“امی آپ آگئی، کیا بنا، پری نہیں ملی؟؟”،سعد سکندر ایک ہی سانس میں کتنے سوال کر گیا ،وہ کب سے بےچین بیٹھا اپنی امی کا انتظار کر رہا تھا ،فکر مندی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں تھے
“نہیں بیٹے پورا حیدر آباد چھان مارا مگر میری بچی کا کہیں پتہ نا چلا اللّه اس کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ” شائستہ بیگم سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں
“امی آپ نے پولیس میں رپورٹ کی؟؟” سعد سکندر نے ماں سے سوال کیا
“ہاں بیٹے کر دی اور کوئی راستہ بھی نا بچا تھا ،اس کی تصویر وغیرہ بھی دے کر آئ ہوں ،اب دیکھو کیا ہوتا ہے ” شائستہ بیگم کس قدر مجبور دکھائی دے رہی تھیں وہ شاید یہ انتہائی قدم اٹھانا چاہتی نہیں تھی پر بیٹے کے مسلسل اسرار پر انکو ایسا کرنا ہی پڑا
“اچھا کیا امی آپ نے اب دیکھئے گا آپ پری بہت جلدی ہمیں مل جاۓ گی “سعد بہت پر امید دکھائی دے رہا تھا اس کو یقین تھا کے اس کی پریشے اس کو مل ہی جاۓ گی
“ان شا اللّه ضرور ملے گی “شائستہ بیگم آہ بھر کر رہ گئی
تقریباً صبح کے نو بجے پری کے کمرے کا دروازہ ذرا سی چرچرآہٹ کے ساتھ کھل گیا ،سامنے صدف شاید پری کے لئے ناشتہ لئے کھڑی تھی اس نے دیکھا کے پری نیم بیہوش حالت میں فرش پر پڑی تھی ،اس نے فورا پانی کا گلاس پری کے خشک لبوں کو لگایا اور پری ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی گئی
“کیا اور ملے گا ؟؟” پری کراہتے ہوئے بولی ،وہ کافی نڈھال دکھائی دے رہی تھی ،چہرہ بھی زرد پڑ گیا تھا
“ہاں ضرور ملے گا ” صدف نے پانی کا ایک اور گلاس پری کو پلایا اور اس کو اٹھا کر چارپائی پر لٹا دیا ،جب پری کو ذرا حوش آیا تو صدف نے پری کو ناشتہ بھی کروایا ایسا لگ رہا تھا کے جیسے صدف پری کی مسیحا ہے ،جب پری ناشتہ کر چکی تو صدف پری سے مخاطب ہوئی
“دیکھو تم جو کوئی بھی ہو میں تمہیں نہیں جانتی پر جو میں نے رات کو تمہارے ساتھ کیا وہ مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا اور میری وجہ سے مائدہ نے تمہیں رات بھر کمرے میں قید کیے رکھا اگر ہو سکے تو مجھے معاف کرنا “صدف کی آنکھیں نم تھیں وہ پری کے آگے ہاتھ جوڑے معافی کی بھیک مانگ رہی تھی
“نہیں نہیں آپ کو معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آخر انسان تو خطا کا پتلہ ہے میں نے آپ کو تہہ دل سے معاف کیا “پری مسکراتے ہوئے صدف کی جانب دیکھ رہی تھی ،نا جانے کیوں اس کو صدف میں اپنی پیاری بہن علیزہ دکھائی دے رہی تھی
“میں شروع سے ایسی نہیں تھی …..ہاں میں شروع سے ایسی نہیں تھی ،میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی میں چھ سال کی تھی جب میرے والدین مجھے چھوڑ کر چلے گۓ تھے پھر میری پھپھو نے مجھے پالا پر انہوں نے میرے ساتھ کبھی اچھا سلوک نہیں کیا وہ ہر روز مجھے پیٹتی تھیں جب میں 20 برس کی ہوئی تو انہوں نے ایک بوڑھے آدمی کے ساتھ میرا رشتہ طے کر دیا پر میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی ،لہذا ایک روز ہمت کر کے میں گھر سے بھاگ کر اس ہاسٹل میں آگئی اور طب سے میں یہیں پر مقیم ہوں “صدف کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے جنہیں پر نے اپنے ہاتھوں سے پونچھ دیا
“کیا تم میری بہن میری دوست بنو گی؟؟”صدف پری کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی
“جی ضرور مجھے خوشی ہو گی بہت “پری نے اثبات میں سر ہلایا اور صدف مسکرا دی
“اچھا باتوں باتوں میں تمھارا نام پوچھنا تو میں بھول ہی گئی ،کیا نام ہے تمھارا ؟؟”صدف نے پری سے سوال کیا
“میرا نام پریشے ہے “پری نے جواب دیا ،”ارے واہ بہت ہی خوبصورت نام ہے ،اچھا اب میں چلتی ہوں پریشے “صدف نے پری سے اجازت چاہی
“ہمم ٹھیک ہے “پری نے اثبات میں سر ہلایا ،صدف کمرے سے چلی گئی ،تھوڑی دیر بعد مائدہ کمرے میں آئ
“چل اٹھ لڑکی صفائی شروع کر دے اور میری بات سن یہ صدف بالکل اچھی لڑکی نہیں ہے لوگوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر ان پہ وار کرتی ہے یاد رکھنا میری بات “مائدہ پری کو متنبہ کرتے ہوئے کمرے سے چلی گئی ،جب کے پری مائدہ کی باتیں سن کر بھوکلا گئی
“بی بی جی سعد صاحب کے دوست ارحم آئیں ہیں اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں “ملازم آصف نے آکر شائستہ بیگم کو آگاہ کیا
“ہاں ٹھیک ہے بھیج دو اسکو “،شائستہ بیگم نے اجازت دے دی ،سعد بھی وہاں ہی موجود تھا ،”سعد وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتا ہے جانتے ہو آپ کچھ اس بارے میں ؟؟”شائستہ بیگم نے متعجب نگاہوں سے سعد کی طرف دیکھا
“نہیں”،سعد نے نفی میں سر ہلایا
“اسلام علیکم آنٹی السلام علیکم سعد کیسے ہیں آپ دونوں ؟؟”ارحم نے دونوں سے خیریت دریافت کی
“جی بیٹے ہم ٹھیک ہیں ،آپ بتاؤ کیسے آنا ہوا “شائستہ بیگم نے سوال کیا
“جی آنٹی دراصل جیسا کے آپ جانتی ہیں کہ میرے ماما پاپا پاکستان میں نہیں رہتے ،اور میں شادی کرنا چاہتا ہوں ،مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا تو نہیں لگ رہا پر کیا آپ میرے لئے دلہن تلاش کریں گی . دراصل میں مشرقی لڑکی سے ہی شادی کرنا چاہتا ہوں کیا آپ میری مدد کریں گی ؟؟”ارحم نے شرماتے ہوئے سوال کیا ،ساتھ ساتھ ارحم ہچکچا بھی رہا تھا
“ہاں ہاں بیٹے کیوں نہیں ضرور ،اچھا میں چلتی ہوں آپ دونوں باتیں کرو ،بیٹا آپ نے کھانا کھاۓ بغیر نہیں جانا “شائستہ بیگم نے ارحم کو کھانے کی پیشکش کی جسے اس نے فورا قبول کیا
“یہ کیا ہے ارحم تو اور شادی وہ بھی مشرقی لڑکی سے ؟”سعد نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے ارحم سے سوال کیا
“ہاں یار میں نے اللّه تعالیٰ سے سچی اور پکی توبہ کر لی ہے اب میں باقی کی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارنا چاہتا ہوں “ارحم نے اپنا مدعا بیان کیا
“ارحم یہ تو بہت بڑی تبدیلی ہے بلکہ بہت ہی اچھی بات ہے “سعد نے مسکراتے ہوئے ارحم کی اس تبدیلی کو سراہا
ارحم بھی مسکرا دیا
پری کو اس ہاسٹل میں رہتے ہوئے ہفتہ بیت گیا تھا صدف سے اسکی بہت اچھی اور گہری دوستی ہو گئی ،پری سارا دن کام کرنے کے بعد صدف کے پاس چلی آتی اور پھر دونوں خوب باتیں کرتی صدف بھی اپنے دل کی ہر بات پری سے کرتی غرض پری کا صدف کے ساتھ دل لگ گیا تھا
ایک روز رات کے تقریباً آٹھ بجے صدف پری کے کمرے میں آئ ،”پری مجھے تم سے بات کرنی ہے “صدف افسردہ لہجے میں بولی
“ہاں بولو صدف آپ کافی پریشان اور اداس لگ رہی ہو کیا بات ہے ؟؟”پری صدف کی حالت بھانپ گئی تھی
“یار پری کل ہمارے آفس میں پارٹی ہے اور میرے پاس ایک بھی ڈھنگ کا جوڑا نہیں ہے کوئی بھی میرے ساتھ بازار چلنے کو تیار نہیں ہے تم چلو نا میرے ساتھ “صدف پری کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی
“نہیں نہیں میں نہیں جاؤں گی مائدہ تو مجھے کبھی اجازت نہیں دے گی “پری نے فورا نفی میں سر ہلایا
“یار مائدہ سے پوچھے گا کون میرے پاس گیٹ کی چابی ہے ہم آرام سے دروازہ کھول کر چلی جائیں گی اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا پری چلو نا اگر نا گئی تم تو میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی ،اب چلو نا “صدف پری کی مسلسل منت سماجت کر رہی تھی
“اچھا چلو چلتے ہیں “آخر کار پری مان گئی اور صدف خوشی سے کھلکھلا اٹھی ،دونوں چھپتی چھپاتی ہاسٹل سے نکل گئیں
“پری وہ سامنے گاڑی نظر آرہی ہے اسی پر جائیں گے ،میرے آفس کی گاڑی ہے “صدف سامنے کھڑی گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
“اچھا ٹھیک ہے “پری نے جواب دیا اور دونوں گاڑی میں سوار ہو گئیں ،گاڑی کی اگلی دونوں سیٹوں پر دو مرد سوار تھے ،پری نے دوپٹہ سے چہرے پر نقاب کر لیا ،وہ دونوں مرد مسلسل پری کی طرف عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے،جبکہ صدف مسکرا رہی تھی
“صدف مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا یہاں ہم رکشے سے چلتے ہیں “،تنگ آکر پری نے صدف کو گاڑی سے اترنے کا کہا
“نہیں نہیں کہیں نہیں جانا پری “صدف نے انکار کرتے ہوئے پری کی کلائی کو مضبوطی سے جکڑ لیا
“صدف چھوڑو مجھے میں نہیں جانا چاہتی “پری لگاتار صدف سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی
“چپ کر کے بیٹھ جا لڑکی میں نے تجھے فروخت کر دیا ہے بس اب منزل دور نہیں ” صدف نے اپنا اصلی روپ دکھا دیا تھا ،یہ الفاظ سن کر پری کو شدید دھچکا لگا کچھ دیر تو وہ خاموش بیٹھی آنسو بہاتی رہی پھر اس نے ہمت کی اور پوری قوت سے صدف کا سر گاڑی کے window mirror پر مارا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بھاگ نکلی
“ارے گدھو پکڑو اس کو “صدف چلا کر بولی اور وہ دونوں پری کے پیچھے بھاگے ،ادھر پری اندھا دھند بھاگ رہی تھی کے سامنے آتی ہوئی گاڑی سے وہ ٹکرا گئی
“اسلام علیکم سعد بھائی بول رہے ہیں ؟؟ میں انسپکٹر عارف بول رہا ہوں ”
“جی کہیں کیا بات ہے؟؟ “سعد ابرو اچکاتے ہوئے بولا
“آپ فورا تھانے پہنچیں ضروری بات کرنی ہے ” انسپکٹر عارف کچھ چھپا رہے تھے
“جی جی پہنچ رہا ہوں میں “سعد نے جلدی جلدی فون بند کیا اور شائستہ بیگم کو بغیر کچھ بتاۓ ارحم کو ساتھ لے کر تھانے پہنچ گیا
“جی کہیں انسپکٹر عارف کیا بات ہے ؟؟”سعد بہت سہما ہوا دکھائی دے رہا تھا
“سعد صاحب میڈم جس لڑکی کی اس دن تصویر دے کر گئی تھی آج ہی ایک لاش موصول ہوئے ہے ہمیں جو اس لڑکی سے کافی مشابہت رکھتی ہے آپ اس کی شناخت کر لیں “یہ سنتے ہی سعد کو دھچکا لگا
“آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی وه پری نہیں ہو سکتی “سعد چیخا ،اس کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں
“ہم نے کب کہا کے وہ پری ہے بس آپ شناخت کر لیں “انسپکٹر منہ بناتے ہوئے بولا
“جی جی انسپکٹر ہم دیکھ لیتے ہیں “،ارحم نے نہایت دانش مندی سے صورت حال سنبھالی
سعد لاش کے قریب کھڑا تھا ،لاش کو کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا ،سعد نے کپکپاتے ہاتھوں سے لاش کے اوپر سے کپڑا جھٹکا ،لاش کو دیکھ کر سعد کا دل دہل گیا آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں “نہیں ارحم نہیں یہ میری پری نہیں ہے میری پری مر نہیں سکتی وہ زندہ ہے ارحم میری پری زندہ ہے “سعد معصوم بچوں کی طرح بلک رہا تھا
شائستہ بیگم کے فون کی گھنٹی بجی،فون پر ارحم کا نام دکھ رہا تھا ،شائستہ بیگم نے آنکھیں ملتے ہوئے کال اٹھائی
“جی ارحم بیٹا آپ نے اس وقت کال کی خیریت ؟؟” شائستہ بیگم حیران و پریشان ہو گئیں
“آنٹی پریشے اب اس دنیا میں نہیں رہی “ارحم کا لہجہ افسردہ لگ رہا تھا
“کیا ؟؟”شائستہ بیگم ایک دم چیخیں