ سخت الفاظ نہ استعمال کر لیں۔ کہیں وہ ماموں اور مامی کی بےعزتی ہی نہ کر دیں۔ ان اندیشوں میں ایک امی کا خیال ہی تھا جو مجھے ذرا تسلی دے رہا تھا کہ وہ معاملہ سنبھال لیں گی۔
صبا شاید میری کیفیت سمجھ گئ تھی اسی لئے بنا کسی جرح کے آکر ٹرے لے گئ۔ آفاق بھی سنجیدہ ہو گیا۔
” انعمتہ کل جا رہی ہے۔“ تھوڑی دیر بعد اس نے بتایا تو میں چونک گئ۔
” اچھا!“
” نیلی!“ چند لمحوں بعد اس نے دوبارہ مجھے پکارا ٬ مگر اس بار اس کے لہجے میں بےچینی سی تھی۔
” کیا ہے؟“ میں تنگ سی ہو گئ۔
” تم خوش نہیں ہو۔“ وہ میرا چہرہ جانچ رہا تھا۔
” کس چیز سے؟“ میں نے بےتکا سا سوال کیا۔
” اس رشتے سے؟“ اس نے جواب دیا۔
” یہ رشتہ ابھی ہوا کہاں ہے؟“ میں نظریں چراتے ہوۓ دھلے ہوۓ برتن ریک میں لگانے لگی۔
” نیلی!“ اس کی آواز بلند ہوئی۔ مضطرب سا وہ میرے سامنے آیا۔ ” تمہارا اس بات سے کیا مطلب ہے؟“ وہ پر تشویش لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
” مجھے نہیں پتا۔“ میں چڑ گئ۔
” پھپھو انکار کرنے والی ہیں؟“ اس نے اندازہ لگانا چاہا۔
” میں نہیں جانتی۔“ میں اس کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔
” تو کیا جانتی ہو تم؟“ وہ اتنے زور سے بولا کہ میں بےاختیار اچھل گئ۔
” کوئیی وجہ تو ہوگی نا کہ تم اس طرح ۔۔۔۔۔۔۔“ وہ پتا نہیں کیا کہنا چاہ رہا تھا۔ میں اس کی پوری بات سنے بغیر برتن پٹخ کر باہر نکل آئی۔
________________________________________
دادی نے وہی کہا تھا ٬ جو وہ پہلے سے طے کر چکی تھیں۔ مامی بہت ناراض ہو کر گئ تھیں۔ گو کہ دادی نے پھر بھی ویسا ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا جسے سوچ سوچ کر میں اپنا آدھا خون جلا چکی تھی ٬ مگر پھر بھی انکار کی سبکی مامی کیلیٔے کچھ کم نہیں تھی اور میرا جو یہ خیال تھا کہ مجھے کوئیی فرق نہیں پڑتا۔ مجھے معید میں کوئیی دلچسپی نہیں ہے۔ اب زیاں کا احساس اتنا گہرا تھا کہ مجھے اپنا آپ خالی ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے کچھ کھو دیا تھا اور جو کھویا تھا ٬ وہ میرے لئے اتنا ضروری تھا کہ اس کے آگے باقی ہر چیز غیر اہم ہو گئ تھی۔ حتی کہ میرا اپنا وجود بھی۔
اور اس وقت کمرے میں اندھیرا کیے جب میں اپنے آپ سے بھی چھپنے کی کوشش کر رہی تھی۔ صبا کی آواز مجھے بلکل قریب سنائی دی۔
” نیلی! معید آیا ہے۔“ اس نے دھیرے سے میرا شانہ ہلایا تھا۔ مجھے اپنے جسم میں برقی لہریں دوڑتی محسوس ہوئیں۔ دوسرے ہی پل میں جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔
” کہاں ۔۔۔۔؟“
” شاید امی سے بات کرنے آیا ہے۔ مجھے لگتا ہے ٬ اس نے بہت برا مانا ہے اس بات کا۔“ اپنا دوپٹا اٹھا کر اوڑھتے ہوۓ میں نے برآمدے کی سمت دیکھا۔
” دادی بھی وہی ہیں؟“ میرے زہن میں یہ خدشہ سرسرایا تھا۔
” نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ معید امی کے کمرے میں ہے اور دادی کو ابھی اس کی آمد کا نہیں پتا۔“
میں اٹھ کر باہر آئی۔ ابھی دوپہر ڈھلی نہیں تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ دادی ابھی سو ہی رہی ہوں گی۔ میں سوچتے ہوۓ امی کے کمرے کے پاس آئی۔ مگر اندر داخل ہوتے ہوتے رک گئ۔ میں معید کا سامنا کیسے کروں گی۔ اب تو بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میرے دل نے بےاختیار مجھے روکا۔
” آپ نے انکار کیوں کیا پھپھو؟“ اس کی بھاری آواز کمرے کی حدود سے نکل کر میری سماعتوں تک پہنچی اور میرے پیروں میں زنجیر سی پڑ گئ۔ وہ انکار کی وجہ جاننے آیا تھا۔ اس کا مطلب اسے بات سے فرق پڑا تھا۔
” انکار میں نے نہیں کیا معید! میرے لئے تو سب سے بڑھ کر تم ہو ۔۔۔۔۔۔ یہ تو نیلی کی دادی نہیں چاہتیں کہ ۔۔۔۔۔۔“ امی بےچارگی سے بول اٹھیں۔
” تو آپ انہیں منا سکتی تھیں ناں۔ مجھے بیٹا مانا ہے آپ نے تو اپنے بیٹے کیلیٔے تو آپ انہیں کنوینس کر سکتی تھیں۔ مگر آپ ایسا کیوں کرتیں۔ میں فرخ نہیں تھا نا جو مجھے کوئیی فیور دیا جاتا یا کچھ سوچنے کی زحمت ہی کر لی جاتی۔“ اس کے تلخ لہجے میں عجیب سی چبھن تھی۔
” تم غلط سمجھ رہے ہو معید ۔۔۔۔۔۔۔ ایسی بات بلکل نہیں ہے۔“ امی کو یقینا“ اس کی بات دل پر لگی تھی۔
” مجھے افسوس انکار کا نہیں ہے پھپھو ۔۔۔۔۔ مجھے دکھ اپنی بےوقعتی کا ہے۔ میری جس بےکاری اور فراغت کو بنیاد بنا کر آپ نے ریجیکٹ کیا ہے ٬ وہ صرف اسی ہفتے تک ہی تھی۔ اگلے ہفتے سے میں اپنی جاب جوائن کرنے والا تھا اور آپ نے اس ایک ہفتے کے بدلے مجھ سے میری زندگی بھر کی خوشیاں چھین لیں۔“ وہ بےپناہ دل برداشتہ ہوا تھا اور یہ دکھ اس کی یہ تکلیف اس کے لہجے میں بھی اتر آئی تھی۔
اگر آپ لوگ رسمی طور پر بھی سوچنے کیلیٔے کچھ وقت لیتے تو کم ازکم یہ تو جان ہی لیتے کہ میں اتنا بھی ناکارہ نہیں ہوں۔ مگر اس طرح ۔۔۔۔۔ دو ٹوک انکار ۔۔۔۔۔ وہ بھی امی ابو کے منہ پر۔“ تاسف سے اس کا لہجہ دھیما پڑا تھا۔ مجھے اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔ امی اس لمحے بلکل خاموش تھیں۔ ان کے پاس کہنے کیلئے رہ بھی کیا گیا تھا۔
” ایم سوری پھپھو۔“ چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا۔ ” میں آپ سے اس طرح بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے معاف کر دیجئیے اگر آپ میری باتوں سے ہرٹ ہوئیں ہیں تو ۔۔۔۔۔۔“
وہ دھیرے سے کہہ کر باہر نکلا تھا اور میں جو دروازے کے پاس ہی کھڑی تھی ٬ اس کے اچانک نکلنے پر ہٹ بھی نہ سکی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر رکا تھا اور ۔۔۔۔۔۔ میری دھڑکنیں اسے دیکھ کر مدھم ہو گئ تھیں۔
آنکھوں میں بےپناہ خفگی سمیٹے ٬ چہرے پر بےتحاشا سنجیدگی لئے ۔۔۔۔۔ اس کے ناراض سے چہرے اور تنے ہوۓ خوبصورت نقوش ہر نظر پڑتے ہی مجھے اپنے خالی دل میں روشنی سی بھرتی محسوس ہوئی۔ اس کی ایک جھلک نے ہی میرا من اجال سا دیا تھا۔ ساعت بھر کیلیٔے آنکھیں بند کر کے کھولتے ہوۓ نظروں نے اس کے ہونے کا یقین پاگل دل کو دلایا تھا۔
اس کی آنکھوں میں حیرت سی امڈی تھی ٬ مگر دوسرے ہی لمحے سر جھٹکتے ہوۓ وہ تیزی سے میرے پاس سے ہو کر گزر گیا اور میں اس کے قدموں کی دھمک سنتے سلگتے وجود کے ساتھ وہیں بیٹھ کر ان مٹی زدہ جوتوں کے نشان پر ہاتھ پھیرنے لگی جس پر کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا۔
آج فضا میں عجیب سا حبس تھا۔ ہوا بند تھی اور گٹھن ایسی کہ سانس تک لینا مشکل ہو رہا تھا۔ اسی گھٹن سے گھبرا کر میں نے پانی کا پائپ لگا کر صحن دھویا۔ کیاریاں پودے نہلاۓ۔ خود بھی بھیگی۔ دیواروں تک کو بھگو دیا۔
” نیلی کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ پڑوسیوں پر بن بادل برسات کرنے کا ارادہ ہے کیا ۔۔۔۔۔۔؟“
سامنے کی دیوار پر پانی برساتے ہوۓ مجھے اپنی پشت پر آفاق کی آواز سنائی دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا وہ دروازے میں کھڑا تھا اور ساتھ میں انعمتہ بھی تھی۔
میں مسکرائی اور پائپ ایک طرف رکھ کر میں اس کے پاس چلی آئی۔
” آؤ ناں انعمتہ ۔۔۔۔۔۔۔ کھڑی کیوں ہو۔“ میں نے مصافحہ کیلیٔے اس کا ہاتھ تھاما۔
” میں تمہارا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ تم آئی نہیں۔“ اندر آتے ہوۓ وہ سادہ سے لہجے میں بولی۔ انداز میں کوئیی شکوہ نہیں تھا ٬ پھر بھی میں شرمندہ سی ہو گئ۔
آفاق نے مجھے بتایا تو تھا کہ وہ جاۓ گی۔ مگر مجھ میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ جا کر مامی کا سامنا کرتی۔
” میں آنے ہی والی تھی مگر ۔۔۔۔۔“ پانی کی موٹر بند کرتے ہوۓ میں کوئیی بہانا سوچنے لگی۔
” اجازت نہیں ملی ہوگی۔“ آفاق اپنے جوتے اتارتے ہوۓ طنزیہ لہجے میں بولا۔
” نہیں ۔۔۔۔۔۔ اجازت کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے وہاں آنے سے کون روکے گا۔ اصل میں مجھے ٹائم ہی نہیں ملا۔“ میں جلدی سے بول اٹھی۔
” کوئیی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔ تم نہیں آئی تو میں آگئی۔“ وہ دھیرے سے مسکرائی۔ ” آنٹی اور صبا کہاں ہیں ۔۔۔۔؟“
” امی کچھ دیر پہلے ہی گئ ہیں چھوٹی خالہ کے ہاں ۔۔۔۔۔ اور صبا دادی کے کمرے میں ہے ۔۔۔۔۔۔آؤ۔“ میں اسے ساتھ لئے دادی کے کمرے کی طرف چلی آئی تھی۔
” انعمتہ تم آرہی تھی تو ۔۔۔۔۔۔ مامی نے کچھ کہا تو نہیں؟“
تھوڑی دیر بعد جب صبا چاۓ بنانے اور دادی وضو کرنے کیلیٔے اٹھیں تو میں نے جھجکتے ہوۓ دھیرے سے پوچھا۔
” نہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھلا کیوں مجھے کچھ کہتیں؟“ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔
” نہیں ۔۔۔۔۔ میں نے سوچا شاید ۔۔۔۔۔“ میں کہتے کہتے چپ ہوئی۔
تم نے سوچا کہ وہ تمہارے گھر والوں سے اتنی خفا ہوں گی کہ مجھے بھی آنے سے منع کر دیں گی؟“ انعمتہ نے خود ہی میری بات پوری کر دی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہوں۔
” ایک بات پوچھوں نیلی ۔۔۔۔۔۔! تم نے انکار کیوں کیا؟“ وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ سوال کر رہی تھی۔
” انکار میں نے نہیں کیا۔ انکار تو ۔۔۔۔۔“
” یعنی تم راضی تھی؟“ اس نے میری بات کاٹی۔
” مجھ سے کسی نے میری مرضی نہیں پوچھی تھی انعمتہ۔“
” مگر یہ تمہاری زندگی کا فیصلہ تھا اور تمہیں بیچ میں بولنا چاہیے تھا۔ اگر تم واقعی معید میں انٹرسٹڈ تھی تو۔“ وہ انجانے میں مجھے سوئیاں چبھو رہی تھی۔ میرا احساس زیاں بڑھنے لگا۔
” کاش! مجھے تب ہی یہ بات پتا چل جاتی۔“ میرے دل سے ہوک اٹھی۔
” پتا ہے نیلی! شروع شروع میں مجھے یہی لگا تھا کہ تم دونوں ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو اور مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ تم لوگ معید کے رشتے کو اس طرح ریجیکٹ بھی کر سکتے ہو۔ معید کی نوکری نہیں تھی تو یہ کوئیی اتنا بڑا ایشو نہیں تھا۔ آج نہیں تو کل اسے مل ہی جاتی ۔۔۔۔۔ اور مل بھی گئ۔ رشتے داری میں ایسی باتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔۔۔۔۔ مگر مجھے زیادہ حیرت تم پر ہو رہی ہے۔ تم چپ رہی ٬ تمہیں کوئیی فرق نہیں پڑا اور تم اب بھی بہت خوش ہو۔“
” میں خوش نہیں ہوں۔“ میں بےاختیار بول اٹھی۔ ” لیکن میں کیا کر سکتی ہوں؟“ میرے لہجے میں بےبسی در آئی۔ اس نے ایک گہری سانس لی۔
” تم ہی کچھ کر سکتی ہو نیلی ۔۔۔۔۔۔۔ اگر تمہاری جگہ میں ہوتی تو ۔۔۔۔۔۔۔“
” میری جگہ تم ہوتی تو بولتی؟“ میں اس کی بات پوری ہونے کا انتظار کیے بغیر ہی بول پڑی۔
یقینا“ بولتی اور بولوں گی۔ خالہ اگلے ہفتے ہمارے گھر آرہی ہیں۔ انہوں نے مجھ سے تو کچھ نہیں کہا ٬ مگر میں جانتی ہوں ان کے آنے کا مقصد ۔۔۔۔۔ اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ فرخ کسی اور کو پسند کرتا ہے۔ اسی لئے میں تمہاری طرح چپ رہنے کی بےوقوفی نہیں کرونگی۔“ وہ مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی۔ میں حیرت سے کتنی دیر تو اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
” تم انکار کرو گی؟“ میں نے بےیقینی سے دریافت کیا۔
” ظاہر ہے ۔۔۔۔۔۔ ان چاہا بن کر کسی پر عمر بھر مسلط ہونے کی اذیت اور تکلیف سہنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ میں اچھے مستقبل کی محض موہوم سی امید پر اپنی پوری زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتی۔ بھلا فرخ میں ایسا کیا ہے ٬ جو مجھے کسی اور میں نہیں مل سکتا ۔۔۔۔۔ میں بہت ہی عجیب فطرت کی لڑکی ہوں نیلی ۔۔۔۔۔ مجھے ہر چیز ان چھوئی اور کوری چاہیے ۔۔۔۔۔۔ پھر جیون ساتھی کے معاملے میں ٬ میں کوئیی سمجھوتا کیسے کر سکتی ہوں ۔۔۔۔۔ ایک ایسے شخص کا انتخاب کیسے کر سکتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ جس کے دل پر مجھ سے پہلے کسی اور کی چھاپ ہو۔“
” ہاں ۔۔۔۔ ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔“ میں نے سر ہلایا۔ ” بھلا فرخ میں ایسا کیا ہے ٬ جو تمہیں کسی اور میں نہیں مل سکتا۔ تم تو اتنی اچھی ہو کہ تمہیں تو کوئیی اپنے دل کی پوری خوشی ٬ اپنی اولین خواہش سمجھ کر اپنی زندگی میں شامل کرے گا۔“
” مگر تم تو واقعی میں اتنی لکی ہو نیلی ۔۔۔۔۔ تم تو سچ مچ کسی کا پہلا پیار ٬ کسی کی پہلی خواہش ہو۔ پھر تم کیوں اسے اپنے ہی ہاتھوں سے کھونے جا رہی ہو؟“ وہ میرے ہاتھ تھام کر بےتاب سی کہنے لگی۔ ” معید بہ ظاہر کتنا ہی لاابالی کیوں نہ نظر آتا ہو ٬ مگر میں نے اس کی آنکھوں میں جو جذبے تمہارے لئے دیکھے ہیں ٬ وہ اتنے بےمول ہرگز نہیں ہیں کہ تم اسے اس طرح ٹھکرا دو۔ سچ کہنا نیلی! کیا تمہیں بلکل کچھ محسوس نہیں ہو رہا کہ تم کتنی بڑی غلطی کر رہی ہو؟“
” ہاں ۔۔۔۔۔ ہو رہا ہے۔“ میرا دل بےاختیار چلا اٹھا۔ ” مجھ سے غلطی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ میں معید کو کھونا نہیں چاہتی ٬ کیونکہ میں جانتی ہوں ٬ جو مجھے معید سے مل سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے کسی سے نہیں مل سکتا ۔۔۔۔۔۔ چاہے پوری دنیا ڈھونڈ لوں تو بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ معید جیسا کوئیی نہیں ۔۔۔۔۔ معید جیسا کوئیی ہو بھی نہیں سکتا۔“
کتنی عجیب بات تھی یہ وہی معید تھا ٬ جسے میں نے کبھی قابل توجہ نہ جانا۔ اس کے خوش لباس اور رکھ رکھاؤ والے بھائیوں کے مقابلے میں اسے اتنی اہمیت بھی نہیں دی کہ اگر کبھی میرا دل مجھے اس کی طرف سے کوئیی سگنل دینے کی کوشش بھی کرتا تو میں ان سنا کر دیتی۔ کیونکہ مجھے اس کے بارے میں سوچنا ہی نہیں تھا۔ میں کوئیی حسینہ عالم نہیں تھی کہ جو مجھے دیکھتا ، میرا شیدائی ہو جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پہلے ارمان میری خواہش کرتا اور پھر فرخ ۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ معید کی نظریں تھیں۔ یہ معید کے جذبے تھے ٬ جس نے مجھے اتنا خاص بنا دیا کہ آج انعمتہ مجھے خوش قسمت قرار دے رہی تھی۔ اگر میں اسے نہ ملتی تو وہ کنوارا نہ رہتا۔ کوئیی بھی نہیں رہتا۔ اسے بھی کوئیی مل جاتی۔ شاید مجھ سے زیادہ اچھی۔ مگر نقصان میرا ہوتا۔ کیونکہ یہ محبت کا معاملہ تھا اور محبت کا نقصان ۔۔۔۔۔ پھر صرف محبت کا ہی نہیں رہتا ٬ زندگی کا نقصان بن جاتا ہے۔ میں نے سر اٹھا کر انعمتہ کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولی۔
” انعمتہ! میرا ایک کام کرو گی؟“
” ہاں! بو لو ناں۔“ وہ جلدی سے کہہ اٹھی۔
” معید سے کہنا۔ ایک بار پھر مامی کو یہاں آنے کی زحمت دے دے۔ اس بار انہیں مایوسی نہیں ہوگی۔“
میرا لہجہ مضبوط تھا اور محض ایک لمحے میں کیا گیا میرا یہ فیصلہ اٹل ۔۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں خوشگوار سی حیرت پھیلی تھی اور اس نے بےاختیار اثبات میں سر ہلا دیا۔
________________________________________
” آفاق! اس بار تصویریں ذرا ڈھنگ کی کھینچنا۔ نبیلہ کی تصویریں کیسی لی تھیں تم نے۔ پتا ہے ایک میں وہ روتی ہوئی لگ رہی تھی۔ ایک میں سوتی ہوئی اور ایک میں جماہی لیتی ہوئی۔“ تیز لہجے میں کہتے ہوۓ صبا کی آواز اتنی بلند تھی کہ مجھے اپنے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوۓ۔ وہ میرے بلکل قریب ہی تو بیٹھی تھی ٬ بلکہ ایک وہ ہی نہیں ٬ امی ٬ دادی ٬ مامی اور خاندان کے سب ہی لوگ ہمارے گھر کے اس چھوٹے سے لاؤنج میں میری منگنی کی اس سادہ تقریب کو پررونق بنانے کیلیٔے میرے آس پاس ہی موجود تھے۔
تھوڑی دیر پہلے ہی مامی نے مجھے معید کے نام کی انگوٹھی پہنائی تھی اور اب وقفے وقفے سے وہ مجھے بہت محبت بھرے انداز میں اپنے ساتھ لپٹا رہی تھیں۔ نا پسند تو خیر اپنوں نے مجھے کبھی بھی نہیں کیا تھا ٬ مگر اب اس نئے نئے بننے والے ساس بہو کے رشتے کی مٹھاس ان کے ہر ہر انداز سے جھلک رہی تھی اور میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر رہی تھی۔
معید آج بھی حاضر نہیں تھا ٬ حالانکہ باقی سب ہی موجود تھے ٬ مگر وہ ہمیشہ کی طرح نجانے کہاں غائب تھا۔
” نیلی! ذرا مسکرانے کی زحمت تو کر لو۔ تم تو آج بھی اتنے غصے میں لگ رہی ہو ٬ جیسے اپنی نہیں ٬ کسی اور کی منگنی میں شرکت کرنے آئی ہو۔“ آفاق کی شریر آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ میں نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ اسے گھورنے کی کوشش کی اور اسی وقت اس نے کھٹ سے تصویر کھینچ لی۔
” یہ تصویر بڑی زبردست آۓ گی۔“ وہ ہنسا۔
” مجھے پتا تھا۔ تم یہی کرو گے۔ لاؤ! یہ کیمرا مجھے دو۔“ صبا نے غصے سے اٹھ کر اس کے ہاتھ سے کیمرا چھینا۔ ” اب میں تصویریں کھینچوں گی اور ۔۔۔۔۔ مامی! یہ معید کہاں ہے۔ کیا اسے یہ بھی بھول گیا کہ آج اس کی منگنی ہے؟“ اب کے وہ مامی سے مخاطب ہوئی اور باقی سب کو بھی جیسے خیال آیا۔
” ہاں ۔۔۔۔۔۔ کہاں ہے معید؟“ چھوٹی مامی نے پوچھا۔
” پتا نہیں ۔۔۔۔۔ میں نے فون کر کے آنے کیلیٔے کہا تو تھا۔ شاید آنے والا ہو۔“ فرخ نے بتایا۔
” یہ کیا بات ہوئی۔ شاید آنے والا ہو۔ اسے ساتھ لے کر آنا چاہیے تھا ناں“ دادی کو غصہ آیا۔ وہ ویسے بھی ابھی تک روٹھی روٹھی سی تھیں۔
” آپ تو جانتی ہیں اماں ۔۔۔۔۔ وہ گھر میں ٹکتا کہاں ہے۔ صبح میں نے اسے گھر پر رہنے کیلیٔے کہا تو تھا مگر اب دیکھیں۔“ مامی کچھ شرمندگی سے دھیمے لہجے میں بولیں۔
مجھے اپنے دل میں بےچینی کی لہر سی اٹھتی محسوس ہوئی۔ میں نے اسے کئ دن سے نہیں دیکھا تھا۔ میں اسے اس کی ناراضی قرار دے کر تشویش میں بھی مبتلا ہو جاتی ٬ اگر مامی کی دوبارہ آمد نہ ہوتی۔ میں مطمئن ہو گئ تھی کہ انعمتہ کے ذریعے اس تک پہنچائی گئ میری بات اس نے رکھ لی تھی۔ وہ خفا نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو مامی نہ آتیں۔ مگر اب اس اہم موقع پر اس کی غیر موجودگی نے مجھے پھر سے واہموں میں دھکیل دیا تھا۔ میں نے بےچینی سے پہلو بدلتے ہوۓ اردگرد دیکھا تھا۔
سب ہی موجود تھے مگر وہ ۔۔۔۔۔۔
” السلام علیکم!“ اسی پل دروازے سے ابھرنے والی اس کی بلند بھاری آواز مجھے بھرپور طریقے سے چونکا گئ۔ میں نے بےاختیار دروازے کی طرف دیکھا۔ اس بات سے بےپرواہ کہ میں جو اتنی دیر سے ایک شرمیلی لڑکی بن کر بیٹھی تھی۔ اب میری اس بے باقی پر یہ لوگ کیا سوچیں گے۔
” سوری! مجھے کچھ دیر ہو گئ۔“ نادم لہجے میں کہتے ہوۓ اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرے۔
” بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی دیر ہو گئ۔“ اب اس کی نظر میرے چہرے پر پڑی تھی اور میرے انگوٹھی والے ہاتھ پر۔
” نہیں! ابھی اتنی دیر بھی نہیں ہوئی۔ بارات لے جانی تو ابھی باقی ہے۔“ فرخ نے طنز کیا تھا۔
” ناں ۔۔۔۔۔ میں نے تم سے کہا نہیں تھا گھر پر رہنے کیلیٔے ۔۔۔۔۔ یہ کوئیی وقت ہے آنے کا۔“ مامی کا غصہ اسے دیکھ کر عود کر آیا۔
” میں تو ایک گھنٹے پہلے ہی آچکا تھا ٬ یہ تو تیار ہونے میں ہی اتنی دیر لگ گئ۔“
” جی ہاں! انہیں تیار ہونے میں اتنی ہی دیر لگتی ہے۔ کبھی کبھار ہی تو اس طرح تیار ہوتے ہیں ہمارے بھائی۔“ آفاق بھی پیچھے نہ رہا۔ ہنس کر کہتے ہوۓ اس نے نک سک سے تیار معید پر چوٹ کی۔ وہ بنا کچھ کہے مسکرا دیا۔
پھر وہ میرے قریب بیٹھا تو اس کے کلون کی دلفریب مہک میری سانسوں میں اتر کر میرے دل کو ترو تازگی بخش گئ۔
ایک گہری سانس لیتے ہوۓ میں نے ذرا سا گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ لائٹ براؤن کرتا شلوار میں ملبوس وہ اتنا وجیہہ لگ رہا تھا کہ میرا جی چاہا ٬ میں اسے دیکھتی رہوں۔ خلاف معمول آج اس نے شیو بنائی ہوئی تھی۔ مگر ہونٹوں کے اوپر ہلکا ہلکا نیلا رواں آج بھی موجود تھا اور بےحد بھلا لگ رہا تھا۔ اس کی گھنی مڑی ہوئی پلکوں والی بےحد گہری آنکھیں ٬ میری آنکھوں سے ملتے ہی مسکرا دی تھیں۔ میں نے گڑبڑا کر نظریں جھکا لیں۔
اس کے بیٹھتے ہی مامی نے اس کے منہ میں مٹھائی ٹھونسی۔ آفاق کھٹا کھٹ تصویریں لینے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ اور ذرا دیر میں جب سب ہی اپنی اپنی باتوں میں مصروف ہوۓ اور ہمارا چھوٹا سا لاؤنج مختلف آوازوں سے گونجنے لگا ٬ صبا چاۓ سرو کرنے لگی۔ میں نے دھیرے سے اس سے پوچھا۔
” تھے کہاں اتنی دیر سے؟“ وہ چونکا۔
” ابھی سے بیویوں والی تفتیش شروع ۔۔۔۔۔ منگنی والا دن ہے یار ۔۔۔۔۔ آج تو تھوڑا شرما لو۔“
” مجھے لگا تھا کہ شاید تم ابھی تک خفا ہو۔“ میں اس کی بات ان سنی کرتے ہوۓ قدرے ہچکچا کر بولی۔
” کس بات پر؟“ وہ جو صوفے کی پشت سے ٹیک لگا چکا تھا۔ سیدھا ہو بیٹھا۔ ” جس بات پر خفا تھا ٬ جب وہ بات ہی نہیں رہی تو اسے دل میں رکھ کر میں اپنا آج کا اتنا خوبصورت دن کیوں خراب کرتا؟“
” اس دن کے بعد سے تم آۓ نہیں تھے ناں! اسی لئے میں نے انعمتہ سے تم سے بات کرنے کیلیٔے کہا اور ۔۔۔۔۔۔“ اضطرابی لہجے میں کہتے ہوۓ میں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
” اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ تمہارا پیغام ملنے کے بعد ہی امی یہاں آئی ہیں تو میرے خیال میں مجھے تمہاری یہ غلط فہمی دور کر دینی چاہیے۔“ سنجیدگی سے کہتا وہ مجھے حیران کر گیا۔
” کیا مطلب؟“
” مطلب یہ کہ اس سے مجھے تمہارے دل کی بات تو ضرور پتا چل گئ ٬ لیکن اگر تم ایسا نہ بھی کرتی تو بھی میں اتنی آسانی سے تمہاری جان نہیں چھوڑنے والا تھا۔ امی کو بہت غصہ تھا ٬ اسی لئے انہیں منانے میں تھوڑی دیر ہو گئ مجھے۔ مگر میرے زہن میں کبھی ایک لمحے کیلیٔے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ مجھے تمہاری تمنا چھوڑ دینی چاہیے۔ جہاں چاہ اور لگن ہو ٬ وہاں مایوسی نہیں ہوتی۔ پھر میں تم سے دستبردار ہونے کے بارے میں کیسے سوچ سکتا تھا؟“ وہ میری آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا اور اس واضح اظہار پر مجھے اپنا چہرہ تپتا محسوس ہوا۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا ٬ صبا کی تیز آواز نے ہمیں چونکایا۔
” یہ لیجئے چاۓ ۔۔۔۔۔ ویسے یہ آپ کیا کھسر پھسر کر رہے ہیں اتنی دیر سے؟ مانا کہ منگنی شدہ ہو گئے ہیں مگر بندہ ذرا ماحول کا بھی خیال کر لیا کرتا ہے۔“ صبا نے گھورتے ہوۓ کپ ہمیں پکڑاۓ۔
” تمہاری بدتمیزیاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔ اسی لئے میں سوچ رہا تھا کہ کوئیی ایسی سزا دوں جو ۔۔۔۔۔۔“
” کیا؟“ صبا اس کی بات مکمل کرنے سے پہلے ہی چیخ اٹھی۔ ” مجھ سے اتنی بڑی فیور پانے کے بعد بھی آپ مجھے کوئیی رعایت دینے کے روادار نہیں ہیں؟“
” کیسی فیور ۔۔۔۔۔ ایک چاۓ کے کپ کو تم فیور دینا کہتی ہو؟“ وہ متعجب ہوا۔
” چاۓ کا کپ۔“ اس نے دانت پیسے۔ ” اپنی پوری کی پوری سالم بہن دے رہی ہوں آپ کو۔ “ وہ ہنس پڑا۔
” یہ مجھ پر تمہارا نہیں ٬ خدا کا احسان ہے اور شکر بھی اسی کا ادا کرتا ہوں۔“ میں نے مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ سر جھکایا۔ اسی وقت آفاق آکر اسے تصویریں دکھانے لگا تھا۔ سب کی توجہ پھر سے اس جانب ہوئی تھی اور میری سرسری سی نظر ارمان اور فرخ پر سے ہوتی ہوئی اس پر آکر ٹھہر گئ۔
وہ آج مجھے سب سے اچھا لگ رہا تھا۔ میری نظروں کو ٬ میرے دل کو۔ اس وقت میرے زہن میں دور دور تک یہ خیال نہیں تھا کہ میں مامی کی بہو بن رہی ہوں۔ محض ایک لمحے میں اچانک ہی دل سے نکلنے والی میری دعا اتنی جلدی قبولیت کا درجہ پا کر مجھے معید کا ساتھ بخش گئ تھی اور اب اسی کا حوالہ مجھے میری پہچان لگنے لگا تھا۔
وہ اس دنیا سے الگ تھا یا نہیں تھا مگر میرے لئے تو ہر ایک سے بڑھ کر تھا کہ اب تو بات بھی محبت کی تھی۔
سینکڑوں سورج چمک اٹھیں بھی اگر مل کر ایک ساتھ سال کی ساری چودھویں راتیں بن جائیں ایک رات بن ساجن کے قسم خدا کی پھر بھی لگے اندھیرا میرا ساجن سب سے روشن ٬ ساجن کی کیا بات ۔۔۔۔۔
ختم شد