“اس وقت کہاں سےآرہے ہو جازل؟” وہ جو بنا آہٹ پیدا کیے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا ان کی بات سن کر وہی رک گیا تھا۔
“وہ ماما آپ؟ آپ جاگ رہی ہے؟” اس نے بات بدلنا چاہی
“بات مت بدلو میرے سوال کا جواب دو۔۔۔۔ کہاں سے آرہے ہو اس وقت؟” انہوں نے کڑے تیور لیے سوال کیا تھا۔
“وہ۔۔۔۔وہ میں۔۔۔وہ میں ایک دوست سے ملنے گیا تھا!” نظریں پھیرے، لبوں پر زبان پھیرتا وہ بولا تھا۔
“ایسا کون سا دوست ہے تمہارا جازل جس کے ساتھ تمہیں روزانہ رات کے تین سے چار بج جاتے ہیں اور صبح ہوتے ہی تم نکل جاتے ہو!” دو ماہ سے وہ اس کی روٹین پر نظر رکھے ہوئے تھی۔۔۔۔۔ ہر بار وہ اس سے بات کرنے کا فیصلہ کرتی مگر وہ بچ نکلتا۔۔۔۔ آخر کار آج وہ ان کے ہاتھ آہی گیا تھا۔
“ماما وہ ایک دوست ہے، مصیبت میں ہے مدد کی ضرورت ہے اسے!” ان کی شاکی نگاہوں سے خائف ہوتے وہ بولا تھا۔
“ہمم ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ مگر میری ایک بات یاد رکھنا جازل ایسا کچھ مت کرنا جس سے میری تربیت یا تمہارے کردار پر کسی قسم کی انگلی اٹھے۔۔۔۔۔ اپنی تائی کی زبان کے جوہر تو تم اچھے سے دیکھ چکے ہو!”
“جی ماما!” وہ مؤدب سا بولا تھا۔
“ہم اب جاؤ سو جاؤ۔۔۔۔۔” اسے کہتی وہ اپنے کمرے میں جانے کو مڑی
“ماما۔۔۔۔۔ وہ، وہ بھابھی کیسی ہے اب؟”اس نے سوال کیا۔
جو الزام مسز زبیری نے ان دونوں کے رشتے پر لگایا تھا تب سے جازل نے شزا کے حوالے سے بات کرنا بند کردی تھی۔۔۔۔۔۔ عالیہ تو کسی نہ کسی طرح اس کے سامنے شزا کا نام لیکر کوئی نہ کوئی ڈرامہ بنانے کی کوشش کرتی مگر وہ انتہائی احتیاط سے بچ نکلتا۔
“سانسیں لے رہی ہے۔۔۔ دیکھو اب خدا کب چھینتا ہے ان سانسوں کو بھی!” ان کی افسردہ آواز سنتا وہ بھی افسردہ ہوا تھا۔
جبکہ اسے جواب دیے وہ وہاں سے جاچکی تھی۔
کمرے میں داخل ہوئے وہ نائٹ سوٹ لیے واشروم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ شاور لیکر وہ بیڈ پر آبیٹھا دماغ میں ابھی بھی اپنی ماں کا جملہ گونج رہا تھا۔
“آپ فکر مت کرے بھابھی بہت جلد اس جہنم سے نجانت دلا دوں گا آپ کو۔۔۔۔۔ وعدہ کیا تھا بھائی سے کچھ نہیں ہونے دوں گا نہ آپ کو اور نہ ہی آپ کی اولاد کو۔۔۔۔۔ محافظ بنوں گا آپ کا۔۔۔۔ بچاؤں گا سب سے۔۔۔۔۔ بس کچھ دن اور!!” خود سے عہد کیے وہ بیڈ پر لیٹا چھت کو گھورنے لگا۔
دماغ پھر سے دو ماہ پیچھے چلا گیا تھا۔۔۔۔۔ جب ڈاکٹرز نے حماد کے مرنے کی خبر دی تھی تو مانو جیسے اسے یقین نہ آیا تھا۔۔۔
کاش، کاش وہ دن ان کی زندگیوں میں نہ آتا۔۔۔۔۔ کاش حماد آج ان کے درمیان ہوتا۔۔۔ کاش!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ بندہ آخر چاہتا کیا ہے؟ دو ماہ سے ہم اس لڑکی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔۔۔۔ نہ اسے اٹھوانا ہے نہ مروانا ہے۔۔۔۔ تو کرنا کیا ہے؟” سیگریٹ کا آخری کش لیے وہ آدمی چڑ کر بولا تھا۔
اس وقت وہ دو آدمی ماورا کے کیفے کے باہر کھڑے تھے۔۔۔۔۔ فہام جونیجو کے حکم پر وہ دونوں دو ماہ سے اس کے ہر عمل پر نظر رکھے ہوئے تھے۔۔۔۔
“چھوڑ یار ہمیں کیا؟ ہمیں تو پیسے مل رہے ہیں نا؟ اور وہ دیکھ وہ آگیا اس کا دیوانہ!” اسے تسلی دیتے آخر میں اشارہ معتصیم کی جانب کیا جو اب کیفے میں داخل ہوتا ماورا کی ٹیبل پر جا بیٹھا تھا۔
روازنہ کیفے چکر لگانے کی وجہ سے کورنر والی ٹیبل اس کے لیے ریزرو کردی گئی تھی جہاں شام میں صرف معتصیم بیٹھتا تھا۔
“اچھا اب منہ نہ بنا ان کی تصویریں لے اور باس کو بھیج دے۔۔۔۔ جانتا ہے نا مار دے گا ہمیں؟” وہ اس کا موڈ ہلکا کرتے بولا تھا۔
“ابے عجیب زندگی ہے۔۔۔۔ میں سیریل کلر ہوں کوئی فوٹوگرافر نہیں!” منہ بناتا وہ کیمرہ اٹھائے کیفے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔ جہاں شیشے پار سے ٹیبل پر بیٹھا معتصیم اور اس کے پاس کھڑی آرڈر لیتی ماورا کو باآسانی کیمرہ میں لیا جاسکتا تھا۔
تصویر لیتا وہ واپس اپنی گاڑی کی جانب آگیا تھا۔
“اب اگر اس نے تصویریں لینے کے علاوہ کوئی ڈھنگ کا کام نہ دیا نا تو ماں قسم اس کے منہ پر پیسے مار کر کام چھوڑ دینا ہے!” اس کی غصیلی بڑبڑاہٹ پردوسرا شخص کھل کر ہنسا تھا۔۔
“اچھا جانی ٹینشن نہ لے۔۔۔۔۔ چل آ چلے!” اس کی گردن میں ہاتھ ڈالے وہ اسے تھوڑی دور بنے کھوکھے کی جانب لے گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آخر یہ کیا چل رہا ہے وائے۔زی؟ کیا میں جان سکتا ہوں؟” دو ماہ سے وائے۔زی عجیب ہوگیا تھا، سنان کو وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگتا تھا۔۔۔
اب گڑیا کے ساتھ ساتھ اسے وائے۔زی کی جانب سے بھی فکر لاحق ہوگئی تھی۔
“کیا چل رہا ہے؟” وائے۔زی نے حیران کن انداز میں سوال کے بدلے سوال کیا۔
“کیا یہ سب اس لڑکی کی وجہ سے ہے؟ وہ حماد کی بیوی۔۔۔۔۔ وہ بار ڈانسر؟” سنان نے جانچتی نگاہوں سے سوال کیا تھا۔
وائے۔زی کے چہرے پر ایک رنگ لہرایا تھا۔۔۔۔ سنان نے گہری سانس خارج کی تھی۔
تو اس کا اندیشہ ٹھیک تھا۔۔۔۔ اسے تب ہی سمجھ جانا چاہیے تھا جب وہ حماد کے افسوس کے لیے شبیر زبیری کے گھر گئے تھے۔۔۔۔۔ کس قدر بےچین ہوگیا تھا وہ اس وقت۔۔۔۔ آنکھیں تھی کہ ارد گرد کا طواف کیے جارہی تھی۔
“تم میرا شک صحیح نکلا۔۔۔۔ وہ وقتی اٹریکشن نہیں تھی۔۔۔ تمہیں اس ڈانسر سے محبت ہوگئی تھی تبھی روازنہ وہاں جاتے تھے۔۔۔۔۔!” دانت پیستے وہ بولا تھا، وائے۔زی نے سر جھکا لیا تھا
“تم ہوش میں تو ہو؟ ایک بار ڈانسر سے محبت کرلی تم نے؟ ۔۔۔۔۔۔ نجانے کس قماش کی لڑکی ہے وہ جو لوگوں کو اپنا جسم دکھا کر تعریفیں وصول کرتی پھرتی تھی۔۔۔۔۔ تم اس گھٹیا عورت کے لیے۔۔۔۔۔”
“گھٹیا نہیں ہے وہ۔۔۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔۔۔ نہیں ہے وہ گھٹیا۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت ہے میری، وائے۔زی کی محبت ہے،۔۔۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکن ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے گھٹیا کہنے والا ہر منہ توڑ دوں گا میں!” یکدم اپنی جگہ سے اٹھے سنان کا چہرہ اس کے جبڑے سے تھامے وہ دھاڑا تھا، آنکھیں اس وقت غصے کی شدت سے سرخ انگارہ ہوگئی تھی۔
“گھٹیا نہیں ہے وہ۔۔۔ محبت ہے میری!” ایک ایک لفظ چبا کر ادا کرتا اس کا منہ چھوڑے، ٹیبل کو ٹھوکر مارتا وہ وہاں سے نکل گیا۔
سنان کو تو ابھی تک اس کی اس حرکت پر یقین نہ آیا تھا۔۔۔۔۔ تو کیا وہ اس قدر آگے نکل آیا تھا محبت کے اس کھیل میں۔۔۔۔۔۔۔ سنان کو مزید ایک نئی پریشانی نے آن گھیرا تھا۔۔۔۔ اسے جلد از جلد وائے۔زی کو یہاں سے واپس لیجانا تھا۔۔۔۔۔۔ بات بگڑ رہی تھی، اس کے ہاتھ سے نکل رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آج ان دونوں کو ختم کردینا!” اتنی سی بات کہے اس نے کال کاٹ دی۔
ہونٹوں پر دل فریب مسکراہٹ سجائے وہ سامنے ٹی۔وی پر چلتی نیوز دیکھ رہا تھا جہاں دو سیاسی سٹودنٹس پارٹیز کا آپس میں جھگڑا ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ جھگڑا اس قدر شدید ہوگیا تھا کہ اس ایریا میں ہرٹال ہوگئی تھی۔۔۔۔ اور اب معاملہ مزید بڑھ رہا تھا۔
پولیس، رینجرز بےبس نظر آرہے تھے ان کے سامنے۔
“لسن گائز اس سے پہلے معاملہ مزید خراب ہو۔۔۔ میں آپ سب کو آف دے رہا ہوں۔۔۔۔۔ آپ سب خیر خیریت سے گھر جائیں۔۔۔۔ بس اپنا اپنا کام مکمل کرلے!” حالات دیکھ وہ سب پریشان تھے مگر مینیجر کی بات پر سب نے سکون کی سانس لی تھی۔
ویسے بھی وہ یونی ان کے کیفے سے دن پندرہ منٹ کی دوری پر تھا تو یقیناً انہیں مسئلہ درپیش آتا۔
تمام بچا کام سمیٹتے انہیں مزید آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا، حالات بدتر سے بدترین ہوتے جارہے تھے۔۔۔
نیوز کے ذریعے وہ سٹوڈنٹس کو ان کے ایریا میں آتے دیکھ سکتے تھے۔۔۔۔ سب کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
جلد سے جلد کام سمیٹے ایک ایک کرکے سب وہاں سے نکل چکے تھے۔۔۔۔۔ ماورا وہی ٹیکسی کے انتظار میں تھی۔۔۔۔۔ حالات کے پیش نظر اس نے تقی کو آنے سے منع کردیا تھا مگر اس وقت وہاں ٹیکسی کا نام و نشان نہ تھا۔۔۔۔ اسے افسوس ہوا کہ جب اس کے ایک کولیگ نے آفر کی تو وہ کیوں نہ چلی گئی۔
اپنی پریشانی میں وہ آس پاس سے بےخبر تھی جب ایک پتھر اس کے کیفے کے شیشے کا کانچ توڑ چکا تھا۔
چیختی وہ دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے زمین پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔
سٹوڈنٹس اس ایریا میں آچکے تھے اور اب تمام لوگوں کی چیزوں کو نقصان پہنچا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
“سر پرابلم ہوگئی ہے!” معتصیم کی پی۔اے عجلت میں کمرے میں داخل ہوتے بولی تھی۔
“کیا ہوا؟” اسے حواس باختہ دیکھ معتصیم پریشان ہوا۔
ٹی۔وی اون کیے اس نے نیوز چینل لگایا تھا جہاں ہڑتال کے بارے میں بار بار اطلاع دی جارہی تھی
لوگ اپنی دکانوں کو تالا لگائے علاقے کو خالی کررہے تھے۔
“سر ہمیں۔۔۔۔۔۔۔”اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتی اس کے موبائل پر کال آئی تھی۔
“ہیلو؟”
“ہیلو میں، میں تقی بات کررہا ہوں!”
“تقی؟” اس کے ماتھے پر بل پڑے آخر وہ کیوں اسے کال کررہا تھا
“وہ۔۔۔۔وہ آپا، آپا ابھی تک گھر نہیں آئی۔۔۔۔ ان کے ایریا کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔۔۔۔ گھنٹہ ہوگیا ہے مگر وہ گھر نہیں پہنچی۔۔۔ ہمیں، ہمیں بہت فکر ہورہی ہے۔۔۔۔ وہ۔۔۔” اس کی بات سنے بھی اس نے کال کاٹی اور تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا
“مس انجم تمام میٹنگز کینسل کردیجیے۔ سٹاف کو آف دے دے۔۔۔۔ میں جارہا ہوں!” وہ جو اپنی کہنے والی تھی معتصیم کی تیزی دیکھ چونکی تھی۔
جلدی سے کوٹ پہنے وہ لفٹ کے ذریعے پارکنگ میں داخل ہوا تھا۔
گاڑی فل سپیڈ پر اڑتا وہ بس ماورا تک پہنچنا چاہتا تھا۔
“یا اللہ اسے محفوظ رکھنا!” وہ جانتا تھا کہ ماورا کا کیفے یونی کے قریب تھا۔
جب تک وہ کیفے پہنچا اس ایریا کی حالت مزید خراب ہوچکی تھی۔
ہر جگہ آگ، دھواں، پتھروں کی برسات، ٹوٹے کانچ
“ماورا!!۔۔۔۔ ماورا!!” اونچی آواز میں چلاتا وہ اسے پکار رہا تھا جب ہوا میں اڑتا ایک پتھر اس کے ماتھے سے جاٹکڑایا تھا۔
“آہ!” سسکتے اس نے درد کی شدت کو سہا تھا
پتھراؤ ابھی بھی جاری تھا۔۔۔۔۔ بچتا بچاتا وہ کیفے کے قریب جاپہنچا تھا۔
“ماورا!” اب کی بار وہ اونچی آواز میں چیخا تھا۔
“ممم۔۔۔۔معتصیم!” اچانک اسے ایک کمزور سی آواز سنائی دی تھی۔
کیفے کے ساتھ موجود چھوٹی سی گلی جہاں کوڑا سٹینڈ بنا ہوا تھا وہاں سے آتی آواز پر وہ فوراً پہنچا جو اس کے پیچھے دبکی بیٹھی تھی۔
“ماورا!” اس کے سامنے بیٹھے معتصیم نے اسے پکارا جس پر سر اٹھائے، آنسوؤں بھری آنکھوں میں خوف سموئے وہ اسے دیکھ رہی تھی۔
ماتھے سے رستا خون پورے چہرے کو گیلا کرچکا تھا۔
“مم۔۔۔عتصیم!” ہچکی لیتی وہ اس کے سینے سے جالگی تھی۔
اب تو باقاعدہ رونا شروع کردیا تھا۔
“ششش۔۔۔! ریلیکس۔۔۔۔ میں ہوں نا!” اس کے گرد حصار قائم کیے وہ بولا تھا۔
“مجھے، مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔۔۔۔ اگر، اگر کچھ ہوجاتا۔۔۔۔ میں، میں مرنا نہیں چاہتی!” وہ ہچکی لیتے بولی تھی۔
“میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا۔۔۔۔۔ اگر تم مرگئی تو میرا کیا!” اس کے بالوں پر بوسہ دیتے وہ بولا تھا۔
چند پل یونہی خاموشی کے بیت گئے تھے۔
باہر سے اٹھتا شور اب نہ ہونے کے برابر تھا۔
“چلو آؤ!” اس کا ہاتھ تھامے معتصیم نے اسے اٹھانا چاہا تھا جس پر تیزی سے اس نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
“نن۔۔۔نہیں۔۔۔اگر، اگر وہ یہی ہوئے تو؟” اس کی آنکھوں میں عجیب سا خوف تھا۔
“کچھ نہیں ہوگا آئی پرامس۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ہوں نا، کچھ نہیں ہونے دوں گا!” اسے اپنے برابر کھڑا کیے وہ بولا تھا۔
معتصیم کی سینے میں چھپی وہ خوفزدہ نگاہوں سے اس علاقے کو دیکھ رہی تھی جس کی تمام خوبصورتی کچھ بددماغ لوگوں کی جذباتیت کی نظر ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ شائد قافلہ اب آگے کو روانہ ہوگیا تھا۔
وہ دونوں چلتے ہوئے ابھی روڈ پر آئے ہی تھے کہ کانچ ٹوٹنے کی آواز پر وہ برے سے سسکتی اسکے سینے سے جالگی تھی۔
“ششش۔۔۔۔کچھ نہیں ہے، ریلیکس کچھ نہیں تھا!” اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرے معتصیم نے اس نارمل کرنا چاہا تھا۔
“او سر جی آپ یہاں کیا کررہے ہو اور یہ کون ہے؟” اچانک ایک حوالدار ان کی جانب آیا تھا۔
پولیس نے کچھ دیر پہلے ہی آکر یہاں کے حالات پر قابو پایا تھا۔۔۔۔۔۔ سائرن نہ بجانے کی وجہ سے وہ دونوں بھی ان کی آمد سے بےخبر تھے۔
“کیا بات ہے صاحب کیا چل رہا ہے اور یہ لڑکی اتنا ڈر کیوں رہی ہے؟ کیا تم نے کچھ کیا ہے؟” جانچتی نگاہوں سے ماورا کو دیکھے اس نے سوال کیا تھا۔
“بیوی ہے میری یہاں کام کرتی ہے۔۔۔۔ خوفزدہ ہوگئی ہے!” معتصیم نے پرسکون انداز میں جواب دیا اور ایک نظر حوالدار سے زرا دور کھڑی گاڑیوں کو دیکھا جن میں کئی سٹوڈنٹس کو ہتھکڑیاں لگا کر بٹھایا ہوا تھا۔
ان سے نگاہیں دوبارہ ہٹائیں وہ حوالدار کے تمام سوالوں کے جواب تحمل سے دے رہا تھا جب ایک دکان کی چھت سے ایک آدمی نے گن نکالے ماورا کا نشانہ لیا تھا۔
“اپنا نکاح نامہ دکھاؤ!” حوالدار کی ڈیمانڈ پر اب اس کا دماغ گھوما تھا۔
“واٹ؟۔۔۔۔ نکاح نامہ؟ تم کیا بےوقوف ہو؟ بھلا کون شخص اپنا نکاح نامہ جیب میں لےکر گھومتا ہے؟” اب کی بار معتصیم کو ٹھیک ٹھاک تپ چڑھ چکی تھی۔
“دیکھو صاحب اگر۔۔۔۔۔۔”
ٹھاہ
اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتا فضا کی خاموشی کو چیرتی گولی کی آواز ماورا کی پیٹھ میں جالگی تھی۔
“ماورا!!” اس کی چیخ پر معتصیم نے بروقت اسے تھاما تھا۔
“سر وہ دیکھے وہ رہا!” وہ شخص جو اب معتصیم کو نشانے میں لینے والا تھا ایک پولیس آفیسر کی نشاندہی پر بری طرح گھبرا کر وہاں سے پلٹا تھا۔
وہ اس دھندے میں نیا تھا اسی لیے پہلی بار میں گھبراگیا تھا۔
“ماورا،۔۔۔ ماورا؟۔۔۔۔۔ کوئی ایمبولینس کو بلواؤ ماورا!!” اس کا چہرہ تھپتھپائے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرتا وہ چلایا۔
“معتصیم!” دھیمی آواز میں اسے پکارا
“مجھے۔۔۔مجھے ابھی نہیں مرنا۔۔۔۔۔!” آنکھوں سے بہتے آنسو، وہ سسکی تھی۔
“تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ میں کچھ ہونے نہیں دوں گا ماورا۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا!” اس کی بند ہوتی آنکھوں کو دیکھ اسے زور سے سینے میں بھینچے وہ رو دیا تھا۔
ایک بار پھر وہ اس سے دور جارہی تھی، وہ مر رہی تھی اور وہ کچھ کر نہیں پارہا تھا۔
“صاحب، صاحب جلدی سے میڈم کو گاڑی میں لٹائے، ایمبولینس آنے میں وقت لگے گا۔۔۔۔ جلدی کرو ورنہ وہ مرجائے گی!” اسی حوالدار نے اس کا شانہ ہلائے اسے ہوش دلایا تھا۔
تیزی سے گاڑی کی جانب بڑھے معتصیم نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا تھا۔
“صاحب میڈم کو آنکھیں نہ بند کرنے دے۔۔۔۔۔ اسے ہوش میں رکھے” حوالدار کی ہدایت پر عمل کرتا وہ اس کا چہرہ تھپتھپانے لگا تھا۔
“ماورا کم آن یار۔۔۔۔۔ پلیز آنکھیں کھلی رکھو۔۔۔۔ پلیز!” اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کرے۔
پولیس کی گاڑی ہونے کی وجہ سے وہ جلد ہی ہسپتال پہنچ گئے تھے۔
آئی۔سی۔یو میں لیجاتی ماورا کو دیکھ وہ بےبس ہوا تھا۔
کچھ دیر آئی۔سی۔یو کے باہر ٹہلنے کے بعد اس نے تقی کے نمبر پر کال کیے مختصر الفاظ میں اسے اطلاع دی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ہی اسے آئی۔سی۔یو سے ڈاکٹر نکلتے نظر آئی تھی۔ وہ تیزی سے ان کی جانب لپکا تھا۔
“وہ، وہ کیسی ہے؟” اس نے بےتابی سے پوچھا
“یہ تو آپ بتائیے انہیں کیسا ہونا چاہیے؟” دونوں بازو سینے پر باندھے اس نے سپاٹ انداز میں سوال کیا تھی۔
“سوری میں سمجھا نہیں؟”
“کیا آپ واقعی میں ان کے شوہر ہے؟” ڈاکٹر کے سوال پر وہ چونکا اور سر اثبات میں ہلایا۔
“آپ جانتے ہے کہ آپ کی بیوی ایک ڈرگ ایڈیکٹ ہے؟”
“واٹ؟” ڈاکٹر کے انکشاف پر وہ اچھلا تھا۔
“تو آپ ان کے شوہر ہے اور آپ کو آئیڈیا بھی نہیں کے آپ کی بیوی ڈرگز کا استعمال کررہی ہے؟” ڈاکٹر اس پر برسی تھی۔
“نہیں ایسا نہیں ہے ہاں وہ پہلے لیتی تھی مگر پھر اس کا علاج۔۔۔۔” علاج وہ یکدم رکا تھا۔
“تو پھر آپ کو آپ کی بیوی نے بےوقوف بنایا ہے کیونکہ وہ تسلسل سے ڈرگز کا استعمال کررہی ہے۔۔۔۔۔۔ ایک تو پہلے ہی ڈرگز نے ان کے جسمانی نظام کو درہم برہم کردیا اور اوپر سے گولی۔۔۔۔ دیکھیے سر یہ سیدھا سیدھا پولیس کیس ہے۔۔۔۔ مےبی آپ کی بیوی ڈومیسٹک وائلنس کی شکار ہے اور اسی سے نجات حاصل کرنے کو۔۔۔۔”
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہم ساتھ نہیں رہتے۔۔۔۔ میرا مطلب ابھی نکاح ہوا ہے۔۔۔رخصتی نہیں وہ اپنے گھروالوں کے پاس رہتی ہے!” ان کی بات کاٹتا وہ تیزی سے بولا
“دیکھیے سر آپ کی وائف کی کنڈیشن بہت کریٹیکل ہے ۔۔۔۔۔ دعا کیجیئے آپ!” اس کا شانہ تھپتھپائے وہ وہاں سے جاچکی تھی۔
معتصیم تو ان کے اس انکشاف پر وہی مجسمہ بن گیا تھا۔
“آپا۔۔۔۔آپا کیسی ہے؟” تایا، تائی کے ساتھ آتے تقی نے زور سے اس کا شانہ ہلائے اسے ہوش دلایا تھا۔
ہوش میں آتے معتصیم نے اسے دیکھا تھا جو پریشان نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا، یکلخت آنکھوں میں غصہ در آیا تھا۔
بنا کچھ سوچے سمجھے اس نے ایک زور دار تھپڑ تقی کے منہ پر مارا تھا جس کی وجہ سے وہ زمین پر گرتے گرتے بچا تھا۔
تائی نے آنکھیں پھیلائیں منہ پر ہاتھ رکھ لیا جبکہ تایا کو غصہ عود آیا۔
“کیا کہاں تھا میں نے تمہیں، کیا نصیحت کی تھی اس کے حوالے سے؟ بولو کیا بکواس کی تھی میں نے؟ ہاں؟۔۔۔۔۔ کہ اسے علاج کی ضرورت ہے تقی وہ آٹھ سالوں سے ڈرگز جیسی گھٹیا لت کا شکار ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کا علاج کروانا!۔۔۔۔۔ اور تم نے کیا جواب دیا تھا کہ تھوکتے ہو تم میرے پیسے پر اور اپنی آپا کا علاج کروالو گے خود؟ تو کیوں علاج نہیں کروایا ہاں کیوں نہیں کروایا اس کا علاج؟” اس کا گریبان جھٹکتا وہ دھاڑا تھا۔
تائی کے ساتھ ساتھ اب تایا کی ہمت بھی نہ ہوئی تھی آگے بڑھ کر اسے روکنے کی۔
“وہ،وہ آپا نے کہاں تھا علاج کی ضرورت نہیں وہ ٹھیک ہے!” سر جھکائے اس نے جواب دیا
“تمہاری آپا نے بکواس کی اور تم گدھے نے سن لی؟۔۔۔۔۔۔۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہو۔۔۔۔۔ یونی جاتے ہو۔۔۔۔ پی۔ایچ۔ڈی کررہے ہو اور تمہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ ڈرگز کا عادی انسان کبھی اس لت سے پیچھا نہیں چھڑوا سکتا تب تک تو بالکل بھی نہیں جب تک اس کا علاج نہ کروایا جائے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ بتاؤ مجھے اس قدر دماغ کے فارغ انسان ہو تم؟۔۔۔۔۔ تو مبارک ہو تمہیں کیونکہ تمہاری آپا مسلسل ڈرگز لے رہی تھی اور اب موت کے دہانے کھڑی ہے۔۔۔۔۔ ایک بات یاد رکھنا تقی اگر اسے کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار وہ گولی نہیں بلکہ تمہاری بےوقوفی تھی!” ایک جھٹکے سے اس کا گریبان چھوڑتا بالوں میں ہاتھ پھیرے وہی موجود کرسیوں میں سے ایک پر جا بیٹھا تھا۔
تایا ابو اور تائی امی کی آنکھیں نم ہوگئیں تھی جبکہ تقی دیوار کے ساتھ لگا خاموشی سے رو رہا تھا۔ گہری سانس لیے، اپنے اندر اٹھتے وبال کو کم کرتا وہ اپنی جگہ سے اٹھتا تقی کے سامنے جاکھڑا ہوا۔۔۔۔۔ اسے زور سے گلے لگائے معتصیم نے اسے مزید رونے سے روکا تھا۔
“میں، میں ایسا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔ میں نے زور دیا مگر انہوں نے منع کردیا۔۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ لوگ انہیں پاگل کہے۔۔۔۔۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ چھوڑ چکی ہے۔۔۔۔۔ میں مطمئن ہوگیا۔۔۔۔ ایسا، ایسا نہیں چاہتا تھا!” روتا وہ بولا تھا۔
“وہ، وہ بالکل ٹھیک ہوگئی تھی، مجھے، مجھے کبھی نہیں لگا کہ وہ ایسا کچھ کرتی ہوگی۔۔۔۔۔۔ انہوں نے، انہوں نے ایسا کیوں کیا؟” اب کی بار سوال ہوا تھا جس کا جواب معتصیم کے پاس بھی نہیں تھا۔
“شش۔۔۔۔۔۔فکر مت کرو وہ ٹھیک ہوجائے گی (میں کروں گا اسے ٹھیک اور ایسا ٹھیک کروں گا کہ دنیا دیکھے گی)” آخری جملہ وہ دل میں بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے، مجھے ڈر لگ رہا ہے، مجھ سے یہ نہیں ہوپائے گا!” کریم کا ہاتھ سختی سے تھامے وہ بڑبڑائی تھی۔
“کچھ نہیں ہوگا میم آپ فکر کیوں کررہی ہے؟” کریم نے اس کا ہاتھ دبائے اسے تسلی دی تھی۔
ان چند ماہ میں زویا لکھنے پڑھنے پر اچھی خاصی مہارت حاصل کرچکی تھی اور اب کریم اس کے ایڈمیشن کے لیے اسے اسنٹیٹیوٹ لے آیا تھا۔
وہ اسے تسلی دے رہا تھا جب اتنے میں عبایا اور نقاب میں ملبوس ایک ٹیچر ہاتھ میں فارم لیے ان کی جانب لائی تھی۔
فارم زویا کے آگے رکھے وہ اپنی سیٹ پر جابیٹھی تھی۔
کریم نے بس ایک نگاہ اس کی آنکھوں کو دیکھا جو بالکل سرد و سپاٹ تھی۔
“اس کو کیا کروں؟” زویا کی آواز اسے ہوش میں لائی تھی۔
“فل کرنا ہے لائے دے میں مدد کردیتا ہوں!” فارم اس کے ہاتھ سے لیے کریم نے بھرنا شروع کیا تھا۔ جبکہ زویا چاروں جانب آنکھیں گھمائے آفس دیکھنے میں مگن تھی۔
“مس یہ ہوگیا ہے!” کریم اس نقابی کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
“دیجیئے” اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
کریم اسے فارم دیتا باقی کا پروسیس مکمل کیے زویا کو وہاں سے لے آیا تھا۔۔۔۔ مگر وہ سرد آنکھیں!۔۔۔ خیال ذہن سے جھٹکتا وہ گاڑی چلانے کی جانب متوجہ ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دیکھیے میں آپ سب کو کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتی، پہلی بات تو یہ کے آپ کی پیشنٹ ڈرگز ایڈیکٹ کرتی رہی ہے جس کی وجہ سے وہ اندرونی طور پر انتہائی کمزور ہوگئی ہے اور دوسری بات گولی لگی بھی ان کی پیٹھ پر ہے تو۔۔۔” ڈاکٹر چند لمحوں کے لیے خاموش ہوئی تھی۔
“تو؟” وہ جو ماورا کی زندگی بچ جانے پر جشن منارہے تھے اب ڈاکٹر کی بات نے ان کا دل دہلا دیا تھا۔
“تو آئی ایم سوری مگر آپ کی بیٹی اب شائد چل نہ پائے، گولی نے اس کی ڑیڑھ کی ہڈی کو بری طرح متاثر کیا ہے!” ڈاکٹر کی بات سن معتصیم جھٹکے سے پیچھے ہوا تھا، اسے اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
نجانے اب اور کتنے امتحان لینے تھے زندگی نے ان کے۔
“کیا، کیا کوئی چانس نہیں؟” تقی نے آس سے سوال کیا تھا۔
تایا ابو روتی ہوئی تائی کو سنبھال رہے تھے۔
“دیکھیے میں نے “شائد” کہا ہے۔۔۔۔۔ ہاں کچھ ماہ تو کے لیے تو انہیں مکمل بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہوگی لیکن اگر کوشش کی جائے تو وہ دوبارہ سے اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے اور یہ سب صرف آپ لوگوں پر منحصر ہے کہ آپ کتنی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ کیونکہ جہاں تک بات رہی ماورا جسے پیشنٹس کی تو مجھے معلوم ہے وہ آپ لوگوں کو کافی ٹف ٹائم دے گی، وہ شائد خودترسی کا شکار ہوجائے، ڈیپریشن میں جاسکتی ہے۔۔۔۔ ایسے میں اسے اکیلا چھوڑنا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ ایسے لوگ آخر میں خودکشی۔۔۔۔۔۔” ڈاکٹر چپ ہوگئی تھی۔
“اللہ حامی و ناصر ہے!” اتنے کہے وہ وہاں سے جاچکی تھی۔
جبکہ پیچھے کھڑے وہ چار وجود اب ساکت ہوگئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آج مجھے کسی بھی طرح بھابھی کے حوالے سے چاچا سے بات کرنا ہوگی!” خود سے بڑبڑاتا وہ ڈرائیو کرتا شبیر زبیری کے فارم ہاؤس کی جانب جارہا تھا۔
فارم ہاؤس میں داخل ہوئے گارڈ کو سلام کیے وہ اندر بڑھا تھا۔۔۔۔۔ پورے فارم ہاؤس میں خاموشی تھی جب وہ بھی خاموش قدم اٹھاتا میٹنگ روم کی جانب بڑھا تھا۔
“تو اب آگے کا کیا ارادہ ہے تمہارا؟۔۔۔۔۔۔ کب تک اس لڑکی کو اپنے گھر رکھنا ہے تم نے؟” اس آواز پر اس کے قدم رکے تھے۔
“بس بچوں کی پیدائش تک کا انتظار ہے مجھے۔۔۔۔ ایک بار دونوں بچے خیر خیریت سے آجائے اس دنیا میں پھر اس شزا نامی بلا کا قصہ ختم!” اور یہ پہلا جھٹکا تھا۔۔۔۔۔ وہ جو شزا کی حفاظت کے حوالے سے ان سے ملنے آیا تھا وہی اس کی جان کے دشمن نکلے۔
“ویسے تمہیں نہیں لگتا یہ تم غلط کررہے ہو؟ وہ تمہارے بیٹے کی بیوی ہے۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ہونے والے بچوں کی ماں!۔۔۔۔۔۔ تم دو نومولود بچوں سے ان کی ماں کو چھین رہے ہو؟” اس شخص میں جیسے تھوڑی بہت ہمدردی موجود تھی۔
“نہ نہ۔۔۔۔ بیٹے کی بیوی نہیں بیوہ ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کےچاہے ہمارے خاندان سے کتنے ہی رشتے کیوں نا جڑ جائے حقیقت تو یہی ہے کہ وہ ارحام سلطان شاہ کی اولاد ہے!۔۔۔۔۔ دشمن کی اولاد ہمیشہ دشمن کی اولاد رہتی ہے!” اور یہ دوسرا جھٹکا تھا جو اسے لگا تھا۔
آہستہ آہستہ دماغ میں حماد کا کہا ایک ایک لفظ صاف سمجھ آنے لگ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اس کر ہر وقت شزا کی فکر کرنا!۔۔۔۔ اسے کے ساتھ سائے کی طرح رہنا۔۔۔۔۔ اس کا جازل سے کیا گیا وعدہ۔۔۔۔ اور وہ دن جب حماد کی موت ہوئی، اس کا آفس چھوڑ چھاڑ مال بھاگنا۔
تو کیا وہ پہلے سے یہ سب جانتا تھا؟ کیا وہ شروع سے اس حقیقت سے آشنا تھا۔
“دیکھ لو شبیر زبیری تمہاری یہ شدید نفرت پہلے ہی تم سے تمہارا بیٹا چھین چکی ہے اب کچھ اور مت گنوا دینا!”
“مجھے اس جیسا بزدل بیٹا چاہیے بھی نہیں تھا اچھا ہوا مرگیا۔۔۔ بیوی کا دم چھلا۔۔۔۔ میں جو اسے بنانا چاہتا تھا وہ کبھی نہ بن سکا اور اب میرا پوتا بنے گا وہ۔۔۔۔۔ اور جہاں تک بات رہی ارحام شاہ کی تو اس کے لیے مجھے حماد جیسے کڑوڑوں بیٹے بھی قربان کرنے پڑے تو کروں گا۔۔۔ کڑوڑوں شزاؤں کا مروانا ہوا تو بےدریغ مرواؤں گا۔۔۔۔۔ مگر ارحام شاہ سے اپنا حصاب چکتا ضرور کروں گا!” وہ دانت پیستے بولا تھا۔
جبکہ دروازے کے باہر کھڑا وہ شخص جو کبھی شبیر زبیری سے محبت کرتا تھا، اس کی محبت کا بت پاش پاش ہوا تھا۔۔ عزت و آبرو کا بت پاش پاش ہوا تھا۔
اپنے آئیڈیل کا وہ خاکہ جس پر شبیر زبیری کو بٹھایا تھا اس نے وہ ریت پر لکھے نام کی طرح پانی کی لہروں کی نظر ہوا تھا۔
جھکے کندھوں سمیت وہ وہی سے مڑ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...