وہ جی کڑا کر کے نمرہ کے کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ جانتا تھا اندر جا کر اس محترمہ کی منتیں کرنی پڑیں گی۔ دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن اگر اسے نہ مناتا تو بابا اسے ہی گھر سے نکال دیتے۔ اس نے بے بسی بھری نگاہ نیچے لاؤنج میں موجود سب افراد پر ڈالی جو اسی کی طرف متوجہ تھے۔ ان کے لبوں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ تھی جو مرتضٰی کو جلا کر خاک کر گئ۔ وہ فوراً گردن موڑ گیا اور سامنے موجود دروازے پر دستک دی۔
“کون ہے؟؟ آ جائیں۔” نمرہ کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ خود کو صبر کی تلقین کرتا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ نگاہ سیدھی اسی کے وجود پر پڑی تھی جو کمفرٹر اوڑھے بیڈ پر نیم دراز تھی۔ حسب عادت سیل فون ہاتھ میں تھا جس میں کسی ناول کا پی ڈی ایف کھلا تھا۔ نمرہ نے بھی دروازہ کھلنے پر اس کی جانب دیکھا۔ مرتضٰی کو اپنے کمرے میں موجود پا کر اس نے منہ کے زاویے بگاڑے۔ پھر بغیر اس پر دوسری نگاہ ڈالے ناول پڑھنے میں مگن ہو گئ۔
“کیا کر رہی ہو؟؟” مرتضٰی نے سرسری سا لہجہ اپناتے ہوئیے پوچھا۔ وہ بیڈ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔
“کیوں؟؟ تم سے مطلب؟؟” نمرہ کٹھور لہجے میں گویا ہوئی۔ نظریں بدستور موبائل پر تھیں۔ مرتضٰی کو غصہ تو بہت آیا لیکن ضبط کرتے ہوئیے آگے بڑھا۔ ایک جانب موجود چئیر گھسیٹ کر بیڈ کے قریب کی اور اس پر بیٹھ گیا۔
“یار تم تیار کیوں نہیں ہوئی؟؟ ڈنر کے لیے کہا تھا میں نے سب کو۔ گھر والے باہر ویٹ کر رہے ہیں اور تم یہاں بیٹھی ناولز پڑھ رہی ہو۔۔۔” ہمت کرتے ہوئیے بالآخر اس نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال ہی دیا تھا۔
“گھر والوں کو بتا چکی ہوں میں کہ مجھے کہیں نہیں جانا۔ تم لے جاؤ انہیں۔” نمرہ نے بے تاثر لہجے میں جواب دیا۔
“لیکن کیوں؟؟ کوئی وجہ تو ہو گی نا۔” مرتضٰی نے انجان بننے کی کوشش کی۔ نمرہ نے اس بار جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ وہ بدستور اپنے فون کی اسکرین کو گھورے جا رہی تھی۔ ظاہر یہی کر رہی تھی کہ اس وقت اس کے لیے صرف ناول پڑھنا اہم ہے،سامنے بیٹھے بندے کی اور اس کی کسی بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں جبکہ اس کی موجودگی میں وہ ایک لفظ تک نہ پڑھ پا رہی تھی۔
“تم کچھ دیر کے لیے یہ موبائل چھوڑ نہیں سکتی کیا؟؟” مرتضٰی اس کی خاموشی پر جھنجھلایا اور اس کے ہاتھ سے موبائل چھینا۔ جواباً نمرہ نے کڑی نگاہوں سے اسے گھورا تھا۔
“اچھا سوری! یہ لو اپنا فون لیکن پلیز دو منٹ کے لیے اسے بند کر کے میری بات سن لو۔۔۔” اس کی کڑی نگاہ سے مرتضٰی کو احساس ہوا کہ وہ معاملہ سنوارنے آیا ہے مزید بگاڑنے نہیں تبھی اپنے لہجے کو نرم رکھتے ہوئیے اس کا فون اسے واپس کیا۔
“کہو کیا کہنا ہے؟؟” نمرہ نے اسکرین آن کرتے ہوئیے وقت دیکھا پھر اسکرین بجھا دی۔ مرتضٰی نے شکر کا سانس لیا کہ وہ اسے سننے پر آمادہ تو ہوئی۔
“کیا ہوا ہے؟؟ کس بات پر ناراض ہو؟؟” مرتضٰی نے پھر سے اپنا سوال دہرایا۔ لیکن دوسری جانب پھر سے خاموشی ہی ملی تھی۔
“کچھ بولو تو سہی اب۔” مرتضٰی کو اس کی خاموشی کوفت میں مبتلا کرنے لگی۔
“تم نے صرف دو منٹ کے لیے تمہاری بات سننے کی درخواست کی تھی، میرے بولنے کی نہیں۔ تم کہو میں سن رہی ہوں۔ ایک منٹ رہ گیا ہے تمہارے پاس۔۔۔ ” نمرہ نے پھر اسکرین آن کر کے اس پر نظر دوڑائ۔ مرتضٰی اسے دیکھ کر رہ گیا۔
“یار میں جانتا ہوں اس دن تمہاری بات نہیں مانی اس لیے ناراض ہو تم لیکن تم اپنی فرمائش بھی تو دیکھو نا۔ رومینٹک سین کی پریکٹس کرنی ہے تمہیں۔ کوئی تُک بنتی ہے اس بات کی؟؟ ” مرتضٰی روہانسا ہونے لگا تھا۔
“بیس سیکنڈز۔۔۔” نمرہ دو منٹ پورے ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ مرتضٰی اس کی بات پر خاموش سا ہو گیا۔ مطلب اس کی بات مانے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔
“دو منٹ ہو گئے پورے۔ اب تم جاؤ میرے کمرے سے۔” نمرہ بے رخی سے کہتی پھر ناول کھول کر بیٹھ گئ۔
“اچھا ٹھیک ہے یار! تم جیتی میں ہارا۔ مان لیتا ہوں تمہاری بات۔ اس اتوار کو مجھے آفس سے چھٹی ہو گی تب جو تم کہو گی، جیسے کہو گی ویسے ہی کر لیں گے۔ رومینٹک سین اور ڈائیلاگز کی پریکٹس کرنا چاہتی ہو تو ٹھیک ہے کر لیں گے لیکن ایک شرط پر۔۔۔ سارہ بھی وہیں ہو گی ہمارے ساتھ۔ اب پلیز مان جاؤ۔ دیکھو سب تیار ہیں بس تمہارا ہی ویٹ کر رہے ہیں نیچے۔ سب کا اتنا اچھا موڈ تو نہ خراب کرو۔” مرتضٰی نے منت بھرا لہجہ اختیار کرتے ہوئیے اس کی بات ماننے کی حامی بھری۔ نمرہ نے ایک ترچھی نگاہ اس پر ڈالی۔
“اب کیا ایسے گھور گھور کر قتل کر دو گی مجھے؟؟؟ مان جاؤ پلیز۔ معاف کر دو۔ اچھا کان پکڑ کر سوری۔ اس سے زیادہ اور کیا کروں میں جس سے تم مان جاؤ؟؟” مرتضٰی نے باقاعدہ کان پکڑے تھے اس کے سامنے۔ حقیقت تو یہ تھی کہ نمرہ کی یہ خاموشی اسے خود بھی تکلیف دے رہی تھی۔ وہ اسے یوں ناراض نہیں دیکھ سکتا تھا۔
“اور اگر تم پھر مکر گئے تو؟؟ بعد میں میری بات ماننے سے انکار کر دیا تو؟؟” نمرہ نے ابرو اچکاتے ہوئیے پوچھا۔
“نہیں کروں گا انکار۔ پکا پرامس۔ اگر ایسا کیا تو تم جو سزا دینا چاہو گی قبول ہے۔ چاہو تو پھر سے بابا سے میری شکایت بھی لگا دینا۔” مرتضٰی نے اسے یقین دلانے کی بھرپور کوشش کی۔ نمرہ کچھ دیر اسے شکی نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ پھر اس کی آنکھوں میں سچائ دیکھ کر مطمئین ہو گئ۔
“اوکے ڈن۔۔۔ ” اب کی بار لہجے میں پہلے والی رونق لوٹ آئ تھی۔ ویسے تو اس کا بھی دل مچل رہا تھا سب کے ساتھ باہر جانے کو لیکن اپنی بات بھی تو منوانی تھی نا۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی اس کے بغیر گھر والے بھی کہیں نہیں جائیں گے، تبھی اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئیے ناراض ہوئی تھی۔
“چلو اب جلدی سے چینج کر کے آ جاؤ نیچے۔ ہم سب ویٹ کر رہے ہیں۔ اور ہاں یہ زیادہ میک اپ تھوپ کر مت آنا چہرے پر۔ ” مرتضٰی اسے کہتا خود کمرے سے نکلا تو دروازے پر ہی سارہ سے ٹکراؤ ہو گیا۔
“تم یہاں؟؟” مرتضٰی نے اس کی یہاں موجودگی پر سوال کیا۔
“ہاں آپ جلدی آئے نہیں تو دادو نے کہا تھا دیکھ کر آؤ کہیں پھر لڑنے تو نہیں بیٹھ گئے دونوں۔” سارہ نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی۔
“نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ وہ آ رہی ہے بس پانچ منٹ میں۔” مرتضٰی نے کہتے ہوئیے قدم آگے بڑھائے لیکن سارہ کی آواز نے اسے رکنے پر مجبور کیا۔
“سنا ہے مابدولت رومینٹک سینز اور ڈائیلاگز کی پریکٹس کرنے والے ہیں نمرہ کے ساتھ۔۔۔کریں کریں پریکٹس۔۔۔ شادی کے بعد بہت کام آئے گی آپ دونوں کے۔ شاید اسی پریکٹس سے نمرہ آپ کے سامنے شرمانا سیکھ جائے ورنہ ہمیں تو قوی امید ہے کہ شادی کے بعد بھی ایسے ہی جنگ چھڑی رہا کرے گی گھر میں۔” سارہ کے لہجے میں شرارت بھری تھی۔
“بکو مت۔” مرتضٰی خفت زدہ ہوا یہ جان کر کہ سارہ اس کی اور نمرہ کی باتیں سن چکی ہے۔
“ٹھیک ہے۔ آپ کے سامنے نہیں کہتی کچھ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں میں یہ بات جا کر بابا کو بتانے والی ہوں۔ پھر آپ کے بولے گئے جھوٹ پر آپ کے ساتھ بابا کیا کریں گے یہ آپ خود بہتر جانتے ہیں۔” سارہ کے لبوں پر شرارتی مسکراہٹ تھی جبکہ مرتضٰی اس بلیک میلنگ پر کھول کر رہ گیا۔ سارہ اس کے کچھ دیر قبل بولے گئے جھوٹ کا حوالہ دے رہی تھی کہ نمرہ نے اس سے ناول لا کر دینے کی فرمائش کی تھی۔ وہ سب جانتے تھے بابا کو جھوٹ سے کتنی سخت نفرت ہے۔ پہلے ایک بار ایک معمولی سے جھوٹ پر وہ مرتضٰی کو گھر سے نکال چکے تھے اور وہ دو دن مرتضٰی نے کیسے اپنے دوست کے ہاں گزارے تھے یہ وہی جانتا تھا۔
“کیا چاہتی ہو تم؟؟” مرتضٰی نے سخت نگاہوں سے اسے گھورا۔
“کچھ زیادہ نہیں۔ بس ہانچ ہزار دے دیں وہی کافی ہوں گے۔ اب دیکھیں جان بچانے کے لیے قربانی تو دینی پڑتی ہے۔” سارہ نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔
“یااللّہ! اس گھر کی دونوں لڑکیاں کیا میرا کباڑا کرنے کے لیے ہی بنائی ہیں؟؟ ایک سارے گھر والوں کے سامنے بے عزت کرواتی ہے اور دوسری بلیک میلنگ سے پیسے ہتھیا ہتھیا کر مجھے کنگال کر رہی ہے۔ ان دو چڑیلوں کو ہمارے گھر بھیجتے وقت آپ کو ذرا ترس نہیں آیا مجھ غریب پر؟؟” مرتضٰی منہ اوپر کی جانب کیے بڑبڑا رہا تھا۔ ساتھ ہی اس نے والٹ نکالا۔
“ارے مرتضٰی! کیا ہوا؟؟ مانی وہ یا نہیں؟؟” نیچے باتوں میں مشغول خواتین میں سے دادو کی نگاہ اس پر پڑی تو مرتضٰی سے پوچھنے لگیں۔
“مان گئ ہے دادو! کہہ رہی تھی چینج کر کے آتی ہے۔” مرتضٰی نے اونچی آواز میں انہیں جواب دیا۔ ساتھ ہی والٹ سے ہزار ہزار کے پانچ نوٹ نکال کر سارہ کی طرف بڑھائے۔
“یہ تم سارہ کو پیسے کہوں دے رہے ہو؟؟ کہیں کسی کام کے لیے رشوت تو نہیں دے رہے؟؟” دادو نے آنکھیں سیکڑ کر اس کے ہاتھ میں موجود نوٹ دیکھے۔ ان سب بچوں کی رگ رگ سے واقف تھیں وہ۔ مرتضٰی ایک دم سٹپٹایا۔
“ارے نہیں دادو! کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟؟ رشوت کیوں دیں گے بھائی؟؟ وہ تو مرتضٰی بھائی کی پرموشن ہوئی ہے نا تو اسی لیے وہ اپنی خوشی سے مجھے یہ پیسے دے رہے ہیں۔ میں تو منع کر رہی تھی لیکن کہنے لگے بہنوں کا حق ہوتا ہے۔ کیوں بھائی؟؟” سارہ نے مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئیے دادو کو مطمئین کیا۔ ساتھ ہی مرتضٰی کو کہنی ماری۔
“جج۔۔۔ جی دادو۔ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے سارہ۔ بہنوں کا تو حق ہوتا ہے بھائی کی کمائ پر۔” مرتضٰی نے بھی مسکرانے کی کوشش کی۔
“اللّہ پوچھے گا تم سے اس بلیک میلنگ کے لیے ڈائن! اب زبان بند رہنی چاہیے تمہاری۔ ” وہ منہ بسورتے ہوئیے اسے وارننگ دیتا سیڑھیاں اترنے لگا جبکہ سارہ بھی نچلا لب دانتوں تلے دبائے شرارت سے اسے دیکھتی اس کی تقلید میں نیچے آ گئی۔
“سارہ! تم یہاں کھڑی ہو کر ویڈیو بناؤ تاکہ ہمارے چہروں کے ایکسپریشنز ریکارڈ کر سکو۔ مرتضٰی! یہ پیج ہے، اس پر سارے ڈائیلاگ لکھے ہیں۔ سین یہ ہو گا کہ تم آفس کے باس ہو اور میں تمہاری ایمپلائ۔ میں تمہارے آفس روم میں آؤں گی فائل لے کر۔ وہاں تم میرے ساتھ رومینٹک گفتگو کرتے ہوئیے محبت کا اظہار کرو گے۔ یہ لو پیج۔۔۔ اپنے ڈائیلاگ پڑھ لو فٹا فٹ۔۔۔” نمرہ بڑے جوش و خروش سے ان دونوں کو ہدایات دے رہی تھی۔ جبکہ سارہ اس کا موبائل ہاتھ میں پکڑے اس کے کیمرہ کا رزلٹ چیک کر رہی تھی۔ ساتھ ہی کبھی کبھار شرارتی نظر مرتضٰی پر ڈال لیتی جو تھوڑا نروس سا لگ رہا تھا۔ پتا نہیں نمرہ کی بچی کون کونسے ڈائیلاگ بلوانا چاہ رہی تھی اس سے۔ وہ بھی بہن کے سامنے۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اس نے پیج پکڑا جس پر ڈائیلاگ لکھے تھے۔
نمرہ اب آئینے کے سامنے کھڑی بال سنوار رہی تھی جیسے کسی فلم کی شوٹنگ ہونے لگی ہو۔ بال سنوارتے ہوئیے اس نے بالوں کی ایک لٹ سامنے چہرے پر ڈالی۔ پھر اچانک کچھ یاد آنے پر تیزی سے مرتضٰی کی جانب مڑی۔
“اف مرتضٰی! ناول کا جو سین ہم کرنے جا رہے ہیں اس میں تو باس نے پینٹ پہنی تھی اور ہیروئین کے آنے سے پہلے کھڑکی کے سامنے پینٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ جبکہ تم نے کرتا شلوار پہن رکھی ہے۔ جیبوں میں ہاتھ ڈال کر کیسے کھڑے ہو گے؟؟ ایسا کرو جلدی سے اپنے کمرے میں جاؤ اور پینٹ شرٹ پہن کر آؤ۔” نمرہ نے جلدی جلدی اسے بتاتے ہوئیے نیا حکم جاری کیا۔
“لیکن یار! ڈائیلاگ ہی تو بولنے ہیں۔ اس کے لیے پینٹ شرٹ میں ملبوس ہونا ضروری ہے کیا؟؟؟ ہم کونسا ناول پر کوئی ڈرامہ بنا رہے ہیں جو حلیہ بھی ہوبہو ویسا ہی ہو؟؟” مرتضٰی پر جھنجھلاہٹ سوار ہونے لگی۔
“نہیں سب کچھ ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا ناول میں تھا۔ جلدی جاؤ تم۔” نمرہ کی وہی مرغے کی ایک ٹانگ کھینچنے والی عادت۔ جو بات کہتی تھی اس پر اڑ جاتی تھی وہ۔ مرتضٰی نے ایک بے بسی بھری نگاہ اس پر ڈالتے ہوئیے سارہ کو دیکھا جو نچلا لب دانتوں تلے دبائے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس کوشش میں اس کا چہرہ سرخ پڑ رہا تھا۔ وہ پیر پٹختا ان کے کمرے سے نکل کر چینج کرنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔