(Last Updated On: )
وہ ابھی ریسیپشن سے ہفتے بھر کا پیکج کروا کر آیا تھا۔۔ اس کا دل تھا کہ وہ یہ ہفتہ حور کے ساتھ دل کھول کر انجوائے کرے۔۔
کمرے میں آتے ہی اسکی پہلی نظر بیڈ پہ گئی تھی جہاں وہ سکڑی سمٹی لیٹی تھی۔۔ اسے دیکھ کر آہان کے ہونٹوں کو مسکراہٹ چھو گئی تھی۔۔
سلی گرل۔۔ منہ میں بڑبڑاتا وہ اس کے قریب آیا۔۔
ٹھنڈ ذیادہ ہونے کی وجہ سے اس کی ناک سرخ ہو رہی تھی۔۔ کمبل بھی سینے تک تھا اور شمالی علاقہ جات میں تو ویسے بھی ٹھنڈ بہت ہوتی ہے۔۔ وہ بغیر روم ہیٹر آن کیے لیٹی تھی اس لیے ٹھنڈ سے سرخ ہوئی تھی۔۔
آہان نے پیار سے اسکی ناک کو چھوا۔۔ پھر ایک انگلی اسکے ہونٹوں پہ پھیری۔۔ اور وہی گردن تک لے گیا۔۔
ہو تو تم مجھے بہت پیاری۔۔ لیکن فکر مت کرو تمہاری اجازت کے بغیر نہیں چھوؤ گا تمہیں۔۔ تم میری بیوی ہو ضد نہیں۔۔ میرا مقصد تمہیں اپنا بنانا ہے نا کہ حاصل کرنا۔۔
وہ اس کے سوئے وجود سے کافی دیر تک باتیں کرتا رہا۔۔ اور یہ باتیں اگر حور ہوش میں سن لیتی تو شاید آہان کے کردار کی قائل ہو جاتی۔۔ لیکن کہتے ہیں۔۔ سونا مرنے کے برابر ہے اس لیے اس کی تمام حسیات فی الحال منجند تھی۔۔
اس کے ماتھے پہ اپنی نحبت کی نشانی ثبت کر کے اس نے پیار سے اس کندھے تک کمبل اوڑھایا۔۔ جسے حور نے نیند میں بے اختیار منہ تک لے لیا۔۔
آہان اس کے اس حرکت پہ مسکراتا اٹھا۔۔ روم ہیٹر آن کیا۔۔ اور پھر اسی کے ساتھ لیٹ گیا۔۔
وہ اسے دیکھ تو نہیں پا رہا تھا کیونکہ اس کے چہرے پہ کمبل تھا لیکن اس کے سکون کو محسوس ضرور کر سکتا تھا۔۔ اور اس کو میں ہی آہان کا سکون تھا۔۔ جس کی وجہ سے اس نے بھی اپنی آنکھیں موند لیں تھیں۔۔
@@@
جونہی اس نے کروٹ لے کر ٹانگ باہر نکالی اسے اپنا سر کسی سخت چیز پہ محسوس ہوا۔۔ آنکھیں کھل نہیں رہی تھی اس لیے اہنے ہاتھ سے ہی اندازہ کرتے اٹھی۔۔ اور جب حسیات بیدار ہوئی تو خود کو مکمل آہان کے اوپر دیکھ کر اس کی چیخ نکلتے نکلتے بچی۔۔
اللہ یہ کیا ہو گیا۔۔ منہ پہ ہاتھ رکھے وہ اسے دیکھ رہی تھی جو نجانے کب آیا تھا اور اتنا پرسکون سویا تھا کہ حور کے ایک دم اٹھنے سے بھی اس کی آنکھ نہیں کھلی۔۔
بڑے پیار سے وہ بیڈ سے اتری تھی تا کہ اسے خبر نہ ہو۔۔ پھر اسی طرح واشروم میں گھسی اور فریش ہو کر باہر آیا۔۔
وہ ابھی تک اسی پوزیشن میں سو رہا تھا۔۔ اس نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔
ٹھیک کہتی ہے آپی میں واقعی پورے بیڈ پہ گھومتی ہوئی سوتی ہوں۔۔ جبھی تو ہوش نہیں رہتا مجھے۔۔ خود کو کوستی وہ اسکے قریب آئی۔۔
قصور اس کا بھی تو ہے کیا ضرورت تھی اتنا قریب سونے کی۔۔ اس پہ ایک قہر آلود نظر ڈال کر اس نے صوفے پہ پڑا اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا۔۔
ارادہ ماہا کو کال کرنے کا تھا۔۔ لیکن جونہی اس نے ہاتھ اندر ڈالا اس کے ہاتھ ایک شیشی پہ پڑا۔۔ باہر نکال کر دیکھا تو وہ کالی مرچ کی ڈبی تھی جو کل رات اس نے ملازمہ سے لی تھی۔۔
کچھ سوچ کر وہ مسکرائی۔۔ ہھر آہان کی طرف دیکھا جو کرواٹ لیے سو رہا تھا۔۔
آئندہ مرچوں کا مذاق نہیں۔۔ آہان کی بھولی بھٹکی آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی۔۔ لیکن خود کو خودی مطمئن کرتے وہ بولی۔۔
وہ تو سرخ مرچوں کی بات ہوئی تھی کالی موچوں کا تو کہا ہی نہیں تھا ویسے بھی یہ کونسا کھانی یا لگانی ہے۔۔
خود کو مطمئن کرنے کے بعد بھی اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔ لیکن شرارت اتنی چڑھی تھی کہ کچھ مرچی اس کے پاس نکال کے لے ہی گئی۔۔
اس کے سرہانے پہ ناک کے پاس رکھ کر پیچھے ہو گئی۔۔ وہ جو نیند میں گہرے خراٹے لے رہا تھا سانسوں میں کالی مرچوں کی آمیزش سے اسے ناک میں خارش ہوئی تھی۔۔
اور پھر چھینکوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔۔ اسے ہوش بعد میں آیا تھا اور چھینکیں پہلے۔۔
اس کے ہڑبڑا کے اٹھنے پہ حور کا قہقہہ نکلا تھا اور اس کے مسلسل چھینکنے پہ اس کی ہنسی تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔
حور۔۔ مسلسل چھینکنے سے اس کی ناک اور آنکھیں سرخ ہو گئیں تھیں۔۔ وہ اس کے پیچھے لپکا تھا وہ بھاگتی ہوئی بیڈ کی دوسری طرف گئی تھی۔۔
آہان سوری پلیز آئندہ نہیں کروں گی۔۔ بھاگتے ہوئے وہ کہہ تو رہی تھی پر ہنسی اس کی ابھی تک نہیں رک رہی تھی۔۔
کل بھی یہی کہا تھا نا تم نے۔۔ وہ بیڈ کے بلکل درمیان میں چڑھی تھی اور وہ بیڈ کے سامنے کھڑا تھا۔۔ تا کہ وہ جہاں سے بھی آئے حور دوسری سائڈ سے آسانی سے اتر سکے۔۔ کمر پہ ہاتھ رکھے وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔
ہاہاہا۔۔ ہاں کہا تھا۔۔ لیکن پکا آئندہ واقعی نہیں کروں گی۔۔ اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر ہونٹ باہر نکال کر معافی مانگتے وہ آہان کو اتنی پیاری لگی کی اس نے اسے بخشنے کا ارادہ کر ہی لیا۔۔
ٹھیک ہے لیکن۔ یہ لاسٹ ٹائم ہے اوکے۔۔ اس ہاتھ کی انگلے سے وارن کیا جبکہ حور نے اچھے بچوں کی طرح اثبات میں سر ہلایا جیسے ہمیشہ اسی کی تو مانتی رہی ہے وہ۔۔
وہ ایک نظر اس پہ پیار کی ڈال کر واشروم کی طرف چلا گیا۔۔ جبکہ حور اب پھر سے ہنستے ہوئے اپنے بیگ کی طرف بڑھی تا کہ ماہا کو اپنے اور آہان کی خیریت کی اطلاع دے سکے۔۔
@@@
ابھی وہ باہر سیر کرنے نکلے تھے آج ان کا پہلا دن تھا کاغان میں۔۔ دھوپ نام کو نہیں تھی بلکہ اس وقت درجہ حرارت مائنس کو پہنچا ہوا تھا۔۔
وہ خود کو اچھی طرح کور کر کے آئی تھی لیکن پھر بھی ٹھنڈ سے کانپ رہی تھی۔۔
گھوڑے کی سواری کرو گی۔۔ آہان تو اس طرح کے موسموں کا عادی تھا ٹریننگ میں اکثر اسے اس سے بھی ٹھنڈے علاقوں کا وزٹ کرنا پڑتا تھا۔۔ یہ سردی تو اسے کچھ بھی نہیں لگ رہی تھی۔۔
ٹھنڈ سے کانپتی حور کو دیکھتے اس نے بولا۔۔
نہیں۔۔ مجھے نہیں کرنی گھڑ سواری۔۔ ایک دفعہ بیٹھی تھی تو گر گئی تھی۔۔ اتنی دیر تک اینکل میں درد ہوتا رہا تھا اب نہیں بیٹھوں گی۔۔ اس نے تو بلکل ہی ہاتھ کھینچ لیا تھا۔۔
ٹھیک ہے تم نہیں کرو گی تو میں کر لیتا ہوں۔۔ اس کی آفر قبول نہ کرنے پہ وہ خود ہی ایک لین میں بڑھا جہاں مختلف گھڑسوار اپنا اپنا گھوڑے لیے کھڑے تھے۔۔ حور بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔۔
آدمی سے رائڈ کی بات کر کے وہ گھوڑے کی طرف بڑھا۔۔ اسے گھوڑے پہ بیٹھتے دیکھ کر حور کو ایک شرارت سوجھی۔۔
خان بابا۔۔ یہ آپ کا گھوڑا کسی بات پہ پاگل بھی ہوتا ہے۔۔ آئی مین گھوڑوں کے اکثر سائنز ہوتے ہیں نا جس سے وہ پاگل ہو جاتے ہیں۔۔ میں نے موویز میں دیکھا ہے۔۔ آہان گھوڑے پہ اب بیٹھ چکا تھا۔۔ حور بلکل آہستہ آواز میں بول رہی تھی اس لیے آہان سن نہ سکا۔۔
جی بی بی جی۔۔ ایک قسم کا سیٹی سے یہ پاگل ہو جاتا ہے۔۔ اب آہان آہستہ آہستہ اس پہ نیٹھ کر گھوڑے کو چلا رہا تھا۔۔
کونسی سیٹی ہے خان بابا۔۔ ذرا بجا کر تو دکھاؤ۔۔ حور بڑے پیار سے اسے انسسٹ کر رہی تھی۔۔ اور خان بابا بھی شاید کچھ ذیادہ ہی جوش میں آ گیا تھا۔۔
فورا سے پہلے بی بی کو سیٹی بجا کر دکھا دی۔۔ اب جیسے ہی سیٹی بجی گھوڑا سر پ[ بھاگنے لگا اور کبھی اپنی اگلی ٹانگیں اٹھاتا۔۔ آہان سے اسے سنبھالنا بلکل مشکل ہو رہا تھا۔۔
خان بابا بھاگتا ہوا گھوڑے کو سنبھالنے کے لیے گیا۔۔ جبکہ حور کا ہیچھے آہان کو بوکھلائے دیکھ کر ہنس ہنس کا برا حال ہو رہا تھا۔۔
یہ سب تم نے کیا ہے نا۔۔ وہ گھوڑے سے اتر کر اس کے پاس آیا۔۔ وہ جو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔۔اس کے آنے پہ بھی اس نے ہنسی روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔
ویسے بھی ہنسی رک ہی نہیں رہی تھی اسکی۔۔
میں نے کیا کیا ہے۔۔ ایکدم سیدھی ہو کر وہ بولی۔۔ آنکھوں میں شرارت اور لبوں پہ مسکراہٹ ابھی تک مچل رہی تھی۔۔
تمہیں پتہ ہے میں کس چیز کی بات کر رہا ہوں۔۔ یہ گھوڑے والی حرکت تم نے کی ہے نا۔۔ وہ شدید غصے کا اظہار کرنا چاہ رہا تھا پر ابیہا کا ہنستا چہرہ ااس کے دل کو غصہ کرنے نہیں دے رہا تھا۔۔
یہ لو۔۔ یہ بھی عجیب بات کہی آپ نے۔۔ نہ گھعڑا میرا نہ مجھے گھوڑوں کی خصلت کا پتہ۔۔ نہ کبھی ان سے پالا پڑا۔۔ تو میں کیسے کر سکتی کچھ۔۔ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے وہ بولی۔۔
اور بس اسی لمحے ہاں اسی لمحے آہان کو ادراک ہوا کہ وہ بہت بڑی ڈرامے باز ہے۔۔
غصے سے اسے آنکھیں دکھاتا آگے بڑھ گیا۔۔ کیونکہ اسے کچھ بھی کہنا فضول تھا۔۔ جبکہ اس کے مڑنے پہ حور کا پھر سے جاندار قہقہہ لگا تھا۔۔
@@@
پتہ نہیں حور کیا کر رہی ہو گی۔۔ وہ اپنی سوچوں می گم بیٹھی تھی جب ماہا ان کے پاس چائے لے کر آئی۔۔
اماں آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں۔۔ آہان بھائی ہے نا۔۔ وہ سب بہت اچھے سے سنبھال لیتے ہیں۔۔ اور آپ نے اس دن دیکھا نہیں تھا کیسے آہان بھائی کے آگے پیچھے گھوم رہی تھی۔۔ آہان بھائی کی قدر کرنے لگی ہے اب وہ بھی۔۔ ماہا انہیں سمجھا رہی تھی لیکن ان کا دل پھر بھی نہیں مان رہا تھا۔۔
کہتی تو تم ٹھیک ہو ماہا پر میں جانتی ہو اپنی اولاد ہو۔۔ اتنی جلدی وہ سیدھی ہونے والی نہیں ہے۔۔ مانو نہ مانو داغ میں کچھ تو کالا ضرور ہے اور اس بار یہ بات آہان بھی مجھ سے چھپا رہا ہے۔۔
انہیں حور کی تابعداری مسلسل کھل رہی تھی یوں جیسے کچھ نہ کچھ غلط ضرور تھا کچھ بناوٹی سا۔۔
اماں آپ پریشان نہ ہوں۔۔ ابھی کل صبح میں اس کا فون آیا تھا۔۔ بہت خوش ہے اور آہان بھائی اس کا بہت خیال رکھتے ہیں۔۔ اس نےیہ باتیں مجھ سے خود کہی ہیں۔۔ اور ویسے جو شوخی تھی وہ شادی سے پہلے تھی اب تو ماشاءاللہ کافی سمجھدار ہو گئی ہے حور۔۔
ماہا بڑی بہن کا فرض نبھاتے ہوئے اماں کو جس حد تک مطمئن کر سکتی تھی کر رہی تھی۔۔
ان کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر وہ انہیں تسلی دیتی ہوئی بولی۔۔
ہمم۔۔ ٹھیک کہتی ہو۔۔ ارے ہاں۔۔ تم نے حور کو بتایا عائزہ کی شادی کے بارے میں۔۔ اور مشعل کی منگنی کا بھی۔۔
عائزہ ان کے ہمسائے میں رہتی تھی اور حور کی ان سے اچھی بنتی تھی اسی کی منگنی پہ تو ماہا کو اس کے سسرال والے پسند کر کے گئے تھے۔۔
مشعل اور فائق بھی منگنی کر رہے تھے۔۔ لیکن یہ بات ابھی آہان اور حور دونوں کو نہ پتہ تھی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا ہنی مون ٹرپ خراب نہ ہو۔۔ واپسی پہ وہ انہیں بتا دیتے۔۔
اماں جب آئے گی تو بتا دوں گی۔۔ ماہا بھی چاہتی تھی کہ ابھی انہیں بتانا مناسب نہیں۔۔
تم جانتی نہیں ہو میری اولاد کو۔۔ اگر اسے بعد میں پتہ چلا نا تو آسمان سر پہ اٹھا لے گی اور پھر تم جانتی ہو اسکی ناراضگی کو۔۔ مانے گی بھی نہیں وہ۔۔
اماں تو کچھ ذیادہ ہی خائف تھی حور سے۔۔ ویسے بھی ماں تھی اور حور کی نیچر کو اچھے سے جانتی تھی۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں بتا دوں گی اب آپ پریشان نہ ہوں۔۔ اور بس چائے پیئے اور سب ٹینشنز سے آزاد ہو جائیں۔۔
وہ انہیں ہلکا پھلکا کرتی خود بھی چائے پینے لگی۔۔
@@@
آج چار دن بعد وہ بلکل ٹھیک اٹھا تھا ورنہ تو جب بھی اٹھا حور کی کسی نہ کسی نئی شرارت سے ہی اٹھا اور آج حیرت انگیز طور پہ حور نے اسے بلکل بھی تنگ نہیں کیا تھا۔۔
نہ تو کوئی کالی مرچ تھی نہ پانی کا گلاس نہ ہی چیخنے والا الارم۔۔ آہان تو جتنا بھی حیران ہوتا کم تھا۔۔
بلکہ جب وہ اٹھا تو وہ فلیٹ میں موجود چھوٹے سے کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی اور یہ سب ہی آہان کے لیے غیر متوقع تھا۔۔ کچھاچھے کی امید تو اسے حور سے بلکل نہیں تھی۔۔ نجانے کیو اس نے آہان کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔۔
لیکن یہ سب آہان کو اچھا بھی لگتا تھا وہ اسے کچھ کہتا نہیں تھا کیونکہ اس کی ہنسی اسے نئی زندگی بخشتی تھی۔۔
چپ چاپ اٹھ کر اس نے وارڈروب سے کپڑے نکالے اور دروازے پہ چپل اتار کر واشروم کی طرف بڑھا۔۔
حور جو ناشتہ بنا رہی تھی دروازے کے بند ہونے کی آواز پہ فورا کمرے میں آئی۔۔ کیونکہ یہ سائن تھا کہ وہ واشروم میں جا چکا ہے۔۔
واشروم سے باہر پڑی چپل کو اس نے ہنستے ہوئے دیکھا۔۔
@@@
وہ واشروم سے تولیے سے سر رگڑتا ہوا باہر نکلا۔۔ ایک نظر وارڈروب کے پاس کھڑی حور پہ ڈالی۔۔ اور کچھ بولے بنا چپل پہنتا آگے بڑھا۔۔
مگر یہ کیا جونہی اس نے پاؤں آگے بڑھایا جوتا وہی رہ گیا اور پاؤں سلیپری ہونے کی وجہ سے وہ دھڑام نیچے گرا۔۔
اگر وہ بروقت زمین پہ اپنے ہاتھ نہ رکھتا تو آج اس کے ناک کی ہڈی یقیناً شہید ہو چکی تھی۔۔
اس کے گرتے ساتھ ہی حور کا جاندار قہقہہ پڑا تھا۔۔
ارے کیپٹن۔۔ سلپ ہو گئے ہو یا باہر نکلتے ہی ایسے ہو۔۔ ہنستے ہوئے وہ اس کے پاس آئی۔۔
گر تو چکا تھا اپنی عزت بچانے کو اسی پوزیشن میں پش اپس لگانے شروع کر دیے۔۔ لیکن عزت تو حور شاید سوچ چکی تھی کہ وہ اسکی بچنے نہیں دے گی۔۔
میں باہر نکلتے ساتھ ہی پش اپس لگاتا ہوں۔۔ گرا نہیں ہوں میں۔۔ سمجھی۔۔ خود کو کور کرتا وہ پش اپس لگا رہا تھا۔۔ اور حور ابھی بھی ہنس رہی تھی۔۔
آہاں۔۔ چلو میری جان کور کرنے کے بعد ناشتے کی ٹیبل پہ آ جانا۔۔ وہ ہنستے ہوئے کچن کی طرف بڑھی۔۔
جوں ہی وہ باہر گئی آہان سیدھا ہو گیا۔۔
یہ لڑکی ایک نہ ایک دن میری عزت کا کباڑہ کروا کر ہی رہے گی۔۔ گلے سے گیلا ٹاول اٹھا کر سائڈ ہہ رکھا اور پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بڑھا۔۔
آہان میری جان تو کیو چپ ہے۔۔ محبت ہے پر کچھ فن تو ہونا چاہیے نا۔۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ آئینے کے سامنے اپنا عکس دیکھ کر مسکرایا۔۔
@@@
وہ ناشتہ ٹیبل پہ ریڈی کر کے بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی جب وہ تیار ہو کر آیا۔۔
وہ اس کے لیے اتنا اہتممام کرے یہ تو ممکن ہی نہیں تھا یقیناً داغ میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور تھا۔۔ وہ سیدھا چیئر گھسیٹ کر اس پہ آ بیٹھا۔۔
اور سب سے پہلے کھانے کی اشیاء کی طرف دیکھا۔۔ دیکھنے میں تو سب ٹھیک لگ رہا تھا۔۔ یقیناً اس میں نمک مرچ کی ذیادتی ہو گی۔۔
(ہائے آہان کے نکّے نکّے خواب)۔۔
بڑے احتیاط سے اس نے بریڈ کا ایک پیس اٹھایا اور پھر انڈے کا۔۔ دونوں کا ایک لقمہ لگا کر دیکھا۔۔ اور اس کی حیرت کی انتہا واقع نہیں رہی جب دونوں بلکل ٹھیک تھے۔۔
ستائشی نظروں سے اس نے حور کو دیکھا اور اس نے بھی سر کو خم دے کر جیسے داد وصول کی ہو۔۔
پھر جیسے کچھ یاد آنے پہ اٹھی۔۔
ارے ایک منٹ۔۔ جوس تو اندر ہی رہ گیا۔۔ میں لے کر آتی ہوں۔۔ وہ بھاگم بھاگ اندر گئی جوس کا جگ لینے کے لیے۔۔ لیکن جاتے جانتے اپنی پلیٹ کو ڈھانپنا نہ بھولی تھی۔۔
اس کے جانے کے بعد آہان نے ایک نظر اس کی ڈھانپی ہوئی پلیٹ کو دیکھا۔۔
اب مسکرانے کی باری اس کی تھی۔۔