السلام علیکم !!
سمیر سلام کر کے چیئر پر بیٹھ چکا تھا وہ ایک ایک کر کے کمرے میں موجود ہر ایک کا جائزہ لے رہا تھا اس وقت کمرے میں دادا ابو، سیما، ثمرین، فراز خالد اور بڑی پھپھو موجود تھیں ۔۔ کسی بھی بچے کو اس بیٹھک کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔۔۔
وعلیکم السلام! سمیر بیٹا یہ میں کیا سن رہا ہوں؟؟ اگر ایسا تھا تو آپ کو مجھ سے بات کرنی چاہیے تھی نا؟؟
دادا نے سلام کا جواب دیتے ہی سمیر کو مخاطب کیا تھا وہ عارفین کی طرح ہی ان کا لاڈلا تھا اور وہ بس پورے خاندان میں اس کو بد نام ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے ۔۔۔
دادا میں شرمندہ ہوں میں آپ کو پہلے ہی بتانا چاہتا تھا لیکن بس کاموں میں مجھے موقع نہیں لگا۔۔ دادا وہ مجھے اچھی لگتی ہے۔ میں شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے پتا ہے میں نے گھر میں بتانے میں دیر کردی اور یہ سب ہو گیا میں اپنے غلطی سے بہت شرمندہ ہوں میری وجہ سے آپ لوگوں کو بھی بہت سننا پڑا ہے۔
سمیر سر جھکائے بیٹھا تھا اور وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا
بیٹا تم ان کے گھر والوں کو اچھے سے جانتے ہو وہ لوگ اس بات کا بہت اشو کریٹ کر رہے ہیں۔۔۔۔ میں جانتی ہوں تم پسند کرتے ہو گے لیکن بیٹا بس اب کیا کر سکتے ہیں ۔ فضا بھی بہت پریشان ہے وہاں اچھا خاصا تماشہ ہو گیا ہے اب تم کیا چاہتے ہو بیٹا؟؟؟
بلقیس کو سمیر سب سے زیادہ عزیز تھا وہ بچپن سے ہی اس کو خاص لاڈ کیا کرتی تھیں اور اب چاہتی تھیں کہ اگر ان سے کچھ ہو سکے تو وہ ضرور سمیر کا ساتھ دیں۔۔
پھپھو میں کنزا سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔
سمیر ابھی بس یہی بول پایا تھا وہ بڑوں کے سامنے اپنی محبت کے قصیدے نہیں پڑھ سکتا تھا وہ سب کے سامنے اس وقت ایک مجرم تھا اور اب اس شرمندگی میں بیٹھا کچھ بھی بولنے کی حالت میں نہیں تھا۔۔
اچھا ہم بات کریں گے جو ہم سے ہو سکا تم اب احتیاط کرنا بیٹا۔۔۔ بہت زیادہ بات بگڑ چکی ہے اور ویسے بھی بات خاندان میں پھیلنا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔۔۔ پھر معاملہ عزت کا آجاتا ہے جس کو ہمیں خود سنبھالنا ہوتا ہے۔۔
بڑی پھپھو سمجھا رہی تھیں باقی سب بس خاموش بیٹھے تھے سمیر اپنے امی ابو کے سامنے اور زیادہ شرمندہ تھا ۔۔ بڑی پھوپھو کنزہ کی نانی ہونے کی وجہ سے بات کرنے آئی تھیں اور سب ہی ان کے ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔۔
اچھا اب تم جاؤ سمیر ہم کچھ کرتے ہیں۔۔۔
اب کی بار خالد نے سمیر کو باہر جانے کا اشارہ کر دیا۔۔
* * *
آپ کون ہیں اور میری دوست کو کیوں تنگ کر رہے ہیں؟؟؟
اللہ جانے عشاء کو کیا پڑی تھی کہ وہ اپنی دوست سے اس لڑکے کا نمبر ہی لے آئی تھی اور اب اپنے روم میں گھس کر اس کو میسج کرنے لگی تھی۔۔
تم کون ہو اور میرا نمبر کہاں سے ملا؟؟
تھوڑا ہی ٹائم گزرا تھا جب اس کا جواب آگیا۔۔۔ عشاء ڈرپوک تھی اتنی جلدی جواب کی توقع بھی نہیں کی تھی اس لئے ہربڑی میں کوئی اچھا جواب بھی نہیں سوجھ رہا تھا۔۔۔
میں عشاء ہوں اور مناہل کی دوست۔۔۔ آپ میری فرینڈ کا پیچھا چھوڑ دیں وہ بہت گھبرائی ہوئی ہے اللہ تعالی آپ کو اچھی نیک بیوی عطا کریں گے میں نماز میں رو رو کر آپ کے لیے دعا مانگوں گی لیکن پلیز آپ میری دوست کا پیچھا چھوڑ دیں نا۔۔۔
وہ معصوم تھی باتوں کو گھمانا نہیں جانتی تھی جبھی اس شخص کو سب سچ سچ بتا دیا یہ جانے بنا کہ وہ جس سے وہ بات کر رہی تھی وہ انتہائی خطرناک شخص تھا اور کسی پل کچھ بھی کر سکتا تھا ۔۔۔نمبر ٹریس کرآنا اور کسی بھی بندے کا پتہ لگانا اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔۔۔
چلو ٹھیک ہے میں تمہاری بات ماننے کے لیے تیار ہوں میں تمہاری دوست کو اب تک تنگ نہیں کروں گا۔۔۔
سچی؟؟
عشاء تو جیسے خوشی سے جھوم اٹھی تھی۔۔
ہاں بالکل سچی۔۔
وہ اپنے جال پھینکنے کی تیاری شروع کرنے لگا تھا اس کو ایک انتہائی آسان شکار مل رہی تھی اور کون تھا جو اپنے ہاتھ سے ایسے بندے کو جانے دے گا۔۔۔
ارے آپ تو اتنے اچھے ہیں فوراً میری بات مان گئے مناہل تو آپکی اتنی برائی کر رہی تھی لیکن آپ بالکل بھی ویسے نہیں ہیں دیکھیے گا اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا اور آپ کی ساری خواہشات قبول ہو جائے گی۔۔۔
عشاء نے تو جیسے جنگ جیت لی تھی وہ بہت زیادہ خوش اور پرسکون ہو چکی تھی کہ وہ اپنی دوست کی مدد کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
لیکن تم کو میری ایک بات ماننی ہوگی۔۔
اب وہ اپنی حرکات پر واپس آ رہا تھا ۔۔اپنی ڈیمانڈز رکھنا شروع کر رہا تھا۔۔
جی بولیں؟؟
عشاء نے فوراً حامی بھر لی۔
تم مجھ سے روز بات کیا کرنا مجھے تم سے بات کر کے بہت اچھا لگا ہے ۔۔
وہ اب مدعے پر آگیا تھا وہ لڑکیوں کو پھنسانا اچھے سے جانتا تھا یہ اس کا کام تھا وہ اپنے پینتروں سے بخوبی واقف تھا۔۔۔
میں؟؟ مطلب میں کیوں؟؟؟؟ میرے گھر والے تو مجھے موبائل بھی یوز نہیں کرنے دیتے اور آپ بات کر رہے ہیں روز بات کرنے کی اور ویسے بھی بھائی مجھے باتیں نہیں کرنی آتی اماں کہتی ہیں تم دو بات کے بعد لڑائی پر اتر آتی ہو تو آپ مجھ سے کیا بات کیا کریں گے ۔۔۔۔وجدان بھی بچارا مجھ سے بات کرتا ہے تو مجھے آگے سے لڑائی سوجھ جاتی ہے ۔۔ اماں کہتی ہیں میں بہت باولی سی ہوں ۔۔
عشاء اپنے طور پر اس کو منع کرنا چاہ رہی تھی لیکن اس کو کیا معلوم تھا کہ وہ اس کو اپنی کمزوریاں بتانے میں لگی تھی۔۔۔
ارے تو تم مجھ سے لڑ بھی سکتی ہو میں تمہیں لڑنے سے منع تھوڑی کروں گا اب تم خود دیکھ لو میں تمہاری بات مان رہا ہوں اور تم میری بات کو ٹھکرا رہی ہو۔۔ اب میں ہی تم سے ناراض ہو جاؤں گا اور تمہاری بھی کوئی بات نہیں مانوں گا۔۔۔
وہ اب اس کو باتوں میں گھمانے کی بھرپور کوشش کرنے میں لگا تھا۔۔۔
عشاء جلدی بات سنو تمہیں پتا بھی ہے کہ گھر میں کیا ہو رہا ہے تم ہو کہ موبائل سے چپکی ہوئی ہو۔۔
دعا نے آتے ہی ساتھ اس کا موبائل لے کر سائیڈ میں پھینک دیا تھا اور اس کے سامنے بیٹھ کر اس کو ہلا ہی ڈالا ۔۔
کیا مصیبت آ گئی ہے؟؟ تم ہمیشہ ہی ایسے کیوں آفت کی طرح آجاتی ہو۔۔ میری تو سمجھ سے باہر ہے۔۔
عشاء نے برا سا منہ بنا کر اب موبائل واپس اٹھا لیا تھا اور اب میسج ٹائپ کرنے لگی تھی۔۔
سمیر بھائی کی کلاس لگ رہی ہے بڑوں سے لیکن مسئلہ کیا ہے یہ بات صحیح سمجھ نہیں آرہی ابھی تک۔۔۔ شاید محبت کا چکر ہے۔۔
دعا نے بات بتانی شروع کی گھر میں ویسے بھی عجیب ماحول ہو چکا تھا ہر کوئی ایک دوسرے سے یہی باتیں کر رہا تھا۔۔۔
او اچھا چلو ہمیں کیا ہے تم بھی دوسروں کے مسئلے میں نا پڑو۔۔
عشاء کا ابھی پورا دھیان اس لڑکے کو “بعد میں بات کروں گی” کے میسج بھیجنے لگا تھا۔۔
* * *
سمیر کو جمعہ کا بتا دو یار ورنہ وہ گلہ کرے گا ۔۔
شانزے اور فارس کا نکاح جمعہ کو طے پایا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ سب سے پہلے یہ خوشخبری وہ سمیر کو ہی دے۔۔
ہاں میں بھی یہی چاہتا ہوں لیکن ابھی وہ اتنا اپ سیٹ ہے اس کو ایسا نہ لگے کہ ہمیں اس کی تکلیف کے بجائے اپنے نکاح کی جلدی ہے
فارس اداس تھا وہ سمیر کے ساتھ بچپن سے تھا اور اس کے ہر اچھے برے موڈ سے واقف تھا اس کو پتہ تھا کہ اس ٹائم وہ بہت سی مشکلوں میں گھرا ہوا ہے ایسے میں اسے اپنی خوشی کا بتانا تکلیف نہ دے دے۔
لیکن فارس وہ ہمارا واحد دوست ہے اس کو کال کرکے بتانا بھی اچھا نہیں لگے گا تم اس سے پوچھ لو ابھی یہی مارکیٹ میں آ جائے ہم اس کو بتا بھی دیں گے اور اس سے کل کی بیٹھک کے بارے میں بھی پوچھ لیں گے۔۔
شانزے نے فارس سے بات کرتے ساتھ ہی سمیر کو میسج کر دیا تھا ۔
* * *
تو آپ اس کو بتا کیوں نہیں دیتی کہ اس کی وجہ سے خاندان میں ہوا کیا ہے ان لوگوں نے ابا جان کو کتنی باتیں سنائی ہیں ۔ ان کی پرورش پر آواز اٹھائی ہے ۔۔ غلطی دونوں طرف سےہوئی ہے تو سارا ملبہ صرف سمیر پر کیوں ڈال رہے ہیں کیوں فون کرکے کبھی خالد کبھی فراز اور کبھی ابا جان کو باتیں سنا رہے ہیں ۔۔
اب بھی وہ ایسے خاندان میں شادی کرے گا جہاں اس کے گھر والوں کی ایک پیسے کی عزت نہیں رہی وہ کس طرح سے بڑوں کو ذلیل کر رہے ہیں وہ تو شرافت ہے ہمارے مردوں کی جو ان کی بیٹی تک نہیں گئے چپ چاپ سمیر کے لیے ایک ایک لفظ سنتے رہے مجھے بڑا ہی افسوس ہو رہا ہے کیوں نہیں بتا دیتے سمیر کو کہ انہوں نے صاف منع کر دیا ہے کہ وہ لوگ کبھی شادی نہیں کریں گے کیوں سمیر کو آس دے رہے ہیں کیوں ابا جان اب ان کی منتیں کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں ۔۔۔
سیما بہت زیادہ غصے میں تھیں سمیر کے جانے کے بعد وہاں بڑوں میں ساری بات کھلی تھی کہ آخر کس طرح سے فضا کے سسرال والوں نے بدتمیزی کی تھی۔۔ اور اب کچن میں کھڑی ایک ایک بات ثمرین سے ڈسکس کر رہی تھیں ۔۔ ثمرین کو تو جیسے کوئی بات بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ آگے سے کیا بولیں ایک طرف ان کا جان سے عزیز بیٹا تھا جو گھر کے ہر ایک فرد پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے ہر پل تیار تھا اور دوسری طرف ان کی برادری کی عزت تھی، بڑوں کا مان تھا جو اب تقریباً مٹی میں مل چکا تھا..
بھابھی ابا جان نے سمیر کو بتانے سے سختی سے منع کیا ہے وہ خود کوئی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں وہ سمیر سے پیار کرتے ہیں اور اس کے حق میں فیصلہ سنانے کے خواہشمند ہیں اور اس کے بدلے میں ان کی عزت ہی کیوں نہ خراب ہو جائے۔۔
ثمرین اور سیما آپس میں باتوں میں اس قدر مشغول تھیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں لگا کہ کوئی ان کی ساری باتیں کچن کے باہر سے سن چکا تھا ۔۔۔
* * *
بس بھائی میں تو کافی تھک چکا ہوں یہ لوگ دبئی کے سنہرے خواب دکھا کر یہاں گدھوں جیسا کام کرا رہے ہیں میری تو بس ہو گئی ہے مہینہ ہونے کو ہے اور ایک او ایک کام بھی نپٹ گیا ہے اب بہتر ہے میں سر سے واپس کراچی جانے کی بات کروں مجھے تو ماں کے ہاتھ کے پکے کھانے بہت زوروں سے یاد آرہے ہیں۔۔۔
سمیر کے ساتھ اور بھی لوگ دبئی گئے تھے انہی میں سے ایک دوست سے وہ جانے کی بات کر رہا تھا وہ لوگ ایک مال میں آئے ہوئے تھے عارفین جانے سے پہلے کچھ چیزیں لے کر جانا چاہتا تھا۔۔
چیزیں دیکھتے دیکھتے اس کی نظر جس پر پڑی وہیں ٹھہر سی گئی تھیں وہ اس کے ساتھ کھڑے شخص کو بھی بہت غور سے دیکھ رہا تھا عارفین کی آنکھیں نم ہونی شروع ہو گئیں اور وہ زیادہ دیر اس مال میں کھڑا نہ رہ پایا اس کی ٹانگوں نے ساتھ دینے کی اجازت نہیں دی تھی وہ اپنے دوست سے اجازت لے کر ہوٹل کے لئے نکل گیا۔۔۔۔
* * *
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...