اے دوست محبت کے صدمے اکیلے ہی اٹھانے پڑتے ہیں
رہبر تو فقط اس راستے میں دوگام سہارا دیتے ہیں
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
اسوہ اور اسفند آج شام حویلی سے سفر کے لیے نکل چکے تھے۔
اسوہ آج خود کو پرسکون محسوس کر رہی تھی۔
برسوں سے وہ خود کو بدقسمت اور ناپاک تصور کرتی تھی لیکن آج وہ اپنی ذات کے سامنے سرخرو ہو چکی تھی۔
اسفند کے چہرے پر بھی خوشی تھی۔ اس نے وہ کام کیا تھا جو شاید ہمارے معاشرے میں کوئی عام مرد نہیں کر سکتا تھا۔
مگر انتقام لوگوں کی اچھائیاں کب دیکھتا ہے؟؟
شاید یہ اچھوں کو ختم کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
“اسفند آج میں بہت پرسکون ہوں زندگی آج آسان ہو گئی ہے۔” اسوہ نے مسکرا کر اسفند سے کہا جو پہاڑی رستوں پر بڑی مہارت سے گاڑی چلا رہا تھا۔
“اسوہ میں محبت کے کوئی بڑے دعوے نہیں کرونگا مگر یہی کہونگا کہ زندگی تمہارے ساتھ ہی بتانا چاہتا ہوں اور مرنا بھی تمہارے ساتھ چاہتا ہوں۔” اسفند نے ساتھ مرنے کی بات کی تھی اور شاید قسمت کو ان کا ساتھ مرنا ہی مقصود تھا۔
اسی لمحے گاڑی کا تصادم سامنے سے آنے والے ٹرک سے ہوا تھا۔ ایک دھماکے کی آواز دور پہاڑوں کی چوٹیوں تک گئی تھی۔پرندے ہوا میں ساکت ہو گئے تھے۔ یہ کیا ہوا نئی جوڑی ولیمے کے دو دن بعد ہی دنیا سے رخصت ہونے لگی۔مگر شاید ایسا ہی ہونا تھا۔
محبت شاید اندھی نہیں ہوتی لیکن انتقام اندھا ہوتا ہے!
گاڑی لڑکھڑائی تھی، اسوہ اور اسفند نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔کیا قسمت کو ان کا زیادہ عرصہ ساتھ رہنا منظور نہیں تھا۔
اسوہ کو آج پھر سے لگا شاید وہ منحوس تھی تبھی تو وہ اسفند کی زندگی بھی کھانے لگی تھی۔
اسفند نے زور سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبایا اور ساتھ ہی گاڑی کھائی میں گری تھی اور کام تمام ہو چکا تھا۔
بظاہر حادثہ نظر آنے والا تصادم ہو چکا تھا۔
“ٹارگٹ کلئیر!” پیچھے چھپے قاتل کے مہرے نے کام ہو جانے کی خبر سنا دی تھی۔
انتقام کا آغاز آج سے ہو چکا تھا۔
اب دیکھنا یہ تھا کہ کیا حاصل ہوتا ہے اور کیا لاحاصل رہے گا!!!!
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
آج یہ مشوانی خاندان اکٹھا تھا۔ سب ایک کمرے میں بیٹھے تھے۔
“مہمل بچے اگلے سال آپ کا میڈیکل مکمل ہو جائیگا پھر آپ یہی رہنا ہمارے پاس حویلی میں۔” زرش خانم نے پیار سے مہمل کو دعوت دی تھی۔
“شکریہ مگر مجھے نہیں رہنا یہاں۔” مہمل کا چہرہ ہر احساس سے عاری تھا۔
“مگر کیوں بیٹا؟” مظفر مشوانی نے اس سے پوچھا تھا۔
“بس جہاں لوگ اپنی بہن بیٹیوں کو لاوارث چھوڑ دیں وہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔” مہمل خان کی چبھتی نظریں مظفر مشوانی کے چہرے پر گڑی تھیں۔
“مہمل!!!” رقیہ بیگم اس پر چیخی تھیں جبکہ امریز مشوانی اسکی باتیں سن کر حیران تھے۔
“بس کر دیں امی یہ بھی آپ کی بربادی کی وجہ ہیں اور اوپر سے آپ کی جائیداد کا حصہ بھی دبا کر بیٹھے ہیں۔” مہمل کھڑی ہو چکی تھی۔
“مہمل خان یوسفزئی مشوانیوں کی زندگی کی بربادی کی وجہ تمہارا باپ ہے انھوں نے ہی خالہ کو بھڑکایا اور میرا باپ بھی شاید اسی وجہ سے مرا۔ غلط الزامات مت لگاؤ۔” درشہوار جو کبھی کسی معاملے میں کچھ نہیں کہتی تھی آج اپنے پیارے ماموں پر بات برداشت نہیں کر پائی تھی۔
“میرے باپ تک مت جاؤ ورنہ یہاں سب تہس نہس ہو جائیگا۔” مہمل نے درشہوار کا بازو مراڑتے ہوئے کہا تھا۔
“تم یوسفزئی اور کر ہی کیا سکتے ہو ہم ہی غلط تھے جو سمجھے کہ شاید تمہاری فطرت مشوانیوں والی ہوگین مگر تم تو یوسفزئی ہو اپنوں کو ہی ڈسنے والی زہریلی ناگن!” درشہوار نے مہمل پر ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ داؤد مشوانی وہاں اس کا ہاتھ روک گیا۔
“درشہوار کیا کر رہی ہیں آپ؟” مشوانی کی آواز میں دبا دبا سا غصہ تھا لیکن وہ حویلی کی عورت ہونے کی وجہ سے اس کا احترام کر گیا تھا۔
“آپ نے ان کی باتیں نہیں سنیں جو انھوں نے آپ کے آنے سے پہلے کیں۔ ماموں جان کو انکی باتوں کی وجہ سے کتنی تکلیف ہوئی ہے؟ آپ کو کیا معلوم؟” درشہوار نے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ مشوانی سے کہا جبکہ مہمل غضبناک انداز میں درشہوار کو دیکھے جا رہی تھی۔
“بیٹا یہ ٹھیک کہہ رہی ہے یہاں تو میرا اپنا خون ہی برا نکلا۔” رقیہ گل نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
“امی آپ بھی بھائی کی محبت میں مجبور ہو گئیں نا۔ مگر مہمل خان تو لاوارث ہے نا نہ اس کا بھائی زندہ رہا نہ باپ۔ میرا باپ ہوتا تو میں دیکھتی کہ آپ کیسے یہ سب کہتی اور جہانگیر خان کا خون ہوں میں اور جہانگیر خان کا خون برا ہوتا نا تو آپ پورے قبیلے کے سامنے کھڑے ہوکر ان سے شادی نہ کرتیں۔ آپ سے یہ امید نہ تھی کہ آپ اپنی اولاد کو ہی دربدر کریں گی۔” مہمل رقیہ گل کی بات پر صدمے میں چلی گئی تھی۔
” دیکھا اسے صرف اس کا باپ سچا لگتا ہے اسے اپنی ماں کی تکالیف یاد نہیں اسے یاد ہی نہیں کہ کیسے میں نے اسے اکیلے پالا ہے؟ آج یہ بڑی ہو گئی ہے تو یوں کر رہی ہے۔ آج باپ زندہ ہوتا اس کا تو میں دیکھتی کہ کیسے کہتی ہے یہ سب مجھے۔” رقیہ بیگم نڈھال ہو چکی تھیں۔
“امی!!” مہمل ان کے قدموں میں آ کر بیٹھی تھی۔
“میں کچھ نہیں بھولی آپ کے ہر دکھ کا بدلہ لونگی میں!” مہمل نے انکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا۔
“نہ میرا بچہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم مجھ سے دور نہ چلی جاؤ۔” رقیہ گل نے اسے سینے سے لگا لیا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیں تھیں۔مہمل نے ان کے پرانے زخم ہرے کر دئے تھے۔
“مہمل بچے تمہاری ماں کی جائیداد اسی کی ہے اور تم نے ٹھیک کہا کہ مجھے اپنی بہن کا وارث بننا چاہیے تھا۔ اپنے اس ماموں کو معاف کردینا اور کہیں نہیں جا رہی تم یہیں رہو گی ابھی اور کوئی میری بیٹی کو کچھ نہ کہے۔ اور نہ میری اور میری بیٹی کی بات کے درمیان بولے۔” مظفر مشوانی کے چہرے میں صدیوں کی تھکن تھی۔
کچھ ہی لمحوں میں کمرے کا منظر مہمل نے تبدیل کر دیا تھا لیکن رقیہ گل اب اسے اپنے ساتھ لگائے بیٹھی تھیں جیسے وہ کوئی چھوٹی بچی ہے جسکے بچھڑ جانے کا انھیں ڈر ہو مگر پتہ نہیں بچھڑنا کسے تھا؟
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“کہاں جا رہی ہو لڑکی؟” امریز خان نے مہمل کو باہر جاتے دیکھ کر سختی سے پوچھا۔
“آپ کو بتانے کی پابند نہیں ہوں میں۔” مہمل کے چہرے پر ناگواری تھی۔
“تمہیں شاید معلوم نہیں کہ حویلی کہ عورتیں یوں باہر نہیں گھومتیں۔” امریز لالہ نے اسے روایات کا سبق سکھانا چاہا۔
“میں حویلی کی لڑکی نہیں ہوں۔” مہمل خان بلا کی ضدی بھلا کسی کی بات کہاں سن سکتی تھی۔
“مہمل خان اندر چلو مجھے سختی پر مجبور مت کرو داجی تمہیں برداشت کر سکتے ہیں۔ میں نہیں! ” امریز لالہ نے گارڈز کا خیال کرتے ہوئے آہستہ آواز میں کہا تھا۔
“امریز خان میری برداشت کو مت آزماؤ!” مہمل حویلی کو میدان جنگ بنانے کی پوری تیاری کر چکی تھی مگر مشوانی کی آمد نے جنگ بندی کرا دی تھی۔
“لالہ پلیز!” اس نے امریز خان کو روکتے ہوئے کہا۔
“مشوانی تم سمجھتے نہیں ہو کہ۔۔۔۔۔۔”
مشوانی نے امریز خان کا جملہ کاٹتے ہوئے کہا:
“میں نہیں سمجھنا چاہتا لالہ۔ آپ فکر نہیں کریں میں اسکے ساتھ جاؤں گا۔”
مہمل خان خاموشی سے انکی بات سن کر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئ جبکہ امریز نے مشوانی کو روکا تھا۔
“لالہ کچھ کہنا ہے۔” مشوانی نے سر اٹھا کر پوچھا۔
“کسی بے حس انسان سے محبت کرنے کا انعام صرف ہجر اور خسارہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف ہجر اور خسارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!” امریز لالہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جس پر مشوانی نظریں چراتے ہوئے بولا:
“اسکی محبت میں مجھے ہر خسارہ قبول ہے۔”
مشوانی کے چہرے پر درد بھری پھیکی مسکراہٹ تھی۔
وہ اپنی بااعتماد چال چلتا ہوا گاڑی میں بیٹھا تھا جبکہ پیچھے امریز خان کو مہمل سے اسکی جنونیت سے نفرت ہو چکی تھی جو اسکے لاڈلے بھائی کی آنکھوں میں ویرانی کا سبب تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“پہنچ گئے؟” آواز میں افسوس تھا۔
“ہممم پہنچ گیا مگر تمہاری آواز سن کر لگتا ہے شاید دیر ہو گئی ہے۔” اسکی آواز میں نمی اگلے نے صاف محسوس کی تھی۔
“تم جلدی بھی آتے تو کیا ہوتا اسکے سامنے ہتھیار ڈال دیتے۔” اس کا غم کم کرنے کی ایک بیکار سی توجیہہ پیش کی گئی کیونکہ اگر وہ پہلے آتا تو اسکے خلاف فیصلہ کرنا مشکل ترین ہو جاتا۔
“شاید لیکن ایک بار پوچھنے جا رہا ہوں کہ کیا اتنی بےمول محبت تھی میری کہ ٹھکرا دیا۔” سوال خود سے تھا یا کسی اور سے؟ اس بات کا فیصلہ بات کرتے دونوں نفوس کر نہیں پائے تھے۔
“تمہاری محبت شاید اتنی انمول تھی کہ وہ مول ادا نہ کر سکی۔” اگلے کی آواز پر اس ہارے عاشق نے قہقہہ لگایا تھا شاید اس طرح وہ اندر کی آواز دبانا چاہتا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“خاموش ہو آج! شاید تمہیں بھی مجھ پر غصہ آ رہا ہے۔” مہمل نے چپ چاپ بیٹھے مشوانی سے پوچھا۔
“نہیں!” جواب یک لفظی تھا۔
“تم یوں مجھے بلکل پسند نہیں آ رہے!” مہمل نے نچلا لب دبایا تھا۔
“اچھا تو میں تمہیں صحیح کب لگتا تھا؟” مشوانی نے دلچسپی سے پوچھا۔
“اچھا سوال ہے!” مہمل اسکی بات پر ہنسی تھی۔
“تم مجھے پہلے جیسے پسند تھے میری باتیں مانتے،میرے سامنے زچ ہوتے، مجھے بچانے والے، میرے لیے دوست سے لڑنے والے اور۔۔۔۔ ”
“اور تم سے تھپڑ کھانے والا!” مشوانی نے اسکا جملہ مکمل کیا تھا جس پر وہ مسکرا دی تھی۔
“نہیں وہ تو بس ایسے ہی۔۔۔” مہمل شاہد پہلی بار اسکے سامنے خجل ہوئی تھی۔
“ویسے میں تمہاری باتیں اب بھی مان لیتا ہوں، اب بھی تم مجھے زچ کر دیتی ہو، اور امریز لالہ کے عتاب سے ابھی تو بچا کر لایا ہوں تمہیں اور خیر دوست تو اب ہے ہی جانی دشمن۔” مشوانی نے تفصیلاً کہا تو مہمل مسکرا کر بولی:
“تمہارے امریز لالہ سے تو آج پانی پت کی جنگ ہونے والی تھی لیکن خیر کچھ ہے جو مسنگ ہے تم میں شاید تمہاری وہ تپا دینے والی مسکراہٹ؟” مہمل نے اپنی بات کی تائید چاہی تو مشوانی کے چہرے پر پہلے جیسی مسکراہٹ آئی تھی جس پر دونوں ہنس دئے تھے۔
وہ آپس میں ناراض رہتے ہوئے بھی بہترین دوست تھے۔
ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
” کہاں جانا چاہو گی؟” مشوانی نے اس سے پوچھا تو وہ فوراً جواب دیتے ہوئے بولی:
“یوسفزئی حویلی”
“کیا؟” مشوانی نے ایک دم گاڑی کو بریک لگائی تھی جس پر مہمل کا سر ایک بار پھر ڈیش بورڈ سے لگ کر زخمی ہو چکا تھا۔
“تم نا میرے ساتھ نہ آیا کرو ہمیشہ یہ لڑکیوں کی طرح کیا کہہ کر بریک لگاتے ہو اگر دوبارہ ایسا ہوا تو یقین مانو میرا سر پھٹ جانا۔” مہمل نے اسے کہا جو سنجیدہ تیور لیے گاڑی دوبارہ سٹارٹ کر رہا تھا۔
“لے کر چلنا ہے تو چلو ورنہ میں خود چلی جاؤں گی۔” مہمل نے اسے کہا جو مہمل پر ایک نظر ڈال کی گاڑی چلانے میں محو ہو چکا تھا لیکن مہمل جانتی تھی کہ وہ اب اسے سیدھا یوسفزئی حویلی ہی لے کر جائیگا۔ وہ پرسکون تھی لیکن مشوانی جسے لگا تھا کہ شاید وہ نارمل ہو رہی ہے اسکی امید مہمل نے پھر سے ختم کر دی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“آئیے درشہوار بیٹا!!” مظفر مشوانی نے درشہوار کو اندر آنے کی اجازت دی۔
“داجی آپ نے بلایا کوئی ضروری بات تھی کیا؟” درشہوار نے ادب سے پوچھا۔
“آپ بیٹھ جائیں اور یہ بتائیں کہ مہمل پہ ہاتھ کیسے اٹھا لیا آپ نے آپ تو میری صبر کرنے والی بیٹی ہیں۔تو آج آپ کیسے مہمان پر ہاتھ اٹھا سکتی ہیں؟” دارجی کی نظریں درشہوار پر تھی جو مسلسل انگلیاں چٹخا رہی تھی۔
“میرے خان بابا کی وفات ہوئی۔ یہ الگ بحث ہے کہ قبائلی جھگڑے کی وجہ کیا تھی؟ مگر میں نے آج تک شکوہ نہیں کیا۔ آپ نے مجھے باپ کی محبت دی دارجی! آپ میں مجھے اپنے خان بابا نظر آتے تھے اور جب مہمل نے بد تمیزی کی تو میں برداشت نہیں کر سکی۔ صرف اسکے ساتھ تو برا نہیں ہوا اور بھی لوگ ہیں جنھوں نے زندگی میں دکھ اٹھائے ہیں۔” درشہوار کے لہجے میں سختی تھی مگر نظریں ہنوز جھکی ہوئیں تھیں۔
“درشہوار بچے آپ مہمل سے حسد کا شکار ہو رہیں ہیں!” دارجی نے درشہوار کے سرخ ہوتے چہرے پر نظر ڈالی تھی۔
“دارجی!” درشہوار کی نظروں میں بے یقینی واضح تھی۔
“سچ ہے کہ آپ نے مشوانی کی خوشی کی خاطر منگنی ختم کر دی ورنہ مشوانی کو روایات کے مطابق آپ سے نکاح کرنا ہوتا لیکن ایک بات ہے کہ آپ نے صبر تو کیا لیکن مہمل کے آنے سے آپ کو برا لگا آپ نامحسوس انداز میں اس سے خار کھانے لگی ہیں۔ آپ لاکھ چھپائے مگر آپ کے دل کے کسی نہاں خانے میں مہمل سے نفرت موجود ہے ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ رقیب آپ کو اچھا لگے۔محبت میں قربانی دینے والے قربانی دے تو دیتے ہیں مگر تجربہ یہی ہے کہ رقیب کے لیے اچھے خیال وہ کبھی نہیں رکھ پاتے۔” دارجی تفصیلاً سمجھا رہے تھے۔
“دارجی مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟ میں نے تو کبھی کسی چیز کا شکوہ نہیں کیا۔ ہمیشہ دوسروں کی خوشی کے لیے اپنا حق چھوڑ دیا پھر بھی میرا امتحان ختم کیوں نہیں ہوتا۔” درشہوار کی سبز آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔
بلاشبہ درشہوار خان مشوانی بے پناہ حسن کی مالک تھی۔ سپید نورانی چہرہ، سبز آنکھیں جن پر لمبی پلکوں کا پردہ اور بھوری زلفیں۔حسن کے معاملے میں مہمل خان اس سے پیچھے تھے مگر مہمل خان میں کوئی کشش تھی جو ہر کوئی اس کا دیوانہ تھا۔شاید مہمل کی عام سی صاف رنگت پر بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ہی لوگوں کو قید کرنے کا ہنر اچھے سے جانتی ہیں۔
“میرے بچے رونا نہیں ہے۔ محبت بڑی ظالم یہ ہے یہ جس دل میں بسیرا کر لے اس کو خون کے آنسو رلا دیتا ہے۔ محب کو سکون کہیں نہیں ملتا۔ اگر تمہاری محبت کسی نے قبول نہیں کی تو یاد رکھو سکون اس کو بھی محبت کا نصیب نہیں ہے۔ صبر کیا ہے؟ قربانی دی ہے تو اس کا اجر ضائع مت کرو۔ اپنے دل کو صاف کر دو۔ ہر محبت نکال دو۔ جب صرف اللہ کی محبت اس دل میں ہوگی تو دنیا خود تمہارے قدموں میں آ جائے گی۔ اور ہماری درشہوار خان یعنی چھوٹی بی بی کے لہجے کی تاثیر کا تو قبیلہ گواہ ہے۔ اللہ کی محبت کو جگہ دو پھر دیکھنا دنیا تمہارے قدموں میں آ جائے گی۔ وہ رب کبھی مایوس نہیں کرتا۔ جاؤ بچے، خوش رہا کرو، تم ہمیں بہت عزیز ہو ہم تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہے۔” دارجی نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
اس سے زیادہ درشہوار برداشت نہیں کر پائی اور وہاں سے فوراً باہر نکلی۔
وہ کمرے سے باہر نکلی تو سامنے سے امریز خان دارجی کے کمرے کی طرف آ رہے تھے۔
“درشہوار بی بی کیا ہوا ہے آپ کو؟” امریز نے بے چینی سے پوچھا تھا۔
“کچھ نہیں لالہ یہ آنسو تو عام سی بات ہیں انکے بغیر گزارا کہاں!” درشہوار کے لہجے میں اپنی ذات پر طنز تھا۔
“درشہوار بی بی۔۔۔۔۔۔” امریز خان نے کچھ کہنا چاہا۔
“لالہ کچھ مت کہیں۔۔۔۔۔!” درشہوار نے اپنی سیاہ چادر درست کرتے ہوئے کہا۔
امریز خان نے درشہوار کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور پھر وہ کچھ سوچتے دارجی کے کمرے میں چلے گئے۔
امریز خان کو ہمیشہ اپنے بھائی کی خوشی عزیز رہی مگر نجانے کیوں مہمل خان انھیں زہر لگتی تھی۔ انھیں ترکی بہ ترکی جواب دینے والی لڑکیاں بلکل نہیں پسند تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ تنگ نظر تھے مگر وہ لڑکیوں کو کچھ حدود کا پاس رکھتے دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن مہمل خان ان کے خیال میں انتہائی خودسر اور جنونی لڑکی تھی جس نے ان کے بھائی کو مہرہ بنایا ہوا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
“السلام علیکم خان! شاہ لالہ تو گھر پہ نہیں ہے۔” یوسفزئی حویلی کے گارڈ نے مشوانی سے کہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مشوانی شاہ کا دوست ہے۔
“مجھے خان بابا سے ملنا ہے۔” مشوانی نے بتایا تو اس کے لیے گیٹ کھول دیا گیا۔
“ویسے وہ تمہارے خان بابا نہیں ہیں۔آئندہ مت بولنا!” مہمل نے مشوانی کو ٹوکا۔
“چپ کرو مہمل ہمیشہ تمہاری بات ماننا ضروری نہیں ہوتا۔” مشوانی کا لہجہ سپاٹ تھا۔
“تمہیں ہوا کیا ہے؟ کیا تمہیں لگتا ہے کہ میرا جلاد تایا تمہیں قتل کر دیگا۔” مہمل نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔ آج وہ خلاف معمول اچھے موڈ میں تھی۔
“ہو گیا مذاق تو اترو نیچے۔” مشوانی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا جو منہ بنا کر گاڑی سے باہر نکلی تھی۔
مشوانی مردان خانے میں داخل ہوا تو جہانداد خان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ انکے بیٹے کا بہترین دوست تھا۔ جہانداد خان آگے بڑھ کر اس سے بغلگیر ہوئے تھے۔
“ارے واہ مشوانی اور یوسفزئی تو ساتھ ساتھ ہیں بس پسے ہم ہی ہیں۔” مہمل نے طنز کیا تھا۔
جہانداد خان کا چہرہ اسے دیکھ کر سرخ ہوا تھا۔
“ارے تایا جان پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ میں ابھی بدلہ تھوڑی لینے آئی ہوں، ابھی تو بس بتانے آئی ہوں کہ جہانگیر خان کی بیٹی چھوڑے گی نہیں آپ کو۔” مہمل نے مزے سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہ پہلی لڑکی تھی جو جہانداد خان کی حویلی میں مردان خانے میں یوں ان کے سامنے زبان چلا رہی تھی۔
“مشوانی کیوں لائے ہو اسے یہاں۔ یہ نامراد لڑکی پاگل ہے۔ کچھ زیادہ اثر لے لیا ہے اس نے اپنے حالات کا۔” جہانداد خان غرائے تھے۔
“ارے میں بتانے آئی تھی بس کیونکہ چھپ کے وار کرنا مجھے تھوڑی آتا ہے۔ ایسے کاموں کی ماہر تو زرینہ بیگم۔۔۔۔۔۔۔۔ آں آں۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب میری پیاری سفاک تائی ہے۔” مہمل نے ایک دم نرمی سے سختی کا لہجہ اختیار کیا تھا۔
“مہمل چلو یہاں سے!” مشوانی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا تھا جسے مہمل نے جھٹک دیا تھا۔
“کل شام ہم اپنی زمینیں دیکھنے چلیں گے۔ ٹھیک ہے نا تایا جان؟” آرام سے آنکھیں پٹپٹاتی مہمل خان جہانداد خان کا خون کھولا رہی تھی۔
“چلو یہاں سے۔۔۔۔۔!” مشوانی اسکے کام کے پاس غرایا تھا اور اسے کھینچ کر باہر لایا تھا۔
“تم زیادہ میرے باپ مت بنا کرو۔ اتنے ڈرپوک ہو تو نہ آتے میرے ساتھ۔” مہمل اس پہ غصہ نکال رہی تھی جو چپ چاپ گاڑی میں بیٹھتا گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
مشوانی نے آج یوں لگ رہا تھا کہ ہوا کی سپیڈ سے گاڑی چلانی ہو۔ مشوانی نے جب واپس حویلی میں گاڑی آ کر روکی تو مہمل نے دانت پیستے ہوئے ایک بار دیکھا تھا۔
“بات سنو میری!” مہمل نے اس روکنا چاہا لیکن مشوانی لمبے ڈگ بھرتا حویلی کے اندر جا چکا تھا۔
“آ گئی آپ آوارہ گردی کر کے!” امریز خان نے اندر داخل ہوتی مہمل پر طنز کیا تھا۔
“آپ کو میرے سے مسئلہ کیا ہے؟ میں آخری بار بتا دوں کہ آپ کی شادی قریب ہے یہ نہ ہو میں اسے خراب کر کے رکھ دوں اس لیے مجھ سے دور رہیں۔” مہمل نے غصے سے جواب دیا۔
“تم میرے بھائی سے دور رہو۔” امریز خان نے سختی سے کہا تھا۔
“آپ کا بھائی خود ہی پاس رہتا ہے ورنہ مجھے کوئی شوق نہیں امریز لالہ!” مہمل تپی تھی۔
“لالہ مت کہو مجھے تمہارے جیسی سازشی لڑکی کا لالہ نہیں ہوں میں۔ تم میرے بھائی کو جان بوجھ کر خوار کرا رہی ہو۔ سب سمجھتا ہوں تمہاری چالیں۔” امریز لالہ نے اب کی بار بڑی بات کہہ دی تھی۔
“میرے کردار پہ بات مت کریں اور ہاں آپ جیسا خبطی انسان میرا لالہ ہو بھی نہیں سکتا۔ آپ کے بھائی سے میں دور رہونگی لیکن اسے بھی سنبھالئے گا۔” مہمل نے دانت کچکچائے تھے اور آگے بڑھ چکی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...