اگلی صبح تو کسی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھے۔ رومان صبح ہی آفس چلا گیا تھا۔ کیونکہ منتشا۶ پھوپو کو دوپہر میں ایرپورٹ سے لے کر آنا تھا۔
سب ہی ادھر سے ادھر چکر لگا رہے تھے۔حیا کا بھی انتظار کر کے برا حال تھا۔ ماں باپ سے ناراضگی اپنی جگہ مگر ان سے ملنے کی خوشی بہت تھی ۔ پر وہ اپنے چہرے پر عیاں نہ کر رہی تھی۔
دو، تین گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد رومان کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا ۔ سب باہر کی جانب لپکے تھے۔
سب سے ملنے کے بعد منتشا۶ اپنی بیٹی سے ملیں۔تو حیا نے رونے لگ گئی۔
”میری جان میں آگئی ہوں اپنی گڑیا کے پاس اب کہیں نہی جاوں گی۔” منتشا۶ نے حیا کا ماتھا چوم کر اسے گلے لگایا تھا۔
”ادھر آو میری گڑیا کتنی بڑی ہو گئی ہو” حیا کے پاپا نے اسے پیار سے گلے لگایا۔
”اندر چلیے سب! اندر چل کر پیار کر لیجیےگا اپنی لاڈلی سے” رومان نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔سب ہی ہنس دیے تھے اور آگے بڑھ گئے تھے۔حیا رومان کو برا بھلا کہنا نہ بھولی تھی۔
”مما سب سے پہلے یہ نیوز آپکو مجھے دینی چاہیے تھی۔ میں آپکی “بیٹی” ہوں۔۔۔” حیا نے روتے ہوئے کہا۔
سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے تو حیا منتشا۶ کو اپنے پاس لے آئی تھی۔
”حیا بیٹا بری بات اگر تم میری بیٹی ہو تو وہ میرا بیٹا! اور تم یہ بے تکی باتیں کیوں کر رہی ہو۔تمہیں پتا ہے کہ تمہارے پاپا کے ڈاکومینٹس میں کچھ پرابلم ہو گیا تھا تو رومان کی مدد سے انکا پرابلم حل ہوا ہے۔اس وجہ سے اسے پتا چلا کے ہم آرہے ہیں۔” منتشا۶ حیا کو بتا رہیں تھیں۔ “ورنہ ہم نے تو سب کو سرپرائز ہی دینا تھا۔تم نے یہ بات رومان کو تو نہی کہی ناں؟؟” منتشا۶ نے پوچھا۔
“چھوڑیں مما ! یہ سب باتیں۔۔یہ بتائیں کہ آپ مجھے مس کرتی تھیں کہ نہی؟؟؟؟” حیا نے ڈرتے ہوئے بات کا موضوع ہی بدل دیا۔
”لو یہ کیا بات ہوئی۔کرتی تھی تو تمہارے پاس آگئی ہوں ناں۔۔” منتشا۶ نے پیار سے اسے گلے لگایا تھا۔
__________________________
منتشا۶ الماری میں کپڑے سیٹ کر رہیں تھیں تب رومان کمرے میں داخل ہوا تھا۔
”کیا ہو رہا ہے پھوپھو جان؟” رومان نے پوچھا تھا۔
”کچھ نہی! آو تم۔۔ ڈاکٹر صاحب آپ ابھی تک ہاسپٹل نہی گئے؟”
منتشا۶ الماری بند کرکے مڑی اور رومان کی طرف آئیں اور دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔
”پلیز پھوپو۔ آپ تو مجھے میرا نام لے کر بلایا کریں۔ آپ مجھے ڈاکٹر صاحب کہتی ہیں اور آپکی بیٹی صاحبہ مجھے ہلاکو خان اور پتا نہی کیا کچھ کہتی ہے
رومان برا سا منہ بنا کر بولا تھا۔ جواب میں منتشاء کا قہقہہ گونجا۔ رومان بھی ہنس دیا۔
”مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے پھوپو” رومان اصل بات کی طرف آیا۔
”بولو۔ بیٹا میں سن رہی ہوں” منتشاء بولیں
”پھوپو آپ اور بابا کے درمیان میری اور حیا کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہےکہ۔۔۔۔۔۔” رومان بات کرتے ہوئے رکا تھا۔
”اوکے میں جان گئ ہوں تم کیا پوچھنا چاہ رہے ہو۔تب بھائی صاحب نے کہا تھا کہ میں حیا کو لے کر تو جا رہی ہوں پر تھوڑے عرصے کے لیے۔ میں اسکو ہمیشہ پاس رکھوں گا رومان کی دلہن بنا کر۔”
منتشاء نے خوشی سے بتایا تھا ۔
رومان کو تو کل ہی معلوم ہوا تھا جب اسکی مما نے اس سے حیا کے بارے میں رائے مانگی تھی۔
” لیکن بیٹا اگر تم نہی چاہتے تو۔۔۔۔کوئی بات نہی”منتشاء نے اسکی چہرے پر عجیب سا تاثر دیکھا تو بولیں۔
”ارے نہی پھوپو آپ کا اور بابا کا حکم سر آنکھوں پر”
رومان نے خوشی سے کہا تھا کیونکہ یہ اسکی بھی خواہش تھی۔
” مگر پھوپو وہ۔۔۔حیا کبھی نہی مانے گی آپکو اس سے بات کر لینی چاہیے۔ رومان نے کہا۔
”تم اسکی بات چھوڑ دو۔۔تمہارے انکل بھی یہی چاہتے ہیں انکو تو تمہاری شکل میں بیٹا مل گیا ہے” منتشاء نے خوشی سے کہا تھا۔
_ _____________________________
حیا دوپہر میں کچن میں چائے بنا رہی تھی۔ گھر میں نیہا اور اسکی سوا کوئی نہی تھا۔ خواتین کسی کی عیادت کے لیے گئی تھیں۔اور مرد حضرات اپنے اپنے کاموں کے لیے نکلے ہوئے تھے۔
حیا چائے کا کپ کیبن سے نکالنے کے لیے مڑی ہی تھی کہ دیوار پر چھپکلی نظر آئی حیا کا تو اوپر والا سانس اوپر اور نیچے والا نیچے رہ گیا۔ حیا نے زور سے چیخ ماری اور کپ ہاتھ سے گرا دیا چھپکلی بھی حرکت میں اگئی۔۔
حیا چیخیں مارتی ہوئی روازے کی جانب بھاگی ۔نیہا ضرور آتی لیکن وہ سوئی ہوئی تھی۔حیا چیخیں مارتی ہوئی جب بھاگی تو دروازے میں کھڑے وجود سے ٹکرا گئی۔
رومان اس اچانک افتاد پر حیران کھڑا تھا۔حیا نے اپنا منہ اسکے کوٹ میں چھپا لیا اور چیختی رہی۔
”کیا ہوا ہے؟؟؟” رومان نے اسے سیدھا کیا اور پوچھا۔لیکن وہ زور زور سے چیخ رہی تھی۔
”حیا! بس۔ بند کرو یہ بچپنا اور مجھے بتاو کہ کیا ہوا ہے؟”
رومان زوردار آواز میں بولا تھا۔
حیا کو ڈر میں یہ بھی پتا نا چلا کہ سامنے رومان کھڑا ہے
”وہ۔۔۔وہ چھپکلی۔۔وہاں دیوار پر۔۔” حیا نے دیوار کی طرف اشارہ کیا
وہاں پر کچھ نہی تھا۔
”ابھی تو ادھر ہی تھی” حیا نے رومان سے کہا تھا
”اِدھر تو کچھ بھی نہی ہے۔ویسے بھی چھپکلی ہی تھی۔سانپ تو نہی تھا نا۔”
حیا نے سانپ کے نام سے ڈر کر جھرجھری لی۔
”ویسے ماننا پڑے گا چھپکلی کو۔۔۔تم تو بڑے بڑوں سے نہی ڈرتی۔اور اس چھپکلی نے دو منٹ میں تمہارا کیا حال کر دیا ہے” رومان نے ڈری ڈری سی حیا کو دیکھا جو اس سے صرف چند ہاتھ کے فاصلے پے تھی۔
”وہ رومان بھائی چھپکلی بڑی خطرناک ہوتی ہے نا اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” بات پوری کرنے سے پہلے ہی حیا کو خیال آگیا کہ وہ کچھ ب بول رہی ہے اس نے چہرہ اٹھا کر دیکھا تو رومان آنکھوں میں شرارت لیے اسکو دیکھ رہا تھا۔
”جتنی بھی خطرناک ہو۔لیکن تم سے زیادہ نہی ہے” رومان حیا کو چڑانے کے لیے بولا تھا۔
”مجھے جانے دیں۔۔۔ آگے سے ہٹیے پلیز” حیا نے دروازے میں پھیل کع کھڑے ہوئے رومان سے کہا۔کیونکہ جانے میں ہی عافیت تھی۔
”اگر نہ جانے دوں تو؟” رومان نے حیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔ حیا نے ناسمجھی کے عالم میں رومان کو دیکھا جو اسے بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
رومان نے حیا کو مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کیا اور سائیڈ پر ہوگیا۔
حیا بھی کمرے کی طرف چل دی
”عجیب بندہ ہے کچھ سمجھ نہی لگتی ” حیا بڑبڑائی
جب من تشاء نے حیا کو رومان اور اسکی شادی کے بارے میں بتایا تو اسنے انکار کر دیا تھا۔جس مرضی بندے سے شادی کروا دی جائے مگر اس سی بلکل بھی نہیں ۔جب رومان کو پتہ چلا تو وہ غصے سے ہی پاگل ہو گیا تھا ۔
“پھوپھو میں نے کہا تھا وہ کبھی نہیں مانے گی۔”رومان منتشاء سے کہہ رہا تھا۔
“لیکن بیٹا وہ ابھی نادان ہے کم عقل ہے ۔تمہارے انکل خود بات کریں گی اس سے۔”من تشاء نے رومان کو بہلایا تھا۔
“مگر پھوپھو۔”رومان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
“رومان میں اسکی ماں ہو مجھے پتا ہے وہ تمیں ناپسند تو نہیں کرتی مگر اسکی تم سے کبھی نہیں بنتی اسلیے وہ ایسا چاہ رہی ہے۔تم دونوں کا ایک ساتھ ٹائم نہیں گزرا اس لیے۔”وہ اسے سمجھا رہی تھی جو جنھجھلایا بیٹھا تھا۔
“پھوپھو جسیی وہ حرکتیں کرتی ہے کہ اسکا خون کھول جاتا ہے۔اس صورتحال میں بننی کیا تھی۔”وہ جھنجھلایا ہوا بولا۔
“دیکھو لڑکے اگر کل کو میری بیٹی پہ ظلم کرنے کا ارادہ ہے تو ابھی بتا دو تم۔تو تو بہت خونخوار ہو۔”منتشاء نے شرارت سے کہا تاکہ اسکا دھیان بڑا سکے۔جو پریشان بیٹھا تھا۔
“پلیز پھوپھو میں سیریس ہو اور میری اتنی مجال نہیں میں اس لڑاکا سے لڑائی کروں ۔”وہ منہ پھلا کے بولا۔
اور منتشاء اپنے لاڈلے ہونہار بھتیجے کو پیار سے دیکھ رہی تھی جو اب انکو اور بھی پیارا ہو گیا تھا۔اور اب تو اسکی آنکھوں میں انکو اپنی بیٹی کے لیے عزت ،محبت اور خلوص کے جگنو بھی ٹمٹماتے نظر آرہے تھے۔
“دیکھو بیٹا لڑکیاں بہت نرم دل ہوتی ہیں اور موم کی طرح نازک۔انہیں جس سانچے میں ڈھالا جاتا ہے وہ ڈھل جاتی ہیں۔ اگر اب وہ تمہیں پسند نہی کرتی تو بعد میں جب شادی ہو گئی تو ساتھ رہنے سے خودبخود ہی محبت ہو جائے گی اسے” منتشا۶ نے رومان سے کہا۔
“میں اپنی بیٹی کی دشمن نہی ہوں اور نہ ہی دقیانوسی سوچ کی مالک ہوں کہ لڑکی کی زبردستی شادی کر دی جائے میں صرف اپنی بیٹی کو محفوظ ہاتھوں میں سونپنا چاہتی ہوں۔ اس شخص کے ہاتھ جو اسکی عزت کرے اسکو خوشیاں دے اور اسکی حفاظت کرے۔ جو کہ صرف تم ہی کرسکتے ہو۔” منتشا۶ رومان سے کہہ رہیں تھیں اور وہ انکا مفہوم بخوبی سمجھ رہا تھا۔
“حیا ناسمجھ ہے لیکن تم نہی۔۔۔اسی لیے اسکی شادی تمہی سے ہوگی۔” منتشا۶ بولیں
“ٹھیک ہے لیکن آپ لوگوں کو میرے ساتھ ایک وعدہ کرنا ہوگا۔ کہ حیا کو کوئی بھی نہ بتائے کہ اسکی شادی میرے ساتھ ہو رہی ہے۔۔یہ بات اسکو شادی کے دن ہی پتا چلنی چاہیے۔” رومان پر سوچ انداز میں بولا۔
“مگر بیٹا۔۔۔” رومان منتشا۶ نے کہا
“نو اگر مگر۔۔۔ بس۔۔آپ کو ایسا ہی کرنا ہو گا۔” رومان بات کاٹ کر بولا۔۔
منتشا۶ نے ہار مان لی۔ کیونکہ انہیں پتا تھا کہ
وہ کوئی غلط کام نہی کرے گا۔
“تو مس حیا آپکو شادی سے پہلے اپنے عشق میں گرفتار نہ کر لیا تو میرا نام رومان احسن نہی” رومان نے ہنستے ہوئے سوچا تھا اور آنے والے دنوں کی پلاننگ کرنے لگا۔
رومان نے ٹھیک دو ہفتے بعد شادی کی ڈیٹ فکس کر والی۔ جب حیا کو پتا چلا کہ اسکی شادی رومان سے نہی ہو رہی تو وہ مرجھا ہی گئی۔اسے ایسے لگا تھا کہ جیسے کسی نے اسے آسمان سے اٹھا کر زمین پر پھینک دیا ہو۔اسے اپنے ماں باپ کی بے رخی پر بھی غصہ آیا جو اسکی شادی کسی انجان شخص سے کروا رہے تھے۔ لیکن جب یہ خیال آتا کی رومان کا پرپوزل خود اسی نے ٹھکرایہ تھا تو وہ نڈھال ہو جاتی۔
وہ ہاں بھی کیسے کہتی کہ اس نے خود اسے کسی لڑکی کے ساتھ دیکھا تھا مطلب صاف تھا کہ وہ کسی اور کو چاہتا ہے
سب شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے سوآئے حیا کہ اسے تو شب و روز کی کوئی فکر ہی نہ تھی۔ اسے یہ سوچ ہی کھائے جارہی تھی کہ وہ کسی اور کی ہو رہی ہے شام کو سب ٹی وی لاونج میں جمع تھے لیکن وہ کمرے میں بند تھی
“رومان کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا؟؟ کیوں تم مجھے اچھے لگنے لگے”
“کاش یہ سب تم میرے لیے ہو رہا ہوتا ۔۔”اسنے کرب سے سوچا۔
“نہیں مجھے خود کو سنبھلنا ہو گا میرا خود کا ہی یہ فیصلہ تھا۔پھر اب کیوں ۔”باہر سے سب کی ہنسی کی آوازیں آ رہی تھیں ۔
حیا اٹھی اور واش روم میں گئی حلیہ ٹھیک کیا ۔اور باہر نکل آئی بجھے دل سے ۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ سوالات جنم کے اسکے رویے کو لے کے۔
وہ چپ چاپ لاونج کے میں ایک سائیڈ پہ رکھی چئیر پہ بیٹھی گلاس ڈور سے لان میں لگے پھولوں کو دیکھنے لگ گئی۔
منتشاء کو تو بیٹی کی حالت دیکھ کے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بھی انجانے میں رومان کو چاہنے لگ گئی ہے۔
لگت انا کے ہاتھوں مجبور تھی۔ان سے اپنی بیٹی کی حالت نہ دیکھی جاتی تھی مگر رومان کی وجہ سے خاموش تھیں ۔
“ہیلو ایوری باڈی ۔”رومان نے لاونج میں داخل ہوتے بلند آواز میں کہا تو حیا نے ایک نظر اسکے تروتازہ چہرے پہ ڈالی ۔جو ڈیٹ فکس ہونے پہ آئی تھی۔
رومان یوں ہی خوش رہتا تھا۔ حیا نے پھر لان میں دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ آنکھوں میں نمی آگئی تھی۔ رومان نے بھی حیا کو دیکھا تھا جو چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھی تھی۔
“آؤ بیٹھو میں چائے لے کر آتی ہوں۔ “من تشاء نے رومان کو بیٹھنے کے لئے کہا تھا اور چائے لینے کچن میں آگئی تھی۔ “بھائی جان ہم بھابھی کے لیے شاپنگ کب کرنے جائیں گے۔ “نیہا نے پوچھا تھا۔
“ہاں بیٹا دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ تم بس یوں کرنا کہ شادی کے دن والا ڈریس اپنی پسند سے لے لینا باقی ہم لوگ خود کر لیں گے۔ “شائستہ بیگم بھی بولیں تھیں۔ جبکہ رومان حیا کو ستانے کیلئے تیار ہو گیا تھا۔
“کوئی کلر آپ نے سلیکٹ کیا کہ نہیں۔ “نیہا نے پوچھا تھا۔
“ویسے تو اس پر ہر رنگ ہی اچھا لگتا ہے پر ہم ریڈ کلر میں ڈریس لیں گے۔ “رومان نے حیا کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ جو چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھی تھی۔
حیا کے دل میں کچھ ٹوٹا تھا۔ کیسے وہ اپنی ہونے والی بیوی کی تعریفیں کر رہا تھا۔
“حیا تمہارے سسرال والے بھی تمہیں شاپنگ پر لے کر جانا چاہتے ہیں آج بھی ان کا فون آیا تھا تم مجھے بتا دو کب جانا ہے۔ “شائستہ بیگم نے کہا تھا۔
“مجھے کہی نہیں جانا ہے اور کبھی بھی نہیں جانا ہے۔ ”
حیا غصے سے کہتے ہوئے باہر نکل گئی تھی۔
“کیوں نہیں جانا تم نے۔ تم ضرور جاؤ گی۔ “پیچھے سے رومان کی آواز آئی تھی۔ حیا نے سارے آنسو اندر اتار لیے تھے۔
“یہ میرا پرسنل میٹر ہے آپ نہ بولے گے تو بہتر ہوگا”۔ حیا نے رکھائی سے کہا تھا اور آگے بڑھ گئی تھی۔
“کیوں نہ بولوں۔ کیا ہوا اگر ہم شادی کے بندھن میں نہ بندھ سکےہمارا اور بھی رشتہ تو ہے ناں۔ “رومان حیا کے بالکل سامنے آکے بولا تھا۔
“آپ کیا کہنا چاہتے ہیں میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں۔ “حیا نے زور سے کہا تھا۔
“تم مانو یا نہ مانو ہمارا رشتہ تو ضرور ہے۔ بہت خاص رشتہ ہے جسے تم سمجھ ہی نہیں رہی ہو۔ “رومان حیا کے اور نزدیک آگیا تھا اور بولا تھا حیا کو انجانا سا احساس ہورہا تھا۔۔
“نہیں کوئی بھی نہیں ہے دل کا بھی نہیں ہے۔ “حیا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے۔
“میں نے یہ کب کہا کہ ہمارا دل کا رشتہ ہے بولو۔ “رومان نے گھمبیر لہجے میں کہا تھا۔ رومان نے حیا کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا۔
یہ شخص اب کیا چاہتا ہے کوئی نئی کہانی عبارت کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ کیوں اس طرح کی باتیں کررہا ہے جبکہ اس کی شادی ہو رہی ہے کسی اور کے ساتھ۔ ایک منٹ میں حیا بجلی کی طرح پیچھے ہٹی تھی۔ احساس کا حصار ٹوٹا تھا اور حیا بھاگ کر اندر چلی گئی تھی۔۔۔
مطلب یہ کہ کچھ نہ کچھ اثر ہو رہا ہے۔ پتھر پگھل رہا ہے۔ رومان نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
_____________________________________________
شام کو سب لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ سب رومان کا اپنی دلہن کے لیے پسند کیا ہوا جوڑا دیکھ رہے تھے۔ ریڈ کلر کےنفیس سے کپڑے پہ عمدہ سا کام کیا گیا تھا۔ ساتھ میں میچنگ شرارہ تھا اور دوپٹے پر گولڈن کلر کا کام تھا جو ستاروں کی مانند لگ رہا تھا۔ سب ہی رومان کی پسند کی تعریف کر رہے تھے۔ حیا بھی یہاں مجبوراً بیٹھی ہوئی تھی۔ رومان تو مارکیٹ سے ہی ہاسٹل چلا گیا تھا۔
“حیا بیٹا ادھر تو آؤ دیکھوں تو ذرا یہ کلر تم پر کیسا لگتا ہے پھر تمہارے لیے بھی اسی رنگ کا سوٹ بنوا لیں گے۔ “شائستہ بیگم نے حیا کو پکارا تھا۔
“نہیں میرا دل نہیں کر رہا۔ “حیا نے صاف انکار کیا تھا۔
“تم چپ کرو میں نے تمہیں بلایا ہے مرضی نہیں پوچھی تمہاری۔ پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے تمہیں ہر بات کے جواب میں نہیں نہیں کہتی ہو۔ “شائستہ بیگم نے کہا تھا۔
شائستہ بیگم نے اس کے سر پر نفیس سا دوپٹہ اوڑھا تھا۔ اور حیا نہ نہ کرتی رہ گئی تھی۔
“ماشاءاللہ میری بیٹی کتنی پیاری لگ رہی ہے دیکھو تو من تشاء بالکل پری۔ “شائستہ بیگم نے پیار سے کہتے ہوئے اس کی پیشانی چوم کی۔
“ماشاءاللّٰٰہ۔”وہ بھی بولیں تھی۔
“کتنی پیاری لگ رہی ہو تم حیا میں ابھی کیمرہ لے کے آئی اتارنا نہ ابھی۔”نیہا کہتی اندر بھاگ گئی۔
“اچھا تم اتارنا مت ورنہ اسنے تمہاری جان کھا لینی ہے۔ہم ذرا سرمد بھائی طرف جا رہے۔”وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی دونوں ۔
وہ جھنجھلائی سی صوفے پہ بیٹھی گئی ۔
“کیا مصیبت ہے۔”وہ کوفت سے بولی۔نیہا کی دوست کا فون آگیا اسنے اندر سے ہی ویٹ کی آواز لگائی اور کال پہ لگ گئی اور اب یہ منٹ کم از کم ایک گھنٹے کے برابر ہوں گئے یہ حیا جانتی تھی ۔وہ مارے بندھے بیٹھی تھی۔دو منٹ بعد ڈاکٹر صاحب کی انٹری ہوئی تھی لاونج میں ۔سامنے کا منظر اسکی آنکھوں کے کیے فرحت بخش تھا ۔اسکے انداز پہ لب مسکرا اٹھے۔جو سخت کوفت میں تھی ۔جیسے ابھی ڈوپٹہ اتار پھینکے گئی۔
“مائی ایگواسٹک گرل۔”وہ زیر لب کہتا آگے بڑھ آیا۔
حیا نے جب اسے دیکھا تو فورا اٹھی۔
گھبراہٹ میں ڈوپٹہ بھی سرک گیا ۔اور چہرے پہ سرخی بڑھ گئی۔
“تم نے میری ہونے والی بیوی کا ڈوپٹہ کیوں لیا ۔تمہاری جرات کیسے ہوئی”حیا نے سوچا ایسا جملہ اسکی طرف سے آئےگا ۔اس سے پہلے کہ وہ سوچے کہ میں اس سے شادی نہ ہونے سے پچھتا رہی ہو میں خود ہی بتا دیتی ہوں ۔
“دیکھیں اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔یہ ممانی نے مجھے دیا ہے میں نہیں لے رہی تھی مجھے پتہ تھا آپ ناراض ہو گے۔”حیا نے اپنی صفائی پیش کی۔ساتھ ہی آنکھوں میں آنسوؤں آگئے تھے ۔وہ جانے کے کیے مڑی وہ اب کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی وہ بھی اسکے سامنے تو بلکل نہیں فوراً جانے کے لیے مڑی۔
“کیا فرق پڑتا ہے بعد میں بھی تو تم لینا ہے اب بھی لے لیاتو کیا ہوا۔”رومان نے حیا کی کلائی پکڑ کے اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔حیا ہونق کھڑی اسکے لفظوں پہ غور کر رہی تھی۔
“مطلب کیا ہے آپکا اس سے ۔”وہ حیرت سے کھڑی پوچھ رہی تھی۔
“مطلب وہ ہی جو میں نے کہا ہے۔”وہ براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئی بولا۔مگر وہ ابھی بھی اس ہی کیفیت میں کھڑی تھی۔رومان نے بالآخر اسے مزید تنگ نہ کیا۔رومان کو اس پہ ترس ہی آ گیا۔
“اچھا اچھا سنو پھر۔مطلب یہ کہ میری جذباتی گرل میری شادی تم سے ہی ہو رہی ہے ۔یہ سب ڈرامہ تمہیں تنگ کرنے کو کیا جا رہا تھا۔بلکہ راہ راست پہ لانے کو۔”وہ اسکی طرف محبت سے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔جس کی آنکھوں میں اب بن موسم برسات امڈ آئی تھی۔قدرت کیسے مہربانی ہوئی تھی اس پہ ۔
سپنوں کو تعبیر یوں بھی ملتی ہے۔
“ہاں جب تم نے یہ بکواس کی تھی ناں تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی اور جس سے مرضی کر دیں ۔تب ہی میں نے یہ پلان بنایا تھا۔کہ محترمہ کا سارے بل کس نکال نہ دئے میرا نام بھی رومان احسن نئیں ۔غصہ تو بہت آیا تھا کہ پکڑ کے محترمہ کے ہوش ٹھکانے لگا دوں جو اپنی ضد کے ہاتھوں سب ختم کرنے چلی مگر پھر۔”
وہ غصے سے بولا۔
“پلان تو تمہیں اور ستانے کا تھا مگر پتہ چلا آپ تو پہلے ہی پاگل ہیں ۔”وہ اب شرارت سے بولا۔
“رومان بھائی۔”حیا منمنائی
“لاحول یار بھائی کہنا تو بند کروں کیا بھائی بھائی کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔”وہ بد مزہ ہوا تو حیا کھلکھلا کے ہنسی ۔
“جنگلی بلی۔”رومان نے اسے گھور کے دیکھا ۔
رومان کے بدلے رویے پہ وہ خود حیران تھی۔
“آپ سے کس نے کہا ہے کہ میں اپ سے پیار ویار کرتی ہوں۔”وہ اب گھور کے پوچھ رہی تھی۔
جس دن سے تمہیں پتہ چلا ہے کہ میری شادی فکس ہو گئی ہے بات بے بات پہ رونے بیٹھ جاتی ہوں ۔کمرہ نشین ہو کے رہ گئی ہوں۔جب میں اپنی منگیتر کی تعریفیں کرتا ہو تو وہاں سے بھاگ جاتی ہو۔اور تو اور جب میں تم سے بات کرتا ہوں تو بھی رونے لگی جاتیں ہیں میڈم ۔یہ سب کیا ہے پھر ۔”وہ تیوری چڑھائے پوچھ رہا تھا۔
“وہ تو اسلیے کیونکہ ۔”اب اس سے کوئی بات نہ بن پائی ۔
“وہ جو اسن دن آپ دن دھاڑے لڑکی کا ہاتھ پکڑے بیٹھے تھے جس کی وجہ سے یہ سب ہوا۔”یاد آنے اب وہ کہڑےتیوروں سے پوچھ رہی تھی ۔جس کی وجہ سے یہ سب مسئلہ ہوا تھا۔
“اف لڑکی کون سی لڑکی۔”وہ حیران ہوا یہ کیا ماجرا تھا۔حیا کے بتنے پہ اسے یاد آیا ۔
“حد ہے تم نے اتنا بڑا فیصلہ صرف اس بات پہ لیا ۔ٹھیک کہتے ہیں جذباتی لوگ نقصان اٹھاتے ہیں تم بھی اپنا اور میرا نقصان کرنے چلی تھی۔اس سے میرا ایسا کوئی ریلشن نہیں انکو غور سے دیکھتی تم وہ ہماری بہت ہی سینئیر ڈاکٹر ہیں ۔تمہارے شک دور کرنے کے کیے ورڈ ایجڈ بھی لگا دیتا ہو۔خدا کا خوف کروں کوئی لڑکی۔”وہ حیرت سے بولا ۔
حیا کی آنکھیں بھر آئیں ۔
“یا خدا تم آنسووں کی بنی ہو حیا ۔رونا بند کروں پلیز۔”رومان نے پیار سے اسکے آنسووں سمیٹے۔
حیا اندر جانے کو لپکی۔
“میری دوستان تو سنتی جاؤں ۔میں بھی تم سے پیار کرتا ہو۔تمہاری ہر ادا ۔لڑائی جھگڑے سے مجھے پیار ہے۔”وہ لگاوٹ سے بولا۔
“آپکا مطلب ہے میں لڑاکا ہو۔میں جھگڑا کرتی ہو۔”حیا جاتے جاتے مڑی اور اپنے مخصوص مرنے مارنے والے سٹائل میں کھڑی تھی۔
رومان بھی ہاتھ باندھے کھڑا اسے پیار سے دیکھ رہا تھا۔
“میرا مطلب نہیں ۔ان فیکٹ میں یہ ہی کہہ رہا ہوں۔”وہ شرارت سے بولا۔
“آپ ہے ہی برے ہمیشہ ہی مجھے تنگ کرتے ہیں ۔”حیا نے برا سا منہ بنایا ۔
“حیا میں زندگی کے ہر موڑ پہ تمہارا ساتھ چاہتا ہوں تم ایسے میری زندگی میں داخل ہو چکی ہوں ۔دوں گی میرا ساتھ زندگی کی راہوں میں۔”رومان نے جذبے سے کہتے ہوئے حیا کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔وہ آنکھوں میں امید اور محبت کے جگنو لیے کھڑا تھا جو صرف اور صرف اس نادان لڑکی کے لیے ہی تھے۔
“ہاں ۔”حیا مسکرا کے بولی ۔وہ اب خالی دامن نہیں رہنا چاہتی تھی۔وہ اسکے ہاتھ میں ہاتھ دیتے بولی۔زندگی ایک بار پھر مسکرائی تھی۔زندگی کا سفر اب بلاشبہ خوبصورت ہونا تھا ۔دونوں مسکرا دیے تھے۔
#ختم_شد