پتہ نہیں کون ہے؟؟؟
اشک نے فون رکھ دیا۔۔ وہ اٹھ کر نماز پڑھنے لگ گئی۔۔ نماز کے بعد وہ بستر پر آکر لیٹی تو ایک بار پھر اسے دادو یاد آگئیں۔۔ وہ اسکے ساتھ والے بیڈ پر لیٹا کرتی تھیں۔۔اس نے انکا تکیہ اٹھا کر بازوؤں میں بھر لیا۔۔دادو ناریل کا تیل لگاتی تھیں۔۔ انکا تکیہ اسکی خوشبو سے مھک رہا تھا۔۔ اسکے آنسو اس میں جذب ہونے لگے۔۔ وہ یوں ہی تکیہ پکڑے پکڑے سوگئی۔۔
اسے سوئے ہوئے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ فون چنگھاڑنے لگا۔۔وہ کچی نیند سے اٹھی۔۔
ہیلو السلام علیکم۔۔۔
اس نے آنکھیں بند کیے کیے کہا۔۔۔
اشک۔۔۔۔ اشککک یہ تم ہو؟
کسی نے بےقراری سے اسکا نام لیا۔۔اسکی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔۔
کون ہے۔۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔
اشک۔۔۔ یہ میں ہوں۔۔
وہ لمحے کے ساٹھویں حصے میں مخاطب کو پہچھان گئی۔۔
داؤد۔۔
وہ بے یقینی سے بولی۔۔
یس۔۔ آئی ایم یور داؤد۔۔
آواز رندھ گئی تھی۔۔ اسے لگا وہ رو رہا ہے۔۔
کہاں تھی تم۔۔۔ آئی مس یو۔۔۔ کیا تم مجھے بھول گئی ہو؟؟
آواز میں اتنی تشنگی تھی کہ اشک کے جسم میں سنسنیاں دوڑ گئیں۔۔
داؤد۔۔۔ میں۔۔۔ تم۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔
اسکو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بولے۔۔ اس نے فون بند کردیا۔۔ اسکو خوف سے پسینہ آگیا تھا۔۔فون دوبارہ بجنے لگا تھا۔۔ رات کا وقت ہونے کی وجہ سے آواز زیادہ گونج رہی تھی۔۔ اسنے سایلنٹ پر کرنے کے لیئے اکٹھے کئی بٹن دبا دیے۔۔موبئل سائلنٹ ہونے کے بجائےہینگ ہوگیا۔۔ بیل مسلسل بج رہی تھی۔۔ خوف سے اسکے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔۔ اس نے سپیکر پر ہاتھ رکھ کر آواز کم کرنے کی کوشش کی۔۔
بیل بند ہوگئی۔۔ اس نے سکون کا سانس لیا۔۔ساتھ ہی بیل دوبارہ بجنے لگ گئی۔۔ گھبراہٹ میں اسکے ہاتھ سے موبئل گر گیا۔۔اس نے جھک کر اٹھایا۔۔ اسکا ہاتھ لگنے سے کال پک ہوگئی۔۔
اشک اشک۔۔۔۔ پلیز مجھ سے بات کرو۔۔۔۔پلیز ایک دفعہ بات کرلو۔۔۔
اسکے انداز میں اتنی بے قراری تھی کہ اشک کے دل کو کچھ ہونے لگا ۔۔
داؤد پلیز کال نہ کرو۔۔ یہ مسئلہ بن جائے گا۔۔
اس نے ہمت کر کے کہا۔۔
پلیز مجھ سے بات کرلو۔۔ میں مرجاؤں گا۔۔۔۔ تہارے بغیر میرا ہر دن اذیت سے بھر پور ہے۔۔ اشک۔۔۔
وہ پکار رہا تھا۔۔ اس کی آواز آنسوؤں میں بھیگ رہی تھی۔۔ اشک نے موبئل کی بیٹری نکال دی۔۔ بیٹری نکال کر اس نے سم بھی نکال لی۔۔ اگلے ہی لمحے وہ اسے توڑ چکی تھی۔۔اسکا پورا بدن کانپ رہا تھا۔۔حلق خشک ہوچکا تھا۔۔
اسکی ٹانگوں میں جان نہیں رہی تھی۔۔ وہ زمین پر بیٹھ گئی۔۔اسے اپنی کیفیت پر قابو پانے میں پندرہ منٹ لگ گئے۔۔وہ کمرے سے باہر نکل صحن میں آگئی۔۔ پاکستان میں موسم ابھی بھی ٹھنڈا تھا۔۔ وہ ننگے پاؤں گھاس پر چلنے لگی۔۔ اسکا جسم کپکپا رہا تھا۔۔
کتنے دنوں بعد اس نے اسکی آواز سنی تھی۔ دھڑکنوں میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔۔۔ اس نے اسکا خیال کہیں دل میں دبا دیا تھا اور آج وہ پورے جوبن سے دوبارہ اسکے سامنے آگیا تھا۔۔۔ اسکی آواز اسکے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔ اسکا دل چاہا کہ وہ دادو کے انتقال کے وقت اس کے پاس ہوتا۔۔ وہ بلکل پلین کی طرح اسکے وجود میں پناہ لے لیتی۔۔اسکی آواز کی بےقراری اسکے پورے وجود پر حاوی ہو رہی تھی۔۔۔وہ وہیں چکر کاٹتی رہی۔۔ اسنے سم توڑ دی تھی وہ ہر راستہ بند کر چکی تھی ۔۔ لیکن اب وہ بےچین تھی اسے ایک بار پھر اسکی آواز سننی تھی۔۔۔ ایک بار پھر اسکے منہ سے اشک سننا تھا۔۔۔ وہ وہیں صحن میں اکڑوں بیٹھ گئ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشک۔۔۔۔۔ اشک میری بات سنو پلیززززززز۔
وہ پکار رہا تھا۔۔۔ کال بند ہوچکی تھی اسنے دوبارہ کرنے کی کوشش کی۔۔نمبر بند جا رہا تھا۔۔۔اس نے کئی بار کوشش کی ہر دفعہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔۔۔غصے اور بے بسی سے اسکا برا حال ہو رہا تھا۔۔
اشکککک
اس نے طیش میں آکر فون دیوار میں مار دیا۔۔ دیوار میں لگتے ہی وہ کھل گیا۔۔ بیٹری باہر نکل گئی۔۔ وہ تیزی سے آگے آیا اور فون میں بیٹری ڈالنے لگا۔۔ اسے ڈر تھا کہ اشک فون نا کر لے اور وہ اٹھا نہ سکے۔وہ ساری رات ڈرنک کرتا رہا۔۔ موبائل اس نے ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔۔
اسکا دل چاہا وقت کا پہیہ الٹا گھوم جائے وہ ایک بار پھر باکو پہنچھ جائیں۔۔ اور وہان سے اشک کو لیکر کہیں بھاگ جائے۔۔ اسے کبی خود سے الگ نا ہونے دے۔۔۔
اس نے اشک کی کال نہیں اٹھائی تھی۔۔ اس نے کارڈ نہیں سنبھالا تھا۔۔اس نے اس سے کوئی کانٹیکٹ نمبر نہیں مانگا تھا۔۔اسکی ایک ڈھنگ کی تصویر نہیں لی تھی۔۔ وہ میڈن ٹاور کی واپسی پر سویا ہی کیوں تھا۔۔
پچھناوے اسے کسی صورت چین نہیں لینے دے تھے۔۔ وہ بے قراری سے اپنے کمرے میں چکر لگا رھا تھا۔۔ صبح تک وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔۔ اس نے اپنے بار کی ہر بوتل خالی کر دی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے دل پر قابو پانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔ وہ جانتی تھی وہ محبت کی سیڑھی پر قدم رکھ چکی ہے۔۔ لیکن اسکی بھر پور کوشش تھی کہ وہ یہیں رک جائے آگے نہ بڑھے۔۔ اسے اپنی محبت کے لاحاصل انجام کا ادراک تھا۔۔
وہ داؤد کی ذات کی خامیاں تلاش کر رہی تھی۔۔کہ شاید اسے کچھ مل جائے اور وہ اسے ناپسند کرنے لگے لیکن وہ ناکام ہوکر اندر ہی اندر خود سے الجھ رہی تھی۔۔اسکے دل اور دماغ کے درمیان جنگ جاری تھی۔۔
محبت ایک عمودی چٹان کی طرح ہوتی ہے۔۔جس پر انسا ن چڑھتا نہیں بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔۔ وہ راستے میں کسی چیز کا سہارا لیکر خود کو وقتی طور پر روک تو سکتا ہے لیکن اپنا سفر ختم نہیں کر سکتا۔۔ اسے آخر میں عشق یا بدگمانی میں سے کسی ایک دلدل میں گرنا ہی ہوتا ہے۔۔اور اس بات کا فیصلہوہ نہیں وقت اور حالات کرتے ہیں۔۔ اب وہ سہارے تلاش کر رہی تھی بد گمانی کی رسیاں بننے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ لیکن اسکا خود پر بس نہیں چل رہا تھا۔۔۔
اشک بیٹا۔۔۔
ذیشان صاحب نے اسے پکارا۔۔
جی بابا۔۔
وہ انکے کمرے میں آگئی۔۔
میری چھٹیاں ختم ہورہی ہیں۔۔ ہمیں کل واپس جانا ہے۔۔
جی کس وقت؟؟
کل صبح گیارہبجے کی فلائٹ ہے۔
جی صحیح۔۔۔
وہ واپس جانے کے لیے مڑی ۔۔
ارے ہاں۔۔ بیٹا آپکی دادو کا موبائل کہاں ہے۔۔
ذیشان صاحب نے اچانک پوچھا۔۔ وہ لرز کر رہ گئی۔۔
کک۔۔ کیوں بابا۔۔ میرا مطلب خیریت ہے۔۔
ان فون میں سارے نمبرز کو اطلاع کرنا اور ویسے بھی اسے سیل کر کے پیسے صدقہ کرنے ہیں۔۔
ذیشان صاحب نے تفصیل بتائی۔۔
وہ تو میں نے کر دیا تھا۔۔ اسے بیچیں نہیں میں موبائل ہی کسی کو دے دونگی۔۔
اس نے بات کے ساتھ خود کو بھی سنبھالا۔۔
چلو ٹھیک۔۔ سم کہاں ہے انکی۔۔
وہ۔۔ وہ ٹٹ۔۔ ٹوٹ گئی۔۔
اسکا حلﷺ خشک ہوگیا۔
کیسے؟
وہ حیرت سے بولے۔۔
نن۔۔ نکالتے ہوئے۔۔
وہ انگلیاں مروڑ رہی تھی۔۔ اسے نے آنکھیں اٹھا کر انہیں دیکھنے کی ہمت نہیں کی۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔ آپ آرام کیجئے۔۔
جی ۔۔
وہ بمشکل مسکرائی اور بھاگنے کے انداز میں کمرے سے باہر نکل آئی ۔۔
اوہ خدا۔۔
اس نے گلاس بھر کر پانی پیا تو اسکی گھبراہٹ میں کمی ہونے لگی۔۔آگے اسے پتہ نہیں کتنی باتیں چھپانے کے لیئےے کتنے جھوٹ بولنے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے دلی سے پیکنگ کر رہی تھی۔۔ اسکا کسی کام میں دھیان نہیں تھا۔۔ ڈیوڈ کی آواز اسکے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔ وہ چاہ کر بھی اس آواز کو اپنے دل تک پہنچھنے سے نہیں روک پا رہی تھی۔۔
بیٹا سب کچھ رکھ لیا کیا؟
ذیشان صاحب نے آکر پوچھا۔۔
جی بابا ۔۔
اسنے باقی کپڑے اٹھا کر بے درد سے بیگ میں ٹھونسے اور زپ بند کر دی
ٹھیک ہے نیچے آجائیں۔۔ آپکی چچی نے کھانا لگا دیا ہے۔۔
وہ اسے بلانے ہی آئے تھے۔۔ وہ چپ چاپ ان کے ساتھ آگئی۔۔
واہ چچی کیا بنایا ہے آپ نے؟
وہ ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔
جنجر چکن اور بریانی تمہاری پسند کی۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔
اللہ آپکے ہاتھ سلامت رکھے۔۔میں بہت مس کرونگی آپ کے ہاتھ کا کھانا۔۔۔
وہ تھوڑا اداس ہوگئی۔۔
اچھا یہ بھی چکھنا۔۔
انہوں نے اس کے سامنے ڈش رکھی۔
یہ کیا ہے؟
اس نے ڈش کا ڈھکن اٹھایا۔۔
فش رول۔۔
اسکا حلق کڑوا ہوگیا۔۔ کوشش کے باوجود بھی وہ مسکرا نہ سکی۔۔
تمہیں پند نہیں کیا؟
چچی نے اسکی شکل دیکھ کر کہا۔۔
نہیں چاچی پسند ہے۔۔ لیکن آپ کے ہاتھ کی بریانی کون چھوڑ سکتا ہے۔۔
تمہیں کبھی اسکا کانٹا تو نہیں چبھ گیا جو کھانے سے ڈر رہی ہو۔۔
انہوں نے اسے بات بدلتے دیکھ کر کہا۔۔
ایسا ہی سمجھ لیں۔۔
وہ سر جھکا کر بریانی کھانے لگی۔۔ اسکی بھوک مر گئی تھی۔۔
وہ انہیں کیا بتاتی ۔۔ جو فش رول اس نے کھایا تھا اس میں کانٹا نہیں تھا لیکن وہ پھانس بن کر اسکے دل میں گڑ گیا تھا۔۔اسے ایک بار پھر لاہور سے ترکی کا سفر کرنا تھا۔۔ وہ جانتی تھی کہ اب کوئی سفر ایسا نہ ہوگا جسمیں وہ اسکا ہمسفر ہوگا۔۔ لیکن دل میں کہیں ایک امید تھی۔۔ ایک خواہش۔۔۔ اور آس بھی۔۔ موہوم سی آس۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اٹھا تو اسکے فون پر کئی کالز اور میسجز تھے۔۔ اس میں کچھ جین اورکارلس کی طرف سے تھے کچھ ڈینئل اور کمپنی کی طرف سے۔۔۔ اس نے بہت آس سے سب کچھ چیک کیا۔۔۔ لیکن اسے اشک کی طرف سے کچھ نہیں ملا۔۔ وہ مایوس ہوگیا۔۔ اس نے اٹھ کر بار چیک کی۔۔ اسکا سارا سٹاک ختم ہوچکا تھا۔۔ وہ دوستوں کے ساتھ ایک دو پیگ پیتا تھا اور اب وہ بے تحاشا پی رہا تھا۔۔وہ نشے میں سکون ڈھونڈ رہا تھا۔۔
اشک جیسا سکون۔۔۔ اپنی بےقراری اور بےچینی اسکی کڑواہٹ میں ضم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔
وہ چکراتے سر کے ساتھ اٹھا۔۔ اسنے کچن کی کھڑکی سے باہر دیکھا۔۔ وہاں اندھیرا تھا۔۔۔۔ اسے کچھ پتہ نہیں تھا کونسا دن تھا اور کیا وقت ہے۔۔ اس نے موبئل پر دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔۔ اسکو بھوک لگ رہی تھی۔۔ وہ فریج سے ڈبل روٹی نکال کر لے آیا۔۔وہ ٹھنڈی اور اکڑی ہوئی تھی۔۔ وہ وہیں کچن کی زمیں پر بیٹھ کر کھانے لگ گیا۔۔ اسنے چند لقمے ہی لیے تھے کہ اسکا فون بج اٹھا۔۔۔۔وہ بےتابی سے اٹھ کر بھاگتے ہوئے بیڈ روم میں آیا۔۔
ہیلو اشک۔۔۔
اس نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل کان کو لگا۔۔
سروی آر سیلنگ ففٹی پرسنٹ آف۔۔۔
وہ کسی کمپنی کی طرف سے فون تھا۔۔
شٹ اپ۔۔ شٹ ااااااااااپ۔۔۔
اس نے چلاتے ہوئے فون بند کیا۔۔۔
اشکککککک
وہ حلق کے بل چلا اٹھا۔۔ بےبسی سے وہ پاگل ہو رہا تھا۔۔ اس نے سائیڈ ٹیبلز الٹ دیں۔۔ بیڈ شیٹ اٹھا کر نیچے پھینک دی۔۔ دو منٹ میں پورا کمرا الٹا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا پوری دنیا کو آگ لگا دیتا۔۔۔۔۔
…………..
اشکککککک
وہ حلق کے بل چلا اٹھا۔۔ بےبسی سے وہ پاگل ہو رہا تھا۔۔ اس نے سائیڈ ٹیبلز الٹ دیں۔۔ بیڈ شیٹ اٹھا کر نیچے پھینک دی۔۔ دو منٹ میں پورا کمرا الٹا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا پوری دنیا کو آگ لگا دیتا۔۔۔۔
تھک ہار کر وہ گھٹنوں کے بل گر گیا۔۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں اتنی بے بسی محسوس نہیں کی تھی۔۔
اے خداااااااااا۔
وہ چلا اٹھا تھا۔۔
تو کہاں ہے؟؟؟ تو مجھ پر رحم کیوں نہیں کرتا۔۔ تو نے میری قسمت بنائی۔۔۔ تو نے مجھے اس سے ملایا۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ اب مجھے اس اذیت سے نجات دے دے۔۔ مجھے وہ سکون لوٹا دے۔۔ مجھے میری زندگی کا سکون لوٹا دے۔۔ مجھے اپنا پتہ بتا دے۔۔ مجھے اپنا راستہ دکھا دے۔۔
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔ اسکی آواز رندھنے لگی تھی۔۔
پلیززززز۔۔ پلیزززز اشک کے خدا ۔۔ کہاں ہے تو۔۔ میں ہار گیا ہوں۔۔ میں تھک گیا ہوں۔۔ مجھے وہ سکون دےد ے جو تو نے اشک کو دیا تھا۔۔۔ مجھے اشک دے دے۔۔ مجھے اپنا آپ دے دے۔۔مجھے اپنا پتہ دے دے۔۔مجھے وہ دے دے جو اس لڑکی کے پاس تھا۔۔ اسکے پاس تو تھا۔۔۔ہاں تو ہی تھا اس کے پاس۔۔ تبھی اسکے پاس سب کچھ تھا۔۔۔ تئ مجھے بھی اپنا آپ دے دے۔۔۔میں تجھ سے تجھ کو مانگتا ہوں۔۔ مجھ پر رحم کر دے ۔۔ مجھے اپنا آپ دے۔۔
وہ زمین پر اپنی پیشانی ٹکا گیا۔۔وہ مسلسل ایک جیسے الفاظ دہرا رہا تھا۔۔۔۔وہ کتنی ہی دیر اسی حا لت میں خدا کو خدا سے مانگتا رہا۔۔۔ جب اسے لگنے لگا کہ وہ اب مزید نہیں رو سکتا تو اٹھ کر والٹ اور چابی اٹھا کر گھر سے نکل گیا ۔۔۔اسے اپنی زندگی سے دور جانا تھا۔۔ وہ کہاں جا رہا تھا اسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔۔ وہ بس گاڑی چلائے جا رہا تھا۔۔شومئی قسمت بارش شروع ہوگئی تھی۔۔وہ جب بر لن کے شہری علاقے سے نکلا تو اسکی گاڑی فیول ختم ہونے کا اشارہ رہی تھی۔۔اس نے اس پر دھیان دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔۔اسکی گاڑی کو جھٹکا لگا تو اسے اندازہ ہوا وہ سڑک سے اتر چکا ہے۔۔ اسکی گاڑی کسی گڑھے میں گرتی یا کسی چیز سے ٹکرا جاتی۔۔ وہ پرواہ کیے بغیر چلا رہا تھا۔۔ آدھے گھنٹے بعد اسکی گاڑی اسکا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔۔ اندھیرے اور بارش کی وجہ سے اسے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔۔ اسنے بے بسی سے سٹیرئنگ پر سر ٹکا دیا۔۔
اسکی کب آنکھ لگی اسے پتہ نہیں چلا ۔۔ جب وہ اٹھا ۔تو جھٹپٹے کا عالم تھا۔۔پیاس سے اسکا برا حال تھا۔۔ وہ گاڑی سے باہر نکل آیا۔۔وہ شہر سے دور کسی علاقے میں تھا۔۔اسے کچھ پتہ نہیں تھا وہ کہاں ہے۔۔۔ اسنے ایک طرف چلنا شروع کر دیا۔۔تھوڑی دور جاکر ہی اسے ایک عمارت نظر آگئی۔۔۔ اسکی ساخت بتاتی تھی کہ وہ گھر نہیں تھا۔۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اندر چلا گیا۔۔اندر بہت سے لوگ گھٹنوں کے بل خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے۔۔وہ ایک طرف لگے نلکوں کی طرف بڑھ گیا۔۔پانی کی آواز نے اس خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔۔ اسے نے جھک کر منہ دھونا شروع کر دیا۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔۔
اس نے مانوس سے الفاظ سن سامنے دیکھا۔۔ وہ سب سلام پھیر رہے تھے۔۔ اشک کی طرح۔۔ وہ وہیں ساکت ہوگیا۔۔۔اس نے ان سب کو دیکھا۔۔ ان میں سب بیٹھے ہوئے تھے۔۔ خوبصورت بھی۔۔ بد صورت بھی۔۔ اعلی کپڑوں والے بھی اور گھٹیا کپڑوں والے بھی۔۔۔ ان میں کسی میں فرق نہیں تھا۔۔ کوئی درجے نہیں تھے۔۔ وہ سب برابر بیٹھے ہوئے تھے۔۔ ان کے چہروں پر ایسے بیٹھنے سے کوئی شرمندگی یا ندامت نہیں تھی۔وہ حیرانی سے انہیں دیکھتا ہوا انکے پاس آگیا۔اسے اشک جیسے مسلمان مل گئی تھے۔۔ جنہیں بتانا نہیں پڑ رہا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔۔۔ وہ انکے ساتھ بیٹھنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں پڑھ رہی تھی۔۔
تم ہماری عبادت گاہوں میں بھی چلے جاؤ تو تمہیں کوئی نہیں روکے گا۔۔
اس کے کانوں میں اشک کا جملہ گونجا۔۔ وہ وہیں ستون کے ساتھ بیٹھ گیا۔۔ کسی نے بیان کرنا شروع کر دیا ۔۔ اسے نے دیکھا وہ اس جیتنا ہی لڑکا تھا۔۔ اسکے سامنے سب بڑے بوڑھے خاموش بیٹھے تھے۔۔۔
“تمہارا پرور دگار ان باتوں کو بھی جانتا ہے جو ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں۔۔اور ان باتوں کو بھی جو یہ کھلم کھلا کرتے ہیں۔۔
اللہ وہی ہے۔۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔۔اور ہر بات میں حکم اسی کا چلتا ہے ۔۔اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔۔۔”
اس نے آنکھیں بند کر کے اعتراف کیا۔۔واقعی حکم اسی کا چلتا ہے۔۔۔ وہ بےبسی کی حد پر پہنچ کر یہ مان چکا تھا۔
ان سے کہو اگر اللہ تم پر رات کوقیامت کے دن تک مسلط رکھےتو اللہ کے سوا کون ہے جو تمہارے پاس روشنی لے کر آئے۔۔ کیا تم سنتے نہیں ہو۔۔ (سورہ القصص۔۔)
وہ نوجوان پڑھ رہا تھا۔۔ڈیوڈ نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔۔اسے سکون مل رہا تھا۔۔ اشک والا سکون۔۔۔جس کے لیے وہ ترس رہا تھا۔۔۔
“کہو:ذرا یہ بتلاؤ کہ اگر اللہ تم پر دن کو ہمیشہ کے لئے مسلط کردے تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو تمہیں رات لا کر دے جس میں تم سکون حاصل کر سکو؟ بھلا کیا تمہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔۔”(سورۃ القصص)
اسے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔ وہ شہر اور ملک اب اتنے بھی گمنام نہیں تھے جہاں پر چھ چھ مہیںے دن رہتا تھا۔۔۔ کوئی ٹیکنالوجی کوئی چیز اب تک ایسی نہیں بن سکی تھی جو اسکو بد سکتی۔۔وہ اندر ہی اندر سچائی مان رہا تھا۔۔ ایک ایک بات کا اعتراف کر رہا تھا۔۔
“اور وہ دن نہ بھولو جب کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ میرے شریک جنکا تم دعوی کیا کرتے تھے؟ اور ہم ہر قوم سے ایک گواہی دینے والا نکال لائیں گے اور کہیں گے کہ: لاؤ اپنی کوئی دلیل ! اس وقت انکو پتہ چل جائے گا کہ سشی بات اللہ کی ہی تھی اور وہ ساری باتیں جو انہوں نے گھڑ رکھی تھیں گم ہو جائیں گی۔۔(سورہ القصص)
وہ لرز کر رہ گیا۔۔ وہ لڑکا چپ ہوگیا تھا۔۔ ڈیوڈ نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔ وہ سب ہاتھ اٹھائے بیٹھے تھے۔۔ وہ لڑکا اب کسی اور زبان میں بول رہا تھا۔۔ اس نے بھی ان ان کی طرح ہاتھ اٹھا نے کی کوشش کی۔۔ اس کے عجیب لگ رہا تھا۔۔ اسے وہ زبان سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن مزا آرہا تھا۔۔ اسے لگ رہا تھا وہ پتہ نہیں کتنے دنوں بعد کھل کر سانس لے پا رہا ہے۔۔وہ خاموشی سے بیٹھ کر سنتا رہا۔۔انہوں نے جلد ہی آمین کہہ کر اپنے چہروں پر ہاتھ پھیر لیے۔۔
وہ سب اٹھ کر جانے لگے تھے۔۔ اسے اندازہ ہوا ان کی مجلس ختم ہوگئی ہے۔کچھ اٹھ کر باہر چھلے گئے تھے۔۔ کچھ دوسرے کاموں میں مشغول ہوگئے تھے۔۔وہ بھی اٹھ کر باھر آگیا۔۔اس کو لگا وہ اے سی والے کرے سے اٹھ کر تپتے صحرا میں آگیا ہے۔۔ تھوڑی دیر پہلے والا سکون اور آرام ختم ہوگیا تھا۔۔ اسے لگ رہا تھا ہوا میں آکسیجن کم ہو رہی ہے۔۔ ۔۔ اسکی بے چینی بڑھ رہی تھی۔۔وہ خود کو بمشکل گاڑی کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔۔اسے لگا وہ اگر واپس جائے گا تو مر جائے گا
کیا میں مسجد چلا جاؤں یا گھر؟
وہ وہیں کھرا ہو کر خود کلامی کرنے لگا۔۔ایک طرف اسکے ماں باپ تھے۔ گھر تھا جاب تھی،، دوسری طرف وہ چھوٹی سی مسجد تھی۔۔جس پر پینٹ تک نہیں ہوا تھا۔۔ لیکن اس میں اونچی اونچی عمارتوں سے زیادہ کشش تھی۔۔ وہ گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔۔ اس کے حلق میں کانٹے چبھنے لگے تھے۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...