’’اس کا مطلب ہے کہ آپ نے جاب نہ کرنے کا مکمل تہیّہ کر لیا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
سکندر شاہ کا چہرہ سپاٹ جب کہ لہجے میں سخت بے یقینی تھی۔ ثنائیلہ جو اُن کے آفس میں موجود تھی۔ اُن کے اس انداز پر گڑبڑا سی گئی۔ وہ دائیں ہاتھ میں پکڑی بال پوئنٹ اپنی بائیں ہتھیلی پر ہلکے ہلکے انداز سے مارتے ہوئے اُسے بڑے مضطرب لگے تھے۔
’’جی میرا اب کسی بھی قسم کی جاب کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے سنبھل کر وضاحت دی۔
’’ایک دفعہ پھر سوچ لیں ،اتنی اچھی آفر آ پ کو شاید دوبارہ نہ ملے۔۔۔‘‘انہیں نہ جانے کیوں اس منفردسی لڑکی میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی ۔
’’جاب سے دلچسپی تو مجھے کبھی بھی نہیں رہی ۔میں تواپنے گھر کے حالات کی وجہ سے ایسا کرنا چاہ رہی تھی۔‘‘ وہ اپنے اوپر جمی نظروں سے گھبرا کر بولی۔
’’پھر ایک دم کیا کوئی جادو کی چھڑی ہاتھ لگ گئی یا آپ کی لاٹری نکل آئی ہے۔۔۔‘‘ان کا طنزیہ انداز ثنائیلہ کو بالکل بھی اچھا نہیں لگا اور وہ خود کو کوسنے لگی جب اُس نے مروتاً اُن کے آفس میں آ کر انکار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
’’لاٹری ہی سمجھ لیں۔۔۔‘‘ اُس نے سپاٹ سے انداز میں کہا اور رسٹ واچ پر ٹائم دیکھنے لگی اسے اٹھنے کے لیے پر تولتے دیکھ کر وہ مسکرائے۔’’اگر کوئی سیلری کا ایشو ہے تو اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔‘‘
’’میں نے ایسا کب کہا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کا چہرہ سرخ ہوا تو وہ دلچسپی سے دیکھنے لگے۔’’پھر آپ مجھے جاب نہ کرنے کی اصل وجہ بتائیں۔۔۔؟؟؟‘‘
’’اصل وجہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ الجھی ’’آپ کا کیا مطلب ہے کہ میں آپ سے جھوٹ بول رہی ہوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُسے ایک دم ہی غصّہ آیا اور وہ ناک چڑھا کر اُسے دیکھنے لگی جو اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے اس کی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا۔
’’ظاہر ہے۔۔۔‘‘اُس نے کندھے اچکائے۔ ’’ابھی پندرہ دن پہلے آپ کو اس جاب کی شدید ضرورت تھی اور آپ ہر حال میں اسے حاصل کرنا چاہتی تھیں لیکن پندرہ دن میں ایسا کیا ہو گیا جو آپ اب بالکل انکاری ہو گئیں۔‘‘
’’بتایا تو ہے کہ میری لاٹری نکل آئی ہے۔۔۔‘‘وہ چڑ کر کھڑی ہوئی۔
’’اچھا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ شرارتاً جھک کر اپنی سحر انگیز آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگے۔ثنائیلہ کا دل بغاوت پر اتر آیا اور قدم چلنے سے انکاری ہو گئے۔
’’دیکھیں آپ مجھے اصل وجہ بتائے بغیر نہیں جا سکتیں۔۔۔‘‘اُن کے انداز میں موجود اصرار پر وہ کوفت کا شکار ہوئی۔’’کیوں زبردستی ہے کیا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’ہاں زبردستی ہے۔۔۔‘‘ وہ بہت عرصے کے بعد کھل کر مسکرائے تو ثنائیلہ نے یہی سوچا کہ اصل بات بتا کر اپنی جان چھڑا لی جائے۔
’’دیکھیں میری والدہ کو اپنے بھائی کی طرف سے آبائی زمین میں سے حصّہ مل گیاہے ۔اس لیے مجھے نوکری کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہی۔‘‘ اُ س نے نظریں چراتے ہوئے خوا مخواہ صفائی دی تو وہ زیر لب مسکرا دیے۔
’’یہ ماموں جی کیا پہلے گمشدہ تھے جو اچانک دریا فت ہوگئے یا ان کا ضمیر جاگ اُٹھا۔‘‘ اُس نے سراسر مذاق اڑایا تو ثنائیلہ نے گلہ آمیز نگاہوں سے دیکھا اور خاموش رہی۔
’’اوہ ایم سوری۔۔۔‘‘ اُسے فوراً ہی احساس ہوا۔ ’’اور وہ جو آپ کا دوسرا مسئلہ تھا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’کون سا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے بے صبرے پن سے پوچھا۔
’’وہ ہی جو آپ کسی سکندر شاہ کو ڈھونڈتی پھر رہی تھیں ،اس کا کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس کے غیر سنجیدہ انداز پر ثنائیلہ کو دھچکا سا لگا ۔وہ اُس لمحے کو کوسنے لگی جب بے تابی اور عجلت میں وہ اُس سے پوچھ بیٹھی تھی۔’’جی ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔‘‘وہ صاف مکر گئی۔
’’اس کا مطلب ہے کہ آپ پھر مجھ سے جھوٹ بول رہی تھیں۔۔۔‘‘ اُس کی بات پر اُسے کرنٹ سا لگا اور وہ جو سامنے دیوار پر موجود پینٹنگ کو دیکھنے میں مگن تھی جس پر ایک سفید گھوڑا بڑے عزم اور ہمت سے اٹھنے کی سعی کر رہا تھا۔
’’وہ تو میری کہانی کا ایک کردار تھا۔۔۔‘‘ وہ ایک دفعہ پھر جذباتیت کا شکار ہوئی اور اُس کے سامنے مہاگنی لکڑی سے بنے میز کے پیچھے بیٹھا شخص بُری طرح چونکا۔’’آپ کہانیاں لکھتی ہیں۔۔؟؟؟‘‘ وہ اب بغور اس کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں دیکھ رہا تھا۔
’’جی۔۔۔‘‘اُس نے یوں سر جھکایاجیسے اپنی کسی بڑی غلطی کا اعترف کر رہی ہو۔
’’کیسے لکھتی ہیں آپ۔۔۔‘‘اشتیاق بھرے انداز سے پوچھا گیا۔
’’جی ہاتھ سے۔۔۔‘‘ بوکھلاہٹ میں ایک دفعہ پھر زبان پھسلی اور اس کے جواب میں اس کے حلق سے نکلنے والا قہقہہ بڑا جاندار تھا۔ثنائیلہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین پھٹے اور اس میں سماجائے۔
’’اچھا تو سکندر شاہ آپ کی کہانی کاایک کردارتھا،کہاں گیا وہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ اب بہت زیادہ دلچسپی سے پوچھ رہا تھا۔
’’اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کے لہجے میں چھپا درد اُسے حیران کر گیا۔وہ سخت تعجب سے اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھنے لگا جو اُسے اس دنیا کی مخلوق نہیں لگ رہی تھی۔
’’پھر۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ ہمہ تن گوش ہوا۔
’’اُس ایکسیڈنٹ میں اُس کی ٹانگیں ضائع ہو گئیں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کی بات پر اُس شخص کو دھچکا لگا اور وہ ششدر نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگا جو اس وقت خود بھی کسی کہانی کا ایک اُداس سا کردار لگی تھی ۔اُس کی بات پر سکندر شاہ کا سارا وجود ہل سا گیا۔
’’کیسا تھا وہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ جیسے خواب کی سی کیفیت میں بولا۔
’’بہت اچھا،خواتین کا احترام کرنے والا،انسانیت سے پیار کرنے والا۔۔۔‘‘ اُس کے لہجے میں احترام اور عقیدت کے سبھی رنگ تھے۔
’’کیا میرے جیسا تھا وہ۔۔۔‘‘ اُس کا لہجہ سپاٹ اور آنکھیں ضبط کی کوشش میں سرخ ہوئیں۔
’’ہوں،کہہ سکتے ہیں۔۔۔‘‘اُس نے گول مول انداز میں جواب دیا تو وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا۔’’اچھا تبھی آپ میری طرف دیکھ کر چونکیں تھیں۔۔۔‘‘اُسے یاد آیا۔
’’جی بس غلطی ہوگئی۔۔۔‘‘ اُس کے جل کر بولنے پر وہ ہنسا۔
’’پھر حقیقی دنیا میں سکندر شاہ آپ کو کیسا لگا۔‘‘؟؟؟؟؟ وہ بے تابی سے بولا۔
’’بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔۔۔‘‘وہ چڑ کر بولی۔’’آپ کی طرح مغرور نہیں تھا وہ،آپ تو کسی کے گرنے پر گاڑی سے اترنا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔۔۔‘‘اُسے ایک دم ہی وہ واقعہ یاد آیا تو بڑی صاف گوئی سے کہہ بھی دیا۔
’’کیا میں آپ کو مغرور لگتا ہوں۔۔۔‘‘؟؟؟؟ اُس کی آواز پست اور آنکھیں لال ہوئیں۔
’’جی ہاں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے بھی آج بہادری کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔
’’میں مغرور نہیں ہوں۔۔۔‘‘ ضبط کی کوشش میں اُس کا چہرہ بھی سرخ ہوا۔کنپٹی کے پاس پھڑکتی رگ اس کے اندرونی خلفشار کی بھرپور عکاسی کر رہی تھی۔
’’پھر کیا ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ نے اُس کی جلتی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
’’میں مغرور نہیں ،معذور ہوں۔۔۔‘‘ اُس کے لہجے میں ٹوٹے ہوئے شیشے کی سینکڑوں کرچیاں تھیں جو ثنائیلہ کے دل پر پوری قوت سے برسیں ۔وہ سخت حیرت، بے یقینی اور صدمے سے بڑی میز کے پیچھے چھپے بیٹھے شخص کو دیکھتے ہوئے دھم سے کرسی پر بیٹھ گئی۔ اُس کی ٹانگوں سے ایک دم ہی جان نکلی تھی اُسے لگا تھا کہ وہ شاید کبھی بھی اس شخص کے سامنے سے نہ اٹھ پائے۔
* * *
قطار اندر قطار سفیدے کے درختوں میں گھری اس روش کے ایک کونے پر وہ کینوس جمائے بڑی افسردگی سے اُس تصویر کو مکمل کرنے میں مگن تھی جو اُس نے ماہم کی خصوصی فرمائش پر شروع کر رکھی تھی۔صبح سویرے آج پارک میں لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی مارننگ واک کرنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی آ گئی تھی۔اس وقت بھی آسمان پر بادلوں کی وجہ سے ہلکا ہلکا سا اجالا بڑی سستی کے ساتھ پھیل رہا تھا۔دُور کسی جھینگر نے اپنا سُر الاپا تو فضا کے جامد سنّاٹے میں ارتعاش برپا ہو گیا۔
’’مجھے علم تھا کہ کسی درختوں کے جھنڈ میں پھولوں کی باڑ ھ کے پاس ہوا کی سرگوشیاں سنتے ہوئے آپ اپنے کام میں مگن ہوں گی۔۔۔‘‘ گھمبیر سا لہجہ عائشہ کو اپنی سماعتوں کا دھوکا محسوس ہوا تھا اس لیے وہ مڑے بغیر اپنے کام میں مصروف رہی ویسے بھی آجکل دل کی آوازوں نے اُسے حد درجہ بے زار کر رکھا تھا۔
’’محترمہ میں آپ سے مخاطب ہوں۔۔۔‘‘ سفید ٹریک سوٹ میں وہ بالکل اُس کے سامنے آن کھڑا ہوا تو عائشہ کو لگا جیسے اب بصارت بھی اُس کے ساتھ دھوکاکر رہی ہے۔پچھلے دنوں اُس نے کوئی ہزاروں دفعہ اُسے سوچا تھا اور لوگوں کے ہجوم میں کھوجا تھا۔
’’آپ مجھ سے خفا ہیں کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ قدرے بلند آواز میں بولا تو وہ حقیقت کی دنیا میں آئی۔وہ اب بے حد تحیرّ آمیز نگاہوں سے اپنے سامنے موجود اس دشمن جاں کو دیکھ رہی تھی۔
’’کیا ہوا اتنے غصّے سے کیوں گھور رہی ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ شریر ہوا تو عائشہ کو اپنی پچھلے دنوں کی ساری اذیت یاد آ گئی اور وہ دانستہ سنجیدگی سے اپنی پینٹینگ کی طرف متوجہ ہو گئی۔
’’کیسی ہیں آپ۔۔۔؟؟؟پوچھیں گی نہیں کہ میں پچھلے دنوں کہاں غائب تھا۔۔۔؟؟؟؟
’’میں ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘اُس نے مڑے بغیر سپاٹ انداز میں کہا تو وہ تھوڑا سا مایوس ہوا۔
’’ہوں ۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ میرا اندازہ درست ثابت ہوا کہ آپ مجھ سے سخت خفا ہونگی۔۔۔‘‘
’’مجھے کیا ضرورت پڑی ہے آپ سے خفا ہونے کی۔۔۔‘‘شکوہ کرتے کرتے ڈھیر سارا پانی آنکھوں میں جمع ہو گیا جس کو چھپانے کے لیے وہ اپنے برش کو کپڑے سے صاف کرنے لگی۔
’’ادھر دیکھیں میری طرف۔۔۔‘‘ اُس نے کینوس اٹھا کر سائیڈ پر کیا اور اُس کے بالکل سامنے آن کھڑا ہوا۔عائشہ کی دھڑکنوں میں ارتعاش برپا ہو گیا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ آپ ناراض ہیں مجھ سے اور یہ ناراضگی آپ کا حق بنتی ہے۔۔۔‘‘بہت عام سے لہجے میں کہی اس خاص بات نے عائشہ کو سُن کر دیا۔
’’سوری عائشہ۔۔۔‘‘ اُس کے گھمبیر لہجے پر عائشہ نے بمشکل اپنے حواس سنبھالے۔’’اصل میں گھر تبدیل کیا تھا اوپر سے کچھ خاندانی جائیداد کے معاملات تھے ان کو دیکھنا تھا پھرمیری جو جاب ہے اس میں بھی اپنی ذات کے لیے تو کوئی وقت ہی نہیں نکلتا۔‘‘وہ بڑے نرم لفظوں میں اُسے ساری تفصیل بتا رہا تھا عائشہ بالکل خاموش رہی۔
’’سوری مجھے آپ کے ساتھ آرٹ گیلری میں نمائش دیکھنے بھی جانا تھا مگر ان دنوں میں ایک سیمینا رمیں مصروف تھا۔۔۔‘‘ اُسے اچانک ایک اور بات یاد آئی۔وہ اب سامنے بڑے سارے پتھر پر بیٹھ کر بڑے اشتیاق سے عائشہ کو دیکھنے لگا۔جس کے چہرے پر لکھی خفگی دور ہی سے پڑھی جا رہی تھی۔
’’بہت بُرے ہیں آپ۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ وہ اس کے بالکل سامنے نصب سنگ مر مر کے بینچ پر بیٹھ گئی۔
’’ہاں اس میں تو کوئی شک نہیں۔۔۔‘‘اُس نے گردن کو خم دے کر تسلیم کیا۔’’لیکن آپ پارک کے اسی سنسان سے کونے میں کیوں کام کرتی ہیں ۔درختوں کے جھنڈ سے کوئی جانور نکل آئے تو۔۔۔‘‘ اُس کی فکرمندی عائشہ کو اچھی لگی۔
’’بے فکر رہیں ،انسانوں سے زیادہ خطرناک نہیں ہوتے جانور۔۔۔‘‘ اس نے ہنس کر مذاق اڑایا۔
’’پھر بھی یہ بہتر نہیں ہے۔ایک تو آپ صبح سویرے یہاں آ جاتی ہیں دوسرے رمضان کی وجہ سے یہاں لوگ بھی کم کم آ رہے ہیں۔کوئی ضرورت نہیں یہاں درختوں کے جھنڈ میں کام کرنے کی۔۔۔‘‘اُس کے لہجے میں حق جتاتا انداز عائشہ کو طمانیت کا گہرا احساس بخش رہا تھا۔
’’میرے ساتھ ڈرائیور ہوتا ہے ناں۔۔۔‘‘ اس کی ہنسی میں بڑی نرالی سی کھنک آ گئی ۔
’’ہاں وہ ڈرائیور جو پارکنگ میں گاڑی کھڑی کیے سیٹ ریلکس کر کے خراٹے لے رہا ہے۔ابھی دیکھ کر آیا ہوں اُسے۔۔۔‘‘اُس نے منہ بنایا تو عائشہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’مجھے اس جگہ کام کر کے مزا آتا ہے۔۔۔‘‘
’’ہاں پتا ہے جتنا مزا آتا ہے سارے جہاں کی بیزاری چہرے پر اکھٹی کیے زبردستی اس فضول سی تصویر پر اسٹروک مار رہی تھیں۔‘‘اُس نے چڑایا۔
’’یہ فضول سی تصویر ہے۔۔۔‘‘ اُس نے آنکھیں پھیلا کر حیرت کا اظہار کیا۔
’’ایک دم فضول ۔۔۔‘‘ وہ صاف گوئی سے گویا ہوا ’’کلر اسکیم آپ نے اتنی ڈارک کر دی ہے کہ تصویر میں مصنوعی پن سا آ گیا ہے۔پتا نہیں آپ کا دھیان کہاں تھا۔‘‘وہ ایک سفاک تنقید کار بھی تھا اس کا اندازہ ابھی ابھی عائشہ کو ہوا ۔اُس نے خود بھی پینٹنگ کو تنقیدی نظروں سے دیکھا تو اس کا بوجھل پن ایک نظر میں ہی سامنے آ گیا۔
’’کہہ تو آپ بالکل ٹھیک رہے ہیں۔۔۔‘‘ اس کے خفت زدہ انداز پر وہ کھل کر مسکرایا۔’’پس ثابت ہوا کہ جو چیز آپ میرے لیے تخلیق کرتی ہیں اس میں شامل محبت کے رنگ اُسے شاہکار بنا دیتے ہیں۔‘‘اُس کی شرارت پر عائشہ کا دل دھڑکا۔
’’خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘اُس نے کندھے اچکائے ۔’’یہ پینٹنگ تو ماہم کے لیے زبردستی بنا رہی تھی۔‘‘ اُس نے گھبرا کر وضاحت دی تو اُس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔’’آجکل کام کا موڈ نہیں بن رہا تھا ناں۔۔۔‘‘اُس کے معصومانہ انداز پر وہ مسکرایا۔
’’ماہم کے لیے۔۔۔‘‘وہ چونکا۔’’ان کے لیے تو یہ ایک دم پرفیکٹ ہے کوئی ضرورت نہیں زیادہ محنت کرنے کی۔۔۔‘‘اُس کے شوخ انداز پر عائشہ نے اپنی ہنسی کو بمشکل ضبط کیا۔
’’میری معصوم سی دوست نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ،جو ایسے کہہ رہے ہیں۔‘‘اُس نے مصنوعی خفگی سے دیکھا تو اُس نے فورا بات قطع کی۔
’’معاف کیجئے گا آپ کی دوست معصوم تو ہر گز نہیں ۔ایسے گھورتی ہیں جیسے سالم ہی نگل جائیں گی۔۔۔‘‘وہ ہاتھ میں پکڑا پتھر سڑک پر اچھال کر خوشگوار لہجے میں بولا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘عائشہ کو اپنی دوست کے متعلق یہ کمنٹس اچھے نہیں لگے۔’’وہ بہت اچھی لڑکی اور بہت زبردست سائیکلوجسٹ ہے۔۔۔‘‘اُس کی بات پر وہ حیران ہوا۔
’’ جی سائیکلوجسٹ۔۔۔‘‘عائشہ ہنسی ’’کیوں آپ کو کیا سائیکلوجسٹ اچھے نہیں لگتے ۔؟؟؟‘‘
’’مجھے توبس آپ اچھی لگتی ہیں۔۔۔‘‘اُس کے پُر حدت لہجے میں کچھ تھا جو عائشہ جیسی پراعتماد لڑکی کی پلکیں لرز کر رہ گئیں اُس نے نظرا ٹھا کر دیکھا ۔وہ پر شوق نگاہوں سے اُسے ہی تک رہا تھا۔عائشہ کو اپنا دل بغاوت پر اترتا محسوس ہوا۔
’’آپ نے مجھے مس کیا تھا ناں۔۔۔‘‘ اُس کے لہجے میں اتنا یقین تھا کہ عائشہ چاہنے کے باوجود اپنا سر نفی میں نہیں ہلا سکی۔ماحول میں ایک بھید بھری سی خاموشی نے بڑی تیزی سے احاطہ کیاتھا۔
* * *
’’اماّں۔۔۔‘‘!!!!!
سکینہ نے سخت خفا،بیزار اور برہم برہم سی جمیلہ مائی کو مخاطب کرنے کی غلطی کی تو وہ ہاتھ میں پکڑا اون کا گولہ میز پر پٹخ کر اُسے گھورنے لگیں۔ ان کی آنکھوں سے نکلنے والے انگارے سکینہ کو اپنا وجود جھلستا ہوا محسوس ہوا۔
’’کیا ہے امّاں،ایسے کیوں دیکھ رہی ہے جیسے قصائی اپنے جانور کو دیکھتا ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے دانستہ خوشگوار انداز میں کہا ۔
’’دیکھ سکینہ۔۔۔‘‘امّاں نے ہاتھ اٹھا کر دوٹوک انداز میں کہا۔ ’’اس کمرے میں یا تو میں رہوں گی یا یہ شیطانی چرخا۔۔۔‘‘
’’امّاںیہ شیطانی چرخا نہیں ،ٹی وی ہے،ہزار دفعہ بتا چکی ہوں کہ ڈاکٹر خاور کی والدہ نے خصوصی طور پر میرے لیے بجھوایاہے۔۔۔‘‘
’’کیوں تو کیا آسمان سے اتری ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ غصّے سے تیز تیزسویٹر بننا شروع ہو گئیں ہر سال وہ ابّے اور اس کے لیے گرمیوں میں خود اون سے جرسی اور سویٹر بنایا کرتی تھیں۔پرانے زمانے کے ان سویٹروں سے سکینہ بُری طرح چڑتی تھی لیکن امّاں کو اپنے اس مشغلے سے کبھی اکتاہٹ نہیں ہوئی۔
’’میں نے تھوڑی فرمائش کی تھی۔۔۔‘‘ سکینہ نے منہ بنایا۔ ’’وہ اُس دن ہسپتال میں آئیں تو میں اکیلی تھی،انہوں نے کہا کہ سارا دن تمہیں بوریت نہیں ہوتی ایک ہی کمرے میں رہتے رہتے اور اگلے دن ان کا ڈرائیوریہ ٹی وی دے گیا۔‘‘
’’تو نے اُسی وقت واپس کیوں نہیں کیا۔۔۔‘‘ امّاں کے کڑے تیور اس کے ہاتھ پیر پھلا گئے۔
’’اب اُس ڈرائیور کو میں کیا کہتی۔۔۔‘‘ سکینہ گڑبڑا سی گئی۔
’’ویسے تو تیری زبان ریل گڈی کی طرح چلتی ہے۔جہاں اپنا مطلب ہوتا ہے وہاں تیرا انجن پاکستانی ٹرینوں کی طرح خراب ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے۔‘‘جمیلہ مائی کے چہرے پر جھلکتی برہمی سکینہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا ۔امّاں نے دودن سے اُس سے بالکل بول چال بند کر رکھی تھی۔وہ اُس دن سکینہ کی رپورٹیں لینے لیب گئیں تو واپس کمرے میں ٹی وی دیکھ کر انہیں سخت دھچکا لگا اور جب اس کا پس منظر معلوم ہوا تو ان کا موڈ مزید خراب ہو گیا۔
’’دیکھ امّاں اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔۔۔‘‘ سکینہ نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی۔
’’پتّر اپنی ماں کو زیادہ نادان نہ سمجھ،تیرے آنکھ کے اشارے تک میں سمجھتی ہوں،یہ جو تو کٹی ہوئی پتنگ کی طرح آسمانوں پر ڈولتی پھر رہی ہے ناں کسی دن اوندھے منہ زمین پر آن گرے گی۔‘‘جمیلہ مائی کے الفاظ درشت اور لہجہ اُس سے بھی زیادہ سخت تھا سکینہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’اوپر سے تو نے سوہنے رب کی آواز کا جو غلط استعمال شروع کر رکھا ہے ناں،مجھے ساری خبریں ملتی رہتی ہیں۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی بات پر وہ بوکھلا گئی۔
’’اللہ سوہنے نے اپنی آواز صرف اس کی حمد و ثناء کے لیے دی ہے اور تو فضولیات کے ذریعے اپنی آو از کا اجلاپن ختم کر رہی ہے۔سکینہ کچھ ہوش کے ناخن لے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کو ایک اور بات یاد آئی تو غصّہ دگنا ہو گیا۔
’’امّاں میں تو بلھیّ شاہ،سلطان باہو اور وارث شاہ کا کلام ہی گاتی ہوں۔۔۔‘‘ سکینہ کا بھیگا لہجہ امّاں کو تھوڑا سا نرم کر گیا۔
’’کوئی ضروت نہیں ،بس حمد اور ثناء ہی پڑھا کر۔۔۔‘‘امّاں نے نروٹھے پن سے کہا تو سکینہ نے سر ہلا دیا وہ دل ہی دل میں سخت حیران تھی کہ امّاں کو کس نے بتایا وہ تو اس کی موجودگی میں کچھ بھی گنگنانے سے حتی الامکان پرہیز ہی کرتی تھی۔
’’اور سن،تو خودوڈّے ڈاکٹر صیب سے کہنا کہ ہمیں ٹی وی شی وی کا کوئی شوق نئیں ،وہ یہ ڈبّہ اٹھا کر واپس لے جائیں۔‘‘ امّاں کے اس حکم پر اس کی ٹانگوں سے جان نکلی۔
’’امّاں ،میں کیسے کہوں۔۔۔‘‘وہ منمنائی۔’’تو خود کہہ دینا ناں۔۔۔‘‘ اُس نے گیند امّاں کے کورٹ میں ڈالی۔
’’دیکھ مجھ نمانی کو یہ پڑھے لکھوّں والی باتیں نئیں آتیں،ویسے بھی ڈاکٹر صیب کو کسی وی چیز کا انکار کرنا مجھے بہت اوکھا لگتا ہے۔‘‘ امّاں کی منطق پر وہ حیران رہ گئی۔
’’لے امّاں،خود تو بات نہیں کر سکتی اور مجھے قربانی کا بکرا بنا رہی ہے۔۔۔‘‘ سکینہ کو غصّہ آیا۔
’’ظا ہر ہے تجھے ہی کہوں گی۔۔۔‘‘انہوں نے بڑی مہارت سے سویٹر کا نمونہ بنتے ہوئے طنزاً کہا۔’’یہ تحفے تیرے لیے ہی تو آسمان سے ٹپک رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں تو میں کون سا فرمائشیں کر کر کے منگوا رہی ہوں۔۔۔‘‘سکینہ نے ٹھیک ٹھاک بُرا مناکر پروین شاکر کی کتاب خوشبو اٹھا لی۔امّاں نے اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔جب کہ سکینہ کا دھیان کہیں اور تھا اس لیے کتاب میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔اس نے اکتا کر کتاب بند کر دی۔
’’امّاں کتنے دن ہو گئے ،ہم باہر ہی نہیں نکلے۔۔۔‘‘ سکینہ کے لہجے میں ایک فطری سی اُداسی جھلکی۔
’’باہر کیسے لے کر جاؤں،ڈاکٹر صیب نے سختی سے منع کیا ہے کہ پورا ایک مہینہ بیڈ ریسٹ کرنا ہے کوئی ورزش نہیں اور نہ ہی کوئی ہل جل۔۔۔‘‘سکینہ مائی بھی افسردہ ہوئی سکینہ کے گرنے کے واقعے کے بعد اس کی جسمانی حالت خاصی خراب ہوئی تھی۔
’’امّاں تونے ڈاکٹروں سے پوچھا کہ میرا آپریشن کب کریں گے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ ،جمیلہ مائی کی توجّہ وقتی طور پر دوسری جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہو ہی گئی۔
’’اب تو جب تک تیری کمر کی چوٹ ٹھیک نہیں ہوگی تب تک تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔‘‘اون کا گولہ ان کے ہاتھ سے چھوٹا اورفرش پر پھسلتا گیا۔
’’اعجاز نے بھی واپس جا کر کوئی فون نہیں کیا۔۔۔‘‘امّاں کے تشویش زدہ انداز پر سکینہ نے بڑے بے رحم لہجے میں کہا۔
’’امّاں دفع کر ،کیوں کسی سے امید لگاتی ہے۔پنڈ واپس پہنچتے ہی اُس کی بے بے نے اُس کی طبیعت سیٹ کر دی ہو گئی اب تو اُسے یاد بھی نہیں رہا ہوگا کہ وہ کبھی یہاں آیا تھا۔‘‘اُس کی بات پر جمیلہ مائی کا دل دھک کر کے رہ گیا ۔اُس کے چہرے پر اس قدر بے یقینی ،دکھ اور کرب کے سائے تھے کہ سکینہ کو پہلی دفعہ امّاں پر رحم آیا۔
* * *
’’یہ آپ ماں بیٹا کس ایجینڈا سیٹنگ میں مصروف ہیں۔۔۔‘‘بڑی عجلت میں لاؤنج کی سیڑھیاں اتر تے ہوئے عائشہ نے ماما اور موحد کو چھیڑا۔جو سر جوڑے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے۔
’’اتنی مشکل سے تو یہ موحد میرے ہاتھ لگا ہے۔بزنس نے اُسے دن رات کا ہوش بھلا رکھا ہے۔۔۔‘‘ ماما نے شکوہ کیا لیکن ان کے لہجے میں جھلکتا سکون عائشہ نے فوراً ہی محسوس کیا۔ موحد کے روئیے میں تبدیلی کا کم از کم ماما پر بہت خوشگوار اثر پڑا تھا۔خود موحد بھی اُسے بہت بدلا بدلا سا دِکھائی دیا۔
’’تم کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ انہوں نے اُسے آج کچھ بہتر حلیے میں باہر جاتے دیکھ کر پوچھا۔
’’ بیت المال والے بے سہارا بچوّں کے لیے کوئی فنکشن ارینج کر رہے ہیں ،میرے ذمّے بھی کچھ کام ہیں وہ ہی نبٹانے۔۔۔‘‘خلاف توقع عائشہ کی بات پر ماما کا مزاج برہم نہیں ہوا وہ قدرے رازدانہ انداز میں بولیں۔’’تمہاری ماہم سے کوئی ملاقات ہوئی۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’کمال کرتی ہیں ماما۔۔۔‘‘وہ ہنسی ’’ماہم سے آتے جاتے تو کوئی نہ کوئی ملاقات ہوتی ہی رہتی ہے،کیوں کوئی خاص بات۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے پہلی دفعہ موحد اور ماما کے چہرے پر موجود غیر معمولی سنجیدگی کو محسوس کیا۔
’’تمہیں اُس نے ثمن کے بارے میں کچھ بتایا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’ثمن آپی کے۔۔۔؟؟؟؟‘‘وہ زبردست انداز میں چونکی ۔’’نہیں ،کیوں ۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’صبح صبح تمہاری خالہ آئیں تھیں۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنی بہن کی کا ذکر کیا جو ماہم کی آپی ثمن کی ساس تھیں۔’’خیریت ماما۔۔۔‘‘ عائشہ بھی وہیں صوفے پر ان کے پاس آن بیٹھی۔
’’بیچاری بہت پریشان تھیں ،ثمن نے کسی چینل پر مارننگ شو شروع کر رکھا ہے اس کی وجہ سے اس کے اور انصر کے تعلقات میں اس قدر کشیدگی آ گئی ہے کہ ثمن گھر چھوڑ کر میکے آن بیٹھی ہے۔‘‘ ماما کے انکشاف پر وہ ایک دم پریشان ہوئی۔
’’اوہ۔۔۔اٹس سو سیڈ۔۔۔‘‘ وہ حیران ہوئی ۔ ’’میں نے تو بہت پہلے ہی ماہم کو کہا تھا کہ خالہ کے گھر کا ماحول بالکل ایسا نہیں ہے اس لیے ثمن آپی کو احتیاط کرنی چاہیے‘‘
’’پھر۔۔۔؟؟؟؟‘‘ انہوں نے بے صبری سے پوچھا۔
’’آ پ کو پتا تو ہے کہ انکل منصور اور آنٹی نے اپنی دونوں بیٹیوں کی ہر بات مان مان کر انہیں خاصا ضدی بنا رکھا ہے۔‘‘ عائشہ نے صاف گوئی سے کہا۔’’ ماہم کو ہی میرا مشورہ پسند نہیں آیا تھا تو ثمن آپی تو اُس سے بھی دو قدم آگے ہیں۔۔۔‘‘
’’اللہ ہدایت دے سب بیٹیوں کو۔۔۔‘‘ ماما بڑبڑائیں۔ ’’ثمن تو پندرہ دن سے میکے آئی ہوئی ہے تم سے کوئی ذکر نہیں کیا ماہم نے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’ میرے سامنے تو ایسا کوئی ذکر نہیں ہوا،میں پرسوں ہی تو گئی تھی اُس کی طرف۔۔۔‘‘عائشہ کو یاد آیا ۔’’ میں نے تو احیان کو بھی نہیں دیکھا وہاں،ورنہ وہ تو خاصا اودھم مچائے رکھتا ہے گھر میں۔۔۔‘‘
’’احیان کو تو وہ سسرال میں ہی چھوڑ گئی ہے کہ آپ کی اولاد ہے خود سنبھالیں۔۔۔‘‘ ماما کی اطلاع پر عائشہ کو سخت افسوس ہوا ۔وہ بے یقینی سے ماما کا رنج میں ڈوبا چہر ہ دیکھنے لگی یہ رشتہ ماما نے ہی کروایا تھا اس لیے عائشہ کو ان کی حد درجہ پریشانی سمجھ میں آ ئی۔
’’ماما آپ کیوں ٹینس ہو رہی ہیں ،اس میں آپ کا تو کوئی قصور نہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ موحد کا لہجہ پرسکون اور انداز تسلی دلاتا ہو اتھا۔ عائشہ نے چونک کر اس کا فریش فریش سا چہرہ دیکھا۔
’’بھائی خیر ہے ،آ جکل کون سی کریم لگا رہے ہیں ،بڑے چمک رہے ہیں ۔۔۔‘‘عائشہ نے چھیڑا
’’ماشاء اللہ کہتے ہیں ساتھ۔۔۔‘‘ماما نے فوراً ٹوکا تو موحد کے قہقہے نے عائشہ کو اور زیادہ خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا۔
’’تم بات کرنا ناں ،ماہم اور ثمن سے۔۔۔‘‘ماما کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’آپ فکر نہ کریں میں اپنے کام سے فراغت پا کر سیدھے ماہم کی طرف ہی جاؤں گی۔۔۔‘عائشہ نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی تو وہ کھوجتی نگاہوں سے عائشہ کا چہرہ دیکھتے ہوئے اچانک بولیں۔
’’یہ جو بات تم کچھ دیر پہلے موحد سے پوچھ رہی تھیں ،تم خود بھی تو بتاؤ کہ یہ انسانوں والی جون میں کیسے آتی جا رہی ہو۔۔۔‘‘انہوں نے وائٹ اور فیروزی کلر کے سوٹ میں اچھی طرح تیار عائشہ کو بوکھلا کر رکھ دیا۔’’کیوں ماما ،کیا کچھ اوور لگ رہی ہوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُسے نئی فکر نے گھیر لیا
’’ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔ ‘‘ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﮐﺎ ﺑﻮﺳﮧ ﻟﯿﺎ۔
’’ﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ۔۔۔ ‘‘ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﺍﺏ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﻣﻮﺣﺪ ﮐﮯ ﺳﯿﻞ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻝ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮨﯿﻞ ﭼﺌﯿﺮ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔
’’ﻣﺎﻣﺎ،ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺣﺮﮐﺘﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﺸﮑﻮﮎ ﺳﯽ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔۔۔ ‘‘
ﻋﺎﺋﺸﮧ ﮐﮯ ﺷﺮﺍﺭﺗﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﮐﮭﻞ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺭﺍً ﺗﺎﺋﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ۔ ’’ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺎ ﻧﺎﮞ۔۔۔؟؟؟؟ ‘‘ ﻭﮦ ﭘﺮﺟﻮﺵ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ۔ ’’ ﺟﺐ ﺳﮯ ﻣﻮﺣﺪ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍُﺱ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﺻﯽ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ۔ ‘‘
’’ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﻣﻠﭩﺮﯼ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮐﯿﺎ۔۔۔؟؟؟؟ ‘‘ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺍﺱ ﺍﻃﻼﻉ ﭘﺮ ﺗﻌﺠﺐ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ۔
’’ﻧﮩﯿﮟ ،ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﭙﺎﺋﻨﻞ ﺳﺮﺟﻦ ﮨﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺧﺎﻭﺭ،ﮐﺴﯽ ﭘﺮﺍﺋﯿﻮﭦ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺰ ﻋﻠﻮﯼ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﻣﻮﺣﺪ ﮐﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ
ﻣﺜﺒﺖ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔۔۔ ‘‘ ﻣﺎﻣﺎ ﮐﺎ ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ ﭼﮩﺮﮦ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺎ۔
’’ﺑﮩﺖ ﯾﻨﮓ ﺳﺎ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮨﮯ۔ﻣﻮﺣﺪ ﺑﮩﺖ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ۔۔۔‘‘ ﻣﺎﻣﺎ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
’’ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺎﻣﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﯽ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔۔۔ ‘‘ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﮯ ﻣﻮﺣﺪ ﮐﻮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﻣﺎ ﻓﻮﺭﺍً ﮨﻨﺴﯿﮟ۔
’’ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﺣﺪ ﮐﯽ ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔ ‘‘ ﻣﺎﻣﺎ ﻧﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺟﮭﮏ ﮐﺮ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﮯ ﺧﻮﺷﮕﻮﺍﺭ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﻣﺎﻣﺎ ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
’’ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ،ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺣﺮﮐﺖ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﺭﻧﮧ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻣﻮﻗﻌﻮﮞ ﭘﺮ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔۔۔ ‘‘ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﮯ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﮐﺴﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﯽ ﻭﮦ ﻻﺅﻧﺞ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺁ ﮨﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﻣﻮﺣﺪ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﺩﻟﻔﺮﯾﺐ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﺗﮭﺎ۔
’’ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻣﺎﻍ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮﻭﮞ۔۔۔ ‘‘ ﻭﮦ ﻗﺪﺭﮮ ﺑُﺮﺍ ﻣﻨﺎ ﮔﺌﯿﮟ۔ ’’ﺧﺪﺍ ﺧﺪﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺜﺒﺖ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺗﻨﯽ ﺫﻣﮯ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﭼﮭﺎ ﺍﺛﺮ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﺎﺑﺎ ﺑﮭﯽ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔‘‘ ﻣﺎﻣﺎ ﻧﮯ ﺗﻔﺼﯿﻼً ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﺳﮯ ﻓﻮﺭﺍًﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﻣﻮﺣﺪ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﻥ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ۔
’’ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭﺍﺋﯿﮟ ﻧﺎﮞ۔۔۔ ‘‘ ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﺮ ﺷﻮﺧﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ۔ﻣﻮﺣﺪ ﻧﮯ ﮔﮍﺑﮍﺍ ﮐﺮ ﺳﯿﻞ ﻓﻮﻥ ﺁﻑ ﮐﯿﺎ۔
’’ ﻋﺎﺷﻮ،ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰﯼ ﮨﮯ۔ﻣﯿﺮﯼ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﺳﮯ ﻓﻮﻥ ﺗﮭﺎ۔۔۔ ‘‘ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺧﻔﺖ ﺯﺩﮦ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﺧﻮﺍﻣﺨﻮﺍﮦ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﺩﯼ۔ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
’’ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺐ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﺳﮯ ﻓﻮﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔۔۔ ‘‘ ﻭﮦ ﺷﺮﯾﺮ ﮨﻮﺋﯽ۔
’’ ﺍُﺳﯽ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺗﻮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔‘‘ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﮔﮭﭩﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺏ ﻣﻮﺣﺪ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﮯ۔ﻭﮦ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻠﺶ ﮨﻮ ﺍ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
’’ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔ ‘‘ ﻭﮦ ﺑُﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﭽﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺎﻣﺎ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﮔﺌﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ۔
’’ ﺳﭽّﯽ،ﭘﮑّﺎ ﻭﻋﺪﮦ،ﻣﺎﻣﺎ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﮔﯽ۔۔۔ ‘‘ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﮯ ﻻﻟﭻ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﺎ۔ ’’ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﯾﻠﻔﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﭙﮏ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ ﺳﺎﺗﮫ۔۔۔ ‘‘
’’ ﺍﭼﮭﺎ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﮯ ﻣﺼﻨﻮﻋﯽ ﺗﻌﺠﺐ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ’’ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﮔﻮﻧﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﭙﮑﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ،ﺍُﺱ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ۔۔۔ ‘‘
’’ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﮈﮬﭩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﺁﮔﮯ ﮨﮯ۔۔۔ ‘‘ ﻣﻮﺣﺪ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﭘﮭﺴﻼ۔ﻋﺎﺋﺸﮧ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼ ﮐﺮ ﮨﻨﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻮﺣﺪ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﺠﮭﻼﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍُﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﭘﮭﺴﻠﻨﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻣﺖ ﺧﻮﺩ ﺑﻠﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﺘﺮﺍﺩﻑ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺷﺎﻣﺖ ﺁﮨﯽ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...