علی حسن عثمانی بہاولپور کے ایک جاگیر دار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ——–
چوہدری راشد حسن عثمانی کے دو بیٹے ہیں عاصم ، علی اور ایک بیٹی عائشہ
دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی
عاصم کی منگنی تو بچپن میں ہی مونا کی بیسٹ فرینڈ اور عاصم کے پھپھو کی بیٹی سوہا سے ہو چکی تھی
مگر علی ان دنوں آئی ٹی کی فیلڈ میں سٹڈی کر رہا تھا اور اسی سلسلے میں بہاولپور سے لاہور آ کر داخلہ لیا تھا ان کے خاندان میں تو پڑھائی کا زیادہ رواج نہیں تھا لیکن علی ان سب سے برعکس تھا —-
کم گو ‘بے حد سنجیدہ ‘ زندگی کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے والا علی کو شاید یاد بھی نہیں تھا کہ اس نے زندگی میں کبھی شرارت کی ہو——-
اور صنف نازک کے بارے میں بھی وہ کچھ ایسے ہی نظریات رکھتا تھا ——-
سنجیدہ ،کم گو، ذمے دار اور سگھڑ اور فرمانبردار لڑکیاں اس کی آئیڈیل ہوتی تھیں ——-
شرارتی، شوخ مزاج ہر وقت ٹر ٹر کرنے والی لڑکیوں سے وہ دور بھاگتا تھا
انھیں خیالات کی وجہ سے علی کو اپنی خالہ کی بیٹی ماریہ بہت پسند تھی جو اس کے ساتھ ہی یونی میں زولوجی کے ڈپارٹمنٹ میں پڑھ رہی تھی
مزاج میں ہم آہنگی کے باعث دونوں ایک دوسرے کے بہت نزدیک آ چکے تھے’
اور علی اب سنجیدگی سے ماریہ سے شادی کے بارے میں سوچ رہا تھا——–
علی کو سوہا کی دوستوں کے بارے میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی اس نے ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی!
مگر مونا سے شرط ہار جانے کے خوف سے سوہا نے خود ہی علی کو مونا کے بارے میں سب سچ بتا دیا
جس کو سننے کے بعد علی نے فیصلہ کیا کہ مونا جیسی لا ابالی لڑکی کو سبق سکھانا بہت ضروری ہے تاکہ وہ ایسی چھچھوری حرکتوں سے باز رہے اور کسی کے ساتھ ایسا
گھٹیا مذاق نہ کرے
لیکن مونانے اس واقعہ کے بعد علی کو اس کی توقع سے بھی زیادہ سخت رد عمل ظاہر کیا تھا
دونوں کے بیچ میں ایک سرد جنگ شروع ہو گئی تھی جس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا
اتوار کے دن شاہدہ بیگم مونا کو ساتھ لے کر شاپنگ کرنے مارکیٹ میں آئی ہوئی تھی
مارٹ میں یونہی بے سبب گھومتے گھومتے مونا کو آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا —‘-‘
شاپنگ تو مما نے کرنی تھی اور اسے ایسے ہی زبردستی گھسیٹ کے ساتھ لے آئیں تھی اور اب مما جانی تو روٹین کے مطابق گھر کا سودا سلف لے رہی تھیں اور وہ یونہی ادھر ادھر چیزوں کو دیکھ دیکھ کے بور ہو رہی تھی
مما کو نیچے کی منزل پہ چھوڑ کر مونا اوپر والی منزل پہ چلی آئی یہاں گارمنٹس کی شاپس تھیں ان کی تاک جھانک اور نئے ڈیزائن کا مشاہدہ کرتے رہنے سے مونا کو اپنی بوریت کافی کم ہونے کا امکان تھا
اچانک سیل کی بل بجی اور وہ پرس سے موبائل نکال کے چیک کرنے لگی———-
پاپا کا فون تھا شاید وہ واپسی کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں——–
مونا کال یس کر کے تیزی سے نیچے کی منزل کی طرف بھاگی تاکہ مما سے پاپا کی بات کروا سکے
مما کو سیل فون دے کے وہ دوبارہ پھر ادھر ادھر مٹر گشت کرنے لگی —–
سنیے سنیے ایکسکیوز می مس یہ آپ کی جیولری وہاں اوپر آپ کے پرس سے گر گئی تھی میں کب سے آپ کو تلاش کر رہا تھا مگر آپ تو پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئیں
مونا کو پیچھے سے کسی اجنبی کی آواز سنائی دی
اور اس نے واپس مڑ کے اس کی طرف دیکھا
وہی خبیث علی ہاتھ میں مونا کے جھمکے رکھے مسکرا رہا تھا
مونا کا اس کی شکل دیکھتے ہی پارہ ہائی ہو گیا
مگر اگلے ہی لمحے کچھ سوچ کے اس پہ ہنسی کا دورہ پڑ گیا
اور وہ بغیر کچھ کہے نان سٹاپ ہنسے جا رہی تھی
سنیے محترمہ ایک تو میں نے آپ کی چیز آپ کو واپس کی دوسرا آ پ میرا تھینکس بولنے کی بجائے یہ پاگلوں کی طرح ہنسے جا رہی ہیں
وجہ پوچھ سکتا ہوں اتنی خوشی کی؟
علی نے مونا کی بچگانہ حرکت کے سبب ماتھے پہ بل ڈال کر کہا
مسٹر علی لڑکیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنے والے ان کے بارے میں اتنے مہان خیالات کے مالک افلاطون ٹائپ بندے !
سڑک چھاپ لڑکوں کی طرح ایک لڑکی کے فضول قسم کے جھمکے اٹھا کے اسے تلاش کرتے پھر رہے ہیں
مائی گارڈ وٹ آ پلازنٹ سرپرائز
مونا نے اس کے ہاتھ سے بندے پکڑ کے قریب رکھی ڈسٹ بن میں ڈالتے ہوئے کہا
مائنڈ یور لینگوئج
میں نے یہ جھمکے اس خیال سے اٹھا لیے کہ ہو سکتا ہے گولڈ کے ہوں اور کوئی ان کی گمشدگی سے پریشان ہو رہا ہو ——
اگرمجھے پتہ ہوتا کہ یہ آپ کے پرس سے گرے ہیں تو وہیں ان کے اوپر دونوں پاؤں رکھ کے گزر جاتا ہاتھ لگانا تو دور کی بات ہے
مقابل نے اسی لہجے میں جواب دیا
میرا خیال ہے کہ آپ کو کسی نے لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی مونا کا بی پی شوٹ کر گیا
او ہیلو میں بہت دیر سے آپ کا لحاظ کر رہا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم میرے سر پہ چڑھ جاؤ اور میرے بارے میں جو دل کرے بکواس کر دو
مد مقابل برابر جوڑ کا تھا ہار نہ ماننے والا
تو مت کرو لحاظ کر لو جو کرنا ہے
میں بھی تو دیکھوں تم کتنے پانی میں ہو
مونا غصے سے آنکھیں دکھاتی ہوئی بولی
جو کرنا ہے وہ تو میں کر ہی لوں گا مجھے آپ سے پوچھنے یا اجازت لینے کی ضرورت نہیں آپ بھی ذراتمیز سے بات کیا کریں دو گز کی لمبی زبان ہے محترمہ آپ کی
اور یہ کل رات کیا اول فول باتیں لکھ کے مجھے سینڈ کی تھی خبردار اگر آئندہ مجھے اس قسم کے فضول میسیجز کیے تو ؟
علی کہاں چپ رہنے والا تھا
تو کیا کر لیں گے ہاں نہیں کرتی تمیز سے بات اور ایک نہیں سو میسیج کروں گی ایسے ہی لکھ لکھ کے کروں گی کر لو جو تم سے ہو سکتا ہے
بدتمیز چول ایڈیٹ _______
میں آخری بار وارن کر رہا ہوں زبان کو لگام دیں اپنی ورنہ میں بھول جاؤں گا کہ میں کسی لڑکی سے مخاطب ہوں
علی اس کی قینچی کی طرح کچر کچر چلتی زبان سے تنگ آکر بولا
اوئے دھمکی کس کو لگا رہے ہو جیمز بانڈ کی اولاد اپنے بابا کو بتا کے ایک منٹ میں ساری اکڑ نکلوا دوں گی زیادہ تر ٹر کی میرے آگے
اچھا تمھارے باپ پرائم منسٹر لگا ہوا ہے نہ جو مجھے بغیر کسی وجہ کے پھانسی پہ چڑھا دے گا خود کی بیٹی دیکھو عقل سے پیدل راہ چلتے ہر لڑکے سے چونچ پھنسا کے کھڑی ہوتی ہے
علی ترکی بہ ترکی جواب دے کر حساب برابر کیے جا رہا تھا
دیکھ لوں گی میں تمھیں یاد رکھنا اس ساری باتوں کا تمھیں حساب دینا ہو گا معاف نہیں کروں گی میں
مونا مما کو اپنی طرف آتا دیکھ کر لڑائی بیچ میں ادھوری چھوڑ کے واپس مڑ گئی
عجیب پاگل ہے پیچھے ہی پڑ گئی سٹوپڈ نا نسینس
علی منہ میں بڑ بڑاتا ہوا واپس مڑا
__________________
سوہا یہ چھوڑو موبائل کی جان پہلے میری بات غور سے سنو
مونا نے بریک میں سوہا کے ہاتھ سے موبائل چھینتے ہوئے کہا
بکو جلدی میرے پاس وقت نہیں ہے
سوہا نے ازلی اکڑ سے گردن تن کے کہا
وہ لڑکا نہیں علی یار وہ مجھے کل مارٹ میں ملا تھوڑا بہت نہیں اچھا خاصا بدتمیز ہے
میری اس سے وہاں بہت لڑائی ہوئی
مونا نے سوہا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
ہاں تو یہ کونسی نئی بات ہے تیری تو آئے روز کسی نہ کسی سے لڑائی ہوتی رہتی ہے
کیا صلح کرنی ہے اس سے
سوہا نے ہینڈ فری بالوں کی اوٹ میں چھپا کے کانوں میں لگاتے ہوئے کہا
نہیں صلح کرتی ہے میری جوتی
مجھے تو اسے سبق سکھانا ہے پہلے تو میں سریس نہیں تھی اب تو میں نے عہد کر لیا ہے اس علی کے بچے کو اس کی اس کی اوقات یاد دلا کے رہوں گی جینا نہ حرام کیا اس کا تو میرا نام بھی مونا نہیں
مونا نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا
اچھا تو پھر تم ابھی سے اپنا نام جنت بی بی رکھ لو کیونکہ وہ محترم تمھاری پہنچ سے باہر ہیں
سوہا نے جلتی پہ تیل چھڑکا
یار کیسی دوست ہے تو اس مشکل میں میرا ساتھ دینے کی بجائے مجھے ٹکے ٹکے کی باتیں سنا رہی ہو ؟
مونا جو پہلی ہی علی کی باتوں پہ تپی بیٹھی تھی مزید تپ گئی—-
اوکےمونا ڈارلنگ بتائیے دوست کی خوشی کی خاطر ہمیں کیا قربانی دینی ہے دل قربان کرنا ہے یا جان وارنی ہے
ہم دل و جان سے آپ کے ساتھ ہیں حکم فرمائیں
ارے ارے کچھ نہیں کرنا ایسا ویسا بس تم نے روز میرے ساتھ صبح سورج نکلنے سے پہلے اسی پارک میں جہاں علی جاگنگ کرتا ہے میرے ساتھ جاگنگ کرنے جانا ہے چند دن بس وہاں جا کے اسے روز اتنا تنگ کریں گے کہ اسے نانی یاد آ جائی گی اپنی
بڑا آیا مجھے تمیز سکھانے والا
مونا نے اپنے سوچے ہوئے پلان کے مطابق سوہا کو تیار کیا
ہائے میری جان دل مانگ لیتی جگر مانگ لیتی گردہ پھیپھڑا سب تجھے دے دیتی پر یہ صبح صبح نیند کی قربانی کیوں مانگ لی ظالم ایک ہی تو شے ہمیں اس دنیا میں جان سے زیادہ عزیز ہے وہ بھی تم چھیننے پہ تلی بیٹھی ہو
اف میرے خدا سوہا یہ فضول کے ڈرامے بند کرو اور صبح وقت پہ آ جانا ہمارے گھر ورنہ میں تمھارے گھر آ کے تمھارا بستر پہ ہی گلا دبا دوں گی
مونا نے سوہا کو غراتے ہوئے کہا
اچھا اچھا میرے آقا پہنچ جاؤں گی اور کوئی حکم ؟
نہیں بس یہی احسان کافی ہے آپ کا ہمارے اوپر جو ہم زندگی بھر نہیں بھول سکیں گے
مونا نے سوہا کا کان کھینچتے ہوئے کہا
___________________
صبح فجر کی نماز ادا کر کے مونا بلیک ٹراؤزر اور فل فٹنگ کی ریڈ شرٹ پہن کے شوز کی لیسز باندھ رہی تھی جب سوہا نے اس کے روم میں انٹری ماری
چلو اب دیر ہو رہی ہے
سوہا نے اسے بازو سے پکڑ کے گھسیٹا
سوہا مجھے تو وہ الو کا پٹھا کہیں نظر نہیں آ رہا جس کی خاطر اتنی صبح صبح یہاں پارک میں کھجل خوار ہو رہی ہیں
مونا نے سوہا کے ساتھ جاگنگ ٹریک پہ آہستہ آہستہ دوڑتے ہوئے ارد گرد دیکھ کے کہا
ششش چپ وہ دیکھ دوسری طرف ادھر ہے وہ سپیڈ بڑھاؤ اس سے آگے نکلتے ہیں
سوہا نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا
دونوں برق رفتاری سے بھاگتی ہوئی علی کے برابر پہنچ گئیں
سوہا یہ آج کل کے لڑکے اتنی جلدی کیوں اٹھ جاتے ہیں مونا نےجاگنگ کرتے ہوئے علی کے قریب آ کر بلند آ واز سے کہا
بھئی صبح صبح پارک میں لڑکیوں کو امپریس کرنے کے لیے
سوہا نے جواب دیا
بندر جیسی شکل ہو تو چاہے بندہ اولمپک ریس بھی بھاگ بھاگ کے جیت لے کوئی نہیں پھنسے گئی
مونا نے پھر نشتر چلایا
کیا پتہ کوئی اندھی کانی ادھر گھوم ہی رہی ہو جس پہ ناول پڑھ پڑھ کے اور فلمیں دیکھ دیکھ کر محبت کا بھوت سوار ہو وہ پھنس ہی جائے
سوہا کو بھی ایک سے بڑھ کر ایک جواب سوجھ رہا تھا
سوہا ڈارلنگ اگر کوئی نہ پھنسی تو سوچو کہیں یہ لڑکے ایسے ہی بھاگ بھاگ کے مر نہ جائیں
مونا نے اب کے بار سیدھی چوٹ لگائی
وار کرارا تھا جس کا جواب ضروری تھا
ایک منٹ رکیں ذرا آپ دونوں
علی نے انھیں رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا
صبح صبح تمیز و تہذیب کی مالک اور سلیقہ شعار لڑکیاں گھر میں اپنے ماں کے ساتھ کیچن میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں
اور تم جیسی بد تمیز نکمی کام چور یہاں پارک میں لڑکوں کے ساتھ فضول قسم کی دوڑ لگا کے حالات حاضرہ کے بارے میں سب کو خبریں فراہم کرتی ہیں کیا اب بھی آپ کا خیال ہے کہ کوئی مجھ جیسا شریف انسان ایسی لڑکیوں سے محبت کے بارے میں سوچ سکتا ہے شادی تو بہت دور کی بات ہے ؟
علی نے اچھا خاصا لوجیکل سوال کھڑا کر دیا تھا جس کا مونا کو فوری طور پر کوئی جواب نہیں سوجھا تھا
اور وہ ان دونوں کو وہیں حیران کھڑا چھوڑ کے آگے بڑھ گیا تھا
مونا یہ ہماری باتوں کا جواب دے کر گیا ہے یا ہماری بے عزتی کر کے گیا ہے ؟
سوہا نے ایک طرف پتھر کے بنچ پہ بیٹھتے ہوئے کہا
پتہ نہیں کیا کر کے گیا ہے
اوہ گاڈ اتنے لیٹ اب جو پاپا سے ناشتے کی میز پہ عزت افزائی ہو گی وہ واقعی بے عزتی ہو گی
چلو سوہا بھاگو
ہم لیٹ ہو چکی ہیں
مونا نے ٹائم دیکھ کر چلاتے ہوئے کہا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...