”تڑاخ”وہ بلا خوف و خطر زنّاٹے دار تھپڑ اسے رسید کر چکی تھی وہ بھی پورے کالج کے سامنے ۔ ” ہاؤ ڈئیریو”۔ شعلہ بار نظروں سے گھورتے ہمدان آفندی نے غصّہ سے مٹھی بھینچتے کہا۔ ” ہاؤ ڈئیریو؟؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی ہاں”۔ پر تیش لہجے میں کہتی حورین کی آنکھیں بھی غصّہ کی شدت سے سرخ ہو رہی تھی اسکا بس چلتا تو سامنے کھڑے شخص کو تین چار تھپڑ اور جڑ دیتی۔ ” یہ تم نے اچھا نہیں کیا مس حورین غضنفر”۔ وہ دانت پیستا انگلی اسکی طرف کرتے کہہ رہا تھا۔ ” ہاں واقعی اچھا نہیں کیا تم جیسوں کا دماغ تو جوتوں سے ٹھیک کرنا چاہئے تمہں تو میں تھپڑ مارنے کے لئے بھی چھونا پسند نہ کروں میرے سارے ہاتھ گندے ہو گئے ”۔ حورین ازلی لاپروائی سے کہتی اپنے ہاتھ رگڑ کر صاف کرنے لگی۔ ”تمہیں تو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ یاد رکھو گی”۔ وہ قہرآلود نظر اسپے ڈالتا ہاتھ میں پکڑے نوٹس مٹھی میں دبوچتا جا چکا تھا۔ ” کن سوچوں میں بیٹھی ہیں دلہن صاحبہ؟؟ عارش نے اسکے سامنے ہاتھ ہلایا تو وہ ہوش میں آئی تھی۔ ” یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ یہ پورے ایک سال بعد کہاں سے آگیا؟؟ حورین دل میں سوچتی فکر مند ہو رہی تھی۔ ” ہیلو”۔ عارش نے اس بار زور سے چٹکی کاٹی تو حورین ہوش میں آئی۔۔ ”آؤچ۔۔۔دماغ ٹھیک ہے تمہارا پاگل انسان”۔ حوریں نے جل بھن کر عارش کو گھورا۔ ” میرا تو ٹھیک ہے تم ہی حسن کی دیوی بنی ابھی سے کسی کی سوچوں میں گم بیٹھی ہو”۔ عارش نے دانت نکالتے اسے چھیڑا۔ ” عارش۔۔۔ میں۔۔۔وہ۔۔ ” حورین کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے کہے پریشانی اسکے لہجے سے صاف جھلک رہی تھی۔ ” شاباش ہکلانے کے دورے بھی پڑنے لگ گئے گڈ گڈ”۔ عارش تھا باز کیسے رہتا اسے تنگ کرنے سے۔ ” دفع ہو۔۔ میں یہاں اتنی پریشان بیٹھی ہوں اور تم”۔ حورین جھنجھلا کہ رہ گئی۔ ” کیا ہوا پریشان کیوں ہے ہماری بندریا”۔ عارش نے سنجیدگی سے کہا۔ ” بات ہی ایسی ہے عالی قدر آگ کے گولے”۔ حورین نے بھی سنجیدگی سے لیکن تنزیہ جواب دیا۔ ” اچھا بتاؤ کیا بات ہے”۔ اب کی بار معاملے کی سنگینی کو سمجھتے عارش سچ میں سنجیدہ ہوا تھا۔ ” عارش۔۔۔ میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی پلیز مجھے اس شخص سے بچا لو کسی طرح”۔ حورین نے التجاء کرتے ہوئے کہا۔ ” ہیں؟؟؟ کیوں آخر ریزن کیا ہے اچھا بھلا تو ہے ہمدان اور فیملی بھی اچھی ہے کوئی معقول وجہ بھی تو ہو”۔ عارش اسکی بات پہ حیران ہوا تھا۔ ” کہیں پھر سے تو میری محبت کا بھوت نہیں سوار ہو گیا تمہارے دماغ پہ”۔ عارش نے حورین کے دل پہ چوٹ کی۔ ”عارش۔۔۔” حورین نے اسے غصے سے گھورا۔ ” ایک بار تم سے بھیک مانگی تھی غلطی ہو گئی تھی مجھ سے بار بار تم جیسے کم ظرف انسان سے بھیک مانگنے والی نہیں ہوں میں وہ بھی اپنی محبت کی لہٰذا اس خوش فہمی سے باہر نکل آؤ”۔ حورین نم ہوتی آنکھوں کو قا بو کرتی سنجیدگی سے کہہ رہی تھی جبکہ اس بار عارش کے دل میں پھانس سی چبھی تھی۔ ” ہمدان سے کیا مسئلہ ہے پھر تمہیں؟؟ عارش سیدھا مدعے پہ آیا۔ ” وہ کالج میں لاسٹ ائیر اسکے ساتھ چھوٹا سا پنگا ہو گیا تھا، وہ مجھے دھمکی دے کر گیا تھا کہ مجھسے ایسے نہیں چھوڑے گا میں تو سب بھول گئی تھی لیکن اچانک سال بعد وہ ایسے واپس آگیا اور میرا رشتہ بھی ہوگیا اس سے دل میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے عارش”۔ حورین تفصیل بتاتی روہانسی ہو گئی تھی۔ ” اچھا تو یہ بات ہے لیکن پہلے کیوں نہیں بتایا تم نے؟ ایسی باتیں چھپانے کی نہیں ہوتی حور”۔ عارش نے اسے ڈپٹا ہی تو تھا۔” اچھا اب ذیادہ میرے ابا بننے کی ضرورت نہیں ہے مسئلہ کا حل بتاؤ”۔ حورین نے اسکی ڈانٹ پہ کان نا دھرتے ہوئے کہا۔ ” ہممم۔۔۔۔ سوچتے ہیں کچھ”۔ عارش نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجاتے کہا۔
”ہیلو ہمدان”۔ عارش نے کچھ سوچتے ہوئے ہمدان کو کال ملائی تھی اور اب وہ بالکونی میں کھڑا اسکی آواز سن رہا تھا۔ ” ہیلو۔۔۔ ہوز دیئر”۔ ہمدان لیپ ٹاپ پر تیزی سے کچھ ٹائپ کرتے پوچھ رہا تھا۔ ” عارش ہیئر”۔ عارش نے دوستانہ انداز میں اپنا تعارف کروایا۔ ” اوو۔۔۔ عارش کیسے ہو یار”۔ ہمدان بھی مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔ ” میں ٹھیک ہوں کیا کر رہے ہو میں سوچ رہا تھا ڈنر ساتھ کرتے آج”۔ عارش نے بے تکلفی سے کہا۔ ”وائی ناٹ۔۔۔ اس سے اچھا کیا ہوگا حور کے بارے میں بھی جاننے کا موقع مل جائے گا”۔ ہمدان کے حورین کو حور کہنے پہ عارش کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ ”حور بھی ہوگی نا ساتھ”۔ ہمدان کی پر جوش آواز عارش کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ ” نہیں حور کا کیا کام بھلا۔۔۔ آئی مین میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا تھا اکیلے میں اس لیئے”۔ عارش کا جملہ ادھورا رہ گیا تھا۔ ” اوہ ۔۔۔ اٹس اوکے تم پلیس اور ٹائم ٹیکسٹ کردو میں آجاؤں گا”۔ ہمدان نے اسے خوشنما انداز میں جواب دیا اور ساتھ ہی کال کٹ کردی۔ وہ دسمبر کی ایک سرد اور خوبصورت شام لان سے اٹھتی گلاب اور موتیے کی خوشبو حورین کی سانسوں کو معتر کر رہی تھی کبھی وہ کسی پھول کی خوشبو فیل کرتی کبھی کسی کی، اتنی سردی حورین سے برداشت نہ ہوتی تھی لیکن جانے آج اسے سردی فیِل ہی نہیں ہو رہی تھی وہ تو آج جیسے دنیا جہان سے بیگانی ہو رہی تھی عارش کب سے بالکونی میں کھڑا اسکی ہر ہر ادا نوٹ کر رہا تھا۔ کمر سے نیچے جاتے کھلے سلکی بالوں میں گلاب کا پھول توڑ کر سجاتی وہ واقعی کوئی حور لگ رہی تھی۔ وہ کب سے یونہی مسکراتے ہوئے پھولوں کو دیکھتی لطف اندوز ہو رہی تھی تبھی جانے کب عارش اسکے عین پیچھے آن کھڑا ہوا تھا، عارش خود بھی نہیں جانتا تھا اسے کونسی قّوت یہاں کھینچ لائی تھی۔ حورین اندر جانے کو پلٹی ہی تھی کہ عارش سے اسکی ٹکر ہوئی وہ اسکے سینے سے جا لگی تھی۔ جہاں حورین بوکھلا کر پیچھے ہٹی تھی وہیں عارش کو بھی ہوش آیا تھا۔ ” تم ۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو”۔ حورین نے گھبراہٹ چھپاتے ہوئے اس سے پوچھا۔ ” میں۔۔۔۔ وہ میں تو بس یہاں سے گزر رہا تھا”۔ عارش نے بات بنائی۔ ” گزر رہے تھے یا ۔۔۔۔۔” حورین نے نظریں چراتے کہا۔ عارش نے اسکی ادا پہ اسے غور سے دیکھا حورین کی آنکھوں میں آج اسے الگ ہی چمک محسوس ہوئی، لبوں پرخوبصورت مسکان مسلسل اسکے چہرے کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ ” یا کا کیا مطلب؟؟ تم کب سے باتیں ادھوری چھوڑنے لگ گئی”۔ ” میرا مطلب ہے کسی کو ڈھونڈ رہے تھے کیا ورنہ گزرتے ہوئے تمہارا رخ دوسری طرف ہونا چاہیے تھا”۔ حورین نے اسکی آنکھوں میں کچھ جانچنا چاہا تھا۔ ” لگتا ہے بندریا کا دماغی توازن الٹ چکا ہے وہ بھی پوری طرح ”۔ عارش نے قہقہہ لگاتے اسکا مزاق اڑایا ۔ ” تمہیں کیسے پتہ”۔ حورین بھی ہنس رہی تھی اب تو عارش کو یقین ہو چکا تھا کہ اسکا دماغ پلٹ چکا ہے۔ ” خدا کا واسطہ ڈرا کیوں رہی ہو نہ کوئی تنز نہ غصہ خیر تو ہے”۔ عارش کو تشویش ہوئی۔ ” بس ایسے ہی ”۔ حورین نے شرماتے ہوئے کہا جس پہ عارش اچانک ٹھٹھکا تھا۔ ” حور۔۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو یار”۔ عارش کو حور کا یوں شرمانا زہر اور عجیب لگا تھا۔ ” عارش میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں”۔ حورین نے نظریں جھکائے اسی خوبصورت مسکان کے ساتھ کہا۔ ” ہاں ہاں کہو ”۔ عارش اسکی بات جاننے کے لئے بے چین ہوا۔ ” عارش میں۔۔۔۔” وہ پل بھر کو رکی۔ ” عارش مجھے کسی سے محبت ہو گئی ہے، اور پتہ ہے کب سے؟ بلکہ مجھے تو خود ہی نہیں پتہ کب اور کیسے لیکن میرا دل کرتا ہے میں ہر پل اسے دیکھوں اسے محسوس کروں، میں۔۔۔ میں اپنی ساری لائف اسکے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں”۔ وہ ایکسائیٹڈ ہوتی عارش کو بتا رہی تھی۔ ” عارش میرا دل کرتا ہے میں اسکا ہاتھ تھام کر جھومتی رہوں”۔ وہ بچوں کی طرح کہتی گھوم رہی تھی بلیک کلر کا لانگ فروک اور چوڑی دار پہنے بالوں میں سرخ گلاب سجائے وہ اتنی دلکش لگ رہی تھی کہ کوئی بھی اسکا دیوانہ ہو سکتا تھا۔ ” عارش اور تمہیں پتہ ہے۔۔” حورین خوشی سے کہے جا رہی تھی۔ ” حور۔۔۔ مجھجے کس لئے بتا رہی ہو یہ سب”۔ عارش تپا ہی تو تھا کسی اور کی محبت کا اقرار وہ اسکے سامنے دھڑلے سے کر رہی تھی۔ ” ارے تمہیں نہ بتاؤں تو کسے بتاؤں آفٹر آل تم میرے بیسٹ فرینڈ ہو اور۔۔۔۔” حور کی زبان کو اچانک سے بریک لگی تھی اور ایک پر شوق نگاہ عارش پر ڈالی۔ ”اور۔۔۔؟؟؟ عارش نے ٹٹولتی نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا حورین نے ایک دم عارش کا ہاتھ تھام لیا تھا عارش اسکی حرکت پر جیسے سکتے میں چلا گیا۔” عارش۔۔۔ تم ہی تو ہو میری محبت میری دیوانگی۔۔۔۔ میرا سب کچھ”۔ وہ دل میں بے شمار ارمان لئے اسی دلفریب مسکان کے ساتھ اسے کہہ رہی تھی جبکہ عارش حیران ہوتا جیسے کہیں کھو گیا تھا اتنی دیر تک عارش کو خاموش دیکھ حورین کا دل زور سے دھک دھک کرنے لگا تھا۔ ” عارش۔۔۔ آئی لو یو”۔ حورین کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ ایک جھٹکے سے عارش نے اسکا ہاتھ جھٹک کرا سے خود سے دور کیا تھا تھا۔ ” تم واقعی میں پاگل ہو چکی ہو”۔ عارش حقارت بھری نظر سے اسے گھورتا کہہ رہا تھا۔”عارش ۔۔۔” وہ حیران کھڑی اسے یک ٹک دیکھے گئی۔ ” تم نے محبت کرلی مجھ سے واؤ۔۔۔ بہت احسان کردیا ہیں نہ؟ تم جیسی بد تمیز، بد دماغ اور مغرور لڑکی کی طرف میں دیکھنا بھی نہ پسند کروں ”۔ عارش نے ایک ایک لفظ پہ زور دیتے کہا تھا۔ حورین کے چہرے سے مسکان غائب ہو چکی تھی، سردی سے برف ہوتے سرخ گال اب بری طرح آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے۔ ” عارش۔۔۔۔ میری۔۔۔۔ بات تو سنو”۔ حورین نے بھیگی آواز میں کچھ کہنا چاہا۔ ” جسٹ شٹ اَپ۔۔۔ جو لڑکی یہاں کھڑی میرا ہاتھ پکڑ کر بے شرمی سے اظہا رِ محبت کر رہی ہے کالج میں تو پتہ نہیں کیا کیا گل کھلاتی ہوگی”۔ عارش غصے سی لال آنکھوں سے اسے گھورتا اسکے کردار پہ بات لے گیا تھا۔ ” عارش۔۔۔ میرے بارے میں اتنی گھٹیا سوچ تمہارے دماغ میں آئی بھی کیسے”۔ اب کی بار حورین چلا اٹھی تھی اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔ ” ہاہاہا۔۔۔ تو اور کیا کہوں تم جیسی بے شرم لڑکی کو”۔ وہ قہقہہ لگاتے تنزیہ اسے کہہ رہا تھا۔ اسکے الفاظ حورین پہ پتھر کی طرح برسے تھے اسے لگا جیسے کسی نے اسے گہری کھائی میں دھکا دے دیا ہو۔ ”تم جیسی لڑکی میری محبت کے قابل ہو ہی نہیں سکتی نفرت ہو رہی ہے مجھے آج تم سے”۔ عارش کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھی۔ ” بکواس بند کرو اپنی سمجھے ۔۔۔ ”۔ حورین پوری شدت سے چلا ئی تھی جبکہ آواز رندھی ہوئی تھی۔ ” نفرت۔۔۔ تم جیسا شخص تو کسی لڑکی کے پیار کے بھی قابل نہیں۔۔۔ مسٹرعارش ضیافت علی مجھے تم جیسے گھٹیا انسان سے اس وقت نفرت بھی نہیں ہو رہی میری نفرت کے بھی قابل نہیں تم سمجھے کسی قابل نہیں تم”۔ وہ چلاتے ہوئے کہتی آنکھیں رگڑتی اندر بھاگی تھی جبکہ عارش وہیں سن کھڑا حور کے الفاظ سوچتا رہ گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭
”عارش بھائی”۔ اشعر، عارش کو پکارتا اسکے روم میں چلا آیا وہ جو بالکونی میں کھڑا بیتا ماضی یاد کر رہا تھا نم آنکھوں کو صاف کرتا اندر آگیا۔ ” ہاں بولو اشعر”۔ اسنے بیڈ پہ بیٹھتے کہا۔ ” حورین آپی کہہ رہی ہیں آپ نے ڈنر پہ جانا ہے نہ تیار ہوگئے؟؟ اشعر نے اسکے حلیے پہ نگاہ دوڑاتے کہا۔ ”ہاں بس ہونے لگا تھا ریڈی”۔ عارش جواب دیتا وارڈروب سے شرٹ نکالنے لگا۔ ” حورین آپی نے کہا ہے اس آگ کے گولے کو کہہ دو لیٹ نہ ہو ٹائم سے پہلے ہی چلا جائے”۔ اشعر نے آگ کے گولے پر زور دیتے ہوئے دانت نکالتے ہوئے حورین کا پیغام پہنچایا۔ ” تمہاری بتیسی ذیادہ نہیں باہر آرہی لگتا ہے توڑنی پڑے گی”۔ عارش نے اسے خونخوار نظروں سے گھوری عنایت فرمائی۔ ” ارے آپ تو برا ہی مان گئے جا رہا ہوں میں آگ کے گولے”۔ اشعر اسے دانت نکالے چڑاتا باہر کی طرف دوڑا۔ ” رک بتاؤں تجھے”۔ عارش بھی اسکے پیچھے بھاگتا ہوا لاؤنج میں آگیا۔ ” ارے آپی ، مما۔۔۔ بچاؤ”۔ صوفے کے ارد گرد گھومتا اشعر دانت نکالے مدد کی اپیل کرتا لان کی طرف بھاگا۔ ” بچ کے کہا جائے گا آج تو خبر لیتا ہوں تیری ”۔ عارش بھی اسکے پیچھے پیچھے تھا غصے میں لان کی طرف لپکتا سامنے سے آتی حورین اسے دکھائی نہ دی اور انکی زور دار ٹکر ہوگئی۔ ” اندھے ہو گئے ہو یا جان بوجھ کے گھٹیا حرکتیں ہو رہی ہیں”۔ حورین اپنا ماتھا دباتی غصے سے اسے گھور رہی تھی جبکہ عارش بس اسکے جملے پہ اسے حیرت سے دیکھے گیا۔ ” سوری۔۔” عارش کہتا تیزی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ” شکر ہے یار آگئے ہو میں تو سمجھا تھا مجھے انوائیٹ کر کے خود بھول گئے”۔ ہمدان نے عارش سے مصافحہ کرنے کے بعد مسکراتے ہوئے شکوہ کیا۔ عارش نے اسے ایک پل کو غور سے دیکھا تھا خوبصورت پرسنیلٹی کا مالک یہ وجیہہ شخص واقعی حور کے قابل تھا۔ ” بس یار ٹریفک کا تو پتہ ہی ہے تمہیں اور سناؤ کیسے ہو”۔ عارش نے پوچھا۔ ” بہت خوش”۔ ہمدان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد عارش نے مدعے پر آنے کا سوچتے ہی بات کردی۔ ” ہمدان تم حورین کو پسند تو کرتے ہو نہ؟؟ عارش کے سوال پر ہمدان پل بھر کو چونکا۔ ”سچ پوچھو تو حورین میری ماما ،اور بابا کی چوائس ہے لیکن حورین کو دیکھنے کے بعد میرا دل مجبور ہوگیا ہے آئی ایم لکی”۔ ہمدان نے اپنے دل کا حال بتایا اسکے آخری جملے نے عارش کے دل پہ چوٹ کی۔ ” یس یو آر۔۔۔ حورین نے بتایا تھا اسکے کالج میں چھوٹا سا مس ہیپ ہو گیا تھا وہ اسکے کئے بہت شرمندہ ہے”۔ عارش نے اس سے اگلوانے کو بات بنائی۔ ” حورین کے ساتھ اسکے کالج میں؟؟ ہمدان نے نا سمجھی میں پوچھا۔ ” ایسا کچھ نہیں ہوا کیا؟ عارش نے اسے حیرت سے دیکھا۔ ” نہیں مجھے تو ایسا کچھ یاد نہیں ایوین حوریں کو فرسٹ ٹائم میں نے اسی دن دیکھا تھا جس دن ہم پروپوزل لائے تھے تبھی اپنا دل ہار بیٹھا تھا”۔ ہمدان نے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا۔ دونوں کافی دیر باتیں کرتے رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...