رابعہ عالم کو اس دن شاہ ویر، احد اور میرم کے بارے میں بتاچکا تھا،آج انکو جب پتہ لگا کہ کلثوم کی ایک غیر شادی شدہ بیٹی بھی ہے،تو وہ کلثوم بیگم کے ساتھ اسکو دیکھنے چلی گئیں۔وہ کلثوم بیگم کے کان میں بات تو ڈال آئی تھیں،شام کو انہوں نے کال کرکے نساء کا رشتہ مانگ لیا تھا۔انکونساءبہت پسند آئی تھی۔
رات کو کلثوم بیگم نے جب وقار صاحب کو شاہ ویر کے پروپوزل کابتایا تو وہ بھڑک گئے۔
“کیسی بات کرتی ہو کلثوم،ایک طلاق یافتہ کے لئے انہوں نے سوچا بھی کیسے ،ہماری بیٹی میں کس چیزکی کمی ہے،جو ہم طلاق یافتہ کو تھما دیں۔”
انہوں نے ناراضگی سے کہا۔
“دیکھئے،طلاق اول تو ایسی کوئی بات نہیں،ان دو لوگوں کا ذہنی ملاپ نہ ہوا تو اسکا مطلب یہ تھوڑی ہوا کہ دونوں میں سے کوئی برا ہی تھا۔اور دوسری بات وہ ایک غیر ملکی لڑکی تھی،نہیں بن پائی اس کی یہاں،اور ویسے بھی میں کوئی کل ہی تھوڑی جواب دے رہی،میں اللہ پاک سےمشورہ کروں گی۔آج استخارہ کرتی ہوں،آپ بھی سوچ لیں اچھی طرح۔”
انہوں نے وقار احمد کو دودھ کا گلاس اٹھا کر دیتے ہوۓ کہا۔
“ہوں ں ں۔۔۔تم استخارہ کرلو یہ سب سے بہتر ہے”۔
انہوںنے پر سوچ انداز میں کہا۔کلثوم بیگم عشاء پڑھنے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرم نے اگلے دن آفس سے چھٹی کی تھی،وہ شادی کےلئے ہامی احد کے منہ پر نہیں بھرنا چاہتی تھی،اس نے احد کے لئے واٹس ایپ چھوڑ دیا تھا،کہ وہ اپنے والدین کو اسکے گھر بھیج دے۔احد کا تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔وہ جلدی سے اٹھ کر شاہ ویر کو نیوز دینے پہنچا،شاہ ویر آج ویسے ہی میرم کے نہ آنے کی وجہ سے کافی بزی تھا۔
“تیرے یار کی شادی ہے”۔
احد اس کے سر پر کھڑاہوکر گنگنا لگا۔
“تو میرم رضوان نے آپکو گھاس ڈال دی”۔
شاہ ویر نے احد کی خوشی دیکھتے ہوۓ اندازہ لگایا۔احدزوردار قہقہ لگا کر ہنسا۔
“آج تو مجھے گھوڑا بنا یاگدھا،آج سب معاف ہے”۔
احد نے ٹیبل بجاتے ہوۓ کہا۔
“اسی لئے موصوفہ آج غائب ہیں،سسرالیوں کے جانے کی تیاری ہوری ہے”۔
شاہ ویر نے کرسی کی بیک سے ٹیک لگاتے ہوۓ کہا۔ہ
“ہیلو،اب سے وہ تیری بھابھی ہے،بھابھی بولا کر”۔
احد نے انگلی اٹھا کر کہا۔
“ہاں بھابھی جان سے بول دینا کہ ساری توجہ اب تجھ پر نہ لگ جاۓ۔ویسے بھی افسوس ہورہا ہے،بے چاری پر مجھے”۔
شاہ ویرنے احد کو چھیڑتے ہوۓ کہا۔
“ابے تیرے ساتھ جو دن کے آٹھ گھنٹے گزار سکتی ہے،وہ میرے ساتھ تو آٹھ سو سال تک رہ ہی سکتئ ہے۔”
احدنے اس پر چوٹ کی۔
“ہاں یہی ہوتا ہے،لڑکی آتے ہی وفاداری بدل جاتی ہے،ہم میں خامیاں نظر آنے لگی”۔
شاہ ویر نے گردن ہلاتے ہوۓ کہا۔
“تم دل چھوٹا نہ کرو،دن کی کافی اور لنچ تمھارے ساتھ ہی کرونگا۔”
احد دریا دلی دکھائی۔
“یہ دیکھ رہا ہے نہ،تو مجھ پر اتنی مہربانی نہ کر”۔
شاہ ویر نے اپنے ہاتھ جوڑ کے اسکودکھاتے ہوۓ کہا۔
“اچھا چل بعد کی بعد میں دیکھی جاۓ گی،ابھی بہت زور کی بھوک لگی ہے،لنچ کرتے ہیں چل کر”۔
احد نےپیٹ پکڑتے ہوۓ کہا۔
“اوکے،شاہ ویر اپناسسٹم بند کرنے لگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلثوم بیگم کا استخارہ اچھا آگیا تھا،انہوں نے رابعہ عالم کو فون کرکے ہاں کہ دیا تھا۔وہ شاہ ویر کے ساتھ دو روز بعد ہی انکے گھر رسم کرنے پہنچ گئی تھیں۔پھل اور مٹھائی کے ٹوکروں کے ساتھ وہ نساء کے ہاتھ پر شگون کے پیسے رکھ کر آگئی تھیں۔
دونوں ہی گھروں میں شادی کی جلدی تھی،اسلئیے اگلے ماہ ہی شادی کی ڈیٹ فکس ہوگئی تھی۔شاہ ویر سے مل کر وقار احمد بہت خوش ہوۓ،اسکو لیکر انکو جو اندیشے تھے،وہ کافی حد تک اس سے بات کرکے دور ہوگئے تھے۔
شاہ ویر نے نساء کو بس سرسری سا دیکھا تھا۔اسکو شادی میں خاص انٹرسٹ نہیں تھا،وہ تو بس رابعہ عالم کی خواہش پوری کر رہا تھا۔ادھر نساء بھی والدین کی خوشی کے لئے خاموش تھی،اس نے اپنی زندگی کا فیصلہ اللہ پاک پر چھوڑ دیا تھا،اور اسکا دل مطمئن تھا۔
وہ دونوں ہی اپنے گھر والوں کی خوشیوں کا سوچ رہے تھے،تو کیسے ان کے حصے میں خوشیاں نہ آتیں۔دونوں گھرانوں میں شادی کی تیاری زور وشور سے شروع ہو چکی تھیں۔
رابعہ عالم اپنے سارے ارمان پورے کر رہی تھیں۔انہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک ڈیزائنر ڈریس اور جیولری سیلیکٹ کی تھی۔ارحم بھی اکلوتے بھائی کی شادی میں پندرہ دن پہلے آگئی تھی،سب ہی اپنے طور پر تیاریوں میں مصروف تھے۔کلثوم بیگم اور سجل کے دن بھی بھاگ دوڑ میں گزر رہے تھے،بس نساء تھی،جس نے کسی بھی شاپنگ میں حصہ نہیں لیا تھا،اسکا کہنا تھا کہ وہ لوگ اس کی پسند اچھے سے جانتی ہیں،اسکو جانے کی ضرورت نہیں ہے،ویسے بھی وہ ایگزام کی وجہ سے بہت تھک گئی ہے،کچھ دن آرام کرے گی۔کلثوم بیگم نے اسکے ساتھ زبردستی نہیں کی،وہ جانتی تھیں ،شادی کے بعد نساء خود سیٹ ہوجاۓ گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احد نے اپنے پیرنٹس کو میرم کے بارے میں بتادیا تھا۔اور آج وہ لوگ اسکے گھر جارہے تھے۔میرم نے اس دن سے آفس آنا چھوڑ دیا تھا،اس کو احد کا سامنا کرتے جھجھک ہورہی تھی،اس نے شاہ ویر سے ایک ہفتے کی چھٹی لے لی تھی۔شاہ ویر کے لئے یہ ویک بہت بزی تھا،ایک طرف میرم نہیں آرہی تھی،تو دوسری طرف رابعہ عالم اسکو کسی نہ کسی طرح شادی کے بکھیڑوں میں کھینچ ہی لیتی تھیں۔
احد آج خوب دل لگا کر تیار ہوا تھا۔وائٹ ڈریس شرٹ اور گرے پینٹ اسکے گورے رنگ پر خوب جچ رہی تھی۔چہرے کی چمک خوشی کے ساتھ ساتھ فیشل کی بھی مرہونِ منت تھی۔وہ ایک دن پہلے ہی spa کا چکر لگا آیا تھا۔اسکے سلکی اسٹریٹ بال ہمیشہ کی طرح ماتھے پر بکھرے تھے،وہ گنگناتا ہوا پرفیوم اسپرے کرہا تھا جب مسز بشیر کمرے میں داخل ہوئیں۔
“ماشااللہ میرا بیٹا تو آج خوب جم کر تیار ہوا ہے،مجھے پتہ ہوتا تم کو بر دکھوے کی اتنی خوشی ہوگی توپہلے ہی لڑکی دیکھ لیتی میں۔”
انہوں نے اسکی تیاری پر نظر ڈالتے ہوۓشرارت سے کہا۔
“ممی آپ کو تو اپنے اکلوتے ،ہونہار ،قابل ،اور سب سے بڑھ کے شادی کے قابل بیٹے کی شادی کی فکر ہی نہیں تھی،تو میں نے کہا یہ کام خود ہی انجام دے دوں”
وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا،فوراً ڈھٹئی سے جواب دیا۔
“باتوں میں تم سے کون جیت سکتا ہے”۔
انہوں نے اسکی نظر اتارتے ہوۓ کہا۔وہ لوگ میرم کے گھر پہنچے تو مغرب ہورہی تھی۔
میرم کی والدہ نے انکا بہت خوشدلی سے استقبال کیا۔انکا گھر بہت سادہ تھا،مگر مکینوں کے صفائی اور سلیقے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
“بہن میں نے اپنے بچوں کو اخلاق،اور تعلیم کی زیور سے تو آراستہ کیا ہے،مگر اسکے علاوہ میں آپ کے شان شایان اپنی بیٹی کو کچھ نہ دے سکوں گی۔میرے بچے ہی میری دولت ہیں۔”
میرم کی والدہ ایک سادہ سی خاتون تھیں،انہوں نے صاف گوئی سے اپنے حالات احد کے گھر والوں کو بتا دئے تھے۔
“ارے آپ کیسی بات کرتی ہیں،اللہ پاک نے ہم کو بہت نوازا ہے،ہماری کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے،بس ہم کو ایک سلجھی ہوئی اور خوش اخلاق لڑکی چاہیے جو اپنے بڑوں کو عزت دینا جانتی ہو،ہمارا ایک ہی بیٹا ہے،بہو بھی بس ایسی ہو ،جو گھر جوڑ کر رکھے۔اور ویسے بھی جس لڑکی کو ہمارے احد نے پسند کیا ہے وہ ہرگز بھی عام نہیں ہو سکتی۔”
مسز بشیر نے احدکو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا۔احد نے مسکرا کے گردن نیچے کرلی۔جب ہی میرم کمرے میں ٹی ٹرالی لیکر داخل ہوئی۔اتنے لوگوں کی موجودگی میں بھی احد اسکو دیکھنے سے خود
کو روک نہ پایا،ویسے بھی پچھلے ایک ہفتے سے میرم کو اس نے دیکھا نہیں تھا۔
میرم نے ڈارک بلیو اور آف وائٹ پیچ ورک کا سوٹ پہنا تھا،اور حیا کی لالی میں گوری رنگت اور دمک رہی تھی،وہ جھکی نظروں کے ساتھ بیٹھی تھی،احد اسکے اس روپ کو دیکھ کے حیران تھا۔اور میرم اسکی نظروں کے ارتکاز سے پزل ہوری تھی،اور سوچ رہی تھی کہ اسکی کلاس تو وہ اچھے سے لے گی۔
احد کے والدین کو میرم بہت پسند آئی۔وہ لوگ جلد ہی باقائدہ رسم کرنےآنے کا وعدہ کرکے ان کے گھر سے رخصت ہوۓ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ویر اور نساء کی آج شادی تھی،رابعہ عالم نے شاہ ویر کے لئے بلیک شیروانی بنوائی تھی،جس پر ڈل گولڈن دبکے اور ڈائمونٹیز کا نفیس کام تھا۔ساتھ ہی گولڈن کلہّ اور کھسہّ تھا۔
نساء کے لئے بھی انہوںنے مرون اور گولڈن کےامتزاج میں غرارہ بنوایا تھا،ساتھ ہی ہیوی گولڈ جیولری تھی جس پر ننھے ننھے مرون موتی جڑے تھے۔نساء کا حسن اس غرارے میں غضب ڈھا رہا تھا۔
کلثوم بیگم آج بہت خوش تھیں،آج انکی دونوں بیٹیاں اپنے اپنے گھر کی ہوگئی تھیں۔انہوں نے دل سے انکی دائمی خوشیوں کی دعا مانگی۔اور بلآخر نساء وقار، نساء شاہویر بنکر رابعہ پیلس رخصت ہوکے آگئی۔
رسومات سے فارغ ہوکر اسکو اپنے بیڈروم میں پہنچا دیا گیا تھا۔رابعہ عالم تو چاہتی تھیں کہ وہ لوگ آج کسی ہوٹل میں قیام کریں،مگر شاہ ویر نے منع کردیا تھا،دلہن رخصت ہوکر گھر آۓ،اور گھر میں رونق ہو،وہ یہ خوشی رابعہ عالم کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا تھا۔
جس وقت شاہویر بیڈروم میں داخل ہوا نساء بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی،تھکن سے اسکا برا حال تھا۔شاہ ویر کو آتا دیکھ کر وہ جلدی سے سیدھی ہوئی۔شاہ ویر نے روم میں آکر اپنی شیروانی اتار کے ہینگ کی،اور کرتے کی سلیوز فولڈ کرتا وہ نساء کے برابر میں آکر بیٹھ گیا۔
“اسلام و علیکم”۔
اس نے کنکھار کر اسکو سلام کیا۔
“وعلیکم اسلام”۔
نساء نے آہستگی سے جواب دیا۔
“آپ ایزی ہوکربیٹھ جائیں”۔
شاہ ویر اینٹر ہوتے ٹائم دیکھ چکا تھا کہ نساء اسکے آنے پر جلدی سے بیٹھی تھی۔اس نے نرمی سے اسکو مخاطب کیا۔
“میں ٹھیک ہوں”۔
نساء نے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
“ہوں ں ں۔۔۔۔آج سے ہم ایک نئی زندگی شروع کرنے جارہے ہیں،میں چاہتا ہوں ہم کچھ باتیں آج ڈسکس کرلیں،آج کے بعد ہمارے بیچ پھر کبھی یہ ٹاپک ڈسکس نہیں ہوگا۔مگر ہم دونوں کو ایک دوسر کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔”
اس نے نساء کو غور سے دیکھتے ہوۓ کہا۔نساء ہنوز خاموش تھی،شاہ ویر نے اپنی بات جاری رکھی۔
“میری پہلی شادی محبت کی تھی،بہت سوچنے پر بھی مجھکوسمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر وہ شادی ناکام کیوں ہوئی۔بٹ تھوڑے دن پہلے مجھے ری آلائیز ہوا کہ شادی کی بنیاد ہی غلط تھی،وہ ایک چرچ سے شروع ہوئی تھی ،تو جو شادی ہی اللہ کے نام اور ماں باپ کی دعاؤں کے بغیر شروع ہو،اس میں برکت کیسے آسکتی ہے۔
اینی ویزمیں لائف میں موو آن کر چکا ہوں،مگر آپکو میرے پاسٹ کے بارے میں جاننے کا حق تھا۔آئندہ آپ میرے منہ سے پاسٹ کے بارے میں کچھ نہیں سنیں گی۔
ظاہر ہےمجھے آپ سے محبت نہیں ہے،میں آپ سے بہت بڑے بڑے وعدے تو نہیں کروں گا،مگر آپ کو عزت،تحفظ اور حقوق دینا میری اولین ترجیح ہوگی۔”
اس نے پانی کا جگ اٹھا کر گلاس میں پانی ڈالا اور دو گھونٹ پانی پئے۔
“آپ پئیں گی؟”
اس نے گلاس واپس ٹیبل پر رکھتے ہوۓ پوچھا۔نساء کا وہی ایک لفظی ‘نہیں’ جواب تھا۔
“کہتے ہیں نکاح کے بولوں میں بہت طاقت ہوتی ہے،تو امید ہے ہمارے بیچ محبت بھی ہو جاۓ گی۔”
اس نےگھمبیر لہجے میں اپنی بات مکمل کرکے نساء کو دیکھا۔
“آپ کو کچھ کہنا ہے”۔
نساء نے نفی میں سر ہلا دیا۔شاہ ویر نے اچھنبے سے کندھے اچکا کر اوکے کہا۔اورسائیڈ ڈرار سے ہاتھ بڑھا کر ایک مخملی ڈبیا نکالی۔
“یہ آپکی رونمائی کا تحفہ ہے،اور یہ آپکا حقِ مہر”۔
اس نے ایک چیک نساء کی طرف بڑھایا.نساءنے خاموشی سے دونوں چیزیں پکڑ لیں۔
“آپ اجازت دیں تو یہ آپکو پہنا دوں؟”
اس نے باکس کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔نساء نے ڈبہ شاہ ویر کے ہاتھ میں تھما دیا۔شاہ ویر نے باکس سے ننھے ننھے ڈائمنڈ جڑے دو کنگن نکالے اور نساء کے ہاتھ میں بہت احتیاط سے پہنا دئیے۔
“آپ ریلیکس ہوجائیں”۔
کہتا ہوا وہ اپنی وارڈروب کی طرف بڑھ گیا۔نساء بھی غرارہ سنبھالتی ڈریسنگ روم کی طرف چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احد اور میرم کا نکاح اگلے ہی ہفتے ہوگیا تھا۔ رخصتی ایک سال بعد تھی،احد نے میرم کے بہن بھائی کی ذمہ داری خود اٹھا لئ تھی۔میرم نے جاب چھوڑ دی تھی۔آجکل وہ نیٹ سے نت نئی ڈشزدیکھ کر بنانے میں مصروف تھی،کیونکہ احد کی چٹوری طبعیت کی لئے اسکا ماہر کک ہونا ضروری تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر بھاگتا ہوا آگے جارہا تھا،اور نساء اسکے پیچھے۔وہ دو سال کا ہوچکا تھا۔اور آجکل گود میں ٹکنا اس کے لئے بہت مشکل تھا۔اس وقت وہ لوگ اوشین مال میں شاپنگ کر رہے تھے۔
شاہ ویر کاؤنٹر پر پے منٹ کر رہا تھا،جب شاہ میر ضد کرکے پرام سے اترا تھا۔اور اب نساء کو ستا رہا تھا،پھولی سانسوں کے ساتھ اس نے شاہ میر کو شاہ ویر کو تھمایا۔
“بہت شرارتی ہوگیا ہے یہ”۔
شاہ ویر نے والٹ پاکٹ میں رکھتے ہوۓ اسکو گود میں لیا۔
“کیوں ستاتے ہیں آپ ہماری بیگم کو؟؟”
اس نےپیار سے شاہ میر کی ناک دبائی۔
جب ہی نساء کی نظر پاس سے گزرتے شخص پر پڑی،وہ ایک پل کو ٹھٹکی،مگر اگلے ہی لمحے اس نے بہت استحقاق سے شاہ ویر کی بانہوں میں ہاتھ ڈالا اور آگے بڑھ گئی۔
گزرنے والے کی آنکھوں میں بھی شناسائی کے رنگ تھے۔مگر وہ حیران تھا،وہ جس لڑکی کو جانتا تھا،یہ وہ نساء نہیں تھی،اٹھی ہوئی گردن،پر اعتماد آنکھیں،اور بے فکر سا انداز ۔یہ وہ نساء نہیں تھی جسکو اس نے تین سال پہلے چھوڑا تھا۔وہ دور سے جاتے ہوۓ ایک پرفیکٹ فیملی لگ رہے تھے۔
مرد چاہے خود عورت کو ٹھکرا دے ،مگر عورت اسکو نظر انداز کرے،یہ بات اسکو چابک کی طرح لگتی ہے۔وہ تو آج بھی اس زعم میں تھا کہ نساء کی آنکھوں میں آج بھی اس کو دیکھ کر کسک جاگے گی۔مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ شوہر کا بخشا ہوا اعتماد،محبت اور عزت عورت کو بہت مضبوط بنا دیتی ہے۔
ایسکیلیٹر پر کھڑے نساء سوچ رہی تھی کہ واقعی شیریں آنٹی نے ٹھیک کہا تھا کہ محبت تو شادی کے بعد ہوتی ہے،وہ تو وقتی کشش تھی۔آج اسکو یاد بھی نہیں آتا تھا کہ اس کی زندگی میں کبھی ایقان نامی طوفان آیا بھی تھا۔وہ لوگ مال سے باہر آچکے تھے،شاہ میر سو چکا تھا،اس کو اس نے پیچھے کار چئیرپر لٹا دیا تھا۔شاہ ویر نے کار اسٹارٹ کی،نساء نے شاہ ویر کےکندھے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔آج اسکو شاہ ویر سےمحبت کا صحیع معنوں میں ادارک ہوا تھا۔
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...