زریاب آج نہ چاہتے ہوئے بھی کسی پارٹی میں آیا ہوا تھا۔ اسے ان پارٹیز اور دعوتوں سے شروع ہی سے چڑ تھی مگر اپنے والد کے بے حد اصرار اور منتیں کرنے پر وہ وہاں آگیا۔ وہ وہاں باری باری سب سے مل رہا تھا۔ اس کے والد نے ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا تھا اور دوسرا ہاتھ اس کے کمر کے گرد تاکہ وہ وہاں سے کہی اور نہ جا سکے۔ انہيں لگا تھا کہ وہ ملنا بھول گیا ہے اور لوگوں سے ملنا اور بات کرنا تو جيسے وہ جانتا ہی نہیں۔ اس لیئے وہ لاکھ کوششوں کے بعد بھی مصنوعی مسکراہٹ سجا کر وہاں کھڑے ہوئے لوگوں سے باتوں میں مصروف تھا۔ پھر بہت مشکل سے پانی کا بہانہ بناتے ہوئے وہ وہاں سے معذرت کرتے ہوئے ایک کونے پر آکر کھڑا ہوگیا۔ لوگوں سے ملنا اور ان سے باتیں کرنا اسے اس دنيا کا مشکل ترین کام لگتا تھا۔ وہ ابھی جیب میں ہاتھ ڈالے آرام سے کھڑا ہی تھا کہ اس کے والد نے اسے زور زور سے آوازیں دے کر اپنے پاس بلایا۔ وہ پیر پٹخ کر ان کی جانب بڑھا۔ ان کے پاس آتے ہی اس نے ایک سرسری سی نظر اپنے والد کے چہرے پر ڈالی۔
”زریاب مجھے تمہيں کسی سے ملوانا ہے!“ انہوں نے پيار سے زریاب کی طرف دیکھا جو آنکھيں پھیر کر ان کو گھور رہا تھا۔
”کس سے؟“ اس نے دبے لہجے میں کہا۔
”ان سے ملو!“ انہوں نے اپنے سامنے کھڑی دو خواتین سے اس کا تعارف کروایا۔ سامنے کھڑی عورت لگ بھگ کوئی پچاس سال کی تھی مگر اس کے برابر کھڑی معصوم شکل سی لڑکی کو دیکھ کر وہ ایک دم ٹھٹک سا گیا۔ وہ لڑکی ابھی جو نیچے اپنے جوتوں کی طرف دیکھ رہی تھی وہ اب سر اٹھا کر اوپر دیکھنے لگی۔
اوپر دیکھتے ہی سامنے نظر آنے والے چہرے کو دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔ وہ ایک دم ساکن وجود لیئے اسے دیکھنے لگی۔ زریاب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ کیسے بھول سکتا تھا اس چہرے کو؟ اس کی صورت کو؟ ان خوبصورت اور حسين آنکھوں کو؟ وہ اس قدر حیران تھا کہ وہ حیرت کے مارے بول نہیں پا رہا تھا۔
”آپ؟ عروسہ؟“ اس نے ایک دم کہا۔
************
مہرین دس بجے گھر سے نکل گئی تھی۔ ساتھ میں اس نے صرف ایک پرس اور موبائل ہی رکھا تھا۔ اس نے اس بات کے بارے میں عاشر کو نہیں بتایا تھا۔ وہ تقریباً گیارہ بجے اس جگہ پر پہنچ گئی۔ ہاتھ اور پاؤں دونوں گھبراہٹ کے مارے ٹھنڈے ہوگئے تھے اور سانس جیسے حلق میں ہی اٹک گئی تھی۔ وہ کوئى خالی ریسٹورنٹ تھا جہاں وہ اکیلی بیٹھی اس شخص کا انتظار کر رہی تھی۔ اسے بہت ڈر لگ رہا تھا اگر عاشر کو پتا چل گیا تو وہ اسے واقعی ایسا ہی سمجھے گا۔ ان سب حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی بس ایک ہی دعا تھی کہ آج جو بھی ہو بس اچھا ہو۔ پورے بارہ بجے دروازہ کھلا تھا۔ کوئى بہت آہستہ قدموں کے ساتھ اندر آیا تھا۔ مہرین نے بہت مشکل سے خود کو سنبھالا تھا۔ وہ ابھی تک اندر آنے والے شخص کو نہیں دیکھ سکی تھی۔ وہ ٹیبل کی دوسری طرف منہ پھیر کر بیٹھی تھی۔ مہرین نے اس کے قدموں کی آہٹ محسوس کی تھی۔
“پیچھے مت دیکھیے گا بس ویسے ہی بات کرتے ہیں۔” اس کی بھاری آواز مہرین کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ مہرین اب بہت سہم گئ تھی اور ہاتھ پاؤں ڈر کے مارے کانپنے لگے۔
”کیا چاہتے ہو تم؟“ مہرین نے ہچکچاتے ہوئے سوال کیا۔ وہ اب زور کا قہقہ لگا کر ہنسا تھا۔
“اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ ہمارے باس ویسے بھی کہتے ہیں کے آپ کمال کی بندی ہیں۔” وہ اب اور زور سے ہنسا تھا۔ مہرین کو تو ایسا محسوس ہوا تھا کہ اس کا دل اب بند ہونے والا ہے۔ پھر وہ کچھ دیر تک وہاں خاموش بیٹھی رہی۔
”آخر کیا چاہتے ہو تم لوگ؟ بتاتے کیوں نہیں؟“
مہرین سے رہا نہ گیا تو وہ چیخ کر بولی۔
“ہمارے باس بہت جلد آپ سے ملیں گے۔ یہ تو آپ کا ٹیسٹ ہے۔۔۔” یہ کہہ کر وہ شخص بھاگتا ہوا باہر نکل گیا۔ مہرین نے ایک دم پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ غائب ہوچکا تھا۔ وہ اس کے پیچھے بھاگی تھی۔ مگر باہر آتے ہی اسے کوئی دور دور تک کوئی نظر نہیں آیا تھا۔ اس نے بہت دور تک جا کر اس شخص کو ڈھونڈا مگر اس سڑک پر کوئی نظر نہیں آیا۔ وہ مایوسی کے ساتھ پیچھے پلٹی تو اس نے ایک گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھا۔ اسے آج کا واقعہ سمجھ نہیں آیا۔
وہ ابھی تک اس شخص کے ارادے سمجھ نہیں سکی تھی۔ اس نے ایک گہرا سانس بھرا اور پھر مین روڈ کی طرف نکل گئی۔
*********
زریاب عروسہ کو دیکھتے ہی پہچان گیا تھا۔ وہ آج کافی مختلف لگ رہی تھی۔ اس نے ایک گولڈن رنگ کا لمبا ڈریس پہن رکھا تھا اور ساتھ میں ہیلز بھی پہنی ہوئی تھیں۔ آج وہ بہت مختلف لگ رہی تھی۔ اس کی خوبصورتی زریاب کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ وہ ٹک ٹک باندھی اسے دیکھے جا رہا تھا۔ عروسہ اس کی نظریں خود پر محسوس کرنے کے بعد ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
”آپ جانتے ہیں انہيں؟“ زریاب کے والد نے اس سے پوچھا تو وہ شرمندہ ہوگیا۔
”جی یہ میرے ساتھ سمر کلاسز میں تھی۔“ اس نے عروسہ پر سے نظریں ہٹا کر کہا۔ عروسہ نے صرف ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر زریاب کے والد کو دیکھا۔
“ارے! یہ تو اچھی بات ہے شکر ہے یہ کسی کو تو جانتا ہے! یہ میرا بیٹا ہے مسز شہوار!” انہوں نے کافی دیر بعد سامنے کھڑی خاتون سے اس کا تعارف کروایا۔
“اچھا ماشاءاللہ! یہ میری بھانجی ہے۔ ویسے تو یہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔” وہ کہتے کہتے ہنس پڑیں تو عروسہ نے ناگواری سے ان کی طرف دیکھا اور پھر وہاں سے چلی گئی۔ زریاب اور اس کے والد اسے جاتا دیکھنے لگے۔ زریاب نے کندھے اچکا کر دیکھا۔
“میں دیکھتا ہوں پھر وہ خود اس کے پیچھے آگیا۔”
“عروسہ!” اس نے اسے آواز لگائی مگر اس نے صاف اسے اگنور کیا۔ وہ اب تیز قدموں کے ساتھ آگے جا رہی تھی۔ وہ اس کے پاس آنے کے لیئے آگے آگیا اور اس کا راستہ روک لیا۔
”کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟“ وہ مسکرا کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”جان گئ ہوں مسٹر زریاب!“ اس نے دوسری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
“تو وہاں سے کیوں آگیئں؟” وہ اب اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ وہی آنکھيں جو اسے اس وقت دیوانہ کر رہی تھیں۔
“میری مرضی ویسے بھی میں اور آپ انجان ہیں۔” وہ خفگی سے بولی۔
”واقعی! آپ کی محبت بس اتنی سی تھی؟“ وہ اب تھوڑا سا قريب آیا۔ اس کی بات پر وہ چونک گئ اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ زریاب کا یہ انداز اسے حیران اور تعجب میں مبتلا کر رہا تھا۔ وہ اس کی اس بات پر بلش کرنے لگی۔
”محبت؟ افف خوش فہمی کی بھی انتہا ہوتی ہے۔“ وہ اب اس کے راستے سے ہٹ کر دوسری جانب مڑی تھی۔ زریاب اس کی ناراضگی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
”مگر خوش فہمی ہونا اچھی بات نہیں؟“ وہ دوبارہ اس کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ چلتے چلتے کسی کونے پر آئے تھے۔ وہ دونوں اب اس پارٹی سے دور کسی لان میں آگئے تھے۔
”میرا پیچھا مت کریں!“ اس نے زریاب کو تنبیہ کی۔
“مگر اب تو کر چکا ہوں!“
”مجھے اکیلے رہنے دیں!“وہ چڑ کر بولی۔
“میری ایک بات سن لو۔” وہ اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
”نہیں!“ وہ ابھی مزید آگے جانے کے لیئے بڑھی تھی کہ زریاب نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لے کر اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ پتھر کی طرح ہوگئى۔ عروسہ کو لگا تھا کہ وہ ابھی بے ہوش ہو جائے گی۔
”بات سنو!“ وہ مسکرا رہا تھا۔
”چھوڑیں میرا ہاتھ!“ اس نے اپنے ہاتھ چھوڑانے کی کوشش کی۔
”بات تو سنو!“
“جو بھی بولنا تھا آپ بول چکے ہیں۔ میرا دل توڑ کر اب بات کرنا چاہتے ہیں!” وہ اداسی سے بولنے لگی تو وہ ہنسنے لگا۔
“میں اب وہی دل جوڑنا چاہتا ہوں!“ اس نے اس کی کلائی کو اپنی گرفت سے آزاد کیا۔ وہ اسے گھور کر دیکھنے لگی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اسے اس کی بات سمجھ نہیں آئى تھی۔
”وہ کیسے؟“
”ایسے! “ اس نے باکس اپنی جیب سے نکالا اور پھر ایک خوبصورت انگوٹھی نکال کر عروسہ کو پیش کی۔ عروسہ نے ٹھٹک کر اس کی طرف دیکھا۔
“جانتی ہو یہ رنگ میری ماں کی ہے میں اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہوں۔ یہ میں نے اس لیئے رکھی تھی جب مجھے وہ لڑکی ملے گی جو مجھے چاہے گی تو میں اسے اپنا دل اس انگھوٹی کی نشانی کے طور پر دوں گا۔ تم جانتی ہو تم ہو وہ جو میرے دل میں اتر چکی ہو۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں محبت میں گرفتار ہو چکا ہوں مگر اب میں محبت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ تم سے۔۔۔” وہ کہتے کہتے رک گیا۔
عروسہ کا سر چکرانے لگا اور پھر اسے لگا وہ کوئى خواب دیکھ رہی ہے۔ وہ بلکل سکتے میں کھڑی زریاب کو دیکھ رہی تھی۔
“کیا ہوا؟ “زریاب نے ہاتھ ہلا کر اسے جگایا۔
”یہ مذاق ہے یا خواب؟“ وہ ابھی تک ہوش میں نہیں تھی۔
”انگھوٹھی پہنا کر ہوش میں لانا پڑے گا۔“ وہ مسکرایا تو وہ سرخ ہوگئی۔
”مگر آپ مہرین۔۔۔“
“مہرین میرا ماضی ہے اور تم میرا کل پلیز مجھے ریجیکٹ مت کرنا ورنہ اب میرا دل ٹوٹ جائے گا قسم سے!” وہ نیچے جھکنے لگا تھا کہ وہ اس کے ہاتھ سے وہ رنگ لینے لگی۔
“ May I? ”
زریاب نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیئے۔ عروسہ تو کچھ بول نہیں پا رہی تھی اس نے صرف سر ہلا دیا۔ جیسے ہی اس نے انگھوٹی پہنائی زور دار تالیاں گونجنے لگیں۔ وہ دونوں حیران ہو کر باہر دیکھنے لگے تو سب لوگ جو پارٹی میں موجود تھے وہ چلتے ہوئے ان کی طرف آنے لگے۔ زریاب کے والد بھی مسکرانے لگے۔ وہ عروسہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے آگے لیا اور پھر اپنے والد کے پاس آیا۔
”بابا! Here’s my dream girl“ اس نے عروسہ کے قريب جھک کر کہا تو عروسہ کو لگا وہ زمين میں دھنس جائے گی۔
******************
عاشر کو آج بہت بہت تیز بخار تھا اسی لئے وہ کمرے میں آرام کر رہا تھا۔ مہرین چاۓ پی کر اب کتاب کا مطالع کر رہی تھی۔ بانو کچن میں میں کھانا بنا رہی تھیں۔ عاشر نے چیخ چیخ کر گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔
“بانو! کھانسی کی دوا نہیں ہے کیا؟” وہ کمرے سے باہر آکر زور زور سے بولنے لگا۔
“ڈھونڈ رہی ہوں میاں! تم نے تو ناک میں دم کر دیا ہے۔” بانو نے شدید غصّے سے کہا۔
“کب سے بیٹھا ہوں میں کچھ تو احساس کریں میرا۔” وہ اب مہرین کی طرف دیکھ رہا تھا جو اسے صاف اگنور کر کے کتاب پڑھ رہی تھی۔
“آرہی ہوں! اس عمر میں اتنا کام کروا رہے ہو۔۔۔ کچھ اپنی بیوی سے بھی کہہ دو۔” انہوں نے مہرین کی طرف اشارہ کیا تو وہ کتاب رکھ کر اوپر دیکھنے لگی۔
“بانو آپ سے ہی کہا ہے میں نے باقی اس گھر میں کس کو ہماری پروا؟۔۔” اس نے زبردستی کھانسا اور پھر کمرے کی طرف پلٹ گیا۔ مہرین نے آنکھیں گھما کر بانو کو دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر دوبارہ کتاب پڑھنے لگی۔
“بہت بخار ہے اسے کم از کم پوچھ ہی لیتیں۔” بانو نے ٹرے ہاتھ میں لئے مہرین کی لا پرواہی پر اسے ٹوکا۔
“آپ ہیں نا۔ اور وہ شیزہ دن رات بات کرتی ہے خدمت بھی کر لے گی۔” اس نے جل کر کہا۔
“بیوی تم ہو یا وہ؟”
“وہ بھی بن جائے گی جلد۔” مہرین کی باتوں سے ناراضگی صاف ظاہر تھی۔
“توبہ کر لو۔” بانو نے کہا۔
“آپ جائیں ورنہ کھانس کھانس کر اس نے ہمیں پاگل کر دینا ہے۔” وہ بولی۔
“تم دونوں کا کوئی حل نہیں ہے۔” وہ سرد لہجے میں کہتی ہوئی اوپر چلی گئیں۔ دروازہ کھٹکھٹا کر وہ اندر گئیں جہاں وہ بستر پر لیٹا ہوا تھا۔
“دوائی اور کھانا کھا لو۔” وہ یہ کہہ کر وہاں سے جانے لگیں تو عاشر نے اشارہ کر کے انہیں روکا۔ مہرین سے رہا نہ گیا تو وہ اوپر آنے لگی۔ وہ بھی اس کی خیریت جاننے کے لئے بےچین تھی مگر انا کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اپنے کمرے کی جانب جانے لگی۔
“بیٹا اتنی حالت خراب ہے تو ڈاکٹرز کو دیکھاتے۔ میں مہرین کو بتاتی ہوں۔” یہ آواز مہرین کے کانوں میں گونجی۔
“نہیں انہیں کیا بتانا؟ بلاوجہ پریشان ہوجائیں گی۔” عاشر نے درد بھری آواز میں کہا۔
“کھانسی میں خون آرہا ہے؟ مجھے فکر ہورہی ہے۔” وہ زور سے بولیں تو مہرین کو لگا کسی نے اس کا دم گھوٹ دیا ہو۔ اس کے ہاتھ پاؤں سے جان نکلنے لگی۔ اسے اب پہلے سے زیادہ پریشانی ہورہی تھی۔ وہ اس کی بات سن کر گھبرا گئی۔
“خون؟ اللّه کہیں اسے ٹی بی؟۔۔۔” اس نے یہ سوچ کر سر جھٹکا۔
“نہیں! نہیں!” وہ کسی الجھن کا شکار ہوگئی۔
کچھ دیر بعد بانو پریشانی کے عالم میں باہر آئیں تو مہرین اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور پوچھنے لگی۔
“وہ کیا ہوا عاشر کو؟ کیا خون کیا ہورہا ہے اسے؟”
“تم خود کیوں نہیں پوچھ لیتیں؟” بانو نے مشورہ دیا۔
“میں کیا پوچھو؟” اس نے جواب دیا۔
“جو کہنا اس سے کہہ دو۔” وہ یہ کہہ کر نکل گئیں۔ پہلے تو مہرین نے سوچا کے وہ کیا بات کرے اس سے۔ مگر پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے اس کے کمرے میں آگئی۔ عاشر پانی پی رہا تھا مہرین کو آتا دیکھ کر اس نے گلاس کونے پر رکھ دیا۔
“کیسی طبیعت ہے؟”
“بہتر!”
“نہیں میرا مطلب کھانسی ہے اب؟” وہ بمشکل بول سکی۔
“بخار ہے تو کھانسی بھی ہوگی نا!” وہ بول پڑا۔
“دوائی نہیں لی کیا؟ کھانسی سے خون بھی آرہا ہے کیا؟” عاشر نے مہرین کی آنکھوں میں اپنے لئے بےچینی محسوس کر لی تھی۔
“خدا نہ کرے! کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ؟” وہ تلملایا۔
“وہ نہیں مجھے لگا۔۔۔” مہرین بری طرح پھنس چکی تھی۔
“نہیں صرف بخار ہے۔” اس نے آنکھیں بند کر کے کہا۔ مہرین اب اس کی آنکھوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا ایک ایک نقش مہرین کے دل میں اتر رہا تھا۔ مہرین کی دل میں بےچینی ہونے لگی۔
“سردیوں میں کوٹ پہنا کرو۔” وہ جو اس کے بیڈ سے دور تھی اب اس کے قریب آکر بیٹھ گئی۔ اس کے قریب آنے پر عاشر نے آنکھیں کھول لیں۔
“آپ نکال دیا کریں۔” وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کے بیڈ پر بیٹھ کے اس کے اس قدر نزدیک ہونے پر وہ خود کو بہت مشکل سے قابو کر پائی تھی۔ پھر اس کی بات کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔
“عاشر تم اب شادی کر سکتے ہو۔ میں جانتی ہو تمہارے ساتھ بہت برا ہوا ہے مگر میں چاہتی ہو کے کس سب کا ازالہ ہو۔ تم نے شیزہ کو چاہا، وہ تمہاری خوشی تھی تم اس کو حاصل نہیں کر سکے مگر اب کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔” وہ نہ جانے کیوں یہ بات اتنی اس سے کہہ رہی تھی۔ اس کی یہ بات سن کر عاشر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
“آپ یہ کیوں چاہتی ہیں؟”
“عاشر میں گناہ گار ہوں تمہاری۔ میں نے بہت ظلم کیا ہے تمہارے ساتھ۔ میں اس کی معافی کے ساتھ ساتھ ازالہ کرنا بھی چاہتی ہوں۔” اس نے اس کی اداس آنکھوں میں دیکھا۔
“یہ سب باتیں اب پیچھے چھوڑ دیں۔”
“ترس مت کھاؤ مجھ پر!”
“بات ترس کی نہیں ہے!” وہ چڑ گیا۔
“عاشر ہم دونوں بہت الگ ہیں یہ بات جانتے ہو تم۔” وہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
“میں جانتا ہوں۔” پھر وہ آنکھیں بند کر کے دوبارہ لیٹ گیا۔ مہرین اب اس کے قریب آئ تھی۔ اس کو اپنے نزدیک پا کر وہ دوبارہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا۔ آج پہلی بار اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا وہ۔ مہرین کا وجود اس کے دل میں ہل چل مچا رہا تھا۔ مہرین نے کچھ سمجھے بغیر اس کے ماتھے پر اپنے ہاتھ رکھ دئے۔ اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے ہی وہ چونک گیا تھا۔ اس کے ہاتھوں کو خود پر محسوس کرتے ہی اس مہرین کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دئے تو وہ شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ اسے لگا وہ ابھی شرم کے مارے گر پڑے گی۔
“وہ میں تمہارا بخار چیک کر رہی تھی۔۔۔” کچھ الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے۔
“کتنا بخار ہے؟” وہ اب اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر اس کے چہرے کو اپنے قریب لیا۔ مہرین کی سانسیں اب رک گئیں اور دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
“فون بج رہا ہے میرا۔” اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ نہیں پائی۔
“تھوڑی دیر یہی بیٹھ جائیں۔” اس نے گزارش کی۔
“وہ۔۔”
پلیز!” وہ اس کا ہاتھ تھامے اس کی دل کی دھڑکنوں کو محسوس کر رہا تھا۔ پھر وہ اپنا چہرہ ہٹا کر پیچھے ہوئی اور اس کے پاس بستر پر بیٹھ گئی۔ وہ نہیں جانتی تھی آج عاشر کو کیا ہوا تھا۔ وہ کیوں اس طرح ریکٹ کر رہا تھا۔ مگر اس کا یوں اس کا ہاتھ پکڑنا اسے بہت عجیب لگا تھا۔
“بابا جان کی یاد آرہی ہے مہرین۔۔۔” وہ آنکھیں بند کئے بول رہا تھا۔
“ان کی یاد تو ہمیشہ ہی آئے گی عاشر۔” اس نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
“آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔”
“بولو۔”
“آپ مجھ سے ناراض ہیں؟” وہ اب مہرین کی جانب دیکھ رہا تھا۔
“نہیں۔۔۔”
“ہوں گی تو میں نے آپ پر الزام۔۔۔” وہ کہتے کہتے رک گیا۔
“تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ابھی یہ باتیں نہ کرو۔” وہ منمنائی۔
“میں نہیں جانتا میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں شاید۔۔۔ جیلس تھا۔” اس نے انکشاف کیا۔
“کیا مطلب؟ کس سے؟” اس نے ہونٹ سکوڑے۔
“زریاب سے ۔۔۔” وہ بولتے بولتے آنکھیں بند کر گیا اور پھر نیند کی وادی میں اتر آیا۔ مہرین نے اس کی طرف پیار سے دیکھا۔ وہ اس کی محبت میں پاگل ہورہی تھی۔ اس کی ہر بات اس کے دل کو اس کے لئے بےتاب کر رہی تھی۔
********
وہ دونوں بیٹھے ٹی وی پر کوئی شو دیکھ رہے تھے کے عاشر نے چینل بدل دیا۔
“عاشر وہی لگا دو۔” مہرین نے چڑ کر کہا۔
“بہت ہی کوئی بورنگ شو ہے مجھے میچ دیکھنے دیں۔” اس نے صاف انکار کیا۔
“کیا؟ تمہیں Narcos بورنگ لگ رہا ہے؟ تم خود ہو بورنگ!” اس نے ریموٹ لینے کے لئے ہاتھ آگے بڑھائے۔
“ڈرگز کے اوپر ہے بس اور آخر میں Pablo نے ویسے ہی مر جانا ہے۔” وہ بڑے آرام سے یہ کہتا ہوا میچ دیکھنے لگا۔
“عاشر میں تمہارا قتل کر دوں گی! تم نے مجھے اینڈنگ ہی بتا دی۔” وہ برہم ہوئی۔
“میں نے اندازہ لگایا تھا۔” وہ معصومیت سے بولا۔ مہرین کے تو غصے کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
“اگر اس season میں یہ ہوا تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔” مہرین نے دھمکی دی۔ اس کی بات پر وہ زور سے ہنسا تھا۔
“ویسے بھی کون سا چھوڑیں گی؟ شادی جو ہوگئی ہے۔” وہ شوخ ہوا۔ مہرین کی تو اور تپ گئی۔
“افف۔۔! ” اس نے منہ پھیر لیا۔
“اچھا میں نے بھی اپنا بند کر لیا۔ایک گیم کھیلتے ہیں ٹھیک ہے؟” وہ صوفے پر پیر لٹکا کر بیٹھ گیا۔
“مجھے نہیں کھیلنا۔”
“گیم ہے rapid fire”
“تمہیں کیا دورے پڑھتے ہیں؟” مہرین نے سر جھٹک کر کہا۔
“یہ ڈیئر دی ہے میں نے۔” وہ ہنسا۔
“اچھا ٹھیک ہے۔”
“سٹارٹ، پسندیدہ مووی؟”
“میری؟ Prestige”
“ہاں مجھے بھی۔ اب یہ بتائیں پسندیدہ ایکٹر؟”
“ظاہر ہے Christian Bale”
“فضول! پسندیدہ سونگ؟”
“کوئی بھی نہیں سارے ہی ہیں۔”
فضول! اچھا پسندیدہ بینڈ؟”
“سوچنے دو۔۔ہاں Linkin Park!” مہرین خوشی سے بولی۔
“پسندیدہ مصنف؟”
“کوئی ایک نہیں چلو بتا دیتی ہوں Harper Lee” وہ کہنے لگی۔
“بورنگ!” وہ ابھی اور سوال کرتا اگر اندر آتی بانو انہیں بلاتی نہیں۔
“کھانا کھا لو دونوں اور مہرین آج فون آیا تھا کسی کا پتا نہیں کون تھا۔” بانو پھر اندر چلی گئیں۔ مہرین اب نظریں چرا کر دوسری جانب دیکھنے لگی۔
*********
عاشر کے بےحد اصرار پر وہ دونوں آج ہونے والے بہت ہی بڑے فیملی فیسٹیول میں آئے تھے۔ عاشر بے انتہا بور ہورہا تھا اسی لئے وہ بےزاری کے ساتھ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ وہ لوگ ابھی کسی پینٹنگ کے پاس کھڑے ہی تھے کے زریاب نے آکر مہرین کا کندھا تھپکا۔
“مہرین! بڑے لوگ!” وہ بہت ہی خوش مزاجی کے ساتھ آگے بڑھا۔
“زریاب تم یہاں!” مہرین اس کے گلے لگی مگر ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھ کر وہ فوراً پیچھے ہٹی۔
“ہاں میں بہت بور ہورہا تھا تو یہاں آگیا۔ یہ عروسہ ہے۔ ” اس نے عروسہ کی طرف اشارہ کیا جو تشویشی نگاہوں سے مہرین کو دیکھ رہی تھی۔
“آپ مہرین؟” اس نے جھٹ ہاتھ آگے بڑھایا تو مہرین مسکرا دی۔
“ہم پہلے مل چکے ہیں؟ خیر مل کر خوشی ہوئی تم سے۔” مہرین اب مسکرا کر زریاب کو دیکھ رہی تھی۔
“میں آتی ہوں۔” وہ وہاں سے نکل گئی۔ عاشر پیچھے کھڑا ان دونوں کو اگنور کر رہا تھا۔
“تم کتنے بدتمیز ہو! کب سے چل رہا تھا یہ سب؟ مجھے بتایا تو ہوتا!” مہرین نے بھنویں سکڑ لیں۔
“میں کیا بتاتا مہرین حالات۔۔۔” وہ بول نہیں سکا۔
“بات کہاں تک پہنچی ہے؟” مہرین اب اسے سے ہر بات پوچھنا چاہتی تھی۔
“تم یہ بتاؤ کے تمہاری بات کہا تک پوہنچی ہے؟ لگتا ہے آپ کے شوہر آپ کے بغیر تڑپ رہے ہیں۔” اس نے سامنے دیکھتے ہوئے عاشر کو دیکھا جو فون پر کوئی کام کر رہا تھا۔ مہرین نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
“ابھی تک تو کوئی خاص نہیں۔” وہ آج بہت خوش تھی۔
“تم جاؤ اس سے پہلے وہ تمہاری یاد میں پاگل ہوجائے۔” زریاب نے اس کا کندھا تھپکا۔ مہرین اسے چھوڑ کر عاشر کی طرف آئی۔
“چلیں؟” وہ فون کو ہی دیکھ رہا تھا۔
“ہاں!” وہ ہامی بھر کر ساتھ جانے لگی۔ وہ لوگ آگے کی طرف جارہے تھے کے ایک آواز نے مہرین کے ہوش اڑا دئے۔
“مہرین؟” اس نے ان دونوں کا راستہ روک دیا۔ مہرین کا دل اچھل کر حلق میں آگیا اور وہ گھبرا کر پیچھے ہوئی۔
“تو۔۔۔تم۔۔۔؟” مہرین کی آواز میں گھبراہٹ ظاہر تھی۔
“ارے! پہچان تو لیا ہوگا۔” وہ مسکرا کر مزید آگے آیا۔ عاشر نے اب مہرین کو دیکھا جو خود بےحد پریشان لگ رہی تھی۔
“مہرین اپنے شوہر سے تعارف تو کروائیں۔ میں ارحم مہرین کا ایکس ہسبینڈ۔” ارحم بہت ہی ڈھیٹائی کے ساتھ سامنے کھڑا تھا۔ عاشر اسے دیکھتے ہی پہچان گیا تھا اور یہ جملہ عاشر کو ناگوار گزرا تھا۔
“چلو عاشر!” اس نے عاشر کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیا۔
“ارے بیبی! کیا ہوا؟ اتنی جلدی بھول گئی؟ ہم نے تو چھ مہینے ساتھ گزارے ہیں؟” ارحم کی آواز وہ نہیں بھولی تھی۔
“ہمیں گھر جانا ہے ارحم!” وہ وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔
“پیچھلے آٹھ مہینے سے بات کر رہے ہیں ہم اور تم مجھے اگنور کر ررہی ہو۔۔” وہ ابھی بولا ہی تھا کے عاشر غصّے میں آکر آگے بڑھا تو مہرین نے اسے روک لیا۔
“جسٹ شٹ اپ! چلو عاشر!” ایک ہاتھ اس نے عاشر کو دیا اور دوسرے کندھے سے ارحم کو دھکا دیتی ہوئی جلدی باہر کی طرف جانے لگی۔
گاڑی میں بیٹھتے ہو وہ دونہوگئے۔ عاشر نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا پھر گاڑی میں ed sheeran کا گانا ‘Photograph’ لگا دیا۔ وہ تو شرم کے مارے عاشر سے نظریں نہیں ملا پائی۔ گھر آتے ہی وہ اتر کر اوپر جانے لگا تو مہرین نے اسے روکا۔
“وہ۔۔۔ جو تم سمجھ رہے ہو ویسا نہیں ہے! میں۔۔۔” وہ ابھی بولنے لگی تھی کی عاشر نے مسکرا کے اپنے ہتھیلی اس کے ہونٹوں پر رکھ دی۔
“میں جانتا ہوں۔ آپ کچھ مت کہیں!”
مہرین ایک دم گھبرا گئی اس کی یہ حرکت وہ سمجھ نہ سکی۔ اپنے ہونٹوں پر اپنے ہاتھ محسوس کر کے وہ شرم سے لال ہوگئی تھی۔ اس کی دھڑکنیں تیز ہونے لگی تھیں۔ وہ پھر پیچھے پلٹ کر ٹی وی لاؤنج کی طرف چلا گیا اور مہرین پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔
*********
زندگی سے غم کے بدل چھٹ گئے تھے۔ وہ بھی اپنا دل عاشر کے دل سے جوڑ چکی تھی۔ مگر آج نہ جانے کیا ہوا کے اس نے عاشر کی ڈائری پڑھ لی۔ وہ نہیں جانتی تھی کے ماضی میں وہ شیزہ سے پیار اتنا پیار کرتا تھا۔ اس نے شیزہ کے لئے شعر لکھے تھے۔ وہ جانتی تھی کےاس نے بابا جان کی وجہ سے یہ فیصلہ قبول کیا تھا۔ وہ بوجھل لئے کمرے سے باہر آئی اور پھر اس نے اپنی زندگی کے بارے میں سوچنےلگی۔
وہ آفس میں بیٹھا مسکرا رہا تھا کے عدیل کے آنے پر وہ اپنے تاثرات چھپا کر کام کرنے لگا۔
“اہو! مسکراہٹ تو دیکھو!” عدیل نے چاۓ پیتے ہوئے کہا۔
“بس ویسے ہی۔” وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس آگیا۔
“ویسے ہی؟ بس کر دے!” عدیل نے قہقہ لگایا۔ عاشر نے اس کی بات ان سنی کردی۔
“کیا کبھی شدید نفرت سے شدید محبت ہو سکتی ہے؟ مجھے تو لگا تھا نفرت کی آگ جلا کر راکھ کر دیتی ہے مگر محبت تو جلاتی نہیں برباد کر دیتی ہے۔” وہ کسی سوچ میں گم تھا۔
“کیا تم مہرین سے؟۔۔” عدیل کے سوال پر وہ مسکرایا تھا۔
**********
مہرین کو دو ہفتے بعد ہی امریکہ سے میل آگئی تھی۔ اس نے وہ ایک بار پھر وہ میل غور سے پڑھی اور اپنی انگلیوں سے سر دبانے لگی۔ یہ فیصلہ کرنا اس کے لئے بہت مشکل تھا مگر اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے اس نے دو ہفتے کی مزید مہلت مانگی۔ وہ نہیں جانتی تھی کے یہ فیصلہ اس نے کیوں کیا ہے۔
“مہرین! مہرین!” عاشر نے آواز لگائی۔ وہ اپنے کمرے میں تھی مگر عاشر کی آوازوں پر نیچے آگئی۔
“وہ میں ایک ہفتے کے لئے کسی کام سے مری جارہا تھا تو سوچا آپ کا بھی ٹکٹ کروا لوں تو یہ لیں۔” اس نے آتے ہی اسے بتایا۔
“مری؟ میرے لئے ٹکٹ کیوں؟ تم چلے جاتے؟” وہ ابھی کسی ذہنی اذیت سے دوچار تھی۔
“کیوں؟ ۔۔۔ مفت کا سمجھ لیں اسے۔” وہ کندھے اچکا کر بولا۔
“عاشر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟ ” وہ نہ جانے کیا بول گئی تھی۔
“کیونکہ میں کرنا چاہتا ہوں۔”
“تم ابھی تک نہیں سمجھ سکے ہو۔” مہرین نے افسردگی سے کہا۔
“ابھی تو آپ جانے کی تیاری کریں بعد میں ہر بات کا حل ڈھونڈ لیں گے۔” وہ اس کی بات کو اگنور کر کے کھانا کھانے کے لئے چلا گیا۔
“بعد میں میں نہیں ہوں گی۔”
*********
وہ لوگ مری میں ایک بہت ہی اچھے اور مہنگے ہوٹل میں رکے تھے۔ انہیں آئے ہوئے تین دن ہوگئے تھے مگر عاشر آفس کے کاموں کی وجہ سے مہرین کو کہیں گھمانے نہیں لے گیا۔ وہ خود بھی سردی سے بچنے کے لئے اپنے کمرے میں ہی رہتی تھی۔
اس دن شام کا وقت تھا جب وہ شدید بور ہورہی تھی۔ اس نے ایک شال لپیٹی پھر کچھ سوچے بغیر باہر آگئی۔ مری میں اس وقت موسم بہت ٹھنڈ اور جان لیوا تھا۔ آج مری میں زبردست برف باری کا امکان بھی تھا۔ شام کے وقت تو موسم مزید ٹھنڈا اور خشک ہو چکا تھا۔ وہ ہوٹل سے بہت دور چلتی ہوئی کہیں اور آگئی تھی۔ ایک زور دار ہوا کا جھونکا آیا اور اس کے سارے بال کھول کر منہ پر بکھر گئے۔ اسے اب سردی لگنے لگی تھی۔ پھر کچھ دیر تک وہ سوچتی رہی۔ ارحم اس دن کے بعد سے اس کی زندگی میں واپس نہیں آیا تھا اور اس نے پھر کبھی اسے میسج نہیں کیا۔ وجہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
ابھی وہ تھوڑا اور آگے آئی تھی کے ہوا چلنے لگی اور مہرین کو اپنا جسم اکڑتا ہوا محسوس ہوا۔ عاشر مہرین کو ہوٹل میں نہ پا کر پریشانی لے عالم ادھر ادھر پھرتا رہا۔ شام کے اس وقت اکیلے وہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہا تھا۔
“یا اللّه کہاں ڈھونڈوں میں؟” وہ ابھی دوسری روڈ کی طرف آیا تھا کے سامنے سے چلتی ہوئی مہرین کو دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی۔ وہ شدید غصے میں چلتا ہوا اس کی طرف آیا کے برف باری شروع ہوگئی۔ برف کے چھوٹے چھوٹے گولے اس پر گر رہے تھے۔
“آپ پاگل تو نہیں ہیں؟” اس نے جلدی سے اپنا کوٹ اسےاڑایا۔ وہ جیسے کسی خواب سے جاگی تھی۔
“سوری میں یوں ہی آگئی۔” اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ زبردستی اسے ہوٹل میں لے آیا۔ پھر کمرے کا ہیٹر آن کر کے اسے کنمبل اڑایا۔
“اتنی برف باری باہر کیوں گئی آپ؟” وہ ابھی تک اس پر غصہ تھا۔
“دل کر رہا تھا۔”
“سردی میں اب بخار چڑھے گا۔”
“میرا دماغ مت کھاؤ عاشر!” اس نے چھینکا۔
“دماغ نہیں بھوسہ ہے۔”
“جسے تم ہر روز کھاتے ہو۔”
“نیکی کا زمانہ نہیں ہے بھئ۔”
“اچھا نا! اب سونے دو۔” مہرین نے کانوں پر ہاتھ رکھ دئے۔
“کل میں آپ کو لے جاؤں گا ایک جگہ!” وہ اسے بتانے لگا۔
“بڑی جلدی خیال آگیا۔ اچھا مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے وہ خبر میرے لئے اتنی خوشی کی نہیں ہے جتنا شاید تمہارے لئے ہو۔” وہ بہت مشکل سے کہہ پائی۔
“ہاں بولیں؟” عاشر نے گھبرا کر اس کی جانب دیکھا۔
“میں نے امریکہ میں بطور ٹیچر اپلائی کیا تھا۔ وہ لوگ مجھے دو سال کے کنٹریکٹ کے ذریعہ وہاں بلا رہے ہیں۔ میری ایپلیکیشن کا جواب آگیا ہے اور انہوں واپس میل کرنے کا کہا۔” اس نے اس ای میل کا پرنٹ اوٹ نکال کر اسے دکھایا۔ عاشر اس وقت کچھ کہنے یا کچھ سوچنے کی حالت میں نہیں تھا۔ وہ کسی سکتے میں تھا شاید اسے دھچکا لگا تھا۔ اس کی آنکھیں نم ہونے والی تھیں کے جلدی سے وہ اپنی آنکھیں صاف کرنے لگا۔
“کونگراٹس! یہ تو اچھی بات ہے۔” اس نے وہ کاغذ واپس لوٹاتے ہوئے کہا۔ مہرین کی آنکھوں کی چمک پل بھر میں ہی ختم ہوگئی تھی وہ مزید اور کیا سننا چاہتی تھی؟
“میں جلد ہی امریکہ چلی جاؤں گی یہ میرا خواب تھا عاشر میری خواہش تھی میں اس کالج میں ٹیچر کے طور پر جاؤں! میری زندگی یہ سب نہیں ہے میں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔۔ اور تم۔۔۔تمہارا بھی حق ہے عاشر تم بھی اپنی زندگی جیو جیسے تم چاہتے تھے۔ شیزہ اور تم میں جانتی ہوں وہ آج بھی تمہاری منتظر ہے۔۔” وہ کہتے کہتے خاموش ہوگئی تو عاشر سر جھکا کر پلٹ گیا۔
“آپ خوشی سے جائیں مگر مجھے مشورے نہ دیں۔ میں جانتا ہوں مجھے کیا کرنا ہے۔” وہ پیر پٹخ کر باہر نکل گیا۔
کمرے سے باہر نکلتے ہی اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ اسے لگا جیسے اس کا دل ڈوب رہا ہو۔ وہ بوجھل دل لئے وہاں سے کھڑکی کی جانب کھڑا ہوگیا۔ باہر اب رات کا اندھیرا چھایا ہوا تھا اور سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں اس کے چہرے کو چھو رہی تھیں اور وہ اطمینان سے وہاں کھڑا مہرین کی باتوں پر غور کر رہا تھا۔
**********
آج وہ لوگ نتھیا گلی کی طرف نکلے تھے۔ وہاں کا موسم تو غضب کا سرد اور جان لیوا تھا۔ عاشر اور وہ بہت آہستہ آہستہ اوپر کی طرف چڑھ رہے تھے۔ مہرین کو اوپر آتے آتے ڈر لگ رہا تھا مگر وہ اپنی زبان بند کئے اوپر چل رہے تھے۔ hiking تو ویسے ہی عاشر کو بچپن سے پسند تھی۔ مزید اوپر چڑھتے ہی ایک اونچی چٹان آئی تو مہرین وہی رک گئی مگر عاشر آرام سے اوپر چڑھ گیا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد مہرین کو وہاں نہ پا کر وہ گھبرا گیا۔
“مہرین!” اس نے زور سے آواز لگائی تو دیکھا وہ ابھی تک نیچے کھڑی تھی۔ برف میں اتنا چلنا اسے بہت مشکل لگ رہا تھا۔
“میں یہی ہوں تم جاؤ!”
“کہاں وہیں؟ اس سردی میں یہاں کہاں کھڑی رہیں گی؟ اوپر ریسورٹ ہے وہاں تک جانا ہے۔” وہ بہت زور سے بات کر رہا تھا۔
“یہ تمہاری وجہ سے ہوا ہے! Pyscho! میں نہیں آرہی۔” مہرین کی ہمت جواب دے گئی۔
“میری وجہ سے؟ مجھے کیا پتا تھا آپ کو اونچائی سے ڈر لگتا ہے؟” وہ تنگ ہو کر بولا۔
“میں ڈر نہیں رہی بس سردی لگ رہی ہے!”
“اگر ڈر نہیں لگتا تو اوپر آجائیں؟” اس نے اسے چیلنج کیا۔
“اگر میں آتے آتے گر کے مر گئی تو تمہارے سر الزام ہوگا!” مہرین نے تھوک نگلا۔
“آ بھی جائیں!” اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
“مم۔۔مم۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے!” اس نے ہار مان لی تھی۔ وہ جو اوپر کھڑا تھا اپنا ہاتھ مزید نیچے لے آیا۔
“ہاتھ دیں!” اس نے جھک کر ہاتھ آگے بڑھایا۔
“صبر کرو نا!” اس نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ عاشر کو دئے تو وہ زور لگاتے ہوئے اسے اوپر کی طرف کھینچنے لگا۔ اوپر چڑھتے ہی اس کا توازن بگڑا تھا اور اگر عاشر اس وقت اسے کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب نہیں کھینچتا تو وہ نیچے گری ہوتی۔ وہ ایک دم اس کے سینے سے جا لگی پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کی شرٹ کا کالر تھامے خود کو سہارا دینے لگی ہی تھی کے وہ دونوں ہی اس سچیوشن کو سمجھ نہ سکے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے لگے۔ مہرین کا دل تو جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا ہو اور عاشر خود مہرین کے اس قدر قریب تھا کے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ سکتا تھا۔ اس وقت وہ دونوں ایک دوسرے کی دھڑکنوں کو سن سکتے تھے اور ایک دوسرے کے جذبات محسوس کر سکتے تھے کے سامنے سے آتے اور لوگوں کو دیکھ کر وہ ہوش میں آئے۔
“میرا ہاتھ!” وہ اپنا ہاتھ چھوڑاتے ہی پیچھے ہوئی۔ تو عاشر بھی ہوش میں آیا اور ایک دم چونک کر پیچھے ہوا۔ دونوں نظریں چرا کر دوسری طرف دیکھنے لگے۔ مہرین تو شرم سے لال ہورہی تھی اسی لئے وہ جلدی جلدی اوپر جانے لگی۔
********
زریاب عروسہ کو لے کر واپس اپنے سٹوڈیو آیا تھا مگر پیچھلے تین گھنٹوں میں اس نے بمشکل ایک لکیر ہی کھینچی تھی۔
“یار تم کیوں نہیں بنا لیتی؟” وہ ہاتھ اپنے سر پر مارتے ہوئے بولا۔
“مجھ سے نہیں ہوتا یہ مجھے صرف شاپنگ اور موویز کا شوق ہے۔” اس نے لا پرواہی سے شانے اچکائے۔
“کیا کر سکتی ہو تم اس کے علاوہ؟ میں چاہتا ہوں تم سیکھو تاکہ تم آگے بہت کچھ کر سکو۔”
“مجھے آگے کچھ نہیں کرنا۔” وہ منہ بنا کر بیٹھ گئی۔ زریاب کو اس کی معصومیت پر پیار آیا۔
“پھر کیا صرف مجھ سے شادی کرنی ہے؟” وہ زور سے ہنسا۔
“اب ایسی بات بھی نہیں ہے۔ اتنی نالائق بھی نہیں ہوں میں۔۔۔” وہ ابھی یہ کہہ ہی رہی تھی کے سارا پینٹ اس کے کپڑوں پر گر پڑا۔
“افف اس سے بھی زیادہ ہو۔” وہ اب زور سے ہنس کر اس کے قریب آیا تھا۔
********
“مہرین پلیز صرف چار دن کی بات ہے نانی جان آپ سے ملنا چاہتی ہیں اور شیزہ کی بہن کی شادی بھی ہے وہاں جانا ضروری ہے۔” وہ کب سے اس کی منتیں کر رہا تھا اور وہ مان کے نہیں دے رہی تھی۔
“میں وہاں جا کر کیا کروں گی؟ مجھے ویسے بھی امریکہ جانا ہے دو ہفتے بعد۔” اس کی اس بات پر عاشر کا چہرہ زرد پڑ گیا۔
“آپ جائے گا مگر ابھی آپ صرف تین دن لے لئے ہی صحیح ملتان چلیں۔” وہ ضد کر رہا تھا اور اس کی ضد کے آگے مہرین نے ہتھیار ڈال دئے۔
“تم بہت ہی عجیب ہو۔” مہرین نے اسے گھورا۔
“شکریہ۔” اس نے جھک کر کہا۔
کل صبح ہی وہ لوگ ملتان کے لئے روانہ ہو گئے تھے۔ وہاں کا تو ماحول ہی عجیب تھا۔اندر آتے ہی کوئی بہت ساری عورتوں نے انہیں گھورا پھر مہرین کو دیکھ کر ادھر ادھر دیکھنے لگیں۔
“نانی جان!” عاشر نے آواز لگائی تو وہ جو کچن میں تھیں بھاگ کر اس کی طرف آئیں۔
“آگیا میرا بچا! نانی کی جان!” انہوں نے آتے ہی عاشر کا منہ چوما اس کو گلے سے لگایا۔
مہرین صرف پھٹی آنکھوں سے اس گھر کو دیکھ رہی تھی۔
“اسلام علیکم!” مہرین نے انہیں سلام کیا تو وہ اسے دیکھ کر مسکرا دیں۔
“وعلیکم اسلام! جیتی رہو!” انہوں نے مہرین کو ماتھے پر بوسہ دیا۔
“عاشر اتنی پیاری تو ہے ماشاء اللّه! تم تو بلاوجہ اسے چڑیل کہتے تھے۔” انہوں نے بغیر سوچے یہ بات کہہ ڈالی۔ عاشر ایک دم عجیب سا ہوگیا اور مہرین نے غصے میں اسے دیکھا ۔
“آپ غور سے دیکھیں نانی جان آپ نے غالباً چشمہ نہیں لگایا ہوا۔” وہ یہ کہتا ہوا رضا کی طرف بھاگا۔
“بہت ہی بدتمیز ہے یہ لڑکا!” فرح مالک تو جیسے اس بات کو مذاق میں لے گئیں۔۔
“آجاؤ اندر سب سے ملواتی ہوں تمہیں۔” وہ زبردستی ہاتھ پکڑ کر مہرین کو اپنے ساتھ لے گئیں اور وہ تعجب کے ساتھ عاشر کی طرف دیکھنے لگی جو مزے سے رضا سے باتیں کرنے میں مصروف تھا۔
پھر کسی بڑے کمرے میں وہ اسے ایک ایک کر کے ہر کسی سے ملوانے لگیں اور وہ مجبور ہو کر ہر کسی سے ملنے لگی۔ پورے ایک گھنٹے ان عورتوں کے ساتھ گزار کر وہ باہر آئی تو شیزہ اور عاشر کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی۔ وہ آرام سے اس سے باتیں کر رہا تھا۔ شیزہ بھی ہنس رہی تھی مگر ان دونوں کو یوں دیکھ کر اسے کچھ دل میں چبھن سی ہوئی۔ وہ پیچھے مڑنے لگی تھی کے کسی لڑکے سے ٹکرا گئی۔ وہ شاید شیزہ کا بھائی تھا۔
“سلام بھابھی!” وہ شوخ انداز میں بولا۔
“وعلیکم اسلام! آپ کا تعارف؟”
“میں رضا شیزہ کا بھائی۔ اور آپ ہماری بھابھی۔”
“جی یہ بتاؤ ہمارا کمرہ کہاں ہے؟ مجھے آرام کرنا ہے۔”
“میں لے چلتا ہوں آئیں۔” اس نے دوسرے راستہ اختیار کیا اور وہ پیچھے مڑ کر ایک نظر عاشر اور شیزہ پر ڈال کر اوپر چلی گئی۔ وہ اسے اوپر والے کمرے میں لے آیا اور پھر کمرہ دیکھا کر وہاں سے جاتے جاتے بولا۔
“اپنے شوہر پر نظر رکھیے۔” پھر ہنس کر چلا گیا۔
**********
وہ اب ملتان میں تھے وہ بھی اس کی نانی کے گھر پر۔ وہاں الگ کمرے کا بولنا تو مناسب نہ تھا مگر یوں کمرے میں ایک ساتھ رہنا مہرین کو مشکل لگا تھا۔ وہ اس قدر تھکی ہوئی تھی کے وہ بغیر سوچے سمجھے بیڈ اپر لیٹی اور سو گئی۔ عاشر اپنے گھر والوں کے ساتھ مزہ کر کے اوپر آیا تھا کے مہرین کو یوں بیڈ پر لیٹا دیکھ کر ٹھٹک گیا اور پھر کچھ دیر تک باہر کھڑا رہا۔
“افف میں کہاں جاؤں؟” اسے بھی شدید نیند آرہی تھی مگر کچھ سوچ بچار کے بعد پہلے تو وہ سوتی ہوئی مہرین کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ اسے بچپن سے جانتا تھا مگر آج اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر وہ عجیب کیوں ہورہا تھا۔ اس کے دل میں جذبات کیوں تھے؟ آج اس نے مہرین کو اگنور کیوں کیا؟ وجہ صرف ایک تھی اور وہ یہ کے وہ جانتا تھا کے مہرین جو اس سے دور جارہی ہے اس کی وجہ شیزہ ہے اور اسے ساتھ دیکھ کر شاید وہ اپنا فیصلہ تبدیل کر دے۔ وہ کیوں اسے روکنا چاہتا تھا؟ کیا وہ اس کی الفت میں گرفتار ہوگیا تھا؟ یہ بات وہ خود نہیں جانتا تھا۔
“محبت؟ ۔۔۔ ” اس نے ایک نظر مہرین پر ڈالی اور پھر اٹھ کر صوفے پر چلا گیا۔
“میں اور محبت نہیں نہیں!” اس نے سر جھٹکا۔
************************
صبح سے ہی گھر میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ آج دانیال حسن بھی واپس آگئے تھے ان کے ہمراہ ان کی بیوی بھی تھیں۔ پورا گھر مہمانوں سے بھر گیا تھا۔ آج مانجا تھا اسی لئے عاشر اور رضا دونوں کام کروا رہے تھے۔ یہاں سب ہی ایک دوسرے سے گھل مل رہے تھے مگر مہرین خاموشی سے کسی کونے پر بیٹھی صرف آگے کا سوچ رہی تھی۔
“مہرین آپی سب کے ساتھ بیٹھ جائیں۔” شیزہ اس کے پاس آئی۔
“میں؟ نہیں یہی ٹھیک ہے۔”
“آجائیں سب بلا رہے ہیں آپ کو۔” شیزہ کے اصرار پر وہ اٹھ گئی۔ وہاں سب لڑکیاں موجود تھیں سب کے سب ہللہ گللہ کرنے میں مشغول تھیں۔ کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعد وہ اوپر جانے لگی تو عاشر اور رضا کو دیکھ کر رک گئی پھر سپاٹ چہرہ لئے وہاں سے اوپر جانے لگی۔ وہ یہاں آکر اسے اگنور کر رہا تھا اور مری کے اس واقع کے بعد وہ خود اس سے کم مخاطب ہوتی تھی۔ یہاں آکر اسے بابا جان کی یاد آئی تھی ان کی باتیں اس کے دل میں ان کی یاد کو مزید بڑھا دیتی تھیں۔ رات میں مانجے کی تیاری مکمل ہوگئی تھی اور سب مہمان نیچے بھر گئے تھے۔ عاشر دبے قدموں سے اندر آیا تھا اور ایک نگاہ کھڑکی پر کھڑی مہرین پر ڈال کر واش روم میں گھس گیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ سفید قمیض شلوار میں ملبوس، براؤن جوتے اور بہت ہی تیز خوشبو لگا کر باہر نکلا۔
“نیچے تیار ہو کر آجائیں۔” وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے پاس آگیا۔
“میں کیا کروں؟ مجھے نہیں جانا!” وہ منمنائی۔
“کیوں؟ کیا مسلہ ہے آپ کا؟” وہ چڑ گیا۔
“تم ہو میرا مسلہ سمجھے! مجھے چھوڑ دو بس!” بڑی تڑپ تھی اس کے لہجے میں۔ وہ اس کی باتوں کو سمجھ نہیں سکا اور لب بھینچ کر اسے گھورنے لگا۔
“جیسے آپ کی مرضی!” وہ سخت لہجے میں بولا۔
پھر وہ نیچے چلا گیا۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سفید رنگ کی قمیض شلوار اور پیلے دوپٹہ میں تیار ہو کر نیچے آگئی۔ سب لوگ گانا گا رہے تھے کوئی پھول لئے بیٹھا تھا۔ عاشر اسے آتا دیکھ کر مسکرا دیا۔ وہ سیڑھیوں پر کھڑی سب کو تصویریں کھینچتے دیکھ رہی تھی مگر عاشر کی نظروں سے نظریں ملا کر اس کی پلکیں جھک گئیں۔
“بھابھی آئیں نا! تصویر ہی کھینچ لو آپ دونوں کی۔” رضا مہرین کے پاس آکر بولا۔
“نہیں صحیح ہے۔۔۔” وہ ہچکچا کر بولی تو عاشر جو دور کھڑا تھا وہ قریب آیا۔
“ہاں ضرور!” اس نے مسکرا کر کہا پھر مہرین کے برابر میں آگیا۔
“جلدی سے قریب کھڑے ہوجائیں بھئ!” رضا کی شرارتی مسکراہٹ پر مہرین بھوکلہ گئی۔
“آ بھی جائیں!” اس نے ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا۔ مہرین کی دھڑکن تیز ہوگئی اور اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی فوراً پیچھے ہوئی۔ ان کی تصویر رضا پہلے اتار چکا تھا اور پھر اپنے کیمرے میں سیو تصویر انہیں دیکھانے لگا۔
“ماشاء اللّه! بلکل love bird’s لگ رہے ہیں!” رضا نے مذاق کیا۔
وہ مزید وہاں نہیں ٹھہر پائی۔ رات کو مہمان جانے کے بعد ایک محفل سجی ہوئی تھی جہاں سب بیٹھنے باتیں کر رہے تھے دانیال حسن رضا سے باتوں میں مشغول تھے اور عاشر شیزہ سے باتیں کر رہا تھا۔ مہرین نانی جان کے قصے سن سن کے خاصی پک چکی تھی۔
“مہرین بھئ آج تم ہو تو ہم سب کو چاۓ ہی پلا دو۔” نانی جان نے فرمائش کی تو شیزہ اٹھ گئی۔
“میں بنا دیتی ہوں۔”
“نہیں میں بنا دیتی ہوں۔” مہرین نے اسے روکا اور پھر کچھ دیر کے لئے اوپر آگئی۔
وہ جانے کے لئے آگ بڑھی تھی کے عاشر نے دروازے پر اپنا ہاتھ رکھ کے راستہ روک لیا۔
“کیا ہے؟” مہرین نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ وہ اب اسے صرف تنگ کر رہا تھا۔
“کچھ ہونا ہے کیا؟” اس نے مہرین کے قریب ہو کر جھک کر کہا۔ اس کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہی وہ شرم سے لال ہوگئی اور دل جیسے نکل کر باہر آگیا ہو۔ مہرین نے بہت مشکل سے اپنے آپ کو سنبھلا پھر ایک سرسری نظر اس کے چہرے پر ڈالی اور پیچھے ہو کر کھڑی ہوگئی۔
“وہ۔۔۔ مجھے جانا ہے نیچے راستہ دو مجھے!” وہ ابھی تک ہچکچا رہی تھی اس کی گھبراہٹ دیکھ کر عاشر کے چہرے پر مزید مسکراہٹ پھیل گئی۔
“تو جایئں روکا کس نے ہے؟” وہ کندھے اچکا کر بولا۔
“تم ہٹو گے تو جاؤں گی نا؟” مہرین نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر منہ دیوار کی طرف کر لیا۔
“میرے ہٹنے سے کیا ہوگا؟” اسے تنگ کر کے عاشر کو مزہ آرہا تھا۔
“سب نیچے انتظار کر رہے ہیں چاۓ دینی ہے۔۔۔۔۔”
“تو کرنے دیں۔۔” وہ ایک قدم آگے بڑھا۔
“وہ لوگ انتظار کر رہے ہیں۔” مہرین نے تھوک نگلا۔
“تو کرنے دیں۔”
“وہ لوگ ناراض ہوجائیں گے۔۔۔” وہ اب بہت زیادہ گھبرا گئی۔
“تو؟”
“عاشر پلیز!” مہرین ایک قدم پیچھے ہوئی۔ عاشر اب اس کے اتنے قریب تھا کے وہ اس کی دھڑکنوں کو سن سکتا تھا اور مہرین عاشر کی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی۔ وہ مسکرایا تھا اور پھر مہرین کی ایک لٹ جو اس کے چہرے پر تھی اسے اپنی انگلیوں سے پیچھے کی اور پھر پیچھے ہٹ گیا۔ مہرین اس کی اس حرکت کو سمجھ نہ سکی اور ساکن چہرہ لئے عشر کو دیکھنے لگی۔ اسے لگا اس کا دل ابھی حلق میں اچھل کر آگیا ہے اور دل جیسے دھڑکنا بھول گیا ہو۔
“جایئں اب۔” اس نے راستے سے ہٹ کر کہا تو وہ بھاگتی ہوئی نیچے چلی گئی۔
*****************
اسے کال آئی تھی اسے آج کی فلائٹ سے ہی واپس جانا تھا۔ اس نے عاشر کو کئی بار بتانے کی کوشش کی مگر وہ شادی کے انتظام میں اتنا مصروف تھا کے اسے بات سننے کا موقع نہیں ملا۔ عاشر اور شیزہ شادی میں جانے کے لئے تیار تھے مہرین اب تیار ہورہی تھی۔ اس نے ہرے رنگ کا لمبا فراک پہن لیا تھا اور اب کانوں میں جھمکا ڈال رہی تھی کے عاشر بغیر کھٹکھٹائے اندر آگیا۔ مہرین جو آئینے میں دیکھ رہی تھی وہ عاشر کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ عاشر ٹک ٹک باندھی اسے دیکھ رہا تھا اور پھر اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ مہرین اس کی نگاہوں کو خود پر محوسوس کرتے ہی نیچے دیکھنے لگی۔ اس کی بیٹ مس ہوئی تھی۔ آج دونوں کا دل ساتھ دھڑک رہا تھا اور دھڑکنوں میں صرف ایک دوسرے کا نام چھپا تھا۔ دل تھا کے اس کے پاس جانے کے لئے بےچین تھا اور اس کو قریب سے دیکھنے لے لئے بےقرار تھیں مگر انا کے ہاتھوں مجبور وہ صرف چابی اٹھانے کے لئے آگے بڑھا۔
“وہ ٹیبل پر چابی ہے میری۔”
وہ اس کے قریب آیا تھا اور مہرین ایک قدم پیچھے ہٹی۔
“اس طرح مت دیکھیں مجھے۔” وہ مسکرا کر بولا۔
“زیادہ خوش مت ہو۔” مہرین مزید پیچھے ہوئی۔
“جاؤ شیزہ کے پاس!”
“جارہا ہوں اتنی جلدی کیا ہے۔”
“جاؤ ورنہ وہ مر جائے گی تمہارے بغیر۔”
“اور میں جو مر رہا ہوں وہ!” وہ اپنا چہرہ اس کے قریب لیا تو دیوار سے جا لگی۔ ابھی وہ دونوں اس طرح کھڑے تھے کے شیزہ نے عاشر کی طرف دیکھا تو دونوں گھبرا گئے۔
“آجائیں سب انتظار کر رہے ہیں۔” پھر وہ نیچے چلی گئی اور عاشر بھی۔
****************
ہرے رنگ کی لمبی فراک، بالوں میں جوڑا اور آنکھوں میں کاجل آج زندگی میں پہلی بار وہ تیار ہو کر کسی محفل میں آئی تھی۔ دل بہت تیز دھڑک رہا تھا اور پلکیں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ ابھی اندر داخل ہوئی ہی تھی کے ساری نظریں اس کی طرف تھیں۔ وہ بہت دبے قدموں کے ساتھ ہال میں آئی تھی۔
“بس کرو تلاش کرنا اسے آگئی ہے وہ!” رضا نے شوخ ہو کر کہا تو وہ جو ابھی پیچھے منہ کئے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ایک دم پلٹا۔ جوں ہی اس نے آگے ہو کی طرف دیکھا تو وہ ایک دم سکتے میں چلا گیا۔ مہرین سامنے ہی کھڑی تھی وہ بھی کسی کونے میں اکیلے۔ اسے اس قدر تیار اور خوش آج اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ مہرین نے کبھی بھی میک اپ یا بھاری کپڑے نہیں پہنے تھے اسی لئے آج وہ اسے بہت مختلف لگی تھی۔ آج وہ اس کو اپنی نظر سے دیکھ رہا تھا اپنا حق جان کر، اپنی منکوحہ سمجھ کر۔ اسے لگا تھا کے اللّه نے سارا حسن اسے دے دیا ہے شاید اسی لئے وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھا جارہا تھا۔ مہرین نے عاشر کی نگاہیں خود پر جمتی ہوئی محسوس کی تھیں مگر وہ اس وقت بہت تکلیف میں مبتلا تھی کیونکہ اس کی ایڑی میں پیوست کانچ اسے تکلیف دے رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا تھا اور ایک دل فریب مسکراہٹ اس کے لبوں پر نمایاں تھی۔
“یہاں کونے پر کیوں کھڑی ہیں؟” اس نے ایک دم اس کے قریب آکر کہا تو وہ گھبرا گئی۔
“تو کہاں جاؤں پھر؟” مہرین نے منہ پھیر کر کہا۔ وہ ابھی تک ٹک ٹک باندھی اسے دیکھا جارہا تھا مگر مہرین نے ایک بار بھی اس کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا۔
“جہاں سب ہیں وہاں؟ سب آپ سے ملنا چاہتے ہیں!” وہ اب تک اپنی نظریں اس کی چہرے پر سے نہیں ہٹا سکا۔
“میں یہیں صحیح ہوں۔” اس نے لب بھینچ کر کہا۔
“مگر وہاں کیوں نہیں آسکتیں؟” وہ زچ ہو کر بولا تو مہرین نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ تو ابھی تک اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ اسے اپنی طرف یوں قریب دیکھ کر وہ گھبرا گئی۔ اس کی دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی اور سانسیں جیسے تھم سی گئیں۔ وہ اب تک بہت ہمّت سے اسے اس کانچ کے ٹکڑے کو اپنے پاؤں میں برداشت کر رہی تھی۔
“آپ سب سے مل لیں سب پوچھ رہے ہیں۔” عاشر کے لہجے میں بےچینی تھی۔
“مجھے نہیں آنا۔” وہ سرد لہجے میں بولی۔
“یہاں تماشہ مت کریں سب ملنا چاہتے ہیں پلیز!”
“افف تم سمجتھے کیوں نہیں؟” وہ اب چڑ گئی تھی۔
“کیا نہیں سمجتا؟” وہ حیران ہو کر بولا۔
“نہیں آسکتی بس!” وہ اسے وجہ نہیں بتا سکتی تھی۔
“نہیں آپ آئیں گی!” وہ ضد پر اڑا تھا۔ مہرین آخر کار ہار مان گئی۔
“میرے پاؤں میں شدید درد ہے کیونکہ ایک کانچ چبھ گیا ہے اور اب یہاں کیسے نکالوں میں؟۔۔۔ اتنا لمبا ڈریس پہنا ہوا ہے؟ خوش!” اس نے اسے بتایا۔ وہ ایک پل کے لئے خاموش ہوگیا اور پھر ہنسنے لگا۔ وہ اس کے ہنسنے کی وجہ نہیں سمجھ سکی۔ عاشر جانتا تھا کے اس محفل میں سب موجود ہیں مگر پھر بھی اس نے پروا نہیں کی اور نیچے جھکا۔ اس کی سنڈلز کو اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر اس کے پاؤں سے وہ شیشہ کا ٹکڑا بڑے آرام سے نکالا۔ مہرین تو اس کی اس حرکت پر شرم سے پانی پانی ہوگئی اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کے پاؤں سے ہلکا سا خون جو نکلا تھا وہ اس نے جھک کر ہی ٹشو سے صاف کر لیا تھا۔
“یہ کیا بچپنا ہے عاشر؟” وہ غصے سے لال ہورہی تھی اور اس کے قریب ہو کر بولی۔
“اتنی سی بات تھی!” اس نے اس کی سنڈلز اس نے ہاتھ میں اٹھائی اور پھر اٹھ کے کھڑا ہوگیا۔ مہرین تو سر اٹھا کر دیکھ نہیں سکی تھی۔ اس نے کبھی عاشر سے اس قسم کی حرکت کی امید نہیں کی تھی۔ محفل میں موجود سب لوگ ان دونوں کی طرف متوجہ تھے۔ اس نے اپنے ہاتھ آگے کر کے مہرین کے ہاتھوں کو لینا چاہا۔
“اب پوری محفل مجھے شرمندہ مت کرے گا۔” اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا۔
وہ اس کا ہاتھ تھام کر آہستہ آہستہ چلنے لگی۔
“پہلے تم میری بات سنو۔” اس نے اس کا ہاتھ زبردستی چھوڑایا تھا۔
وہ لوگ کسی کونے پر کھڑے تھے۔
محفل میں سب ان دونوں کی باتیں کر رہے تھے۔ شیزہ نے یہ منظر دیکھ کر صرف ایک مسکراہٹ سے عاشر کی جانب دیکھا۔
“کیا بات ہے؟”
“عاشر مجھ سے یہ سب نہیں ہورہا۔” وہ آنسوں میں تھی۔
“کیا سب؟” اسے تشویش ہوئی۔
“عاشر میں آج جارہی ہوں فلائٹ ہے میری رات ایک بجے کی۔ ہاں عاشر میں جارہی ہوں پتا ہے کیوں؟ کیونکہ تم اتنے اچھے انسان ہو مجھے نہیں لگتا میں تمہیں deserve کرتی ہوں۔ جانتے ہو میں نے زندگی برباد کی ہے تمہاری میں نے تمہیں تکلیف دی ہے عاشر تو پھر کیسے میں تم جیسے انسان کے ساتھ رہ سکتی ہوں؟ تم عاشر اتنے اچھے ہو کے جو لڑکی تمہارے مقدر میں ہے وہ شیزہ ہے۔ عاشر میں نے زیادتی کی تمہارے ساتھ مگر اب نہیں ہونے دوں گی۔ تم ابھی صرف ترس کھا رہے ہو مجھ پر آگے جا کر تمہیں یہ باتیں سمجھ جاؤ گے مگر اس وقت صرف پچھتاوا ہوگا۔۔۔۔ جانتے ہو عاشر میرا دل اس وقت مہربان ہوگیا تھا جب تم نے مجھے بچایا تھا۔۔۔” وہ بولتے بولتے رک گئی اور رونے لگی۔
“مگر۔۔۔۔” عاشر نے کہنا چاہا تو اس نے اپنی انگلی اس کے لب پر رکھ دی اور پھر آنسوں بہانے لگی۔ پھر اپنے ہاتھ اس کے چہرے پر رکھ دئے اور آنکھیں کھول کر اس کے چہرے کو دیکھنے لگی۔
“جانتے ہو عاشر میں محبت کرتی ہوں تم سے۔ اتنا پیار کرتی ہوں کے تمہاری آنکھوں کو بند دیکھ کر دل تڑپ جاتا ہے میرا۔ میرا دل ٹوٹا تھا جب ارحم نے مجھے برباد کیا مگر تم نے مجھے اسی دل کے ساتھ قبول کر کے جینا سکھایا۔ عاشر بہت پیار کیا ہے میں نے تم سے مگر محبت میرے نصیب میں نہیں۔۔۔ تم مجھے روکنا مت عاشر ۔۔۔ پلیز۔۔۔۔” اس کے دونوں ہاتھ عاشر کے چہرے پر تھے اور اب عاشر کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوں مہرین کے ہاتھوں پر گرے۔ اس نے اپنے ہاتھ مہرین کے ہاتھ پر رکھے تو وہ اور رونے لگی پھر ہاتھ پیچھے ہٹائے اور اپنے زخمی پاؤں کے ساتھ اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ دور جارہی تھی اور عاشر اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ شیزہ بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئی۔
“یہ کیا کیا؟ روکا کیوں نہیں انہیں؟ عاشر شیزہ اس کا گریبان پکڑ کر اسے ہلانے لگی۔
“وہ گئیں!” وہ بس رو رہا تھا۔
“تم نے روکا کیوں نہیں؟” شیزہ نے سرخ آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
“جانتی ہو شیزہ؟ اس لئے کیوں کے آج اگر میں انہیں روک لیتا تو وہ سمجھتی کے ترس کھایا ہے میں نے مگر اب اگر سالوں بعد وصال میں گزار کر ان کے سامنے اپنی محبت کا دعوا کیا تو وہ جان جائیں گی کے وہ محبت تھی۔ شیزہ محبت جو وصالِ یار میں گزار کر پیش کی جائے وہ ہی محبت ہوتی ہے۔ میری سزا یہ ہے کے اب پل پل ان کی محبت کی جدائی میں گزاروں گا۔ یہ دل ِ مہربان تو کب سے منتظر ہے اس محبت کا۔” وہ روتے روتے نیچے بیٹھ گیا۔
******************
دو سال بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔
زریاب کی شادی عروسہ سے ہوئی تھی اور اب وہ دونوں مل کر سٹوڈیو چلا رہے تھے۔ شیزہ کی بھی منگنی آفس کے ایک لڑکے ساحر سے طے ہوگئی تھی۔
اور پھر عاشر دو سال تک مہرین کا انتظار گزار کر ہار مان چکا تھا۔ آفس کے کاموں میں الجھ کر وہ شاید جینا بھول گیا تھا۔ زندگی کا ہر لمحہ اسے اذیت سے بھرا لگتا تھا۔
آج وہ کام کر ہی رہا تھا کے زریاب اس کے آفس میں آیا تھا۔
“عاشر مجھے پتا ہے وہ کہاں ہے۔ اور تم اسے ڈھونڈنے جارہے ہو!” زریاب کو بھی اس کی حالت پر افسوس ہوتا تھا۔
“دو سال ہوگئے ہیں اب کیا کرنا؟” وہ مایوسی سے بولا۔
“تم بس ہمارے ساتھ امریکہ چلو!”
“مگر۔۔۔”
“عاشر اس سے ملنا ضروری ہے بہت ہوگئی اب تم دونوں کی۔” اس نے اسے دو ٹوک انداز میں کہا تو وہ بھی مان گیا۔
****************
مہرین آج خود تیار ہو کر کسی پارٹی میں آئی تھی۔ وہ بہت خاموش ہوگئی تھی اور زندگی سے سمجھوتا کر کے اس نے مسکرانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ آج اس کے کالج کی طرف سے دی گئی پارٹی میں اسے زبردستی آنا ہی پڑا۔
وہاں ہر کوئی اپنے پارٹنر کے ساتھ موجود تھا۔ اس نے وہی لمبا ہرے رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔
وہ سب سے مل کر پیچھے مڑی تھی کے کوئی شخص اس سے ٹکرایا۔
“سوری!” مہرین نے سر اوپر کرتے ہی کہا۔ سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اس کا وجود ساکن ہوگیا اور وہ پتھر کی طرح کھڑی رہی۔
“مہرین؟”
“عاشر؟” مہرین نے چونک کر اسے دیکھا۔
” تو۔۔۔۔تم؟”
“ہاں میں!” وہ اسے جی بھر کر دیکھ رہا تھا۔
“یہاں کیا کر رہے ہو؟” وہ حیرانی چھپا نہیں سکی۔
“آپ سے ملنے۔” وہ مسکرایا۔
“کس کے ساتھ آئے ہو؟”
“اکیلے۔”
“شیزہ کہاں ہے؟” مہرین نے نظر دوڑائی۔
“وہ پاکستان میں ہے یہاں کیوں ہوگی؟” عاشر کا دل دوبارہ دھڑکنے لگا اب وہ اس کے بغیر جینا نہیں چاہتا تھا۔
“تمہاری اس سے شادی؟” وہ نہیں سمجھ سکی تھی۔
“میرا دل وجود اور سانسیں جب کسی اور کے نام ہو چکی تھیں تو میں کیسے اسے اپنا لیتا؟” وہ مہرین کی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔
“مگر عاشر۔۔۔”
عاشر نے اپنے ہاتھ اس کے لبوں پر رکھ دئے۔
“اب میری سنیں مہرین عاشر! میری زندگی، میری جان، میری محبت، میری وائف، میری دھڑکن، میری دل کو مہربان کرنے والی صرف آپ ہیں۔ میں آپ سے محبت کرتا ہوں سمجھیں! اور یہ بات اب اس لئے بتا رہا ہوں کیونکہ اگر میں اس دن بولتا تو آپ سمجھتیں کے میں نے ترس کھایا ہے آپ پر مگر آج آپ کے بغیر گزارے پل اور زخمی دل لئے آیا ہوں۔ اب تو کر دیں یہ دل مجھ پر مہربان!” وہ یہ کہتے کہتے قریب آیا تو وہ زارو قطار رونے لگی اور اس کے سینے سے جا لگی۔
“پاگل! I Love You! اب اور مت کہنا silly boy!” وہ اس اپنے ہاتھ پیار سے اس کے بالوں میں پھیرنا لگا۔
**************
مہرین اور عاشر کی شادی کی سالگرہ کا فنکشن تھا۔ تقریب میں صرف زریاب اور شیزہ اور ان دونوں کے ساتھ عروسہ اور ساحر کو دعوت دی تھی۔ سب آپس میں باتیں کررہے تھے۔ عاشر نے ڈش سے ۔ تھوڑا سا کھانا اپنی پلیٹ میں ڈالا تھا۔
“مہرین کے ہاتھ کا کھانا مت کھانا عاشر!” زریاب بھاگتا ہوا آیا اور ہنسنے لگا۔
“دفع ہوجاؤ تم!” مہرین نے اس کا کان کھینچا۔
“تبھی میں کہوں اتنا کڑوا کیوں ہے؟” عاشر نے نوالہ تھوکا۔
“بہت کڑوا ہوگا!” زریاب مہرین کی لے رہا تھا۔ عاشر نے پلیٹ کونے پر رکھ کر ٹرے میں رکھے Marconi دوسری پلیٹ میں ڈال لئے”تم دونوں جاؤ یہاں سے!” مہرین کو شدید غصہ آیا۔
میچ کی تیاری کر لو زریاب!” عروسہ نے آواز لگا کر زریاب کو بلایا۔
“ہماری بیگم رہ نہیں سکتی ہمارے بغیر!” وہ قہقہ لگا کر عروسہ کی جانب بڑھا۔ آج بیس بال میچ تھا وہ بھی عاشر نے اپنے گھر کے بڑے لان میں رکھوایا تھا۔
“عاشر مت کھاؤ سارا کھانا!” مہرین نے اس کے ہاتھوں پر مارا۔
“تھوڑا سا تو۔۔۔” مہرین نے زبردستی اس کے ہاتھ سے پلیٹ چھینی اور اسے گھسیٹ کر لان میں لائی جہاں سب بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ شیزہ ساحر کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ وہ لوگ بھی بہت خوش نظر آرہے تھے۔
آپ کے لئے!” ساحر نے پھول دیتے ہوئے کہا تو شیزہ نے فوراً اسے تھام لیا۔
“تمہیں تو پھول نہیں چاہیے مہرین بیگم؟” عاشر نے اسے تم کہا تو وہ زور سے ہنسی۔
“یہ تم کون؟”
“تم۔۔ تم!” وہ اس کے کان کے قریب آیا۔ پھر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے آگے کی طرف لے گیا۔
“کہاں لے آئے ہو؟” مہرین نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو لان میں ہر طرف رنگ برنگ کے پھول نظر آرہے تھے۔
“یہ لال والا میں نے آپ کے جانے کے بعد اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا۔ جانتی ہیں کیوں؟” وہ مسکرایا تھا۔
“کیوں؟” اس کا چہرہ سرخ ہوا۔
“کیوں کے ہر روز نیا پھول ہماری محبت کو اپنی خوشبو کی طرح پھیلا دے گا۔” اس نے ایک پھول توڑ کر اسے دیا۔
“تھنکس!” اس نے پھول لے کر اسے سونگا۔
“Happy anniversary!”
اس نے اپنا ماتھا مہرین کے ماتھے پر رکھ دیا۔
“Same to you!”
آج تو خوشی اور ہنسنے کا دن تھا۔
“آجاؤ دونوں میچ سٹارٹ!” زریاب نے آواز لگائی۔
“آ رہے ہیں۔ ” وہ بھاگتا ہوا آیا۔
“میں عاشر اور شیزہ، تم عروسہ اور ساحر!” اس نے ٹیم کا اعلان کیا۔
سب گیم کھیلنے لگے آج کا دن بہت ہی خوشگوار تھا اور سب ہی ہنس رہے تھے۔
“بھاگو!” مہرین نے بال کا شاٹ مارتے ہی کہا اور پھر بھاگنے لگی تو عاشر نے اس ہاتھوں سے پکڑ کر روکا۔
“عاشر چھوڑو! یہ چیٹنگ ہے!” اس نے اس کا ہاتھ چھوڑنا چاہا۔
“ہم جیت گئے یس!” زریاب نے بال اس کی فیلڈ کی طرف پھینکی۔
“چیٹر!” عروسہ نے غصے سے کہا تو عاشر اور زریاب دونوں نے اپنی کیپ پہنا کرزور سے کہا۔
“آپ ہیں ہماری چیمپئن!”
مہرین اس کی بات پر مسکرا کر اس کے گلے لگ گئی۔
آج دونوں دل مہربان تھے ایک دوسرے کے لئے۔ ایک دل مہرین کا تھا ااور دوسرا عاشر کا۔
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...