” کل جلدی آفس کی صفائی کر لیجیے گا۔آج بھی سر کہہ رہے تھے آپ نے دیر لگائی ہے۔” ارسلان کے سیکرٹری راحیل نے اس سے کہا۔
” میں آپ سے یہ کہنے آئی تھی کہ میں یہ نوکری چھوڑ رہی ہوں ۔” وہ زرد ہوتے چہرے کے ساتھ بولی۔ارسلان کو سامنے دیکھ کر وہ پتا نہیں ہوش میں کیسے تھی۔
” آپ اسطرح نوکری نہیں چھوڑ سکتیں۔”راحیل اپنی حیرت پہ قابو پاتے ہوئے بولا۔اتنی اچھی تنخواہ تو یہاں کسی ملازم کی نہیں تھی۔
” کیوں نہیں چھوڑ سکتی۔”وہ تعجب انگیز لہجے میں بولی۔
” آپ کو یاد ہوگا یہاں انٹرویو والے دن میں نے آپ سے ایک صفحے پہ دستخط لیے تھے۔کیا آپ نے وہ صفحہ پڑھا تھا؟ “اس نے پوچھا۔
ماہم نے شرمندگی سے نفی میں گردن ہلائی. اسے اس وقت بس نوکری چاہیے تھی۔
” اس کے مطابق اگر آپ کو نوکری چھوڑنی ہے تو مہینہ پہلے بتانا پڑے گا۔دوسری صورت میں جرمانہ دینا پڑے گا۔”راحیل سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” کتنا جرمانہ۔”اس کا حلق خشک ہوا۔وہ تو بری پھنسی تھی۔
” پندرہ ہزار ۔وہ بھی نوکری چھوڑتے وقت ادا کرنے ہوں گے۔” اس نے کہا۔
ماہم کو لگا اس کے سر پہ بم پھٹا ہے۔اس کے پاس تو دینے کے لیے پانچ ہزار نہیں تھے۔پندرہ ہزار کہاں سے آتے۔
” کیا مجھے مہلت نہیں مل سکتی۔ اصل میں میری مجبوری ہے جس کی وجہ سے میں یہ نوکری نہیں کر سکتی۔میرا چھوٹا سا… وہ انگلیاں مڑوڑتے ہوئے بول رہی تھی لیکن راحیل نے اس کی بات کاٹ دی۔
” اپنی مجبوری کا آپ کو پہلے سوچنا چاہیے تھا ۔آپ کی وجہ سے ہمارا کتنا وقت برباد ہوا اور اب پھر ہمیں انٹرویو کرنا پڑے گا۔” اس نے سرزنش کی۔
ماہم سر ہلاتی مرے مرے قدموں سے وہاں سے چل دی۔وہاں سے سیدھی وہ آفس کے کیفے میں آئی تھی۔اس کا بلیڈ پریشر لو ہورہا تھا ۔اس نے سوچا تھاجوس لے گی پر قیمت سن کر اس نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔
کولر سے پانی لے کر وہ ایک کرسی پہ بیٹھ گئی۔اس کے سامنے ماضی گھومنے لگا۔جب وہ اماں کی خالہ رشیدہ کے گھر پہنچی تھی۔
” تمہیں تمہارے شوہر نے کیوں نکالا۔” خالہ رشیدہ کی طلاق یافتہ بیٹی رخسانہ نے پرتجسس انداز میں ماہم سے پوچھا۔
” انہوں نے نہیں نکالا ۔میں خود گھر چھوڑ کر آئی ہوں ۔” وہ سر جھکا کر بولی۔
” کیوں؟” خالہ رشیدہ کے انداز میں ناپسندیدگی تھی۔انہیں ماہم کا یہاں ہمیشہ کے لیے آنا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔انہوں نے سوچ لیا تھا کہ چند روز میں کوئی بہانہ بنا کر اسے چلتا کریں گی۔وہ بھلا کیوں کسی کا بوجھ اٹھائیں ۔
” ان کی سابقہ بیگم واپس آگئی تھی۔وہ مجھے طلاق دینے کے والے تھے۔” وہ مغموم آواز میں بولی۔
” تو طلاق تو لے لیتی۔ اب کیا ساری زندگی اس کے نام پہ بیٹھی رہو گی۔” رخسانہ منہ بنا کر بولی۔
ماہم نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا یہ لفظ اس کی جان نکال دیتا تھا اور رخسانہ آپا کیسے آسانی سے اسے یہ مشورہ دے رہی تھیں ۔
” پھر اپنے گھر کیوں نہیں گئی۔کیا انہوں نے بھی نکال دیا۔”خالہ رشیدہ کی تفشیش شروع ہوچکی تھی۔
“وہاں جاتی تو ارسلان ادھر آ کر طلاق دے دیتے۔” وہ دوبارہ سے سر جھکا کر بولی۔
” دیکھو میں تو صاف بات کہتی ہوں ۔میں بچاری خود بیوہ ہوں اور بیٹی طلاق یافتہ اور ایک بیٹے کی ماں ہے ۔اس کی ابا کی پنشن اور اس کی تنخواہ سے یہ گھر چلتا ہے۔تم بےشک ادھر رہو پر کچھ دن۔کیونکہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم تمہارا خرچہ بھی اٹھائیں ۔” خالہ رشیدہ بغیر کسی لگی لپٹی کے جھوٹ بولتیں گئی۔حالانکہ ان کا گھر کافی بڑا تھا۔اور شوہر کی پنشن اور رخسانہ کی اچھی خاصی تنخواہ تھی۔
” پر سچ ہے آج کے دور میں کسی کا بوجھ اٹھانے کے پیسے سے زیادہ ظرف کی ضرورت ہوتی ہے۔”
” میں اُدھر نوکری کرتی تھی ۔یہاں بھی کر لوں گی اس کے علاوہ آپ کے گھر کا سارا کام بھی کر لوں گی۔آپ بس مجھے یہاں کسی کونے میں پناہ دیں دے۔” وہ منتوں پہ اتر آئی۔اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا اگر یہاں سے بھی نکال دی گئی تو کہاں جائے گی۔
” کہاں نوکری کرتی تھی آفس میں یا سکول میں؟ “رخسانہ نے پوچھا۔وہ گورنمنٹ سکول میں استانی تھی ۔
” ارسلان کے گھر میں ملازمہ تھی۔”وہ جوابا بولی۔
رخسانہ اور خالہ رشیدہ کا قہقہہ گھونجا تھا۔
” کیا دلچسپ کہانی ہے ۔ تم نے اپنے صاحب کے ساتھ چکر چلایا اور شادی کر لی لیکن پھر بھی ہاتھ کچھ نہ آیا۔”رخسانہ نے ہنستے ہوئے طنز کیا۔
” میں نے چکر نہیں چلایا ۔میں ایسی نہیں ہوں ان کی امی نے خود رشتہ مانگا تھا ۔” ماہم نے جلدی سے وضاحت دی ۔اسے لگ رہا تھا یہاں بھی اس کے ساتھ میکے والا سلوک ہوگا۔
” اچھا ٹھیک ہے تم یہاں پہ رہ سکتی ہو لیکن تمہیں کام کرنا پڑے گا۔”خالہ رشیدہ نے آخر کار حامی بھر لی۔
اور وہ خوش ہوگئی۔
خالہ رشیدہ نے ہی کسی کوٹھی میں اس کا کام لگوا دیا۔پہلے ہی اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی اور کوٹھی اور گھر کا کام ۔کام کے تیسرے ہی دن وہ وہاں پہ بہوش ہوگئی تھی۔
مالکن نے اسے ڈاکٹر کو چیک کروایا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ امید سے ہے۔ماہم کے چہرے پہ بےیقینی تھی۔
” تمہیں اتنی مشکل سے رکھا تھا اب یہ مصیبت بھی گلے پڑ گئی۔” خالہ رشیدہ نے کہا ۔سارے راستے وہ اسے باتیں سناتی آئیں تھی ۔
اور ماہم کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ خوش ہو غمگین ۔اسے بچے بہت اچھے لگتے تھے ۔آج وہ خود ایک بچے کی ماں بننے والی تھی۔
دوسری طرف وہ بچے کے باپ کو چھوڑ آئی تھی وہ تو خود کو سنبھال نہیں پاتی تھی ۔اپنے خرچے کے لیے کام کر رہی تھی ۔کیا وہ اتنی بڑی ذمہ داری پوری کرسکتی تھی؟
” کل میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں گی ۔اس بچے کو ضائع کروا دیں گے اور جتنی جلدی یہ کام ہو اتنا ہی اچھا ہے۔” گھر آ کر خالہ رشیدہ نے کہا۔
” نہیں میں ایسا نہیں کروں گی۔یہ میرا بچہ ہے۔” وہ تڑپ کر بولی۔
” تو بی بی اپنا سامان باندھ لو۔تمہاری ماں کا دینا نہیں ہے تمہیں بھی پالیں اور تمہاری اولاد کو بھی۔”خالہ رشیدہ بگڑ کر بولیں ۔
” جیسے ہی بچہ پیدا ہوگا میں فوراً کام پہ لگ جاؤں گی ۔پر مجھے یہاں یہاں سے نہیں نکالیں ۔میں کدھر جاؤں گی۔”وہ رو پڑی۔آج اسے اپنی بےبسی کا شدت سے احساس ہوا تھا۔
” میں نو مہینے کس خوشی میں تیرا خرچہ اٹھاؤں ۔پھر ڈلیوری کے اخراجات۔نہ بھئی نہ میں باز آئی ۔یا تو یہاں سے جانے کی تیاری کرو یا پھر میری بات مانو۔”وہ سفاکی سے بولیں ۔
” مم میرے پاس زیورات ہیں ۔میں آپ کو وہ دے دیتی ہوں ۔پر میرے ساتھ ایسے نہ کریں ۔” آنسو تیزی سے چہرہ بگھو رہے تھے۔
زیورات کا سن کر خالہ رشیدہ کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔جب ماہم نے انہیں زیورات لا کر دئیے تو ان کی آنکھیں کھل گئی ۔کم از کم دس تولہ تو بنتا تھا۔
اس میں ماہم کی شادی کے سیٹ کے علاوہ کچھ اور وہ زیورات تھے جو ارسلان نے اسے بنوا کر دیئے تھے۔
” اس سے خرچہ پورا ہوجائے گا نا۔” وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
” خیر اتنے مہینے تو ان سے خرچہ مشکل سے ہی چلے گا۔پر ٹھیک ہے اب میں تمہارا خیال نہیں کروں گی تو کون کرے گا۔” خالہ رشیدہ شاپر میں جلدی جلدی زیورات ڈالتے ہوئے بولیں ۔
” بہت بہت شکریہ ۔” وہ نم آنکھوں سے مسکرائی۔
” اور یہ انگھوٹی۔” ان کی نظر ماہم کے ہاتھ پہ گئی۔
” یہ تو چاندی کی ہے۔”اس نے جھوٹ بولا۔ارسلان نے اسے بتایا تھا کہ یہ سونے کی ہے پر یہ اس کے لیے نہایت اہم تھی ۔وہ یہ کسی کو نہیں دے سکتی تھی۔
خالہ رشیدہ نے بھی زیادہ غور نہیں کیا۔ان کے تو وارے نیارے ہوچکے تھے۔
بچے کی پیدائش تک کا وقت اس کے لیے بہت مشکل تھا۔ حالانکہ خالہ رشیدہ کے گھر میں چار کمرے تھے پھر بھی انہوں نے اسے سٹور روم رہنے کو دیا۔جس میں اچھا خاصا سامان تھا ۔وہاں پہ ایک پلنگ رکھا تھا جس پہ وہ سوتی تھی ۔اور اسی پلنگ کے نیچے اس کے پاس ارسلان کے گھر سے لایا بیگ تھا جس میں اس کے وہ خوبصورت خوبصورت کپڑے تھے۔وہ گھر کا کام بھی کرتی اور باتیں بھی سنتی۔
“پتا نہیں لوگ دوسروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہیں ہر چیز کا حساب دینا ہے۔”
اسے کبھی کبھی شدت سے اپنے فیصلے کے غلط ہونے کا احساس ہوتا تھا لیکن اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔اگر وہ میکے میں بھی رہتی تو اس کے ساتھ شاید اس سے بھی بدتر سلوک ہوتا۔اماں تو زیور لے کر بھی اسے کھانا نہ دیتیں ۔اسے پھر بھی کام کرنا پڑتا ۔
وہ سوچتی کاش زری واپس نہ آتی ارسلان اس کو طلاق دینے کا نہیں سوچتے۔بھلے انہوں نے اس سے سچی محبت نہ کی تھی پر اس کے سر پہ چھت تو تھی۔
اس تمام عرصے میں اسے عنایہ بہت یاد آئی تھی۔اور وہ چاہ کر بھی ارسلان کو اپنے دل سے نہ نکال پائی تھی اور نہ سوچو سے۔اسے ارسلان سے کوئی شکوہ نہیں تھا ۔وہ سوچتی تھی کہ شاید وہ اس قابل ہی نہیں کہ کوئی اس سے محبت کرے۔
وہ دسمبر کی ایک سرد شام تھی جب اس نے ایک خوبصورت سے بیٹے کو جنم دیا۔بچہ کافی کمزور تھا۔ اس نے بچے کا نام ایان رکھا تھا کیونکہ یہ نام ارسلان کو پسند تھا ۔
بچے کی پیدائش کے دو مہینے بعد وہ اسی کوٹھی میں کام کرنے لگی جہاں بچے کہ پیدائش سے پہلے کرتی تھی۔وہاں کی مالکن بہت اچھی تھیں انہوں نے اسے ایان کو بھی لانے کی اجازت دے دی۔وہ اکثر اسے کچھ نہ کچھ دیتی رہتی تھیں ۔اور اب کے اندر اتنی عقل آچکی تھی کہ اسے چیزیں اور باتیں چھپانا آگیا تھا۔اس نے کبھی خالہ رشیدہ کو خبر نہیں ہونے دی کہ تنخواہ کے علاوہ مالکن اسے کبھی پیسے کبھی فروٹ وغیرہ دے دیتی ہیں ۔ان پیسوں سے وہ ایان کی ضرورتیں پوری کرتی تھی۔کیونکہ تنخواہ میں سب کچھ پورا کرنا کبھی کبھی مشکل ہوجاتا تھا۔
اس کی یہاں تنخواہ پندرہ ہزار ہی تھی۔جس میں سے دس ہزار وہ خالہ رشیدہ کو دیتی تھی۔وہ گھر کا کام بھی کرتی تھی اس سب کے بدلے اسے رہائش کے ساتھ کھانا بھی دیا جاتا تھا۔
اس نے خود پہ کبھی ایک روپیہ بھی نہیں لگایا ۔وہ چاہتی تھی کہ ایان کو ہر چیز مہیا ہو آخر کو وہ ایک امیر باپ کا بیٹا تھا ۔جسکی ایک کلاس تھی۔
تیرہ مہینے اس نے اس کوٹھی میں کام کیا۔پھر اس کی مالکن باہر شفٹ ہوگئی ۔وہ بہت پریشان تھی اتنی اچھی مالکن اسے کہاں سے ملتی۔
انہوں نے اس کی پریشانی دیکھتے ہوئے اسے اپنی ایک دوست کے گھر کام دلوا دیا۔پر ان کی دوست کو کام والی کی ضرورت نہیں تھی اسلیے اس نے انہیں اپنی پڑوسن کے گھر کام پہ لگوا دیا۔
وہ ایک گرم سا دن تھا جب اس نے سفید رنگ کی اس کوٹھی میں قدم رکھا۔ایان کو رات سے بخار تھا وہ ساری رات روتا رہا تھا۔اس کا بالکل بھی آنے کا دل نہیں تھا پر مجبوری تھی۔یہاں کام کرتے ہوئے اسے چند دن ہی ہوئے تھے اس لیے اس نے ابھی تک بیگم صاحبہ سے ایان کو ساتھ لانے کی بات نہیں کی تھی ۔اس کے خیال میں انہیں پتا ہے وہ ایک بیٹے کی ماں ہے۔اس نے سوچا تھا کہ آج جلد کام ختم کر کے بیگم صاحبہ سے چھٹی مانگ لے گی لیکن بیگم صاحبہ تو گھر میں موجود ہی نہیں تھیں ۔
اس نے بےدلی سے کام نپٹایا ۔تب ہی اس کے نظر بیگم صاحبہ کے بیٹے پر پڑی ۔جس کی کل رات کی فلائٹ تھی ۔وہ اسے تصویروں میں دیکھ چکی تھی اسلیے پہنچان گئی ۔وہ اس وقت لان میں بیٹھا اپنے دوست کے ساتھ بات کر رہا تھا. دوست کی اس کی طرف پشت تھی۔اس نے سوچا کہ ان سے چھٹی کی بات کرلے۔
وہ اپنے دھیان میں تھی جب اچانک سے دروازے کے ساتھ لگے واز سے ٹکرائی۔وہ خود تو گرنے سے بچ گئی پر واز ٹوٹ چکا تھا۔اس کے چہرے پہ خوف کا سایہ لہرایا۔
” آپ ٹھیک ہیں؟” حمزہ اٹھ کے اس کے پاس آتے ہوئے بولا۔
” میری وجہ سے آپ کا گلدان ٹوٹ گیا۔” وہ سر جھکا کر بولی۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔
” اٹس روکے۔آپ تو ٹھیک ہیں نا۔” حمزہ نے فکرمندی سے پوچھا۔
” جی لیکن بیگم صاحبہ بہت ناراض ہوں گی ۔” اسے خدشہ لاحق ہوا۔
” کچھ نہیں کہتی۔آپ اپنا کام کریں ۔” حمزہ نے کہا۔
” وہ مجھے آج جلدی گھر جانا تھا۔بہت مجبوری ہے ورنہ میں ہمیشہ اپنے وقت پہ چھٹی کرتی ہوں۔وہ دراصل میرا… وہ اپنے مخصوص انداز میں انگلیاں چٹخاتے ہوئے بول رہی تھی۔
” اٹس اوکے ۔آپ جاسکتی ہیں ۔”حمزہ اس کی بات کاٹ کر بولا۔اس کا دوست ملنے آیا ہوا تھا۔
ماہم اس کا شکریہ ادا کر کے گیٹ کی طرف مڑ گئی تھی۔
کسی کی لہو ہوتی آنکھوں نے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا۔
” تم نے میرا اتنا نقصان کر دیا تھا۔جانتی بھی ہو اس واز کی کیا قیمت تھی۔ایک لاکھ کا تھا کبھی دیکھے ہیں اتنے پیسے۔” بیگم صاحبہ جلال میں تھیں اور ماہم تھر تھر کانپ رہی تھی۔پہلی بار بیگم صاحبہ نے اس پہ غصہ کیا تھا۔
” مم میں تھوڑے تھوڑے کر کے دے دوں گی۔” وہ تھوک نگلتے ہوئے بولی۔
” میں اتنی فارغ ہوں کہ دو سے تین سال اس واز کی قیمت پورے ہونے کا انتظار کروں ۔”وہ تیز لہجے میں بولیں ۔
” میں زیادہ دیر کام کر لوں گی۔” اس نے کہا۔
” تمہیں تو میں ابھی کام سے نکال رہی ہوں اور اس کی قیمت تو تم نہیں چکا سکتی ۔پر تم نے جو حرکت کی ہے اس کا جرمانہ تمہیں دینا پڑے گا۔
“وہ فیصلہ کن لہجے میں بولیں ۔
” کتنا جرمانہ۔”وہ بمشکل بولی۔
” دس ہزار۔اور تمہارے پاس ایک مہینے کا وقت ہے۔اگر تم نے وقت پہ پیسے نہ ادا کیے تو پھر مجھے تو تم جانتی ہی ہو۔”وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولیں ۔
ماہم کا رنگ فق ہوا۔اس کے پاس جو چند پیسے تھے وہ تو ایان کی بیماری پہ لگ گئے تھے اور انگوٹھی چند پہلے اس نے گھر پہ کچن میں اتار کر رکھی تھی جو وہاں سے غائب ہوچکی تھی۔
وہ آنکھوں کو تیزی سے رگڑرتی گیٹ کی طرف بڑھی۔
” بات سنیں ۔” اسے حمزہ کی آواز سنائی دی ۔
وہ سر جھکاتے ہوئے مڑی۔بےعزتی میں جو کسر رہ گئی تھی وہ شاید حمزہ نے پوری کرنی تھی۔
” مجھے اچھا نہیں لگا کہ مام نے آپ کے ساتھ یہ سلوک کیا۔میں نے ان سے بات کی ہے لیکن وہ کچھ سننے کو تیار نہیں ہیں۔دراصل وہ واز انہیں ان کی دوست نے گفٹ کیا تھا اسلیے وہ انہیں بہت عزیر تھا۔” حمزہ کے لہجے میں معذرت تھی۔
” کوئی بات نہیں ۔” وہ زبردستی مسکرا کر بولی۔
” مجھے اندازہ ہے آپ کے لیے یہ نوکری بہت اہم ہے۔اسلیے میں نے سوچا کہ آپ کی مدد کی جائے۔میرا ایک دوست ہے اسے اپنے آفس کے لیے صفائی والی چاہیے۔”حمزہ نے کہا۔
” آفس۔”وہ سن کر پریشان ہوئی۔وہاں تو وہ ایان کو لے کر نہیں جاسکتی تھی۔پہلے ہی خالہ رشیدہ ایان کو مشکل سے چند دنوں کے لیے رکھنے پہ راضی ہوئیں تھی۔
” تیس ہزار تنخواہ دیں گے۔آپ سوچ لیں۔ “حمزہ نے اسے سوچو سے نکالا۔
” تیس ہزار۔”اس کا منہ کھل گیا۔
” آپ سوچ لیں ۔یہ کارڈ ہے اگر آپ نے جانا ہوا تو چلی جائیے گا۔” حمزہ اس کی طرف کارڈ بڑھاتے ہوئے بولا۔
سارے راستے وہ یہ ہی سوچتی آئی تھی. اگر وہ یہ جاب کر لیتی تو آسانی سے پیسے دے سکتی تھی لیکن پھر ایان کا مسئلہ تھا۔
اس نے سوچا کہ ایک بار وہ خالہ رشیدہ سے بات کر لے۔جب اس نے بات کی تو خالہ رشیدہ نے تو صاف انکار کر دیا پر رخسانہ مان گئی اسے سکول سے گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ۔رخسانہ ساتھ میں یہ شرط رکھی کہ وہ پانچ ہزار اضافی لے گی۔اور وہ مان گئی۔
آفس والے بس کا کرایہ بھی دے رہے تھے تو اس کی بچت ہوگئی پر یہ اس کی غلط فہمی تھی آج ارسلان کو دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ وہ جس شخص سے بھاگ کر آئی تھی وہ دوبارہ سے اس کے سامنے تھا۔اگر ارسلان نے اسے ابھی کے ابھی طلاق دے دی تو وہ کیا کرے گی۔
” آپ یہاں پہ بیٹھی ہیں ۔میں آپ کو ہر جگہ ڈھونڈ رہا ہوں ۔” راحیل کی آواز پہ اس نے بھیگا چہرہ دونوں ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے سر اٹھایا۔
” جی بولیں ۔” اس نے کہا۔
” سر کو چائے پینی ہے فوراً سے بنا کر لائیں ۔اور آئندہ وہاں ہی موجود رہیے گا۔کبھی بھی کوئی بھی کام پڑ سکتا ہے۔”راحیل سنجیدہ لہجے میں بولا۔
دکھ سے بھرے چہرے کے ساتھ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
وہ میز پہ کہنیاں ٹکائے سر تھامے بیٹھا تھا۔دل اتنا تیز تیز دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔آج دو سال بعد وہ اس کے روبرو تھی۔جس عورت کو اس نے پاگلوں کی طرح ہر جگہ ڈھونڈا تھا وہ اس کے دوست کے گھر موجود تھی۔
حمزہ اپنا کورس کمپلیٹ کر کے واپس آیا تو وہ اس سے ملنے چلا گیا ۔تب اسے معلوم نہیں تھا کہ آج اس کی تلاش ختم ہوجائے گی۔
وہ لان میں بیٹھا تھا جب حمزہ اس سے معذرت کرتا اٹھا۔وہ بھی واز ٹوٹنے کی آواز سن چکا تھا پر اس نے رخ نہیں پھیرا ۔رخ تو اس نے تب پھیرا جب سماعتوں میں ہر وقت موجود رہتی آواز سنائی تھی۔ وہ ششدر سا کچھ دور سر جھکائے کھڑی ماہم کو دیکھ رہا تھا۔اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آرہا تھا کیا وہ واقعی ہی ماہم تھی۔
وہ آج بھی ویسی کی ویسی ہی تھی ۔اور آج بھی وہ ویسے ہی انگلیاں چٹخاتی تھی۔اس کا دل کیا اسے جھنجھوڑ کر پوچھے آخر اسے کس چیز کی سزا دی ہے. وہ پچھلے دو سال سے دکھ کی بھٹی میں جل رہا تھا۔
پر یہ وقت جوش کا نہیں ہوش کا تھا۔اسے اب ماہم کو نہیں کھونا تھا۔وہ رخ پھیر کر اس کی بات سننے لگا۔
اس کے جانے کے بعد وہ حمزہ سے شکوہ کر بیٹھا کہ اس نے اپنے گھر میں ماہم کی موجودگی کی خبر اسے نہیں دی۔
” تم نے مجھے اپنے نکاح کی کوئی تصویر نہیں بھیجی تھی۔ اس لیے مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ ماہم بھابھی ہیں ۔” حمزہ حیران ہوتے ہوئے بولا۔
” صحیح کہہ رہے ۔مجھے یقین نہیں آرہا کہ وہ واپس مل گئی ہے۔میرا انتظار ختم ہوا۔” اس کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی۔
” پھر تم نے انہیں روکا کیوں نہیں۔”حمزہ نے پوچھا۔
” مجھے اس سے ایسے نہیں ملنا۔”وہ نفی میں سر ہلا کر بولا۔
” پھر۔”
ارسلان نے جوانا اسے اپنا پلان بتایا جو ابھی ابھی اس نے بنایا تھا۔
” میرا نہیں خیال کہ یہ ٹھیک ہے۔اگر وہ پھر تمہیں چھوڑ کر چلی گئی تو؟” حمزہ نفی سر ہلا کر بولا۔
” ارسلان سراج اتنا پاگل نہیں ہے ۔اس دفعہ میں مکمل تیاری کر کے اس کے سامنے آؤں گا اور اگر وہ بھاگنا بھی چاہے گی تو بھاگ نہیں پائے گی۔” ارسلان کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ ٹھہری تھی۔
” لیکن پہلے بھی تم نے ان پر سختی کی تھی۔اور اس کا نتیجہ تم نے دیکھ لیا۔اب پھر ایسے کرو گے۔”حمزہ فکرمند ہوا۔
” پہلے جیسا کچھ نہیں ہوگا۔اور میں یہ سب کر کے اسے صرف یہ احساس دلانا چاہتا ہوں کہ اس کے ساتھ اس پوری میں ایک میں ہی مخلص ہوں۔” وہ اعتماد سے بولا۔
حمزہ نے اس کے فیصلے سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس کی مدد کا وعدہ کیا۔پھر باقی جو ہوا وہ ارسلان کا منصوبہ تھا۔
وہ لزرتی ٹانگوں کے ساتھ آفس میں داخل ہوئی تھی ۔اسے لگ رہا تھا ابھی وہ اندر جائے گی تو وہاں سے نکلے ہوئے وہ ماہم ارسلان نہیں رہے گی۔
اس نے موبائل پہ مصروف ارسلان کے سامنے کپکتاتے ہاتھوں سے چائے کا کپ رکھا ۔چائے نے میز کی سطح کو داغدار کردیا۔
ماہم کا رنگ اڑ چکا تھا۔
” آپ کو نظر نہیں آتا۔” اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
” غلطی سے ہوگیا۔” وہ سر جھکا کر بولی۔
“آئندہ غلطی سے بھی ایسی غلطی نہیں کیجیے گا مس.. وہ بولتے بولتے رکا۔اس نے ایسے ظاہر کیا جیسے اس کا اس نام معلوم نہیں ہے۔
” ماہم۔”نیلی آنکھوں میں حیرت نمایاں تھی۔کیا ارسلان کو اس کا نام بھی بھول چکا تھا۔
” جی تو ماہم میں بہت صفائی پسند ہوں۔اپنے ارد گرد گند دیکھ کر مجھے سخت کوفت ہوتی ہے۔سو پلیز آئندہ احتیاط کیجیے گا۔” وہ اس کی آنکھوں میں خود کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے رخ پھیر کر بولا۔
” جی سر۔” اس نے اثبات میں سر ہلایا۔وہ سخت الجھی ہوئی تھی ۔ارسلان کا رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
” یہ ٹیبل آپ صاف کریں گی یا میں کروں۔”وہ دوبارہ سے اس کے شفاف چہرے کی طرف دیکھ کر بولا۔کتنا مشکل تھا یہ چہرہ سامنے ہوتے ہوئے بھی اجنبت کا برتاؤ کرنا ۔
” مم میں کرتی ہوں ۔” وہ شرمندگی سے بولی۔
کپڑا لا کے وہ میز پہ پھیرنے لگی۔ارسلان سانس روکے اسے اپنے قریب محسوس کر رہا تھا۔وہ ایک ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتا تھا۔پر اسے ابھی ضبط کرنا تھا۔
دوسری طرف ماہم کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی ۔ارسلان کے پرفیوم کی مہک اس کے حواسوں پہ سوار ہورہی تھی۔
ٹیبل صاف کرتے ہی وہ فوراً سے پیچھے ہوئی اور ایک دم باہر نکل گئی۔
ارسلان نے گہری سانس لیتے ہوئے سر تھاما۔یہ سب اس کے لیے کتنا مشکل تھا
وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا لاؤنج میں داخل ہوا۔عنایہ سامنے ہی بیٹھی ٹی وی ویکھ رہی تھی۔عبایہ نا صرف بڑی ہوچکی تھی بلکہ سمجھدار بھی ہوچکی تھی۔
” کیسی ہے میری پرنسس۔” وہ عنایہ کے سر پہ پیار کرتے ہوئے بولا۔
” فائن ۔آپ کیسے ہیں ۔” وہ مسکرا کر بولی۔
” میں آج بہت خوش ہوں۔” وہ عرصے بعد دل سے مسکرایا تھا۔
” مما مل گئی ہیں ۔” عنایہ پرجوش ہوئی ۔
ارسلان نے اثبات میں سر ہلایا۔اس نے ابھی تک گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔
” وہ کہاں ہیں؟ مجھے ان کے پاس جانا ہے۔آپ انہیں ساتھ کیوں نہیں لے کر آئے۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک سانس میں بولتی چلی گئی۔
” دھیرج ۔”ارسلان نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
” مجھ سے صبر نہیں ہورہا۔مجھے ان سے ملنا ہے۔” عنایہ نے کہا۔
” فلحال یہ ممکن نہیں ہے۔تم بس تھوڑے دن انتظار کرو۔پھر وہ ہمارے ساتھ ہوگی۔”اس نے کہا۔
عنایہ نے منہ بنایا۔
“وہ اس طرح واپس نہیں آئے گی۔اسے خاص پلاننگ کے تحت واپس لانا پڑے گا۔اس سب میں تم نے میری مدد کرنی ہے۔”وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
عنایہ نے اثبات میں سر ہلایا۔تب ہی بیگم سراج لاؤنج میں داخل ہوئیں ۔
” مما مل گئی۔”عنایہ نے خوشخبری سنائی۔
” کہاں ہے وہ۔” بیگم سراج بھی خوش ہوئیں ۔
” میرے قریب ہے بھی اور نہیں بھی۔بس آپ دعا کریں میں اسے جلد سے جلد لے آؤں ۔” وہ مسکرا کر بولا۔اور مختصراً انہیں ساری بات بتائی ۔
” کچھ غلط تو نہیں ہوگا نا۔” انہیں خدشات نے گھیرا۔
” آپ لوگ فکرمند نہ ہوں۔بس میرا ساتھ دیں ۔” اس نے ان دونوں کو تسلی دی۔
” کیا تم مجھے اب معاف کر دو گے۔”وہ جھجھک کر بولیں ۔
” میں نے آپ کو دل سے معاف کیا لیکن ماہم آپ کو معاف کرتی ہے یا نہیں یہ اس پر منحصر ہے۔”وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
“وہ بہت اچھی اور صاف دل کی ہے۔مجھے یقین ہے وہ مجھے فوراً معاف کرے گی۔” وہ مسکرا کر بولیں ۔
” پر اس اچھی دل کی مالک لڑکی کو ذرا بھی میری پروا نہیں ہے۔”وہ بڑبڑایا۔
وہ گھر میں ابھی داخل ہی ہوئی تھی کہ ایان اس کے قدموں سے آ کر لپٹا۔
اس نے مسکراتے ہوئے اسے اٹھایا اور پیار کیا۔ایان اس کے گلے میں بانہیں ڈال چکا تھا. اور اب اماں، اماں پکار رہا تھا۔
” شکر ہے تم واپس آگئی۔اس نے مجھے بہت تنگ کیاہے۔توبہ اتنا شرارتی ہے ۔تم کیسے سنبھالتی ہو۔” رخسانہ منہ بنا کر بولی۔اگر اسے انگھوٹی کا راز کھلنے کا ڈر نہ ہوتا تو وہ کبھی اذان کو نہ سنبھالتی۔اس کی یہ ہی کوشش تھی کہ انگھوٹی جلد سے جلد بک جائے پر رسید نہ ہونے والی کی وجہ سے انگھوٹی اصل قیمت سے کم بک رہی تھی۔ماہم کا باقی کا زیور تو خالہ رشیدہ کی الماری میں پڑا تھا۔
” آپ نے اس کے کپڑے تبدیل نہیں کیے۔” وہ اس کے میلے ہوتے کپڑے دیکھ کر بولی۔
” یہ کسی کے ہاتھ آتا ہے۔” رخسانہ نے کہا۔
ماہم خاموشی سے اسے لیے سٹور روم کی طرف بڑھ گئی۔پھر اس نے ایان کو نہلایا۔اور نوڈلز بنا کر کھلائے۔آفس سے عصر کے بعد چھٹی ہوتی تھی۔اسلیے دن کی روٹی سے تو جان چھوٹ گئی تھی پر اب کھانا بنانا تھا۔
ایان نوڈلز کھا کر سو گیا تو وہ بھی کچن کی طرف بڑھ گئی۔
ایان باقی بچوں کی نسبت تیز تھا ۔وہ گیارہ مہینے کی عمر میں چلنا شروع ہوگیا تھا۔اور اب تو بہت سے الفاظ بھی صاف تلفظ کے ساتھ بولتا تھا۔ماہم کے خیال میں بالکل اپنے باپ کی طرح ہے۔وہ تو شکر کرتی کہ اس کا بیٹا اس پہ نہیں گیا ہے ورنہ اس کی زندگی بھی ایسی ہی مشکل ہوتی۔
ایان کو سوچتے سوچتے اس کا دھیان ارسلان کی طرف چلا گیا۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ارسلان اس کی شکل کیا نام تک بھول چکا ہے۔
شاید وہ اتنی ہی غیر اہم تھی کہ لوگ اس کو بھول جاتے تھے۔یا شاید ارسلان زری کی محبت میں اتنا گم تھا کہ اسے یاد بھی نہیں تھا اس کی ایک ماہم نامی بیوی بھی تھی۔جس نے اس نے بہت سے وعدہ کر رکھے تھے۔
پتا نہیں لوگ کیسے اپنوں سے منسلک لوگوں کو بھول جاتے ہیں ۔وہ تو آج تک کسی کو نہیں بھولی تھی۔اور ارسلان کو تو کبھی نہیں بھول سکتی ۔ارسلان وہ پہلا شخص تھا جس نے اس کے دل میں محبت کے پھول اگائے تھے اور ایک نئے جہان سے متعارف کروایا تھا وہ جہان جہاں محبت کے پھول تھے، جہاں عزت کے رنگ تھے اور جہاں اعتبار کی خوشبو تھی۔وہ کبھی بھی ارسلان سے نفرت نہیں کرسکتی۔
اس سب میں اس کے لیے خوش آئندہ بات یہ تھی کہ ارسلان اسے بھول چکا تھا۔مطلب اب وہ اسے طلاق نہیں دے گا۔اسے بس ایک مہینے تک یہ سب برداشت کرنا ہے۔پھر اس نے ویسے بھی یہ نوکری چھوڑ دینی تھی۔یہ سوچ اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی تھی۔پر کیا ہر سوچ حقیقت کا روپ دھارتی ہے۔
وہ اپنے آفس میں بیٹھا کمپیوٹر کی سکرین کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ماہم اس کے کہنے پہ آفس میں موجود کچن میں تھی۔یہ حکم اس نے اس لیے دیا کہ ماہم کو بلانے کے لیے اسے انتظار نہ کرنا پڑے۔کچن میں اس نے کیمرہ لگا رکھا تھا۔ وہ ہر دم اسے اپنی نظروں کے سامنے دیکھنا چاہتا تھا۔
اس کا پیچھا کر کے وہ اس گھر کا پتہ معلوم کرچکا تھا جہاں وہ رہ رہی تھی۔
ماہم بیزاری سے منہ بناتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔آفس کی صفائی وہ کرچکی تھی اور اب وہ فارغ تھی۔وہ سوچ رہی تھی کہ کاش وہ ایان کو بھی ساتھ لا سکتی۔یہاں آ کر وہ کتنا خوش ہوتا۔ایان کا سوچ کر اس کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیلی لیکن اگلے ہی لمحے وہ مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی اگر ارسلان نے کبھی ایان کو کہیں بھی کسی کے بھی ساتھ دیکھ لیا تو وہ فوراً جان لے گا کہ وہ اس کا بیٹا ہے کیونکہ ایان بالکل ارسلان پہ گیا تھا صرف آنکھوں کا رنگ ماہم والا تھا۔
ارسلان نے بغور اس کا مسکرانا اور پھر سنجیدہ ہونا محسوس کیا۔ پھر اس نے فون اٹھایا ۔
ماہم جو اپنی سوچو میں گم تھی گھنٹی کی آواز پہ ایک دم سے ڈری۔یہ دیکھ کر ارسلان نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی۔
” جج جی۔” وہ بولی تو چہرے اور آواز دونوں پہ گھبرائٹ تھی۔ آج ابھی تک اس کا ارسلان سے سامنا نہیں ہوا تھا۔
” میرے لیے کافی بنا کر لائیں ۔” اس نے سنجیدہ لہجے میں حکم دیا۔
ماہم نے اڑی رنگت کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔
وہ کافی بنا کر لائی تو اس وقت خود کو کنٹرول میں رکھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ بدحواسی میں وہ پھر س کوئی غلطی کرے۔
” میرے سر میں بہت درد ہے۔کافی سے تو ٹھیک ہونے والا نہیں ۔”وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بغور اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
” گولی لے لیں ۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولی۔بھلا یہ کیا بات ہوئی ۔اس نے اتنی محنت سے کافی بنائی تھی اور آگے سے یہ ایسی باتیں کر رہے ہیں ۔
” میں گولی نہیں لیتا کیونکہ پھر عادت پڑ جاتی ہے اور عادت نشہ بن جاتی ہے۔اور نشہ پھر انسان ہر حال میں پورا کرنا چاہتا ہے۔”وہ متانت سے بولا۔
ماہم نے الجھ کر اسے دیکھا۔بات اس کے سر کے اوپر سے گزر گئی ہے۔
ارسلان نے نفی میں سر ہلایا۔یہ لڑکی ابھی تک ویسی کی ویسی ہی تھی۔
” اگر کوئی میرا سر دبا دے تو سر درد فوراً ٹھیک ہوجاتا ہے۔”وہ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔
ماہم کا دل تیز تیز دھڑکا۔وہ اکثر ارسلان کا سر دباتی تھی ۔کیا وہ اسے پہچان گیا ہے۔
” جی۔” وہ بدقت بولی۔
” چلیں پھر میرا سر دبائیں ۔” وہ آنکھیں موندے بولا۔
” کیا؟ “حیرت سے اس کی آنکھیں پھیلیں ۔
” میرا خیال ہے میں نے اردو میں ہی کہا ہے۔” وہ آنکھیں کھول کر بولا۔
” میں آپ کا سر کیسے دبا سکتی ہوں ۔” وہ گھبرا کر بولی۔یہ ارسلان کو کیا ہوگیا تھا۔
” ہاتھوں سے۔”خاصا اطمینان سے جواب دیا گیا تھا۔
” میرا مطلب ہے میں یہ نہیں کرسکتی۔” اس نے وضاحت دی۔
” کیوں نہیں کرسکتی۔پہلے بھی جس نے یہاں نوکری کی اس نے یہ کام بھی کیا ہے۔”وہ دائیں ابرو اٹھا کر بولا۔
” کیا پہلے بھی یہاں لڑکیوں نے کام کیا ہے۔” ماہم کی آواز میں حیرت نہیں تھا۔بلکہ شک تھا جیلسی تھی۔
ارسلان نے بمشکل لبوں پہ آتی مسکراہٹ کو کنٹرول کیا۔آج ماہم کے لہجے میں بالکل بیویوں والی جیلسی تھی۔
” یہ آپکا کنسرن نہیں ہے۔سر دبانے کے آپ کو علیحدہ سے پانچ ہزار ملا کریں گے۔”وہ سنجیدہ لہجے میں آفر کر رہا تھا۔
ماہم نے دو منٹ کے لیے سوچا۔سودا برا نہیں تھا. ویسے بھی وہ اس کا شوہر تھا تو جھجھک کیسی۔
اس نے آگے بڑھ کر جیسے ہی ارسلان کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا۔ارسلان کو ایسے لگا جیسے اس پہ ٹھنڈی پھوار برسی ہو۔جس نے اس کے اندر تک کو سیراب کردیا ہو۔کتنا مس کرتا تھا وہ ان لمحات کو۔
ماہم کے ماتھے پہ پیسنے کے قطرے نمودار ہوئے. آنکھوں بند کر کے بیٹھے ارسلان کو دیکھ کر اس کا دل کر رہا تھا کاش وہ ظالم وقت ان کے درمیان نہ آیا ہوتا۔
تب ہی ارسلان نے آنکھیں کھولیں۔نیلی آنکھوں سے اس کی براؤن آنکھوں کا تصادم ہوا تھا۔ماحول میں ایک فسوں پھیلا تھا۔ارسلان کا دل ہمیشہ کی طرح اس نیلے سمندر میں ڈوبنے کو مچلا۔
ماہم نے اس لمحے کے امر ہونے کی دعا کی تھی۔
تب ہی آفس کا دروازہ ناک ہوا۔وہ گھبرا کر پیچھے ہوئی اور بنا ادھر اُدھر دیکھے کچن کی طرف بھاگ گئی۔
ارسلان ایک گہری سانس لیتا دروازے کی طرف متوجہ ہوا۔
“کیسی ہو۔” بیگم سراج نے پوچھا۔
” زندہ ہوں اور شاید خوش بھی۔” زری کی آواز گونجی تھی ۔
” ابھی تک احسن ناراض ہے۔” وہ فکر مندی سے بولیں ۔
” ہاں۔”
” یہ کیا بات ہوئی جو ماں کہے بنا تصدیق کیے بیوی پہ دوڑ جاؤ۔بندہ پہلے معلوم تو کرتا ہے کہ غلطی کس کی ہے۔”ان کے لہجے میں ناگواری تھی۔
” میں نے اس سب میں احسن کو قصور وار ٹھہرانا چھوڑ دیا۔مجھے پتا ہے میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے۔میں نے ارسلان کے ساتھ برا کیا۔اس کی سزا آج تک کاٹ رہی ہوں ۔اور اس وقت تک کاٹتی رہوں گی جب تک وہ مجھے معاف نہیں کردیتا۔”زری کی آواز دکھ سے بوجھل تھی ۔
” تو پھر تمہاری سزا ختم ہونے والی ہے۔”بیگم سراج نے خوشخبری سنائی تھی۔
” کیا ارسلان مجھے معاف کرنے کو تیار ہے۔”اس کی آواز خوشی سے کھنکی۔
” ماہم واپس آچکی ہے اور ارسلان نے مجھے بھی معاف کردیا ہے۔اب تمہاری باری یے۔”وہ مسکرا کر بولیں ۔
” کہاں ہے میری بھی بات کرائیں ۔ ارسلان اور عنایہ کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہوگا۔”وہ ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔خبر ہی ایسی تھی ۔ارسلان اور اس میں سے کسی کو تو منزل ملی۔
” ابھی ہماری اس سے بات نہیں ہوئی۔ارسلان کہہ رہا تھا وہ خود کچھ دنوں تک اسے یہاں لے کر آئے گا۔”انہوں نے جوابا کہا۔
زری سے تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد انہوں نے فون بند کردیا ۔زری کو ابھی بھی مکمل خوشیاں نہیں ملی تھیں ۔اس کی ایک بیٹی تھی اور احسن کا تو وہ حساب تھا پل میں تولہ پل میں ماشہ۔جب ماں نے بھڑکایا بیوی کو جا کر ستایا۔ ہاں زری اب خاموش رہنا سیکھ چکی تھی۔
زری کی ساس جو پہلے ہی زری کو ناپسند کرتی تھیں بیٹی پیدا ہونے کے بعد مزید زری کے خلاف ہوگئی ۔وہ احسن کو بیوی سے بدگمان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں ۔سراج بیگم سوچتی تھیں کہ اتنی پڑھی لکھی ہونے کے باوجود بھی زری کی ساس ایسی سوچ کی مالک ہیں ۔
” سچ ہے باشعور ہونے کا تعلق تعلیم سے نہیں سوچ سے ہوتا ہے۔سوچ کی بنا کر ہی ایک پڑھا لکھا جاہل بن جاتا ہے اور جاہل باشعور۔”
دوسری طرف انہوں نے دوسال بعد ارسلان کے چہرے پہ خوشی دیکھی تھی۔ماہم کے جانے کے بعد ارسلان بہت بدل گیا تھا۔ہنسنا مسکرانا تو دور کی بات وہ بلاضرورت بولتا بھی نہیں تھا۔زری کے جانے کے بعد ارسلان کی خراب حالت وقتی تھی اور اب تو ایسے لگتا تھا دائمی ہے۔اس وقت اسے عنایہ نے اس حالت سے نکالا تھا اور اب ماہم خود ہی اسے اس حال سے نکال سکتی تھی۔
انہوں نے دو سال ماہم کے واپس آنے کی دعا کی تھی۔ماہم کے ساتھ اس گھر کے ہر فرد کی خوشی جڑی تھی۔ان دو سالوں میں ارسلان اور ان کے درمیان ماں بیٹے والا رشتہ پہلے جیسا نہ رہا تھا۔اور اب ماہم کے آنے کے بعد سب کچھ پہلے جیسا تھا۔انہیں اس وقت کا شدت سے انتظار تھا جب ماہم اس گھر کی دہلیز پر قدم رکھتی اور وہ اس سے معاف مانگتی ۔
” یہ آپ نے صفائی کی ہے؟” وہ میز کی سطح پہ انگی پھیرتے ہوئے بولا۔
ماہم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
” یہ دیکھیں اس پہ گرد لگی ہے۔” اس نے انگلی اس کی آنکھوں کے سامنے کر کے اسے نادیدہ گرد دکھانی چاہی۔
” پر سب کچھ تو صاف ہے۔کہیں بھی گرد نہیں۔” اس کے منہ سے نکلا۔
” میں جھوٹ بول رہا ہوں۔” کافی خطرناک لہجے کہا گیا۔
ماہم نے گھبرا کر نفی میں گردن ہلائی۔ارسلان تو اب شادی سے پہلے والا ارسلان بن گیا تھا۔سختی کرنے والا اور اس کے کاموں میں کیڑے نکالنے والا۔
پر وہ پہلے جیسی نہیں تھی ۔اب وہ کم ہی دوسروں کے سامنے بیوقوفانہ باتی کرتی ۔اسے زبان پہ کسی حد تک کنٹرول کرنا آگیا تھا ۔پر پھر بھی زبان کبھی کبھی ارسلان کے آگے پھسل جاتی۔
” تو دوبارہ سے صفائی کریں ۔اور اس بار میں خود آپ کی نگرانی کروں گا ۔” اس نے لہجے کو سخت بنایا۔
ماہم نے زرد ہوتے چہرے کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔
وہ صفائی کر رہی تھی اور ارسلان اس کے ساتھ ساتھ چلتا اسے ہدایات دے رہا تھا۔ارسلان کی خوشبو اسے مسحور کر رہی تھی۔
” لگتا ہے آپ کو صفائی کرنا نہیں آتی۔”وہ میز صاف کر رہی تھی جب سامنے کرسی پہ بیٹھے ارسلان نے کہا۔
” نہیں میں بہت اچھے سے صفائی کرتی ہوں ۔” اس نے فوراً سے اپنا دفاع کیا۔
” وہ تو جانتا ہوں ۔” وہ بڑبڑایا ۔
اور ماہم کو ککھ سمجھ نہ آیا۔
” مجھے تو بالکل بھی یقین نہیں۔ سچ میں سفارشی لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں ۔” وہ سنجیدگی سے بولا۔
سفارشی لفظ سن کر ماہم کا منہ بنا ۔
” میں نے حمزہ صاحب سے نہیں کہا تھا کہ میری سفارش کریں ۔انہوں نے خود ہی مجھے یہاں بھیجا تھا۔” وہ خفا ہوئی۔
” چلیں جیسے بھی آپ یہاں آئی ہیں برائے مہربانی اپنے کام پہ دھیان دیں ۔”
” ہاں تو کام پہ ہی دھیان دے رہی ہوں کونسا آپ پہ دے رہی ہوں ۔” پیپر ویٹ اٹھاتے ہوئے وہ بڑبڑائی تھی۔
” دے دیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔” اس کی بات سن کر وہ مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا۔
ماہم کا رنگ بدلا ۔کیا وہ اس کی بات سن چکا تھا۔
” مطلب کام پہ دھیان دیں گی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔”اس نے بات بدلی۔
ماہم سکون کا سانس لیتے ہوئے کام نبٹانے لگی۔دل ہی دل میں وہ ارسلان کو ظالم ہونے کا خطاب دے چکی تھی۔
دوسری طرف ارسلان تھوڑی تلے ہاتھ رکھے اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
نظروں کا اتکاز محسوس کر کے اس نے ارسلان کی طرف دیکھا لیکن ارسلان چالاکی سے دوسری طرف دیکھنا شروع ہوگیا اور وہ الجھ کر رہ گئی۔
کام مکمل کر کے وہ کچن کی طرف بڑھی۔ایک دم سے ارسلان نے پاؤں اس کے راستے میں رکھا ۔اس سے پہلے وہ گرتی وہ اسے تھام چکا تھا۔
ماہم کا چہرہ مارے شرم کے سرخ ہورہا تھا۔اور ارسلان کا دل دھڑکنا بھول چکا تھا ۔
تب ہی آفس کا دروازہ کھلا ۔ارسلان نے گھبرا کر اسے کھڑا کیا۔
ماہم نے جیسے ہی سامنے دیکھا اسے زمین و آسمان گھومتے نظر آئے۔سامنے عنایہ کھڑی تھی۔
ماہم نے اثبات میں سر ہلایا اور چادر کر کے باہر نکل آئی۔ساری رات وہ سو نہیں سکی تھی۔ اسے ایان کے بغیر کہاں سونے کی عادت تھی اور اسے پتا تھا ایان بھی رو رو کر ہلکان ہورہا ہوگا ۔پتا نہیں کیوں ارسلان اس کے معاملے میں اتنے پھتر دل ہوگئے تھے. وہ اس سے اتنے بیزار ہو کے تھے بیٹا لے کر دوسرے شہر چلے گئے۔
وہ آفس گئی اور تنخواہ لے کر باہر نکل گئی۔
” کیا کہہ رہی تھی۔” ارسلان نے راحیل کو آفس میں بلا کر پوچھا۔
” انہوں نے اپنی تنخواہ لی اور کہا کہ انہوں نے مہینہ پہلے بتا دیا تھا کہ وہ ایک مہینہ یہ نوکری کریں گی۔پھر وہ چلی گئیں ۔” راحیل کہا۔
“اور میرا پوچھا۔” وہ اپنی حیرت پہ قابو پاتے ہوئے بولا۔
راحیل نے نفی میں گردن ہلائی۔
ارسلان نے چکراتے سر کے ساتھ اسے جانے کا اشارہ کیا.
راحیل نے جاتے جاتے ایک نظر اپنے باس پہ ڈالی۔جنہیں ان کی بیوی نے اچھا خاصا خوار کیا تھا۔وہ پہلے دن سے ہی سب باتوں سے آگاہ تھا۔
اس نے راحیل کے جانے کے بعد کہنیاں میز پہ ٹکاتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے سر تھاما۔وہ ایک بار پھر ماہم کو سمجھنے میں غلطی کر چکا تھا۔وہ اس کی سوچ سے آگے کی چیز تھی۔ساری رات وہ ماہم کی پریشانی کا سوچ کر سو نہیں سکا تھا اوپر سے ایان بھی کبھی روتا تو کبھی کھیلنا شروع کردیا تھا اور یہاں ایان کی ماں کو سرے سے فکر ہی نہیں تھی۔تنخواہ لی اور چلتی بنی۔پر اسے اپنی اور اپنے خاندان والوں کی فکر تھی اور سب کو فکر سے نکالنے کے لیے ماہم کا اعلاج کرنا ضروری تھا۔
وہ اشتعال سے مٹھیاں بھینچتا آفس سے باہر نکلا تھا۔