اللہ کے حکم سے نکاح کا دن آیا تو رات بھر رونے کے سبب اج بھی اسکی آنکھیں سوجی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔۔پر بہرحال آخری بار ہی یوں سوجی تھیں۔۔!
شیخ حباش کے گھر والوں کے مطابق نکاح سادگی سے پڑھایا گیا،جہاں وہ بس ایک نظر اپنے ہونے والے شریک حیات کو دیکھ پائی تھی۔۔۔مگر بات ہونے کا کوئی امکان نہ تھا
دیکھتے ہی بے ساختہ دھیمی آواز میں بولی
“یہ کس دنیا کا حسن و جمال ہے؟ یا خدا یہ کسے بھر دیا میری جھولی میں؟”
وہ واقعی ایک خوش شکل اور خوش مزاج انسان تھا۔۔
وہ اسی ایک جھلک کے سرور میں پورا دن رہی۔۔۔اگلے دن ہی رخصتی بھی تھی،لہذا انتظار کرنا کچھ مشکل تو نہ تھا مگر اب مشکل ہو چلا تھا۔۔۔
رخصتی کے دن وہ خوشی سے لال جوڑا پہنے سجی سجائی اسکے برابر میں آبیٹھی تھی۔
ابھی سوچا ہی کہ کچھ بات کرے، سلام کرے یا حال اہوال پوچھے۔۔۔۔اسکی طرف مخاطب ہو کر بات کرنا چاہا تو دیکھا کہ وہ منہ دوسری طرف موڑے بیٹھا ہے
ہمت ساری وہی دم توڑ گئی
پھر ذرا بات کرنے کی ٹھانی تو ابکی بار شیخ صاحب کا دوست انکے برابر میں آبیٹھا
اب تو غصہ تھا کہ ناک پہ آبیٹھا،پر ضبط کئے بیٹھی رہی
اس بیچ شور شرابے کا عالم یہ تھا کہ کان پڑتی آواز بھی غور کرنے پر ہی سنائی دیتی تھی۔۔۔۔کبھی کوئی مبارکباد دیتا تو کبھی کوئی۔۔!!
وہ بیوقوف تو اسکی صورت کی ہی دیوانی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔دہیان ہی نہ رہا کہ کچھ اور باتیں جان لینا بھی اہم ہیں، دل ہی دل میں کہنے لگی
“یہ کیسا بیوقوف انسان ہے؟ ،اللہ جی اسے کہیں نہ۔۔۔۔یہ مرد ہے، بات کرنے میں پہل کرے۔۔۔افففف”
پھر کہنے لگی
“مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا،ابھی کھانے کا وقت ہوگا ،تب آس پاس کوئی ہجوم نہی ہوگا
پھر تو بات کر ہی لوں گی۔۔۔!
ابھی وہ ان سوچوں میں ہی گم تھی کہ کہیں سے اُڑتی اُڑتی آواز اسے “خضر کے نام کی سنائی دی۔۔پہلے تو سوچا کہ ہوگا کوئی مہمانوں میں سے، مگر پھر دوبارہ اسی نام کو مخاطب کرنے کی آواز سنی
“خضر کا کھانا یہاں ٹیبل پر لگوارہا ہوں، یقینناً سٹیج پر رش ہوگا”
وہ سن کر چونکی ، مُڑ کر اس طرف دیکھا کہ یہ کیا ماجرہ ہونے کو ہے؟ مگر پھر وہم سمجھ کر بات وہیں چھوڑ دی۔۔
کھانا کھلنے کی آواز آئی تو وہی دوست صاحب جو کچھ دیر پہلے ادھر بیٹھے تھے ،حباش صاحب کو لئے ٹیبل کی طرف چل دئیے۔۔۔اور بے مروتی کی انتہا ہوئی جب انہیں لے جاتے ہوئے مریم کو پوچھا بھی نہی۔۔۔اب تو صبر کی انتہا ہو چکی تھی
ٹیبل پر جانے والی بات پر یاد آیا کہ “خضر کا کھانا ٹیبل پر لگایا گیا تھا”
مریم جو کہ اب تک بس اسکے حسن میں ہی گرفتار تھی،حوش میں بس آنے ہی والی تھی کہ رخصتی کا وقت بھی آن پہنچا
روایتی رسموں کو لئے امی ،بابا اور بھائی نے اسے قران کریم کے سائے میں اسے رخصت کیا اور اپنے گھر ہو لیئے
****** “”””””” ******* “””””””*” *****
کہانی تھی اب اس گھر کی ،جہاں مریم آخر الامر اس سے بات کرنے والی تھی، جسکے بارے میں کافی شک و شبہات بھی وہ جمع کر چکی تھی۔۔
حباش کی امی یعنی مریم کی ساس نے اسے بڑی الفت سے سجے ہوئے کمرے لے جاکر بٹھا دیا،اب انتظار تھا تو صرف اس شخص کا جسکا حسن وہ بھلائے نہی بھولتی تھی !!
وہ کھنچی کھنچی سی آنکھیں
اور ان پر گہرے کالے سائے
گال ایسے کہ ریشم ہوں
چال ایسی کہ دل کو بھائے۔۔!
ایک لکھاری کا تو یہی انداز تھا۔۔۔ابھی غزل مکمل کرنی ہی تھی کہ اسے آتا دیکھا
وہ اس طرح سے کمرے میں داخل ہوا جیسے کہ اسے جانتا ہی تھا،اسکے چہرے کی مسکراہٹ ایسے تھی جیسے اسے کسی غیب کے ہونے کا علم تھا
وہ بولا
“السلام علیکم کیسی ہیں ؟ ضدی مریم صاحبہ؟”
یہ سن کر اسکی آنکھیں جو پوری کھلیں تو ہنس کر بولا
“چشم اتنے بھی نہ کھولئے کہ بہ جاوں ۔۔۔۔۔دھیرے دھیرے جزب کیجئے کہ پورا سما جاوں۔”
اسکا صرف اتنا کہنا تھا کہ مریم جو اپنی جگی سجی سجائی کسی شو پیس کی طرح بیٹھی تھی۔۔۔۔اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔وہ کہتی تھی نہ آواز پہچان لوں گی۔۔۔
اب کے بھی نہ پہچانتی تو کیا خاک مزہ تھا
“خضر ؟ تم خضر ہو؟ وہی خضر جسے چاہا مینے؟؟
تم وہی ہو جسے دیکھ نہ پائی تھی میں؟ واقعی؟؟”
وہ نہ تو خوشی میں تھی نہ غم میں ،شائد بدحواسی کے عالم میں تھی اور اس انتظار میں تھی کہ وہ تسلیم کرلے وہی خضر ہے۔۔
وہ کھڑا مسکراتا ہی رہا ،اسنے جس خوشی کو دیکھنے کیلئے اس سے ساری محفل بات نہ کی تھی،نہ بات کرنے کا موقع دیا تھا
بس وہی تھی یہ خوشی !!
ہنستا چہرہ مگر آنکھیں نم تھیں ، آج سارے پردے ہٹا کر وہ مریم کے سامنے اسکا محرم بنا کھڑا تھا
“خضر ہوں۔۔تمہارا رہنما۔۔۔۔عشق زادہ۔۔۔،،شیخ خضر حباش
لو دیکھ لو اس وجود کو۔۔
ہاں تم نے پہروں اسی وجود سے بات کی ہے،اپنی معصوم حرکتوں سے عزت پائی،احترام پایا۔۔۔اور کامیابی بھی
ارے ہاں۔۔۔اس دعوت اردو ادب میں تمہاری بات کا جواب دینا چاہتا تھا مگر مجبور تھا۔۔۔۔ چلو اج دیتا ہوں،کامیابی جب قدم چومے تو چھوٹی سی مریم بھی بڑی لگنے لگتی ہے۔۔۔اب یہ بھی پوچھو گی کہ میں وہاں کیسے آیا؟
تو زندگی کے نور !!۔۔۔۔تمہیں چھوڑنے بعد بھی تمہیں چھوڑا نہی تھا مینے۔۔۔
تمہارے سینے میں دھڑکتا دل تو تمہارا تھا مگر دھڑکنیں میری تھیں ،سایہ جیسے ساتھ چلتا ہے میں ویسا سایہ تھا۔۔!
اور دیکھ لو آج تو پوری کی پوری تم بھی میری ہو۔۔۔
کچھ اور رہ گیا کیا جاننے کو؟؟”
وہ اسکا ہاتھ تھامے اسے ہر اس بات کا علم دے رہا تھا جس سے وہ اب تک لاعلم رہی تھی۔۔۔اسکی مانگی ہوئی ہر دعا اللہ نے قبول کر لی تھی۔۔۔۔اور اب بس وہ آخری بار رو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔جی بھر کے۔۔
کہ اج کے بعد اسے اب کبھی نہ رونا تھا!،
سارے سوال جیسے منوں مٹی تلے دب گئے تھے۔۔،جنکےجواب وہ اکثر اپنے خوابوں میں مانگا کرتی تھی
“اور ستر ماوں سے زیادہ محبت کرنے والا خدا کیسے نہ مہربان ہو۔۔۔”
اس سب کے بعد اسکے منہ سے صرف ایک ہی جملہ نکلا
جسکی شان کے آگے دنیا کا ہر رنگ بےمعنی اور پھیکا پڑ جاتا ہے۔۔۔! ،
اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاو گے۔۔؟
خضر کے کانوں میں ان لفظوں کا رس گھلا تو کہنے لگا
” لو میرا مقصد بھی پورا ہوا، تمہیں اس ناشکری کی زندگی سے لے کر میں اس شکر کرنے والی زندگی میں لے آیا،
لو آج میں جیت گیا !!! ”
وہ اس لال جوڑے میں اٹھی اور باوضو ہو کر سجدے میں جا گری
یہ سجدہ خدا کے نام ،اسی شخص کی امامت میں ادا ہوا جسکی آرزو نے اسے دنیا کی ہر کامیابی عطا کی تھی
انکی اس بےمثال سی جیت پر آسمان بھی رشک کرتا رہا۔۔۔رات کے اس پہر ٹھنڈی ہوا کے سنگ کھڑکی پر ٹکراتی ہوئی بارش کی ہلکی بوندیں انکے رشتے کی پاکیزگی بیان کر رہی تھیں
اور انکی نئی زندگی کے سفر پر بڑی دلجوئی سے انکا استقبال کر رہی تھیں۔۔۔!
سچ ہی تو کہتے ہیں خدا جب مہربان ہو جائے تو دونوں جہاں لٹا دیتاے۔۔۔۔۔فقط اسے راضی کر لو اود سرخرو ہو جاو۔۔۔!!!
***** “”””””” ******* “””””””””” ******
اور عادل بھائی؟ انہیں بھی سبق مل چکا تھا
انھوں نے جو کھویا وہ تو دراصل انکے لیئے تھا ہی نہیں۔۔۔۔پر جو سبق ملا انہیں وہ یقینناً انکی زندگی میں آنے والی کسی بھی لڑکی کیلئے بڑا تحفہ تھا
“عورت عزت مانگتی ہے۔۔۔فقط محبت کے نام کے قیدی تو ہر بقرہ عید پر سرِ عام ذبح کر دیئے جاتے ہیں ”
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...