اس رات حسین صاحب کے گھر سے واپسی کے بعد جوں ارسلان غائب ہوا تھا تین چار دن ہو گئے تھے گھر واپس نہیں آیا تھا سارہ اور اس کے والد صاحب کتنی دفعہ اس کا نمبر ملا چکے تھے مگر ہر دفعہ بند ملتا تھا اس کے اک دو دوستوں سے بھی رابطہ کر لیا تھا مگر کوئی جواب نہیں ملا تھا
دوسری طرف اماں اس رات سے دوسروں سے کیا خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی تھیں جو آئینہ انہیں ان کے بیٹے نے دیکھایا تھا اس میں انہیں اپنا آپ اتنا چھوٹا نظر آیا تھا کہ اس کے بعد وہ خود سے 4 نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی تھیں
اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ارسلان کی فکر بھی ستا رہی تھی کہ کہیں وہ خود کو کچھ کر نہ لے سارہ اور ابا بھی ان دو تین دنوں میں بلکل ہمکلام نہیں ہوتے تھے وہ جب بھی سارہ سے بات کرنے کی کوشش کرتیں وہ وہاں سے اٹھ جاتی اور وہ بےبسی سے اس کی پشت دیکھتی رہ جاتی تھیں
“کیا ملا تمہیں نیک بخت یہ سب کر کے؟” اماں اپنے کمرے میں بیٹھیں کسی گہری سوچ میں گم تھیں جب ابا وہاں آئے تھے اور انہیں ایسے بیٹھا دیکھ کے گہری سانس بھرتے ان کے ساتھ بیٹھے اور سنجیدگی ست پوچھا تھا ان کے سوال پہ اماں چونک کے ان کی طرف متوجہ ہوئی تھیں
“ملا تو کچھ بھی نہیں الٹا اپنے بچے گنوا دیے ہیں” انہوں نے اپنے ہاتھوں پہ نظریں جمائے کہا تھا
“اسی لیے کہتے ہیں سوچ سمجھ کے بولنا چاہیے نیک بخت تم نے اپنے الفاظ سے نہ صرف اپنے بچوں کا بلکہ ان بن ماں کی بچیوں کا بھی بہت دل دکھایا ہے بیٹیاں تو خدا کی رحمت ہوتی ہیں انہی کے دم سے تو گھروں میں رونق ہوتی ہے ہماری بھی تو بیٹی ہے جو سارا دن گھر میں چہکتی رہتی ہے تو زندگی کا احساس ہوتا ہے ورنہ اس کے بغیر تو ایسے لگتا ہے گھر میں ہر طرف ویرانی چھائی ہو اور سب سے بڑھ کر تم خود اک بیٹی ہو تمہیں اچھا لگتا اگر تمہارے باپ کو بھی کوئی وہی سب باتیں کہتا جو تم حسین کے گھر کہہ کے آئی ہو؟” ان کی باتیں سنتی اماں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے تھے
“عقل پہ پتھر پڑ گئے تھے میرے آنکھوں پہ پردہ پڑ گیا تھا اور میں اس زعم میں تھی کہ میں تو بیٹے کی ماں ہوں میں جو چاہوں کر سکتی ہوں یہاں تک کے کسی کی بیٹی پہ انگلی بھی اٹھا سکتی ہوں ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں یہی سب تو چلتا ہے بیٹوں کی ماؤں کو حق ہوتا ہے وہ رشتے سے انکار کے نام پہ لڑکی کے کردار کی اس کی ذات کی دھجیاں اڑا دیں ہمیں حق حاصل ہوتا ہے” وہ دوپٹہ منہ کے آگے رکھ کے ہچکیوں سے رونے لگ گئی تھیں
“میں نے بھی یہی کیا بیٹے کی ماں ہونے کے زعم میں کسی کے کردار کو سوالیہ نشان بنا دیا مگر اس کے بعد بیٹے نے جو آئینہ دیکھایا میں خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی” ابا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ انہیں تسلی کیسے دیں
“ابا بھائی آ گیا” انہوں نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ باہر سے سارہ خوشی سے لبریز آواز سن کے وہ دونوں کمرے سے باہر دوڑے تھے
“میرا بچہ میرا لعل کہاں تھا تُو؟” انہوں نے روتے ہوئے آگے بڑھ کے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لینا چاہا تھا مگر ارسلان نے اپنے قدم پیچھے کر لیے تھے اور وہ اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتی رہ گئی تھیں
“دکھ ہو رہا ہے نا اپنے خالی ہاتھ دیکھ کر؟ میرے بھی ہاتھ اور دل اسی طرح خالی ہو گئے ہیں لیکن مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا نہ دکھ نہ درد نہ گھبراہٹ نا خوشی” اس کے چہرے کی طرح اس کا لہجہ بھی سپاٹ تھا
“آپ نے مجھے میری نظروں میں ہی گرا دیا محبت تو عزت دینے کا نام ہوتا ہے محبت تو تحفظ دینے کا نام ہوتا ہے مگر میں جس سے محبت کا دعویدار تھا میں نے اس کے سب کے سامنے رسوا کر دیا اس کے لیے میں خود کو کھبی معاف نہیں کروں گا” سپاٹ لہجے میں کہتا وہ بغیر کچھ بولے اور سنے اپنے کمرے میں بند ہو گیا تھا
پیچھے اماں تڑپ تڑپ کے رو دی تھیں سارہ نے لب بھینچ کے بھائی کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا تھا اور پھر روتی ہوئی اماں کو انہوں نے جو بھی کہا تھا وہ اس کے لیے تہیہ دل سے شرمندہ تھیں انہیں یوں روتے دیکھ کر سارہ نے اپنی ناراضگی پسِ پشت ڈالی اور ان کے کندھوں کے گرد اپنے بازو پھیلاتے انہیں لیے ان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھیں
سارہ کی اس بات پہ انہیں مزید رونا آیا تھا وہ اس دن اتنی باتیں بیٹیوں کو ہی سنا کے آئی تھیں اور جو اپنی ناراضگی بھلائے ان کے ساتھ تھی وہ بھی بیٹی تھی بیٹا تو ناراض ہو کے کمرہ بند کیے بیٹھا تھا انہوں نے اک محبت بھری نگاہ سارہ پہ ڈالی تھی اور دل ہی دل میں اپنی غلطی کو سدھارنے کا ارادہ باندھا تھا
_______________________
نگہت بیگم کے جانے کے بعد ان سب کو ان کی آمد کا مقصد بھی پتہ چلا گیا تھا اور اس مقصد کو جان کے ان سب کا خوشی کے مارے بھرا حال تھا سوائے اس کے جس کے لیے وہ آئی تھیں وہ سٹیچو بن کے اک جگہ پہ بیٹھی تھی
“نہیں میں نہیں کر رہی یہ شادی” اس سٹیچو میں حرکت ہوئی تھی اور اس کی زبان سے نکلے گئے الفاظ نے باقی سب کو سٹیچو بنایا تھا
“یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟” مریم نے جلد ہی ہوش میں آتے اس گھور کے سخت لہجے میں سوال کیا تھا
“ہاں مریم میں بلکل ٹھیک کہہ رہی ہوں میں یہ شادی نہیں کروں گی مجھے یقین ہے وہ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے شادی کر رہا ہے” فاتینا نے روہانسے لہجے میں کہا تھا
“تمہارے دماغ پہ کوئی چوٹ ووٹ تو نہیں لگ گئی جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو؟” زینیہ نے اس کے سر کو ٹٹولتے مشکوک لہجے میں پوچھا تھا جس پہ فاتینا نے اسے گھورتے ہوئے اس کا ہاتھ غصے سے جھٹکا تھا
“یار وہ ہوا کچھ یوں تھا کہ،،،،” فاتینا نے انہیں اپنی اور ارسل کی ہوئی دو ملاقاتوں کا حال بتایا تھا جس میں فاتینا میڈم نے ہی اسے باتیں سنائی تھیں جبکہ وہ سب اس کی سٹوری سن کے ہنسنے میں مصروف تھیں
“میری یہاں جان پہ بنی ہوئی ہے اور تم لوگوں کو ہنسنے کی پڑی ہوئی ہے” فاتینا نے ان سب کو گھوری سے نوازا تھا
“ویسے یار فاتی جب تم فلسفے جھاڑ رہی تھی تب ہمارا تمہیں دیکھنا فرض تھا مگر افسوس ہم نے یہ موقع گنوا دیا” نویرہ نے افسوس سے گردن ہلاتے کہا تھا
“دفعہ ہو جاؤ تم لوگ، تم بہنیں ہو یا ڈائینیں بجائے تسلی دینے کے میرا مذاق اڑائی جا رہی ہیں” اس نے دانت پیستے باقاعدہ اک جھانپڑ نویرہ کو لگایا تھا جو خود کو بہت حد سنبھال چکی تھی
“کچھ نہیں ہوتا تم پریشان مت ہو نگہت آنٹی کہہ رہی تھیں انہوں نے اسے تمہارے لیے پسند کیا ہے ان کی طرف سے پہل نہیں کی گئی اس لیے تم اطمینان رکھو جیسا تم سوچ رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہو گا” مریم نے اس کی پریشان شکل دیکھ کر سنجیدگی سے اسے تسلی دی تھی
“مگر پھر بھی کیا پتہ وہ ان باتوں کو دل سے لگا کے بیٹھا ہو اس دن بھی کہہ رہا تھا کہ میں نے سوری نہیں کیا اگر ان باتوں کو لے کر اس نے مجھے ٹارچر کیا تو پھر میں کیا کروں گی؟” فاتینا نے جذباتی ہوتے کہا تھا
“بندے کی شکل اچھی ہو تو بات بھی اچھی ہی کر لینی چاہیے اب اگر تم نے کوئی راگ الاپا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا یہ وسوسے پالنے سے بہتر ہے اللّٰہ سے دعا کرو کے وہ تم دونوں کو اک دوسرے کے حق میں بہتر بنائے” اس دفعہ مریم نے اسے سختی سے ڈپٹا تھا
“اور بہت ہو گئی باتیں تم سب مجھے ابھی کے ابھی کچن میں چاہیے ہو” مریم نے اپنی جگہ سے اٹھتے ان سب کو حکم سنایا تھا
“یار مریم کھبی تو سکون سے بیٹھنے دیا کرو” منیہا نے بےچارگی سے دہائی دی تھی
“منیہا میڈم کچھ سیکھ لیں کچن کا بھی کام آپ کی طرح آپ کے منگیتر بھی کھانے پینے کے شوقین ہیں جب آتا کچھ نہیں ہو گا تو کیا اک دوسرے کو باتیں سنا کے پیٹ بھرا کرو گے؟” مریم کے چھیڑنے کے نام پہ طنز کو سن کے منیہا جھینپ گئی تھی جبکہ باقی سب نے چھت پھاڑ قہقہہ لگایا تھا جس میں روش بھی شامل تھی جو ان سے تھوڑی دور بیٹھی اپنا ہوم ورک کر رہی تھی مریم کی گھورتی نظروں کو محسوس کر کے اپنے قہقہے کا گلہ گھونٹتے دوبارہ کاپی پہ نظریں جما لی تھیں اور مریم کے کچن کی طرف جاتے ان سب نے بھی چاروناچار اس کے پیچھے قدم بڑھائے تھے
______________________
مسلسل رونے اور ٹیشن کی وجہ سے اماں کو ہلکا ہلکا بخار محسوس ہو رہا تھا انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا یہ ہی بڑی غنیمت تھی ورنہ ہمارے ہاں دھڑلے سے دوسروں پہ انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اور ستم یہ کہ کسی کو اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوتا الٹا وہ خود کو حق بجانب سمجھتا تھا
“ارسلان میرے ساتھ چلو ہم حسین بھائی صاحب کے گھر جا رہے ہیں” وہ تینوں برآمدے میں بیٹھے ارسلان کا ہی انتظار کر رہے تھے مگر وہ تھا کہ ان لوگوں کو نظرانداز کر کے باہر کی طرف بڑھنے لگا تھا مگر اماں کی آواز نے اس کے قدموں کو بریک لگائی تھی
“کیوں! کوئی کثر باقی رہتی ہے؟” اس نے مڑ کے سنجیدگی سے پوچھا تو اماں اپنی جگہ چپ کی چپ رہ گئی تھیں
“بس کر دیں بھائی اماں پہلے ہی بہت شرمندہ ہیں” اماں کو چپ ہوتے دیکھ کر سارہ اسے ٹوک گئی تھی
“میں ان سے زیادہ شرمندہ ہوں اتنا کہ خود سے نظریں نہیں ملا پا رہا” اس نے بےبسی سے کہتے اک ہاتھ بالوں میں پھنسایا تھا
“میرا بچے معاف کر دو اپنی ماں کو اک زعم تھا جو ٹوٹ گیا ہے اب کھبی ایسی کوئی بات نہیں منہ سے نکالوں گی” انہوں نے کہتے ہوئے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے تھے ان کے اس عمل پہ ارسلان تڑپ کے ہوا کی سپیڈ سے ان کے قدموں میں جا کر بیٹھا تھا
“اماں یوں کر کے مجھے گنہگار مت کریں غلطی میری ہے مجھے پہلے آپ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا پھر کوئی بات کرنی چاہیے تھی ٹھیک کہتے ہیں سیانے جلدی کا کام شیطان ہوتا ہے” ان کے ہاتھ پکڑ کے چومتے اس نے کہا تھا
“ہم جائیں گے نا اپنی غلطی سدھارنے” اماں اس کے بال سنوارتے محبت سے بولی تھیں
“اماں ہر غلطی سدھارنے والی نہیں ہوتی کچھ غلطیاں ناسور بن جاتی ہیں” اس نے تھکے تھکے لہجے میں کہتے ان کی گود میں سر رکھا تھا
“ایسے ناامید مت ہو بچپن سے جانتے ہیں بھائی صاحب تمہیں مجھے یقین ہے وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ غلطی میری ہے تمہاری نہیں” اماں نے اسے تسلی دی تھی اور پھر یہ چار افراد پہ مشتمل قافلہ ساتھ والے گھر میں روانہ ہوا تھا
آج جمعہ کا دن تھا اس لیے حسین صاحب جلدی سٹور سے اٹھ آئے تھے تا کہ مسجد میں سب کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کر سکیں باقی سب بھی یونی اور سکول سے آ چکی تھیں مریم، مائرہ اور زینیہ کچن میں تھیں اور باقی چاروں برآمدے میں حسین صاحب کے ساتھ بیٹھی باتیں بھگار رہی تھیں
تبھی ان سب کی نظر ان چاروں پہ پڑی تھی ان کا اک دوسرے کے گھر آنا جانا عام سی بات تھی اس لیے اس لیے دستک کا تکلف نہیں کرتے تھے اور عموماً جب حسین صاحب گھر ہوتے تھے تو وہ گیٹ کو کنڈی نہیں لگاتی تھیں ان کو اپنے گھر میں دیکھ کر حسین صاحب سمیت ان سب کو حیرانگی ہوئی تھی
انہیں دیکھ کر نویرہ نے ساتھ بیٹھی فاتینا کا ہاتھ زور سے پکڑا تھا رنگ لمحوں میں زرد پڑا تھا اس کے مطابق اب نجانے کون سا ستم ڈھانے آئے تھے وہ لوگ ارسلان جس کی نظریں اسی پہ جمی تھیں اسے اس طرح گھبراتے دیکھ کر اس کو شدید دکھ ہوا تھا
اس رات جو بھی ہوا تھا کسی کو بھولا نہیں تھا مگر گھر آئے مہمانوں کو وہ جانے کا کہہ بھی نہیں سکتے تھے یہ ان کی طبعیت کے خلاف تھا اس لیے ناچاہتے ہسئے بھی خوش دلی سے ان کا استقبال کیا تھا اور وہاں موجود وہ چاروں وہاں سے اٹھ کے کچن میں چلی گئی تھیں
“بھائی صاحب مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں بات کا آغاز کیسے کروں اس رات کے اپنے الفاظ پہ میں اتنی شرمندہ ہوں کہ سمجھ نہیں آتا کس منہ سے آپ سے معافی مانگوں” کافی دیر کی خاموشی کے بعد آخر کار اماں ہی بول پڑی تھیں کیونکہ جیسے خاموشی چھائی تھی لگتا نہیں تھا کہ کوئی بولے گا جبکہ ان کے منہ سے معافی کی باتیں سن کے حسین صاحب حیران رہ گئے تھے انہیں امید نہیں تھی کہ وہ معافی مانگیں گی
“کوئی بات نہیں بہن جو ہونا تھا ہو گیا اسے بدلا تو نہیں جا سکتا ہم نے آپ کو معاف کیا” کچھ دیر بعد حیرانگی کے جھٹکے سے نکلتے حسین صاحب نے دل پہ پتھر رکھتے کہا تھا
“مجھے پتہ ہے میرے یہ چند الفاظ میرے ہی لفظوں سے آپ کو دیے گئے گھاؤ نہیں بھر سکتے مگر میں سچ میں شرمندہ ہوں میں آپ سے معافی مانگتی ہوں اگر آپ کہتے ہیں تو جن کے سامنے میں یہ سب بولا تھا ان کے سامنے میں ہاتھ جوڑ کے معافی مانگ لوں گی” ان کی آنکھوں سے اک دفعہ پھر آنسو جاری ہو چکے تھے
“نہیں بہن جی ایسی کوئی بات نہیں میں نے کہہ دیا نا ہم نے آپ کو معاف کیا تو سچ میں کر دیا” حسین صاحب کو ان کے اس رات کے کہے الفاظ سے تکلیف تو بہت ہوئی تھی مگر ان کے خود کے بیٹے نے جس طرح ان کی آنکھیں کھولی تھیں شاید وہ بھی نہ کھول سکتے اور پہلے سے ہی شرمندہ ہوئے انسان کو مزید شرمندہ کرنے کا ان کا دل نہیں کر رہا تھا اور اوپر سے ان کا رونا دیکھ کے انہیں اچھا نہیں لگ رہا تھا
وہ چاہے جیسی بھی تھیں گزرے برسوں سے اک ہی گلی میں رہنے اور ان کے شوہر اور بچوں سے اچھے تعلقات ہونے کی بنا پہ حسین صاحب نے انہیں بہن ہی مانا تھا اور ان کا رونا انہیں اک طرح سے کرب میں مبتلا کر رہا تھا
“خدا گواہ ہے میں آپ کو بہن کہتا ہی نہیں مانتا بھی ہوں ہاں آپ کے اپنی بچیوں کے بارے میں کہے گئے الفاظ نے مجھے اور میری بچیوں کو تکلیف میں مبتلا کیا ہے مگر خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو اپنے کیے پہ شرمندگی ہوئی ہے اور معاف کرنا خدائی وصف ہے اس لیے خدا کی ذات کی خاطر اور آپ کو بہن کہنے کی وجہ سے میں نے آپ کو دل سے معاف کیا میرے دل میں آپ کے لیے کوئی گلا شکوہ کوئی میل نہیں ہے آپ اطمینان رکھیں اور یوں روئیں مت” انہیں ہنوز روتے دیکھ کر حسین صاحب نے انہیں مطمئن کرنے کے لیے تفصیلی بات کی تھی جس پہ اماں ابا اور سارہ نے انہیں مشکور نظروں سے دیکھا تھا مگر ارسلان نے پھر بھی سر نہیں اٹھایا تھا
“آپ کا بہت شکریہ بھائی صاحب میری آنکھوں سے پٹی اُتری تو میں سمجھی ہوں میرے بیٹے کی خوشی اس گھر میں ہے مجھے میرے بیٹے کی خوشی دے دیں مجھے اپنی نویرہ دے دیں” حسین صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد جو مانگا تھا وہ انہیں سوچ میں ڈال گیا تھا
“دیکھیں،،،،” انہوں نے کچھ کہنا چاہا تھا
“میں پہلے ہی اپنی نادانی کی وجہ سے بہت کچھ خراب کر چکی ہوں اب اسے سدھارنا چاہتی ہوں اگر آپ کو میری طرف سے کوئی بےاعتباری ہے تو شادی کے فوراً بعد ہم انہیں الگ کر دیں گے آپ جو کہیں گے میں وہ کرنے کو تیار ہوں بس آپ میرے بچے کی خوشیاں میری جھولی میں ڈال دیں” انہوں نے باقاعدہ اپنی چادر ان کے سامنے پھیلا دی تھی
“ارے بہن جی یہ کیا کر رہی ہیں ایسے کر کے مجھے شرمندہ مت کریں بس تھوڑا ٹائم دیں میں سوچ کے جواب دوں گا” حسین صاحب نے بوکھلاتے ہوئے کہا تھا تبھی کب سے خاموش بیٹھا ارسلان جھٹکے سے اٹھا تھا اور بغیر کسی کو دیکھے وہاں سے جانا چاہا تھا
“رکو ارسلان مجھے تم سے بات کرنی ہے” حسین صاحب نے اسے روکا تھا
“نہیں چچا ابھی میں خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں آپ کی بات کیا سنوں جب آپ سے نظریں ملانے مے قابل ہوا تو ضرور آؤں گا آپ کے پاس” اس نے بغیر مڑے جواب دیا تھا اور تیزی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا
تھوڑی دیر بعد وہ تینوں بھی اٹھ کے چلے گئے تھے ارسلان کو یوں نظریں چراتے دیکھ کر حسین صاحب کو دکھ ہوا تھا اس کے کئیرنگ رویے کی وجہ سے وہ انہیں ہمیشہ سے عزیز تھا اسے اپنا داماد بنا کے انہیں خوشی محسوس ہوتی
یہ خوشی انہیں اب بھی ہو گی کیونکہ جو کہا تھا اس کی اماں نے کہا تھا ارسلان نے نویرہ سمیت ان سب بہنوں کو ڈفینڈ کیا تھا اور یہ بات حسین صاحب کو اس کا مزید گرویدہ کر گیا تھا یقیناً وہ مستقبل میں بھی ایسے ہی نویرہ کا ساتھ دے گا یہ بات ہ صاحب کے اطمینان کے لیے کافی تھی
اس لیے انہیں اس رشتے پہ کوئی اعتراض نہیں تھا ان کا ارادہ نماز پڑھ کے آ کر اس سے بات کرنے کا تھا پھر نہا دھو کے وہ مسجد چلے گئے تھے نماز پڑھ کے آنے کے بعد انہوں نے ان سب کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھایا تھا اور مریم کو چائے کا بول کے نویرہ کو اپنے پاس بلایا تھا
“آج ارسلان کے گھر والے اس کا رشتہ لے کر آئے تھے تمہارے لیے” نویرہ کو اپنے بازو کے حصار میں لیتے انہوں نے بات کا آغاز کیا تھا
“اس رات اس کی والدہ کی باتیں سننے کے بعد بھی آپ مجھ سے اس رشتے کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟” اس نے شکوہ کناں نظروں سے انہیں دیکھا تھا
“وہ اپنے کہے ہر لفظ پہ شرمندہ ہیں اور جو کہا تھا انہوں نے کہا تھا ارسلان کا تو اس میں کوئی قصور نہیں تو اسے کس بات کی سزا دیں” انہوں نے وضاحت کی تھی
“بلفرض میں مان بھی جاؤں شادی کے لیے اگر ان کی کہی باتیں سچ ہو گئی اور میری صرف بیٹیاں ہوئی تو وہ پھر بدل گئیں تو؟” نویرہ کے منہ سے نکلے الفاظ حسین صاحب کو حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا گئے تھے
“بہت افسوس ہوا مجھے تمہارے منہ سے یہ بات سن کے اک ایسے باپ کے زیرِ سایہ پرورش پانے کے بعد جس کی سات سات بیٹیاں ہیں اور اس نے انہیں خندہ پیشانی سے پالا ہے تم پھر بھی یہ بات کر رہی ہو اس بات نے بہت دکھ دیا مجھے خیر فیصلہ تمہارا ہو گا میں تم پہ کوئی زبردستی نہیں کروں گا اچھی طرح سوچ سمجھ کے جواب دینا” وہ اس کا سر تھپتھپاتے فیصلہ اس پہ چھوڑ کے اپنی جگہ سے اٹھے تھے
“اور ہاں چاہنے والے تو بہت مل جاتے ہیں مگر عزت دینے والا کوئی کوئی ہی ہوتا ہے اور پہلے سے شرمندہ انسان کو مزید شرمندہ کرنا اچھی بات نہیں ہوتی اور نہ ہی میری ایسی تربیت ہے مجھے امید ہے میری بیٹی کوئی اچھا فیصلہ کرے گی” وہ رکے تھے اور اپنی بات اس کے کانوں تک پہنچاتے اسے سوچ میں ڈوبا چھوڑ کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے
_______________________
اگلے دن حسین صاحب کے سٹور جاتے ہی ارسلان ان کے گھر آن وارد ہوا تھا آنے کو تو وہ حسین صاحب کی موجودگی میں بھی آ سکتا تھا لیکن کیا کہتا کہ آپ کی بیٹی سے بات کرنی ہے؟ اس لیے اس نے ان کی غیر موجودگی میں آنا ہی مناسب سمجھا تھا
اپنے اس عمل پہ شرمندگی تو تھی مگر کیا کرتا اور کوئی چارہ نہیں تھا وہ ان کے گھر آیا تو پہلی ٹکر مریم سے ہی ہوئی تھی جس نے دروازہ کھولا تھا اور ارسلان کو دیکھ کر مسکرائی تھی
“کیسے ہو ارسی؟” مریم نے محبت سے پوچھا تھا عزیز تو وہ پہلے ہی بہت تھا مگر جس طرح اس نے ان کی طرفداری کی تھی اب مزید ہو گیا تھا
“میں ٹھیک ہوں آپی آپ کیسی ہیں؟” اس نے سنجیدگی سے جواب دیتے اس کا حال احوال بھی دریافت کیا تھا
“میں بھی ٹھیک” مریم کہتے ہوئے سائیڈ پہ ہوئی تھی تا کہ اسے اندر آنے کا رستہ دے سکے
“مریم آپی مجھے نویرہ سے بات کرنی ہے اکیلے میں کیا آپ اسے کچھ دیر کے لیے صحن میں بھیج سکتی ہیں؟” ارسلان نے اندر آ کے بغیر کوئی دوسری بات کیے اس سے ڈائریکٹ پوچھا تھا چہرے پہ سنجیدگی چھائی ہوئی تھی
اس کے اس قدر سنجیدہ انداز پہ مریم بغیر کچھ پوچھے سر ہلاتے ہوئے اندر چلی گئی تھی اس کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد نویرہ وہاں آئی تھی اور ارسلان کو دیکھ کر اس کے ماتھے پہ بل پڑے تھے
“آپ کی والدہ محترمہ نے کوئی کثر باقی چھوڑی تھی جسے پورا کرنے آپ آئے ہیں؟” نویرہ نے سینے پہ دونوں بازو باندھتے طنز کا تیر چلایا تھا جسے وہ کمال ضبط سے برداشت کر گیا تھا
“یار نویرہ وہ سب اماں نے بولا تھا اس میں میرا کیا قصور مجھ پہ تم کیوں طنز کے تیر برسا رہی ہو؟” ارسلان نے اسے دیکھتے بےبسی سے کہا تھا
“انہیں رشتہ لے کر جانے کا تم نے بولا تھا یا انہیں الہام ہو گیا تھا؟” نویرہ نے اسے گھورا تھا
“تو محترمہ مجھے آپ سے سے شادی کرنی تھی اس کے لیے پہلے گھر بات کرنی تھی کسی نے یہاں رشتہ لے کر آنا تھا تبھی شادی ہونی تھی یا چچا کو الہام ہو جانا تھا اس رشتے کا” اس کی بےتُکی بات پہ ارسلان کو بھی تپ چڑھی تھی
“نویرہ یار مان لیا میری غلطی ہے اس کے لیے میں معافی مانگتا ہوں مگر رشتے سے انکار کر کے مجھے اتنی بڑی سزا مت دینا میں یہاں ایسے تم سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا مگر مجھے ڈر تھا کہ کہیں تم انکار نہ کر دو اس لیے آنا پڑا پلیز ایسا کچھ مت کرنا” ارسلان نے اپنی انا اور عزتِ نفس کو پسِ پشت ڈالتے اس کی منت کی تھی
“لیکن اگر تمہاری اماں کی بات سچ ہوئی اور ہماری صرف بیٹیاں ہوئیں تو؟” نویرہ نے اپنا ہاتھ مروڑتے اپنی الجھن اس کے سامنے بیان کی تھی اس کی بات سن کے ارسلان نے آنکھیں پھاڑ کے اسے دیکھا تھا
“نویرہ یہ تم کہہ رہی ہو؟” ارسلان نے جن نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ شرمندگی سے اپنی جگہ پانی پانی ہو گئی تھی
“تمہارے ابا کی بھی سات بیٹیاں ہیں نا کیا انہوں نے تم سب کو بوجھ سمجھ کے پھینک دیا تھا؟ نہیں نہ، انہوں نے بیٹوں سے بڑھ کے لاڈ پیار دیا تم لوگوں کو کسی بات پہ زبردستی نہیں کی ہر کام تم لوگوں کے صلاح مشورہ سے کرتے ہیں ہم دونوں بھی مل کے پال لیں گے ہمارے وجود کا حصہ ہوں گی وہ” ارسلان کا جواب حسین صاحب کے جواب سے ملتا جلتا دیکھ کے نویرہ چونکی تھی اور مطمئن بھی ہو گی کیونکہ اسے ارسلان میں اپنے باپ کی جھلک نظر آئی تھی
ہر لڑکی کے لیے آئیڈیل اس کا باپ ہوتا ہے اور وہ اپنے ہمسفر میں بھی اپنے باپ جیسی خصوصیات ڈھونڈتی ہے جو کہ اکثر مل بھی جاتی ہیں جیسے نویرہ کو ارسلان میں حسین صاحب کی جھلک نظر آئی تھی
“بھئی تمہارا دماغ سیٹ کرنا تھا اس لیے یہ وضاحت کی تھی ورنہ تمہارا جواب تو مجھے ویسے مل ہی گیا ہے” ارسلان کی بات پہ وہ چونک کے اپنے خیالوں سے نکلتی اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی
“کیا مطلب؟” نویرہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا
“بھئی تم نے کہا نا اگر ہماری بھی صرف بیٹیاں ہوئی تو اس کا مطلب یہی ہوا نا کہ تم رشتے کے لیے راضی ہو تبھی تو بیٹیوں تک پہنچ گئی ہو” ارسلان نے شرارت سے کہا تو نویرہ جھینپ گئی تھی
“بکواس مت کرو اور جاؤ یہاں سے تمہیں جواب ابا کے ذریعے مل جائے گا” نویرہ نے اپنے تاثرات چھپانے کے لیے اسے وہاں سے نکالنا چاہا تھا
“وہ تو بس فارمیلٹی ہو گی ورنہ جواب تو مجھے مل گیا ہے” اس کے چہرے پہ نظریں جمائے ارسلان نے جذب سے کہا تھا جہاں پھیلے رنگ اسے مطمئن کر گئے تھے اب نویرہ کی طرف انکار نہیں ہو گا
“جاؤ” نویرہ نے اسے باہر دھکا دیتے دروازہ بند کیا تھا اور اس کی باتیں یاد کرتے اس کے چہرے پہ مسکان پھیلی تھی
“ایسی بھی کونسی پھلجھڑی چھوڑ گیا ہے ارسلان جو یہ بتیسی اندر نہیں ہو رہی” فاتینا جو دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سن کے باہر آئی تھی نویرہ کو مسکراتے دیکھ کر اس نے شرارت سے پوچھا تھا
“زیادہ بکواس مت کرو اور چلو اندر” نویرہ نے کہتے ہوئے اس کے کندھے پہ ہاتھ جماتے اسے اندر کی طرف دھکیلنا شروع کیا تھا فاتینا نے اسے گھورا تھا مگر کہاں کچھ نہیں تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...