محبت کا جادو چل گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کیوپڈ کا تیر اپنا کام کر گیا ۔ ۔ ۔ ۔ دو دل گھائل ہو گئے ۔ ۔ ۔ ۔ لمحوں کی بات تھی لمحوں میں ہی سمٹ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دونوں اپنی اپنی جگہ حیران تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اور دور کھڑی محبت کی دیوی انکی حیرت پہ مسکرائی۔
یہ رات دونوں پہ ہی بھاری تھی دونوں اپنی اپنی جگہ سوچ میں گم تھے ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں ہی خود کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے اور پل میں ہی دونوں ڈھیر ہو گئے ۔ ۔ ۔ ۔ آخر تھک کر دونوں نے ہی ہار مان لی ۔ ۔ ۔ اور آنکھوں میں نئے سپنوں کو جگہ سونپ دی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھوری اور سیاہ آنکھیں ایک دوسرے کے خواب دیکھتیں محبت کی آغوش میں پرسکون سو گئیں۔
زرداب کی آنکھ جھٹکے سے کھلی تھی بہت برا خواب دیکھا تھا اس نے اسکی زاشہ کسی اور کے ساتھ مسکراتی ہوئی ہاتھ تھامے اس سے دور جا رہی تھی اور وہ بےبسی سے دیکھ رہا تھا۔
اس نے فوراْ پاکستان کال ملائی تھی مگر یہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے فون سے پاکستان کے سارے نمبرز بلاک تھے ۔ ۔ ۔ ۔ بے بسی کے شدید احساس نے اسے پاگل کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ میں پکڑا فون سامنے دیوار میں دے مارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ قید اسے مارنے کو تھی ۔ ۔ ۔ ۔ سکندر بھی افغانستان میں ہی پھنسا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اسکو بس یہ اطلاع ملی تھی کہ پاکستان میں سارا کام ٹھیک چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ نہ وہ زاشہ کو دیکھ پایا تھا نہ ہی اسکی آواز سن پایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کاش سکندر اس وقت زاشہ کے پاس ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے حسرت سے سوچا۔
شراب اور سیگریٹ کے دھویں میں اس نے خود کو پر سکون کرنا چاہا۔
لیکن جو لوگ دوسروں کا سکون چھین لیتے ہیں بدلے میں قدرت انکا بھی سکون برباد کر دیتی ہے۔
سفید محل کا وہ کمرہ آج پھر سے آباد تھا ۔ ۔ ۔ ۔ میز کے گرد چار نفوس بیٹھے تھے اور ان کے سامنے اپنے مخصوص سیاہ لباس میں ملبوس زاشہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” فلحال آپ لوگ محتاط رہیں ۔ ۔ ۔ خاص طور پر ڈرگز کا کام ابھی بند کر دیں ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ پولیس اور آرمی بہت فعال ہے آج کل آغا بھی یہاں موجود نہی ہیں اس لئے میں کسی بھی قسم کا کوئی مسلہُ نہیں چاہتی ۔ ۔ ۔ اور ایک اہم بات جب تک میں آپ کو خود اپروچ نہ کروں کوئی بھی مجھ سے رابطہ کرنے کی غلطی نہ کرے ۔ ۔ ۔ ۔
امید ہے آپ لوگ میری بات اچھی طرح سے سمجھ گےٰ ہیں ”
زاشہ نے بولتے ہوئے سب پہ طائرانہ نگاہ دوڑائی۔
سب نے مادام زاشہ کے سامنے سر کو ہلکا سا جھکا کر ہاں میں جواب دیا۔
” ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ملیں گے۔”
وہ اٹھی تھی اور پر وقار قدموں سے چلتی ہوئی باہر نکل گئی۔
“””””””””””””””””””””””””””””””””””””
زاشہ اس سارےعرصے میں آغا کے روم کی اچھی طرح تلاشی لے چکی تھی مگر فلحال کوئی بھی خاص ثبوت اسکو نہی ملا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہی چیز اسکو پریشان کر رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہ اب بھی ناکام رہی تو ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے آگے وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
تھک کر اس نے پلکیں موند لیں جبھی چھم سے کسی کا مہربان سراپا نگاہوں میں آن سمایا ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ چہرے پہ دو بھوری ساحر آنکھوں کا لمس جاگ اٹھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ اپنی اس کیفیت پہ خوش بھی تھی اور پریشان بھی ۔ ۔ ۔ ۔
تبریز پولیس والا ہے اگر وہ میرا سچ جان گیا تو کیا تب بھی اسکی آنکھوں میں وہی رنگ رہیں گے میرے لئے ۔ ۔ ؟۔ایک بہت بڑا سوالیہ نشان آ گیا تھا اس کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔ تبھی فون پہ میسج آیا تھا۔
اس نے وٹس ایپ کھول کر دیکھا تو کوئی انجان نمبر تھا جس سےشاعری سینڈ کی گئی تھی۔
” ہمارے قتل کا ساماں تھے وہ لب و عارض
شریک آنکھ کا کاجل بھی واردات میں تھا۔۔۔”
شعر پڑھ کر اسکے دل نے رفتار پکڑ لی تھی نجانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ میسج کرنے والا تبریز ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے شک کی تصدیق کے لئے اس نے نمبر سیو کر کے دیکھا تو سامنے ہی ڈی پی پہ اسکی تصویر لگی تھی ۔
موبائل اسکے ہاتھوں سے گرتا گرتا بچا وہ خود اپنی حالت پہ حیران رہ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اسکو آنلائن دیکھ کر فوراْ سے فون بند کر دیا۔
“”””””””””””””””””””””
تبریز اسکو آف لائن ہوتا دیکھ کر ہنس دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے تصور میں بھیگا ۔ ۔ شرمایا گلابی چہرہ آیا تھا۔
ایک ہفتے سے وہ اس ملاقات کے سحر میں تھا آج مجبور ہو کر اس نے میسج کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ فوزیہ بیگم سے باتوں باتوں میں اس نے جان لیا تھا کہ اس دن ہسپتال میں انہوں نے زرش کے فون سے ہی اسے فون کیا تھا اس لئے نمبر کااسے کوئی مسلہُ نہیں ہوا۔
اس کے دل نے پہلی بار کوئی ایسا سگنل دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو دیکھ کر یوں بےقابو ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مزاجاْ جلد باز نہیں تھا مگر اب وہ انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا جب اسے اچھی طرح احساس ہو گیا کہ وہ محبت کے مرض میں مبتلا ہے تو اس نے دوا کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ جلد از جلد ماما سے بات کرنا چاہتا تھا۔
“”””””””””‘”””””””””””””””””
کیا بات ہے بیٹا ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ کہنا چاھتے ہو کیا ۔ ۔
اگلے دن شام میں جب وہ ان کے پاس بیٹھا تھا تو انہوں نے اس کی بےچینی بھانپ لی تھی جبھی سوال کیا تھا۔
” ماما محبت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کیا سچ میں انسان ایک ہی لمحے میں کسی کا اسیر ہو جاتا ہے۔”
اسکی بات سن کر فوزیہ بیگم نے غور سے اسکی الجھی صورت دیکھی تھی وہ انکی گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔
” محبت ہی تو اس دنیا کا اہم محرک ہے ۔ ۔ ۔ اللّه نے اپنے پیارے محبوب صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی محبت میں ہی تو یہ کائنات سجائی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ محبت کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہاں یہ لمحوں کا ہی کھیل ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ انسان نفع اور نقصان سے بےپرواہ ہو جاتا ہے۔”
وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی بول رہی تھیں۔
” لیکن تم مجھے یہ بتاؤ کہ کون ہے وہ خوش نصیب لڑکی جس نے اس پتھر کو موم کیا ہے۔ ”
ان کے اچانک پوچھنے پر وہ گڑبڑا گیا۔
” نہیں ماما ۔ ۔ ۔ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ”
وہ فوراْ ہی انکاری ہوا تھا۔
” اچھا اگر ایسی کوئی بات نہی ہے تو پھر ٹھیک ہے میں نے اپنی بہو پسند کر لی ہے تمھیں تو ویسے بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا ہےنا!۔۔۔”
فوزیہ بیگم کی بات سن کر وہ گھبرا گیا اسی لئے بولا ۔ ۔
” نہیں ماما ابھی آپ یہ سب مت سوچیں مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ۔ ۔ ۔ ۔میں اپنے کیرئیر پہ فوکس کرنا چاہتا ہوں ابھی ”
” ہممممم ۔ ۔ سوچ لو کیا سچ میں ابھی شادی نہیں کرنی ۔۔”
انہوں نے دوبارہ پوچھا تھا۔
“نہیں ماما ۔ ۔ ۔ ”
” مجھے افسوس تو بہت ہو گا کہ زرش جیسی پیاری بچی ہاتھ سے نکل جائے گی لیکن خیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو نصیب کی بات ہے انسان بھلا کیا کر سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اب میں تمھارے ساتھ زبردستی نہیں کروں گی۔”
وہ بولتے بولتے اپنا رخ موڑ گئیں کہ مبادا وہ انکی ہنسی نہ دیکھ لے۔
تبریز تو زرش کا نام سن کر ہی گھبرا گیا تھا کہ ہائے کیا ضرورت تھی انکار کرنے کی۔۔۔۔۔
” اچھا میں سوچ رہا تھا کہ آپ بھی اکیلی ہوتی ہیں بور ہو جاتی ہوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ میں تیار ہوں شادی کے لئے ”
فوزیہ بیگم اس کو یوں جلدی جلدی بولتا دیکھ کر ہنس پڑیں۔
” تابی کتنے پکے ہو تم ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے دل کی بات نہیں بتا رہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میں بھی تمہاری ماں ہوں سب جانتی ہوں کیوں کرید کرید کر زرش کا پوچھا جاتا ہے۔”
ان کے یوں اچانک بات کرے پہ وہ کھسیا گیا تھا۔
” کیا ماما یار آپ بھی نا ۔ ۔ ۔ آپ کو تو پولیس میں ہونا چاہیے سب جانتی ہیں آپ پھر بھی مزے لے رہی تھیں ”
” نہیں میں چاہتی تھی کہ تم خود اپنے دل کی بات کرو ۔ ۔ ۔ لیکن تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خیر اب میں بس زرش سے بات کروں گی مزید دیر نہیں کرنا چاہتی میں۔”
” میں بھی ۔ ۔ ۔ ”
انکی بات سن کر تبریزنے دھیرے سے بولتے ہونے دوبارہ سر انکی گود میں رکھ کر آنکھیں موند لیں۔
نور اس وقت سخت پریشان تھی پتہ نہیں مسز کرمانی نے اس کے بابا کو کیا پٹی پڑھائی تھی کہ وہ اسکی شادی نبیل سے کروانے پہ تیار ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نور نے بہت انکار کیا مگر انہوں نے کان نہیں دھرے تھے۔
یہی سب سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹا جا رہا تھا۔
ایک بات تو طے تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبیل سے شادی تو وہ کسی صورت بھی نہیں کرے گی چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
اس نے آخری بار بابا سے بات کرنے کا سوچا ۔ ۔ ۔ وہ بزنس کے سلسلے میں آوٹ آف کنٹری تھے ان کے واپس آتے ہی وہ ان سے یہ بات کرنا چاہتی تھی۔
“””””””””””””””””””””””””””””””””
زاشہ تو فوزیہ بیگم کی بات سن کر سناٹے میں رہ گئی تھی ۔
اسکا دل چاہے جتنی بھی بغاوت کرے مگر وہ کسی کے خلوص کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دھوکے کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے ان کو نور کے ساتھ باتوں میں مصروف دیکھ کر چپکے سے باہر لان میں چلی آئی۔
اس کے دل و دماغ میں ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ دماغ کہتا تھاکہ یہ شادی آغا کی قید سے نکلنے کا مضبوط راستہ ہے اسے کھونا نہیں چاہئے جبکہ دل اس دھوکہ دہی پہ آمادہ نہیں تھا۔
تبھی اپنے پیچھے اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا وہی دلفریب مہک اس کے گرد پھیل گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی گردن پہ کسی کی سانسوں کومحسوس کرتے وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پائی ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ذرا سا بھی ہلتی تو لازمی پیچھے کھڑے ساحر سےٹکرا جاتی۔
تبریز کو اس کے بالوں سے اٹھتی بھینی بھینی سی مہک بے خود کر رہی تھی۔
” لگتا ہے تمھیں پورے گھر میں سے سب سے زیادہ یہی جگہ پسند ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ یہیں پائی جاتی ہو ”
زاشہ کو اسکے لب اپنے بالوں پہ ہلتے محسوس ہوئے۔
وہ گھبرا کر وہاں سے جانے کو آگے بڑھی تھی جبھی اسکی کلائی کسی کی مضبوطی گرفت میں آ گئی۔
تبریز کے جھٹکا دینے پر اس نے بمشکل اپنا ہاتھ اس کے سینے پہ رکھ کر خود کو اس سے ذرا فاصلے پہ رکھا تھا۔
تبریز نے دوسرا بازو اسکے پیچھے کر کے اسے حصار میں لیا تھا۔
زاشہ کا دل دھڑک دھڑک کے بے حال تھا۔
” جادو سا کر دیا ہے تم نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں جو خود کو سٹون مین کہتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ تمھارے سامنے پل میں ڈھیر بو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ بہت باکمال ساحرہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا حصار باندھا ہے کہ میں چاہ کر بھی خود کو آزاد نہیں کروا پایا۔”
وہ اس کی اٹھتی گرتی پلکوں کا رقص دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
زاشہ میں نگاہ اٹھانے کی ہمت نہیں رہی تھی۔
” محسوس کرو اس دل کی دھڑکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی وجہ تم ہو ۔ ۔ ”
وہ اپنے سینے پہ دھرے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بھاری گھمبیر لہجے میں بولا۔
وہ اسکی شور مچاتی دھڑکنوں کو محسوس کر رہی تھی
اسکو مسلسل خاموش پا کر وہ اس کے چہرے پہ جھک آیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسکی گرم گرم سانسیں زاشہ کو جھلسا رہی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس سے دور جانے کی ہمت وہ خود میں نہیں پاتی تھی۔
” آج یہ لب خاموش کیوں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے تو بڑی شیرنی بن کر دھاڑتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ آج کیا ہوا ”
اپنی شهادت کی انگلی اس کے گلابی لبوں پہ رکھتے وہ گویا ہوا تھا۔
زاشہ کے بدن کا سارا خون اس کے چہرے پہ سمٹ آیا تھا اور آواز جیسے حلق میں ہی کہیں قید ہو کر رہ گئی تھی۔
اس سے پہلے کہ تبریز کی گستاخیاں اور زاشہ کی بدحواسیاں مزید بڑھتیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسب معمول وہاں تیمور کباب میں ہڈی بن کر آن ٹپکا۔
” کیا یار بندہ سائیڈ میں جا کہ رومانس بگھارتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یوں راستے میں اگر کوئی مجھ جیسا معصوم بچہ یہ سب دیکھےگا تو کیا سوچے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آں ۔ ۔ ۔ ویسے میں نے کچھ نہیں دیکھا ۔ ۔ ۔ سچی۔”
زاشہ تو تیمور کو وہاں دیکھ کر جھٹ سے اندر بھاگی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ پیچھے وہ دونوں رہ گئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اب تیمور آگے آگے تھا تو تبریز اس کے پیچھے
نور نے فوزیہ بیگم سے کہا تھا کہ وہ زاشہ سے بات کر کے اسکو راضی کر لے گی ۔ ۔ ۔ ۔ اور اب وہ کب سے اسکا دماغ کھا رہی تھی بوا کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔
” نور آخر تم سمجھ کیوں نہیں رہی ۔ ۔ ۔ ۔ میں ان لوگوں کو اتنا بڑا دھوکہ نہیں دے سکتی ۔
وہ تبریز پولیس والا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ دی زرداب اینڈ زاشہ گینگ’ کا کیس اسی کو ہینڈاوور کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ زاشہ کی تلاش میں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اسکو پتہ چلے گا کہ میں ہی زاشہ ہوں توکیا ہو گا کبھی سوچا ہے تم نے ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے جو جھوٹا ہاسٹل ریکارڈ بنایا ہے وہ جلد ہی اس کے بارے میں بھی جان جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی وہ محبت کے نشے میں ہے اس لئے ان باتوں پہ غور ہی نہیں کر رہا۔”
نور نے آرام سے اسکی پوری بات سنی تھی اور پھر بولی۔
” تمھارے خدشے بے جا نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن بے وقت ضرور ہیں ۔۔۔۔۔۔ تمھیں قسمت موقع دے رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تبریز سے اچھا اور کیا آپشن ہے تمھارے پاس زرداب سے بچنے کا ۔ ۔ ۔ ۔ بتاؤ مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ اور رہی بات تمھارے نام کی تو جب تک ہم خود نہیں بتایں گے وہ کبھی نہیں جان سکے گا کہ تم زاشہ ہو باہر کی دنیا تمھیں ‘ زرش علی خان ‘ کے نام سے جانتی ہے تمہارے سارے ڈاکومینٹس پہ یہی نام ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ نام تو تمھیں زرداب نے دیا ہے تم بھول جاؤکہ تم زاشہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زرش بن جاؤ ۔ ۔ ۔ تبریز کی زرش۔۔”
لیکن یہ تو دھوکہ ہے ۔ ۔ ۔ زاشہ کی سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی تھی ۔
” تو میں یہ کب کہہ رہی ہوں کہ ساری زندگی سچ چھپانا ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے ہی تمھیں زرداب کے خلاف پروف مل جائے تم تبریز کو سب بتا دینا وہ ضرور یقین کرے گا تمہارا میں نے اسکی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے تمھارے لئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ابھی تمھیں کوئی مظبوط سہارا چاہیے زرداب سے بچنے کے لئے کیوں کہ اگر وہ واپس آ گیا تو ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔”
نور کی بات سن کر وہ خاموش رہی تھی۔
” اپنے دل کی آواز سنو ۔ ۔ اور تمہارے دل کی آواز تبریز ہے ۔ ۔ ۔ تمھیں بھی پورا حق ہے کھل کر جینے کا ۔ ۔ ۔ میں آنٹی کو تمہاری رضامندی دے دوں گی۔”
نور کی بات سن کر وہ کچھ بھی نہیں کہہ پائی۔
” چلو اب زیادہ سوچو مت آرام کرو ۔”
نور یہ بول کر اسکو تھوڑی دیر کے لئے تنہا چھوڑ کے باہر آئی تھی تا کہ بوا کو بھی ساری بات سمجھا سکے۔
فوزیہ بیگم کے منہ سے زاشہ کا اقرار سن کر تبریز پہ تو شادیؐ مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی تھی وہ بے ساختہ ان کے گلے لگا تھا انہوں نے محبت سے اسکی پیشانی چوم کر اسکو دعا دی۔
” میں سوچ رہی ہوں کہ زرش کو گھر لے آؤں کہاں بچی ہاسٹل میں رہے گی اپنے گھر کے ہوتے ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔ ”
ان کی بات سن کر اس کا تو دل ہی خوش ہو گیا تھا کہ دشمن جاں ہمیشہ نظروں کے سامنے رہے گی ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ماں کے سامنے خوشی کنٹرول کر گیا۔
” ماما جیسے آپ بہتر سمجھیں ”
اور ماما تو بیٹے کی سعادت مندی پہ نہال ہی ہو گئیں۔
” اوکے اپنا خیال رکھئے گا میں کوشش کروں گا کہ ذرا جلدی آ جاؤں آفس سے ۔ ۔ ۔ آپ کو کوئی کام ہو تو فون کر دیجئے گا خود اکیلی کہیں مت جائیے گا”
وہ ان کو ھدایت دیتا ہوا نکل آیا۔
“”””””””””””””””””””””””””””
جب نور نے زاشہ کو بتایا کہ فوزیہ بیگم تمھیں گھر لانا چاہتی ہیں تو وہ تو جیسے مرنے والی ہی ہو گئی ایک تو پندرہ دں بعد شادی تھی اوپر سے ہر وقت تبریز کے سامنے رہنا اسکی تو جان مشکل میں آ گئی۔
” نہی نور تم منع کر دو انھیں کوئی بہانہ بنا دو پلیز۔۔۔۔”
نور نے غصے سے اسے گھورا۔
” شکر کرو وہ یا تبریز بھائی نہیں چلے گئے تمھیں لینے تم انھیں ہاسٹل میں نہ ملتیں تو کیا ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو اچھا ہوا کہ انہوں نے مجھے بھیجا ہے تمھیں لینے کے لئے اب چپ چاپ تھوڑا بہت سامان لو اور چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بوا ابھی کچھ عرصہ ادھر ہی رہیں گی پھر اپنے گاؤں چلی جائیں گی تا کہ کسی کو شک نہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے بھی زرداب نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ تم یہاں سے بھاگ سکتی ہو اس نے تمہارا نام اپنے کالے دھندوں میں ڈال کر بس تمھیں قید رکھنے کی سازش کی ہے اس لئے سیکورٹی کا بھی کوئی ایشو نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم آرام سے پیکنگ کر لو میں تمھیں ڈراپ کر دوں گی۔”
نور نے اسے اچھے سے سمجھایا۔
“”””””””””””””””””””””””””””””””
” حنیف صاحب ! میں اب کوئی لاپرواہی برداشت نہیں کروں گا اسلحے کے جو دو ٹرک پکڑےگئے ہیں مجھے ان کے ڈرائیور ہر حال میں چاہیے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور انسپکٹر نازیہ گرلز کالجز کی ساری ذمہ داری آپ کی ہے مجھے ایک بھی ڈرگز کیس رپورٹ نہیں ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Is that clear!
Yes sir۔
دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا تھا۔
” ہممممم ایک بات اور ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ ہم سب اس وردی میں ملبوس ہیں ہم پہ پہلا حق اس وردی اور اس ملک کی مٹی کا ہے اس کے ساتھ غداری مت کریں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ پیسوں کی خاطر چاہے جتنی مرضی مدد کریں دشمنوں کی وہ اپنا کام ختم ہوتے ہی آپ کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ غداروں کو بڑی درد ناک سزا ملتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ سب میں اچھائی موجود ہے بس تھوڑی راہنمائی کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امید ہے کہ اب آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے۔”
تبریز نے ان کے جھکے سر دیکھ کر کہا تھا۔
” انشاءاللّه سر ۔ ۔ ۔ ہم اب کبھی اپنی وردی پہ داغ نہیں لگنے دیں گے۔”
ویلڈن ۔ ۔ ۔ ۔ یو مے گو ناؤ ۔
وہ اسے سیلوٹ کر کے نکل گئے تبھی تیمور اندر آیا۔
” ارے واہ بھئی واہ ۔ ۔ ۔ بڑی رونق آ گئی ہے چہرے پر ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہونے والی شادی کا اثر ہے یا شام کو گھر آنے والی دلہن کا ۔ ۔ ۔ ۔ ”
وہ مسخرے پن سے بولتا ہوا کرسی پہ ڈھیر ہو گیا۔
” تیمور میں کام کر رہا ہوں اور اس وقت تمہارا باس ہوں اس لئے ذرا ادب سے پیش آؤ۔”
وہ رعب دار آواز میں بولا۔
” اچھا تو باس میں ابھی نور کو فون کر کے کہہ دیتا ہوں کہ وہ زرش بھابھی کو اپنے گھر لے جائے ۔ ۔ ۔ ”
اس نے بولتے ہوئے جیب سے موبائل نکال کر ہاتھ میں پکڑا۔
تبریز تو سن کے گھبرا ہی گیا ۔ ۔ ۔ ۔ اس کمینے کا پتہ بھی نہیں تھا اگر سچ میں منع کر دیتا تو اس کے چھوٹے چھوٹے خوابوں کا کیا ہوتا۔۔۔۔۔ اس لئے لپک کر اس کے پاس آیا۔
” خبردار جو تو نے ایسا کچھ بھی کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ”
تبریز کی بات پہ وہ ہنسا تھا۔
” اب تو لازمی کروں گا ”
تب ہی ایس پی صاحب کا دماغ چلا تھا ۔۔۔۔
” ویٹ ویٹ ویٹ ۔۔۔۔ یہ نور کا نمبر تمھارے پاس کیا کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ بتاؤ ذرا ۔ ۔ ۔ ۔ چل کیا رہا ہے تم دونوں کے بیچ ”
تبریز نے اس کو اسی کے جال میں پھنسایا۔
” ایسا کچھ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ یہ تو شادی کے سو کام ہوتے ہیں اس لئے رابطہ کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ میں تو شریف بچہ ہوں۔”
” اچھا ذرا فون دکھا اپنا۔”
تبریز نے اسکا فون لینے کی کوشش کی تھی پر وہ کچھ نہیں ہے کچھ نہیں ہے کہہ کر بھاگ گیا۔
تبریز مسکرا دیاتھا۔
تبریز لاکھ کوشش کے باوجود اس سے بات نہیں کر سکا تھا رات کو بھی وہ فوزیہ بیگم کے کمرے میں سوتی تھی اور دن میں بھی کہیں اکیلی نہیں ملتی تھی فون تو جیسے دیکھنا ہی بھول گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے زاشہ نے کہا تھا کہ وہ سادگی سے شادی کرنا چاہتی ہے تبریز نے اس کی خواہش کا احترام کیا تھا لیکن فوزیہ بیگم ، نور ، تیمور سب اپنے ارمان پورے کرنا چاھتے تھے اس لئے تیاریاں زوروں پہ تھیں۔
آج وہ فوزیہ بیگم اور زرش کے ساتھ شادی کا جوڑا لینے گیا تھا لیکن وہاں بھی اس نے کوئی لفٹ نہیں کروائی تھی وہ بس دل مسوس کر رہ گیا اسے معلوم تھا کہ وہ جان بوجھ کے اس سے چھپ رہی ہے۔
اسی لکا چھپی میں مہندی کا دن بھی آن پہنچا تھا تیمور بیچارہ تو گھر اور باہر کے کاموں میں گھن چکر بن کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی بھی وہ لان میں مہندی کے سارے انتظامات کروا رہا تھا جب نور اس کے لئے جوس لے کر آئی۔
” زہے نصیب ۔ ۔ ۔ آج ہمارا خیال کیسے آ گیا ”
وہ جوس لیتے ہوئے بولا۔
” زیادہ خوش فہم مت ہوں آپ ۔ ۔ ۔ ۔جوس میں آنٹی کے کہنے پر لائی ہوں ۔”
” ٹھیک ہے پھر یہ جوس آپ ہی پی لیں ”
نور کی بات سن کر وہ جوس واپس کرتا ہوا بولا۔
” ارے نہیں نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ کے لئے اسپیشل خود یہ بنا کر لائی ہوں آپ صبح سے کام کر رہے ہیں کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہے اب پلیز ناراض مت ہوں یہ لے لیں ”
وہ گھبرا کر جلدی جلدی بولتی سیدھا تیمور کے دل میں اتر رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بولتے ہونے جب وہ اپنی گرے آنکھوں کو زور سے بند کرتی تھی تو تیمور کا دل اس کی طرف کھچا چلا جاتا تھا۔
” مطلب میں آپ کے لئے اہم ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ”
تیمور نے لگے ہاتھوں اقرار کروانا چاہا ۔۔۔۔۔۔ پر سامنے بھی نور تھی ایسے کیسے ہاتھ آ جاتی ۔
” اوہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تو آنٹی نے کام سے بلایاتھا میں بھول ہی گئی ۔ ۔ ۔ آپ یہ پکڑیں میں جا رہی ہوں۔”
نور اسکو گلاس پکڑا کر یہ جا وہ جا ہوئی پیچھے تیمور صاحب رہ گئے اکیلے محبت کے خواب دیکھتے۔۔۔۔۔۔۔