اس کے کنول ہاتھوں کی خوشبو
کتنی سبز آنکھوں نے پینے کی خواہش کی تھی
کتنے چمکیلے بالوں نے
چھوئے جانے کی آس میں خود کو، کیسا کیسا بکھرایا تھا
کتنے پھول اگانے والے پاؤں
اس کی راہ میں اپنی آنکھیں بچھائے پھرتے تھے
لیکن وہ ہر خواب کے ہاتھ جھٹکتی ہوئی
جنگل کی مغرور ہوا کی صورت
اپنی دھن میں اڑتی پھرتی
آج ۔۔۔مگر
سورج نے کھڑکی سے جھانکا
تو اس کی پلکیں جھپکنا بھول گئیں
وہ مغرور سی،تیکھی لڑکی
عام سی آنکھوں، عام سے بالوں والے
اک اکھڑ پردیسی کے آگے
دوزانو بیٹھی
اس کے بوٹ کے تسمے باندھ رہی تھی !
’’ میں تمہیں جی بھر کر دیکھنا چاہتا ہوں ـ۔ـ‘‘
’’اور دیکھ کر اگر جی واقعی بھر گیا تو ؟
’’ارے نہیں بھرتا کوئی سبیل نکالو ملاقات کی ‘‘۔
’’آپ پاگل ہیں ؟ایسا کیسے ممکن ہے ؟‘‘
’’ساری دنیا مل رہی ہے آپس میں اور تم تو میری منکوحہ ہو ۔ مجھ سے ملنے میں بھلا کیا قباحت ؟‘‘
’’میں آپ کی منکوحہ ہوں، یہ بات صرف میں اور آپ جانتے ہیں ۔باقی کوئی نہیں جانتا !‘‘
پاکیزہ نے بڑی آسانی سے اسے خاموش کروا دیا تھا ۔ وہ خاموش کہاں ہوا تھا وہ تو بس بیمار ہو گیا۔ اور ہوا نے کبوتر کے پیروں سے باندھ کر جب یہ سندیسہ بھیجا تو پاکیزہ کی ٹانگوں سے جان نکل گئی۔ وہ ضد آفتاب کے سامنے کر ہی نہیں سکتی تھی۔محبت میں اصرار ہوتا ہے
ضد نہیں ہوتی۔ بیمار آفتاب کے سامنے تو کبھی نہیں ۔۔۔!
دنیا کے سارے خدشے بالائے طاق رکھ کر وہ اس سے ملنے چلی آئی ۔
اس کے خیال میں وہ پہلی اور آخری دفعہ یوں ملنے کا ارادہ لیے آئی تھی لیکن خیال حقیقت کب ہوتے ہیں۔۔۔!
’’پاکیزہ باہر آؤ۔میں باہر کھڑا ہوں ۔‘‘ وہ ا س کے کالج کے دروازے کے باہر کھڑا منتظر تھا ۔
’’آفتاب مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘ وہ اندر بیٹھے بیٹھے ہی پیغام بھیج رہی تھی۔
’’پاکیزہ پلیز آ جاوْ ۔جلدی آوْ ناں ۔‘‘ وہ بے تاب ہو رہا تھا ۔پیغامات کا سلسلہ مسلسل جاری تھا۔
’’ نہیں آفتاب رہنے دیتے ہیں۔ نہیں ملتے آج ملیں گے تو بار بار ملیں گے۔ اس سے بہتر ہے کہ رہنے ہی دیں ۔‘‘ پسینہ پیروں کے تلوں سے نکل رہا تھا۔
’’اب تم باہر نہ آئی تو میں اندر آ جاوْں گا۔ ‘‘ وہ دھمکی دے رہا تھا۔
دھمکی نے اثر نہ کیا تو اس نے ذرا اور مقدار بڑھا دی۔
’’میں اب کسی گاڑی کے نیچے سر دے دوں گا۔ ‘‘
وہ اتھل پتھل سانسیں لیے لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ باہر آئی ۔ گھٹنوں سے نیچے تک آتے فراک میں وہ کانچ کی گڑیا لگ رہی تھی۔ چہرے سے پریشانی ہویدا تھی ۔
ایک بائیک فورا اس کے قریب آ گیا ۔پاکیزہ ہچکچائی للجائی وہیں کھڑی رہی جب دشمنِ جاں کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’بیٹھو بھی۔۔۔ کیوں لوگوں کو شک میں ڈال رہی ہو ؟‘‘
اور ا س نے بس ایک جست لگائی اور بائیک پر بیٹھ گئی ۔ لمحوں میں بائیک ہوا سے باتیں کرنے لگی ۔پہلا پہلا تجربہ تھا وہ کندھے پر ہاتھ بھی نہیں رکھنا چاہتی تھی اور ٹھیک سے بیٹھنا بھی نہیں آتا تھا ۔جب خود کو ڈگمگاتے دیکھا تو بدقت آواز نکالی۔
’’آہستہ چلائیں۔ ‘‘
’’آہستہ چلاوْں گا تو تم میرے اور قریب کیسے آوْ گی ۔‘‘ وہ شرارت سے بولا اور قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
اس کی شوخی نے غازے کا رنگ لیا اور پاکیزہ کے گالوں پر بکھر گئی۔
شہر میں بننے والی مصنوعی جھیل جو ابھی زیر تعمیر تھی وہ اسے وہیں لے آیا تھا ۔بند دروازہ منہ چڑا رہا تھا پاکیزہ کچھ حیران کچھ پریشان تھی ۔
’’کیا ہوا ؟ اترنے کا دل نہیں کر رہا یا کندھے سے ہاتھ نہیں ہٹانا؟‘‘ شوخی بدستور قائم تھی ۔
پاکیزہ گھبرا کر بائیک سے نیچے اتر گئی۔
’’ہم اندر کیسے جائیں گے ‘‘ وہ بائیک لاک کر رہا تھا جب اسے معصوم سی چڑیا کی چہچہاہٹ سنائی دی۔
’’بتاتا ہوں ۔‘‘ اس نے بائیک لاک کر کے پھر سے نقرئی ہاتھ تھام لیا ۔
مصنوعی جھیل کا پراجیکٹ شاید حکومت کی تبدیلی کی وجہ سے التواء کا شکار تھا۔ اکا دکا مزدور ہی نظر آ رہے تھے اور وہ سب اپنے کام میں مصروف تھے ۔ڈر لگ رہا تھا ۔۔۔دل جیسے باہر نکلنے ہی والا تھا لیکن ایسے شخص کا ساتھ ہونا جو صرف آپ کا ہو ہر ڈر کو نگل لیتا ہے۔محبت سے بڑا کوئی اژدھا نہیں !
نہ ہونے کے برابرلوگ۔۔۔۔ اور آفتاب کا لمس ۔۔۔ پاکیزہ کا پیر پھسل گیا ۔
’’مانا شوہر ہوں تمہارا لیکن پبلک پلیس ہے۔ تمہیں اٹھا نہیں سکتا ۔‘‘
ایک شرمیلی سی مسکراہٹ پاکیزہ کے لبوں پر رینگ گئی۔ گیٹ کے ساتھ تھوڑے کچے راستے سے پہلے آفتاب نے قدم آگے بڑھائے اور پھر پیچھے ہی پیچھے پاکیزہ بھی چل دی ۔
اس کا ہاتھ تھامے وہ خواب نگر میں لے آیا ۔وہ خواب نگر ہی تو تھا ۔۔۔ تا حد نگاہ پھیلا ہوا صاف پانی ۔۔۔جس میں شورش نے ہلچل سی مچا رکھی تھی۔ گیلی نرم گھاس جس پر پڑے پانی کے قطرے حسین تر معلوم ہو رہے تھے۔ آسمان پر بادلوں کی مستانہ سی اٹکھیلیاں اور پشت پر دیکھو تو ارغوانی سے رنگ کے پہاڑ ۔۔۔
کون کہتا ہے پہاڑوں کا رنگ نہیں ہوتا ۔۔ جب محبت کا موسم آتا ہے تو پہاڑ بھی رنگین ہو جاتے ہیں۔
سب سے حسین تو وہ لمس تھا جس کی مسحور کن خوشبو میں وہ کافی دیر سے قید تھی۔ نرم گرم سا لمس آہستہ آہستہ ہاتھوںسے دل میں اترتا جا رہا تھا ۔ آفتاب نے ایک قدم آگے بڑھ کر پاوْں سے بڑے پتھر کے پا س کی جگہ کو کچل سا دیا ۔ اب پاکیزہ کے بیٹھنے کی جگہ بن گئی تھی یہی تو اس شخص کی چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں جو اس کے علاوہ کسی اور کو سوچنے کی اجازت بھی نہ دیتی تھی ۔کتنے ہی لوگوں کی آنکھوں میں پسندیدگی ابھرتی تھی اور پاکیزہ کی سردمہری سے خود بخودہی ختم ہو جاتی تھی ۔کوئی پوچھتا کہ ایسا کیا ہے اس میں تو پاکیزہ فقط اتنا کہتی ۔۔۔
He is not the man of words. He is the man of action.
بڑے پتھر کی اوٹ میں بیٹھے وہ اب اپنے مطابق کسی کو نظر نہیں آ رہے تھے ۔ماحول کا فسوں سانسوں میں تلاطم پیدا کر رہا تھا ۔
آفتاب نے ا س کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سے کچھ زیادہ قریب کر لیا ۔وہ سمٹی سمٹائی ہوئی مزید سمٹ گئی ۔وہ بہت نرمی سے اس کا ہاتھ تھامے اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا اور وہ آنکھیں چرانے کی نا کام کوششیں کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کے تلاطم خیزی جذبات سے رگوں میںلہو بن کر دوڑتی۔ کسی کے چلنے کی آواز سے دونوں چوکنے ہو گئے ۔
’’اوئے لڑکے بات سن۔ ‘‘ سیاہ داڑھی ا س مزدور کی کرختگی کو بالکل کم نہیں کر رہی تھی ۔ لہجہ ہاتھوں کی طرح سخت اور کھردرا تھا ۔
آفتاب حواس باختہ ہوا اور فورا کھڑا ہو گیا۔ اس آدمی نے ایک زور کا ہاتھ آفتاب کے کندھے پر جمایا اور اسے پاکیزہ سے قدرے فاصلے پر لے گیا۔ پاکیزہ کی حالت گویا یہ تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔ اس کے اندر اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ پیچھے مڑ کر دیکھ سکے ۔ماحول کا سارا فسوں اڑن چھو ہو گیا تھا۔ لمس کے سارے خوشبو دار پرندے گھونسلہ چھوڑ چکے تھے۔
پانی کی شفافیت سے کہیں زیادہ پانی کی سفاکی کا احساس ہو رہا تھا ۔
دل چاہ رہا تھا ایک قدم آگے بڑھائے اور ان جان لیوا لہروں کے حوالے خود کو کر دے ۔
بد نامی سے تو کہیں زیادہ اچھی موت ہے ۔
خاموشی سے آنسو پاکیزہ کے تھرتھراتے ہوئے گالوں پر پھیل گئے ۔اسی لمحے آفتاب اس کے پاس آیا۔ وہ بھی سراسیمگی میں مبتلا تھا ۔حالت البتہ پاکیزہ سے قدرے بہتر تھی۔ اپنا ہاتھ پاکیزہ کے سامنے پھیلا کر بولا۔
’’چلو اٹھو یہاں سے چلیں۔ ‘‘
’’وہ ۔۔‘‘ پاکیزہ کا اشارہ اس آدمی کی طرف تھا ۔
’’اس نے مجھ سے پیسے لے لیے ہیں۔ اب کچھ نہیں کہے گا۔ پھر بھی تم اٹھو۔ ہم یہاں سے چلتے ہیں ۔‘‘ وہ پاکیزہ کو اٹھا چکا تھا۔
وہاں سے تیزی سے نکلتے ہوئے بھی پاکیزہ کا ہاتھ آفتاب کے حصار میں تھا۔ پاکیزہ کی نظر آفتاب کے جوتوں پر پڑی، تسمے کھلے ہوئے تھے۔ چلتے چلتے وہ بائیک کے قریب آ چکے تھے ۔آفتاب بائیک پر سوار ہوا تو پاکیزہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ وہ بائیک سٹارٹ کر چکا تھا۔ سمجھ ہی نہیں سکا۔۔۔ محبت نے ا س لڑکی کو چاروں شانے چت کر دیا تھا ۔حوا کی بیٹی نے ایک بار پھر دل کے ساتھ ذات بھی پیروں میں رکھی تھی۔
وہ اپنے شوق سے تسمے باندھ رہی تھی ۔۔۔!
پاکیزہ آفتاب نور کے تسمے باندھ رہی تھی۔۔۔!
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
عشق وہم و گماں میں رہتا ہے
میرے ہی جسم و جاں میں رہتا ہے
آپ کا حوصلہ جو ہیں دل میں
کون ٹوٹے مکاں میں رہتا ہے
آپ کو بھولے ایک عمر ہوئی
تذکرہ کیوں بیاں میں رہتا ہے
مہرباں لاکھ پر مرا یہ دھیان
ایک ہی مہرباں میں رہتا ہے
عقل اور میں تو متفق ہیں مگر
ایک دل درمیاں میں رہتا ہے
جانے کیا بد دعا ہے اس دل کو
ہر گھڑی امتحاں میں رہتا ہے
وہ ڈبوتا ہے لازماً اک دن
طوفاں جو بادباں میں رہتا ہے
عشق باسی ہے ایک صحرا کا
کب کسی گلستاں میں رہتا ہے
جس کو سمجھا تھا یہ جہاں ابرک
جانے اب کس جہاں میں رہتا ہے
عورت کو پہلی دفعہ چھونے والا مرد ایسا ہی ہوتا ہے کہ نہ سمجھ میں آتا ہے نہ نظر میں ٹہرتا ہے، فقط دل میں اترتا ہے۔ ایسا اترتا ہے کہ دل بھی پھر اپنا نہیں رہتا۔ آفتا ب ا س کے دل میں اتر آیا تھا۔ وہ کوئی بھی بات کرتی کہیں نا کہیں سے آفتاب کا حوالہ آفتاب کا تذکرہ آ ہی جاتا۔ وہ زبان دانوں تلے دیتی اور ہنستی چلی جاتی ۔ اس کی آنکھوں میں ستارے بسیرا کر چکے تھے ۔اس کے لبوں پر ہر دم موتیے کی بند کلیاں رقصاں رہتی ۔وہ سنوری سنوری رہتی۔ اس پر شباب کے ساتھ محبت کا رنگ چڑھ رہا تھا ۔ اس روپ سے وہ خود بھی کنی کترانے کی کوشش کرتی تو آہٹیں سرسراہٹیں سبھی سرگوشیاں کرنے لگ جاتی ۔ وہ اپنے آپ پر خود ہی مسکراتی ۔ اپنی چوری خود پکڑنے پر خود ہی جھینپ جاتی۔ آفتاب خوابوں تک تھا تو خیال تھا۔ تصور سے نکل کر حقیقت میں آیا تو حوالہ بن گیا ۔ حوالہ تو ہر جگہ دینا پڑتا ہے !
اپنے نکاح کی ٹوٹی پھوٹی کہانی کسی دوسرے کی آپ بیتی بنا کر اپنی سہیلی کو سنائی تو وہ انگشت بدنداں رہ گئی ۔
’’اگر ایسے نکاح ہوتا تو کیا سب نہ کر لیتے ؟‘‘
کتنا شانداز طمانچہ اس کے منہ پر پڑا تھا ۔ منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔ آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں اور گلال ہوئے گال پھیکے پڑ گئے۔ ہنسی تو پہلے ہی دبے قدموں جا چکی تھی ۔
’’ایسے نکاح ہوتا تو کیا سب نہ کر لیتے ۔۔؟‘‘ کتنا بھیانک سوال تھا ۔شاید جواب زیادہ بھیانک تھا۔ اس نے دوست کو ہزار تاویلیں دیں۔ وہ سب باتیں جو آفتاب نے سمجھائی تھیں سب کی سب من و عن دہرا دی لیکن اس اللہ کی بندی کا ایک ہی مطالبہ تھا ۔
’’گواہ ہونا چاہیے۔ ‘‘
’’اللہ سے بڑا کون گواہ ؟‘‘ پاکیزہ نے بڑی بے باکی سے کہا تھا ۔
’’اللہ سے بڑا کیا کوئی تخلیق کار ہے لیکن پھر بھی اس نے یہ رتبہ ماں کو تفویض کیا ۔ کچھ کردار انسانوں کو ہی نبھانے چاہیے ۔ کچھ کردار انسانوں کو نبھانے ہی پڑتے ہیں۔ ‘‘ وہ لڑکی دھن کی پکی تھی ۔پتھر پر لکیر کی طرح صاف ستھری بات کرکے وہ بات گھما چکی تھی ۔
پاکیزہ کے اندر کہیں دل پتھر ہو گیا تھا۔
کیا جب تک گواہ نہیں ہوں گے تو وہ میرا شوہر نہیں ہو گا؟
اگر شوہر نہیں ہے تو جو ا س نے مجھے چھوا ؟
اس کی وہ سانسیں جو میں نے محسوس کی ؟
اف !!!
اس سے آگے سوچنا بھی سوہان روح تھا۔ بڑے عرصے بعد ایک بہت بڑا کانٹا پاکیزہ کے دل میں چبھا تھا ۔
محبت اگر محبت ہوتی ہے تو آزمائش کیوں بنتی ہے؟ یہ امتحان لے لے کر انسان کی روح کو چھلنی کر دیتی ہے۔ چھلنی روح میں توپھر کوئی محبت جگہ نہیں پا سکتی ۔ نہ مجازی محبت کو جگہ ملتی ہے نہ حقیقی محبت بسیرا کرنے کا سوچتی ہے ۔ سچ ہی ہے محبت اگر محبت ہو تو آزمائش نہیں بنتی ۔ محبت محبت ہو تو راستہ ہوتی ہے ،محبت راہبر ہوتی ہے، محبت راستہ بناتی ہے ،محبت محبتوں کو زندہ رہنے دیتی ہے۔ محبت کانٹے کی طرح نہیں چبھتی۔ محبت کا درد انگلی کے دروازے میں آنے جیسا نہیں ہوتا۔ محبت توریشمی کپڑے سے ہونے والی میٹھی میٹھی مٹھاس جیسی ہے چیخنے کا دل نہیں چاہتا ہلکا ہلکا سرورقائم رہتاہے ۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
خواب تعبیر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم سدا بھوک مٹاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہاتھ سے ہاتھ ملانے میں گزاری ہے حیات
ہاتھ سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے مر جاتے ہیں
صبح دم رزق کی امید میں گھر چھوڑتے ہیں
شام ڈھلتی ہے تو آتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم تو شاعر ہیں زمانے کے سبھی درد و الم
اپنے لفظوں میں سجاتے ہوئے مر جاتے ہیں
لوگ بے بس ہیں مشیت کے فسوں کے آگے
بیٹیاں گھر سے اُٹھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
اجرتِ سانس معظم ہے دُکھوں کی صورت
عمر بھر ہم یہ چکاتے ہوئے مر جاتے ہیں
اس نے ابھی اپنے قدم نئے نئے بے اعتباری سے اعتبار کی دنیا میں رکھے تھے ۔ وہ خود پر اعتبار کرنے لگا تھا۔ اپنے ہونے کا اسے یقین ہونے لگاتھا ۔ خود اعتمادی کسی خوردروبیل کی طرح اس کے اندر سے پھوٹ نکلی تھی اور اب اس کی شخصیت کو جاذب نظر بناتی جا رہی تھی ۔تب ہی اس کے اندر تک پھیلی جڑیں زور و شور سے ہل گئی۔
’’ مجھے وہ چاہیے آفتاب۔۔۔ ‘‘
’’پاکیزہ مجھے کتنا آزماوْ گی؟‘‘
جب تک تم میرے سامنے میرے عکس کی طرح واضح نہیں ہو جاتے ،جب تک تمہارا تصور میرے ذہن میں کھٹکنا بند نہیں کر دیتا ۔میں تم سے بار بار ثبوت مانگتی رہوں گی ۔‘‘ اس کے لہجے میں قطعیت تھی ۔
’’محبت ثبوت نہیں مانگتی پاکیزہ ۔‘‘
’’لیکن آفتاب محبت عزت تو مانگتی ہے نا ں ؟‘‘
’’اس شخص نے تمہیں کچھ کہا تھا ؟ کچھ نہیں کہا ناں ؟ تمہاری عزت پر کہاں حرف اٹھنے دیا میں نے ؟‘‘
’’اتنا ہی مطمئن رکھنا چاہتے ہو تو گواہوں کی طرف سے بھی اطمینان کروا دو ۔‘‘
’’اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اطمینان ہی حتمی ہو گا ؟‘‘
’’محبت ثبوت نہیں مانگتی آفتاب ۔‘‘
پاکیزہ نے دھونس سے کہا تھا اور آفتاب نے مان لیا تھا۔
جس لڑکی نے اپنے ہاتھوں سے اس کے تسمے باندھے تھے وہ اس کا ہاتھ نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔
پاکیزہ کو اس نے یہی کہا تھا اور پاکیزہ اپنے ہاتھوں پہ اس کا کھویا لمس ڈھونڈنے لگی ۔
خواب کی مٹھی میں بند ستارے کبھی آنکھوں میں آن بستے ہیں اور کبھی آسمان کی اونچائیوں پر جا ٹکتے ہیں ۔ ایک پل کو لگتا ہے جو ہم جی رہے ہیں بس یہی زندگی ہے اور اس ایک پل کے علاوہ زندگی سے کچھ مانگنے کا بھی دل نہیں کرتا پھر ایک وہی پل پلٹا کھاتا ہے اور دل چیخ کر پوچھتا ہے
کیا یہی زندگی ہے ؟
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
اپنے حالات کو جیا میں نے
اور تری ذات کو جیا میں نے
زندگی اک طویل قصہ تھی
چند صفحات کو جیا میں نے
کیسے کب کیوں ہوئی قیامت یہ
ان سوالات کو جیا میں نے
رات جو عمر بھر نہیں کٹتی
بس اسی رات کو جیا میں نے
ہم ترے ہو چکے سدا کے لئے
تیری اس بات کو جیا میں نے
جان جب جسم سے نکلتی ہے
اس ملاقات کو جیا میں نے
جیت سمجھے تھے جس کو تم اپنی
تیری اس مات کو جیا میں نے
ہیں جو زندہ تو بس سمجھ لیجے
کچھ کمالات کو جیا میں نے
کیا بھلا عشق کی مجال ابرک
اپنی عادات کو جیا میں نے
’’ میں سفیان عباسی تم دونوں یعنی پاکیزہ اور آفتاب نور کے نکاح کا گواہ ہوں ۔‘‘
’’میں سلمان عابد تم دونوں یعنی پاکیزہ اور آفتاب نور کے نکاح کا گواہ ہوں ۔‘‘
’’ میں حمدان نیازی تم دونوں یعنی پاکیزہ اور آفتاب نور کے نکاح کا گواہ ہوں ۔‘‘
’’میں حارث عمر تم دونوں یعنی پاکیزہ اور آفتاب نور کے نکاح کا گواہ ہوں ۔‘‘
وہ اندر کمرے میں بیٹھی تھی اور باہر اقرار ہو رہا تھا ۔ گواہی دی جا رہی تھی شہادتیں لی جا رہی تھیں۔ دروازہ ہلکا سا بجا کر وہ کمرے میں داخل ہوا ۔
’’پاکیزہ تم نے سن لیا اب ان لوگوں کو بھیج دوں ؟‘‘ اس نے اپنی گری ہوئی پلکیں اٹھا کر آفتاب کو دیکھا۔ پلکوں پر چاندی سے چمکتے ہوئے موتی ٹکے ہوئے تھے ۔
’’اوہو ابھی رخصتی نہیں ہو رہی۔ تم ان موتیوں کو گرنے نہ دینا۔ میں بس ابھی آیا ۔‘‘ باہر جا کر دوستوں کو بھیجنے لگا ۔
وہ جاتے ہوئے مذاق کر رہے تھے ۔
’’ یار بڑوں والے نکاح میں بھی ہمیں ہی گواہ رکھنا ۔‘‘
بڑی مشکل سے جان بچا کر وہ کمرے میں واپس لوٹا ۔
آج آفتاب کے گھر کوئی نہیں تھا۔ سب گھر والے کسی رشتے دار کی شادی میں گاوْں گئے ہوئے تھے ۔ رات گئے تک واپسی متوقع تھی۔ آفتاب نے جب پاکیزہ کو گھر آنے کو کہا تو وہ ڈر گئی۔ اس کا دل انتہائی قدم اٹھانے کی تائید نہیں کر رہا تھا پھر اسے وہ منظر یاد آ گیا جب اس مزدور کی نظریں پاکیزہ کا مذاق اڑا رہی تھیں۔۔ کوئی تو گواہ ہو ۔۔۔ یہی سوچ کر وہ آج اکیلی چلی آئی تھی ۔
’’آوْ باہر چلیں ۔‘‘ وہ پاکیزہ کا ہاتھ تھام کر اسے ٹی وی لاوْنج میں لے آیا تھا ۔اب وہ اسے گھر کے سارے کمرے دکھا رہا تھا ۔ پاکیزہ معتبر محسوس کر رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ آنکھوں میں آن بسنے والے ستارے ان لمحوں میں قدموں تلے آ گئے ہیں ۔اسے یقین تھا کہ دنیا میں اگر کوئی جنت ہے تو وہ یہی ہے بس اسی چار دیواری میں ہے۔
’’یہاں بیٹھو۔‘‘ اس نے کچن میں پڑے ڈائننگ ٹیبل پر پاکیزہ کو بیٹھا دیا تھا۔
’’میری شدید خواہش تھی کہ تمہیں اپنے ہاتھ کی چائے بنا کر پلاوْں۔ ‘‘ وہ دیگچی ڈھونڈرہا تھا۔
’’رکیں آفتاب میں خود بناتی ہوں۔ ‘‘ وہ اٹھی تھی
’’نہیں تم بیٹھی رہو اور خاموشی سے مجھے سنو۔ ‘‘ اس نے پاکیزہ کے لبوں پر انگلی رکھ کر کہا تھا ۔
پاکیزہ سن سی بیٹھی رہ گئی ۔
’’تمہیں مری والی چائے یاد ہے پاکیزہ ؟ مجھے آج تک وہ چائے نہیں بھولی ۔میں نے اس کے بعد جب جب چائے پی ہے آدھی پیالی ہی پی ہے ۔تمہارے ہاتھ کی چائے پینے کے بعد مجھے چائے مزہ ہی نہیں دیتی۔ آج تمہیں اپنے ہاتھ کی چائے بنا کر پلاوْں گا تو شاید برسوں پرانا خمار اترے ۔‘‘
وہ روٹین کے سے انداز میں چائے بنا رہا تھا اور مسلسل باتیں کرتا جا رہا تھا۔ پاکیزہ اس کی سرخ ٹی شرٹ سے نکلتے کسرتی جسم کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے خوبصورت پاوْں پاکیزہ کو متوحش کر رہے تھے ۔
وہ اپنی انگلیاں مروڑنے لگی وہ بس یہی کر سکتی تھی ۔
’’یہ لو چائے۔ ‘‘ بھاپ اڑاتا کپ اس نے پاکیزہ کے سامنے رکھا تھا۔
آفتاب یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ شرم و حیا لڑکی کو اس قدر خوبصورت بنا دیتی ہے کہ اگر اسے معلوم ہو جائے تو زیور کی حاجت ہی نہ رہے ۔
’’ایسے نہ دیکھیں آفتاب۔ ‘‘ وہ شرما کر رہ گئی ۔
’’اب بھی نہ دیکھوں۔ اب تو مجھے تم پر حق ہے۔ ‘‘ وہ کہنیاں میز پر جما کر بولا ۔
پاکیزہ سے نظریں اٹھانا مشکل ہو گیا ۔کتنی ہی ساعتیں گزر گئیں، آفتاب نے اس کی نظروں کے سامنے چٹکی بجائی ۔
’’چائے پینی ہے یا دیکھنے میں بھی پسند نہیں آئی۔ ‘‘ وہ استفسار کر رہا تھا۔
’’اوہو مجھے یاد ہی نہیں رہا۔ ‘‘ اس نے چائے کا کپ ہاتھ میں اٹھا لیا تھا ۔
’’تمہیں میرے علاوہ کچھ یاد رہنا بھی نہیں چاہیے۔ ‘‘ وہ بہت حق سے اسے جتا رہا تھا ۔پاکیزہ کو اچھا لگا ۔۔۔ ہمیشہ سے کہیں زیادہ اچھا لگا ۔
’’جلدی سے چائے پیو پھر تمہیں چھوڑ کر بھی آنا ہے۔ ‘‘ وہ اسے حقیقی دنیا میں واپس لایا تھا۔
کوئی یقین کر سکتا ہے کہ خالی گھر میں بند کمرے میںاس نے مجھے چھوا بھی نہیں ؟ اپنی نظروں سے میری پرستش کی اور سارے حقوق ہونے کے باوجود مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔۔۔ کسی کو چیخ کر بتاوْں تب بھی کوئی یقین نہیں کرے گا۔۔۔ کسی کے یقین سے مجھے اب کیوں فرق پڑے گا ۔۔۔ وہ مجھ سے میرے نام جیسی محبت کرتا ہے پاکیزہ محبت ۔۔۔۔ وہ میری زندگی میں اپنے نام جیسا ہے سب کچھ روشن کر دیتا ہے ۔۔۔۔ میرا آفتاب !
واپسی کے رستے پر اپنے چہرے کو نقاب سے چھپائے وہ اپنی خوش قسمتی پر غور کر رہی تھی اور حیران ہو رہی تھی ۔۔۔۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
بوجھ پانی کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر انہیں احساس نہیں
میں نشانات مٹاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
غمگساری بھی عجب کار محبت ہے کہ میں
۔ رونیوالوں کو ہنساتے ہوئے تھک جاتا ہوں
اتنی قبریں نہ بناؤ میرے اندر محسن
میں چراغوں کو جلاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
’’لڑکیاں بری نہیں ہوتیں ،محبت بھی بری نہیں ہوتی، برا تو وقت بھی نہیں ہوتا۔۔۔ برے بس حالات ہو جاتے ہیں!
حالات جن میں لڑکیاں ،محبت اور وقت سب ہی برابن جاتا ہے ۔سب ہی برباد ہو جاتا ہے۔ ان محبت کے شکنجوں میں نہ ہی پھنسو تو بہتر ہے ورنہ دل پر ہمیشہ ایسے ہی ہتھوڑے برستے رہیں گے جیسے سامنے کھڑا مزدور دیوار پر برسا رہا ہے ۔‘‘
پاکیزہ کالج کے کھیل کے میدان میں بیٹھی اکثر کسی نا کسی کو سمجھا رہی ہوتی تھی ۔
لڑکیاں اس سے بات کرنا پسند کرتی تھی۔ لڑکیاں اس کی بات غور سے سنتی تھی۔ وہ جو سمجھتی تھی سب کو سمجھانے کی کوشش کرتی تھی۔ لڑکیوں کے لیے وہ پسندیدہ ضرور تھی لیکن جب بات نام نہاد محبت کی آتی تھی تو انہیں نہ اپنی کرنی بری لگتی نہ اپنا وقت برا لگتاتھا اور نہ ہی اپنا آپ برا لگتا تھا۔ البتہ پاکیزہ ضرور کھٹکتی تھی۔پاکیزہ کی نصیحتیں ضرور کھٹکتیں تھیں۔ ایسے میں کتنی ہی زہر خند باتیں زبان سے نکل جاتیں تھی محبت کا دم بھرنے والیوں کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا ۔نام نہاد محبت نفرت کرنا سکھا دیتی ہے۔ہر اس چیز ،شخص سے نفرت جو محبت کے راستے میں آئے،محبت کے دنیاوی تقاضوں پر انگلی اٹھائے یا محبت پر سوالیہ نظر ڈالے۔
جب ہم نفرت کی پگڈنڈی پر چلتے ہیں تو راستے کی دشواریاں اور منزل کی دوری معنی نہیں رکھتی ۔ ہم تکلیف بو رہے ہوتے ہیں اور تکلیف کاٹ رہے ہوتے ہیں ۔ کانٹے پھیلاتے ہوئے کانٹوں پر چلتے چلتے اتنی دور نکل آتے ہیں کہ بے حس ہو جاتے ہیں۔ یہ نام نہاد محبت کا ہی اعجاز تھا کہ وہ نفرت بو رہی تھی ۔اب نفرت کاٹنے کا وقت تھا۔
’’پاکیزہ کے لیے جو کالج کے باہر کھڑا ہوتا ہے وہ کون سا محرم ہے ؟‘‘
’’پاکیزہ کا بھی تو یار ہی لگتا ہے جس سے ملنے گئی تھی ؟‘‘
’’اس کے لیے محبت جائز ہے ا ور ہمارے لیے نا جائز ؟‘‘
’’اس کا دل پر اختیار نہیں ہے لیکن ہمارا ہونا چاہیے؟‘‘
’’دوسروں کو وہ تب روکے جب خود ان کاموں میں ملوث نہ ہو ؟‘‘
اس کی باتوں سے اس کے بوائے فرینڈ کا ذکر نہیں جاتا اور ہمیں منع کرتی ہے ۔‘‘
’’کتنی عجیب سی لڑکی ہے چہرہ دیکھو تو معصومیت اور اندر سے پوری ہے ‘‘۔
’’جو ہم سے پیار کرے وہ جھوٹا ہے اور جو پاکیزہ سے پیار کرے وہ سچا ہے ۔‘‘
’’صرف اسی نے آزمایا ہے اپنے عاشق کو اور ہم تو کاٹھ کے الو ہیں ۔‘‘
’’اس کا یار عاشق ہے لیکن ہماری دوستی لوفروں سے ہے ۔‘‘
’’سر یوں لپیٹ کر رکھتی ہے جیسے بڑی بے حیا ہے۔ ‘‘
’’کیا بعید ہے کہ ملنے نہ جاتی ہو ؟‘‘
’’ملنے جانے کے بعد کوئی کتنا پاکیزہ رہتا ہے یہ ہم سے بھلا کہاں چھپا ہے ؟‘‘
اندازے لگائے جاتے تھے۔اس کے کردار کے بارے میں باتیں ہوتی تھیں ۔
جب زہر خند اور تلخ باتیں زبان سے نکلنے لگ جاتی ہیں تو آنکھوں سے حیا اور خلوص کا جنازہ نکل جاتا ہے، نظروں میں پھر بے باکی ہوتی ہے اور انداز استہزائیہ ہو جاتا ہے ۔
پاکیزہ استہزائیہ انداز دیکھ کر کڑھتی ۔کوئی ہلکی پھلکی بات سامنے کر دیتا تو اس کو سو سو تاویلیں دیتی ۔
’’فلاں کا بوائے فرینڈ بس اکیڈمی کے راستے نظر آیا توپیچھے پڑ گیا ، فلاں کا بوائے فرینڈ تو رانگ نمبر والا ہے، فلاں کا بوائے فرینڈ اس کی وین والا انکل ہے۔ میرا تو ایسا کوئی حساب کتاب نہیں ۔ مجھے سوشل میڈیا سے تحفے میں محبت نہیں ملی ۔ مجھے سر راہ چلتے کوئی نہیں آ ٹکرایا۔ مجھے کسی دس بیس دن کی محبت کا بخار نہیں چڑھا ۔آفتاب میرے ساتھ بچپن سے ایک سکول میں پڑھے ہیں۔ میں نے ان کے گھر کے نمبر پر بھی بات کی ہے۔ ان کے گھر میں بھی سب کو معلوم ہے ۔ کچھ وجوہات کی بنا پر ہم منگنی نہیں کر سکتے ابھی لیکن میں ان کی ہوں، یہ طے ہے! ہمارا ساتھ پرانا ہے۔ ان سب کی دوستیوں کا کوئی ہماری محبت سے موازنہ نہیں کر سکتا ۔‘‘
سننے والے وضاحتیں کہاں سنتے ہیں۔۔۔ انہیں تاویلیں کب سمجھ آتی ہیں۔۔۔ وہ بس مصالے دار جملوں کا اضافہ کر لیتے ہیں اور آنکھوں میں استہزا قائم رہتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ سے شکوہ نہیں رہا گھر کو
جب سے دیوار کر دیا در کو
ناؤ میں آخری مسافر ہے
آخری کام ہے سمندر کو
رات کے تین بج رہے تھے ،پیاس کا احساس جاگتے ہی تسکین کی آنکھ کھل گئی ۔ اس نے کسلمندی سے کمرے میں نگاہیں دوڑائیں۔کمرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ کوئی منظر واضح نہ ہو سکا۔۔۔ اندازے سے اپنا ہاتھ ٹیبل لیپ کے بٹن پر رکھا ۔ تھوڑی سی روشنی ہوئی، وقت دیکھ کر لیٹے رہنے کو جی چاہا۔ پیاس کی طلب بھی شدید تھی ۔سماعتوں پر مدھر سی ہنسی نے ترنم چھیڑا ۔پاکیزہ ہنس رہی تھی۔۔۔ تسکین کو اپنا وقت یاد آ گیا ۔
کالج کے زمانے میں وہ بھی یونہی ہنستی تھی ۔ایسی ہنسی جس میں کوئی پریشانی نہ ہوتی اور جھرنے سے بہتی چلی جاتی ۔ ایسی ہی لمبی راتوں میں وہ اپنے بستر پر دبکی ریڈیو سنا کرتی ۔ایف ایم کے آر جے کا لہجہ سماعتوں میں رس گھولتا اور سر پر سوار ہوتا چلا جاتا۔ کسی بات پر اتنی بے ساختہ ہنسی آتی کہ اماں اپنے بستر میں لیٹے لیٹے آواز لگاتی۔
’’پاگل ہو گئی ہے ؟‘‘ وہ اپنی ہنسی کو بمشکل دباتی لیکن کچھ ہی لمحوں بعد بے ساختہ مزاح پر ہنسی بھی بے ساختہ آ جاتی ۔ پاکیزہ بھی ریڈیو سن رہی ہو گی ،تسکین نے اندازہ لگایا ۔
بیڈ سے نیچے اتری ،پیروں میں چپل اڑیسی اور کھڑی ہو گئی۔ رات کمرے میں پانی رکھنے کی یاد ہی نہیں رہی تھی۔ اب پاکیزہ کے بولنے کی آواز آ رہی تھی۔ تسکین نے انداز لگایا کہ ضرور آج پاکیزہ کی کال مل گئی ہو گی۔
کیسا پاگل پن ہوتا ہے ریڈیو سننے میں۔۔۔ عجیب جنونی سی کیفیت ہوتی ہے میلوں دور بیٹھے بندے کی آواز پر دل کی دھڑکن دھڑکنے لگ جاتی ہے ۔ جو وہ کہہ رہا ہوتا ہے، وہ محسوس ہو رہا ہوتا ہے ! گہری رات میں چھپ چھپ کر بیٹھک سے ٹیلی فون کا ڈائل گھمانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اوپر سے فون کا ڈائل بھی وہ تھا جس میںہندسے پر انگلی رکھ کر ڈائل کو کلاک وائز گھما کر چھوڑنا پڑتا۔ قوی امید یہی ہوتی کہ شور سے کوئی جاگ جائے گا ۔ڈائل کو ڈھیلا چھوڑا ہی نہ جاتا بلکہ انگلی رکھے رکھے ہی ڈائل کو اصل جگہ پر واپس لایا جاتا۔ اس طرح شور قدرے کم ہوتا لیکن فون ملاتے ملاتے ہی وقت لگ جاتا ۔اب زندگی کتنی آسان ہو گئی ہے بس انگلی سے نام چھونا پڑتا ہے اور آوازوں کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ نہ فون نمبر یاد کرنے کی جھنجھٹ نہ فون ڈائری سنبھالنے کی مصیبت ۔ وقت کا پہیہ بھی کیسی کیسی تبدیلیاں لا رہا ہے بالکل فون کے ڈائل کی طرح ۔۔۔!
تسکین نے ماضی اور حال کو ایک ہی نگاہ سے جانچ لیا ۔
’’آپ سے بات نہ کروں تو مجھے نیند کہاں آتی ہے ۔دکان سے جلدی نکلا کریں۔ جب تک آپ نہیں ہوتے، میرا بستر پر لیٹنا بے معنی ہوتا ہے ۔بس کروٹیں بدلتی رہتی ہوں، آنکھ نہیں لگتی ۔‘‘
پاکیزہ کتنی آسانی سے کتنی گہری باتیں کر رہی تھی۔ اس کے کمرے کے دروازے میں کھڑی تسکین حیران رہ گئی۔
بات آر جے یا ڈی جے سے نہیں ہو رہی تھی ۔یہ کوئی اور ہی تھا! تسکین کو یقین ہو گیا۔ وہ اب سوچ رہی تھی کہ کیا کرے ۔
’’اگر اندر چلی جاتی ہوں تو ایک دفعہ پہلے کی طرح غلط فہمی ہی نہ ہو جائے۔ اگر باہر رکی رہتی ہوں تو میری تربیت پر نہ حرف آئے ۔‘‘
اولاد مشکل میں ڈالتی ہے۔چاہے اسے پیدا کرنا ہو یا پالنا ہو دونوں صورتوں میں مشکل ہے۔ اولاد کو نہیں پتا ہوتا پیدا کرنے والے اور پالنے والے ہی مشکل کاٹتے ہیں ۔
’’آفتاب پلیز مجھے جلدی سونے کا نہ کہیں ۔آپ کو میری فکر ہوتی ہے تو بس جلدی گھر آ جایا کریں ۔‘‘
اب مزید کسی تصدیق کی ضرورت نہیں تھی ۔پیاس اڑن چھو ہو گئی تھی۔ تسکین نے کمرے میں داخل ہو کر روشنی کر دی ۔ پاکیزہ ہڑبڑا گئی۔ اس نے فورا فون بند کر کے سرہانے کے نیچے رکھنے کی سعی کی لیکن تسکین ا سکے سر پر پہنچ گئی تھی ۔
’’پھوپھو وہ ۔۔۔۔‘‘ لفظ پاکیزہ کے منہ میںتھے ۔
تسکین نے بہت خاموشی سے اس کے ہاتھ سے موبائل فون لیا اور روشنی گل کر کے چلی گئی ۔
اب کیا ہو گا ؟
اندھیرے میں یہ سوال پاکیزہ کے سارے وجود میں رینگ رہا تھا۔ اسے یاد آ رہا تھا بہت سے پیغامات انباکس اور سینٹ آئٹم میں موجود تھے جنہیں اگر تسکین پڑھ لیتی تو قیامت آ جاتی ۔ یہ تو اب طے تھا کہ قیامت آنی ہے۔ فقط انتظار تھا کہ قیامت کب آئے گی ۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
یہ خوف دِل میں نگاہ میں اضطراب کیوں ہے؟
طلوع محشر سے پیشتر یہ عذاب کیوں ہے
کبھی تو بدلے یہ ماتمی رُت اُداسیوں کی
میری نگاہوں میں ایک سا شہر خواب کیوں ہے
کبھی کبھی تیری بے نیازی سے خوف کھا کر
میں سوچتا ہُوں کہ تُو میرا انتخاب کیوں ہے؟
فلک پہ بکھری سیاہیاں اب بھی سوچتی ہیں
زمیں کے سر پہ یہ چادر آفتاب کیوں ہے
ترس گئے میرے آئینے اُس کے خال و خد کو
وہ آدمی ہے تو اس قدر لاجواب کیوں ہے؟
اُسے گنوا کر پھر اُس کو پانے کا شوق کیسا؟
گناہ کر کے بھی انتظارِ ثواب کیوں ہے
تیرے لیے اُس کی رحمتِ بے کنار کیسی؟
میرے لیے اُس کی رنجش بے حساب کیوں ہے؟
اُسے تو ’’محسن’’بلا کی نفرت تھی شاعروں سے
پھر اُس کے ہاتھوں میں شاعری کی کتاب کیوں ہے؟
بے باک گفتگو اور ذومعنی باتیں ۔۔۔۔یوں لگتا تھا کہ شباب دنیا کی پہلی بنت حوا پر آیا ہے اور دیوانگی پہلے ابن آدم کی وراثت ٹھہری ہے۔ کچھ بھی تو قابو میں نظر نہیں آ رہا تھا۔ تسکین از حد پریشان ہوئی اس کی نظروں کے سامنے چار سال پرانی پاکیزہ گھوم گئی وہ جس میںکچھ کر دکھانے کا عزم تھا۔ اس نے اب کی پاکیزہ کو سوچا۔۔۔ گریڈز تو اب بھی اچھے آ رہے تھے لیکن جوش مفقود تھا۔ پہلے جیسی کچھ کر دکھانے کی بے چینی نہیں رہی تھی ۔
لڑکیوں کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں اور خواب بڑے! ان بڑے بڑے خوابوں کی سمتیں کب بدل جاتی ہیں ان چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا۔
گفتگو میں دیوانگی اور جذباتیت اس انتہا پر تھی کہ اگر پاکیزہ سے موبائل لے لیا جاتا تو وہ کوئی نہ کوئی چور راستہ ڈھونڈ ہی لیتی ۔ اس نے ہر صورت چور راستہ ڈھونڈنا تھا ۔جس شدت سے وہ کچھ کر دکھانا چاہتی تھی اسی شدت سے اب وہ آفتاب کو چاہتی تھی۔
شدت انسان کی دنیا کو دھندلا کر دیتی ہے ، ہر منظر پر شدت حاوی ہو جاتی ہے۔ شدت کا جو دل چاہتا ہے انسان سے کرواتی ہے ۔ جو رویہ چاہے ا سکا مظہر بناتی ہے۔ مزے کی بات ۔۔۔یہ شدت میں ڈوبے انسان کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ وہ شدت کے شکنجے میں ہے !
یہ شدت کا فلسفہ تسکین سے بہترکون سمجھ سکتا تھا۔ اس نے بھی پورے دل سے پوری شدت سے کچھ چاہا تھا۔ اس کے بعد ادھورا پن ذات میں رہ گیا۔ اب برسوں بعد اس نے رنگوں سے کھیل کر اس ادھورے پن کو چاٹنے کی کوشش کی تھی لیکن ادھورا پن بھی تو پالتو کتے کی طرح ہوتا ہے آپ جتنا اسے جھڑکیں ، جان چھڑوائیں ،وہ اتنا ہی آپ کی ٹانگوں سے لپٹتا ہے ، اتنے ہی آپ کے پیر چاٹتا ہے ۔۔
تسکین کو سمجھ نہیں آ رہا تھا منہ زوری اور اور بے راہ روی سے پاکیزہ کا منہ کیسے موڑے ۔ اگر وہ پاکیزہ کو روکتی تو پاکیزہ اسے اپنا دشمن سمجھتی۔ محبت میں یہی تو ہوتا ہے محبوب کے علاوہ سب ظالم لگتے ہیں ۔ بہت سوچ سمجھ کر تسکین نے آفتاب سے ملنے کا فیصلہ کیا ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا تھا ۔معلوم ہو جانا تھا کہ لڑکا واقعی سچا ہے یا وقت گزاری کر رہا ہے ۔ اگر سچا ہوتا تو رشتے کو معتبر نام دیا جا سکتا تھا ورنہ اس کی بے وفائی پاکیزہ کا منہ موڑنے کے لیے خود بڑی دلیل ثابت ہوتی ۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
فرصت ملے تو اپنا گریباں بھی دیکھ لے
اے دوست یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ!
پاکیزہ پریشان تھی ۔وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا ہونے والا ہے ۔آفتاب کا نمبر موبائل میں موجود تھا۔ اگر پاکیزہ سے موبائل یوں اچانک نہ چھینا جاتا تو کم از کم وہ انتہائی ذاتی گفتگو ہی موبائل سے مٹا دیتی ۔ اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ سوال یہ تھا کہ تسکین کیا کر سکتی ہے اور جواب بہت بھیانک تھے ۔
تسکین مار پیٹ کا راستہ اپنا سکتی تھی۔ تسکین پڑھائی چھڑوا سکتی تھی۔اور تسکین آفتاب سے رابطہ بھی تو کر سکتی تھی ۔یہ سوال باقی سوالوں سے اس سوال کے بعد مزید کئی سوال منہ کھولے کھڑے تھے ۔
پاکیزہ کو لگتا تھا وہ زندہ سلامت قبر میں اتاردی گئی ہے ۔ اسے نہیں پتا کہ ا ندھیر نگری میں بچھو اور اژدھے کیسے اسے اپنی خوراک بنانے والے ہیں۔
ٹھیک ہے کہ آفتاب اس سے محبت کرتا تھا لیکن کیا آفتاب اس کی محبت کا دفاع کر سکتا تھا ؟
ٹھیک ہے کہ آفتاب نے ہزاروں دعوے کیے تھے لیکن کیا وہ واقعی دعووْں پر پورا اترے گا ؟
پاکیزہ کے ہاتھ سے سب چیزیں ریت کے ذروںکی طرح نکل کر بکھر چکی تھیں۔ اس کی زندگی میں مشکلات آ گئی تھیں، وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی ۔ اندھیرے میں خود کو ڈھونڈنا چاہتی تھی، کھوجنا چاہتی تھی لیکن حالات ایسے ہو گئے تھے کہ وہ تو خود کو ٹٹول بھی نہ سکتی تھی۔
یخ برف سل پر رکھے ہوئے انگارے سی حالت تھی۔ انگارہ بھی بجھ سکتا تھا اور برف بھی پگھل سکتی تھی۔۔۔ ہونا کیا ہے۔۔۔ کون جانتا ہے ؟
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
جو اُتر کے زینہِ شام سے
تیری چشمِ خوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ
میرے بام و در کو سجا گئے
یہ عجیب کھیل ہے عشق کا
میں نے آپ دیکھا ہے یہ معجزہ
وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے
وہ تیری زبان پر آ گئے
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں
میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں
جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
وہ چراغِ جاں، کبھی جس کی لو
نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بیوفائی کے وسوسے
اُسے چپکے چپکے بجھا گئے
وہ تھا چاند شامِ وصال کا
کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا
میری رُوح سے میری آنکھ تک
کسی روشنی میں نہا گئے
یہ جو بندگانِ نیاز ہیں
یہ تمام ہیں وہ لشکری
جنہیں زندگی نے اماں نہ دی
تو تیرے حضور میں آ گئے
تیری بے رُخی کے دیار میں
میں ہَوا کے ساتھ ہَوا ہُوا
تیرے آئینے کی تلاش میں
میرے خواب چہرہ گنوا گئے
تیرے وسوسوں کے فشار میں
تیرا شرارِ رنگ اجڑ گیا
میری خوا ھشوں کے غبار میں
میرے ماہ و سالِ وفا گئے
وہ عجیب پھول سے لفظ تھے
تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشتِ خواب میں دُور تک
کوئی باغ جیسے لگا گئے
میری عمر سے نہ سمٹ سکے
میرے دل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے
تیری اِک نگاہ میں آ گئے
جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو جیسے کمرے میں روشنی نہ رہی۔ تسکین حسن کے رعب میں آئی تھی ۔یہ لڑکا تو اتناپیارا تھا کہ انکار بھی کرتا تو برا نہ لگتا۔ صبیح رنگت اور غزالی آنکھیں ۔۔۔۔ چال میں کچھ لڑکھڑاہٹ تھی ۔اعتماد ڈگمگایا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کھڑا رہے یا بیٹھ جائے ۔ جو اثر تسکین پر ہو چکا تھا اس نے تسکین کو بات کرنے کے قابل تو نہیں چھوڑا لیکن معاملے کی نزاکت تھی کہ سنبھلنا ضروری تھا ۔
’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ اس نے حکم دیا ۔
’’اسلام علیکم ۔۔ ‘‘بوکھلاہٹ میں سلامتی نہ بھیجنے کا احساس ہوا تو وہ بولا ۔
’’وعلیکم سلام ۔ کیا کرتے ہو ؟‘‘
آج زندگی کا پہلا انٹرویو تھا حلق خشک ہونے لگا ۔
’’ بی کام کے پیپرز دے رہا ہوں۔ ‘‘
’’یعنی اپنے پیروں پر نہیں کھڑے۔ ‘‘ تسکین نے نہ چاہتے ہوئے بھی سوال پوچھا حالانکہ آفتاب کے حال حلیے سے اس سوال کی نوبت نہیں آتی تھی ۔
’’نہیں جی کھڑا ہوں۔۔۔ مطلب ایک چھوٹا سا مرغی خانہ بھائی نے کھول کر دیا ہے ۔اس کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔‘‘
’’پاکیزہ سے باتیں کرنے کا کیا مقصد ہے؟ ‘‘ وہ سیدھے سبھاوْ اصل بات پر آئی ۔
’’میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘اس لمحے اس کا لہجہ ذرا بھی نہیں لڑکھڑایا تھا ۔
’’پھر اپنے والدین کو بھیجو۔ ‘‘ مطالبہ کیا گیا ۔
’’ضرور بھیجوں گا۔ابھی بس کچھ مسائل ہیں۔ ‘‘ وہ جھجکا ۔
’’کس قسم کے مسائل ؟کیا گارنٹی ہے کہ یہ مسائل آئندہ نہیں رہیں گے ؟‘‘ تسکین نے مزید سوالات پوچھے۔
’’بس کچھ گھریلو مسائل ہیں ۔گھر کا خرچہ بھائیوں کے سر ہے اور بھائیوں کی لگام بھابھیوں نے تھام رکھی ہے۔ مجھ پر ہونے والا خرچہ تو برداشت کیا جا رہا ہے لیکن ایک اور نفس جو صرف میری ایماء پر اس گھر میں شامل ہو اس کا خرچہ کوئی نہیں اٹھائے گا ۔‘‘
’’پھر بھی رشتے کی بات تو کی جا سکتی ہے ۔‘‘
’’بات تو کوئی بھی کی جا سکتی ہے لیکن نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکلے گا۔ میں پاکیزہ کو کسی پر مسلط نہیں کرنا چاہتا۔ عزت کے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔‘‘ لڑکے کی بات میں دم تھا ۔
تسکین نے چائے آفتاب کے کپ میں انڈیلی۔ اس نے شکریہ کہہ کر پیالی اٹھا لی۔
نشست کا انداز اس کے اچھے گھرانے سے تعلق کی گواہی دے رہا تھا۔ مرغی خانے کا پتہ پوچھا بتا دیا گیا پھر تسکین نے گھر کا پتہ پوچھا ۔پوش علاقے سے تعلق کا سن کر مزید سوال کرنے کا دل نہ چاہا۔ دل کڑا کر کے شناختی کارڈ کی کاپی بھی مانگ لی۔ آفتاب نے وہ بھی فوری پیش کی ۔ اس کی چائے ختم ہو چکی تھی۔ وہ رخصت لے کر گھر سے باہر نکل آیا۔
ٹھنڈی چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے تسکین کمرے کی چوکھٹ سے ٹیک لگائے کھڑی اس کی پشت کو دیکھتی رہی ۔ اس نے تنہائی کا عذاب سہا تھا ۔اسے کچھ سکون ملا کہ پاکیزہ کے نصیب میں تنہائی کے آبلے نہیں ہیں ۔
لڑکا ثابت قدم نہ ہوتا تو ملنے نہ آتا۔ ملنے آ بھی گیا تھا تو یوں سب سچ نہ بتاتا ۔اپنے شناختی کارڈ کی نقل بھی تھما کر نہ جاتا ۔
پچھلے دنوں آفس کی یاسمین بیگ نے اپنی بیٹی کے عاشق کا قصہ سنایا تھا ۔ یاسمین نے فون کیاتو وہ فورا مکر گیا ۔’’ میں کوئی عاشق واشق نہیں ہوں‘‘۔ ذرا سختی سے بات کی تو معافی تلافی پر اتر آیا ۔ اس کے بعد کال تو دور کی بات مسڈ کال دینا بھی بھول گیا ۔
وہ موازنہ کر رہی تھی اور پلڑا آفتاب کا بھاری تھا۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
چَل آ اِک ایسی نظم کہوں
جو لفظ کہوں وہ ہو جائے،
بس اشک کہوں تو اِک آنسو
ترے گورے گال کو دھو جائے،
مَیں آ لکھوں، تُو آ جائے،
میں بیٹھ لکھوں، تُو آ بیٹھے،
مرے شانے پر سر رکھے تو
مَیں نِیند کہوں، تُو سو جائے۔
میں کاغذ پر تِرے ہونٹ لکھوں
تِرے ہونٹوں پر مُسکان آئے،
میں دِل لکھوں، تُو دِل تھامے،
میں گُم لکھوں، وہ کھو جائے۔
تِرے ہاتھ بناؤں پینسِل سے
پھر ہاتھ پہ تیرے ہاتھ رکھوں
کُچھ اُلٹا سِیدھا فرض کروں
کُچھ سِیدھا اُلٹا ہو جائے۔
میں آہ لِکھوں، تُو ہائے کرے
بے چین لکھوں، بے چین ہو تُو
پھر میں بے چین کا ب کاٹوں
تُجھے چین زرا سا ہو جائے۔۔
ابھی ع لکھوں، تُو سوچے مجھے
پھر ش لکھوں، تِری نیند اُڑے
جب ق لکھوں، تُجھے کُچھ کُچھ ہو
مَیں عِشق لِکھوں، تُجھے ہو جائے۔۔
وہ گھڑی نہیں پہنتی تھی لیکن آفتاب اسے گھڑیاں تحفے میں دے چکا تھا۔ سو کبھی بھی گھڑی پہنے بغیر گھر سے نہ نکلتی ۔ وہ کہتا تھا میرے نام میں پانچ حروف ہیں ۔پانچ چوڑیاں پہن کر رکھا کرو ۔ وہ لباس سے ہم رنگ پانچ چوڑیاںہمہ وقت پہنے رکھتی۔ اسے پاکیزہ کی آنکھوں میں کاجل پسند نہیں تھا ۔پاکیزہ نے کاجل تو دور کی بات سرمہ سلائی کو بھی آنکھوں کے قریب لے جانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ کہتا تھا’’ چاولوں کے اوپر رائتہ ڈال کر کھانے کا مزہ نہیں آتا ۔ تم چمچ بھر کر رائتہ کی ایک چمچ چاول کے بعد کھایا کرو۔‘‘ پاکیزہ کو اب اسی کی طرح کھانے میں مزہ آنے لگ گیا تھا ۔ وہ خواب دیکھتا تھا اور پاکیزہ تعبیر کے لیے کوشاں ہو جاتی۔
مرغی خانے کے حاصل وصول میں جب اونچ نیچ ہوتی ،پاکیزہ کے جمع کردہ پیسے کام آتے۔ شرٹ ، ٹائی ، جینز ، والٹ ، گھڑی وہ اسے تحفے میں دے چکی تھی ۔ وہ بھی کہیں بھی جاتا اس کے لیے ضرور کچھ لاتا۔ کشمیر کی شال ہو ،خوبصورت چائے کا کپ ہو ، دونوں کے نام کی کی چین ہو ، سیپیوں پر ان کا ایک ساتھ کندہ نام ہو ، چوڑیاں ہوں ،مالا ہو اس ہی کی طرف سے ملی تھی۔
اب بھی ڈر لگ رہا تھا۔پھر بھی ڈر لگ رہا تھا۔ اگر تسکین پھوپھو اس سے ملی اور اس نے کوئی الٹی سیدھی بات کر دی ؟ اگر ا س نے کوئی بات ہی نہ کی ؟ اگر وہ خاموش ہو گیا ؟ اگر وہ منکر ہو گیا ؟ اگر اس نے نکاح کی بھنک بھی دے دی ؟ اگر وہ میرے لیے اپنے جذبات واضح نہ کر سکا ؟ اگر کسی بات پر بحث ہوگئی ؟ پھر کیا ہو گا ؟ اب کیا ہو گا ؟
سوچ سوچ کے سر پھٹنے کے قریب تھا۔ تسکین پھوپھو کے گھر آنے کا وقت ہو گیا۔ وہ ان کا سامنا کرنے سے بھی کترا رہی تھی۔ کاش کالج سے واپسی پر پی سی او سے فون ہی کر لیتی ۔آفتاب کو منع کر دیتی کہ وہ پھوپھو سے نہ ملے ۔وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا ۔ کچھ دیر مزید کبوتر کی طرح پروں میں سر چھپانے میں کیا قباحت ہے ؟کچھ الٹا سیدھا نہ ہو جائے ۔روشنی روشنی سا ہاتھ مجھ سے چھوٹ ہی نہ جائے۔
دروازے کے قفل سے باہر کی طرف سے چھیڑ خانی کی آواز آئی۔ پاکیزہ بھاگ کر اپنے کمرے میں چھپ گئی ۔
کوئی دس منٹ گزرے ہوں گے کمرے میں آہٹ سنائی دی ۔ پاکیزہ کو پکارا گیا اس نے کمبل میں چھپایا ہوا سر باہر نکالا بستر کی پائنتی پر بیٹھی پھوپھو نے اس کا موبائل ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔
’’آج تمہارے کالج ٹائم میں میں نے آفتاب کو گھر بلایا تھا ۔‘‘
پاکیزہ کے دل کی دھڑکن تیز تیز اور بہت تیز ہو گئی ۔
’’اس سے بات ہوئی ہے ۔کہتا ہے جیسے ہی ممکن ہوا گھر والوں کو بھیجے گا۔اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اچھا لڑکا ہے لیکن لڑکے سدا اچھے نہیں رہتے۔ کب ان کے دل میں بال آ جائے کچھ پتہ نہیں لگتا ۔عورت بیوی ہو یا گرل فرینڈ۔۔۔ خود کو تھالی میں رکھ کر بار بار پیش کرے تو دل اوب جاتا ہے ۔تم فاصلہ رکھو۔ کشش باقی رہنے دو ۔بہت قریب آ گئے تو بہت دور جانا پڑے گا ۔‘‘
تسکین نے فون اس کے قریب رکھا اور باہر چلی گئی ۔
پاکیزہ اپنی خوش قسمتی پر رشک کر رہی تھی ۔رابطے کا ذریعہ اس کے پاس تھا۔وہ اب بھی گھڑیاں پہن سکتی تھی، اس کی کلائی کی کھنک نے باقی رہنا تھا، اسے کاجل لگانے کی ضرورت نہیں تھی ،وہ چمچ بھر کر رائتہ پورے مان سے کھا سکتی تھی ۔
’’اس ایک شخص کی محبت نے تو خرید لیا ہے مجھے ۔ یہ شخص مجھے خود سے دورہی نہیں جانے دیتا ۔ کیسی بھی مشکل کیوں نہ آئے یہ راستے میں کھڑا نظر آتا ہے ۔ یہ سچ کہتا ہے راستے کے سارے کانٹے دور کر دے گا۔، مجھے اپنی دلہن بنائے گا۔ مجھے وہ عزت دے گا جس کا مطالبہ میں نے اس دنیا میں کسی سے نہیں کیا ۔میں اس طرح سے چاہے جانے کے قابل تو نہیں لیکن یہ شخص مجھے زیر بار کر رہا ہے ۔ اس کی محبت کا احسان میری دھڑکنوں میں دھک دھک کر رہا ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کے تسمے کیوں باندھے؟ مجھے لبوں سے باندھنے چاہیے تھے ۔‘‘
وہ شکر گزاری کی انتہا پر تھی۔ تین لفظی اظہار محبت اور پیار والی شکل بنا کر اس نے من کے دیوتا کو ہوا کے دوش پر بھیجی ۔
محبت رقص میں تھی اور پاکیزہ کے دونوں پیر تھرک رہے تھے ۔
محبت ۔۔۔ محبت ۔۔۔ محبت !
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تونے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی، ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری
؎وہ پور پور محبت میں ڈوبتی چلی جا رہی تھی۔ آفتاب ہر طرح سے اپنی صداقت کا یقین دلا رہا تھا ۔ جو اس کے اختیار میں تھا کر رہا تھا۔ جو اختیار میں نہیں تھا وہ بھی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے پیاس لگتی تو اپنے ہاتھ پیالہ بنا کر چشمے پر لے جاتا ۔وہ ایسا ہی تھا اس کے لیے ہر رشتہ وہی تھا۔
رمضان کی آمد ہو چکی تھی۔ رات دیر سے گھر آتا۔ سحری کے وقت آنکھ نہ کھل پاتی اور آفتاب کی امی نے آفتاب کے دیر سے گھر آنے کی وجہ سے سحری کے وقت جگانے کی ذمہ دای بھی آفتاب کو سونپ رکھی تھی۔ آفتاب ایک بجے گھر آتا اور ڈیڑھ گھنٹہ سونے لیٹتا تو آنکھ پھر آرام سے امی کے اٹھانے پر ہی کھلتی ۔ اس کی امی کو جگانے کی ذمہ داری پاکیزہ نبھا رہی تھی۔ آفتاب کے گھر کا نمبر اس کے پاس تھا ۔ وہ لوکل نمبر پر فون کرتی کوئی اٹھاتا تو فون بند کر دیتی ۔ آفتاب اوپر اپنے کمرے میں سویا ہوتا۔ نچلے پورشن میں اس کی امی فون اٹھاتی اور یہی سمجھتی کہ آفتاب نے فون کیا ہے۔ بعد میں سحری کے وقت آفتاب کو سحری تیار کر کے جگانے جاتی تو وہ کہتا آپ کو بیل دے کربس ابھی ہی آنکھ لگی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے گھر میں نہیں تھے مگر ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔
آفتاب کے گھر کے نمبر پر سی ۔ ایل ۔ آئی لگا ہوا تھا پاکیزہ سمجھتی تھی کہ کوئی تو کسی دن نمبر دیکھے گا شک گزرے گا ۔آفتاب کے گھر میں خبر والدہ سے سرسراتی ہوئی دوسرے لوگوں تک پہنچ جائے گی اور وہ آہستہ آہستہ اس گھر کی غائبانہ فرد بنے گیا ور پھر اس گھر کا اٹوٹ حصہ بن جائے گی ۔ بس اتنی ذرا سی تو خواہش تھی۔
’’ا س کی خواہش کیا بہت بڑی خواہش ہے۔۔۔؟ ‘‘وہ اکثر خود سے پوچھتی۔’’ اتنی بڑی دنیا ہے، اس میں ایک چھوٹا سا گھر ہے ۔بڑے عام سے انسان اس گھر میں رہتے ہیں۔ ان عام سے انسانوں کی زندگی میں اگر میں بھی شامل ہو جاتی ہوں، اس عام کا گھر کا میں حصہ بن جاتی ہوں تو اس بڑی سی دنیا میں کیا بگڑے گا ؟
کچھ بھی تو نہیں بگڑے گا۔۔۔ پھر اس دنیا کا خالق اس چھوٹی سی خواہش کو کیوں رد کرے گا ؟‘‘
وہ رب سے امید لگا کر بیٹھی تھی ۔ا س لیے خوش گمان تھی۔ رب نے ایک اور وسیلہ بنایا ۔آفتاب کے گھر کا فون خراب ہو چکا تھا ۔ پاکیزہ کے پاس آفتاب کے گھر کے ہر فرد کا نمبر تھا۔ پہلے پہل پاکیزہ آفتاب کے نمبر پر فون کرتی رہی لیکن آفتاب نے فون نہیں اٹھایا۔ نیند میں شاید وہ موبائل کو خاموش کر کے سویا تھا ۔ پاکیزہ نے سوچا امی کو کال کر لے وہ اس کے لیے آفتاب کی امی نہیں تھی صرف امی تھی۔۔۔ پھر بمشکل اپنا ارادہ ملتوی کیا ۔
بالآ خر کافی پس و پیش کے بعد اس نے آفتاب کے بھائی ماہتاب کو میسج کیا ۔کوئی جواب نہ ملا تو کال ملا دی ۔
کال جا رہی تھی اور پاکیزہ کا دل دھڑک رہا تھا ۔
پانچویں بیل کے بعد فون اٹھا لیا گیا نیند میں ڈوبی آواز سنائی دی ۔
’’ہیلو ‘‘ آواز میں آفتاب کے لہجے کی چاشنی تھی ۔
پاکیزہ نے گڑبڑا کر فون رکھ دیا ۔
کہیں ماہتاب بھائی کو شک ہی نہ پڑ جائے، یہ سوچ کر فوری پیغام بھیجا ۔
’’میں آفتاب کا دوست صفیان ہوں ۔موبائل خراب ہے آواز نہیں جا رہی تھی۔ اس لیے فون رکھ دیا۔ مقصد صرف سحری کے لیے جگانا تھا ۔‘‘
جوابا شکریہ اور آگے ہنسنے والی شکل بھیجی گئی ۔
اصل بات آفتاب سے معلوم ہوئی۔ سحری کی میز پر سب نے غائبانہ پاکیزہ کا شکریہ ادا کیا ۔کہنے لگے’’ ہمیں پہلے ہی معلوم تھا آفتاب وقت پر جگا نہیں سکتا ۔‘‘
باقی سارا رمضان پاکیزہ ماہتاب بھائی کو جگاتی رہی اور وہ والدہ کو ایک دن فون اٹھاتے دیر ہوئی ساتھ ہی میسج آ گیا ۔
’’گڑیا میں اٹھا ہوا تھا ،دہی لینے گیا تھا ۔‘‘
پاکیزہ کو لگا اس کی ریاضتیں با ثمر ہو گئی ہیں۔ وہ غائبانہ طور پر ہی سہی لیکن خواب نگر میں قدم رکھ چکی تھی۔ نیلے پردوں والے کمرے کا تصور اسے آسمان کی رعنائیوں سے روشناس کروا رہا تھا ۔
ایک قدم اور ۔۔۔ بس ایک قدم اور ۔۔۔
پیر میں کانٹا چبھ بھی گیا تو وہ نکالنے والا ہو گا !
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
تم سمجھتے ہو مجھے اس کی کوئی فکر نہیں ؟؟
میں تو خود دل سے یہ کہتا ہوں سدھر جا مرے دوست!
پاکیزہ کی اکلوتی پھوپھو کو معلوم ہو چکا تھا ۔آفتاب کے گھر میں بھی د ھواں پہنچ گیا تھا۔ ایک دوسرے کے نکاح میں تو وہ ایک دوسرے کے لیے پہلے سے تھے ۔ اصرار بڑھنے لگے تھے، انکار کم ہونے لگا تھا ۔ مہینہ میں ایک دفعہ ملنا لازم و ملزوم ہوا۔ بات پندرہ دن تک آ گئی بس پھر جہاں ممکن ہوتا مل لیتے، جب ممکن ہوتا مل لیتے ۔
پاکیزہ اس کی مان لیتی تھی لیکن بے چین رہتی تھی۔ عوامی تفریح گاہوں پر ، کیفے میں ، عوامی کتب خانے میں ۔۔۔ ہر جگہ صرف وہ دونوں تو نہیں ہوتے تھے، ہزاروں لوگ ہوتے تھے ۔پکڑے جانے کا خوف دیکھے جانے کا خوف دونوں کو رہتا ۔پاکیزہ تو بہت سہمی سی رہتی لیکن آفتاب کہتا میں دیکھ لوں گا اگر کسی نے دیکھ لیا تو معاملہ کیسے سنبھالنا ہے ۔ یہ میری فکر ہے۔ تم میری خواہش کا احترام کرتی ہو تو کیا میں اتنا بھی نہیں کر سکتا ؟وہ متشکر سی ہو جاتی ۔
کوئی جگہ ، شے ، بحث ، شام ، مرئی یا غیر مرئی مفہوم نہیں تھے جو دونوں کے درمیان نہ آئے ہوں پھیلے نہ ہوں سمٹے نہ ہوں سلجھے نہ ہوں ۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
آنکھ میں اشک بچا کر رکھنا
جانے کس موڑ پر گھر آجائے
وہ ایک دوسرے کے لیے oulmate sتھے۔’’ made for eachother ‘‘ ان کے آگے پیچھے رہنے والے روز دوستیاں کرتے ،محبت پر اصرار کرتے اور چھوڑ دیتے لیکن وہ قائم تھے ۔ ایک دوسرے کے بچپن کے دوست بھی تھے، محبت بھی اور عاشق بھی ۔انہیں اپنے تعلق پر ناز تھا۔وہ ایک دوسرے کا مان تھے۔
آدھی رات کو فرمائشی پیغام آتا اپنی تصویر بھیجو اور وہ بھیج دیتی۔یقین کی انتہا تھی۔کسی شک کی کوئی حد درمیان میں تھی ہی نہیں۔۔۔!
’’میں نے آپ کو دیکھنا ہے۔ ‘‘ محبت نے آگ اس کے دل میں بھی لگائی تھی ۔آفتاب تصویر بھیجتا تو پہروں موبائل سکرین پر انگلیاں مس کرتے ہوئے وقت گزر تا جاتا۔ اب انتظار نہیں ہوتا تھا، اب صبربھی نہیں ہوتا تھا ۔وہ ایک دوسرے کی خوشبو سے واقف تھے ۔ عوامی تفریح گاہوں میں مل کر بے چینی میں اور اضافہ ہو جاتا ۔ دل سنبھالے نہ سنبھلتا آخر آفتاب نے حل نکالا ۔
’’میرے دوست کا فلیٹ ہے وہاں کوئی نہیں ہوتا ۔‘‘
’’میں نہیں مل سکتی کسی کو پتا چل گیا تو ؟‘‘
’’اب بھی تمہیں دوسروں کا ڈر ہے ؟‘‘
’’رہنا تو دنیا میں ہے ناں؟ ‘‘
’’فیصلہ کر لو۔ دنیا میں رہنا ہے یا میرے ساتھ رہنا ہے۔ ‘‘
’’آپ انتہا پر کیوں جاتے ہیں ؟ فیصلہ تو ہو چکا ہے! ‘‘
وہ سر جھکانا سیکھ چکی تھی ،اب اسے سر ا ٹھانا بھول گیا تھا ۔وہ مان گئی۔
آفتاب کی ہر بات میں پاکیزہ تھی ۔گھر والے بھی غائبانہ وجود سے کافی شناسا ہو گئے۔ چھیڑ خانی جاری رکھتے ۔آفتاب کے کزنز سے اکثر ہی بات ہوجاتی۔سب آفتاب کی شدتوں کی گواہیاں دیتے۔یہ ساری چھیڑخانیاں آفتاب پاکیزہ کو بتاتا رہتا اور وہ خوش ہوتی۔ اس خوشی میں بھی وہ نہ مانتی تو کب مانتی ۔
وہ اس سے ملنے گئی تھی۔ دوست کے فلیٹ پر بھی ،دوست کے بھائی کے گھر بھی ، معروف ہوٹل کے کمرے میں بھی ۔۔۔ ایک سلسلہ چل نکلا تھا ۔اس سے ملنے جاتی۔ نفل پڑھ کر ملنے کہ کوئی دیکھ نہ لے ۔اس سے مل کر آتی پھر نفل پڑھتی کہ شکر کسی نے دیکھا نہیں ۔۔۔
عجیب محبت تھی جس نے دن رات بیگانہ کر رکھا تھا ۔اللہ سے رشتہ بھی بدل دیا۔ کسی کو پتا چلتا تو وہ بند کمرے کے پیچھے نجانے کون کون سے فسانے گھڑ لیتا۔ سچ جو تھا ۔۔۔اس دنیا میں وہ دونوں جانتے تھے۔۔۔ یا اللہ ۔۔۔!
آفتاب فرشتہ نہیں تھاَ اس کے قریب آتا تھا۔اسے چھوتا تھا ۔اس کے ہاتھ ، اس کی آنکھیں ، اس کے رخسار چومتا تھا لیکن ایک حد تھی۔ وہ اس حد سے آگے کبھی جا ہی نہ سکا ۔ نہ کبھی پاکیزہ اس حد سے آگے نکلی نہ کبھی آفتاب ۔ وہ حد کسی نے متعارف نہیں کروائی تھی ۔وہ حد خود ہی درمیان میں آ گئی تھی ۔
کو ئی سنتا تو ہنستا ۔۔۔ سینکڑوں بار ملنے والے ابھی بھی حد میں ہیں بھلا یہ بھی ممکن ہے ؟ پاکیزہ کے نزدیک یہی تو محبت تھی۔ آفتاب آنکھ سے اشارہ کرتا تو وہ سمجھ جاتی لیکن اس نے کبھی اشارہ کیا ہی نہیں۔ پاکیزہ کی محبت کا کبھی نا جائز فائدہ نہیں اٹھایا ۔پورے شہر میں کوئی سڑک کوئی کیفے کوئی خالی گھر ایسا نہیں تھا۔ جہاں انہوں نے ایک دوسرے سے محبت کی گواہی نہ مانگی ہو، جہاں پاکیزہ نے آفتاب کے پیروں کو نہ چھوا ہو، جہاں آفتاب نے اس کی ہتھیلی کو آنکھوں سے نہ لگایا ہو، جہاں آفتاب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر محبت کی قسم نہ کھائی ہو ۔
یہ محبت ہی اب ان کا جینا مرنا تھی۔ یہ محبت ہی تھی جس کے لیے وہ زندہ تھے جس نے انہیں زندہ رکھا تھا ۔ وہ پاکیزہ کی عادت بھی نہیں رہا تھا، فطرت بن چکا تھا۔ عادتیں تبدیل کی جا سکتی ہیں، فطرت سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا ۔
وہ پاکیزہ کے بہت قریب بیٹھا سیلفی بنا رہا تھا۔ پاکیزہ کی تصویر اچھی نہیں آئی تو وہ موبائل کھینچنے لگ گئی ۔ پیار میں نوک جھونک کتنی اچھی لگتی ہے بچہ بن جانا ، بچوں کی طرح برتاوْ کرنا بچوں کی طرح لاڈ اٹھوانا۔۔۔ سب اچھا لگتا ہے!
موبائل پاکیزہ کے ہاتھ میں تھا اور پاکیزہ کا ہاتھ آفتاب کے ہاتھ میںتھا ۔
’’ موبائل چھوڑیں۔۔۔ مجھے ڈیلیٹ کرنے دیں تصویر ‘‘
’’اتنی اچھی تو آئی ہے۔۔۔ کیوں ڈیلیٹ کر رہی ہو؟ ‘‘
’’ایک تو میں پہلے ہی پیاری نہیں ہوں۔ اوپر سے اتنی عجیب تصویر آئی ہے۔‘‘
’’تصویر میرے ساتھ ہے یہ تمہارے لیے اہم ہونا چاہیے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں تم کتنی پیاری ہو۔ ویسے بھی انسان اپنے بارے میں کبھی اچھا منصف نہیں ہو سکتا ۔‘‘
چھینا چھپٹی جاری تھی ۔جب موبائل کی ٹچ سکرین پر یہاں وہاں جاتے کیسے ایک آڈیو (سماعتی پیغام ) سنائی دینے لگا ۔۔۔کسی لڑکی کی آواز تھی ۔
’’ تم ہنس کیوں رہے ہو ؟‘‘
’’ہنسنے کی بات ہے تو ہنسوں گا ہی نا ں ‘‘ یہ آفتاب کی آواز تھی ۔۔۔پاکیزہ کا آفتاب جسے وہ کروڑوں میں پہچان سکتی تھی۔
’’ٹھیک کہا آفتاب یار نیلم کی باتیں ہی فضول ہوتی ہیں ہنسنے والی ‘‘ یہ ایک اور لڑکے کی آواز تھی۔
پاکیزہ ہکا بکا سی آفتاب کی شکل دیکھ رہی تھی۔ اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔ آفتاب کس کس سے رابطے میں ہے اور کیا کر رہا ہے اسے تو پتا ہی نہیں ہے ۔خود وہ سانس بھی لیتی تھی تو اطلاع دیتی تھی ۔پاکیزہ کے چہرے کے تاثرات اتنے جامد ہو چکے تھے کہ آفتاب گھبرا گیا ۔
’’ایسی کوئی بات نہیں عزہ تم غلط سمجھ رہی ہو ۔‘‘ وہ پاکیزہ کو اکثر عزہ کہہ کر ہی بلاتا تھا۔
’’میں کیا سمجھ رہی ہوں ؟‘‘ سُن ہوتے وجود کے ساتھ اس انداز میں پوچھا کہ آفتاب کی جان ہی نکل گئی۔ آفتاب پاکیزہ کے اوپر جھکا تھا۔
’’غلط نہ سمجھو ، کچھ نہ سمجھو ، غصے میں کچھ نہ سوچو یہ کانفرنس کال ہے۔ وہ میرے دوست کی کزن ہے ۔صفیان کی نیلم سے شادی ہونے والی ہے ۔ایسا ویسا کچھ نہیں ہے جو تم سمجھ رہی ہو ۔‘‘
ایک آنسو آفتاب کی آنکھ سے نکل کر پاکیزہ کی آنکھ میں جذب ہوا تھا ۔ وہ ایک دفعہ پہلے ا س کے آنسو کی بے قدری کر چکی تھی پھر شاید اسی آنسو کے ہاتھ خوار ہوئی۔ دوبارہ بے قدری نہیں کرنا چاہتی تھی بڑے حوصلے کے ساتھ اس نے دل پر جبر کیا اور آفتاب کی آنکھیں پونچھ دیں ۔
کھڑکی پر لگاپردہ مسلسل ہوا سے ہل رہا تھا ۔ ہوائیں تیز تیز چلتی آنے والے طوفان کا پتا دے رہی تھیں ۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
لوگ کچھ بھی کہیں اور میں چُپ رہوں
یہ سلیقہ مجھے جانے کب آئے گا
’’آپ عزہ بات کر رہی ہیں ؟ مطلب پاکیزہ ‘‘ فون کرنے والے نے وہ نام استعمال کیا تھا جو صرف آفتاب لیتا تھا ۔
’’جی پاکیزہ بات کر رہی ہوں ۔کون بول رہا ہے ؟‘‘ اللہ خیر کرے پاکیزہ آفتاب کی خیریت کی دل ہی دل میں دعائیں مانگنے لگ گئی ۔کہیں آفتاب کو کچھ ہو نہ گیا ہو۔ آفتاب کے موبائل سے اس لڑکے نے میرا نمبر نکال کر فون کیا ہو گا ان کے موبائل میں ہی میرا نمبر عزہ کے نام سے محفوظ ہے۔وہ سوچ کے گھوڑے دوڑانے لگ گئی۔
’’میں صفیان بات کر رہا ہوں۔آفتاب کا دوست ۔۔۔میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
دوسری طرف سفیان تھا پاکیزہ کے نکاح کا گواہ۔۔۔ پاکیزہ تھوڑی پرسکون ہوئی۔
’’جی کہیں !‘‘
’’آپ ایک بہت اچھی لڑکی ہیں لیکن ۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کو کیسے بتاوْں؟‘‘
’’آفتاب اکثر ذکر کرتا ہے آپ باقاعدگی سے نماز پڑھتی ہیں ۔میں یہ سوچتا ہوں تو مجھ سے رہا نہیں جاتا ۔‘‘
’’جی الحمدللہ! آپ جب تک بتائیں گے نہیں تو مجھے سمجھ کیسے آئے گی؟ ‘‘
’’دیکھیں آفتاب میرا بہت اچھا دوست ہے ،وہ اچھا لڑکا ہے۔‘‘پاکیزہ کو اپنی تعریف سن کر اتنی خوشی نہیں ہوئی تھی جتنی خوشی آفتاب کی تعریف سن کر ہوئی تھی۔
محبت میں محبوب آئینہ لگتا ہے ۔آئینہ حسین نظر آئے تو اپنا وجود خوبصورت لگنے لگتا ہے۔ خود حسین لگ رہے ہو تو آئینہ دیکھنے کا جی چاہتا ہے۔ آئینے سے خوبصورتی کی سند لینے کادل کرتا ہے ۔
’’میں نہیں چاہتا میری اور آفتاب کی دوستی میں دراڑ پڑے ۔آپ اگر اتنی اچھی نہ ہوتی تو شاید میں آپ سے رابطہ نہ کرتا۔ آفتاب آپ کے لیے اتنا سیریس نہیں ہے جتنی آپ ہیں ۔‘‘ سفیان نے اپنے تئیں پاکیزہ پر بم گرایا تھا۔
پاکیزہ کو خاص فرق نہیں پڑا ۔وہ آفتاب کونو سال سے اپنے لیے سلگتا دیکھ رہی تھی۔ آج کل سچا دوست کون ہے۔۔۔ ضرور حسد کا وار سفیان پر بھی چل گیا ہے اس نے یہی سوچا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے آفتاب مجھے آزما رہا ہو ۔
’’آپ کو لگتا ہے کہ میں آپ کی بات پر یقین کر لوں گی ؟‘‘ بڑے ٹھنڈے لہجے میں سوال پوچھا ۔
’’آپ یقین نہ بھی کریں تو مجھے فرق نہیں پڑتا۔ میرے دل کو اطمینان ہو جائے گا میرا ضمیر پر سکون ہو جائے گا۔ ویسے بھی میں کوئی بات ثبوت کے بغیر نہیں کرتا ۔‘‘
’’ثبوت؟ کیسا ثبوت؟ ‘‘ ایک بار اس کا وجود بھی ڈگمگایا۔
’’ آپ پہلے وعدہ کریں کہ ہماری گفتگو کا آفتاب کو پتہ نہیں چلے گا۔‘‘
’’میں کیسے مان لوں کہ آفتاب اس وقت آپ کے ساتھ نہیں ہے ۔آپ کو میرے اور آفتاب کے تعلقات کی نوعیت کا نہیں پتہ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے ایک سے جذبات رکھتے ہیں ۔‘‘
’’کاش آپ سچ کہہ رہی ہوتیں۔ ‘‘
’’لیکن آفتاب کے گھر میں سب کو میرا پتا ہے ۔وہ مجھ سے دھوکہ نہیں کر سکتا ۔‘‘
’’اس کے باوجود بھی وہ آپ سے شادی نہیں کرے گا ۔اس وقت وہ میرے ساتھ ہوتا تو میں کبھی آپ کو فون نہ کرتا ۔آپ کو بہن سمجھا ہے بہن کہا ہے ۔‘‘
سفیان کے لہجے میں یقین تھا اورپاکیزہ کا دل ہول رہا تھا۔
’’شاید آپ نہیں جانتے۔ میں آفتاب کے ساتھ اتنا دور آ چکی ہوں کہ اگر وہ خود بھی اپنے منہ سے یہ سب کہے جو آپ کہہ رہے ہیں تو میں شاید اس کا یقین نہیںکرسکوں گی ۔‘‘
محبت اندھی ہو چلی تھی۔
’’شاید کا مطلب یہ ہے کہ شاید آپ یقین کر بھی سکتی ہیں۔ویسے میں آپ کو اس کے منہ سے یہ سب سنوا سکتا ہوں۔‘‘
’’یعنی وہ ابھی آپ کے پاس ہی ہے اور مجھے آزما رہا ہے۔‘‘ پاکیزہ یکدم خوش ہوئی ۔
’’اپنی خوش گمانیوں سے باہر نکلیں ۔یہ دنیا آپ جیسے سادہ دلوں کے لیے نہیں ہے ۔میں آپ کو اس کے منہ سے یہ سب سنوا سکتا ہوں لیکن آپ کو ایک کام کرنا ہو گا ؟‘‘
’’کیا کام ؟‘‘
’’آپ سب سننے کے بعد بھی آفتاب سے دور ہونے کے بعد بھی ہماری گفتگو کے بارے میں اسے کبھی کچھ نہیں بتائیں گی ۔‘‘
’’اول تو وہ کبھی ایسا کچھ نہیں کہے گا جیسا آپ کہہ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی کہہ دے میں اس سے دور نہیںہوسکتی لیکن پھر بھی یہ ایڈونچر ہی سہی ‘‘
’’ایسے نہیں آپ اپنی نمازوں کی قسم اٹھائیں کہ آپ اسے کچھ نہیں بتائیں گی ۔۔‘‘
’’مجھے میری نمازوں کی قسم میں آفتاب کو کچھ نہیں بتاوْں گی۔ ‘‘
کتنا نڈر کر دیتی ہے محبت!
وہ بھول رہی تھی کہ قسم صرف اس ذات پاک کی ہے جس کے قبضے میں کُل عالم کی جان ہے ۔
’’شاباش میں آپ کو شام چھ بجے فون کروں گا۔ جب آفتاب میرے ساتھ ہو گا ۔آپ نے بولنا نہیں ہے صرف سننا ہے ۔آفتاب اپنے منہ سے بولے گا جو میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔‘‘
’’اللہ حافظ۔ ‘‘
پاکیزہ فون رکھ چکی تھی۔ اس کا دل پتے کی طرح لرز رہا تھا۔ وہ خود کو تسلی دے رہی تھی ہو نہ ہو آفتاب کی طرف سے کوئی سر پرائز ہی ہے ۔
محبت کی سب سے بڑی طاقت یہی ہے کہ یہ خوش گمان ہے !
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
یہ تماشا سا کیا لگا ہوا ہے؟
چوک میں آئینہ لگا ہوا ہے
مرضیوں کا مرض ہے چاروں طرف
جس کو دیکھو خدا لگا ہوا ہے
ہم بھی کوشش میں ہیں کہ جی لگ جائے
جس طرح آپ کا لگا ہوا ہے
تیری ہر بات مانتے جائیں؟؟
ہم پہ تُو دلربا لگا ہوا ہے؟؟
اب تو وہ طنز بھی نہیں کرتا
اس کو کچھ تو برا لگا ہوا ہے
چار دن شور تو کرو گے تم
تازہ تازہ پتا لگا ہوا ہے
’’ یار میں تجھے کیا بتاوْں تو موہن پورے والی کا اگر posture دیکھ لے تو پاگل ہو جائے۔وہ جب شرماتی ہے تو اُف!۔۔۔ تیری سوچ ہے! ‘‘
یہ آفتاب کی آواز تھی۔
اس کی سماعتوں میں سیسہ پگھلا ہوا ڈالا جا رہا تھا۔ وہ شدت تکلیف سے پاگل ہو رہی تھی مگر ُاف بھی نہیں کر سکتی تھی ۔
اب سفیان بولا ۔’’یار پاکیزہ کا کیا سین ہے؟ ‘‘
’’پاگل ہے ۔ہر وقت کہتی ہے شادی کر لو۔ ‘‘ پاکیزہ کو دکھ ہوا۔
’’ہے لڑکی بہت اچھی ۔۔۔جتنا پیار وہ مجھ سے کرتی ہے ،کوئی دوسری نہیں کر سکتی ۔‘‘ پاکیزہ کو خوشی ہوئی اس کی وفا کی لاج رکھ لی گئی تھی۔
’’ شادی ہو جائے تو کوئی برائی نہیں لیکن گھر والے مشکل سے مانیں گے ۔‘‘ پاکیزہ مزید خوش ہوئی کم از کم وہ شادی تو کرنا چاہتا ہے ۔
’’لیکن یار پڑھ لکھ رہی ہے ،اچھی لڑکی ہے۔ گھر والے کیوں نہیں مانیں گے تیرے ؟‘‘ سفیان نے پوچھا۔
’’کالی جو ہے ۔۔۔امی اتنے گورے بیٹے کے لیے کالی لڑکی بیاہ لائیں گی ؟ تجھے تو میرے خاندان کی حسن پرستی کا پتہ ہی ہے ۔‘‘ پاکیزہ یکدم جھکڑوں کی زد میں آئی تھی۔
تنکا تنکا کیسے بکھرتے ہیں آج سمجھ میں آ رہا تھا ۔
’’اس کا مطلب ہے تو سمیرا سے شادی کر لے گا۔ ‘‘ سفیان نے ایک اور وار کیا۔
’’ہاں وہ بھی اچھی ہے ۔دیکھ جس کے لیے گھر والے مان جائیں باہر نہ مانے تو خاندان میں مہوش بھی تو ہے۔ ‘‘ بہت آرام سے آفتاب نے اپنی ماموں زاد کا نام لیا تھا۔
’’وہی جس کی وجہ سے تو پچھلی دفعہ لاہور دو دن رہنے گیا اور چار دن بعد واپس آیا ؟‘‘
’’ہاںیار وہ بہت پیاری ہے ۔گوری چٹی اوپر سے گھٹنوں تک آتے بال ویسے برقع اوڑھتی ہے لیکن برقع سے پھر قیامت نکلتی ہے۔اسی کو جلانے کے لیے تو پاکیزہ کی باقی سب سے بات کرواتا ہوں۔‘‘ اس سے زیادہ پاکیزہ سن نہیں سکتی تھی، وہ برداشت ہی نہیں کر سکتی تھی۔
اس نے فورا سے فون بند کر دیا ۔چھت پر گھٹنوں میں منہ دئیے وہ زاروقطار رو رہی تھی۔ اس کے پاس کیا بچا تھا کچھ بھی نہیں !
اسے کتنا دکھ ہوا تھا کیا وہ ماپ سکتی تھی ؟
نہیں ممکن ہی نہیں تھا۔۔۔ ممکن تھا تو بس رونا ۔۔۔!
دو گھنٹوں بعد جب اس سے صبر نہ ہوا تو فون اٹھایا ۔اسی دشمن جاں کے پیغامات موبائل سکرین پر جگمگا رہے تھے ۔
انسان صبر کر سکتا ہوتا تو نا شکرا نہ ہوتا۔ انسان صبر کر سکتا ہوتا تو وہ نا امید نہ ہوتا ۔انسان صبر کر سکتا ہوتا تو وہ ہر صورت نبی ہوتا۔ انسان صبر کر سکتا ہوتا تو وہ انسان ہی نہ ہوتا ۔
پاکیزہ سے صبر نہیں ہو رہا تھا ۔
میرے سامنے پاکیزہ پاکیزہ عزہ عزہ کرنے والا مجھے میری پیٹھ پیچھے کیسے یاد کرتا ہے ۔۔۔ اسے ذرا خبر نہیں کہ میں اپنی ساری کشتیاں جلا کر بیٹھی ہوں ۔ میرے ساتھ محبت محبت کھیلنے والا فقط مجھ سے کھیل رہا تھا ۔مجھے آفتاب سے بات کرنی چاہیے ضرور کرنی چاہیے ۔
’’آفتاب میں نے آپ سے پیار کیا تھا۔ ‘‘
’’کیا تھا کا مطلب کیا ہے؟ تم مجھ سے اب پیار نہیں کرتی ؟‘‘ وہ بالکل نارمل تھا ابھی تین دن پہلے تو ملا تھا ۔
پاکیزہ کو قسم یاد آئی ۔
’’کرتی تھی ۔۔۔ اب کیسے کروں ؟‘‘
’’کیا ہوا ہے پاکیزہ؟ تم عجیب عجیب باتیں کیوں کر رہی ہو ؟‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح پریشان ہوا ۔
قسم تو صرف اللہ کی ہوتی ہے اسے فورا یاد آیا تھا ۔
’’مجھے موہن پورے والی اور سمیرا سب کے بارے میں پتا چل گیا ہے۔‘‘
’’کون موہن پورے والی؟ کون سمیرا ؟‘‘وہ ایسے انجان بنا کے پاکیزہ کے پاوْںانگاروں پر آئے اور سر بھڑک اٹھا ۔
’’وہی لڑکیاں جن کی وجہ سے میں آپ کو کالی لگتی ہوں اور آپ کے گھر والے میرے لیے نہیں مانیں گے۔ آفتاب میں نے آپ کو پورے دل سے چاہا تھا ۔ آپ کے علاوہ کبھی کسی کو دیکھا بھی نہیں اور آج سفیان بھائی کے ذریعے مجھے کیا سننے کو ملا ؟ یہ اوقات نکلی میری محبت کی ؟ آپ نے مجھے رنگ روپ سے تولا۔ میرے لیے تو آپ کا رنگ روپ پہلے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا ۔ جب آپ سے محبت کرنے لگی تو محبت نے آپ کی روح سے تعلق قائم کر دیا۔ اب مجھے آپ کے رنگ سے بالکل فرق نہیں پڑتا۔ اللہ نہ کرے آپ کے چہرے پر تیزاب گر جائے اللہ نہ کرے میرے منہ میں خاک آپ کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے آپ معذور ہو جائیں تب بھی میرے دل میں آپ کی محبت کم نہیں ہو سکتی ،میں آپ سے اسی طرح محبت کرتی رہوں گی ۔اس محبت کے باوجود میں کہاں کھڑی ہوں ؟ میں کیوں ابھی تک ظاہری رنگ و روپ میں تولی جا رہی ہوں؟ آپ مجھ سے محبت کی صداقت کے دعوے کرتے رہے اور خود موہن پورے والی سمیرا سے تعلق نبھاتے رہے ؟میں تب کہاں تھی ؟ مجھے دھوکہ دیتے آپ کا دل ایک دفعہ بھی نہیں کانپا ؟ ایک مرتبہ بھی آپ نے نہیں سوچا کہ مجھ پر کیا گزرے گی ؟ میری بے قدری کی سو کی میری محبت کی بے قدری کیسے کر لی؟ ہر نماز کے بعد میں آپ کے لیے پہلے اور اپنے لیے بعد میں دعا کرتی تھی۔ آپ مجھے اپنی قسمت مانتے تھے۔۔۔ کوئی قسمت کو بھی یوں ذلیل کرتا ہے ؟ کوئی دعاوْں کو یوں ٹھکراتا ہے ؟آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟ میرے ساتھ آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں ؟ مجھے آپ جیسے شخص کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا۔۔۔ کبھی نہیں رکھنا ‘!‘ وہ چیختے ہوئے بول رہی تھی ۔مسلسل رو رہی تھی ۔
وہ چاہتی تھی آفتاب اسے کہے ’’جاناں یہ تو بس ڈراوْنا خواب ہے۔ میرے ہاتھ پر ہاتھ دھر۔و دیکھو میں ادھر ہی ہوں اور ہماری دنیا بھی یہیں ہے۔ تم نے جو سنا جھوٹ ہے ۔سچ تو بس محبت ہے جو میں تم سے کرتا ہوں‘‘ ۔
ٓفتاب نے گلے کو ہلکا سا کھنکارا ۔۔۔۔ پاکیزہ کی سماعتیں بے چین ہوئیں ۔خوش گمانی آنسووْں میں جھلملا رہی تھی ۔
’’ٹھیک ہے میں بھی ایسی لڑکی سے کوئی تعلق نہیںرکھنا چاہتا جو لفظوں پر آنسووْں سے زیادہ یقین کرے۔ جو میرے دوست کے ساتھ مل کر مجھے دھوکہ دے ۔‘‘
یہ آفتاب کہہ رہا تھا ۔۔۔۔پاکیزہ کا آفتاب۔۔۔!
پاکیزہ کی روشنی اسے اندھیرے میں دھکیل رہی تھی ۔ وہ فون رکھ چکا تھا ۔پاکیزہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے درشت حقیقت کا سامنا کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔یہ اس کے ساتھ کیا ہورہاتھا ؟ یہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
وہ چھوڑ گئے ہم نے اُف تک نہ کی
بہت مضبوط ہیں یہ اعصاب اپنے
موسمَ ہجر میں سب کچھ ہے بنجر
آنگن نہیں سبز و شاداب اپنے
پاکیزہ کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ میں نے جس شخص کو اپنی ساری زندگی سونپی تھی ۔ وہ مجھ سے دامن چھڑا کر کھڑا ہو گیا ۔ اس نے ایک دفعہ بھی صفائی نہیں دی ، اس نے ایک بار بھی منانے کی کوشش نہیں کی ۔وہ کوئی ایک حرف تسلی کا تو کہتا وہ اپنی کوئی لولی لنگڑی توجیہہ پیش کرتا۔ میں اس کو خود اپنے لیے مضبوط بنا لیتی ۔۔۔مجھے اب کیا کرنا چاہیے ؟ کیا میں دامن جھاڑ لوں ؟ کیا میں بھی دامن جھاڑ لوں ؟
میرے سینے میں دل کی جگہ جو اس کا مسکن تعمیر ہوا ہے وہ تو ڈھے جائے گا ۔ دھڑکنیں دھڑکنے کا سبب بھول جائیں گی۔ میں اس کے بغیر کیسے زندہ رہوں گی؟ لوگ میرا نام اس کے نام کے ساتھ لیتے ہیں ؟ کتنے لوگ ہیں جو جانتے ہیں میں اس سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔۔ میں لوگوں کو کیا چہرہ دکھاوْں گی ؟ وہ تو مجھے بیوی کہتا ہے ۔۔۔ کیا بیویاں برداشت نہیںکرتی؟ کیا شوہر برے نہیں ہوتے ؟ عورتیں تو نجانے کیسے کیسے ستم برداشت کرتی ہیں۔۔۔ عورتیں سوتن کا دکھ جھیل لیتی ہیں ۔۔۔میں کیسی لڑکی ہوں ؟ میں کیسی بیوی ہوں ؟ میری وفا کی بس اتنی سی اوقات تھی ؟ کہاں آفتاب نے ایک غلطی کیا ور میں نے دامن جھا ڑ لیا؟ میری محبت میں کیا اتنا دم خم نہیں کہ ایک شخص کو محبت سے بد ل سکے وہ انسان ہی ہے ناں ؟ لوہے سے بنا ہوا تو نہیں۔۔۔۔ تبدیل تو لوہے کی شکل بھی کی جا سکتی ہے پھر میں رب کی رحمت سے کیوں مایوس ہوں ؟ میری وفا ، میری محبت ، میری نمازیں اس شخص کو بدل دیں گی لیکن میں تواپنی نمازوں کی تو میں قسم کھا چکی ہوں اور وہ قسم توڑ بھی چکی ہوں ۔۔۔!
اللہ بہت مہربان ہے وہ مجھے معاف کر دے گا ۔۔۔ وہ کوئی نا کوئی راستہ کھول دے گا ۔۔۔ وہ مجھے رسوا نہیںکرے گا ۔اگر وہ میرے نصیب میں نہیں تھا تو سات سال میرے ساتھ نہ رہتا۔ سات سال ہو گئے کہ وہ میری ہر عید کی مہندی ہے ۔۔۔ہر شب برات کی دعا ہے ۔۔۔میرا رمضان کے آخرمیں ملنے والا ثواب ہے ۔۔۔ مجھے کیسے اس عطا سے الگ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ مجھے اللہ یوں نہیں چھوڑے گا ۔۔۔میں گناہگار ہوں مگر ا سکی نام لیوا ہوں۔ معجزہ تو وہ ان کے ساتھ بھی دکھا سکتا ہے جو صدق دل سے صرف ایک دفعہ اسے یاد کرتے ہیں ۔۔کیا میری یہ ٹوٹی پھوٹی عبادتیں میرے اللہ کوراضی نہیں کر لیں گی ؟ کیا میرا اللہ اس دنیا کی سب چیزو ں میں سے ایک چیز مجھے دے نہیں دے گا ؟
وہ بہت پر امید ہو کر سوچ رہی تھی ۔
ہم گناہوں پر گناہ کرتے ہیں ۔ توبہ نہیں کرتے۔ سچی توبہ کرنا بڑے نصیب کی بات ہے مگر ہم خود کو بد نصیب ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ہمیشہ وہ مانگتے ہیں جو ہمیں مل ہی نہیں سکتا ۔ایک شے ہی تو ہوتی ہے جو خوار کرتی ہے ۔۔۔ہم اس ایک شے کو اس ایک شخص کو اللہ کے لیے نہیں چھوڑتے لیکن اللہ سے امید کرتے ہیں کہ وہ وہی ایک شخص ہمیں دے دے جس کے لیے ہم اللہ کی بھی نہیں سنتے ۔
تف ہے!
ہم انسانوں کی ذلیل خواہشوں پر تف ہے!
ہم انسانوں کی غلط انسانوں سے محبت پر !
تف ہے !ہمارے ہٹ دھرمی پر ۔۔۔تف ہے!
کسی انسان کے لیے اللہ سے لو لگانے پر ۔۔۔ تف ہے !
انسانیت کے درجے سے گرنے پر ۔۔۔تف ہے!
تف ہے !آج کے دور میں محبت کرنے پر ۔۔۔
تف ہے!
انسان کی اوقات ہی کیا ہے۔۔۔ اسے اپنی محبت پر قابو پانا چاہیے۔۔۔ محبت کو اتنا منہ زور نہیں ہونے دینا چاہیے کہ وہ منہ کے بل کانٹوں کے راستے پر آپ کو گھسیٹتی جائے اور اس وقت لہو لہان چہرے لیے ہم جان کنی کے عالم میں چلا رہے ہوں۔۔
محبت نہیں ۔۔۔ محبت اب اور نہیں ۔۔۔۔!
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
تیری گلی میں سارا دن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں
اپنا صبر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں
’’اسلام علیکم ۔۔۔ آفتاب ‘‘ وہ آفتاب کو فون کر رہی تھی حالانکہ آفتاب کواسے فون کرنا چاہیے تھا۔
’’ہاں بولو کیا بات ہے؟ ‘‘ اس نے سلام کا جواب نہیں دیا تھا حالانکہ اسے دینا چاہیے تھا۔
’’آپ ناراض ہیں مجھ سے؟ ‘‘ وہ ڈرے سہمے لہجے میں پوچھ رہی تھی حالانکہ اسے اس وقت سوالی نہیں ہونا چاہیے تھا ۔
’’ تم ہو کیا چیز ؟ تم نے فون کیوں کیا مجھے ؟ ایک محبت تم سے سنبھالی نہیںگئی اور میرے سر پر چڑھتی ہو؟ ‘‘ وہ چلا رہا تھا۔
’’آفتاب پلیز ۔۔۔میری بات کو سنیں مجھے سفیان نے کہا تھا ۔‘‘ وہ سسک رہی تھی۔
’’کوئی کچھ بھی کہے گا تو تم یقین کر لو گی ؟ مجھے ہزاروں لوگ کہتے ہیں پاکیزہ کے ایک وقت میں دس لڑکوں کے ساتھ رابطے ہیں تو کیا میں مان لوں ؟ ‘‘ وہ نشتر چلا رہا تھاَبھالے اٹھا کر کردار کی دھجیاں اڑانے پر اتر آیا تھا ۔
’’ کون کہہ رہا ہے؟ میرے بارے میں ؟ کون کہہ سکتا ہے ؟ آپ تو مجھے جانتے ہیں ناں ؟ آپ تو مجھ پر یقین کرتے ہیں ناں ؟ ‘‘ اتنا شدید جملہ وہ سہہ نہیں پائی تھیَ ۔بلبلا کر رہ گئی تھی ۔
’’میں یقین کرتا تھا۔۔۔ اب نہیں کروں گا !تم نے بھی تو یقین نہیں کیا ۔۔۔۔کیا خبر کہنے والے تمہارے بارے میں سچ ہی کہتے ہوں۔ ‘‘ وہ بے یقین ہوا ۔
بے اعتباری سے بڑی بے وفائی بھی نہیں !
’’ایسا نہیں ہے آفتاب۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔‘‘ وہ ٹوٹ رہی تھی۔
’’اب یہ مت کہنا کہ تم میرے علاوہ کسی کو دیکھتی بھی نہیں ہو۔ ‘‘ وہ اس کی باتیں تھپڑ بنا کر اسی کے منہ پر مار رہا تھا۔
’’یہ سچ ہے آفتاب میں نے آپ کے علاوہ کبھی کسی کو سوچا بھی نہیں ۔‘‘ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا بے اعتباری کو اعتبار میں کیسے بدلے ؟
’’ہاںبالکل ۔۔۔ تب ہی تمہارے فون پر سفیان سے رابطے تھے۔ ‘‘ طنزیہ لہجہ ۔۔۔ یہ اس کا آفتاب تو نہیں تھا ۔
’’میں نے پہلی دفعہ فون پر بات کی ہے سفیان سے۔ ‘‘ وہ روتے ہوئے یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
’’میں کیسے مان لوں کہ تم نے پہلی بار بات کی ہے اور صرف سفیان سے کی ہے۔ ‘‘ لہجے کی درشتگی زہر سے زیادہ زہریلی ثابت ہو رہی تھی ۔
’’آفتاب پلیز میرے ساتھ ایسے نہ کریں۔ مجھے نہ چھوڑیں۔ ‘‘ وہ ڈر ی تھی۔
لڑکیوں کا نام کسی ایک نام کے ساتھ جڑ جائے اور پھر کسی دوسرے کے ساتھ جڑے تو یہ نام کے مٹنے ا ور دوبارہ لکھنے جیسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ہو سکتا! یہ تو ایسے ہے جیسے جیتے جی کو پہلے زندہ مار ددو اور پھر مرے ہوئے کو زبردستی زندہ کرو ۔
نزع کا عالم کیسا ہو گا ؟وہ تصور کر سکتی تھی۔۔۔ آفتاب فون رکھ چکا تھا ۔وہ اکیلی سسک رہی تھی ۔
پاکیزہ نے ڈھیروں پیغامات بھیجے تھے ۔کسی کا جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ صرف رونا تھا جو اس کے اختیار میں تھا اور وہ جی بھر کر رو رہی تھی۔ وہ مٹی بن سکتی تو دھول ہو جاتی ۔ آفتاب کے پیروںکو چوم لیتی، اس کے پیروں پر سر رکھتی ۔ اس کے آگے ہاتھ جوڑتی، اسے کسی طرح منا لیتی لیکن انسان کے اختیار میں بھی کبھی کچھ ہوا ہے ۔
ساری رات پاکیزہ کی روتے ہوئے گزری۔ اس نے ہزاروں دفعہ معافی مانگی تھی۔ سینکڑوں دفعہ کہا تھا کہ وہ بس اس سے شادی کر لے۔ باقی جو دل چاہے کرے۔ وہ زندگی کو انگاروں پر بھی گزار لے ۔اگر اسے آفتاب کا نام مل جائے لیکن اسے جواب میں صرف یہ سننے کو ملا تھا کہ میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔۔۔
وہ شخص جو اسے محبت کی راہ پر لے کر آیا تھا۔۔۔وہ شخص جس کی وجہ سے اس نے پھپھو سے پردہ رکھنے کی سعی کی۔۔۔ وہ اس سے لا تعلق ہو گیا تھا ۔۔۔ اسے گھر سے نکالنے والا ۔۔۔اس کی لگام ہاتھ میں تھامنے والا۔۔۔ آج اس کی بات بھی سننے کا روادار نہیں تھا!
ساری لفاظی استعمال کر کے سارے واسطے دے کر بھی کوئی جواب نہ ملا تو اس نے آخری حربہ اپنایا ۔
اس نے موبائل سے روتے ہوئے ویڈیو بنائی جس میں آفتاب کے سامنے کان پکڑے اور ہاتھ جوڑے اس کی سنہری کلائیاں جیسے زنگ آلود ہو گئی تھیں ،لبوں پر پپڑی جم چکی تھی۔ بال الجھے ہوئے تھے ،آنسو تھے جو مسلسل رواں تھے ۔محبت کے کوچے میں اس سے اس کے نام کے معنی بھی چھین لیے تھے۔ بڑی بے آبرو ہوئی تھی۔ ندامت ، خوف ، پچھتاوا، اس کی نظروں سے جھلک رہا تھا۔ چمکتی ذہین آنکھیں ۔۔۔خالی ہو گئی تھی! ایک محبت نے حشر برپا کر دیا تھا ۔
فجر کی اذانیں سنائی دینے لگیں ۔وہ سجدے میں پڑی تھی ۔موبائل تھرتھرایا ۔۔۔
’’میں بھی تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مسئلہ تو یہ ہے میں لاکھ کہوں کہ میں تم سے نفرت کرتا ہوں لیکن میں تم سے نفرت نہیں کر سکتا ۔ تمہیں مجھ پر جتنے بھی شکوک ہیں میں سب دور کر دوں گا بس تم یہ چوبیس گھنٹے ہم دونوں کی زندگی سے نکال دو۔ ‘‘
آفتاب کا مسیج پڑھ کر وہ پھر سجدے میں چلی گئی تھی ۔
امید کا دامن تھام کر صحرا میںبھٹکتے رہنا بھی برا نہیںلگتا ۔ امید ہی ہے جس کی کونپلیں پھول بن کر خوشبو بکھیرتی ہیں۔ مہکِ حُب نے اسے پھر سے دنیا میں بیگانہ کر دیا تھا ۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
اپنی دُھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا تھا ۔وہ اب پاکیزہ کا پہلے سے زیادہ خیال رکھتا تھا اور پاکیزہ ہمیشہ کی طرح اس کی ابرو کی جنبش پر اپنی چال بدلتی تھی ۔
’’لڑکوں کے آپسی تعلقات بہت عجیب ہوتے ہیں ۔جو کوئی یہ ظاہر کرے اس کی ایک ہی لڑکی سے دوستی ہے تو اسے شرافت کے طعنے ملتے ہیں۔ اس لڑکی کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لڑکی کی مسلسل بد تعریفی کی جاتی ہے ۔ اپنے عشق معاشقی کے نا کام اور کامیاب ہزاروں قصے سنا کر دوسروں کو احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہیں ۔ایسے میں اگر فرضی جھوٹے قصے نہ سنائے جائیں تو انسان ان کے سامنے چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ جو جتنا بڑا کمینہ ہے اس کو اتنی ہی زیادہ عزت سے بھائی بلایا جاتا ہے ۔ کسی موہن پورے والی سمیرا کا کوئی وجود نہیں ہے اگر وجود ہے تو صرف تمہارا ۔‘‘ یہ تسلی کا وہ لالی پاپ تھا جو آفتاب نے چند لمحوں میں پاکیزہ کو تھما دیا۔
ساتھ ہی ساتھ اپنی والدہ سے فون پر سلام دعا بھی کروا دی۔ اس سے زیادہ پاکیزہ کو کیا چاہیے تھا۔ یہ اس کی غلطی تھی کہ اس نے سفیان پر اعتبار کیا۔ اسے کسی کے کہنے میں آ کر چھپ کر آفتاب کی باتیں سننی ہی نہیں چاہیے تھی۔ وہ آفتاب جو سورج کی مدھم پڑتی کرنوں میں اسے پہاڑی کے دامن میں اپنے سامنے لیے بیٹھاتھا ۔
’’آفتاب یہ بہت مہنگی جگہ ہے ۔‘‘ وہ منمنائی۔
’’ تو کیا ہوا تم سے زیادہ قیمتی تو نہیں ہے ‘ْ‘ اس نے سنہری کلائی پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’ آپ یہ پیسے اپنے کاروبار پر لگا لیتے۔ ‘‘ اس نے مشورہ دیا ۔
’’کبھی کبھی دل کا بیوپار بھی کرنے دیا کرو۔ ‘‘ وہ مسکرا کر گویا ہوا۔
اس نے اپنے بائیں جانب نظر دوڑائی۔ سارا شہر آنکھوں کے سامنے نظر آ رہا تھا۔ مونال پر آنے کا وہ اکثر سوچتی تھی لیکن اتنی گہری دوستی کسی کے ساتھ نہیں تھی کہ آ سکتی ۔ آج کل آفتاب کا کاروبار اچھا چل رہا تھا وہ پاکیزہ کے کہے بغیر اسے یہاں لے آیا تھا ۔۔۔ یہ ہی تو ہوتی ہے محبت! آپ کچھ کہتے ہی نہیں اور سامنے والا سمجھ جاتا ہے ۔
آرڈر آ چکا تھا۔ پاکیزہ نے آفتاب کی پلیٹ میں خود سالن ڈالا اور پھر بوٹیاں توڑنے لگی ۔وہ سب ذمہ داریاں پہلے سے ا ٹھا چکی تھی۔ چھوٹے چھوٹے کام کر کے اور آفتاب کو دیکھ کو خوشی ہوتی تھی۔ ا س خوشی کا نعم البدل پوری دنیا بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ آفتاب محظوظ ہونے والی حسین مسکراہٹ اپنے وجیہہ چہرے پر لیے اس پری پیکر کو دیکھتا رہا ۔ پاکیزہ کے لب پھڑپھڑائے اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی آفتاب نے اس کے ہاتھوں پر ہاتھ دھرا تھا۔
’’مجھے پتہ ہے تم یہ پوچھنے لگی ہو گی کہ رشتہ کب بھیجو گے۔۔۔ بس بھائی کی شادی ہونے دو پھر پہلا کام یہی کروں گا ۔بار بار کہہ کر مجھے شرمندہ نہ کرو ہاں یہ سچ ہے میں نے تمہیں بہت انتظار کروایا ہے۔ یہ بھی تو سچ ہے میں تمہیں چھوڑ کر کہیں بھاگ نہیں رہا ۔میں تمہیں چھوڑ کر پگلی کہیں بھاگ ہی نہیں سکتا ۔میں من و عن تسلیم کرتا ہوں کہ جتنا پیار تم مجھ سے کرتی ہو اتنا کوئی بھی نہیں کرتا۔ اس رات بھی تمہاری اس بات نے میرا سیروں خون بڑھا دیا تھا کہ اگر تمہاری کھال کے جوتے بنا کر بھی مجھے پہنا دئیے جائیں تو تم اُف تک نہیں کرو گی۔ یقین جانو میں تمہیں کانٹا چبھنے دینے کی تکلیف سے بھی نہیں گزارنا چاہتا ۔جہاں میرا اتنا انتظار کیا ہے تھوڑا سا اور انتظار کر لو‘‘ ۔
سنہری چار انگلیاں آفتاب کے محفوظ ہاتھوں کے حصار میں تھیں ۔سورج کی مدھم ہوتی کرنوں نے فلک کے مغربی حصے میں رنگوں کی سر مست برکھا برسا دی تھی۔ پاکیزہ نے ایک نظر آسمان پر ڈالی بلاشبہ آفتاب زیادہ خوبصورت لگا۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
یہ زرد رنگ مِرے حال کی گواہی ہے
کہ عشق سبز نہیں چھوڑتا! اگر ہو جائے
ڈرانے والے تجھَے کیا خبر مشیّت کی
جو آج زیر ہے وہ کل کلاں زبَر ہو جائے
علی یہ عشق تو اب کشف ہو چلا،کہ مجھے
تری خبر ترے آنے سے پیشتر ہو جائے!
’’پاکیزہ کرکٹ دیکھو کرکٹ ‘ ‘آفتاب کے مسلسل پیغامات آ رہے تھے ۔
پاکیزہ نے کل یونیورسٹی میں اپنا تحقیقی کام جمع کروانا تھا اور آفتاب کے چونچلے ختم نہیں ہو رہے تھے ۔وہ جب بھی میچ دیکھتا پاکیزہ سے بھی
ا صرار کرتا ۔۔ ساتھ ساتھ دعائیں کرواتا جاتا پاکیزہ کی پیری اور آفتاب کی مرشدی میں اضافہ ہوتا جاتا ۔
تحقیقی کام تقریبا مکمل تھا ۔بی ایس کی ڈگری کہنے کو چار سال کی ہوتی ہے مگر تحقیقی کام اسے پانچویں سال تک کھینچ کے لے جاتا ہے ۔ باقی کام صبح میں دیکھ لوں گی۔ پاکیزہ نے اپنا سارا پھیلاوا سمیٹا اور بستر پر بیٹھ گئی ۔ٹی وی سکرین پر میچ چل رہا تھا۔
ٓاتنے لوگ ایک گیند کو یہاں سے وہاں دیکھتے جا رہے تھے ا ور خوش ہو رہے تھے۔ پاکیزہ کو میچ دیکھنا کبھی پسند نہیں رہا تھا۔ اسے صحیح طریقے سے سکور دیکھنا بھی نہیں آتا تھا ۔ فیصلہ تھرڈ امپائر تک پہنچ جاتا لیکن پاکیزہ کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ ہیلمٹ کے اندر کھلاڑی کون ہے ۔
بات صرف وہی کہ محبت جادوئی شیشی جیسی ہے اور محبت میں گرفتار ہونے والا انسان خود کو اتنا چھوٹا کر لیتا ہے کہ کسی کو بھی نظر نہیں آتا پھر اپنے آپ کو اس شیشی میں ڈبو لیتا ہے ۔ اپنا رنگ تو مانو رہتا ہی نہیں۔ شیشی کا رنگ چڑھ جاتا ہے ،محبت کا رنگ چڑھ جاتا ہے ۔انسان وہی نظر آتا ہے جو محبت چاہتی ہے، انسان وہی بن جاتا ہے جو محبت کہتی ہے ۔
اب پاکیزہ کو یہ بھی سمجھ آتا تھاکہ کس ایمپائر نے فلاں ٹیم کے حق میں فیصلہ کیوں نہ دیا ؟
آفتاب کی پسند اسے اپنے رنگ میں ڈال چکی تھی ۔
’’دعا کرو یہ آوْٹ ہو جائے ‘‘ پیغام آیا ۔
’’ہاں جیسے میں تو پیرنی لگی ہوں۔‘‘ پاکیزہ نے ازراہ مذاق کہا۔
’’ نہیںبھئی تم تو جادوگرنی ہو جس نے مجھے قابو کر رکھا ہے۔ ‘‘
’’آپ مجھ سے بڑے جادوگر ہیں جو مجھ جیسی تین چار جادوگرنیوں پر بیک وقت سحر طاری کر سکتے ہیں ۔‘‘
’’ایک تم ہی سنبھالی جاوْ تو بہت بڑی بات ہے ‘‘۔
’’ہا ہا ہا ْ‘‘
’’ہا ہا نہیں۔۔۔ دعا کرو یہ آوْٹ ہو جائے! ‘‘
’’اللہ جی پلیز یہ آوْٹ ہو جائے ۔‘‘
’’اوہ یس ۔۔۔ آوْٹ ! دیکھا پیرنی جی‘‘
’’آپ کا حُسنِ نظر ہے جو میری دعاوْں کو آسمان تک پہنچا دیتا ہے ‘‘۔
’’جی نہیں یہ آپ کے لفظوں کا آسمان تک پہنچنا ہی ہے جس کی وجہ سے میں تمہیں نہیں چھوڑتا ۔یہاں میں نے تمہیں چھوڑنا ہے وہاں تم نے بد دعائیں کر کے مجھے آسمان پر پہنچا دینا ہے ۔‘‘
’’اللہ نہ کرے آپ بھی مذاق میں کیا کیا کہہ جاتے ہیں۔‘‘
’’دعا کرو بنگلہ دیش میچ جیت جائے۔ ‘‘
’’آفتاب بنگلہ دیش کا پاکستان کے ساتھ میچ ہے ۔میں بنگلہ دیش کے لیے کیسے دعا کروں ؟‘‘
’’پاگل میں نے شرط لگائی ہوئی ہے۔ ‘‘
’’آپ شرط پاکستان کے حق میں بھی تو لگا سکتے تھے۔ ‘‘
’’تب تم کہتی شرط حرام ہے۔ ‘‘
’’شرط تو واقعی حرام ہے‘‘۔
’’ دیکھو یہ صرف میچ ہے بنگلہ دیش اور پاکستان کی جنگ نہیںہے۔ بنگلہ دیش کی ٹیم کے کھلاڑی اچھے ہیں انہوں نے محنت زیادہ کی ہے اور ہمارے ہاں کی کرکٹ تو تم جانتی ہو وہ کرکٹ کم سیاست زیادہ ہے۔ محنت میں عظمت ہے تو جیتنا تو بنگلہ دیش کو ہی چاہیے ۔‘‘
آفتاب کی بات نے پاکیزہ کے دماغ پر کوئی دھاک نہیں بٹھائی تھی لیکن دل ماننے پر مجبور تھا۔ مانتی نہ تو اور کیا کرتی ۔
’’ٹھیک کہہ رہے ہیںآپ ۔‘‘
’’دعا کرو بنگلہ دیش کے لیے۔ ‘‘
’’کر رہی ہوں۔ ‘‘
پھر بنگلہ دیش ہار گیا تھا پاکستان جیت گیا ۔پاکیزہ کے لیے یہ معمولی بات تھی۔ کوئی جنگ تو تھی نہیں بس ایک کرکٹ میچ ہی تھا ۔آفتاب کا میسج آیا۔
’’بہت بڑی منحوس ہو تم ! اب تو تمہاری دعائیں بھی پوری نہیں ہوتیں۔ ‘‘
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
ابھی کیا کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کیا سنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کہ سر ِ فصیل ِ سکوت ِ جاں
کف ِ روز و شب پہ شرر نما
وہ جو حرف حرف چراغ تھا
اسے کس ہوا نے بجھا دیا؟
کبھی لب ہلیں گے تو پوچھنا!
سر ِ شہر ِ عہد ِ وصال ِ دل
وہ جو نکہتوں کا ہجوم تھا
اسے دست ِ موج ِ فراق نے
تہہ ِ خاک کب سے ملا دیا؟
کبھی گل کھلیں گے تو پوچھنا!
ابھی کیا کہیں۔۔۔ ابھی کیا سنیں؟
یونہی خواہشوں کے فشار میں
کبھی بے سبب۔۔۔ کبھی بے خلل
کہاں، کون کس سے بچھڑ گیا؟
کسے، کس نے کیسے بھلا دیا؟
کبھی پھر ملیں گے تو پوچھنا۔۔!
’’کیا سوچا ہے پھر تم نے پاکیزہ‘‘ پھوپھو اس کے کمرے میں آئی تھیں ۔پچھلے آٹھ سالوں میں اب زندگی ان کے اندر نظر آنے لگ گئی تھی ۔ وہ خوش تھیں، اپنا خیال رکھنے کا ڈھنگ آ گیا تھا ۔پاکیزہ نے ماخذ جاننے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود رہی۔ اب تو اس کا بھی محو ربدل چکا تھا، ساری کوششوں کا منظر نامہ بدل چکا تھا ۔
’’کس بارے میں پھوپھو؟ ‘‘ وہ جانتے ہوئے بھی انجان بنی ۔
’’تم ایم ایس کے سیکنڈ سمسٹر میں آ چکی ہو وہ لڑکا تو پتا نہیں کیا کر رہا ہے۔ بی ایس سی تو اس سے ہوئی نہیں تھی۔ ‘‘ تسکین اتنا سمجھ گئی تھی کہ پاکیزہ اس معاملے میں بالکل بھی سمجھنے سننے والی نہیں ہے ۔
’’پھوپھو بی اے تو اس نے کر لیا تھا۔ ‘‘ پاکیزہ نے کمزور سی حمایت کی۔
’’رو پیٹ کر بی اے کیا ہے ۔تم اپنے گریڈ دیکھو، اپنی ڈگری دیکھو۔ ‘‘
’’پھوپھو آپ میری محبت بھی تو دیکھیں !‘‘
’’محبت کا اچار ڈالو گی؟ ‘‘
’’ ویسے محبت کا اچار ڈالا جائے تو وہ بھی لاجواب ہو۔ ‘‘ اس نے بات ہنسی میں اڑانے کی کوشش کی ۔
’’پاکیزہ یہی عمر ہوتی ہے بیاہے جانے کی۔ یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو دوبارہ کبھی نہیں آئے گا۔ ‘‘
’’پھوپھو اسے تھوڑا سا سیٹل تو ہونے دیں۔ ‘‘
’’ مرغی خانہ کتنے عرصے سے چلا رہا ہے۔ ابھی تک اپنے پاوْں پر کھڑا نہیں ہوا۔ ‘‘
’’برائلر مرغی کے خلاف کالم دیکھیں آپ ۔اس ملک میں کیاکر سکتا ہے؟‘‘ یہ پاکستان کی دیوانی نہیں کہہ سکتی تھی۔ یہ کسی اور کے جملے اس کی زبان سے نکل رہے تھے ۔
’’مجھے تو لگتا ہے اس ملک میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔بس اس لڑکے کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
’’مجھے کیوں لگتا ہے آپ مجھے خوش نہیں دیکھنا چاہتی؟ ‘‘ پاکیزہ نے انتہائی چبھتے ہوئے لہجے میں کہا ۔
تسکین صرف اسے دیکھ کر رہ گئی۔ سارے خرچے پاکیزہ کے پورے ہوتے تھے، خواہشیں پوری ہوتی تھیں۔ ایک نہ ختم ہونے والا ماہانہ خرچ تھا جو پاکیزہ کے پاس موجود رہتا یہ اور بات کہ وہ خرچہ اکثر کسی کے کاروبار کو ڈھنگ سے چلانے کی مد میں نکل جاتا۔ تسکین نے بھائی کے حصے پر کبھی حق نہ جمایا، ایک آنہ خود پر خرچ نہ کیا تاکہ پاکیزہ خوش رہ سکے۔ پاکیزہ کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہ کہہ سکے ۔پاکیزہ نے بات کر دی تھی۔ وہی بات جس سے بچنے کے لیے تسکین نے عمر گزار دی ،آج تسکین کے منہ پر تھپڑ بن کر لگی تھی۔ وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ خاموشی سے چلی گئی ۔
کچھ باتیں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نصیب میں لکھی ہیں۔ہم جنتے ہیں کہ ہمیں سننے کو ضرور ملیں گی۔ ایک نہ ایک دن ان باتوں سے واسطہ ضرور پڑنا ہوتا ہے ۔ ہم کچھوے کی طرح اپنے خول میں سر دئیے رہتے ہیں پھر اچانک سے کلہاڑے کی طرح کوئی چیز ہمارے خول کو چیر دیتی ہے ۔ہم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس چیز کو دیکھتے ہیں ۔ وہ چیز نہیں ہوتی، وہی بات ہوتی ہے جس سے بچنے کے لیے ہم ساری عمر خول میں گزار دیتے ہیں۔ بات ہنستی رہتی ہے اور ہم رونے کے قابل بھی نہیں رہتے !
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
مکمل یہ مجھے ہونے نہیں دیتی
کہ بے چینی مجھے سونے نہیں دیتی
’’آفتاب پھوپھو شادی کے لیے بہت زور ڈال رہی ہیں ۔‘‘ بہت ڈرتے ہوئے اس نے تذکرہ کیا تھا ۔
آفتاب شادی کے ذکر سے چڑ جاتا تھا ۔’’ میں کہیں بھاگ تو نہیں رہا۔۔۔ تم سے ہی شادی کروں گا۔ مجھے اتنی بار نہ کہو کہ میرا دل ہی تم سے اچاٹ ہو جائے‘‘۔
’’تو کر لو شادی ‘‘بڑا سپاٹ سا جواب آیا۔
’’یعنی آپ گھر والوں کو بھیج رہے ہیں۔ ‘‘
’’ہاں میں آج بات کرتا ہوں۔‘‘ آفتاب نے بہت نرمی سے کہا تھا۔سپاٹ سا لہجہ نجانے کہاں اڑن چھو ہو گیا تھا۔پاکیزہ ہواؤں سے ہلکی ہوگئی۔
آج کا سارا دن وہ ساتھ گزارنے والے تھے ۔شروعات اتنی عمدہ ہو گی پاکیزہ نے سوچا نہ تھا ۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔
’’ویسے ہماری روتے ہوئے کوئی سیلفی نہیں بنی۔ ‘‘ آفتاب نے کہا اور اس لمحے کو قید کر لیا۔
پاکیزہ کو ہنسی آ گئی۔
’’آپ بھی ناں۔۔۔ ‘‘ ہنستے ہوئی پاکیزہ کی آفتاب نے ایک تصویر اور بنا لی۔
سارا دن مہکتے چہکتے ہوئے گزرا ۔وقت کا پتا ہی نہیں چلا ۔شام کے پنچھی نے جب اپنے پر پھیلانا شروع کیے اور روشنی سمٹنے لگی تو وہ گھر واپس آئی ۔
’’کہاں سے آ رہی ہو؟ ‘‘ بڑے عرصے بعد تفتیش ہوئی تھی۔
’’یونیورسٹی سے۔۔‘‘ جھوٹ بولنا صرف پہلی مرتبہ مشکل ہوتا ہے ،اس کے بعد عادت پڑ جاتی ہے۔ ََ ‘‘ جھوٹ بولنا صرف پہلی مرتبہ مشکل ہوتا ہے ا س کے بعد عادت پڑ جاتی ہے ۔
’’ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ تم جھوٹ بو ل رہی ہو۔ ‘‘ انداز جارحانہ تھا ۔
’’اگر جھوٹ بھی بول رہی ہوں تو اپنا نقصان کروںگی۔ آپ کا کچھ نہیں جائے گا ۔‘‘ وہ کب اتنی ہٹ دھرم ہوئی تھی اسے خود بھی معلوم نہیں ہوا۔
’’اسے کہو تم سے شادی کر لے۔ ‘‘
’’مجھ سے ہی کرے گا۔ آپ فکر نہ کریں۔ ‘‘
’’جس نے شادی کرنی ہووہ اتنا ٹالتا نہیں ہے۔‘‘
’’ابھی پچھلے ماہ اس کے بھائی کی شادی ہوئی ہے ۔اسے سانس تو لینے دیں ۔ ابھی اگر اس کے گھر والے آئے بھی تو صرف رشتہ طے کریں گے شادی سال دو سال بعد ہو گی ۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔
دل میں سرگوشی جاری تھی۔ تیسرے سال ہمارے گھر بیٹی ہو گی جس کا نام ہم دعا رکھیں گے۔ دعائے آفتاب ۔۔۔ سورج کی دعا۔۔۔ طاقت کی دعا ۔۔۔۔ روشنی کی دعا ۔۔۔۔ یہ بات اس نے اور آفتاب نے اتنی دفعہ آپس میںکی تھی کہ وہ ا س بات کو سوچے بغیر نہ رہ سکی ۔
’’اگر بیٹا ہوا تو؟ ‘‘ پاکیزہ نے بیٹی کے لیے اس کی دیوانگی دیکھ کر پوچھا تھا۔
’’تو میں اس کا نام حیدر رکھوں گا ۔‘‘ اس نے پاکیزہ کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں رکھ کر کہا تھا اور پاکیزہ کی نظریں جھک گئی تھی۔
وہ گھر کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد بھی گھر سے باہر ہی تھی ۔ مسکرا کر سر جھٹکا تو دیکھا تسکین تو جانے کب کی جا چکی تھی ۔
وہ آج گھر بات کرے گا ۔۔۔جو خواب میں اتنے سالوں سے دیکھ رہی ہوں اس کی تعبیر جینے کے دن آ گئے ہیں!
وہ نام جس کی چاہ میں عمر گزاری ہے وہ میرے نام کو ملنے والا ہے!
وہ مہندی میرے ہاتھ پررنگ چھوڑے گی جس پر ایک نام لکھا ہو گا میرے آفتاب کا نام !
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
سہمے سہمے سے بیٹھے ہیں راگی اور فنکار
بھور بھئے اب ان گلیوں میں کون سنائے جوگ
جب تک ہم مصروف رہے یہ دنیا تھی سنسان
دن ڈھلتے ہی دھیان میں آئے کیسے کیسے لوگ
ناصرؔ ہم کو رات ملا تھا تنہا اور اداس
وہی پرانی باتیں اس کی وہی پرانا روگ
’’امی نہیں مان رہی۔ ‘‘ ساری امیدیں جیسے کرچی کرچی ہو گئیں تھیں۔
’’آفتاب کیوں کیا ہوا ؟‘‘ وہ سراسیمہ سی ہو گئی۔
’’دو بڑے بھائی تو تمہیں پتا ہے پہلے سے ہی الگ رہ رہے ہیں ۔تیسرے بھائی کی شادی ہوئے ایک مہینہ ہی ہوا ہے لیکن علیحدہ گھر کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔امی کا رو رو کر برا حال ہے۔ کہتی ہیں کہ بیٹے اس لیے بڑے کیے کے پال پوس کر لوگوں کے حوالے کر دوں۔ رات بھی فشار ِخون اتنا بڑھ گیا کہ ہسپتال لے جانا پڑا۔ ‘‘ آفتاب کی آواز سے تھکاوٹ اور پریشانی نمایاں تھی ۔
’’میں سمجھتی ہوں آفتاب۔ آپ بس امی کا خیال رکھیں۔ ‘‘ وہ بمشکل اسے سمیٹ سکی حالانکہ اس وقت وہ خود بکھر رہی تھی ۔وہ بالکل نہیں سمجھی تھی لیکن اسے ایسے ہی کہنا تھا۔
’’شکر یہ پاکیزہ تم نے سمجھا ۔میں بہت پریشان تھا ۔ظاہر ہے بار بار تمہاری امیدوں کو بڑھاوا دیتا ہوں اور پھر کوئی نا کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے۔ ‘‘ آفتاب واقعی شرمندہ محسوس ہوا۔
’’کوئی بات نہیں آفتاب۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ۔وہ اس وقت ڈسی ہوئی ہیں ۔انہیں شاید سمجھ نہیں آ رہی ۔اگر تیسرے بندے کی نظر سے دیکھا جائے تو تمہارے گھر کو اس وقت واقعی ایک لڑکی کی ایک عورت کی ضرورت ہے ۔‘‘
’’ ان عورتوں نے ہی تو امی کو پریشان کیا ہے ورنہ سچ یہی ہے کہ ایک ایسی لڑکی چاہیے جو امی کی خدمت کر سکے ،گھر کو سنبھال سکے ۔‘‘
’’آپ اپنی امی کو یقین دلوائیں کہ میں یہ سب کر لوں گی۔ وہ جیسے چاہیں گی ویسے رہ لوں گی۔ ‘‘
’’ابھی وہ اتنی نا امید ہیں کہ اگر میں رشتے کی بات کرتا ہوں تو وہ مزید تحفظات کا شکار ہو جائیں گی ۔ انہوں نے سوچ لینا ہے کہ پسند کی شادی کے بعد تو میں بالکل ہی ان کے ہاتھ سے نکل جاوْں گا۔ ‘‘
’’میں آپ کو ہاتھ سے نہیں نکلنے دوں گی۔ مجھے اتنی سمجھ تو ہے کہ جو لڑکا اپنے والدین کی عزت کرتا ہے وہی اپنی بیوی سے محبت کر سکتا ہے ۔جو اپنے مان باپ کا نہ ہو سکے وہ بیوی کا کیا خاک ہو گا ؟‘‘
’’تمہارا یہ فلسفہ میں امی کے گوش گزار تب کروں جب امی سننا چاہیں ۔۔۔ان کے خیال میں تو میں ابھی بہت چھوٹا ہوں ۔شادی کے قابل ہی نہیں ہوں ۔کسی اور کا خرچہ اٹھا ہی نہیں سکتا۔ ‘‘
’’میں اپنا سارا خرچہ خود اٹھا لوں گی۔ مجھے نوکری کرنی پڑی تو وہ بھی کرلوں گی ۔مجھے صرف آپ کا نام چاہیے۔‘‘
’’تم سمجھ نہیں رہیں وہ مجھے لاپرواہ سمجھتی ہیں۔ ‘‘
’’میں گھر کی سب چیزوں کا بھی خود دھیان کر لوں گی۔ آپ کی لاپرواہی کچھ معنی نہیں رکھے گی۔ آپ امی کو ایک دفعہ مجھ سے ملوائیں تو سہی۔ میں اپنے اخلاق سے ان کا دل جیت لوں گی ۔وہ جو چاہیں گی وہ ہو جائے گا بس وہ آپ کی شادی مجھ سے کروا دیں۔ ‘‘
’’کیا پاگلوں جیسی باتیں کر رہی ہو؟ شادی امی نے تو نہیں کرنی میں نے کرنی ہے ۔میں بہت پہلے سوچ چکا ہوں کہ تم سے شادی کروں گا۔ تم ایسے بول کر مجھے شرمندہ نہ کرو۔‘‘ آفتاب نے اس کا مان بڑھایا تھا ۔
وہ مکمل جھک چکی تھی بڑی مشکل سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔یہ سچ تھا ایک آفتاب کا نام پانے کے لیے، اس کے نام کی مہندی ہاتھوں میں سجانے کے لیے، اس کے گھر عزت سے جانے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔۔۔ سب کچھ کر سکتی تھی !
جھوٹی امید ٹرک کی بتی جیسی ہے ۔۔ جلتی بجھتی رہتی ہے اور بندہ اشعار پڑھنے کے لالچ میں گاڑی پیچھے لگا کر رکھتا ہے ۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
وہ مضطرب تھا عشق میں کہ نقصان کچھ نہ ہو
ہم مطمئن کہ جاں کا خسارہ ہے اور بس !!
’’تو پھر نہیں بھیجا اس نے رشتہ؟ ‘‘تسکین پھوپھو کے لہجے میں طنز تھا۔ پاکیزہ کو محسوس ہوا ۔
’’بھیج دے گا جب بھیجنا ہو گا۔ ‘‘ فرق تو پاکیزہ کو پڑنا تھا اور بہت پڑنا تھا اور بس اسی کو پڑنا تھا لیکن بظاہر لا تعلقی سے کہتے ہوئے اس نے بالوں کو لپیٹ کر کیچر میں قید کیا ۔
’’ میں نے تمہیں کہا تھا کہ وہ مجھے رشتہ بھیجنے والا نہیں لگتا۔ ‘‘
’’نہیں پھوپھو آپ نے ہی کہا تھا کہ رابطہ رکھو ۔آپ نے ہی کہا تھا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ رشتہ بھیج دے گا۔ میں آپ کی ہی وجہ سے پر امید رہی ہوں۔ ‘‘
’’ تو اب میں ہی کہہ رہی ہوں کہ وہ رشتہ نہیں بھیجے گا ۔اب بھی یقین کر لو۔‘‘ لہجے میں سفاکی کی انتہا تھی ۔پاکیزہ کے حلق میں بھی خراشیں پڑ گئی۔
کیا اتنا آسان ہے کٹھ پتلی بن کر جینا؟ جب کوئی کہے یقین کر لو تو آنکھیں بند کرنا اور یقین کا سفر طے کرتے جانا ۔۔۔پھر کوئی کہے کہ چھوڑ دو تو روح کے سارے بندھن توڑ کر، عادت ، محبت ، ضرورت سب کو چھوڑ کر واپس پیچھے مڑ جاوْ۔ کیا واقعی اتنا آسان ہوتا ہے ؟ ہاں اندھوں کی طرح آگے چلنا آسان ہے لیکن واپسی ناممکن ہے ۔اس ناممکن سے ممکن کو نکالا جائے تو روح پھر بھی آدھی وہی اس نہ میں رہ جاتی ہے۔
’’پھوپھو بھیج دے گا رشتہ۔ نہ بھیجنا ہو تو مجھے امید ہی کیوں دے ؟ ‘‘وہ تسلی چاہتی تھی ۔
’’وقت گزاری اسی کو کہتے ہیں پاکیزہ۔ ‘‘ انہوں نے تسلی نہیں دی تھی، تلخی دی تھی۔
’’مان لیں کہ حسد کرنا اسی کو کہتے ہیں۔ ‘‘ اس نے تلخی لوٹائی ۔
’’تم مجھے لاکھ برا کہو۔ تم میری چھوٹی بہن بھی ہو ،بیٹی بھی ہو ۔مجھے تمہارے لیے جو ٹھیک لگے گا کہوں گی ۔لڑکیوں کی رشتے کی عمر نکل جائے تو گلے پڑے والی مصیبتیں مل جاتی ہیں ،خوشیاں لانے والے رشتے نہیں ملتے !میں مزید انتظار نہیں کروں گی ۔جو اچھا رشتہ ملا شادی کر دوں گی۔ ‘‘
’’انتظار آپ نے نہیں کرنا ۔انتظار میں نے کرنا ہے میں کر لوں گی۔ ‘‘ وہ واپس نہیں آ سکتی تھی ۔
’’ساری عمر انتظار کرو گی؟ ‘‘
’’ہاں کر لوں گی انتظار۔ انتظار رنگ لاتا ہے! ‘‘
’’رنگ مانگ میں بکھرے گا یا خون بن کر آنکھ سے بہے گا ۔۔۔یہ وقت بتاتا ہے۔ ‘‘
’’بس پھر آپ مجبور نہ کریں۔ وقت پر چھوڑ دیں۔ وقت بتائے گا تو سمجھ لوں گی ۔‘‘
’’وقت کی مار خدا یاد کروا دیتی ہے۔ ‘‘
’’کسی بہانے ہی سہی وہ یاد تو آئے گا نا ں۔َ ‘‘
اس نے بات ختم کی تھی۔
یہ باتیں کاتب تقدیر نے بہت آرام سے لکھ لی تھی۔ اس کا کام لکھنا ہے۔ وہ لہجے بھی نہیں بھولتا اور نیتیں بھی نہیں بھولتا۔
اب چھوڑ دوں ؟ اب کیسے چھوڑ دوں ؟ بے خوابی میں بھی اس کا نام لبوں سے نکلتا ہے۔ نیند میں اس کے خواب ستاتے ہیں۔ ملن کا وقت آیا ہے تو چھوڑ دوں؟ چھوڑنا تھا تو پہلے چھوڑتی ناں۔۔۔ ایک انسان کو اپنا بنانا اتنا بڑا کون سا محاذ ہے کہ لوگ ہار مان لیتے ہیں ۔۔
بزدل لوگ ۔۔۔!
میں تو ہار نہیں مانوں گی۔
اس نے سوچوں میں بے لاگ تبصرہ کیا اور پشت بستر پر ٹکا دی۔ آنکھیں بند تھیں۔
محبتیں تب کیوں آتی ہیں جب ہمیں ان کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔ایک محبت کتنی محبتوں کو اضافی ثابت کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو بھی انہی میں سے کوئی ایک سمجھ لے
کچھ مسئلے ہیں ناں جو حل نہیں ہوتے!
’’آفتاب میرا رشتہ آیا ہے۔ ‘‘ وہ بہت ڈری ہوئی تھی ۔سلام دعا کے بعد تمہید باندھے بنا ہی گویا ہوئی۔
’’تو؟ ‘‘ وہ یوں بولا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
’’تو کا مطلب ؟ پھوپھو میری شادی کرنا چاہتی ہیں ‘۔‘ پاکیزہ نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تو کر لو شادی۔ ‘‘
’’وہ کسی دوسرے سے میری شادی کرنے پر زور دے رہی ہیں‘‘۔
’’ہاں ! تو کر لو شادی‘‘ ۔وہ مشورہ دے رہا تھا یا سر پھاڑ رہا تھا پاکیزہ سمجھ نہ سکی ۔
’’آفتاب آپ ایسے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ‘‘ وہ سکتے کے عالم میں بولی ۔ایک دوسرے کے منہ میں نوالے بنا بنا کرڈالنا، سنہری ہاتھوں سے صبیح ماتھے کا پسینہ پونچھنا نجانے کون کون سے منظر تھے جو یاد میں آ گئے اور نگاہ کو دھندلا کر گئے ۔
’’دیکھو پاکیزہ جہاں بیری ہو وہاں پتھر آتے ہیں ۔رشتے آنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے۔ رشتے آنے دو ۔کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔تم نے تو میرا انتظار ہی کرنا ہے ۔اگر بالفرض انتظار نہیں کر سکتی تو پھر شادی کر لو ۔‘‘
’’آفتاب میں کیسے کر لوں شادی۔ میں آپ سے پیار کرتی ہوں۔ ‘‘ وہ کیسے انہونے فلسفے سمجھا رہا تھا ۔
’’ مجھ سے خاک پیار کرتی ہو ۔ بکواس کرتی ہو، انتظار تو کر نہیں سکتی۔ ہر وقت کی بک بک لگا رکھی ہے شادی۔۔ شادی۔۔۔ شادی۔۔۔ بھئی میں ابھی نہیں کر سکتا۔ شادی تمہاری کون سا عمر نکلی جا رہی ہے۔ شادی کی آگ لگی ہوئی ہے۔ ‘‘ وہ چیخ پڑا تھا۔
’’آفتاب مجھے آگ نہیں لگی۔۔۔ میری پھوپھو کو لگی ہے ۔‘‘
’’پھوپھو کو آگ لگی ہے تو لگی رہنے دو۔ لوگوں کے منہ بھی کبھی بند ہوئے ہیں ۔پہلے کہتے ہیں بچہ کس کلاس میں ہے ؟کس سکول میں ہے ؟ بڑا ہوتا ہے تو اس کی نوکری کے متعلق سوال کر کر کے مت مار دیتے ہیں ۔کماوْ ہو جائے تو شادی کے لیے جان کو آ جاتے ہیں۔ شادی کر کے توند باہر نکال لے تو پھر بچوں کی فکر شروع ہو جاتی ہے۔ لوگوں کو تو تم چھوڑ ہی دو۔ لوگوں کی وجہ سے شادی کا طوق گلے میں نہ ڈالو۔ تیس سال تک موجیں اڑاوْ، اس کے بعد شادی کریں گے ۔شادی بہت بڑی ذمہ داری کا نام ہے ۔‘‘
’’ساری ذمہ داری میں خود پوری کروں گی۔ آفتاب آپ کے سر کچھ بھی نہیں ڈالوں گی۔ ‘‘
’’دیکھو تم شادی کرنا چاہتی ہو تو کر لو۔ تمہیں مجھ سے اچھے بہت مل جائیں گے۔ ‘‘
’’مجھے آپ کے علاوہ اور کوئی چاہیے ہی نہیں۔ اس کے اچھے یا برے ہونے سے کیا لینا دینا ؟‘‘
’’دیکھو میں تمہیں ترکیب بتاتا ہوں کسی بوڑھے امیر سے شادی کر لو۔ بوڑھا مر جائے گا اس کی دولت لے کر تم میرے پاس آ جانا ۔‘‘
’’کیسی فضول باتیں کر رہے ہیں آپ آفتاب؟‘‘
’’ٹھیک کہہ رہا ہوں تم شادی کر لو۔ ہم تو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں نا ں۔ہم ملتے رہیں گے ۔تمہارے بغیر پتہ ہے میں رہ ہی نہیں سکتا ۔‘‘
’’آفتاب آپ برداشت کر لیں گے کہ کوئی اور مجھے دیکھے، مجھے ایسے ہاتھ لگائے جیسے آپ لگاتے ہیں ۔‘‘وہ تلخ ہوئی تھی۔
’’ہاں تو اس میں بڑی بات کیا ہے۔ تم نہا دھو کر میرے پاس آنا اس کی بد بو لے کر نہ آنا۔ ‘‘ وہ ہنس رہا تھا ۔
’’آفتاب آپ یہ برادشت کر لیں گے کہ آپ کی بہن شادی کرے اور اس کے بعد اپنے عاشق سے ملتی رہے نہا دھو کر ؟‘‘ وہ بہت تلخی سے گویا ہوئی۔
گہری خاموشی !
نجانے کیوں پاکیزہ کے لیے وہ عاشق رہ گیا تھا ۔
پاکیزہ بھول گئی تھی وہ اس کے نکاح میں ہے!
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
پیار میں جسم کو یکسر نہ مٹا! جانے دے
قربتِ لمس کو گالی نہ بنا! جانے دے
تُو جو ہر روز نئے حسن پہ مر جاتا ہے
تُو بتائے گا مجھے عشق ہے کیا؟؟ جانے دے!!
اس کے پاؤں پر آبلے پڑ چکے تھے اور آبلے اب رس رہے تھے ۔شدید گرمی اور خراب سڑک ۔۔۔!
اس سے بڑھ کر کوئی بد نصیبی ہو سکتی ہے ؟ ہاں اس سے بڑی بد نصیب تو وہ خود تھی ۔
گرم لو کے تھپیڑے اور رستے ہوئے زخم اتنی تکلیف نہیںدیتے جتنا دل کا ٹوٹ جانا ۔وجود کو لاکھ سنبھالو۔۔۔ا ن کرچیوں کے ساتھ بکھرتا ہی چلا جاتا ہے ۔
آس پاس کی سجی دکانوں سے جھانکتے دکاندار اس طرح کی دیوانگی دیکھنے کے عادی تھے ۔یہ منت پوری ہونی تھی یا دھاگے کی صورت پیر پر باندھی ہی رہ جانی تھی۔اس سے بالاتر ایسے سستے تماشے وہ آئے روز دیکھتے تھے۔ تماشہ بنی وہ تھک چکی تھی۔
بڑے آہنی دروازے کو دیکھتے ہی وہ تازہ دم ہوئی۔ تھکاوٹ تو پہلے بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔ کسی کو پا لینے کا عزم آنکھوں سے جھانک رہا تھا ۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی ا س نے جوتے ایک طرف کو اتارے ۔سیڑھیاں منتظر تھیں ۔وہ یاد آیتیں پڑھتی چڑھتی چلی گئی ۔سامنے برآمدہ سا بنا تھا اور آگے کو ایک چھوٹا سا قبرستان ۔۔۔
وہ قبرستان عبور کر کے آئی تو بہت چھوٹا سا دروازہ تھا اسے اب جھکنا تھا۔ جھکا ہوا سر مزید جھکا کر اندر داخل ہوئی ۔پکی زمین پر چھوٹا سا کمرہ تھا۔ قبر پر سبز چادر پڑی تھی۔ ایک میٹھی سی خوشبو جو اندر آتے آتے تیز ہو گئی تھی۔ اس نے ایک لمبا سانس لیا ْہاتھ میں پکڑے شاپر میں سے مٹھائی کا ڈبہ نکالا۔ مزار کی دیکھ بھال کرنے والے نے پاس آ کر اتنا پوچھا۔
’’بی بی منت لائی ہو؟ ‘‘
وہ کہہ سکتی تو کہتی دل لائی ہے۔۔۔ لیکن سر صرف اثبات میں ہلا دیا ۔پوچھنے والا ہاتھ کے اشارے سے بٹھا کر چلا گیا ۔اب اسے تب تک وہی بیٹھا رہنا تھا جب تک گیارہ منت مانگنے والے لوگ مٹھائی کے ڈبے میں موجود گیارہ رس گلے جن پر چھلے سجے ہوئے تھے اٹھا کر نہیں لے جاتے۔ وہ وہیں بیٹھے بیٹھے انتظار کرنے لگی ۔
جوں جوں شام کا وقت منڈیر پر آنے لگا ۔مزار میں رش بڑھنے لگ گئی ۔وہ وہی بیٹھی قرآن پاک پڑھتی رہی۔ ساتویں عورت نے اس کے پاس آ کر رس گلا اٹھایا تو ساتھ ہی پوچھا۔ کیا نام ہے اس کا ؟ پاکیزہ نے فورا ہی بتایا۔ وہ آنکھیں بند کر کے کوئی حساب کتاب کرنے لگ گئی ۔
’’مل جائے گا تجھے مل جائے گا ۔‘‘ بد وضع سی چال ڈھال والی عورت نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تو اسے یوں لگا کہ گویا وہ مل ہی گیا ہو ۔
واپسی میں جاتے ہوئے اس کی چال میں تمکنت تھی ۔وہ پرسکون تھی ۔کچھ چھوٹے چھوٹے اشارے بڑی خوشیوں سے زیادہ خوش کر دیتے ہیں وہ۔ سوچ رہی تھی اندھیرا ہونے کو تھا اور وہ گلی سے باہر نکلنے والی تھی۔ گلی اسے یوں دیکھ رہی تھی جیسے برسوں کی شناسا ئی ہو۔ کوئی قرب ہو اور من چاہا ہو تو چال ایسی ہی ہو جاتی ہے۔ ہوا نے دھیرے سے اس کی پھٹی ہوئی ایڑھیوں پر گدگدی کی ۔وہ ننگے پاؤں واپسی کے سفر پر چلتی رہی ۔
اسے کسی نے کہا تھا اکتالیس دن تک اکتالیس دفعہ سورت یسین پڑھ کر اکتالیس باداموں پر پھونک دو۔ ان میں سے تین بادام آفتاب کو کھلا دو اور باقی خود کھا لو ۔ وہ تم سے شادی کر لے گا ۔ اس نے ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر مسلسل وظیفہ کیا ۔۔۔نتیجہ کیا ملا ؟ کچھ بھی نہیں ۔۔۔وہ نا امید نہیں تھی ۔اللہ کے کلا م میں بہت برکت ہوتی ہے، وہ گناہگاروں پر بھی اثر کر جاتا ہے۔ ا س کی تاثیر سے کوئی بچ نہیں سکتا پھر اس کے نصیب کیسے سونے رہتے ؟ا س کی آنکھوں میں جگنوؤں نے ہر صورت آنا تھا ۔
شہر کا کوئی دربار مزار ایسا نہ تھا جہاں وہ نہ گئی ہو۔ اپنی منت کے ستارے آنچل میں پرو کر ہر ولی اللہ ہر زاہد کے سامنے جھولی پھیلانے لگ گئی تھی ۔ کسی اللہ والے کو دیکھتی کسی نیک بندے کو دیکھتی تو دعا کی درخواست کرتی ۔اس کی آواز رندھ جاتی ،آنکھ سے آنسو نکلنے لگتے ۔ اس کے بال سمٹے رہتے ،سر ڈھانپا رہتا د۔عائیں مسلسل سے کہیںزیادہ مسلسل ہو چکی تھیں !
فرض نمازیں تو گھٹی میں شامل تھی ۔اب وہ تہجد چاشت بھی نہ چھوڑتی۔ قرآن پاک میں پڑھا کہ جو گرم نرم بستر کو چھوڑ کر اللہ کو یاد کرے گا اللہ ا سکی حاجت ضرور پوری کرے گا۔ بستر اب اسے کانٹے کی طرح لگتا تھا ۔ اللہ جی تو سب کو دیتے ہیں مجھے بن مانگے دیتے ہیں ۔ اب میں مانگوں گی تو کیا خالی ہاتھ لوٹا دیں گے ؟ اس نے شکر کرنے کی توفیق مانگی تھی وہ صبر نہیں کر رہی تھی ۔
عیدگاہ کے پیروں نے اسے دیکھا تو دنگ رہ گئے ۔یہ لڑکی باؤلی ہو چلی تھی کالا دوپٹہ زمین کی دھول چاٹ رہا تھا ۔ سکارف کس کر باندھا ہوا تھا۔ رو یوں رہی تھی جیسے آج ہی یتیم ہوئی ہو۔ بین دل کو چیرتے تھے ۔ہچکیاں لیتا وجود جب سسکیاں بھرنے کی کوشش کرتا تو ناک لال ہو جاتی ۔ رواں آنسو چہرے کی ملامت کو مسکینی میں بدل رہے تھے۔ اس کا کیا قصور تھا اس نے تو محبت کی تھی ۔ یہی تواس کا قصور تھا اس نے محبت کی تھی !
شکر ہے کہ اللہ دلوں کا حال چہرے سے نہیں ظاہر کرتا۔ وہ ہم گناہگاروں کے عیب چھپا کر رکھتا ہے۔ اگر ہمارے عیب بھی ہمارے چہرے سے دوسروں کو نظر آنے لگ جائیں تو ہم مسکین نہ لگیں ۔۔۔ہم تو ذلیل و رسوا ہو جائیں۔۔۔ غیب کا علم اسی لیے اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ تنہائیوں میں ہونے والے، اندھیروں میں ہونے والے گناہ سب کے سامنے نہیں لاتا ۔جب تک ہم زندہ ہیں ہمیں موقع دیتا ہے۔ توبہ کر لو ۔۔۔ بخشش مانگ لو۔۔۔ اگر وہ بخشش فرما دے تو پھر ان گناہوں کو ایسے مٹا دے گا جیسے کیے ہی نہیں ۔قیامت کے دن جب رائی برابر غلاظتیں نہیں چھپی رہیں گی ،اس دن وہ ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔
یہ اس کے عیوب کا چھپنا ہی تھا جو اسے بچا گیا ۔ اپنے آنسوؤں سے اس نے عید گاہ کے پیر سے ایک آیت لی ۔انہوں نے کہا تھا گیارہ ہزار مرتبہ پڑھو جو چاہتی ہو مل جائے گا۔ اس نے گیارہ ہزار مرتبہ پڑھ لیا روتی بلکتی پھر گئی۔ دن گزر رہے تھے لیکن اثر نہیں ہو رہا تھا ۔ کوئی تبدیلی نہیں آ رہی تھی ۔حالات بگڑتے چلے جا رہے تھے ۔وہ جو نام لے لے کر مرتا تھا،اب آواز سننا بھی پسند نہیں کرتا تھا ۔ دل کرتا تو بات کر لیتا ورنہ نظر انداز کردیتا۔
کوئی اتنا بھی کیسے بدل سکتا ہے ؟ اور اگر بدلنا اتنا ہی آسان ہے تو پہلے جیسا کیوں نہیں ہو جاتا ۔پہلے جیسا ہوتا تو زندگی کتنی مختلف ہوتی۔۔۔ کتنی حسین ہوتی ۔۔۔اپنے گلے شکوے دیوتا کے سامنے پیش کرتی ۔ وہ سن کر ہنسی میں اڑا دیتا ۔کہتا آٹھ سال لگا کر تم نے مجھے بدلا ہے اب آٹھ سال بعد چاہتی ہو کہ میں پھر بدل جاؤں !
وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ جاتی۔ عید گاہ کے پیر نے اب اکتالیس ہزار دفعہ وہی آیت پڑھنے کو کہا۔ فرق نہیں پڑا۔ تعداد لاکھ ہو گئی۔ کہنا آسان ہے پڑھنا مشکل ! ایک ہی شخص کا تصور کیے پورے دل سے اللہ کے حضور مسلسل مناجات کرتے رہنا بہت مشکل ہے ۔ساری دنیا کے خالق سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروانا کہاں آسان ہے۔ وہ تو محبت کرتی تھی اس کے لیے سارے مرحلے آسان ہوتے گئے۔ تعداد لاکھ سے تین لاکھ تک جا پہنچی ۔ وہ بوکھلائی سی رہنے لگی تھی۔ ا س کیآنکھوں میں آنسو ہمہ وقت رہتے ۔وہ آفتاب کی ہو جانے کا کلمہ پڑھنے لگی تھی۔
ربنا اتینا فی الدنیاحسنۃ و فی الاخرات حسنتہ پڑھتی تو اسے بہتری آفتاب لگتا۔۔۔ اسے حسنۃ آفتاب لگتا ۔۔۔وہ آفتاب کا تصور کرتی ،وہ اسی کو مانگتی ۔
پاکیزہ کی شدتوں سے وہ غافل کہاں تھا۔ ملتا رہتا تھا ۔جب بلاتا کچے دھاگے سے بندھی چلی جاتی ۔وہ موم ہو گئی تھی۔ وہ موڑتا رہتا وہ مڑتی رہتی ،وہ توڑتا رہتا وہ ٹوٹتی رہتی۔ وہ جوڑتا رہتا وہ جڑتی رہتی ، وہ ڈھالتا رہتا وہ ڈھلتی رہتی ، سانس بھی ا س کی مرضی سے لیتی لیکن وہ کیا کہتا تھا ۔۔۔
وہ کہتا تھا ’’مجھے اب تم سے چڑ ہونے لگی ہے ۔۔۔اتنی محبت تم کرتی نہیں ہو جتنی ظاہر کرتی ہو ۔‘‘
وہ دل چیر کر دکھا سکتی تو دکھا دیتی ۔برسوں پہلے وہ دستک دینے والا تھا اور اس نے دروازہ کھولا تھا اب وہ دستک دے رہی تھی اسے بھی تو دروازہ کھولنا چاہیے تھا ۔ اس کی ذہانت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والا اسے نفسیاتی کہتا تھا۔’’ تم نفسیاتی مریض ہو۔ تمہیں نفسیات کے ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے ‘‘۔ وہ من ہی من میں سوچتی ۔’’میں دل کی مریض ہوں۔ مجھے طبیب َعشق کو دکھانا چاہیے ‘‘۔
اس کی رنگت کو سنہرا کہنے والا اس کے اٹھنے بیٹھے میں سو سو قباحتیں نکالتا تھا۔ ’’تم اپنا چہرہ تو ٹھیک کرو ۔ہر وقت کہیں نہ کہیں سے شکل خراب ہوتی ہے ۔ اپنی رنگت دیکھو ۔۔۔کیا حشر بنایا ہوا ہے۔ تمہارے ساتھ چلتے بھی شرم آتی ہے۔ ‘‘ وہ دل مسوس کر رہ جاتی۔ آفتاب کو کیا معلوم آفتاب کے لفظوں سے سو دفعہ قبر کھودی جاتی تھی، وہ ہر دفعہ اس میںدفن ہوتی۔ اپنی انا کو اسی قبر میں ڈالتی۔ عزت نفس کو جلا کر خاک کرتی پھر قبر سے نکلتی اور آفتاب کے سامنے ہاتھ پھیلاتی ۔
’’مجھ سے شادی کر لو۔۔۔ ‘‘ ایک عذاب تھا جو اسے زندگی میں دے دیا گیا تھا۔
سب رنگ پہننا چھوڑ چکی تھی وہ سیاہ رنگ پہنتی تھی ایک بہتر تبصرہ اسی رنگ کے لباس میں ملا تھا ۔
’’کچھ بہتر لگتا ہے تمہارا رنگ اس رنگ میں۔ ‘‘ تب سے بس سیاہ رنگ تھا سیاہ رنگ کا جوتا ، سیاہ رنگ کے کپڑے ، سیاہ رنگ کا بیگ ۔۔۔ ایک سیاہی تھی جو انتظار کی صورت اس کے ماتھے پر چپکا دی گئی تھی ۔ وہ خود کو رگڑ رگڑ کر دھویا کرتی مگر یہ سیاہی جان نہ چھوڑتی۔ وہ بھول چکی تھی آخری دفعہ بے ساختہ کب ہنسی تھی ۔ مسکراتی تو لگتا رو پڑے گی اور اگر وہ روتی تو یہ بات طے تھی آنسو سیاہ نکلتے۔۔۔!
نمازیں لمبی ہو گئی تھیں ۔وہ سجدے میں جاتی تو سجدے سے نہ اٹھتی ۔ تسبیحات طویل سے طویل تر ہوتی گئی۔ جتنا اللہ کے آگے جھکتی اتنا شرمندہ ہوتی ۔ دل میں عجیب کھٹکا سا پیدا ہو گیا تھا ۔اگر یہ نکاح ہے تو کیسا نکاح ہے جو اس شخص کے دل میں محبت پیدانہیں کر سکا اور اگر نکاح نہیں ہے تو میں اب تک کیوں رابطے میں ہوں ؟میں اس سے کیوں ملتی رہی ہوں؟ ہزاروں سوال تھے۔۔۔ جو دل میں طوفان برپا کیے رکھتے ۔وہ سوالوں پر جاتی تو چین سے نہ رہ پاتی۔ اس کی ہر سانس مشکل ہو جاتی ۔
ایک وقت تھا کہ آفتاب اس کے لیے کچھ نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ وہ اس کی عادت بن گیا پھر اسے عادت سے محبت ہوئی۔ اب اسے اِس محبت کی ضرورت تھی ۔دوسری طرف آفتاب کیا سوچتا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔ دل چاہتا تھا کسی طرح اس کے دماغ میں داخل ہو جائے۔ جتنی بد گمانی اور بے قدری سوچوں میں بھر چکی ہے کسی طرح سے مٹا دے لیکن اس کے اختیار میں یہ تھا ہی نہیں ۔۔۔!
اسے شدت سے احساس ہورہا تھا وہ انسان ہے خدا نہیں ! اس کی عقل تسلیم کر رہی تھی کہ کوئی ہستی ہے جس کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا!
وہ چاہتی تو اسے چھوڑ دیتی لیکن چاہ میں کب کچھ تھا؟ وہ دعاؤں سے نکل کر نس نس میں بھر چکا تھا ۔وہ چاہ کر بھی چھوڑ نہیں پا رہی تھی۔ دل و دماغ میں عجیب سی کشمکش تھی ۔آفتاب سے ملتی تو مزید کشمکش کا شکار ہو جاتی۔ وہ کبھی اتنا اچھا بنتا کہ ہیرا لگتا ،کبھی اتنا بدلتا کے کاٹ کر رکھ دیتا۔ واقعی ہیرے جیسی صفات تھی۔ خیال رکھنے پر آتا تو پاؤں چومنے لگتا ،درشتگی پر اترتا تو نظر بھر کر نہ دیکھتا۔ من چاہتا تو پاکیزہ کو دیکھ دیکھ کر گنگناتا رہتا اور جی نہ مانتا تو ہزاروں فرمائشیں کرتی پاکیزہ پرکان نہ دھرتا۔ ایک آئس کریم کھلانے کے لیے میلوں دور لے جاتااور کبھی کبھی ایک چھوٹی سی بات پر رُلا دیتا لیکن بات نہ مانتا۔ آفتاب کو فرق نہیں پڑتا تھا ۔اب اس کو پاکیزہ کے رونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔
قرآن پاک آفتاب کو پاکیزہ تحفے میں دے چکی تھی۔ شاید کسی چیز سے وہ سنجیدہ ہو جائے۔۔۔ شاید وہ جان سکے کہ پاکیزہ آفتاب سے کتنی محبت کرتی ہے ۔۔۔پاکیزہ کی ساری کوششیں بے معنی جا رہی تھیں۔ جس دن کوئی وظیفہ مکمل ہوتا آفتاب کا رنگ ڈھنگ تھوڑا سا بدلتا ۔وہ پُر امید ہو جاتی، ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی لیکن پھر کوئی نا کوئی بات بری لگ جاتی اور وہ اتنے فاصلے پر کھڑا نظر آتا کہ وہ خود کو تن تنہا محسوس کرنے لگتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گئے دنوں کی عزیز باتیں
نگار صبحیں،گلاب راتیں
بساطِ دل بھی عجیب شے ھے
ہزار جیتیں،ہزار ماتیں
جدائیوں کی ہوائیں لمحوں کی
خشک مٹی اُڑا رہی ہیں
گئی رتوں کا ملال کب تک؟
چلو کہ شاخیں تو ٹوٹتی ھیں
چلو کہ قبروں پہ خون رونے سے
اپنی آنکھیں ہی پھوٹتی ہیں
رشتے سچ میں آنے لگ گئے تھے۔ پھوپھو کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود آفتاب کی والدہ نہیں مان رہی تھیں۔ ایک تسلی تو تھی کہ آفتاب راضی ہے۔ بس وہ اسی تسلی سے امید کا دیا روشن کیے آنکھیں انتظار میں جمائے بیٹھی تھی۔ سب کچھ قابل برادشت تھا لیکن دل کا کھٹکا اسے وسوسے میں ڈال رہا تھا ۔
اللہ کا نام جھوٹے منہ سے بھی لو تو دل سچاہو جاتا ہے۔ اللہ کا نام لے کر یہ دنیا اور رسم و رواج دماغ سے نکل چکے تھے۔بس اللہ یاد تھا۔وہ نکاح کر کے اللہ کی نظر میں سرخرو ہونا چاہتی تھی۔ آفتاب اور پاکیزہ کے درمیان لڑائی جھگڑے ہونے لگ گئے ۔پاکیزہ کی باتیں آفتاب کو طنز لگتیں۔ آفتاب کی مصروفیت پاکیزہ کو رعونت محسوس ہوتی ۔جب سجدے میں جھکتی تو بس یہ دعا کرتی کہ اگر وہ بد دعا ہے تو اسے میرے لیے دعا بنا دے، اگر وہ بلا ہے تو اسے میرے لیے ردِ بلا بنا دے۔ اللہ سے بس یہی چاہتی تھی کہ آفتاب سے ایک دفعہ سب کے سامنے سچا نکاح ہو جائے پھر بھلے وہ ا س کے قریب نہ آئے ۔۔۔پھر بھلے وہ اسے طلاق ہی دے دے۔۔۔ آفتاب قریب توآتا تھا لیکن نکاح نہیں کرتا تھا۔ سب کے سامنے علی الاعلان اقرار بھی نہیں کرتا تھا۔ باقی بس یہ ہی تھا کے یہ بے نام سا تعلق بھی ٹوٹ ہی جائے ۔
وہ پھانسی کے پھندے سے لٹکی ہوئی تھی ۔جان جانے کا خوف بھی تھا اور جینے کی خواہش بھی ۔بچنے کی امید نظر نہ آتی تھی اور مرنے کا اپنا ارادہ بھی تھا۔ زندگی موت بن چکی تھی ۔وہ سمجھ نہیں رہی تھی لیکن حقیتا زندگی موت ہی کا سفر ہے ۔
آفتاب نے بہت اصرار کر کے اسے ملنے بلایا تھا۔ اس گیسٹ ہاؤس میں بھی وہ پہلے کئی دفعہ مل چکے تھے۔ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ خاموشی سرسرا رہی تھی۔
’’تمہیں پتا ہے تم بہت خوبصورت ہو ۔۔۔‘‘ وہ ا س کے کانوں میں شہد انڈیل رہا تھا جو پیروں میں ریشمی زنجیر بنتا جا رہا تھا۔
’’آفتاب آپ شادی کب کریں گے؟ ‘‘ وہ وہیںاٹکی ہوئی تھی۔ اس کی زندگی اور موت بس اسی ایک سوال سے جڑی ہوئی تھی۔
’’پاکیزہ شادی سے پہلے میں تمہیں نفسیات کہ ڈاکٹر کے پاس ضرور لے کر جاؤں گا ورنہ میری تو زندگی تم عذاب بنا کر رکھ دو گی۔ ‘‘ آفتاب بہت ہنستے ہوئے بولا ۔
آج اسے کوئی بات بری نہیں لگ رہی تھی ۔ہنسی نے تھوڑی سی تقویت پاکیزہ کو مزید بخشی ۔
’’آفتاب میری شادی ہو جائے گی ۔پھوپھو مزید انتظار نہیں کریں گی۔ ‘‘ وہ منمنائی۔
’’میں شادی نہیں کر سکتا ابھی۔ یہ دیکھو اور تھوڑی سی سمائل دو۔ ‘‘ وہ تصویر بنا رہا تھا ،پاکیزہ نے بمشکل مسکراہٹ نچھاور کی۔
’’آفتاب کچھ کریں ناں۔ صرف رشتہ بھیج دیں ۔شادی بے شک دس سال بعد کرنا کم از کم رشتہ بھیج دیں۔ میں لوگوں کی باتوں سے تو بچ جاؤں گی ۔‘‘ وہ اس سے درخواست کر رہی تھی۔ وہ صرف یہی کر سکتی تھی ۔
’’تم تو کہتی تھی تمہیں صرف دل کی تسلی چاہیے۔ اللہ کو راضی کرنا چاہتی ہو ںَلوگوں کی پرواہ نہیں ہے اور آج تم لوگوں کی پریشانی لے رہی ہو ؟‘‘ پتہ نہیں وہ طنز کر رہا تھا یا پاکیزہ کو لگا۔
’’پھر میرے دل کو اطمینان دے دیںَ آپ مجھ سے کورٹ میرج کر لیںَ پورا پورا نکاح کر لیں۔ قانونی طورپر بیوی بنا لیں۔‘‘ پاکیزہ کے دل کا کھٹکا زبان پر آ گیا تھا ۔
’’تم نکاح کو اپنے دماغ سے نکال کیوں نہیں دیتی ہو۔ ہر روز نئی بات نکالتی ہو۔‘‘ وہ غصے میں آ گیا تھا۔
’’میں بس ویسے ہی کہہ۔۔۔۔‘‘ پاکیزہ کی بات آدھی منہ میں ہی تھی ۔
’’ویسے ہی کیا کہہ رہی تھی؟ تمہارا کام ہے میرا دماغ خراب کرنا ۔تمہیں سکون پسند ہی نہیں ہے ۔تم چاہتی ہی نہیں ہو کہ ہم دونوں ہنسی خوشی رہیں۔ ‘‘
’’میں ہمیشہ ساتھ رہنا چاہتی ہوں آفتاب۔۔۔ تنگی ترشی میں برداشت کر لوں گی۔ ‘‘ پاکیزہ کی زبان میں کھجلی ہوئی تھی ۔
’’تمہیں نہیں لگتا تم نفسیاتی مریض ہو ؟تمہارے ساتھ رہ کر میں نفسیاتی ہو گیا ہوں۔ میرا دماغ خراب ہو جاتا ہے تمہاری خرافات سن سن کر۔۔۔ ‘‘ وہ چیخ رہا تھا۔
’’آفتاب آہستہ بولیں پلیز۔ ‘‘
’’میں آہستہ بولوں ؟میں آہستہ بولوں ؟مجھے سکھاؤ گی ؟تم اب تم سے سیکھنا پڑے گا کہ میں نے کیسے بولنا ہے ؟تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے کہ آہستہ بولوں۔۔۔‘‘ وہ بے قابو ہو رہا تھا ۔
’’پلیز آرام سے آفتاب ‘‘ پاکیزہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
آفتاب نے جوابا َاس کا ہاتھ اتنی زور سے جھٹکا کہ پاکیزہ کو دھکا سا لگا۔ آفتاب کے مضبوط ہاتھوں کی بے رخی نے پاکیزہ کا سر الماری کے ساتھ جا لگایا ۔لوہے کی الماری کا قبضہ ٹوٹ کر باہر کی طرف نکلا ہوا تھا ۔ سر پر جو لگی سو لگی۔۔۔ دائیں کان کے پاس سے گال پر زخم بن گیا۔ خون بہہ رہا تھا۔
’’آفتاب۔۔۔‘‘ وہ سسکی اپنا ہاتھ گال کو لگایا تو پپوٹے سرخ ہو گئے ۔ ایک نظر آفتاب کو دیکھا تو وہ اب بھی رخ موڑے کھڑا تھا ۔
’’یہ دیکھیں مجھے لگ گئی ہے۔ اب تو میری طرف دیکھیں ۔‘‘ اس نے منت کی تھی۔۔۔
وہ مڑا۔۔۔ اس کے زخم پر تھوک کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔
پاکیزہ ۔۔۔ آفتاب کی پاکیزہ ۔۔۔
روشنی کی خواہش کرنے والی اپنے چہرے کا داغ لیے مردہ سی کھڑی رہ گئی ۔
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍
منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ
اکثر وہی ملے ہیں بڑی بے رُخی کے ساتھ
یوں تو مَیں ہنس پڑا ہُوں تمہارے لیے مگر
کتنے ستارے ٹوٹ پڑے اِک ہنسی کے ساتھ
فرصت مِلے تو اپنا گریباں بھی دیکھ لے
اے دوست یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ
مجبوریوں کی بات چلی ہے تو مئے کہاں
ہم نے پِیا ہے زہر بھی اکثر خوشی کے ساتھ
چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا بُرا سلوک میری سادگی کے ساتھ؟
اللہ جی! مجھے آپ نے کب اکیلا چھوڑا ہے ؟ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے؟ میں نجانے کتنی دفعہ اس سے ملی ہوں۔۔۔ مجھے تو تعداد بھی یاد نہیں لیکن ایک دفعہ بھی ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوا کہ بات گھر تک آئی ہو۔ آپ نے تو اللہ جی مجھے کبھی رسوا نہیں کیا۔۔۔ اس دفعہ کیوں آزمائش اتنی طویل ہوتی جا رہی ہے؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔۔میرا دماغ پھٹنے لگتا ہے۔اللہ جی! میں ایسی لڑکی نہیں تھی کہ خود کو نمائش کے لیے پیش کروں۔۔۔ میں ایسی لڑکی بھی نہیں تھی کہ کسی کو اپنا آپ دکھا کر خوش ہوں۔۔۔ راہ چلتے اگر کوئی مجھے چھو کر گزرنے کی کوشش کرتا تو میں بھلے شور نہ ڈالتی تھی لیکن رک کر ایک زہریلی نگاہ اس شخص پر ضرور ڈالتی تھی کہ دوبارہ کسی کو چھونے سے پہلے اس کے دل میں تھپڑ کا ڈر ضرور ہو۔۔۔ میں نے تو محبت کو کبھی اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا تھا ۔۔۔ یہ محبت تھی جو خود میری زندگی میں شامل ہوتی گئی ۔۔۔۔اس شخص نے مجھے پاگل کیا تھا ۔مجھے اس راستے پہ لے جانے والا وہ شخص ہے۔ میں اسے الزام ضرور دیتی ہوں لیکن اگر وہ میرا ہو جاتا یا مجھے اپنا بنا لیتا تو میں اسے یہ زندگی بھی بطور انعام دے دیتی ۔
اللہ جی میرے ساتھ آئینے میں کھڑا ہو کر ہم دونوں کو ایک ساتھ خوبصورت کہنے والا آج آئینے کی گواہی پر بھی نہیں جا رہا۔ میں کدھر جاؤں اور کس سے کہوں؟ اگر وہ شخص خوبصورتی کا رسیا تھا تو ا س نے تب مجھے کیوں چنا جب میں واقعی کچھ نہیںتھی ؟ ایک تیرہ چودہ سال کی سانولی سی بچی میں اسے کیا نظر آیا تھا ۔۔۔اگر اس نے میرا ہونا ہی نہیں تھا تو مجھے کسی دوسرے کے قابل تو چھوڑتا۔۔۔ ان آٹھ نو سالوں میں اس کی زندگی میں ہزاروں لڑکیاں آتی جاتی رہیں۔ سکول کے زمانے میں بھی وہ مجھے جلانے کی خاطر کتنی ہی لڑکیوں سے دوستی کرتا رہا لیکن اختتام میں وہ میرے پاس آتا تھا۔ اللہ جی ! اب اختتام کب آئے گا؟ اللہ جی! اب وہ میرے پاس کب آئے گا ؟
اللہ جی میں اسے بھول بھی جاؤں تو اس کی دیوانگی کیسے بھولوں؟ وہ جو میری ہتھیلیوں پر بار بار نرم بوسے دیتا تھا ۔۔۔اس لمس کو کیسے بھولوں؟ میں اس شخص کی بے وفائی کو یاد رکھ لوں لیکن اس دل کا کیا کروں جو اس کے گھر میں دھڑکنے لگ گیا تھا ؟ اس مان کا کیا کروں جو مجھے اس کے نام پر تھا؟ اس دعا کا کیا کروں جو میرے خوابوں تک میں آنے لگی تھی ؟میں اس دماغ کا کیا کروں جو اس کے گھر والوں کو اپنا خاندان سمجھنے لگ گیا تھا؟ میں کسی دوسرے انسان سے تو کیا اس کے گھر والوں سے بھی کبھی محبت کی دعویدار نہیں ہو سکتی۔۔۔ محبت تو ایک دفعہ ہوتی ہے اور وہ مجھے ہو گئی ۔ اب میں ڈھونگ کر سکتی ہوں لیکن محبت نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ محبت کو کہیں یہ محبت بن کر مجھے نہ آزمائے۔۔۔۔ اس محبت کو کہیں کہ مجھے میری محبت دے دے ۔۔۔یہ ظلم ستم محبت کو کہہ دیں کہ اور نہ کرے محبت ۔۔۔نہیں ! محبت اب اور نہیں !پلیز نہیں ! محبت اب اور نہیں !
وہ بیو قوف نہیں تھی وہ تو بہت سمجھدار تھی۔ وہ کیسے کسی کو ہر ایک لمحہ بتاتی۔ جب جب آفتاب نے اس کا اعتماد کمایا تھا ۔وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جس سے اس کا یقین آفتاب پر بڑھتا چلا گیا تھا۔۔۔ وہ پاکیزہ کو سوئی بھی نہیں لگنے دیتا تھا۔ پاکیزہ کے رونے پر جیسے آفتاب کی روح جسم سے نکلنے لگ جاتی ۔خود کو ہزاروں تکلیفیں دے دیتا لیکن پاکیزہ کو ٹھنڈی گرم ہوا تک نہ لگنے دیتا ۔پاکیزہ کی کوئی کتاب کہیں سے نہ مل رہی ہوتی تو آفتاب کی ذمہ داری بن جاتی۔
پاکیزہ اتنے سارے لمحوں کو یاد نہیں رکھ سکتی تھی ۔اگر ان لمحوں کو کسی طرح یاد بھی کر لیں تو ان لمحوں سے کشید کیے جانے والے جذبات کسی کو بتائے نہیں جاتے۔۔۔۔ جب کوئی آپ کی طرف پیار سے دیکھتا ہے ، نرمی سے چھوتا ہے ، نم بوسہ دیتا ہے، آنکھوں میں احترام رکھتا ہے تو دل نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی جگہ بنا لیتا ہے۔ وہ جگہ نہ تو ختم ہو سکتی ہے نہ ہی کسی اور کو مل سکتی ہے۔ اس جگہ میں یا تو وہی رہتا ہے یا کوئی نہیں ۔۔۔!جب مکانوں سے مکین چلے جاتے ہیں تو مکان مکان نہیں رہتے کھنڈر بن جاتے ہیں۔
کھنڈر دل لیے جی رہی لڑکیوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔لوگ جب پوچھتے ہیں تو آپ کے پاس دینے کو دلیل نہیں ہوتی ،دکھانے کو کوئی ثبوت نہیں ہوتا ،صرف جذبات ہوتے ہیں جو آپ محسوس کر سکتے ہیں ۔بد قسمتی یہ کہ جذبات کا احساس بھی کسی دوسرے کو نہیں دے سکتے۔
لوگ سچ کہتے ہیں ۔۔۔ لوگ سچ سمجھتے ہیں ۔۔۔ یہ لڑکی بے وقوف ہے !یہ تو بہت سمجھدار تھی۔۔۔ لیکن لوگوں پر بیتے تو لوگ بھی جانیں کہ محبت بے وقوف کر دیتی ہے محبت سمجھدار نہیں رہنے دیتی ۔
ایک لاکھ دفعہ پڑھنے والا وظیفہ اکیس لاکھ پر چلا گیا تھا ۔ایک عجیب سی بے بسی تھی جو آہستہ آہستہ پاکیزہ پر طاری ہو رہی تھی۔ آفتاب نے ا س سے معافی مانگ لی تھی۔ تھوک دینا کون سی بڑی بات تھی۔ محبت نے عزت ِنفس کا احساس مٹا دیا تھا ۔پاکیزہ نے اسے معاف کر دیا تھا ۔ قبر کے کہیں اندر سے عزتِ نفس کا احساس سر اٹھانے کی نا کام کوشش کرتی رہتی لیکن پاکیزہ ان سب ہی کوششوں کو دبک دبک کر سلاتی ۔وہ عزت کو سینے سے لگا لیتی تو لوگ کیا کہتے ؟ہزاروں جگہوں پر لوگوں نے آفتاب اور پاکیزہ کو ساتھ دیکھا تھا وہ پاکیزہ کو کیا سمجھتے ۔۔۔؟ سوال یہ نہیں تھا کہ وہ لوگ دوبارہ ٹکرائیں گے یا نہیں۔۔۔ سوال یہ تھا کہ وہ آفتاب کے بغیر لوگوں کا سامنا کیسے کرے گی ۔۔۔؟
انسان کو کوئی دوسرا برا لگے تو اس کا گزارہ ہو جاتا ہے ۔وہ نفرت کے لیے نا پسندیدگی کے لیے ایک کونا مختص کر دیتا ہے لیکن اگر اپنا آپ برا لگے تو گزارہ نہیں ہوتا۔ نفرت اور نا پسندیدگی کے لیے کونا مختص نہیں ہوتا۔ زندگی صرف ہو جاتی ہے۔۔۔ زندگی خود نفرت بن جاتی ہے !
پاکیزہ کو اپنا آپ برا لگنے لگ گیا تھا۔ جو اچھا لگتا تھا وہ اسے مل نہیں سکتا تھا پھر کوئی اور اچھا کیوں کر لگتا ۔ان آٹھ نو سالوں میں اس نے اٹھارہ انیس دفعہ استخارہ کروایا تھا۔ ایک سید دوست سے حساب کروایا تھا۔ سب نے یہی کہا تھا کہ آفتاب اس کے حق میں بہترین ہے ۔فٹ پاتھ پر بیٹھے بابا جی سے لے کر درگاہ پر بیٹھے فقیروں تک سب نے مثبت اشارے دئیے تھے ۔عام انسان سے لے کر خاص تک سب ہی آفتاب کے حق میں رہے تھے ۔اعداد کا علم رکھنے والوں نے بھی یہی کہا تھا وہ آپ سے محبت کرتا ہے آپ ہی سے شادی کرے گا ۔اب جانے کیسی ہوا چلی تھی کہ سب مثبت اشارے گم گئے تھے ۔دل کی زمین بنجر ہو گئی تھی۔ استخاروں نے اپنا وجود کھو دیا تھا۔ یہ وقت تھا کہ اس کے ہاتھوں میں مہندی لگتی۔۔۔ وہ دلہن بنائی جاتی لیکن اس وقت اسے سیاہ رنگ عطا کر دیا گیا۔
کتنا مشکل ہوتا ہے ساحل پر ایک قدم رکھنا اور پھر ڈگمگا جانا ساتھ ہی لہروں کا آنا اور آپ کو لے ڈوبنا۔۔۔
وہ ڈوب رہی تھی ۔۔۔
نیچے ۔۔۔
نیچے ۔۔۔
اور نیچے !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ
بستی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ
سارا سارا دن گلیوں میں پھرتے ہیں بے کار
راتوں اٹھ اٹھ کر روتے ہیں اس نگری کے لوگ
’’پاکیزہ مجھ سے ملو ۔۔۔‘‘ اصرار باقی تھا
’’آفتاب کیوںملوں ؟ ملنے کو کیا باقی رہ گیا ہے ؟‘‘ دل سخت ہونے لگ گیا تھا ۔
’’تم مجھے انکار نہیں کر سکتی ۔‘‘
’’آپ مجھے اقرار کرنے کی وجہ دے دیں میں بھی انکار نہیں کرنا چاہتی ‘‘۔
’’وجہ ہے نا ں۔۔۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا‘‘۔
’’اور میں آپ کے ساتھ ایسے نہیں رہ سکتی ْ۔
وہ ’’وہ ‘‘ نہیں تھی۔۔۔ لیکن اکیلے میں ملنا اور سب سے چھپ کا رشتہ رکھنا ۔۔۔ ایک دوسرے کو چھونا ۔۔۔ لوگوں کے سامنے پاک پاکیزہ ہونے کا ڈھونگ رچانا۔۔۔ اسے نفسیاتی کرنے لگا تھا ۔۔۔اسے اپنا آپ داشتہ محسوس ہورہا تھا۔
’’میرے نیچے۔۔۔ مجھے جواب دیتی ہو ؟ میرا تھوک چاٹنے والی مجھے جواب دیتی ہو ؟ کسی۔۔۔کی بچی میرے آگے زبان چلاتی ہو؟‘‘جو بات آفتاب نے ادھوری کہی تھی وہ پاکیزہ نے پوری سن لی تھی۔۔۔۔
آسمان پہلے کبھی نہیں گرا تھا پاکیزہ کو احساس ہوا۔۔۔ آسمان تو آج گرا تھا ۔۔۔ سب کچھ تباہ ہو گیا تھا۔ یہ تھا محبت کا نتیجہ۔۔۔!
یہ تھا محبت کا انجام ۔۔۔!
’’آپ مجھے طلاق دے دیں ۔‘‘ پاکیزہ نے ٹھنڈے لہجے میں کہا ۔
نکاح کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔اسے احساس ہو گیا تھا ۔دل کو تسلی دینا چاہتی تھی۔
آفتاب نے جوابا َفون رکھ دیا۔ پاکیزہ کو رونا نہیں آ رہا تھا۔ وہ پچھلے دو سالوں میں بہت رو چکی تھی۔۔۔۔وہ رونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ مرنا چاہتی تھی! دو تین گھنٹے بعد حواس بحال ہوئے تو اسے رونا آیا لیکن موت نہیں آئی حالانکہ آج اسے موت کی چاہ تھی ۔۔۔شدید چاہ تھی ۔موت حرام ہے لیکن زندگی میں ایک دفعہ طلب ضرور بن جاتی ہے۔
’’آپ مجھے طلاق دے دیں ۔۔۔آپ مجھے چھوڑ دیں !‘‘پاکیزہ کے لبوں سے اور کچھ نہیں نکل رہا تھا۔ وہ پیغامات میں بھی بس یہی دہرا رہی تھی ۔
’’میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔مجھے آپ خود سے الگ کر دیں!‘‘ ایک ضد تھی جو پاگل پن کی طرح لبوں پر آ ٹھہری ۔زبان کچھ اور کہنے سے قاصر تھی ۔
’’تم تو نکاح کے بارے میں ویسے بھی مخمصے میں ہو۔۔۔ جاؤ میری طرف سے آزاد ہو! ‘‘ وہ جان چھوڑنے کو تیار تھا۔
وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔پاکیزہ کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ وہ اپنا سارا اعتماد گروی رکھ چکی ہے اور آفتاب اپنی ساری کمزوریوں کو طاقت میں بدل چکا ہے۔وہ کسی سے تیکھا ہو کر نہیں بولتا تھا ۔۔۔گالی دینا تو بہت دور کی بات ! اب اگر وہ گالی دے رہا تھا تو وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔وہ واقعی آفتاب بن گیا تھا۔شدید گرم ۔۔۔۔جھلسا دینے والا۔۔۔!
’’نہیں آپ اپنے منہ سے کہیں کہ آپ نے مجھے طلاق دی ۔‘‘ دیوانگی باؤلا کر دیتی ہے ۔ وہ دیوانی زیادہ تھی یا باؤلی زیادہ ۔۔۔ وہ فیصلہ نہ کر سکی۔
اس اصرار کے پرے کہیں امید کا موتی جگمگ جگمگ کر رہا تھا ۔شاید وہ مجھے منا لیں ۔۔۔شاید وہ مجھے اپنا لیں ۔۔۔شاید وہ سب ٹھیک کر دیں ۔۔۔آٹھ نو سال کی رفاقت کو وہ ایک دن کے غصے میں تو نہیں چھوڑے گا ناں ؟ میں تو ا س کی بچپن کی دوست ہوں۔ اب وہ جوانی میرے ساتھ گزار کر بڑھاپا کسی اور کو کے ساتھ کیسے جی سکتا ہے ؟ وہ کسی اور کو کیسے نم بوسی دے سکتا ہے ؟ وہ کسی اور کو کیسے اتنے پیار سے دیکھ سکتا ہے ؟وہ تو بہت صفائی پسند ہے۔۔۔ اگر میں خود کو ایک کے بعد دوسرے شخص کے حوالے نہیں کر سکتی تو وہ ایک کے بعد دوسری لڑکی کے قریب کیسے جا سکتا ہے؟ اس نے اگر غلط بات کہہ دی تو کیا ہوا۔۔۔ بس وہ ایک دفعہ معافی مانگ لے میں اسے معاف کر دوں گی۔۔۔ معاف کیا کرنا۔۔۔ میں اسے پہلے سے زیادہ پیار دوں گی تاکہ وہ میری قدر کر سکے۔ میرا اور اس کا رشتہ اتنا کچا تو ہے نہیں کہ میں اس سے طلاق مانگوں اور وہ طلاق دے دے ۔کوئی ادھار تو ہے نہیں جو ہمارے درمیان تبادلہ ہو اور بھلا دیا جائے ۔ہمیشہ رہنے والے ساتھ میں بھی کبھی ایسا ہوتا ہے ؟وہ خود کو میرا friend forever کہتا ہے ۔۔۔میں اسے اپنا ہمجان سمجھتی ہوں۔ اگر اس نے غصے میں غلط لفظ استعمال کر دئیے ہیں تو میرا غصہ اسے اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس دلا دے گا ۔
’’تم واقعی یہ سننا چاہتی ہو؟ ‘‘ آفتاب نے دھیمے لہجے میں پوچھا ۔۔۔امید کے موتی کی چمک کچھ اور بڑھ گئی۔
’’اس ذلت بھری زندگی کو مزید کتنا گھسیٹوں آفتاب؟ اگر آپ مجھے اس ذلت سے نجات نہیں دے سکتے تو پھر اس رشتے سے نجات دے دیں۔ ‘‘
’’تم پچھتاؤ گی۔۔۔ ‘‘
’’آپ بھی تو پچھتا رہے ہیں مجھ جیسی نفسیاتی کے ساتھ رہ رہ کر ۔۔۔‘‘
’’پھر طعنے دے رہی ہو؟ بہت مار کھاؤ گی تم اپنی زبان سے! ‘‘
’’آپ وار کریں اپنی زبان سے۔۔۔ چھوڑ دیں مجھے! ‘‘
’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں پاکیزہ۔۔۔ میں نے تمہیں طلاق دی۔۔۔ میںتمہیں طلاق دیتا ہوں۔ ‘‘
’’اب خوش ہو؟ ‘‘ بہت سفاکی سے اس نے پوچھا تھا جیسے کوئی با ت ہی نہ ہو۔
وہ خوشی کے ہجے بھی کرنا بھول گئی تھی۔۔
آسمان جو پہلے گرا تھا وہ پورا نہیں تھا پاکیزہ کوایک بار پھر احساس ہوا۔
اب آسمان پورا گرا تھا۔۔۔ وہ پورے قد سے آسمان تلے دب گئی تھی۔۔۔ سانولا صبیح سب بھول گیا تھا ۔۔۔اب کالا تھا ۔اس دنیا کا ہر رنگ کالا تھا !
؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍؍