شام بہت اداس تھی۔ زردرو شعاعیں بکھیرتا سورج سیاہیوں میں کہیں گل ہورہا تھا۔ عشال پردہ گرا کر اندر چلی آئی۔ مغرب نزدیک تھی۔ اور اسے پانی گرم کرنا تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے آغا جان کی طبیعت خراب تھی۔ انھیں سانس لینے میں دقت پیش آرہی تھی۔ انھی کے کہنے پر عشال غراروں کا پانی گرم کررہی تھی۔ نزلہ زکام کے لیے وہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے قائل نہیں تھے۔ ادرک کی چائے اور غراروں کے پانی پر ان کا گزارا تھا۔
“عشال! وضو کا پانی لے آؤ بیٹا۔”
آغاجان کی آواز پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی اور ساس پین میں گرم پانی بھر کر ان کےکمرے کی طرف بڑھ گئی۔
“میں آرہی تھی آغاجان!”
عشال نے وضو کے لیے ان کی مدد کی۔
“اتنا ہی کافی ہے۔ اذان ہورہی ہے۔ تم جاؤ جاکر نماز پڑھ لو۔ ہم دیکھ لیں گے۔”
آغاجان نے نیچے رکھے ٹب پر مگ رکھتے ہوئے کہا۔
“ابھی وقت ہے آغاجان! میں آپ کی مدد کرسکتی ہوں۔”
عشال کے منہ سے بےاختیار نکلا۔
آغاجان نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اور بولے۔
“وقت ہمیشہ نہیں رہتا میرے بچے! ابھی وہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ لیکن کل اس کی ڈوریں تمہارے ہاتھ میں نہیں ہوں گی۔ انسان کو جو لمحہ میسر ہو اسے جینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔”
عشال ٹھہر گئی۔
“آغاجان! لمحے میری مٹھی سے پھسل چکے ہیں۔ اب جو کچھ ہے۔ بس فرض ہے۔ اور جب تک زندگی ہے میں اس فرض سے منہ نہیں پھیر سکتی۔ آپ بھی مجھے مجبور نہ کریں۔ زندگی جینا انسان کے اپنے بس میں نہیں ہوتا۔ اور میں اپنے حصے کی زندگی جی چکی۔”
اتنا کہہ کر وہ پلٹ گئی۔
آغاجان تأسف سے اسے جاتا دیکھ کر رہ گئے۔
اب کیسے کہتی۔۔۔ اس کا دل اسے دغا دے گیا تھا۔ایک ایسی زمین پر پڑاؤ ڈال بیٹھا تھا جہاں اس کے لیے اذن دخول ہی نہیں تھا۔
“میرے اللہ! مجھے اور کتنی سزا ملے گی؟ ناکردہ گناہوں کی؟”
عشال نے شام کے روشن ہوتے ستاروں کو نم آنکھوں سے چھوا تھا۔
______________________________
_____
“تمہیں لوٹ کر میرے پاس ہی آنا پڑا۔”
غنائم نے آہستہ سے قدم اٹھا کر درمیانی فاصلہ طے کیا تھا۔
“مجھے جانے پر تم نےہی مجبور کیا تھا غنائم!
ضیغم نے اس کے شفاف چہرے پر نظریں جمائیں۔
“تمہیں لوٹ کر میرے پاس ہی آنا تھا۔ ضیغم! اگر تم نہ آتے تب بھی تمہارا ہر راستہ میں نے اپنی طرف موڑ لینا تھا۔”
غنائم نے اپنی خوبصورت بانہیں اس کے گلے میں حمائل کیں۔
“ایک بات بتاؤ غنائم! میں تمہارے لیے کیا ہوں؟”
ضیغم نے اس کی بانہوں کو ہلکے سے چھو کر کہا۔
“تم میری زندگی میں ہر چیز سے زیادہ اہم ہو۔”
غنائم نے ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ جس میں فتح کا غلبہ تھا۔
“تم سمجھی نہیں۔ تمہارے بیڈروم میں سجی ان قیمتی چیزوں میں اور مجھ میں کیا فرق ہے؟”
ضیغم نے بیش قیمت اشیاء سے سجے کمرے کی طرف ایک نظر ڈال کر کہا۔ غنائم نے ایک جھٹکے سے اپنی بانہیں کھینچ لیں اور خفگی سے ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے بولی۔
“تم کیا کہنا چاہتے ہو ضیغم؟ ٹو دی پوائنٹ بات کرو۔”
ضیغم نے کہا۔
“تم اچھی طرح جانتی تھیں غنائم کہ میں ایک عام آدمی ہوں۔ ایک عام سی زندگی جینے والا۔ اور یہ سب میں نے تمہیں اس وقت بھی یاد دلایا تھا۔ جب تم مجھے پرپوز کررہی تھیں۔”
ضیغم نے تؤقف کیا لیکن غنائم چپ چاپ اسے سنتی رہی۔
“لیکن تم نے کہا۔۔ تمہیں محبت ہے! تم نے محبت کا دعوی کیا ہے غنائم! اور محبت قابض نہیں ہوتی۔ تم نے مجھے میرے رشتوں سے جدا کردیا ہے۔ ٹھیک ہے۔ لیکن جانتی ہو؟ ہر لحظہ اپنے سانچے بدل لینے والا انسان وفا نہیں کرسکتا۔ یہ اس کی طینیت میں ہی شامل نہیں ہوتا۔”
“ضیغم! میری محبت ایسی ہی ہے۔ میں تمہیں کسی کے ساتھ شئیر نہیں کرسکتی تھی۔ اور پلیز! اب یہ اپنے بودے فلسفے پیچھے چھوڑ دو۔ تم ایک عام آدمی تھے۔ اب تم شیخ ولید ہادی کے سن آف لاء ہو۔ اور تمہیں خود کو گروم کرنا ہوگا۔ اپنی اس نئی حیثیت کے مطابق۔”
اور مسکرا کر ضیغم کا گال تھپتھپایا۔
“تمہارا آج ابی کے آفس وزٹ ہے۔ وقت پر تیار رہنا۔ وارڈروب میں تمہارا سوٹ ریڈی ہے۔”
اتنا کہہ کر وہ رکی نہیں تھی۔
ضیغم نے ایک بوجھل سانس خارج کی۔
“تو یہ طے تھا کہ زندگی امتحان ے مسلسل ہے۔”
____________________________________
“تو یہ طے ہے کہ تم نے زندگی میں ہمیں اطمینان کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں ہونے دینا؟”
ایک بار پھر زبیر عثمانی اور شامی روبرو تھے۔ منظر میں ذرا سی تبدیلی یہ تھی کہ عائشہ عثمانی بھی ان کے درمیان موجود تھیں۔ اور ساری صورتحال کو پریشانی سے محسوس کررہی تھیں۔
“آپ جو بھی سمجھیں۔ نہ یہ نکاح میری چوائس تھی اور نہ وہ زندگی۔۔۔۔ جو آپ لوگوں نے مجھے دی۔ میں فائنل ڈیسیژن لے چکا ہوں۔ اب یہ نوٹس آپ خود پہنچائے گا یا لائیر؟ یہ سوچنا آپ کا کام ہے۔”
اتنا کہہ کر شامی ایک بند لفافہ زبیر عثمانی کو تھما کر وہاں سے جا چکا تھا۔ اور دور تک اس کے جاتے ہوئے قدموں کی گونج باقی رہ گئی تھی۔
عائشہ نے زبیر عثمانی کو دیکھا۔ ان کے چہرے پر تندی اور تلخی کے آثار گڈمڈا رہے تھے۔ عائشہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور زبیر کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔
“میں نے تم سے کہا تھا۔ شامی اس رشتے کو زیادہ دیر نہیں چلا سکے گا۔ ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔”
عائشہ کے لہجے میں طنز نہیں تھا۔ فقط ایک تجزیہ تھا۔
“تم اپنے طعنے اپنے پاس رکھو۔ تم میری ہر ناکامی کو اپنی جیت سمجھتی ہو۔ اسے بھی انجوائے کرو۔”
زبیر عثمانی جھنجھلا کر اٹھے۔ اور لفافہ عائشہ کے منہ پر پھینک کر فلیٹ سے باہر نکل گئے۔
“ہونہہ! زبیر عثمانی اپنے بچھائی ہوئی ہر بساط قدرت تم پر ہی الٹ دیتی ہے تو اس کیمیں ذمہ دار نہیں۔”
اور فرش پر پڑے ہوئے اس لفافہ کو جھک کر اٹھا لیا۔ جس میں شیما کے نام طلاق نامہ تھا۔ اور زبیر عثمانی کو دس کروڑ کا حق مہر ادا کرنا تھا۔ کہ شامی ان سے قطع تعلق کر کے جاچکا تھا۔
آرٹ کی دنیا اس کا انتظار کررہی تھی۔
___________________________________
ہلکی ہلکی کن من نے آس پاس کے ہر منظر کو دھو ڈالا تھا۔ ایک عجیب سا نکھار ہر شئے پر طاری تھا۔ اور مٹی کی سوندھی خوشبو آنکھوں کے ساتھ ساتھ طبیعت کو بھی تراوٹ بخش رہی تھی۔
شہیر کافی کا مگ لیے کھڑکی میں چلا آیا۔ اس کاٹیج میں اس کی پہلی صبح تھی۔ اور وہ خود کو وقت طور پر کافی ہلکا محسوس کررہا تھا۔
منظر کی اس دلکشی کو موبائل کی آواز نے توڑا۔ شہیر نے کافی کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور موبائل کان سے لگالیا۔دوسری طرف ڈاکٹر شہزاد تھے۔
“کیسے ہو شہیر؟ خیریت سے پہنچ گئے ناں؟”
“جی۔ میں ابھی اسپتال کے لیے نکلنے والا تھا۔”
شہیر نے انھیں مطلع کیا۔
“ارے نہیں۔ تم آرام کرلو کچھ دن۔ کام تو ہوتا ہی رہے گا۔ اور پھر یہ ماحول تمہارے لیے نیا ہے۔”
ڈاکٹر شہزاد نے اس کی طبیعت کے پیش نظر اسے ریلیف دینا چاہا۔
“اس کی ضرورت نہیں ہے۔ سر! میں جوائن کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ویسے بھی بیکار بیٹھ کر کیا کرنا ہے؟”
شہیر نے سہولت سے انکار کردیا۔ ڈاکٹر شہزاد مسکرائے اور بولے۔
“ٹھیک ہے۔ جیسے تم بہتر سمجھو۔”
اور کال ختم کردی۔ شہیر نے موبائل جیب میں رکھا اور کافی کا مگ خالی کرکے ضروری سامان سمیٹ کر اسپتال کے لیے نکل گیا۔
یہ گلگلت کا ایک نواحی گاؤں تھا۔جہاں ڈاکٹر شہزاد نے اپنے چند ہمدردوں کے ساتھ ملکر ایک اسپتال اور ٹرسٹ قائم کی تھی۔ “سویرا” کے نام سے۔ امریکہ میں ہی ڈاکٹر شہزاد سے شہیر کی اس بارے میں گفتگو ہو چکی تھی۔ لیکن خود سے اور سارے جہاں سے ناراض ہو کر اس کے پاس اب یہی ایک راہ فرار بچی تھی۔ اور وہ ضیاءالدین صاحب سے خفا ہوکر یہاں چلا آیا تھا۔
اب اس کے سات سال انھی پہاڑوں میں گزرنے تھے۔
____________________________________
رات اچانک بہت بےرنگ ہوگئی تھی۔ عشال ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو کر کسی کی موجودگی کو محسوس ہی نہ کرپائی۔ نورین کی کتھا میں اسے اب ذرا برابر دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آیا۔ نورین کو اس اعتراف کی ضرورت کیوں پڑی؟ شاید وہ اپنے ضمیر کے سامنے سرخروئی چاہتی تھی۔ لیکن سوال یہ تھا کیا عشال کو اب اس سے کچھ فرق پڑتا تھا؟ یا پھر اس کا جرم اس قابل تھا کہ اسے معاف کردیا جائے؟
عشال نے اپنے دل کو ٹٹولا۔ مگر وہ خاموشی کی اتھاہ گہرائیوں میں تھا۔ وہ خود نہیں جانتی تھی۔ وہ نورین کو معاف کرسکے گی یانہیں؟
“جرم کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو، ناراضگی کیسی ہی کیوں نہ ہو، گلہ کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو۔ ظرف کا قد اس کے سامنے چھوٹا نہیں پڑنا چاہیے۔ کہ تعلق کا پرندہ گرفت چھوڑ جائے تو مڑ کر نہیں آیا کرتا۔”
عشال نے یک لحظہ انتظار کیا اور پھر اچانک رخ پھیر کر مڑی۔ ضیغم اس کے سامنے کھڑا تھا۔ نم شبی کی آب و تاب کے ساتھ۔
“کبھی کبھی ظرف کی روح پر کیا گیا کاری وار سہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ضیغم بھائی! آپ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں۔ میں انسان ہوں۔ مجھے بھی درد ہوتا ہے۔ زندہ وجود ہے میرا۔ زخم دینے والے دو لفظی جملہ کہہ کر شانت ہو جاتا ہے۔ اور آپ چاہتے ہیں میں کرلاؤں بھی ناں؟ بتائیے کیا قصور تھا میرا؟ جس کی سزا دی گئی مجھے؟ آپ نہیں سمجھیں گے؟ آپ سمجھ ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ آپ مرد ہیں۔”
“ہوسکتا ہے جو تمہاری نظر میں سزا ہو وہ محبت کی آزمائش ہو؟ کہ بہرحال انسان اور خاص طور پر مومن ضرور آزمایا جاتا ہے۔”
وہ سینے پر لپٹے ہاتھ کھول کر جانے کی نیت سے آگے بڑھی تھی کہ پشت سے ضیغم کی آواز ابھری تھی۔ وہ گلہ آمیز نظروں کے ساتھ پلٹی۔
“یہ میں نہیں اللہ کہہ رہا ہے۔ قرآن میں۔ ک
کہ فقط ایمان لانا کافی نہیں جب تک آزمائے نہ جاؤ۔ عشال! ہم آزمائے جاتے ہیں۔ مال جان عزت اور رشتوں کے ذریعے ہی نہیں۔ دعووں کے ذریعےبھی۔ کہ ہم کتنے سچے تھے۔”
عشال اپنی جگہ ساکت رہ گئی۔سالوں پہلے کی کہی ہوئی بات اس کے دماغ میں آکر ٹھوکر ماررہی تھی۔
“میں اللہ کو چاہتی ہوں۔”
“تمہاری چاہت شرک کے سوا کچھ نہیں۔”
وہ مزید اپنی ٹانگوں پر کھڑی نہ رہ سکی۔
____________________________________
“چل اڑ جا پولیا پنچھیااااا
تیرا کوئی نہیں پردیس میں ں ں ں
تجھے اپنا نہیں کوئی مانتاااا
تیرا کوئی نہیں پردیس میں ں ں ں”
زعیم انتہائی قنطی صورت بنائے لاؤنج کی کھڑکی کے شیشے سے ناک ٹکائے۔ اپنی شکل جیسے ہی سر بکھیر رہا تھا۔ جب شہیر نے آکر اس کے کندھے پر دھپ جمائی تھی۔
“ہیلو! خیریت؟ آج اتنے اداس سر کیوں بکھیرے جارہے ہیں؟”
“کیابتاؤں شہیر بھائی۔ میری تو ساری امیدیں ہی سیلاب میں بہہ گئیں۔ حالانکہ ابھی سیلاب کا موسم بھی نہ تھا۔”
“کیا ہوا ہے؟ سیدھی طرح بتاؤ۔ تمہاری پہیلیاں بوجھنے کا فضول وقت نہیں ہے میرے پاس۔”
شہیر نے گویا جلتی پر تیل ہی چھڑک دیا۔
“حق ہاہ! جن پتوں پر تکیہ تھا وہی ہوا دینے لگے۔”
زعیم نے ایک اور ٹھنڈا فائر کیا۔
“مسئلہ کیا ہے؟”
شہیر نے مسکرا کر اسے پچکارا۔
“کہا ناں؟ جن پتوں پر تکیہ تھا وہی ہوا دینے لگے۔”
اب کس منہ سے کہتا کہ اسے آبریش کے رویے نے مایوس کیا ہے۔ کھل کر محبت کا دم بھرنہیں سکتا تھا اور چپ رہنے کی حس اس میں ناپید تھی۔ سو بونگیاں مار رہا تھا۔
یہ صبح کے ناشتے کا وقت تھا۔ رات کو بارات کا فنکشن تھا اور چونکہ شادی والا گھر تھا تو دونوں گھروں کے افراد صبح ہی صبح اکٹھے ہوگئے تھے۔ سطوت آراء نے باورچی خانہ سنبھال رکھا تھا۔ اور آبریش نے بےپروائی۔ اسے کسی چیز سے کوئی غرض نہیں تھی۔ آج بھی وہ کسی ضروری اسائمنٹ کے لیے اکیڈمی جانے کے لیے تیار تھی۔
“اے ہے لڑکی! تم کہاں چلیں؟”
سطوت آراء نے اسے حیرت سے اسے سر تا پا دیکھا۔
“ماما پلیز آج مجھے کچھ مت کہیے گا۔ میں پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکی ہوں۔ فنکشن رات کو ہے اور میں لنچ سے پہلے آجاؤں گی۔”
آبریش نے عجلت میں جواب دیا اور پورچ کی طرف بڑھنا چاہا۔
“کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اوپر جاؤ اور کپڑے بدلو۔ کچن میں میری مدد کرو۔”
“ماما میں نے بہت اہم اسائمنٹ پک کرنا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے بس ڈیپارٹمنٹ کا چکر لگاؤں گی اور پھر واپس آجاؤں گی۔۔۔۔”
پلیز ماما!
سطوت آراء کو سوچ میں دیکھ کر آبریش کا حوصلہ بڑھا۔
“ٹھیک ہے۔ مگر زیادہ دیر مت کرنا۔”
“تھینک یو ماما!”
وہ فرط جذبات میں سطوت آراء کا گال چوم کر تیزی سے باہر نکل گئی۔
“ارے ناشتہ تو کرلو!”
سطوت آراء نے بلند آواز سے کہا۔ لیکن آبریش ان کی پکار نظرانداز کرتی ان سے دور جاچکی تھی۔
___________________________________
“نورین بی بی! ناشتے کے لیے آجائیں۔”
ملازمہ اس کے سر پر کھڑی پکار رہی تھی۔ نورین نے آہستہ سے گرم آنسو پونچھے اور خود کو سنبھالتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔
“تم جاؤ میں آرہی ہوں۔”
نورین نے ملازمہ کو ٹالا اور واش روم میں گھس گئی۔ خود احتسابی کا عمل آسان نہیں ہوتا۔ وہ بھی اسی کرب سے گزر رہی تھی۔ اور آٹھ سالوں کا بوجھ ایک رات میں بہادینا چاہتی تھی۔ مگر یہ اتنا آسان نہ تھا۔ اس نے سوچا تھا۔ عشال کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرلینے کے بعد شاید اس تلکیف سے، اس بوجھ سے نجات مل جائے گی۔ لیکن عشال کی خاموش نظروں نے اسے سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔
نورین نے پانی کے چھپاکے چہرے پر ڈالے مگر آنکھوں کی سوجن اور سرخی میں کمی نہیں ہورہی تھی۔ وہ چہرہ دھو کر باہر نکل آئی۔ اور انٹر کام پر ملازمہ سے ناشتہ کمرے میں ہی منگوالیا۔ اس حالت میں وہ کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
“پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ان لڑکیوں کو۔ ساری سر جوڑے باتیں بگھارتی رہی ہیں اور اب ناشتے کے لیے اٹھا نہیں جارہا۔ نورین کو پھر پارلر بھی لےجانا ہوگا۔ کتنے کام ہیں کرنے کو۔ اور یہ دونوں بستر توڑ رہی ہیں ابھی تک۔ اور ایک میری صاحبزادی صاحبہ ہیں۔ انھیں اپنی پڑھائی سے ہی فرصت نہیں۔”
سطوت آراء کے اپنے ہی غم تھے۔ اسی طرح بڑبڑاتے ہوئے انھوں نے ٹرے سجا کر ملازمہ کے حوالے کردی۔ اور خود عشال کی خبر لینے گیسٹ روم کی طرف بڑھ گئیں۔
____________________________________
“تم پورے فورٹی فائیو(45) منٹ لیٹ ہو۔”
وہ سفید پینٹ پر سیاہ ڈریسڈ شرٹ پہنے بہت مختلف لگ رہا تھا۔ بلکہ عام دنوں سے زیادہ پرکشش کہا جائے تو غلط نہ تھا۔ آبریش ایک لمحہ کو سانس لینا بھول گئی۔ وہ جو سیاہ گاگلز آنکھوں پر چڑھائے گاڑی سے پشت ٹیکے کھڑا تھا۔ آگے کو ہو کر آبریش کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی اور بولا۔
“کہاں گم ہو؟ تم نے بتایا نہیں اتنی لیٹ کیوں ہوگئیں؟”
آبریش چونکی۔
“گھر میں فنکشن ہے۔ نکلنا آسان نہیں تھا۔ ابھی بھی بس تھوڑی دیر کے لیے اجازت ملی ہے۔”
آبریش نے تیزی سے وضاحت کی۔
“اوکے! پھر ہمیں اس لمیٹڈ ٹائم کو ضائع نہیں کرنا۔”
اور کار کا اگلا دروازہ کھولا۔
“آج میں تمہیں رنگوں کی ایک نئی دنیا سے انٹروڈیوس کروانے والا ہوں۔”
اور آبریش جھجھکتی ہوئی فرنٹ سیٹ پر اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
سلور چمچماتی کار دھول اڑاتی انجانی راہوں پر آگے بڑھ گئی۔
جبکہ سڑک کے دوسری جانب پولیس اسٹیشن سے نکلتی نینسی نے یہ منظر نگاہوں میں چنگاریاں بھر کر دیکھا تھا۔
________________________________
سہ پہر ڈھل رہی تھی۔ دن کا کھانا نوش فرمایا جاچکا تھا۔ اب شام کے فنکشن کی گہما گہمی نمایاں ہورہی تھی۔ سب اپنی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اور سطوت آراء کے ماتھے پر تیوریاں گہری ہوتی چلی جارہی تھیں۔ آبریش جلد لوٹ آنے کا کہہ کر نہ جانے کہاں گم ہوگئی تھی کہ دن ڈھلنے کو تھا اور اس کی کچھ خبر نہیں تھی۔ سچ بات تو یہ تھی کہ سطوت آراء کے دل میں اب وسوسے سر اٹھانے لگے تھے۔ عجیب لاپرواہ لڑکی تھی۔ زندگی کے اہم معاملات کو سنجیدگی سے لیتی ہی نہیں تھی۔ دوسری طرف عشال تھی۔ کل رات سے اس نے چہرہ نہیں دکھایا تھا۔ صبح طبیعت خرابی کا کہہ کر ناشتہ بھی واپس بھجوا دیا تھا۔ عشال تو چلو اس کو مزاج ہی ایسا ہوگیا تھا۔ لیکن نورین نے بھی اچانک گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔ وہ بھی شادی کی تیاری میں ذمہ داری کاثبوت نہیں دے رہی تھی۔ سطوت آراء ایک بار پھر شہیر کے سر تھیں۔
“آبریش کو کال کرو کہاں ہے؟ کب تک گھر پہنچے گی؟”
آجائے گی ماما! کالج گئی ہے۔ پکنک پر نہیں۔ آپ اس کے لیے اتنی حساس نہ ہوا کریں۔ اسے تھوڑی اسپیس دیں۔ ابھی بہت وقت ہے۔”
شہیر نے انھیں شانوں سے تھام کر تسلی دینا چاہی۔
“تم ایک بار اسے فون تو کرو۔ آخر پتہ تو چلے ہے کہاں؟”
جب سطوت آراء نے زیادہ اصرار کیا تو شہیر نے ان کی خاطر ایک بار اس کا نمبر ملایا اور سیل کان سے لگالیا۔
چند لمحے بیل جانے کے بعد موبائل خاموش ہوگیا اور کمپیوٹر کی آواز سنائی دینے لگی۔
نمبر یو ہیو ڈائلڈ۔۔۔۔
شہیر نے دوبارہ کوشش کی لیکن دوسری جانب سے فون پاورڈ آف کردیا گیا۔
“کر کیا رہی ہے یہ لڑکی؟”
شہیر کے اندر تجسس نے سر اٹھایا۔
“کیا ہوا؟ کوئی جواب نہیں آیا ناں؟”
شہیر نے ماں کا پریشان چہرہ دیکھا اور بولا۔
“وہ شاید کلاس اٹینڈ کررہی ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ میں اس کے کالج چلا جاتا ہوں۔ میں لے آؤں گا۔”
سطوت آراء نے پریشانی سے شہیر کا چہرہ دیکھا۔
“شہیر سب ٹھیک تو ہے ناں؟”
عشال کے واقعے نے انھیں خود پر بھی اعتبار کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔
“کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ماما! میں آپ کی تسلی کے لیے ہی تو جارہا ہوں۔” اتنا کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
جبکہ کوئی چیز تھی جو اسے بھی کھٹک رہی تھی۔ جس کا اظہار وہ ماں سے نہیں کرسکا۔
_________________________________
“واؤ امیزنگ!”
اے۔زی اسے اپنے خوبصورت اسٹوڈیو میں لے آیا تھا۔ جہاں دیواروں پر خوبصورت شہہ پارے آویزاں تھے۔ تیسری دنیا کا ننگا چہرہ ان تصویروں میں بآسانی دیکھا جاسکتا تھا۔ آبریش اشتیاق سے ایک ایک شاہکار کو دیکھ رہی تھی۔ بلا شبہ وہ گاڈ گفٹڈ تھا۔
“ابھی تو تم نے کچھ دیکھا ہی نہیں ینگ لیڈی! میرا اصل کام تو وہاں ہے۔ پردے میں!”
شامی نے آبریش کی پشت سے جھک کر اس کے کان کے پاس کہا اور سامنے لگے بلائنڈز کی طرف اشارہ کیا۔
آبریش نے جوش میں محسوس ہی نہیں کیا کہ وہ ایک اجنبی کے ساتھ تنہائی میں ہے۔ اور وہ آبریش کے کسقدر نزدیک ہے۔
آبریش بنا پیچھے دیکھے تیزی سے آگے بڑھی اور بلائنڈز ہٹاتے ہی پتھر کی مورت میں ڈھل گئی۔
شامی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ دیے وہیں کھڑا رہا۔
اس کے “شاہکار” آبریش کا چہرہ سرخ کرگئے۔ مردوعورت کے جنسی اختلاط کا منظرنامہ پیش کرتے وہ مجسمے آبریش کو نگاہ جھکانے پر مجبور کرگئے۔ وہ لاکھ آرٹ کی دیوانی سہی لیکن اتنی بےدید بھی نہیں تھی کہ ایسی کھلی ڈلی نیوڈز کو ہضم کرپاتی۔ وہ بےاختیار پلٹی تھی۔
شامی دھیرے سے قدم قدم چلتا اس کے مقابل آکھڑا ہوا۔
“کیا ہوا؟ یہ بھی آرٹ ہی تو ہے۔”
“ہاں۔۔ مگر!”
آبریش سے بولا ہی نہیں گیا۔ اس کا حلق خشک ہوچکا تھا۔ شامی واپس پلٹا اور ایک سلیپ پر رکھے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلتے ہوئے بولا۔
“آرٹ ایک وسیع دنیا کانام ہے۔ اس میں ساری کائنات سما جاتی ہے۔ تمہیں اپنا ویژن ایکسٹریم رکھنا ہوگا۔ ورنہ تم خطاطی سے آگے نہیں بڑھ سکو گی۔ اپنی لائن تمہیں خود چوز کرنی ہے۔ کیونکہ میں خطاطی نہیں کرتا۔ اگر تمہیں میرے ساتھ کام کرنا ہے تو خود کو ان نام نہاد دائروں سے آزاد کرنا ہوگا۔ ورنہ دروازہ کھلا ہے۔ تمہارے پاس واپسی کا آپشن ہے۔”
اور گلاس آبریش کی طرف بڑھا دیا۔
آبریش کے ماتھے پر پسینے کی نھنھی بوندیں جگمگارہی تھیں۔ وہ کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ مگر پھر بھی اس نے فیصلہ کرلیا۔ وہ رنگوں سے بھری پلیٹ اٹھائے ہوئے ایزل کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔جہاں ایک نامکمل خاکہ اپنی تکمیل کا منتظر تھا۔
شامی نے اس کے برش والے ہاتھ پر اپنا ہاتھ جمایا اور اس کا ہاتھ تھام کر کینوس پر نیا اسٹروک لگایا۔ سفید سطح پر گلابی رنگ بکھرنے لگا۔
آبریش کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔ اس کے پرفیوم کی خوشبو آبریش کی پور پور میں اترنے لگیں۔ ان فسوں خیز لمحوں کو موبائل کی آواز نے چیر کر رکھ دیا۔ آبریش کے ہاتھ پر اے۔زی کی گرفت ڈھیلی پڑی اور آبریش نے دیکھا۔ شہیر کی کال آرہی تھی۔ اے۔ زی نے آگے بڑھ کر اس کا موبائل اسی کے ہاتھ میں آف کردیا۔
“ابھی مجھے تمہاری آنکھوں میں ان رنگوں کا عکس دیکھنا ہے۔ اور اس منظر کو کیپچر کرنا ہے۔”
آبریش اس کے اسٹروکس کی تو قائل تھی ہی۔ اس کے لفظوں نے بھی آج اسے تسخیر کرلیا تھا۔
___________________________________
شہیر کالج کے گیٹ پر کھڑا اطراف میں نظریں دوڑا رہا تھا۔ آبریش کی چند دوستیں جنھیں وہ جانتا تھا۔ ان سے کال پر بات کرچکا تھا۔ ان کے مطابق آج ان کے ڈیپارٹمنٹ کی کلاسز ہی آف تھیں۔ اساتذہ ہڑتال پر تھے۔ اور طلبہ کچھ تو گیلری میں اپنے ادھورے پروجیکٹس پر کام کررہے تھے تو کچھ واپس گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ لیکن آبریش ان میں کہیں فٹ نہیں ہوتی تھی۔ آبریش کی چند کلاس فیلوز نے اسے کالج میں دیکھا تھا۔ مگر وہ جلد ہی چلی گئی تھی۔ یہ سب کا مشترکہ بیان تھا۔ شہیر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اسے کیا کرنا چاہیے؟ سطوت آراء کی رائے اسے ٹھیک لگ رہی تھی کہ واقعی آبریش بہت غیر ذمہ دار ہوتی جارہی تھی۔ اگر اسے کہیں جانا بھی تھا تو کم ازکم اسے اطلاع تو دینی چاہیے تھی۔
شہیر کچھ دیر وہاں بےمقصد کھڑا سوچتا رہا کہ کیا کیا جائے۔ یہ کوئی حادثہ بھی ہوسکتا تھا۔ فون اس کا مسلسل بند جارہا تھا۔ تنگ آکر وہ کار میں بیٹھ گیا۔ اور ابھی گاڑی ریورس کی ہی تھی کہ مین روڈ سے ایک سلور کار کی پشت عین اس کے سامنے تھوڑے سے فاصلے پر رکی۔ اور آبریش اس میں سے برآمد ہوئی۔ شہیر کا خون کھول کر رہ گیا۔
آبریش کار سے باہر نکل کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کو ہاتھ ہلا کر خداحافظ کررہی تھی کہ ایک ہاتھ اس کی کلائی پر پڑا۔ اور اس قدر سختی سے اسے کھینچا گیا کہ وہ چیخ بھی نہ سکی۔ شہیر کا چہرہ دیکھ کر اس کی رنگت پل میں زرد پڑی تھی۔ اسے گمان بھی نہیں تھا کہ یوں دھر لی جائے گی۔
“بھائی! میری بات سنیں۔۔۔۔”
آبریش نے کچھ کہنا چاہا۔ کیا؟ وہ خود نہیں جانتی تھی۔
“تم سے تو میں بعد میں بات کروں گا۔”
اتنا کہہ کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کی طرف بڑھا۔ آن کی آن میں اسے گریبان سے پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ اور اس کی آنکھوں میں قہر آلود نظریں گاڑتے ہوئے بولا۔
“آج کے بعد میری بہن سے دور رہنا۔ ورنہ میں تمہیں جہنم رسید کردوں گا۔ تمہاری طرف ابھی بہت حساب باقی ہے۔ مسٹر ابشام زبیر!”
اور آبریش کو کھینچ کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
شامی نے بغیر ردعمل ظاہر کیے اپنا گریبان درست کیا اور ایک طنز بھری مسکراہٹ مسکراتا ہوا اپنی کار میں بیٹھ گیا۔
سڑک پر چند ایک لوگ تھے۔ مگر وہ انھیں گھور کر اپنے راستے جاچکے تھے۔ کسی نے بھی ان کے درمیان مداخلت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
“بھائی پلیز ایک بار میری بات تو سن لیں۔'”
آبریش نے شہیر کی منت کی۔
“چپ بالکل چپ! مجھ سے اس وقت بات مت کرو آبریش! تم نے مجھے بہت دکھ دیا ہے۔”
شہیر کی آنکھیں یکدم سرخ پڑگئی تھیں۔ اور اس کا غصہ اسے کچھ بھی کہنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس کے سامنے ماضی کی پوری فلم چل رہی تھی۔ عشال کی لٹی پٹی حالت۔ اور لوگوں کی بےلگام زبانیں۔ وہ کچھ بھی فراموش نہیں کرسکا تھا۔ اور یہ شخص طوفان بن کر ایک بار پھر ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا۔
___________________________________
مرتضی صاحب ضیاءالدین اور دیگر مہمانوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے۔ جب ان کے سیل کی رنگ ٹون بجی تھی۔ مرتضی صاحب نے کال دیکھی اور اٹھ کر ایک طرف بڑھ گئے۔ کال آفیشل تھی۔ چنانچہ چند ایک جملوں کے تبادلے کے بعد واپس ضیاءالدین صاحب کے پاس چلے آئے۔
“ضیاء مجھے ایک ضروری کام سے آفس جانا ہے۔ تم یہاں معاملات سنبھال لینا۔”
“خیریت؟ تم اس وقت کیوں جارہے ہو؟”
ضیاءالدین صاحب نے فکرمدی سے پوچھا۔
“ہاں سب خیریت ہے۔ بس ایک چھوٹا سا کام نمٹانا ضروری ہے۔”
مرتضی صاحب نے انھیں مطمئن کیا۔
“کب تک آجاؤ گے؟”
ضیاءالدین صاحب نے پوچھا۔
“واپسی کا کچھ کہہ نہیں سکتا۔ بس تم مہمانوں کا دھیان رکھنا۔”
ضیاءالدین صاحب نے سر ہلا کر انھیں یقین دہانی کرائی۔ اور مرتضی صاحب کار لے کر خود ہی نکل گئے۔
وہ آفس پہنچے تو ان کا ماتحت افسر ایک فائل لیے ان کا منتظر تھا۔
“فائل کمپلیٹ ہے؟”
مرتضی صاحب نے آفس میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
“یس سر! آپ چیک کرسکتے ہیں۔”
مرتضی صاحب نے گلاسز ناک پر ٹکائے اور فائل کا جائزہ لیا۔ سب کچھ ان کے حسب منشاء تھا۔
“ٹھیک ہے۔ سیل کھلواؤ!”
مرتضی صاحب نے کہا اور فائل ہاتھ میں لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
لوہے کے دروازے کھلنے کی بھاری آواز تارک راہداریوں میں گونج کر رہ گئی۔ زبیر عثمانی نے سر اٹھا کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ نک سک سے تیار رہنے والے وجیہہ زبیر عثمانی نہیں تھے۔ یہ وہ بادشاہ تھا۔ جس کا راج پاٹ نابود ہوچکا تھا۔ یہ ایک سزا یافتہ مجرم تھا۔ چند دن پہلے ہی عدالت نے انھیں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے سارے کیسوں میں مجرم قرار دے دیا تھا۔ وہ سرنیہوڑائے شکست خودردہ انسان تھا۔
مرتضی صاحب خاموشی سے ان کے مقابل بیٹھ گئے۔
“کہو! مرتضی غوری! اب کون سا نشتر آزمانے آئے ہو؟”
زبیر عثمانی نے جھکی گردن اٹھائی نہیں تھی۔
“کوئی نہیں! تمہاری مسز کا پیغام تم تک پہنچانا ہے۔ اور بس!”
مرتضی صاحب نے اطمینان سے کہا۔
“اور بس۔۔۔۔؟ یہ تو ممکن نہیں۔ تمہارے انتقام کی آگ اتنے جلدی کیسے سرد پڑسکتی ہے۔ مرتضی غوری! سچ بتاؤ اب کون سا نیا وار کرنا چاہتے ہو مجھ پر؟”
زبیر عثمانی کا لہجہ مردہ سا تھا۔ مرتضی صاحب نے فائل کھول کر زبیر عثمانی کے سامںے رکھ دی۔
“تمہاری مسز تم سے ڈیوارس چاہتی ہیں۔ میں یہ کاغذات تم تک پہنچانے کا مجاز تھا۔”
مرتضی صاحب کہہ کر خاموش ہوگئے۔ اور سگار کا دھواں چھوڑنے لگے۔
زبیر عثمانی نے کانپتے ہاتھوں سے فائل کو کھولا اور پڑھنے کی کوشش کی۔ مگر چند لفظوں نے ہی ان کی ہمت نچوڑ لی۔ یکلخت وہ بوڑھے نظر آنے لگے۔
زبیر عثمانی نے فائل پر رکھے پین کو اٹھایا اور تھرتھراتے ہاتھوں سے پیپرز پر دستخط کردیے۔
مرتضی صاحب نے پین جیب میں رکھا۔ فائل اٹھائی اور جانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ مگر ابھی انھوں نے قدم سیل سےباہر بھی نہیں رکھا تھا کہ زبیر عثمانی کا وجود ڈھیلا ہوکر کرسی سے زمین پر آرہا۔
____________________________________