اس ملاقات کے بعد تیمور نے اس کا پیچھا کرنا چھوڑ دیا تھا یہ بہت مشکل تھا اس کے لیے لی دوسری طرف طرف ماہ گل بہت خوش تھی کہ تیمور نے اس کا پیچھا چھوڑ دیا ہے
تیمور جب گھر کے لیے نکلا تو راستے میں اس نے ایک ریسٹورنٹ کے اوپن ایریا میں احتشام کو دیکھا۔۔۔۔۔ احتشام سے ملنے کے لیے وہ گاڑی سے اترا وہ ابھی تھوڑے فاصلے پہ ہی تھا کہ اسے اس کے ساتھ ایک لڑکی نظر آئی وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت بے تکلف نظر آتے تھے دونوں ہاتگوں میں ہاتھ ڈالے ریسٹورنٹ میں چلے گئے ایسا لگ رہ تھا تیمور ٹھٹکا پہلے سوچا کیا پتا میں غلط ہوؤں اپنی سوچ کو غلط ثابت کرنے کے لیے وہ ریسٹورنٹ میں چلا گیا وہ ایک کونے کی ٹیبل پہ بیٹھے تھے اس وقت وہاں رش کم تھا وہ بھی پاس والی ٹیبل کی طرف بڑھا اور وہاں بیٹھا تاکہ آسانی سے ان کی باتیں سن سکے
احتشام اس لڑکی سے کہہ رہا تھا
” ڈارلنگ۔۔۔۔۔ بس ایک بار میرا نکاح ماہ گل سے ہونے دو پھر اس کی ساری جائیداد ہماری ویسے بھی وہ تو میری مٹھی میں ہے اسے بےوقوف بنانا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔۔۔۔ بس یہ نکاح ہو جائے تو اس کی تمام جائیداد اپنے نام کر کے ہم اس ملک سے چلے جائیں گے”
” تم مجھ سے شادی کروگے نا؟؟؟” اس لڑکی نے پوچھا
” آفکورس مائے ڈئیر۔۔۔۔۔ ہم ضرور شادی کریں گے اور بہت خوش رہیں گے” اسنے اس کا ہاتھ تھام کے بولا تیمور نے اس کا لفظ لفظ سنا صرف سنا ہی نہیں کیمرے کی آنکھ مہں قید بھی کرلیا اور جب اٹھا تو وہ ایک فیصلا کر چکا تھا
——
تیمور نے حذیفہ کو بمع ویڈیو ساری بات بتائی تو حذیفہ بہت حیران ہوا
” آئی کانٹ بلیو کہ ندا کا بھائی ایسا ہوگا پر یار اسے کیا کمی ہے اچھے خاصے لوگ ہیں زیادہ امیر نا سہی پر غریب بھی نہیں ہے ”
کچھ لوگوں میں دولت کی بھوک اتنی ہوتی ہے کہ کبھی ختم نہیں ہوتی وہ بھی انہی لوگوں میں سے ہے میں بھی بہت حیران تھا وہ ندا بھابی کا بالکل الٹ ہے” تیمور بولا
” تم ایسا کرو کہ یہ ویڈیو ماہ گل کو جا کے دکھادو”
” نہیں یار اسے دکھاؤں۔گا تع اسے دکھ ہو گا جن سے ہمیں محطت ہو وہ اگر دھوکا دیں ےو انسان جیتے جی مر جاتا ہے میں اسے دکھ نہیں دینا چاہتا ”
” واہ رے تمہاری محبت۔۔۔۔۔تو اب کیا کرو گے”
” وہ بھی میں نے سوچ لیا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے”
” کیا؟؟؟” حذیفہ نے پوچھا
” میں اس کی ماما کو یہ ویڈیو دکھاؤں گا اور پھر۔۔۔۔” وہ اسے پلاننگ بتانے لگا
——-
حذیفہ اور تیمور ماہ گل کے گھر گئے رسمی علیک سلیک کے بعد ماما نے پوچھا
” خیریت ہے بیٹا آپ لوگ۔۔۔۔۔” وہ کہتے کہتے رکیں وہ حیران تھیں کہ وہ دونوں یہاں کیوں آئے ہیں انہیں تو ندا کے گھر جانا چاہیے
” جی آنٹی کچھ ضروری بات بتانی تھی آپ کو ”
” ہاں بیٹا بولو” اور پھر ان دونوں نے ساری بات انہیں بتادی اور ویڈیو بھی دکھا دی
“یااللٰہ اتنا بڑا دھوکا۔۔۔۔۔ وہ میری جان سے پیاری بچی کع دھوکا دے رہا ہے۔۔۔۔۔ میں ابھی ماہ گل کو بتاتی ہوں ” وہ اٹھنے لگیں تو تیمور نےانہیں روکا
” نہیں آنٹی اسے کچھ نا بتائے گا میں اسے دکھ نہیں دینا چاہتا ”
انہوں نے اسے حیرانی سے دیکھا وہ کیوں ان کی بیٹی کے لیے اس طرح کہہ رہا تھا
” آنٹی میں اسے بہت پسند کرتا ہوں اسے دکھ نہیں دینا چاہتا اسے خوش دیکھنا چاہتا ہوں ےبھی اس کے کہنے پہ اس سے دور جانے کا فیصلا کرلیا تھا پر۔۔۔۔۔ آنٹی آپ مجھ پہ بھروسہ کریں میں دنیا جہان کی خوشیاں آپ کی بیٹی کے قدموں میں رکھ دوں گا کیا آپ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیں گی ” وہالتجا کررہا تھا
انہوں نے حذیفہ کو دیکھا ” جی آنٹی آپ بھروسہ رکھیں یہ بندہ برا نہیں ہے بس لگتا ہے ” وہ مسکرا کے بولا تو وہ بھی مسکرادیں اور سب اللٰہ پہ چھوڑ دیا ان دونوں نے ساری پلاننگ انہیں سمجھا دی تھی وہ مطمئن تھیں۔
——-
ماما نے تیمور کے بارے میں اپنے بھائی کو بتایا اور اس کی بات بھی کرادی انہوں نے بھی ڈن کردیا
شام۔کع ماہ گل۔گھر آئی ماما کسی سوچ میں گم تھیں
” کیا ہوا ماما” اس نے پوچھا تو انہوں نے اس کی طرف دیکھا انہیں ماہ گل پہ ڈھیرو پیار آیا انہوں نے اس گلے لگایا
” کیا ہوا ماما”
” کچھ نہیں بس تمہارے نکاح کے بارے میں سوچ رہی ہوں”
” بیٹا ایک بات پوچھوں”
” جی پوچھیں”
” اگر تمہارا نکاح احتشام کے علاوہ کسی اور سے ہو رہا ہوتا جس سے تم حد سے زیادہ نفرت کرتی ہو تو کیا ہوتا ”
” تو سمجھیں زندگی رک جاتی کسی خراب ٹرین کی طرح۔۔۔۔۔۔ پر آپ ایسا کیوں پوچھ رہی ہیں”
” کچھ نہیں بس ویسے ہی پوچھا۔۔۔۔۔ کھانا کھاؤ گی” وہ اٹھ گئیں
——-
وہ گھر آکے ماما کے پاس چلا آیا اور ان کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا
” میرا بیٹا تو آج کل بہت حسین ہو گیا ہے”
” اوہ ہو ماما مرد حسین نہیں ہینڈسم ہوتا ہے” اس نے سر گود سے اٹھایا اور ہنسا
“جو بھی ہے میں تو تمہیں یہ ہی کہوں گی”
” اچھا سنو اب تم تیس سال ہو گئے ہو ماشآاللٰہ سے شادی وادی کا بھی کچھ سوچو کب تک یوں ہی رہو گے”
” جس لڑکی کا تم مجھے بتا رہے تھے کب جاؤں اس کے گھر ”
” اب آپ نہیں میں جاؤں گا ”
” مطلب؟؟؟” اور اس نے ماما کع بھی سب بتایا
” یہ تو بہت اچھا کیا بیٹا پر تم میری اکلوتی اولاد ہو تمہیں لے کے بہت سے ارمان ہیں میرے”
” ماما آپ میری خوشی چاہتی ہیں نا۔۔۔۔۔ تو سمجھ لیں یہ خوشی مجھے ایسے ہی ملے گی بس آپ میرے ساتھ رہیں”
” تمہاری خوشی میں ہی میری خوشی ہے جاؤ لے آؤ میری بہو کو”
——-
ماہ گل کو احتشام سے محبت تھی بے انتہا تھی۔۔۔۔۔ تیمور سے نفرت تھی بے انتہا تھی لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کچھ لوگ ہمارے دل میں اترنے کے بعد دل سے اتر جاتے ہیں
کچھ دنوں بعد وہ پھر اپنی ماما کے گھر گئی تو احتشام کا خیال آیا تو وہ اس کے گھر چلی گئی وہ گھر میں داخل ہوئی اس کے گھر میں کوئی نہیں تھا بس کسی کی باتوں کی آواز آرہی تھی وہ آگے ہوئی تو دیکھا احتشام کسی سے فون پہ باتیں کررہا تھا
” اوہ بے بی آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔۔ ماہ گل تو دولت حاصل کرنے کا اک ذریعہ تھی لیکن بیچ میں اس کا وہ عاشق آگیا پتا نہیں اسے کہاں سے میری پلاننگ کا پتا چل گیا ورنہ ماہ گل کی دولت میری ہوتی پھر ہم ملک چھوڑ کے چلے جاتے۔۔۔۔۔ ہاں ہاں میں جنتا ہوں میں بھی اچھا خاصا بینک بیلنس رکھتا ہوں پر بابا کو میری ایکٹیویٹیز کا علم ہے وہ کبھی بھی اپنی جائیداد میرے نام نہیں کریں گے۔۔۔۔۔ جب تک وہ زندہ ہیں پراپرٹی ان کی ہے۔۔۔۔۔ ماہ گل گر ہاتھ آجاتی تو۔۔۔۔۔” وہ پلٹا تو دیکھاا ماہ گل پیچھے کھڑی تھی
وہ چلتی چلتی اس تک آئی اور ایک زواردار تھپڑ اسے مارا۔۔۔۔۔ اور پھر دوسرا۔۔۔۔۔
” یو ڈیزور اٹ یو ٹوٹلی ڈیزور اٹ۔۔۔۔۔ تم سے زیادہ گھٹیا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا کبھی اپنی شکل نہ دکھانا مجھے ورنہ جان لے لوں گی” کہہ کر وہ مڑ گئی وہ وہیں کھڑا رہ گیا۔
——-
گھر آکے بھی اس ک غصہ کم نہ ہوا اور وہ سارا غصہ تیمور پہ نکلا
اس کی زندگی میں دو مرد آئے ایک سے اسے محبت تھی اور دوسرا اس سے محبت کا دعوے دار تھا
پہلے نے اسے دھوکا دیا تھا اور دوسرے پہ اسے بھرودہ نہیں تھا
وہ اللٰہ کا شکر ادا بھی کررہی تھی کہ وہ بچ گئی محبت اپنی جگہ پر دھوکا ناقابلِ برداشت ہوتا ہے اگر کوئی اور اسے آکے بتاتا تو وہ سچ میں یقین نہ کرتی پر اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں دیکھا کون جھٹلا سکتا ہے ماہ گل سوچ رہی تھی جس دنیا سے ہم تعلق رکھتے ہیں وہاں لوگ نہیں بدلتے۔۔۔۔۔ بدل سکتے ہیں مگر نہیں بدلتے۔۔۔۔۔ بدلتے ہیں تو صرف اپنے چہرے کا نقاب۔۔۔۔۔
——–
صبح وہ لوگ ناشتہ کررہے تھے کہ ماما بولیں
” تمہاری شادی کو پندرہ دن ہو گئے ہیں کہیں گھوم پھر آؤ”
” ماما آفس میں بہت کام ہے گھومنا آفورڈ نہیں کرسکتا ” وہ اس سے اس لڑائی کے بعد سے کچھ نہ بولا تھا وہ اسے منانا چاہتی تھی پرانا آڑے آرہی تھی
” کوئی کام وام نہیں ہے گھومنے جاؤـتم دونوں یہیں دن تو ہیں تمہارے گھومنے کے کیوں ماہی؟؟؟”
” جی۔۔۔۔۔ جی آنٹی” وہ مسکرائی تیمور نے حیرانی سے اسے دیکھا اس نے بھی تیمور کو دیکھا تیمور اسے بغور جانچنے کی کوشش کررہا تھا اس کی نظروں سے گھبرا کے ماہ گل نے ماما کی طرف دیکھا ماما کہہ رہی تھیں
” دیکھو ماہ گل کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے”
” ہممممم۔۔۔۔۔ اوکے اگر یہ محترمہ چاہتیں ہیں تو کرتے ہیں پلان” کہہ کر وہ اٹھ گیا ماہ گل ماما کی وجہ سے بدستور مسکرارہی تھی
ایک طرف ماہ گل کو اس پہ غصہ بھی تھا کہ اس نے جانے سے منع کیوں نہیں کیا اور ایک طرف وہ جانا بھی چاہتی تھی وہ اپنے کمرے میں آئی تھوڑی دیر بعد وہ روم میں آیا تو وہ بولی
” تم سے کس نے کہا تھا کہ تم گھومنے کے لیے تیار ہو جاؤ ”
” تم نے ”
” میں نے جسٹ آنٹی کی ہاں میں ہاں ملائی تھی تم منع کردیتے پر تم تو تیار بیٹھے ہو”
” ظاہر ہے نیو نیو شادی کون سا روز روز ہوتی ہے”
” تو۔۔۔۔۔ تم روز شادی کرو روز گھومنے جاؤ میری طرف سے اجازت ہے”
” سوچ لو کرلوں گا شادی تو پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی”
” تم جو بھی کرو میری طرف سے جہنم میں جاؤ میں نہیں جاؤں گی”
” تو ٹھیک ہے میں اکیلا چلا جاؤں گا کل۔۔۔۔۔ تم بعد میں آجانا پر کل ہی آنا ہے تمہیں ” کہہ کر وہ واشروم میں چلا گیا
رات کو وہ سونے کے لیے لیٹی تو تیمور نے پوچھا
” پیکنگ کرلی؟؟؟” وہ کچھ نہ بولی تو وہ پھر بولا
” ہم ایک ہفتے کے لیے جا رہے ہیں سوچ سمجھ کے پیکنگ کرنا”
” اتنے کم دنوں کے لیے کیوں مہینے دو مہینے کے لیے چلتے ہیں” وہ طنز سے بولی
” تم میری محبت میں اتنی گرفتار ہو گئی ہو کہ تمہیں یہ پورا ہفتہ کم۔لگ رہا ہے تم بولو تو سال بھر کے لیے چلتے ہیں”
” افففف۔۔۔۔۔ یہ آدمی۔۔۔۔۔ اے اللٰہ مجھے ہمت دے سکون دے ” وہ بڑبڑائی
” آمین میری جان آمین ” اس نے اس کی بڑبڑاہٹ بخوبی سنی تھی اور جواب بھی دیا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...