آپی پلیز آپ اماں سے بات کریں نا۔۔ آپ بات کریں گی تو وہ مان جائے گی۔۔ وہ فون پہ رو رو کر نمل سے بات کر رہی تھی۔۔اماں نے اسے یونی جانے سے منع کر دیا تھا۔۔ پہلے تو پرمیشن دے دی تھی پر جب سے انہیں پتہ چلا تھا وہ لاہور جانے کی بات کر رہی ہے تو انہوں بے سختی سے منع کر دیا تھا۔۔
گڑیا تم رونا تو بند کرو۔۔ ابان بھائی ہے نا وہ سب سنبھال لے گئے تم کیوں فکر کرتی ہو۔۔ وہ عائز کو تیار کر رہی تھی۔۔ ساتھ ساتھ فون کان سے لگائے وہ اسے مسلسل بہلا بھی رہی تھی۔۔
اماں نے سختی سے منع کر دیا ہے۔۔ وہ کہتی ہے چاہے جو بھی آ جائے وہ نہیں مانے گی۔۔ روشم نے اسے ان کا حتمی فیصلہ بتایا۔۔
تمہیں پتہ ہے نا ابان بھائی کا۔۔ وہ کر لیں گئے کچھ نا کچھ اور اب ٹینشن نہ لو۔۔ میں عائز کو کھانا کھلا لوں پھر بات کرتی ہوں۔۔ آئی رپیٹ ٹینشن نہیں لو۔۔ اوکے۔۔ وہ اپنی بات کہتے ساتھ ہی وہ فون رکھ چکی تھی۔۔
جبکہ روشم ابھی تک پریشان ہو رہی تھی۔۔ جب تک معاملہ سولو نہ ہو جاتا اس نے اسی طرح پریشان ہونا تھا۔۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب دروازہ ناک ہوا۔۔
آ جائیں۔۔ اپنا دوپٹہ ٹھیک کر کے اس نے اجازت دی۔۔
کیسی ہے میری گڑ۔۔ وہ جو اندر آتا بات کر رہا تھا روشم کی سوجی آنکھیں دیکھ کر بات منہ میں ہی رہ گئی۔۔
کیا بات ہے میری جان۔۔ کیا ہوا ہے۔۔ رو کیوں رہی ہو۔۔ وہ ایکدم پریشان ہوتا اس کے نزدیک آیا۔۔ آخر کو وہ اسے روتا ہوا کہاں دیکھ سکتا تھا۔۔
ابان کا دہارا پا کر وہ مزید بکھر گئی۔۔ آنسو جو پہلے ہی آنے کو بے تاب تھے ابان کو دیکھ کر وہ فوراً رخساروں پہ بہہ گئے۔۔
بھائی۔۔ اماں کہتی ہے وہ مجھے لاہور یونی میں نہیں پڑھنے دے گی۔۔ ابان کے کندھے سے لگی وہ سسک اٹھی۔۔
میری جان۔۔ ادھر نیری طرف دیکھو۔۔ اس نے مشکل سے روشم کا چہرہ پکڑ کر اوپر کیا۔۔
مجھ پہ اعتبا ہے نا؟۔۔ ابان کے پوچھنے پہ اد نے اثبات میں سر ہلایا۔۔ بس پھر بھروسہ رکھو۔۔ میرے ہوتے ہوئے کوئیبرا نہیں کرے گا۔۔ نہ تمہیں کوئی روکے گا۔۔ تم جہاں کہو گی وہاں تمہارا ایڈمیشن ہو گا۔۔ بس اب رونا بند کرو۔۔ اس نے پیار سے اس کے آنسو صاف کیے۔۔
لیکن بھائی۔۔ اماں۔۔ اس کی بات کو ابان نے بیچ میں ہی کاٹ دیا۔۔
اماں سے میں بات کرتا ہوں۔۔ تمنے بس اب رونا نہیں ہے۔۔ اوکے؟؟۔۔ اس کے پیار سے پچکارنے پہ روشم نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا۔۔
چلو بس اب تم ریسٹ کرو۔۔ میں اماں سے بات کر کے آتا ہوں۔۔ اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے وہ دروازے کی جانب چل دیا۔۔ جبکہ پیچھے روشم کھل کر مسکرا دی۔۔ اب جب ابان نے کہہ دیا تھا کہ وہ سب سبنبھال لے گا تو مطلب وہ واقعی میں سنبھال لے گا۔۔ اب روشم کو کسی بھی قسم کی ٹنشن لینے کی ضرورت نہیں تھی۔۔
***
میں اندر آ جاؤں اماں۔۔ دروازے پہ کھڑا وہ اماں کے حکم کا منتظر تھا۔۔
ہاں نا میرے بچے۔۔ آؤ۔۔ وہ جو چاشت کی نماز کے بعد تسبیح کر رہی تھی ابان کو اندر آنے کی اجازت دی۔۔
اماں مجھے اپ سے بات کرنی ہے۔۔ ابان سیدھا ان کی گود میں آ کر لیٹ گیا۔۔
ہاں بولو میرا بچہ۔۔ انہوں نے اپنی تسبیح اٹھا کر سائڈ پہ رکھی۔۔
اماں آپ روشم کو کیوں نہیں جانے دے رہی ہے لاہور۔۔ اس کی بات ان کے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہاتھ ایک پل کو رکے۔۔ پھر جب بولی تو لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔۔
کیونکہ مجھے یہی بہتر لگا اور تم اس معاملے پہ مجھ سے بحث نہیں کرو گے ابان۔۔ انہوں نے تو صاف صاف اپنا فیصلہ سنا دیا۔۔
کیوں بحث نہ کروں اماں۔۔ وہ بھی گود سے اب اٹھ بیٹھا تھا۔۔
یہ اس کی خواہش ہے اور میں اس سے وعدہ کر چکا ہون۔۔ اور خدانخواستہ ایسی کوئی ناجائز خواہش تو نہیں ہے نا جسے پورا نہ کیا جا سکے۔۔ وہ شاید دو ٹوک بات کرنے کے موڈ میں تھا۔۔
تم جانتے ہو نا سب۔۔ پھر بھی یہ بات کر رہے ہو۔۔ میری دل کی حالت بھی جانتے ہو۔۔ لاہور کتنا دور ہے۔۔ میں کیسے بھیج دوں اسے اتنی دور۔۔ اسے کہو یہی کہی ملتان میں اڈمیشن لے لے۔۔ میں منع تو نہیں کر رہی ہوں نا ابان۔۔
ان کے لہجے میں واضح بے بسی تھی۔۔ کھونے کا ڈر۔۔ ایک انجانہ خوف جس سے ابان بخوبی واقف تھا۔۔
آپ کیوں پریشان ہوتی ہے اماں۔۔ روشم میری بہن سے ذیادہ میری بیٹی۔۔ اور میں اس کا بھائی نہیں باپ ہوں۔۔ مجھے پتہ ہے مجھے اس کو سونے کا نوالا کھلا کر شیر کی نظر سے دیکھنا ہے۔۔ اپ بس پریشان ہونا چھوڑ دے۔۔ یہ انجانے خوف ویسے بھی اپ کی صحت کے لیے اچھے نہیں۔۔
وہ انہیں پیار سے قائل کر رہا تھا۔۔ جانتا تھا ایسے وہ نہیں مانے گی۔۔ اور بلاشبہ اماں کو منا لینے کا کام ابان کو بخوبی آتا تھا۔۔
ٹھیک ہے جو تم۔ مناسب سمجھتے ہو کر دو۔۔ میری تو یہاں کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔۔ اجازت دے کر بھی وہ ناراضگی دکھانا نا بھولی تھی۔۔
ہائے میری پیاری اماں۔۔ آئی لو یو سو مچ۔۔ ان کے مان جانے پہ وہ پیار سے بچوں کی طرح ان کے گلے لگ گیا۔۔ پھر ان کو پیار کر کے باہر کی طرف بھاگا۔۔ اب اسے یہ خوشخبری روشم کو بھی تو سنانی تھی۔۔
جبکہ پیچھے اماں پریشان سی سوچ رہی تھی۔۔ انہوں نے اجازت دے تو دی تھی پر اس بار ابان کی تقریر بھی ان کے وسوسوں کو دور نہ کر سکی تھی۔۔
***
آسیہ یہ کیا کر رہی ہو تم۔۔ اس طرح یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔۔ عظمیٰ کب سے آسیہ کو سمجھا رہی تھی لیکن وہ کہاں سمجھتی اس کے سر پہ تو محبت کا بھوت سوار تھا۔۔
عظمیٰ پلیز مجھے مت روکو۔۔ تم جانتی ہو نا میں عفان سے کتنا پیار کرتی ہوں۔۔ تمہاری تو شادی ہو چکی ہے۔۔ اگر آج ماما بابا زندہ ہوتے تو میں کسی نہ کسی طرح ان کو عفان کے لہے قائل کر لیتی۔۔ لیکن چچی میری شادی کبھی عفان سے نہیں ہونے دے گی اور میں عفان کے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔ اس لیے پلیز مجھے مت روکو۔۔ مجھے یہ قدم اٹھانے دو۔۔
وہ اندھی تھی عفان کی محبت میں اور اندھا ہونا بنتا بھی تھا۔۔ عفان نے اسے اتنا پیار دیا تھا کہ وہ اس کی محبت سے باہر دیکھ ہی نہ پا رہی تھی۔۔
آج بھی سب مان جائے اگر وہ اپنی فیملی لے آئے تو۔۔ عظمی اسے قائل کرنے کی ممکنہ کوشش کر رہی تھی۔۔
عظمیٰ دیکھو۔۔ جانتی ہوں کہ یہ سب غلط ہے لیکن میرے پاس اس لے علاوہ اور کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے۔۔ اگر وہ یہاں رشتہ لے کر آ بھی کیا تو چچی لبھی نہیں مانے گی۔۔ اور میں محبت میں رو رو لر بے حال ہونے والی لڑکی نہیں ہوں۔۔ اور ویسے بھی آسام بھائی سب سنبھال لیں گئے۔۔ وہ باتین کرتے ساتھ ساتھ اپنا بیگ سمیٹ رہی تھی کہ اس کو اب کبھی لوٹ کر یہاں نہیں آنا تھا۔۔
کیا آسام سب جانتے ہیں۔؟؟ عظمیٰ کو تو شاکڈ ہی لگ گیا تھا۔۔
ہاں نا وہ عفان سے ملے ہیں اور سچ پوچھو تو اس سب کا مشورہ بھی ان کا ہے۔۔ اس نے ہنستے ہوئے ایک آنکھ مار کر اسے اپنا کارنامہ بتایا۔۔
کانٹ بیلہو آسیہ۔۔ ابھی وہ اس کو کچھ اور کہتی باہر سے چچی کی اونچی اونچی بولنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئی تھی۔۔
کہاں ہیں ناس پٹی۔۔ برتن کیا تیرے باپ نے دھونے ہیں۔۔ ان کی بات سن کر جہاں عظمیٰ نے افسوس سے اپنا سر جھٹکا وہیں آسیہ نے عظمیٰ کو ایک نظر دیکھا۔۔
تم یہی رکو۔۔ میں ذرا آتی ہوں۔۔ اسے یہی رکنے کا کہہ کر وہ باہر آئی۔۔
جی چچی جان فرمائے کیا فرما رہی تھی آپ۔۔ کان میں انگلی گھماتے وہ مکمل لاپرواہ انداز میں ان سے پوچھ رہی تھی۔۔
مہارانی صاحبہ میں کہہ رہی ہوں برتن آپ کے باپ نے دھونے ہیں۔۔ باپ کے تزکرے پہ اسے غصہ تو بہت آیا لیکن خود کو کنٹرول کرتی بولی۔۔
ہمم آئیڈیا تو اچھا ہے پر باپ کو قبر سے بلانے کے لیے کسی کو قبرستان جانا پڑے گا۔۔ کیوں نا آپ چلی جائیں وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔۔ آخر میں اس کا لہجہ خودبخود تلخ ہو گیا۔۔ آسیہ کی بات سن کر تو ان کے سر پہ لگی اور تلووں پہ بجھی۔۔ عظمیٰ بھی باہر آ چکی تھی۔۔ اور دونوں کی بحث سے پریشان تھی۔۔
اوہ بی بی۔۔ یہ جو گز بھر زبان ہے نا اس کو سنبھال کر رکھو۔۔ اگلے گھر جانا ہے تم نے۔۔ اتنی زبان والی لڑکیوں کو لوگ اگے دن ہی کاغڈ دے کر گھر بھیجتے ہیں۔۔ ہاتھ نچا نچا کر بولتی وہ آسیہ کو غصہ دلانا چاہ رہی تھی پر کہی نہ کہی اندر وہ جانتی تھی کہ یہ سب بے سود ہے۔۔
پیاری چچی جان میری فکر نہ کریں۔۔ جیسے آپ لو سنبھالنے والا مل گیا ویسے ہی مجھےبھی مل جائے گا۔۔ فکر اپنی چہیتی کی کرے اس کی عمر نکلی جا رہی ہے۔۔
کہہ کر وہ رکی نہیں تھی عظمیٰ کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ کمرے میں چلی گئی جبکہ پیچھے چچی کی پھر سے بلند آوازیں انا شروع ہو گئی۔۔
اففف۔۔ یہ کیا تھا۔۔ عظمیٰ تو ابھی تک حیران تھی اس گولہ باری پہ۔۔
دیکھا تو ہے کیا تھا۔۔ اب اس سے ذیادہ میں اور کیا ایکسپلین کروں۔۔ بالوں کو برش کرتی وہ عظمیٰ کو شاکڈ پہ شاکڈ دے رہی تھی۔۔ یہ وہ آسیہ تو نہیں جو تین سال پہلے تھی۔۔ اماں ابا کی ڈیتھ کے بعد اس کا یہاں واجبی سا ہو گیا تھا ذیادہ تر وہ آسیہ سے یونی میں ہی مل لیتی تھی یہ اس کے سامنے ہونے والا پہلا قصہ تھا اس لیے وہ حیران تھی۔۔بچوں کی وجہ سے اب اسے ویسے ہی وقت نہ ملتا تھا۔۔
لیکن پھر بھی آسیہ تمہیں چچی سے اس طرح بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔۔ اپنی طرف سے اس نے اسے سمجھانے کی لوشش تھی۔۔ اس کی بات پہ وہ مسکرائی۔۔
اگر میں یہ سب نا کروں نا تو مر جاؤں۔۔ مجھے بد تمیز ہونا قبول ہے۔۔ لیکن میں ان کا فضول قسم کا ظلم برداشت نہیں کر سکتی۔۔ آج میری باری برتن دھونے کی تھی ہی نہیں تو میں کیوں کروں۔۔
لاپروائی سے بولتی وہ عظمیٰ کو حیران کر گئی تھی۔۔
خیر تم یہ سب چھوڑو آؤ عفان سے تمہاری بات کرواتی ہوں اس سے پہلے آسام بھائی آ جائے۔۔ ان سے بات کر کے یقیناً تمہیں تسلی ہو جائے گی۔۔ وہ پرجوش سی موبائل کی طرف بڑھی اور عظمیٰ اس کی شکل دیکھ کر خوش ہو رہی تھی۔۔
واقعی اس ماحول میں رہنے کے لیے ڈھیٹ ہونا ضروری تھا۔۔
اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔۔ عظمیٰ نے دل سے دعا کی تھی لیکن ہر دعا قبول ہو ایسا ممکن کب ہوا ہے۔۔
***
یہ کیا کھانا بنایا ہے۔۔ پورے ماحول میں باؤ جی اور شیشے کا باؤل ٹوٹنے کی آواز چھنکی تھی۔۔
کیا ہوا سرکار۔۔ بے جی نے ان سے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔ کیا مذاق تھا نا وہ نام کو “بے جی” تھی لیکن حق ان کو کسی چیز کا اتنا سا بھی حاصل نہ تھا۔۔
یہ کھانا بنایا ہے؟؟ بلکل پھیکا۔۔ وہ زمین کی اس باؤل کی طرف دیکھتے ہوئے وہ غصے سے بولے جو اب چکنا چور ہو چکا تھا اور اس میں موجود سالن صحن پہ بکھرا تھا اور کچھ چھینٹیں دیوار پہ بھی تھی۔۔
بے جی نے ڈر ڈر کر ندرت کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ پرسوں کی مار کے ابھی تک نیل واضح تھے اور پھر عرشمان کے چہرے کی سختی کو۔۔
کیونکہ کھانا آج ندرت نے بنایا تھا اور وہ اسے مزید اذیت نہ دینا چاہتی تھی۔۔ اس لیے انہوں نے سر جھکا کر سارا الزام خود پہ لے لیا۔۔
معاف کر دیجیے سرکار۔۔ اب ایسا۔۔ ان کی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی جب باؤ جی نے ایک زوردار تھپڑ ان کے گال پہ رسید کیا جس سے ان کا سر عرشمان کی چئیر کے پچھلے حصے پہ لگا۔۔
آہ۔۔ درد کی ایک لہر ان کے پورے دماغ میں دوڑ گئی۔۔
مار منحوست کو۔۔ سالوں سال ہو گئے پر کھانا پکانا نا آیا۔۔ یہ وڈی اماں تھی جنہوں نے اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا تھا۔۔
رہنے دیں وڈی اماں جس عورت کو خود احساس نہ ہو اسے کچھ بھی کہہ لو اسے احساس نہیں ہو گا۔۔ آج رات کمرے میں مت آنا۔۔ کہہ کر وہ رکے نہیں تھے ڈائننگ حال سے نکلتے چلے گئے تھے۔۔
اس پورے حال میں صرف ایک ہی شخص ایسے مطمئن بیٹھا تھا جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہ ہوا۔۔ اور وہ یقیناً عرشمان ہی تھا۔۔
***
بے جی کیا ہوا ہے۔۔ اتنی رات کو آپ یہاں کیا لر رہی ہیں اور یہ ماتھے پہ کیا ہوا ہے۔۔ عیش میر جو صبح سے اڈمیشن اقر رہائش کے معاملے میں شہر گیا تھا واپسی پہ یون ماں کو لاؤنج میں سر پہ پٹی باندھے دیکھ کر حقیقتاً پریشان ہوا تھا۔۔ کیونکہ باؤجی انہیں دس بجے کے بعد کمرے سے نکلنے نہ دیتے تھے۔۔
وہ۔۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ بیٹے سے چھپا لیں۔۔ لیکن اتنے ظلم ایک نرم کندھا مل جائے تو کون نہیں ٹوٹتا وہ بھی ٹوٹ گئی تھی۔۔ بکھر گئی تھی اس کے ایک بار پہار سے پوچھنے پہ ہی ان کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا سا اٹک گیا تھا۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گالوں پہ بہہ نکلے تھی۔۔ ماں کو یوں روتا دیکھ کر اس نے جھٹ سے انہیں اپنے گلے لگایا۔۔
وہ ساری کہانی سمجھ گیا تھا اسے اب کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ تھی۔۔
باؤجی ابھی تک بے جی پہ ہاتھ اٹھاتے ہیں۔۔ بس ایک بار اپنے پیروں پہ کھڑا ہو جاؤں۔۔ پھر بے جی کو اتنی دور لے جاؤں گا جہاں غم دکھ تلہف ان سب چیزوں کا غم کا نشان نہ ہو گا۔۔ وہ یہ سب صرف سوچ ہی سکا تھا ابھی کہنے کی ہمت نہیں تھی۔۔
اور بے جی ان کے لیے تو عرش میر لے الفاظ سے ذیادہ اس کا کندھا ہی کافی تھا۔۔ اس کی محبت کا حصار جو وہ ان کے گرد باندھے تھا۔۔ اور اسی اولاد کی محبت میں رو کر وہ اپنا سارا غم ہلکا کرنا چاہتی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...