وہ کالج سے آنے کے بعد گھوڑے گدھے بیچ کر سو چکی تھی۔ اس کا پیپر بہت اچھا ہو گیا تھا اس لئے وہ پر سکون نیند سو رہی تھی۔ فاتح شام کو آفس سے گھر آیا تو پورا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے لاؤنج کی لائٹ آن کی تو لاؤنج خالی پڑا تھا۔ اسے اچنبا ہوا کیوں کہ اس کے مطابق اس وقت دعا کو پڑھائی میں مصروف ہونا چاہیے تھا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا ہے تو وہاں بھی اندھیرے نے اس کا استقبال کیا۔ اس نے آگے بڑھ کر لائٹ جلای تو کمرہ روشنی میں نہا گیا۔ اس کی نظر بیڈ پر گئی تو وہاں وہ محترمہ ایک ہاتھ سینے پر رکھے اور دوسرا بازو بیڈ سے نیچے لٹکائے خواب خرگوش کے مزے لینے میں گم تھیں۔ اسے یوں حق سے اپنے بستر پر لیٹا دیکھ کر ہر دفعہ کی طرح اب بھی فاتح کے ہونٹوں پر ایک جان دار مسکراہٹ چھا گئی۔ دل میں ٹھنڈک اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
فاتح نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور کوٹ اتار کر صوفے پر اچھالتا بیڈ کی طرف قدم بڑھا گیا۔ وہ اس کے قریب ہی کہنی کے بل دراز ہو گیا۔
وه اس وقت ہلکے گلابی رنگ کی سادہ مگر نفیس سی شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ گلابی دوپٹہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔ کالے بال جوڑے میں مقید تھے جن سے کچھ آوارہ لٹیں نکل کر اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ ہری آنکھیں جن سے فاتح ابراھیم کو عشق تھا، اس وقت بند تھیں۔ تیکھی ناک کے نیچے بھرے بھرے گلابی لبوں پر نظر پڑتے فاتح کا دل بے ایمان ہونے لگا ۔فاتح کی نظر اس کی گردن پر پوری شان سے چمکتے تل پر پڑی تو وہ بے ساختہ اپنا ہاتھ بڑھا کر اس تل کی چھو گیا۔ نظریں پھسلتی ہوئی اس کے خوبصورت جسم میں الجھنے لگیں تو فاتح نظریں چرا گیا۔
وہ پیچھے ہوتا بیڈ پر دراز ہو گیا اور ہاتھ بڑھا کر دعا کو اپنی طرف کھینچ گیا۔ وہ نیند میں کسمسائی اور خود ہی اس کے مزید قریب ہو کر اس کے سینے پر سر رکھ گئی۔ فاتح سرشاری سے اس کے چہرے کو تکنے لگا۔ وہ اس کے نقوش کو تکتا اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔ یوں ہی نا جانے کتنا وقت بیت گیا۔ ہوش تو اسے تب آیا جب وہ اسی کے حصار میں پڑی بھر پور انگڑائی لیتی نیند سے بیدار ہوئی تھی۔ فاتح کا سانس سینے میں اٹکنے لگا۔ وہ تو پہلے ہی اس کا اسیر تھا۔ اب اسے یوں اپنی قربت میں جان لیوا انگڑائی لیتا دیکھ کر اس کا کمبخت دل پھر سے اس کی قربت پانے کے لئے ہمکنے لگا تھا جسے فاتح بڑی مشکل سے صبر کرنے پر آمادہ کر پایا تھا۔
دعا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے قریب ترین موجود فاتح کو دیکھ رہی تھی۔ وہ بنا دوپٹے کے لیٹی ہوئی تھی اوپر سے اس کے اتنا قریب ہو کر وہ بے دھیانی میں جو حرکت کر گئی تھی اس پر فاتح کی خود پر گڑھی گہری نظریں دیکھ کر وہ مر جانے کو ہوئی تھی۔
فاتح اس کی مشکل سمجھتا اسے خود سے اور بھی قریب کر کے اسکی کمر کی گرد اپنا بازو مضبوطی سے لپیٹ گیا۔
” کیسی ہیں آپ؟ پیپر کیسا ہوا آپ کا؟”
وہ اس کے چہرے پر موجود لٹ کو اس کے کان کے پیچھے اڑستا نرمی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔
“ٹھ۔۔ٹھیک۔” وہ نظریں جھکاتی ہوئی اس کی قربت سے گھبراتی ہوئی بولی۔
“کیا ٹھیک؟ میں نے دو سوال کیے ہیں آپ سے اب مجھے کیا پتا کہ آپ نے کس سوال کا جواب دیا ہے۔”
وہ اس کی آنکھوں پہ جھکتا دونوں سبز نگینے چوم گا۔
“فاتح ابراھیم خاں کو عشق ہے ان سبز نگینوں سے۔ یہ ہر دفعہ نئے سرے سے فاتح ابراھیم کو تسخیر کر لیتے ہیں۔”
وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہتا پھر سے اس کی آنکھوں کو اپنے ہونٹوں کے لمس سے معتبر کر گیا۔ وہ بھی اس کے لمس سے سکون محسوس کرتی آنکھیں موندے پڑی تھی۔
“آپ نے جواب نہیں دیا اب تک میرے سوالوں کا۔”
اس کی دوبارہ پوچھنے پر وہ آنکھیں دھیرے سے کھولتی اس کی طرف دیکھنے لگی۔نظروں کے اچانک تصادم پر وہ دھڑکتے دل کے ساتھ نظریں جھکاتی اس کے مضبوط سینے پر ٹکا گئی۔
“میں ٹھیک ہوں اور پیپر بھی بہت زیادہ اچھا ہو گیا۔”
اس کے الفاظ اور قربت پر وہ سرخ پڑ گئی تھی۔
“گڈ! چلیں بہت سو لیا اٹھ کر فریش ہو جائیں آپ میں کھانا گرم کرتا ہوں کچن میں ہی آ جائیے گا آپ۔ ”
وہ اس کا ماتھا چومتا اٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ بڑھا کر اسے بھی اٹھایا۔ وہ فریش ہونے کے لئے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی تو وہ بھی دھیمی مسکراہٹ لبوں پر سجائے چینج کرنے کے لئے ڈریسنگ روم کی طرح بڑھ گیا۔
********
مستقیم آج میٹنگ کے سلسلے میں دو ہفتوں کے لئے دبئی جا رہا تھا اور حریم کل سے یہ سوچ سوچ کر بے حال ہو رہی تھی کہ وہ یہ دو ہفتے مستقیم کے بغیر کیسے گزارے گی۔ ان گزرے دو مہینوں میں وہ اسے اپنی اس قدر عادت ڈال چکا تھا کہ اس کی بغیر اتنے دن گزارنا بھی حریم کے لئے محال تھا۔
عجیب رشتہ تھا ان کا بھی۔ نہ ایک دوسرے کے بغیر رہ پاتے تھے نا ایک دوسرے کی اہمیت کا اقرار کرتے تھے۔ دونوں اپنی اس زندگی سے بہت خوش تھے۔ ایک محبت بھری پر سکون زندگی۔پر کنٹریکٹ نامی کانٹا اس طرح سے ان کے رشتے میں موجود تھا کہ وہ نہ ہی اپنا رشتہ اگے بڑھا پا رہے تھے اور نہ ہی دل میں موجود ایک دوسرے کی محبت کا اظہار کر پا رہے تھے۔
مستقیم کو حریم سے پہلی نظر کی محبت ہوئی تھی۔ وہ اسے پورے دل سے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ حریم کو اسکی ماں کے انتقال کے بعد اپنے اپارٹمنٹ لانے کے بعد جب اس نے حریم کے آگے شادی کی بات رکھی تب اسکا کنٹریکٹ میرج کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اس کے خواب و خیال میں بھی پہلے یہ بات نہ تھی۔ وہ اسے اپنی ہمسفر بنانا چاہتا تھا پر اس طرح سے نہیں جس طرح سے بات ہو گئی۔ وه حریم سے نکاح کی بات کر رہا تھا پر اس کے شاک تاثرات دیکھ کر اس کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچے گی کے وہ موقعے کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ایک مجبور اور بےسہارا لڑکی کی بے بسی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی خیال کے باعث وہ حریم کی آگے کنٹریکٹ میرج کی شرط رکھ گیا کہ اس طرح بات بھی رہ جاۓ گی کیوں کہ دی جان کافی دیر سے اس کی شادی کے پیچھے پڑی تھیں۔
وہ اس کی محبت تھی اور اب محرم بھی۔ پر وہ مکمل اختیار رکھتے ہوئے بھی اسکی قربت سے کوسوں دور تھا جسے کنویں کے پاس کھڑا پیاسا!
اس کے لئے حریم کی قربت پانا مشکل نہ تھا پر اس کی غیرت گوارا نہ کرتی تھی کہ یوں حریم کی نظر میں بنے ایک معاہدے کے رشتے میں اسکی قربت حاصل کر کے حریم کو یہ احساس دلاتا کہ وہ اس سے صرف اپنی ضرورت پوری کر رہا تھا یا وعدہ خلاف تھا۔
اس نے سوچ لیا تھا کہ دبئی سے آتے ہی وہ حریم کو ساری سچائی سے آگاہ کر دے گا اور اپنی محبت کا اظہار کر کے اسے ہمیشہ کے لئے خود کی قریب کر لے گا کیوں کہ وہ جان چکا تھا کہ حریم بھی اس سے محبت کرنے لگی ہے۔ اس کی آنکھوں میں موجود چاہت کے رنگوں سے مستقیم لا علم نہ تھا۔
وہ کمرے میں آیا تو حریم اس کی پیکنگ کر رہی تھی۔مستقیم کی طرف اس کو پشت تھی پر پھر بھی مستقیم جانتا تھا کہ اس کی آنکھیں نم ہیں۔
مستقیم حریم کے این پیچھے جا کھڑا ہوا اور اس کی کمر کی گرد اپنے دونوں بازو باندھے اپنی ٹھوڑی اس کے کندھے پر ٹکا گیا۔
“يي۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ مستقیم؟ پیچھے ہٹیں مجھے سکون سے پیکنگ کرنے دیں۔”
وہ اس کے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی پر وہ اپنی گرفت اور بھی مضبوط کر گیا۔
“بیوی یار ہر وقت چھوڑنے کا ہی کیوں بولتی رہتی ہیں آپ ۔ مستقیم چھوڑیں۔۔۔۔مستقیم پیچھے ہٹیں! یہ دونوں تو آپ کے پسندیده ڈائلاگز بن چکے ہیں۔ کبھی یہ بھی بول دیا کریں کہ مستقیم ذرا پاس آئیں یا پھر یہ کہ مستقیم مت چھوڑیے گا۔ همم!۔”
اس کے یوں بے باکی سے بولنے پر وہ سرخ پڑ گئی۔
“شرم کر لیں مستقیم!”
اس کہ یوں شرم سے سرخ پڑنے اور دھیمی آواز میں بولنے پر مستقیم قہقہہ لگا اٹھا۔
“ارے میں تو بھول ہی گیا تھا کہ آپ کا ایک پسندیده ڈائلاگ یہ بھی ہے۔” وہ اس کےقہقہے پر شرمندہ ہوتی اس کا حصار توڑنے لگی تو وہ بھی اپنی گرفت ڈھیلی کر گیا۔
وہ اس کا رخ اپنی طرف موڑ کے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر اپنے نزدیک کر گیا۔
“مس کریں گی مجھے آپ؟” وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا اس سے سوال کرنے لگا تو وہ نظریں چرا گئی۔
“نہیں تو میں کیوں مس کروں گی آپ کو”
اس کے کہنے پر وہ ابرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا۔
“آہاں واقعی؟”
اس کے پوچھنے پر وہ مسکراہٹ دباتی اثبات میں سر ہلا گئی تو مستقیم نے داد میں سر ہلایا۔
“بیوی!” اس کی جذبوں سے بھرپور گھمبیر آواز پر اس کا دل دھڑک اٹھا۔
“جی۔”
وہ ابھی تک اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔
” مجھے آپ کو ایک بہت اہم بات بتانی ہے دبئی سے واپسی پر۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سج سنور کر میرے دل کو بہلانے کا سامان کر کے میرا انتظار کریں۔ کریں گی نا؟”
وہ جذبات سے بھر پور آواز میں کہتا آخر میں لہجہ سوالیہ بنا گیا تو وہ سرخ ہوتی بے اختیار سر ہلا گئی۔ وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتا چینج کرنے کے لئے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا کہ کچھ دیر بعد اسے ایئرپورٹ کے لئے نکلنا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ اس سے ملتا گھر سے روانہ ہو گیا تو حریم ایک اداس نظر اس کی دور جاتی گاڑی پر ڈال کر دروازہ بند کر گئی۔
°°°°°°°°°°°°
وہ چور نظروں سے بار بار فاتح کی طرف دیکھ رہی تھی جو بیڈ پر نیم دراز ہوا موبائل میں مصروف تھا۔ اس کی نظریں محسوس کرتا فاتح سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگا تو وہ ایک دم اسے اپنی طرف تكتا پا کر بوکھلا گئی اور جھٹ سے کتاب چہرے کے آگے کر گئی۔
وہ موبائل بیڈ پر ہی رکھتا اسٹڈی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا جہاں وہ بیٹھ کر صبح ہونے والے فزکس کے پیپر کی تیاری کر رہی تھی۔ فاتح نے ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھ سے کتاب لے لی تو وہ سوالیہ نظروں سے فاتح کی طرف دیکھنے لگی۔
“کوئی مسئلہ ہے کیا؟ کسی سوال کی سمجھ نہیں آ رہی تو مجھ سے بلا جھجک پوچھ سکتی ہیں آپ۔”
اس کے پوچھنے پر وہ جھٹ سے نفی میں سر ہلا گئی۔
“نن۔۔۔نہیں تو کچھ بھی نہیں سمجھنا۔ سب سمجھ تو لیا۔”
اس کے بولنے پر وہ کتاب واپس دعا کو پکڑا گیا جسے پکڑتے ہی وہ رٹا لگانا شروع ہو چکی تھی۔
فاتح ایک نظر پھر سے اس پر ڈالتا کمرے سے نکل گیا تو اس کے جاتے ہی دعا نے گہرا سانس لیا۔
“اف! شکر بچ گئی ورنہ کھڑوس نے تو پکڑ ہی لیا تھا بس۔”
وہ اپنا سانس بحال کرتی کتاب پر نظریں جما چکی تھی۔ پانچ منٹ کے بعد فاتح کمرے میں آیا تو اس کے ہاتھ میں جوس کا ایک گلاس تھا جسے وہ دعا کی طرف بڑھا گیا۔
“کتاب رکھ کر پہلے یہ جوس ختم کریں شاباش!”
اسے بولتا وہ خود ہی اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کے ہاتھ سے کتاب لے کر سامنے اسٹڈی ٹیبل پر رکھ چکا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے جوس اس کے سامنے کر رکھا تھا جسے اس نے پکڑنے کی زحمت نہ کی تھی اب تک۔
“پر ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو کھانا کھایا! ابھی بلکل بھی دل نہیں کر رہا۔”
وہ منہ بنا کر بولتی فاتح کو اتنی پیاری لگی کہ وہ اچانک جھکتا اس کی پیشانی پر اپنے پیار کے پھول کھلاتا پیچھے ہٹتے ہی جوس کا گلاس اس کے منہ سے لگا گیا اور تب تک پیچھے نہ کیا جب تک وہ سارا جوس ختم نہ کر گئی۔
“صحت دیکھیں اپنی آپ! پڑھنے کے لئے انرجی چاہیے ہوتی ہے اور انرجی کھانے پینے سے ہی ملتی ہے اور ہمیں ویسے بھی پڑھنے کے دوران کچھ میٹھا ضرور لینا چاہیے۔ اس سے دماغ تیز ہوتا ہے اور دماغ کا گلوکوز لیول بھی کم نہیں ہوتا۔ اب پڑھیں دھیان سے شاباش!”
وہ خالی گلاس کچن میں رکھ کر واپس آیا اور دوبارہ بیڈ پر بیٹھ کر موبائل میں گم ہو گیا۔
کچھ دیر ہی گزری تھی جب وہ انگلیاں مڑوڑتی ہوئی اس کے نزدیک ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔فاتح نظریں اٹھا کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
“وہ۔۔۔میں یہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ۔۔۔۔ ہمارا فزکس کا پیپر آپ نے بنایا ہے نا؟”
وہ یہ سوال پوچھتے ہوئے کافی گھبرا رہی تھی پر ہمت کر کے اگر پوچھ ہی لیا تھا تو اس کا جواب سن کر ہی یہاں سے اٹھ سکتی تھی اب ورنہ دل کر رہا تھا کہ اس کے سامنے سے غا ئب ہو جاۓ۔
اس کے سوال پر وہ اپنی بے ساختہ در آنے والی مسکراہٹ چھپا گا۔ وہ اب سمجھا تھا کہ کیوں وہ کافی دیر سے بار بار چور نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
“جی تو؟”
وہ ابرو ابکا کر اسے دیکھنے لگا۔
” وہ ایکچولی میں یہ کہہ رہی تھی کہ۔۔۔”
وہ انگلیاں مڑوڑتی ہوئی بات ادھوری چھوڑ گئی۔
“کہ؟”
اس کے پوچھنے پر وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی تھوڑا اور اس کے نزدیک ہو گئی اور بات جاری رکھنے کے لئے اپنا حلق تر کرنے لگی۔
وہ میں کہہ رہی تھی کہ آپ نے پیپر بنایا ہے تو آپ کو تو پتا ہی ہوگا نا کے کل کون کون سے سوالات آنے ہیں۔توآپ ۔۔۔آپ وہ سوالات مجھے بھی بتا دیں۔”
وہ تیزی سے کہتی اپنی آنکھیں زور سے بند کر گئی۔
وہ اسے دیکھتا مسکراہٹ دبانے لگا۔ اب آئ تھی نا بلی تھیلے سے باہر!
وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اسے اپنی جانب کھینچ گیا تو وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی دونوں کے درمیان فاصلہ قائم کر گئی ۔ وہ اسے خود سے اور نزدیک کر گیا تو دعا کے ہونٹ فاتح کے سینے سے ٹکرانے لگے۔
“اچھا تو اگر میں آپ کو بتا دوں تو بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟”
اس کے بولنے پر وہ پر جوش ہوتی اپنا سر اٹھا گئی۔ اس کے چہرے پر موجود خوشی دیدنی تھی۔
“اف! آپ سچ کہہ رہے ہیں کہ آپ بتا دیں گے؟ آپ جو کہیں گے میں بلکل ویسا ہی کروں گی!”
لہجے کی خوشی چھپاے نہیں چھپ رہی تھی۔
“آہاں مسز! آر یو شیور ؟”
اس کے پوچھنے پر وہ تیزی سے سر ہلا گئی۔ ہری آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔
“اوکے ہگ می!”
وہ جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا تو وہ ہونق بنی اس کا چہرہ تکنے لگی۔
“جج۔۔جی؟” اس کی ہونق شکل پر فاتح سے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔
“ہاں جی! کچھ لینے کے بدلے کچھ دینا تو پڑے گا نا۔ ناؤ ہری اپ!”
وہ اس سے اپنی خواہش بیان کرتا اب اس کی پیش قدمی کے انتظار میں تھا۔ دعا نے اس کے سینے پر موجود اپنے ہاتھ آہستہ آہستہ اوپر اس کے کندھے کی طرف سرکانے شروع کر ديے۔ اب وہ اس کے کندھوں پر دونوں ہاتھ جما کر سر جھکا کر اس کے سامنے ایستاده تھی۔ اس کی جھجک کو محسوس کرتے فاتح نے خود ہی اسکی کمر کو جھٹکا دیا تو وہ اس کے ساتھ لگ گئی۔ فاتح نے اس کی کمر پر موجود بازوؤں کو اور بھی مضبوطی سے اس کے گرد باندھا تو اس کے تنگ حصار کی قید میں موجود دعا کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا جیسے ابھی باہر آ جاۓ گا۔
تھوڑی دیر یوں ہی اس کے حصار میں پڑا رہنے کے بعد وہ ہلکا سا کسمسائی تو ایک دفع اسے زور سے خود میں بھینچ کر اسے اپنی گرفت سے آزاد کر گیا اور اس کے پیچھے ہونے سے پہلے جھک کر اس کی آنکھوں کو چوم گیا۔ اس کے پیچھے ہوتے ہی وہ جھجک کر تھوڑا دور ہو کر بیٹھی اور سرخ رنگت لئے ماتھے پر موجود بالوں کو پیچھے کرنے لگی۔ نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھیں اور کانچ سی ہری آنکھوں پر لمبی پلکوں کی جھالڑ پردہ کیے ہوئی تھی۔
“بتائیں اب!”
اس کے کہنے پر وہ اٹھ کر اسٹڈی ٹیبل سے اس کی کتاب اٹھا لایا اور واپس آ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ کتاب کا پہلا صفحہ کھول گیا تو وہ پھر سے جوش میں آتی اس کے نزدیک ہو کر بک پر جھک کر دیکھنے لگی۔
وہ پنسل سے کچھ چیپٹرز پر نشان لگا کر اسے دکھانے لگا۔
“یہ جن چیپٹرز پر میں نے نشان لگائے ہیں نا پیپر ان میں سے ہی آے گا۔ اب اتنا بتا دیا اس کے آگے ایک لفظ نہیں بتاؤں گا۔ اگر اور کچھ پوچھنا ہے کہ تو اس کے الگ چارجز لگیں گے۔ ‘
وہ کتاب واپس اس کے ہاتھ میں پکڑا گیا تو وہ آنکھیں پھاڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔
اس کی حالت دیکھ کر فاتح کا دل چاہا کہ زور سے قہقہہ لگاے۔
“آپ بہت بڑے چیٹر ہیں۔ میں آیئندہ آپ سے کچھ بھی نہیں پوچھوں گی!”
وہ غصے سے لال پیلی ہوتی کتاب پکڑ کر کمرے سے نکل گئی۔ وہ اسے آوازیں دینے لگا پر وہ اس کی ایک بھی آواز سننے بغیر اپنے پیچھے زور سے دروازہ بند کرتی باہر لاؤنج میں چلی گئی تو فاتح قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
” ہاے میری معصوم محبت!”
وہ پیار سے بولتا اس کے تاثرات یاد کرتا پھر سے ہنس دیا۔
*******
ڈیڑھ ہفتہ ہو گا تھا مستقیم کو گئے ہوئے پر یہ ڈیڑھ ہفتہ حریم کو ڈیڑھ صدی کے برابر لگ رہا تھا۔ اس کی مستقیم سے بات بھی بہت کم ہو رہی تھی۔ وہ کال کر کے حال وغیرہ پوچھتا اور پھر مصروفیت کا کہہ کر دوبارہ کال کرنے کا وعدہ کرتا کال بند کر جاتا۔
آج جمعہ تھا اور سوموار کو مستقیم کی واپسی تھی۔ اس نے کچھ سوچ کر مستقیم کو کال ملائی پر اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔ اس نے غصے سے موبائل بیڈ پر پهينكا اور الماری سے ایک سوٹ نکالتی فریش ہونے کے لئے باتھروم میں چلی گئی۔ باہر آنے کے بعد اس نے موبائل چیک کیا تو مستقیم کی کوئی کال یا میسج نہیں تھا۔ اس نے مایوسی سے موبائل واپس رکھ دیا اور خود شیشے کے آگے کھڑی ہو کر بال سلجھانے لگی۔ وہ بال سلجھاتے مستقیم کے خیالوں میں گم تھی جب اپنے پیچھے آہٹ ہونے پر چونک ک کر پیچھے مڑی تو وہیں ساکت ہو گئی۔
نیلی پینٹ پر سفید شرٹ پہنے اور سفید ہی ٹائی لگائے وہ مستقیم ہی تھا۔ اسے دیکھتے مستقیم نے دھیرے سے اپنی باہیں وا کیں تو وہ پلک جھپکتے اس کی باہوں میں سما گئی۔ اس کے سینے سے لگتے ہی وہ سسکنا شروع ہو چکی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اس کی پیٹھ سہلانے لگا۔
“بیوی!”
وہی جذبوں سے پر گھمبیر آواز حریم کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ آنکھوں موندے اسے محسوس کرنے لگی۔
آہ! کتنا مس کیا تھا اس نے اس آواز اور اس لفظ کو۔ مستقیم کو کیا پتا ہو کہ اس کی آواز میں کہا گیا یہ لفظ کیسے حریمکی دھڑکنوں میں تلاطم برپا کر دیا کرتا تھا۔
“بیوی یار بس بھی کر دیں یا پھر ان آنسوؤں کی ندی میں اپنے مظلوم شوہر کو بہانے کا خطرناک ارادہ کر بیٹھی ہیں۔ مجھے پتا ہوتا کہ میری بیوی مجھے اتنا مس کریں گی تو بخدا کبھی آپکو اس دوری سے نہ گزرنے دیتا۔”
وہ اسے خود سے دور کرتا اس کے آنسو پونچھنے لگا جو مہرون لباس میں دوپٹے کے بغیر اس کی باہوں میں سمٹی ہوئی قندھاری رنگ چہرے پر سجائے اس کے ہوش اڑا رہی تھی۔
اس کی گہری جسم میں اترتی نظریں خود پر محسوس کرتی وہ اپنا دوپٹہ اٹھانے کے لئے بیڈ کی طرف لپكی تو وہ اس کی كلائی اپنی گرفت میں لیتا اپنے اور اس کے درمیان فاصلہ ختم کرتا اسے جھک کر باہوں میں لئے بیڈ کی طرف بڑھ گیا۔
وہ اسے بیڈ پر لٹا کر خود بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ حریم نے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ اس کے کندھے پر دباؤ ڈالتا اسے واپس بیڈ پر لٹا گیا اور اسے سر سے پاؤں تک اپنی نظروں کے حصار میں لے گیا۔
اس کی ایکسرے کرتی نظریں اپنے جسم پر پڑتی دیکھ کر وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا منہ چھپا گئی تو وہ گہرا مسکرا دیا۔
وہ اس کے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹاتا اس کی پیشانی کو اپنے پیار بھرے لمس سے مہکا گیا۔
“جانتی ہیں حریم میرا سکون ہیں آپ! جب جب آپ کو دیکھتا ہوں تو یہ دل سجدہ شکر میں جھکنے لگتا ہے۔”
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھ گیا تو وہ اپنی تیزدھڑکنوں سے اس کی دھڑکنیں محسوس کرنے لگی۔
” میں نے جب پہلی دفع ریسٹورنٹ میں آپ کو دیکھا تھا تو میرے دل نے تب ہی مجھے دھوکہ دے دیا اور میرا ہوتے ہوئے بھی یہ صرف اور صرف آپ کے لئے دھڑکنے لگا۔ اس دل کی اول و آخر مکیں ہیں آپ !”
اس کی بات سنتی حریم کی آنکھیں تحیر سے پهيلیں تو وہ جھکا اس کی آنکھوں کو اپنے لمس سے معتبر کر گیا۔
“آپ سے نکاح کی شرط وہ کنٹریکٹ محض ایک کاغز کا ٹکڑا تھا جس کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں تھی اور میں اسی دن ہی وہ غیر ضروری ٹکڑا پھاڑ کر پھینک چکا تھا۔ میں آپ کی پوری رضامندی کے ساتھ آپ کو حاصل کر کے ہمارے خوبصورت رشتے کو اور بھی مضبوط کرنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو میرا ساتھ زندگی بھر کے لئے قبول ہے؟”
اس کے پوچھنے پر وہ آنکھیں بند کرتی اثبات میں سر ہلا گئی۔
“میں آپ کے منہ سے سننا چاہتا ہوں حریم!”
اس کے کہنے پر وہ اپنی تیز ہوتی سانسوں میں اس کی محبت کو قبولیت کا شرف بخش گئی۔
“ق۔۔۔قبول ہے”
اس کے اقرار پر وہ سرشار ہوتا اس کے چہرے پر جھک گیا اور اپنی محبت کے پھول کھلانے لگا۔اس کی پیشانی پر مہر چھوڑتا وہ اس کی آنکھوں پر جھک گیا۔ اس کی تیکھی ناک کو ہونٹوں سے چھوتا وہ اسے دیکھنے لگا جو آنکھیں بند کیے پڑی تھی۔ اس کے گالوں پر بکھری لالی اسے مزید حسین بنا رہی تھی۔وہ جھک کر اس کے دونوں گال چوم گیا۔ نظریں بھٹک کر اس کے سختی سے آپس میں پیوست گلابی لبوں پر پڑیں تو وہ ان پر جھک گیا۔ وہ سختی سے اسکا گریبان اپنے ہاتھوں میں دبوچ گئی۔ محبت کا جام پی کر وہ پیچھے ہٹ کے اس کی جانب محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگاتو وہ شرماتی ہوئی اس کی گردن میں چہرہ چھپا گئی۔ مستقیم نے اسے اپنے حصار میں لیا اور اس پر محبت کی برسات کرنے لگا۔ آسمان پر موجود چاند اور ستارے بھی ان کے ملن پر سرشار خوب چمک رہے تھے۔
***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...