آیت کی آنکھ بمشکل کھلی ۔اس کی نارمل ڈلیوری ہوئی تھی یہ بہت حیران کن بات تھی ڈاکٹر کے لیئے بھی کیونکہ انہیں شروع سے لگتا تھا کہ آیت کا آپریشن کرنا پڑے گا۔آیت کمزوری کے باعث بے ہوش ہوگئی تھی مگر اپنے دونوں بچوں کی آوازیں سن کر۔اس کے لیئے سب سے زیادہ جو چیز اہم تھی وہ ولید کا ساتھ تھا ۔ولید لیبر روم میں بھی اس کے ساتھ تھا۔اس کا ہاتھ تھام کر اس کی تکلیف کو آدھا کر دیا تھا اس نے۔بار بار ولید اس کی پیشانی پر پیار دیتا اسے بتاتا کہ ابھی انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ اچھی زندگی گزارنی ہے اور آیت ولید کے لیئے کتنی اہم ہے۔بچے کی رونے کی آواز پر آیت نے گردن موڑ کر دیکھا۔چھوٹے سے بچے کو بمشکل ہاتھوں میں اٹھائے ولید اسے چپ کروا رہا تھا۔نرس اسے کچھ بتا رہی تھی جبکہ بچا تھا کہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
“ارے میڈیم آپ جاگ گئی۔آپ کے بیٹے کو آپ کی ضرورت ہے بہت دیر سے رو رہا ہے یہ۔”
نرس آیت کو جاگا ہوا دیکھ کر اس کے پاس آئی۔ولید نے بچہ نرس کو دیا ۔
“آیت ٹھیک ہیں آپ۔”
ولید نے آیت پر جھک کر اس سے سوال کیا۔
“ہمارا بیٹا بہت رو رہا ہے اسے چپ کروانا ہے آپ نے۔فیڈ کروا لیں گی آپ ۔”
ولید نے آیت سے پوچھا جس نے بس ہاں میں سر ہلایا کیونکہ اس وقت اس کی نظر دھندلائی ہوئی تھی ۔ولید نے ہی اسے اٹھنے میں مدد کی تھی اور اپنا روتا بلکتا بچہ اسے دیا تھا۔آیت بچے کو پکڑ نہیں پا رہی تھی ۔نرس ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔اس ہسپتال میں بہت کم لوگ اپنی بیوی کا اتنا خیال رکھتے تھے اور یہ چھوٹا سا لڑکا تو بیوی کے ساتھ لیبر روم تک بھی کیا تھا۔دونوں بچوں کو فیڈ کرو کر آیت دوبارہ سو گئی تھی کیونکہ اس میں ہمت نہیں تھی آنکھیں کھولنے کی۔جب یہ دوبارہ اٹھی تو کمرہ سجا ہوا تھا۔اس کے بچے کاٹ میں لیٹے ہوئے تھے۔انہیں نرسری میں رکھا گیا تھا مگر پھر یہ صحت مند تھے تو نہیں ماں باپ کو واپس کر دیا گیا۔آیت پورا دن ہوش میں نہیں تھی۔اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کی ماں سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے تسبیح پڑھ رہی تھی۔
“امی۔۔۔۔۔۔میرے بچے۔”
“ماں صدقے جائے تجھ پر بچی۔تیرے پاس ہی تو ہیں تیرے بچے۔اتنے پیارے دو بچے ہیں تیرے۔ایک بیٹا اور ایک بیٹی ۔بہت ہمت والی ہے میری بیٹی۔دیکھ تو آج خود ایک ماں بن گئی ہے۔”
آیت کی والدہ نے اس کے سر پر پیار دیا۔
“ولید کہاں ہیں ۔”
“ارے وہ تو کب سے تیرے پاس ہی تھا۔کل سے اس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا ہے۔کپڑے بدلنے گیا ہے پھوپھی کے گھر بس آتا ہی ہوگا۔”
” باقی سب۔”
“سب آئے تھے آیت۔تیرے بابا جانی نے تو پوری گائوں میں ان دونوں کے عقیدے کے دعوت رکھ دی ہے۔تیرے ابا بھی بہت خوش تھے ۔تیری ساس ابھی باہر گئی ہیں ولید کے ساتھ آجائیں گی۔”
آیت ابھی ولید کا سوچ ہی رہی تھی کہ وہ آگیا ۔شاہ بخت اور مہر دونوں اس خوشی پر بھی حویلی نہیں آئے تھے۔مہر کے مطابق جب اس کا بچہ پیدا ہوگا تب جو خوشی ہوگی وہ معانی رکھے گی ابھی کون سی خوش ضروری ہے ۔شاہ بخت آنے والا تھا گائوں مگر ضروری کام کی وجہ سے رک گیا۔ویسے بھی آیت کو شہر والے ہسپتال لے کر آئے تھے تو سب کو انہوں نے کہہ دیا تھا کہ گائوں آنے کے بعد ہی ان کی ملاقات سب سے ہوسکتی ہے۔آیت کی ساس اس سے ملی اور پیار دے کر آیت کی والدہ کے ساتھ ہی باہر چلی گئی۔اب کمرے میں آیت اور ولید تھے ۔ولید آیت کے قریب آیا۔آیت کا سوجا ہوا ہاتھ جس پر زخم تھے اسے اٹھا کر چوما۔
“بہت بہت شکریہ مجھے اتنے پیارے دو تحفے دینے کیلئے ۔ہمارا بیٹا بلکل تمہاری طرح ہے بھوری بھوری آنکھوں والا اور بیٹی بلکل میری طرح ہے ۔دیکھو میرا بیٹا بلکل تمہاری طرح ہے سب کو تنگ کر کے رکھ دیا اتھا اس نے۔”
ولید آیت کی پیشانی پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے ہوئے اسے بچوں کا بھی پتا رہا تھا۔
“میں نے بچوں کو غور سے دیکھا ہی نہیں خان۔مجھے دیکھائیں نہ بچے کیسے ہیں ۔”
“رکو میں لاتا ہوں انہیں ۔”
ولید سب سے پہلے اپنی بیٹی کو لایا جو وزن میں بہت کم تھی اور وہ ولید کو اسے اٹھاتے ہی ڈر لگ رہا تھا مگر اس نے اسے اٹھا ہی لیا تھا ۔
“دیکھو آیت یہ بلکل میری طرح ہے میری گڑیا۔”
ولید آیت کو بہت شوق سے اپنی بیٹی دیکھا رہا تھا۔اس کے چہرے پر بیٹی کو دیکھ کر بہت زیادہ خوشی آگئی ۔
“میری گڑیا نے ہمیں ماں بابا بنا دیا آیت۔”
“بیٹے نے نہیں بنایا کیا۔”
نہیں وہ بھی میرا شہزادہ ہے اور شہزادے صاحب اس وقت گہری نیند میں ہیں ۔آپ میری گڑیا کو پکڑیں میں لے کر آتا ہوں اسے بھی۔”
ولید اپنی بیٹی کو آیت کے ساتھ لٹا کر اپنے بیٹے کو لایا جو سچ میں بھوری آنکھوں والا تھا اور اپنی بہن سے زیادہ صحت مند تھا۔بچے نے اپنے اٹھائے جانے پر ماتھے پر پل چڑھا لیئے ۔
“یہ دیکھیں ذرا شہزادے صاحب کو بابا کا اٹھانا پسند نہیں آیا ۔”
“بہت پیارا ہے یہ۔آپ نے اس کا نام جو سوچا تھا کیا وہی رکھیں گے۔”
“جی ہاں عبدالکبیر خان ۔بیٹی کا نام میں عائشہ ولید خان رکھوں گا ۔”
“بہت پیارے نام ہیں ۔ولید میں نے آج آپ کے ساتھ ہونے سے یہ بات سمجھ لی ہے کہ جہاں آپ ہیں میرے دکھ کو بانٹنے والے وہاں اور کوئی نہیں ہے۔”
“میں ہمیشہ سے تمہارے ساتھ ہوں اور ہمیشہ ہی تمہارے ساتھ رہوں گا۔تم جانتی ہو آیت آج مجھے احساس ہورہا ہے کہ اولاد ماں باپ کے لیئے کتنی قیمتی ہے۔یہ آپ کے وجود کو مکمل کردیتی ہے۔”
“خان کیا شاہ بخت نہیں آیا ۔”
“نہیں نہ وہ آیا نہ اسے آنا تھا ۔ہماری خوشی ہیں یہ بچے اور ہمیشہ رہیں گے۔تم آرام کرو میں کچھ کھانے کو لاتا ہوں تمہارے لیئے”
ولید بیٹے کو کاٹ مین لٹا کر آیت کا کھانا گرم کروانے چلا گیا۔ولید نے جس طرح آیت کا آج خیال رکھا تھا اس بات نے آیت کو سمجھا دیا تھا کہ اس سے زیادہ کوئی اس کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔”
_________________________
مہر ہسپتال آئی ہو تھی ۔ساتھ میں شاہ بخت تھا۔آج کتنی مشکل سے شاہ بخت مانا تھا اسکے ساتھ آنے کو۔دونوں کے ٹیسٹ ہوئے تھے۔ڈاکٹر نے انہیں اندر بلایا۔
“بیٹھیں مسٹر اینڈ مسز بخت۔”
ڈاکٹر نے ان دونوں کو اپنے سامنے بیٹھنے کو کہا اور رپورٹس ان کے سامنے کی۔
“مجھے بتاتے ہوئے ہوئے افسوس ہورہا ہے آپ کو مس مہر کے آپ کے شوہر باپ نہیں بن سکتے کبھی بھی۔”
یہ خبر مہر سمیت شاہ بخت پر بھی بجلی بن کر گری تھی۔
“یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ڈاکٹر ضرور آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔”
“نہیں مسٹر شاہ بخت میں نے آپ کی رپورٹس بہت اچھے سے پڑھی ہیں اور اس میں یہ صاف واضح ہے کہ آپ باپ بننے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔”
“ڈاکٹر کوئی تو طریقہ ہوگا نہ اس سب کو حل کرنے کا۔”
“نہیں مس مہر میں کچھ نہیں کر سکتی اس معاملے میں ۔”
ڈاکٹر کے صاف جواب پر مہر اور شاہ بخت دونوں خاموش ہوگئے تھے۔مہر جو بہت زیادی غرور کر رہی تھی اس کا غرور خاک میں مل گیا تھا ۔شاہ بخت جسے خود پر بہت ناز تھا وہ بھی خاموشی سے واپسی پر گاڑی چلاتا رہا ۔اس نے اور بھی گئی ڈاکٹرز سے رابطہ کیا تھا۔شاہ بخت کو آج پتا چل گیا تھا کہ اس نے جو اپنی بہن کے ساتھ کیا یہ سب اس کی سزا تھی۔کیا اس نے اس کا روتا ہوا چہرہ نہیں دیکھا تھا شادی کے اگلے روز۔پھر وہ کبھی ماں باپ سے نہیں ملی تھی یہ سب بھی اسے پتا تھا مگر اس نے خود غرضی کی چادر اوڑھ رکھی تھی اور آج اسے معلوم ہوگیا تھا کہ اس نے کیا کیا ہے کسی ایک جیتے جاگتے انسان کے ساتھ۔مہر وہ تو بلکل خاموش ہوگئی تھی۔جس محبت کی خاطر اس نے اپنی روایات توڑ دی ماں باپ کو دکھ دیا ،اپنی دوست کو قربان کیا اس محبت کا کیا انجام ہوا تھا۔ساری زندگی اس کی گود خالی رہنے والی تھی مگر پھر بھی یہ ہار نہیں مان رہی تھی ۔اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر یہ خوش نہیں ہے تو آیت کیسے خوش رہ سکتی ہے یہ اس سے بدلہ لے گی۔ اسی نے اس پر کچھ کروایا ہے جس کے باعث یہ سب ہوا ہے۔شاید وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سب تو اس کی سزا ہے۔
_________________________
عقیقہ آگے کر دیا گیا تھا آیت کے بچوں گا۔بچے آج چالیس دن کے ہوگئے تھے۔ولید انہیں حویلی لایا تھا اپنے دادا اور دادی سے ملوانے۔یہاں ہی انہوں نے فنکشن رکھا تھا سب کے لیئے۔ آیت آج بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی۔اس نے میرون رنگ کا فراک پہنا تھا۔سر پر ڈوپتا لے رکھا تھا اور ولید نے اسے بچوں کی پیدائش پر سونے کا بڑا سا ہار دیا تھا وہ گلے کی زینت تھا ابھی آیت کے۔ہاتھوں میں اس کی ساس نے سونے کی چوڑیاں پہنائی تھی اور آیت کی والدہ نے دوسرے ہاتھ میں اسے سونے کا چوڑا بنوا کر دیا تھا۔آیت اس وقت بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔بھرا بھرا سا وجود اور چہرے پر چمک تھی اس کے۔ولید اسے زبردستی کھانا کھلاتا تھا چاہے اس کا دل نہ بھی ہو۔ان کے بچوں کے لیئے ولید نے آیا رکھی تھی جس کی وجہ سے آیت کو بہت آسانی تھی ۔بچے رات کو روتے تو ولید اس کے ساتھ ہی جاگ جاتا تھا ۔آج کل ولید گھر جلدی آتا تھا۔ولید کی یونیورسٹی سے بھی بہت سارے دوست اسے دیکھنے آئے تھے۔ولید تو بیٹی کو گود سے نہیں اترنے دیتا تھا جبکہ ان کا بیٹا کبیر باپ کا لاڈلہ تھا اس لیئے ہر وقت اسے بھی گود چاہیے ہوتی تھی۔یہ دونوں بچے ان کی جان تھے۔آیت کی آنکھوں کی چمک اپنے بچوں کو دیکھ کر لوٹ آئی تھی۔جو زندگی آیت کو بے رنگ لگتی تھی وہ اب رنگوں سے بھری تھی آیت نیچے آئی سب کے ساتھ یہاں ایک بہت بڑی محفل تھی عورتوں کی۔ہر کوئی خان خاندان کی خان بیگم کے بچوں کو دیکھ رہا تھا۔
مرد مردان خانے میں تھے۔مہر تو آتے ہی چچی کو لے کر کمرے میں چلی گئی۔نجانے اتنی دیر سے یہ لوگ کیا باتیں کر رہے تھے۔مہر اپنی ماں کے ساتھ باہر آئی۔چچی شاید روتی رہی تھی مگر مہر کے آنسو نقلی تھے۔ولید کو مہر نے بلوایا تھا مردان خانے سے ۔سب گھر کے بڑے اور آیت ولید کے ساتھ بابا جانی کے کمرے میں تھے۔بابا جانی اپنا ایک فیصلہ سنانا چاہتے تھے۔
“ولید تم نے ہمیشہ اس خاندان کی۔بقا کے لیئے بہت کام کیا ہے۔آج ہم تم سے کچھ مانگتے ہیں کیا تم۔ہمیں دو گے۔”
“جی بابا جانی یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے آپ مانگ کر تو دیکھیں ۔”
“ہمیں تمہارا بیٹا چایئے ۔شاہ بخت باپ نہیں بن سکتا تھا کبھی۔وہ تمہارا کزن ہونے کے ساتھ ساتھ بہنوئی بھی ہے اور مہر تمہاری بہن۔وہ ساری عمر خالی گود کے ساتھ رہے رہے یہ ہمیں برداشت نہیں اس لیئے ہم نے فیصلہ دیا ہے کہ تم اپنا بیٹا مہر کو دے دو۔”
مہر کے چہرے پر چمک آگئی۔آج سب کے سامنے اسے کبیر مل جاتا تو سب اسے ہی بڑا کہتے۔کبیر کو لے کر یہ آیت کو دیکھانا چاہتی تھی کہ تم جیت نہیں سکتی۔آیت کی گرفت ولید کے بازو پر سخت ہوگئی ۔
“معافی چاہتا ہوں بابا جانی کبیر میرے جگر کا ٹکڑا ہے ۔رہی بات اپنی بہن کی گود آباد کرنے کی تو میں اپنی بیوی کی گود اس کی خاطر کیوں اجاڑ دوں۔اس کی اولاد نہیں ہے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں۔ہماری وٹے سٹے میں شادی ہوئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی بیوی کو اتنی بڑی سزا دوں۔معاف کیجیئے گا بابا جانی یہ بچہ یتیم خانے سے لی لیں مگر میں اپنا بچہ نہیں دوں گا۔”
آیت کی والدہ آیت کو دیکھتے ہوئے اسے یاد دلانے لگی کہ یہ ایک بہن ہے قربانی کے لیئے بنی ہوئی۔
“آیت بھائی کی خاطر تو اتنا نہیں کر سکتی۔تیرے پاس تیری بیٹی ہے کل کو اور بھی بچے ہوں گے ۔اپنا ایک بیٹا دے دیا بھائی کو تو کیا ہوگیا ۔بہنیں سب کچھ قربان کرتی ہیں بھائیوں کے لیئے ۔”
“معاف کیجیئے گا تائی جان آپ کے بیٹے نے آیت کی زندگی کے لیئے کبھی اچھا نہیں سوچا۔جو شخص ہماری خوشی میں شریک نہیں ہونے آیا میں اسے اپنی اولاد نہیں دے سکتا۔میری بیوی نے بہت تکلیف جھیلی ہے میرے بچے کی خاطر اسے میں شاہ بخت کو ہرگز نہیں دے سکتا ۔میں خود غرض ہوں اپنی اولاد کے لیئے اور اپنی بیوی کے لیئے جیسے کبھی شاہ بخت اور مہر تھے۔ہمیں معاف کر دیں آپ سب ۔ہم آج ہی واپس اپنے گھر جائیں گے اور شاہ بخت تم میرے بچوں پر ہرگز نظر مت رکھنا وہ میری اولاد ہیں ولید خان کی اولاد ۔”
آیت کو تھامے ولید باہر نکل گیا۔سب گھر والے پریشان ہوگئے۔مہر بہت زیادہ روئی مگر ولید اپنے دونوں بچوں سمیت مہمانوں کے جانے کے بعد واپس چلا گہا۔اولاد اس کے لیئے ایک بہت بڑی نعمت تھی تو یہ کیوں اپنی اولاد کو اپنی بہن کے لیئے قربان کرتا۔یہ گزرا وقت کبھی نہیں دہرانا چاہتا تھا اور اس نے آیت کو بھی یہ باور کروا دیا کہ جہاں اسے اس کی اولاد اور آیت ہیں وہاں کوئی بھی نہیں ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...