ایمپوسیبل ماہم چودھری، ایمپوسیبل۔”
”یہ ناممکن ہے۔ بیگ صاحب میں نے سال پہلے بھی کہا تھا اور آج بھی کہہ رہا ہوں۔ آپ نے محبت کے چکر میں اپنا ایک قیمتی سال ضائع کر دیا۔ جتنا وقت آپ نے محبت کو دیا ہے۔ اتنا بزنس کو دیتے تو سال میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔ اب بھی واپس لوٹ آئیں۔ ماہم چودھری کسی قیمت پر آپ کو نہیں مل سکتی۔” دماغ خود ہی بیگ صاحب کو سمجھا رہا تھا۔ مزمل موونگ چیئر پر بیٹھا وال کلاک کو دیکھ رہا تھا۔ چیئر کے موو کرنے کے باوجود بھی مزمل سال پہلے والی جگہ پر ہی بیٹھا تھا۔ وقت کی گردش بھی اُسے ماہم کے قریب نا کر سکی۔
”ناممکن صرف وہ ہے جسے انسان ناممکن سمجھتا ہے۔” دل نے دبے لفظوں کے ساتھ اپنی بات کا آغاز کیا۔ دماغ نے سنا تو زور کا قہقہہ لگایا اور ہنستے ہنستے بولا:
”تم ناممکن کو ممکن کر کے دکھائو مسٹر ہارٹ ! تو میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا۔”
”نہ دل کچھ کر سکتا ہے اور نہ ہی دماغ جب تک انسان خود نہ کچھ کرنا چاہے۔” دل نے اپنی گزارشات پیش کیں۔
”مسٹر ہارٹ! لیکچر مت دو۔ سلوشن بتائو۔” دماغ نے دل پر طنز کیا۔
”مزمل صاحب ! دُعا کرو، دعا!” دل، دماغ کی بجائے مزمل سے مخاطب ہوا۔ دل کی بات سُن کر مزمل کو یاد آیا اُس نے تو اب تک عشا کی نماز بھی ادا نہیں کی۔
٭…٭…٭
”مومنہ! نماز ادا کر لی تم نے۔” مریم نے سختی سے پوچھا۔
”جی ہاں امّی جی۔” مومنہ نے تھکے ہوئے انداز سے بتایا۔
”اتنی جلدی۔” مریم بی بی نے روکھے لہجے میں کہا ۔
”امّی جی! نماز ہے تراویح تھوڑی ہے۔”
”مومنہ بیٹی! عشا کی نماز میں بھی تم ٹائم فجر جتنا ہی لگاتی ہو۔”
”امّی جی ! اب یہ مت کہہ یجیے گا مائرہ تو عشا سے فجر تک عشا ہی پڑتی رہتی ہے۔”
”بکو مت… جب سے تجھے میڈیکل کالج میں داخلہ ملا ہے تمہارے پر نکل آئے ہیں۔” مریم بی بی نے مومنہ کے کندھے پر ہلکا سا تھپڑ مار تے ہوئے کہا۔
”امّی جی! تایا جی کی طرف سے کوئی بھی آپی کا پتا کرنے نہیں آیا۔ آپ نے تو مجھ سے فون بھی کروایا تھا۔”
”مومنہ! حکیم صاحب اور مہتاب خان کے ہوتے ہوئے تیرے تایا جی کی ضرورت نہیں ۔ وہ تو انہیں اطلاع دی تھی۔ بعد میں اعتراض کرتے اپنوں کے ہوتے ہوئے بیٹی کو غیروں کے ساتھ ہسپتال لے گئی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تیرے تایا جی کا فون آیا تھا۔ کل آرہے ہیں۔ ماہم کی خیریت دریافت کریں گے اور شادی کی تاریخ بھی مانگیں گے۔””شادی کی تاریخ؟” اپنی ماں کی بات سُن کر مومنہ کو کرنٹ سا لگا وہ جلدی سے بولی:
”آپ نے آپی سے پوچھا۔”
”ہاں، اُس نے کہا ہے جو وہ تاریخ مانگیں گے دے دیجیے گا۔” مریم بی بی نے کرب سے کہا۔
”امّی جی! گستاخی معاف میرے کالج سے تھوڑا سا آگے مینٹل ہاسپٹل ہے۔ وہاں آپی کا چیک اپ کرواتی ہوں۔”
”تم اپنی بکواس بند کرو۔” مریم بی بی نے تلخ لہجے میں کہا۔
”امّی جی ! ایک بات کہوں۔اُن کی محبت گونگی ، بہری نہیں ہم سب گونگے بہرے ہیں۔ تین گھرا نے سب کے سب گونگے بہرے ہیں۔”
یہ سنتے ہی مریم بی بی نے غور سے مومنہ کو دیکھا۔
”آپ خود ہی کہتی ہیں، میں بچی نہیں ہوں۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ آپ مجھے اور ماہ نور آپی سے خود کہیں گی کہ ماہم کو تم دونوں سہارا دے کر اُس کے کمرے میں چھوڑ آئو۔ امّی جی ایسے مت دیکھیں۔ آپ نے کبھی سوچا ہے اگر یہ بات تین گھروں سے نکل کر معراج کے تین سوگھرانوں تک پہنچ گئی تو؟ پھر کیا ہوگا؟ لوگ باتیں بنائیں گے۔ آپی کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ وہ بدنام ہو جائیں گی پھر کون کرے گا اُن سے شادی؟”
”مزمل بیگ! مزمل بیگ کرے گا تمہاری آپی سے شادی۔ اللہ کو پتا نہیں کیا منظور ہے۔ سال بھر ہوگیا ، مسرت کی شادی کو اُس کے بیٹا بھی پیدا ہوگیا، پر تیری آپی بدنام نہ ہوئی۔”
”امّی جی! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔” مومنہ نے حیرت سے کہا۔
”ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ میرا اختیار صرف اتنا تھا کہ میں اس رشتے سے انکار کردؤں۔وہ اختیار بھی تمہاری بہن نے مجھ سے چھین لیا ہے۔ اپنا اختیار وہ استعمال کرتی نہیں پھر کیسے اُس شرابی سے جان چھوٹے گی۔ بہشتی تیرے ابو نے ہمیشہ تندرستی اور عزت کی دعا مانگی تھی۔ ایک بار مجھ سے کہنے لگے مریم! بدنامّی اور بیماری دونوں ہی بری چیزیں ہیں پر بدنامّی جو ہے یہ بیماری سے بھی زیادہ بُری چیز ہے ۔بیماری کے بعد تو شفا مل جاتی ہے بدنامّی کے بعد تو شفا بھی نہیں ملتی۔ میں نے سوچا تھا بدنام ہوگی تو تیرے تایا جی رشتہ توڑ دیں گے تو مزمل بیگ سے نکاح کروا دوں گی۔ لگتا ہے تیرے ابو کی دعائیں کام آرہی ہیں۔ ورنہ اِس دور میں تو منٹوں میں ساری دنیا میں خبر پھیل جاتی ہے۔”
” سیریس میں آپ کو بھی سمجھ نہیں پائی ۔آپی ایک سال سے ایک لڑکے کو دیکھ رہی ہیں۔ آپ کو پہلے دن سے سب کچھ پتا ہے آپ پھر بھی خاموش ہیں۔ کیوں؟ یہ بھی تو غلط بات ہے۔”
”میں نے کب کہا کہ یہ صحیح ہے۔ ہم گوشت پوست کے انسان ہے۔ صرف اُس کی رحمت ہی کا آسرا ہے۔ جہاں تک اُن دونوں کی بات ہے اُنہوں نے تو آج تک ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کی۔ ورنہ آج کل کے لڑکے تو ہاتھ پہلے پکڑتے ہیں اور بات بعد میں کرتے ہیں۔”
”بات نہیں کی تو سب جائز ہوگیا۔” مومنہ نے تیکھے انداز میں پوچھا۔
ہوئے سوال… میں ماں ہوں اور کسی کی بیوہ بھی۔ میں تو صرف اتنا چاہتی ہوںمیری بیٹی اپنی محبت بھی نہ ہارے اور اُس کا باپ بھی جیت جائے۔ سچ کہوں تو میں اگر ماہم کی جگہ ہوتی تو کب کا انکار کر دیتی یہ کہہ کر کہ بچپن کی منگنی تھی۔ ابو کو کیا پتا تھا چودھری ماجد ایسا نکلے گا۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے ماہم بڑی عقل والی ہے اور کبھی تمہاری طرح پاگل ہی لگتی ہے۔”
”امّی جی !میں بھی نہیں چاہتی کہ آپی کی شادی ماجد سے ہو۔ میں نے تو پہلے دن ہی سے مزمل بھائی کو آپی کے لیے پسند کر لیا تھا۔”
”تو پسند کرے تو ٹھیک میں پسند کروں تو غلط۔”
پتا نہیں امّی جی ! کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ اللہ کرے کسی بھی طرح ماہم آپی کی شادی مزمل بھائی سے ہوجائے۔”
”آمین۔” مریم بی بی نے گہری سانس کے ساتھ کہا۔
٭…٭…٭
”یہ غلط ہے، یہ غلط ہے، غلط ہے۔” مزمل گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور اُس کا دماغ اُسے مسلسل کہہ رہا تھا بیگ صاحب آپ غلط کر رہے ہو:
”مت جائو۔ معراج کے۔ میں پھر کہہ رہا ہوں۔”دماغ نے چیختے ہوئے سمجھایا۔
”مسٹر برین! عجیب باتیں کر رہے ہو۔ اُن کا آپریشن ہوا ہے۔ مزمل صاحب کو جانا چاہیے۔ بیماری میں دوائی وہ کام نہیں کرتی جو اِک نظر کر جاتی ہے۔ مزمل صاحب کی اِک نظر مرہم کا کام کرے گی ۔محترمہ ماہم جی فوراً ٹھیک ہوجائیں گی۔”
دل نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے ماہم کا نام انتہائی عقیدت و احترام سے پکارا تھا۔
دل اور دماغ کی باتوں میں ماڈل ٹائون سے معراج کے کا سفر تمام ہوا۔ مزمل نے گاڑی اپنی فیکٹری کے ساتھ پارک کی اور نظریں جھکائے مسجد میں داخل ہوگیا۔ نماز کے بعد اجتماعی دُعا میں اُس نے ماہم کی صحت یابی کے لیے پھر سے ہاتھ اُٹھائے۔
”یا اللہ! ماہم کو وہ صحت عطا فرما جس کے بعد بیماری نہ ہو۔” مزمل نے مختصر سی دُعا کی حکیم صاحب اُسے دیکھ رہے تھے۔ مزمل نے منہ پر ہاتھ پھیرے اور باہر جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔
مسجد کی سیڑھیوں پر پہنچ کر نگاہ اُٹھائی۔ وہ سامنے کھڑکی میں کھڑی تھی پورے چاند کی چاندنی کی طرح جس طرح پورے چاند کی چاندنی کھڑکی سے اندر جھانکتی ہے۔ بالکل ویسے ہی وہ کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی۔ اُس کا مکھڑا چاند ہی کی طرح سفید تھا، اُجلا دھلا ہوا۔
آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ایسے محسوس ہو رہے تھے۔ جیسے چاند کے اوپر ہلکے ہلکے داغ نظر آتے ہیں۔ اُس کے ہونٹوں پر پھول کی پتیوں جیسا تبسم تھا۔
مزمل کی اک نگاہ یہ سب کچھ دیکھ کر لوٹی تھی۔ مزمل نے نظروں کو جھکایا اور چلتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا۔ آج اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ واپس جا کر پھر سے اُس ماہ رُخ کو دیکھے۔ دل کی چاہت اُس کے اصولوں کے خلاف تھی۔ اُس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور واپسی کی راہ پکڑی۔
٭…٭…٭
اُسی دن دوپہر میں چودھری مقصوداور منیرہ بی بی ماہم کی خبر لینے اُس کے گھر پہنچے۔ انہوں نے پانچہفتے بعد کی تاریخ طے کی تھی۔ منیرہ بی بی کچھ خاص خوش نہیں تھی، ماجد کی ماہم کے ساتھ شادی پر۔ ماہم کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اُس کی منشا کے مطابق ہوا تھا۔ اُس کی زندگی تو مزمل تھا پر زندگی گزارنے کا فیصلہ اُس نے ماجد کے ساتھ کیا تھا شاید یہی زندگی ہے۔
”زندگی بھر عیش کرے گا۔ مٹھّو اگر یہ رشتہ ہوگیا۔” مہر مجید نے مٹھّو کو تھپکی دی۔ مٹھّو مہر مجید کی بیٹھک سے جا چکا تھا۔
”مہرجی! اِس رشتے پر کیوں اتنا زور دے رہے ہو۔” مہر مجید کی بیوی ماڑو نے مٹھّو کے جانے کے بعد پوچھا۔
”چودھرائن ہے تو چودھرائن کی طرح سوچا کر پورے چھے مربعے ابّا جی نے منزہ کے نام کر دیے تھے۔ میں نے تو میاں چنوں اِسی لیے بھیج دی تھی کہ خود مزے کریں گے اُس کی زمین پر وہاں بھی چن چڑھا کے آئی ہے۔ اب تو ہی بتا باہر شادی کروں گا تو چھے مربعے تو گئے۔ چودھری مقصود اور ہمارا رقبہ ساتھ لگتا ہے۔ ماجد سے کہوں گا جو زمین تیری زمینوں کے ساتھ لگتی ہے وہ تیری اور جو میری زمینوں کے ساتھ لگتی ہے وہ بھی تیری پر بیجائی مجھے کرنے دے۔” مہرمجید اپنی بیوی سے مخاطب تھا وہ منزہ کا سوتیلا بھائی تھا ۔ منزہ کے باپ کو ڈر تھا میرے مرنے کے بعد میرا بیٹا اپنی بہن کو کچھ نہیں دے گا۔ اس لیے وہ اپنی زندگی ہی میں منزہ کے نام اُس کا حصہ لگا گیا تھا۔
٭…٭…٭
”میں شادی کروں گا تو صرف منزہ سے۔ امّا ں تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تو میرا ساتھ دے گی۔ اب ابّے کے ساتھ جا کر دن بھی رکھ آئی ہے۔” ماجد اپنی ماں منیرہ بی بی پر لال پیلا ہو رہا تھا۔
”میں کیا کرتی تو جانتا تو ہے۔ اپنے ابّے کو وہ بھلا کسی کی سُنتا ہے۔” منیرہ بی بی نے اپنی بے بسی کا ذکر معصومیت سے کیا۔
”امّاں ! میں منزہ سے شادی کا وعدہ کر چکا ہوں۔”
”سمجھا کر ماجد سمجھا کر۔ پہلے تو اپنے ابّے کی مرضی سے شادی کر لے بعد میں اپنی مرضی سے کر لینا۔”
”منزہ کہتی ہے شادی تب کروں گی چودھری ماجد! جب اُس اُستانی سے منگنی توڑے گا۔ وہ منگنی پر نہیں مانتی، تو سوتن پر کیسے مانے گی۔ امّاں تو نے میری زندگی مصیبت میں ڈال دی ہے۔” ماجد یہ کہتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ منیرہ بی بی کچھ دیر منہ پر ہاتھ رکھے سوچتی رہی پھر بولی:
”دسو…! اِس کی زندگی بھی مصیبت ہے۔”
٭…٭…٭
”جینے کے لیے جدو جہد کرنی پڑتی ہے اور موت ہمیشہ بغیر مشقت کے آپ کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔” ماہم نے ماہ نور کو جواب دیا جو اُس کی تیمار داری کے لیے آئی تھی۔
”یعنی تم یہ کہہ رہی ہو لائف اِس ونڈو کے دوسری طرف ہے اور موت کمرے کے اندر آپ کے سامنے۔” ماہ نور نے کھڑکی کی طرف دیکھ کر کہا۔
”نہیں… میری زندگی تو کھڑکی سے نیچے مسجد کے زینوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ مجھے جینے کی اُمید دلاتی ہے اور غائب ہو جاتی ہے۔ میں اگلے چوبیس گھنٹے اُس لمحے کے انتظار میں گزار دیتی ہوں۔” ماہم وال کلاک کی طرف دیکھ کر اپنے دل کا حال بتا رہی تھی۔
”ماہ نور! میری زندگی آٹھ گھنٹے بعد مسجد کے زینوں پر کھڑی ملے گی پھر مجھے اگلے چوبیس گھنٹوں کے لیے آکسیجن مہیا کرکے چلی جائے گی۔” ماہم نے ٹھنڈی سانس بھری جو اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور ماہ نور اُس کے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی۔
”ماہ نور! تمہیں یاد ہوگا جب تم نے مجھے گاڑی سے اُترتے ہوئے مزمل بیگ کے متعلق بتایا تھا۔
”ہے تو ڈف اینڈ ڈم پر ہے خوبصورت۔” میںنے اُسے دیکھا، تو اُسی لمحے اُسے دل دے بیٹھی۔ پتانہیں اُس میں کیا خاص بات تھی۔شادی کی تقریب کے دوران میں اُسے ہی دیکھتی رہی۔”
”کل صبح وہ ہمارے گھر آیا تھا ابّاکے ساتھ۔ میری اُس سے مختصر سی بات بھی ہوئی۔ اُس نے ہماری طرف چائے پی تھی۔”ماہ نور نے یہ بتایا ہی تھا کہ ماہم کے جسم میں بجلی دوڑ گئی۔ وہ درد کے باوجود اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
”کیا بات ہوئی تھی؟” ماہم نے بے تابی سے پوچھا۔
”کوئی خاص نہیں، دراصل ہم دونوں کا ایک پرانا رشتہ ہے۔”
”کیسا رشتہ؟” اِس بار ماہم نے تشویش سے پوچھا۔
”وہ پھر کبھی بتائوں گی۔ میرے پاس اُس کا نمبر ہے۔ بات کروگی… ملائوں نمبر؟”
”نہیں۔” ماہم نے دو ٹوک کہہ دیا۔
”ماہم! بات کرنے سے ریلیشن مضبوط ہوتے ہیں۔” ماہ نور نے جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ماہم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اُبھری۔
”تو کیا گونگے بہروں میں رشتے مضبوط نہیں ہوتے؟”ماہ نور! میری جان! خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔”
”ماہم! مائی ڈئیر تم زبان رکھتی ہو پھر یہ ڈف اینڈ ڈم سی محبت کیوں ؟ میں نمبر ملاتی ہوں اُسے سب کچھ کہہ دو جو تمہارے دل میں ہے۔”
”جب میں اُسے دیکھتی ہوں تو نظروں ہی نظروں میں میرے دل کی ہر بات اُس کے دل میں اُتر جاتی ہے۔” ماہم نے یقینِ کامل سے جواب دیا۔ ماہ نور نے سُنا تو ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”مجھے تو تم جولیٹ جیسی لگ رہی ہو۔ مزمل کی خبر لیتی ہوں وہ رومیو ہے کہ نہیں؟” ماہ نور نے یہ کہا اور مزمل کا نمبر ملا دیا۔ بیپ ہو رہی تھی۔ ماہ نور نے موبائل کا اسپیکر کھول کردیا۔
”ہیلو ! مزمل نے کال ریسیو کی۔
”مزمل! میں ماہ نور بات کر رہی ہوں۔”
”ماہ نور کون؟”
”ماہ نور انصاری۔” ماہ نور نے ”انصاری” پر زور دے کر کہا۔
”جی ماہ نور فرمائیں!” مزمل نے بے تاثر لہجے میں پوچھا۔
”میں ماہم کے پاس گئی تھی اُس کی طبیعت پوچھنے۔” ماہ نور نے اتنا کہا اور خاموش ہو گئی۔ دوسری طرف سے بھی خاموشی تھی۔
”مزمل! ہیلو مزمل! آپ سُن رہے ہیں؟میں ماہم کے پاس گئی تھی۔”
”میں جان چکا ہوں، آپ ماہم کے پاس گئی تھیں۔” مزمل نے سرد لہجے میں کہا۔
”اُس کی خیریت نہیں پوچھیں گے؟” ماہ نور نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”آپ تو ایسے مطمئن ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔ یونو، ماہم کا آپریشن ہوا ہے۔”
”ماہ نور! آئی نو، ماہم کا آپریشن ہوا ہے۔” مزمل نے بے فکری سے جواب دیا۔
”میں کنفیوژ ہوں یہ کیسی محبت ہے؟” ماہ نور نے حیرانی کے ساتھ ہلکا سا طنز بھی کیا۔
”ماہ نور! معاف کیجئے گا، میں نے آپ سے کب کہا کہ میں ماہم سے محبت کرتا ہوں اور جہاں تک اُس کی طبیعت کے پوچھنے کا سوال ہے، تو مجھے پتا ہے وہ اب بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔”
”آپ کو کس نے بتایا؟” ماہ نور نے ماہم کی طرف دیکھتے ہوئے جانچتی نظروں سے جلدی سے پوچھا۔
”بتایا تو کسی نے نہیں۔ بس میرا دل مطمئن ہے۔ ماہ نور بی بی میں کچھ مصروف ہوں مزید بات نہیں کر سکتا۔”
”ماہم کی اگلے ماہ شادی ہے۔” ماہ نور نے جلدی سے بڑی خبری دی۔
”بریکنگ نیوز کاشکریہ۔ میں جانتا ہوں۔” مزمل نے سنجیدگی سے کہا اور فون بند کر دیا ۔ ماہ نور نے ماہم کی طرف دیکھاجس کے چہرے پر بھی اطمینان تھا۔
”انگیج منٹ رنگ تم نے ماجد کی پہنی ہے کمٹمنٹ مزمل سے۔” ماہ نور نے قدرے خفگی سے کہا۔ اُتنی ہی نرمی سے ماہم نے جواب دیا:
”ماہ نور! میں نے اپنی مرضی سے منگنی کی انگوٹھی پہنی ہے اور نہ ہی کسی سے محبت کے وعدے کیے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ مجھے مزمل سے محبت ہوگئی ہے۔ نہ تو میں شادی سے انکار کروں گی اور نہ ہی اپنی محبت کا اظہار جو قسمت میں لکھا ہے ہوجائے گا۔”ماہم نے کھلے لفظوں میں مزمل بیگ کی محبت کا اقرار کر لیا۔
”ماہ نور باجی! حکیم چچا آپ کو لینے آئے ہیں۔” مومنہ نے آکر اطلاع دی۔
ماہ نور بستر پر لیٹی مزمل اور ماہم کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ اُن دونوں کے تصور میں گم تھی۔ خیالوں ہی خیالوں میں خود سے باتیں کر رہی تھی:
”مزمل کبھی بھی ماہم کانہیں ہوسکتا، ماجد یہ کبھی نہیں ہونے دے گا۔ ماہم میری فرینڈ ہے۔ میں اُس کے ساتھ تو ہوں، مگر میں کیا کر سکتی ہوں۔ میں مزمل کو بتا دیتی ہوں کہ ماجد کتنا خطر ناک آدمی ہے۔”
”ماہ نور بیٹی! دودھ پی لو۔” حکیم صاحب پاس کھڑے ہوئے مخاطب تھے۔ ماہ نورنے جلدی سے اپنی چادر سر پر لی اور اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا۔
”معاف کرنا بیٹی! دروازہ کھلا تھا میں بغیر دستک دیے اندر آگیا۔” حکیم صاحب نے ماہ نور کی بوکھلاہٹ دیکھ کر کہا۔
”ابّا! میں خود لے لیتی آپ نے کیوں تکلیف کی؟” ماہ نورنے خود کو نارمل ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
”ماہ نور بیٹی! بڑوں کی بات ، آملہ اور ہڑیڑ کھانے کا اثر ہمیشہ بعد میں پتا چلتا ہے۔ میں نے کہا تھانا مزمل کا یہاں آنا ٹھیک نہیں ہے۔ ہڑیڑ کی طرح حقیقت بھی اکثر کڑوی ہوتی ہے۔ مجھے پتا ہے تم یہ چاہتی ہو کہ ماہم اور مزمل کی شادی جیسے بھی ہو بس ہوجائے۔ غلط تو غلط ہے۔ ماہ نور! تم نے ثابت کرنا ہے کہ تم حکیم مسلم انصاری کی بیٹی ہو۔ معید لغاری کی نہیں۔پیٹ درد کی پھکی تو میرے پاس ہے۔ تم کھالو یا پھر تمہاری سہیلی۔ بیٹی دل کے درد کی پھکی میں لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں بنا سکا۔ ماہم میرے مرحوم دوست ماسٹر محمود کی بیٹی ہے اور تمہاری سہیلی بھی۔ دوسری طرف مزمل بھی اپنا ہی بچہ ہے۔
کچھ فیصلے وقت کرتا ہے، تم بھی انتظار کرو اگلے مہینے تک۔ اگلے مہینے کی اکیس تاریخ طے پائی ہے۔” حکیم صاحب نے شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کمرے سے چلے گئے۔ ماہ نور کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا اور اُس کے دماغ میں برات والا دن۔
مزمل جب مسجد کی سیڑھیاں اُتر رہا تھا۔ حکیم صاحب نے ماہم کو کھڑکی میں کھڑے دیکھ لیا۔ اُس کے بعد مزمل کے پیچھے شادی ہال تک جاتے ہوئے بھی پھر ماہم ہجوم میں سب سے پیچھے کھڑی ہوگئی تھی۔ حکیم صاحب نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ گھر آکر انہوں نے ماہ نور کو سمجھایا۔
٭…٭…٭
”کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے، کیا کروں۔” وہ اپنی دادی کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھا تھا۔پچھلے ایک سال میں آج پہلی بار اُس نے اپنے دل کی بات اپنی دادی سے تھی۔
”محبت بڑے مہنگے داموں ملتی ہے۔ مزمل بیٹا! اور موت مفت میں۔” دادی نے افسردگی سے جواب دیا۔
”میں تو دام دینے کو بھی تیار ہوں۔ یہ سمجھ نہیں آرہا ہے دام دوں تو کس کو؟” مزمل نے اپنی کنپٹیوں پر اضطراب کے عالم میں ہاتھ رکھے۔
”مزمل بیٹا! محبت کے دام ادا کرنا دولت کے بس کی بات نہیں۔ محبت تو زندگی سے خراج مانگتی ہے۔”
دادی نے اپنی گالوں پر آئے اشک صاف کیے۔
”تو بتائیں نا؟ کیسے اپنی محبت حاصل کروں۔ میں تو زندگی کا خراج دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔” یہ کہتے ہوئے مزمل کی آنکھیں بھر آئیں۔ ممتاز بیگم نے دیکھا تو کہنے لگیں:
”اِدھر آئو میرے پاس۔” مزمل داد ی کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔ ممتاز بیگم نے اُسے گلے لگایا اور شفقت سے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
”بیٹا تم نے آج بات کی ہے۔ میں تو ایک سال سے یہ سب کچھ جانتی ہوں۔” مزمل کے سنجیدہ چہرے پر حیرت بکھر گئی۔
”آپ کو کس نے بتایا؟” مزمل نے حیرت کے انداز میں پوچھا۔
”ماہ نور نے۔” دادی نے انکشاف کیا۔ یہ سُن کر مزمل کے تاثرات ایک لمحے میں بدل گئے۔ اُس نے روکھے لہجے میں کہا: ”ماہ نور…”
مزمل ماہ نور کا نام سنتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا اور بغیر کچھ کہے وہاں سے چلا گیا۔ اُس کی پریشانی اور بڑھ گئی۔
”ماہ نور نے دادو کے علاوہ جانے کس کس کو بتایا ہوگا اس طرح تو ماہم بدنام ہو جائے گی۔” یہ خیال آتے ہی اُسے ایسا لگا جیسے اُس کے دل میں کسی نے میخیں ٹھونک دی ہوں۔
”میں نے بھی تو اُس دن ماہ نور سے تلخ لہجے میں بات کی تھی۔” اُس کے ضمیر نے یاد کروایا۔
”کہیں… ماہ نور؟ نہیں نہیں، بالکل بھی نہیں۔ وہ تو ماہم کی بیسٹ فرینڈ ہے۔ وہ ایسے تھوڑی کرے گی۔” اُس کے دماغ میں خیالوں کی جنگ بپا تھی۔ دل کو میخوں کے گھائو سے ہوش آیا تو کہنے لگا:
”مزمل صاحب! فکر نہ کرو۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔” دل کی تسلی سے اُسے کچھ راحت ملی۔ پھر بھی اُس کی زبان پر شک کی وجہ سے ایک نام تھا۔
”ماہ نور…”
٭…٭…٭
ماہ نور! ایک بات بتائو! تمہیں کیوں اتنی فکر ہے میری اور اپنے رشتے دارکی؟” ماہم نے جانچتی نظروں سے ماہ نور کو کریدا۔
”کیوں ہے فکر؟ ایک کفارہ ہے اور دوسرا احسان۔” ماہ نور نے کھوئے ہوئے جواب دیا۔
”دوستی میں کوئی احسان نہیں ہوتا۔” ماہم نے غور سے ماہ نور کو دیکھا۔
”ٹھیک کہا تم نے، میں تو صرف کوشش کر رہی ہوں، جو تم نے میرے لیے کی تھی۔ میں تو ابّا سے شاید بات بھی نہ کرسکتی۔ تم نے اُنہیں ایگری کر لیا تھا۔ مجھے تو خواب ہی لگتا ہے کہ میرا نکاح ہوگیا۔ وہ بھی اُس سے جسے میں نے چاہا۔”
”مجتبیٰ بھائی سے بات ہوتی ہے؟” ماہم نے پوچھا۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے اُن کا فون آیا تھا، کہہ رہے تھے جلداز جلد انگریزی بولنا سیکھ لو۔ تمہیں جلد ہی بلا لوں گا۔” ماہ نور رہا تھا۔
”ماہم تمہاری شادی سے پہلے تو میں مانچسٹر و سٹر کہیں بھی نہیں جائو ںگی۔”
ماہم یہ سن کر خاموش ہی رہی۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور سنگار میز کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔ اُس کی بلوری آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ ماہم نے آئینے میں اپنی آنکھوں کو دیکھا جن میں نیند کی بھوک تھی۔
”آرام سے بیٹھ جائو۔ ابھی تمہارے اسٹیچز بھی نہیں کھلے۔ کیا تمہیں درد نہیں ہو رہا؟” ماہ نور نے حلیمی سے پوچھا۔ اُتنی ہی بے فکری سے ماہم نے سنگار میز کے سامنے بیٹھے نفی میں گردن ہلا دی۔
”درپن کے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی صورت ہی دکھا سکتا ہے، اُس کا درد نہیں۔” ماہ نور آئینے میں ماہم کا عکس دیکھ کر کہہ رہی تھی۔
”تم کس درد کی بات کر رہی ہو؟” ماہم نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”وہ درد جو تمہارے دل میں ہے اور اس وقت تمہاری آنکھوں میں خون بن کر اُتر آیا ہے۔ آئی سوئیر تم ابھی رو دو تو خون کے آنسو ٹپکیں گے تمہاری ان خوب صورت آنکھوں سے۔”
”مسز مجتبیٰ ملک! احسان تو تم میرا چکا رہی ہو یہ کفارہ کس کا اداکر رہی ہو؟” ماہم نے شعوری طور پر موضوع بدلا۔
”وہ پھر کبھی بتائوں گی۔” ماہ نور نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
تم ہر بات کو پھر کبھی تک کیوں لے جاتی ہو، ابھی کیوں نہیں۔” ماہم کافی دیر ماہ نور سے نظریں ملانے کی کوشش کرتی رہی، مگر ماہ نور نے اُس کی طرف دیکھا ہی نہیں۔
”مجھے خوشی ہے اور گلہ بھی۔ خوشی اس بات کی کہ تم نے کبھی بھی اپنے والدین کو بُرا نہیں کہا۔ گلہ اس بات کا میں ساری زندگی یہی سمجھتی رہی کہ میں تمہارے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں۔ ماہ نور مجھے احسان کا بدلہ نہیں چاہیے اور جہاں تک اپنے والدین کے گناہوں کے کفارے کی بات ہے۔ وہ تم پر بنتا ہی نہیں ہے جو تمہارے والدین نے مزمل کے ساتھ کیا وہی کچھ اُس کے والدین نے تمہارے ساتھ بھی کیا تھا پھر کفارہ کیسا؟ حکیم چچا نے چند دن پہلے ہی مجھے یہ سب کچھ بتایا تھا۔”ماہ نور کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے خوف نے دستک دی اور دوسرے لمحے ہی اُسے حکیم صاحب کا خیال آگیا وہ کہنے لگی:
”ماہم ! ابّا کہتے ہیں کہ اُنہیں مجھ پر فخر ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر انکل زندہ ہوتے تو وہ تم پر زیادہ فکر کرتے۔ ایک بگڑا ہوا شخص جو تم سے منسوب ہے تم صرف اس لیے اُس سے شادی کر رہی ہو کہ تمہارے مرحوم باپ کی زبان کا سوال ہے۔ میں نے اپنے زندہ پیرنٹس کو خود کی نظروں میںمار دیا اور تم اپنے مرحوم باپ کو زندہ رکھے ہوئے ہو۔”
ماہ نور کے موبائل پر میسج کی بیپ ہوئی۔ ماہ نور نے میسج پڑھا۔
”یہ دیکھو تمہارے اُس کا میسج آیا ہے۔”ماہ نور اپنی جگہ سے اُٹھی اور ماہم کے سامنے جا کھڑی ہوگئی۔ موبائل اُس کے سامنے کیا۔ ”م” کے نام سے ایک نمبرsaveتھا۔
” can i call u?” ماہم نے پڑھا ۔ ماہ نور نے اشاروں سے پوچھا۔ماہم نے بغیر کسی جواب کے موبائل ماہ نور کی طرف بڑھا دیا۔
”why not?” ماہ نور نے موبائل پکڑ کر جواب ٹائپ کر دیا۔ ایک منٹ کے اندر ان کی کال آگئی تھی۔
”ہیلو مسٹر مزمل!” ماہ نور نے اسٹائل سے کہا اور ساتھ ہی اسپیکر کھول کر دیا۔
”جی ماہ نور! کیسی ہیں آپ؟”مزمل کی آواز کمرے میں گونجی۔
”آئی ایم فائن۔” ماہ نور نے برٹش لہجے میں جواب دیا۔
”مسٹر مزمل ! آر یو آل رائٹ؟ آپ ہمیشہ مجھے ”تم ” کہتے رہے۔ آج ”آپ” پر آگئے، کوئی خاص وجہ ؟”
”آج مجھے احساس ہوا کہ تمہیں ”آپ ہی کہنا چاہیے۔”
” وہ کیسے؟” ماہ نور نے ماہم کو چھیڑتے ہوئے مزمل سے پوچھا۔
”ماہ نور! جنہیں ہم عام سمجھتے ہیں ، وہ کسی نہ کسی کے لیے خاص ہوتے ہیں اور جنہیں ہم تم کہتے ہیں، وہ کسی نہ کسی کے آپ ہوتے ہیں۔ خیر چھوڑیں مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔”
”ٹیل میں۔” ماہ نور نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔
”میں کل والی بات پر آپ سے معذرت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے غصے میں بات کی تھی۔” مزمل نے کھلے دل سے اقرار کیا۔
”آپ تو ہمیشہ اینگری ینگ مین والی آواز میں بات کرتے ہیں۔ آج یہ رومینٹک ہیرو کہاں سے آٹپکا۔” ماہ نور نے حیرت سے کہا۔
”آج ایک مسکراہٹ دیکھ کر مسکرانے کو جی چاہتا ہے۔”
اگر وہ مسکراہٹ والی کسی اور کی ہوگئی تو؟” ماہ نور نے ماہم کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”تو …میں اُس مسکراہٹ کے سہارے ہی اپنی زندگی گزار لوں گا۔” مزمل نے ہولے سے جواب دیا۔
”مسٹر مزمل ! ڈونٹ مائنڈ۔ مجھے تو آپ دونوں پاگل لگتے ہو۔ کافی آئوٹ آف فیشن قسم کی محبت ہے۔ میں آپ دونوں کو ملانا چاہتی ہوں، کسی طرح کی بھی ہیلپ چاہیے، تو میں حاضر ہوں۔” ماہ نور نے اپنی خدمات کی آفر کر دی۔
”ایک طرف ماسٹر محمود صاحب کی طے کی ہوئی نسبت ہے اور دوسری طرف میری محبت۔ دیکھتے ہیں جیت کس کی ہوتی ہے” مزمل ہم کلام تو تھا ماہ نور سے مگر ماہم چودھری بھی سب کچھ سُن رہی تھی۔
”اگر نسبت ٹوٹ جائے تو محبت خود بہ خود جیت جائے گی۔” ماہ نور نے مزمل کو محبت پانے کا نسخہ بتایا۔
”ماہ نور! آپ کی فرینڈ کو نسبت والے سے محبت نہیں ہے، نسبت طے کرنے والے سے عشق ضرور ہے، حکیم صاحب نے مجھے بتایا تھا۔میں نے ساری زندگی اپنے پیرنٹس سے نفرت کی۔ اب اپنی محبت پانے کے لیے کسی کے عشق سے ٹکرانا نہیں چاہتا، ویسے بھی محبت خلوص سے جیتی جاتی ہے مکاّری سے نہیں۔
ایک بات بتائوں ماہ نور ،چودھری ماجد کی پچھلے دس سال کی ہسٹری میرے پاس ہے آڈیو، ویڈیو کے ساتھ۔ مجھے پتا ہے ماہم اُسے جواز بنا کر بھی انکار نہیں کرے گی۔ میں خود بھی چودھری ماجد سے انکار کروا سکتا ہوں، لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔” مزمل نے اپنی محبت کے اصول بتائے جو ماہ نور کو پسند نہ آئے تھے۔
”کیا لاہور اور گوجرانوالہ کے درمیان کوئی مینٹل ہاسپٹل ہے؟ آئی ایم ڈپریس اور تم دونوں کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ مزمل! اگلے مہینے مزمل اُس کی شادی ہے۔” ماہ نور نے سختی سے شادی پر زور دے کر کہا تھا۔ اُتنے ہی دھیرج سے مزمل نے جواب دیا:
”مجھے پتا ہے۔”
”تمہیں پتا ہے…اوکے بائے۔” ماہ نور نے غصے سے موبائل بیڈ پر پٹخ دیا۔
”کیوں غصہ کر رہی ہو؟ ”
”یہ تم پوچھ رہی ہو۔ اگلے مہینے تمہاری اُس جانور چودھری ماجد کے ساتھ شادی ہے۔ دن کو اُس گدھے کے منہ میں قوام والے پان ہوتے ہیں اور رات کو ہاتھ میں شراب کی بوتل۔ سارے علاقے میں وہ بدنام ہے۔ تم کیوں کمپرومائز کر رہی ہو میری سمجھ سے باہر ہے۔ ماہم میں ابّا سے کہتی ہوں وہ ماجد کے والد سے بات کرتے ہیں۔” اس بار ماہ نور قدرے خفا تھی۔
”دفعہ کرو شادی کو…تم یہ بتائو اُن کا نمبر ”م” کے نام سے کیوں saveکیا ہے؟” ماہم سنگار میز کے سامنے سے اُٹھی ، بیڈ سے ماہ نور کا فون اُٹھایا اُسے شانت کرنے کے لیے اُس کے گال پر اُلفت سے ہاتھ پھیرا اور بڑی محبت سے اُ سے بیڈ پر اپنے سامنے بٹھا لیا۔ ماہم نے بھی مزمل کی طرح دھیرج کا مظاہرہ کیا۔ اُس نے یہ سب کچھ ہولے ہولے رُک رُک کر کہا تھا۔ ماہ نور کے چہرے پر حیرت بکھری ہوئی تھی۔
”میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔” ماہم نے ماہ نور کو ہلا کر دوبارہ کہا۔
”کیا پوچھا تھا؟” وہ ایسے بولی جیسے نیند سے جاگی ہو۔
”اُن کا نمبر ”م” کے نام سے کیوں saveکیا ہے؟”
”مجھے چائے پلوائو۔”ماہ نور نے سُنی ان سُنی کر دی۔
ماہم نے مومنہ کو فون کیا، تو تھوڑی دیر بعد وہ چائے لے کر آگئی ۔ چائے پینے کے دوران اُن دونوں میں مزید کوئی بات نہیں ہوئی۔
”تم نے اپنے اسکول کا نام ”م” کیوں رکھا ہے؟” ماہ نور نے اُلٹا سوال پوچھ لیا۔
”ابو جی کہا کرتے تھے ساری کائنات دو میموں کے صدقے سے وجود میں آئی۔ ”م” سے شروع ہونے والا سفر ”م” سے ہو کر اپنی منزل تک پہنچا تھا۔”
”م ،سے میں سمجھی نہیں۔” ماہ نور نے حیرانی سے پوچھا۔
”مکہ سے مدینہ۔پھر مسجد سے منبر، محراب تک۔مسلمان سے مومن کے مرتبہ و مقام تک۔ماں کی ممتا سے مان تک محرم سے محبت پھر محبوب سے مختار تک۔
مکہّ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج تک۔سب کچھ ”م” سے شروع ہو کر”م” پر ختم ہوتا ہے۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یاسیں وہی طہٰ
ماہ نور نے اپنی سانسیں روک لیں جب ماہم بات کر رہی تھی۔
”یہ سب کچھ انکل جی کہا کرتے تھے؟” ماہ نور نے اشتیاق سے پوچھا۔
”ہاں!ابو جی کو ”م” سے شروع ہونے والے ناموں سے بڑی محبت تھی۔ اس لیے ہم دونوں بہنوں کا نام اُنہوں نے م ہی سے رکھا ماہم اور مومنہ۔”
”ماہم جی،آپ کے گھر کے سارے افراد کے ناموں میں دو میمیں آتی ہیں۔ محمود، مریم،مومنہ، ماہم اور چودھری ماجد کے نام میں ایک”م” ہے۔ مزمل میں دو۔ہیں۔ تمہارا تو پتا نہیںالبتہ مجھے اپنے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔ اچھا میں چلتی ہوں۔” ماہ نور نے اتنا کہا اور مزید کچھ کہے بغیر چلی گئی۔
٭…٭…٭
اگلے دن فجر کی نماز کے بعد سب نمازیوں کے جاتے ہی مزمل مسجد سے باہر نکلا۔ ماہ جبیں چہرے والی ماہم کی منتظر نگاہیں مرکوز تھیں مزمل کے مکھڑے پر لکھی ہوئی تحریر کا متن پڑھنے کے لیے۔ مزمل کی آنکھوں کا مرکز و محور ماہم کی مقدس آنکھیں تھیں۔ کوئی نظر سے سیراب ہوجاتا ہے کسی کو لمس چاہیے ہوتا ہے۔ چند لمحوں میں ہی اُن دونوں کی نگاہوں نے صدیوں کی مسافت طے کرکے اپنی اپنی منزلوں کو پا لیا تھا۔
موسم کوئی بھی ہو محبوب کو دیکھ کر من مہکنے لگتا ہے، مسرتوں کی کلیاں کھل کھل جاتی ہیں،ملن کی آرزو میں میٹھے میٹھے نغمے گونجنے لگتے ہیں۔
حسبِ معمول مزمل گردن جھکائے اپنی گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ اُس کا موبائل بج اُٹھا۔
”السلام علیکم ماہ نور!” مزمل نے کال ریسیو کی۔
”وعلیکم السلام! ابّا نے آپ کو بیٹھک میں بلایا ہے۔” ماہ نور نے مختصر بات کی اور فون رکھ دیا۔
”مزمل کو کچھ فکر لاحق ہوئی وہ نظریں جھکائے گلی سے گزرا۔ ماہم اُس وقت بھی کھڑکی میں کھڑی تھی۔ مزمل نے اُس کی طرف نہیں دیکھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...