”مجھے تم سے محبت ہے تم میری جان ہو عائشہ۔۔
اسی لیے میں نے تم سے شادی کی ہے۔۔
اور تم ہی میری زندگی کا اہم حصہ ہو۔
تمہارے بعد یا پہلے کوئی تمہاری جگہ نہیں لے سکتا۔۔
عائشہ نے جب ارسل کی یہ بات سنی تو کہنے لگی،،
ارسل آپ کی یہ محبت بھری باتیں مجھے ہر روز آپ کی محبت میں مزید گرفتار کر دیتی ہیں ۔۔۔
ارسل عائشہ کا ہاتھ پکڑ کر اس سے محبت بھری باتیں کرنے لگتا ہے۔۔۔
اور عائشہ اسے بس پیار سے تکتی رہتی ہے۔۔۔
اور اپنے اللّٰہ کا شکر ادا کرتی ہے۔
کہ اللّٰہ نے اسے اتنا چاہنے والا اور محبت کرنے والا شوہر دیا۔۔
“محبت کرنے والا شوہر بھی اللہ کی خاص نعمت ہوتا ہے۔۔
جو اس نعمت کو پا گیا وہ دنیا جہاں میں کامیاب ہے۔۔”
💙💙💙💙💙💙💙💙💙
“تم میرا یقین کیوں نہیں کرتے مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔”
” محبت تم اسے محبت کہتی ہو؟؟؟
حرا یہ غلط ہے۔۔
میری شادی ہو چکی ہے۔۔
ارسل نے جان چھڑوانے والے انداز میں کہا تھا۔۔
“تو کیا ہوا؟؟
تم مجھ پہ یقین کرو۔۔
میں تمہیں بہت پسند کرتی ہوں۔۔
تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔۔
“”ارسل””
بے بسی سے حرا نے کہا۔۔
حرا تم میرے ساتھ آفس میں کام کرتی ہو۔۔
اور ہیلپر ہو۔۔
میری نظر میں تم بس یہی ہو۔
اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
دو ٹوک لہجے میں ارسل نے کہا۔
ارسل تم میرا یقین تو کرو۔۔
اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔۔
میں تمہیں ہر خوشی دونگی۔۔
“کیا میں خوبصورت نہیں ہوں؟؟؟
تمہاری بیوی سے زیادہ خوش رکھوں گی تمہیں۔
ہاتھوں کا پیالہ بنا کر حرا نے ارسل کے منہ کو تھاما۔
اور منت کی تھی آنکھوں سے۔۔
ارسل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔۔
حرا تمہارا دماغ کام کرتا ہے۔؟؟
اپنی یہ فضول بکواس بند رکھو۔
اور مجھے کچھ غلط بولنے پہ مجبور مت کرو۔۔
ارسل نے ہاتھ میں پکڑی فائل زور سے میز پہ ماری۔۔
اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔۔
ارسل کے جانے کے بعد حرا کا بلند قہقہہ سنائی دیتا ہے۔
آخر کب تک مجھ سے دور بھاگو گے۔۔
مجھے آتا ہے۔۔
تم جیسوں کو خود کی طرف مائل کرنا۔
میرا نام حرا خان ہے میں بھی اپنے نام کی طرح تمہارے دل میں جگہ بنا لوں گی۔
اور جلدی سے سامان اکھٹا کر کے گھر کو نکلی تھی۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
کھانا بناتے ہوئے عاشی کو ساس کی آواز سنائی دیتی ہے۔۔
بیٹا ایک کپ چائے بنا دو۔
سر میں شدید درد ہورہا ہے۔
جی امی بنا دیتی ہوں۔۔
سر ہلاتی ہوئی وہ بولی تھی۔ ابو کے لیے بھی بنا دیتی ہوں۔ ارسل بھی آنے والے ہوں گے۔۔
ارسل کا نام سوچتے ہوئی وہ مسکرائی تھی۔
” عائشہ اور ارسل کی شادی کو ابھی چھ ماہ ہی ہوئے تھے۔۔
شادی دونوں کے گھر والوں کی پسند سے ہوئی تھی۔۔
لیکن عائشہ کو دیکھتے ہی ارسل نے اسے دنیا کی خوبصورت ترین بیوی مان لیا تھا۔
ارسل کے الفاظ ہر وقت عائشہ کو محبت کا یقین دلاتے تھے۔
ارسل نے اسے کہا ۔کہ دنیا میں اگر اسے کوئی نام پسند ہے۔۔
جو اسے دلکش اور خوبصورت لگتا ہے۔۔۔۔
تو وہ ہے،، وہ ہے۔۔
“عائشہ”
اس لیے عائشہ کو اپنے نام سے بے حد محبت تھی۔۔
اور اس سے کہیں زیادہ محبت اسے اپنے شوہر ارسل سے تھی۔
لیکن شاید وہ نہیں جانتی تھی۔۔ کہ اس محبت کو اپنی بری نظروں سے تباہ کرنے والی کوئی عورت اس کے قریب ہی گھوم رہی ہے۔۔۔
نجانے لوگ کیوں دوسروں کی محبت کو برداشت نہیں کرسکتے۔
اور دوسروں کا گھر برباد کرنے کے نت نیے طریقے ڈھونڈتے رہتے۔۔۔
ارسل کی حرا سے ملاقات آفس میں ہی ہوئی۔۔
” غیروں میں بٹتی رہی تیری گفتگو کی چاشنی ، تیری آواز جِن کا رزق تھی وہ فاقوں سے مر گئے! ۔ ”
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
شادی کے بعد ارسل کو آفس میں اچھی پوسٹ ملی تھی۔
حرا نے پہلے دن سے ہی ارسل پر اپنی نظریں جما لی تھی۔۔
ارسل حرا کو بس آفس کولیک سمجھتا تھا۔۔
اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ارسل کو حرا کا لہجہ عجیب لگنے لگا۔
آخر حرا نے ارسل کو کہہ دیا کہ مجھے تم سے محبت ہے۔
ارسل کو اس بات کا اندازہ تھا اس لیے وہ یہ بات سن کر پریشان اور حیران ہوا۔۔
کیا تم یہ بات نہیں جانتی کہ میں شادی شدہ ہو۔۔
ارسل نے سخت لہجے میں کہا۔
جانتی ہوں۔
تو پھر؟؟؟؟
ارسل محبت کچھ نہیں دیکھتی تم مجھے پہلے دن سے ہی بہت پسند ہو۔
ارسل نے اسے حیرانگی سے دیکھا اور باہر نکل گیا۔
وہ مزید بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔۔
اگنور کرتا ہوا ارسل اس روز روز کی ڈرامے بازیوں سے تنگ آچکا تھا ۔۔۔
لیکن حرا کی طرف سے بات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی تھی۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
جلدی سے وہ چائے بنا کے اپنے ساس سسر کو دیتی ہے۔۔
اتنی دیر میں ارسل بھی آجاتا ہے ۔۔
ارسل کا موڈ حرا کی حرکتوں کی وجہ سے سخت خراب ہوتا ہے۔مگر وہ گھر آنے سے پہلے اپنا موڈ ٹھیک کر لیتا ہے۔
عائشہ کر دیکھ کر ہمیشہ وہ ایسے ہی فریش ہوجاتا تھا۔۔
اور بہتر محسوس کررہا تھا ۔
آپ بھی فریش ہو جائیں میں چائے بنا دیتی ہوں۔۔
پھر ہم سب مل کر کھانا کھائیں گے۔
عائشہ نے پیار سے کہا تھا۔
“جب میں اپنی پیاری سی بیوی کو دیکھتا ہوں۔ تو میری ساری بھوک،اور تھکن ختم ہو جاتی ہے۔
کتنا خوبصورت رشتہ ہے یہ محبت کا اور نکاح کا۔
شیطان کا سب سے پسندیدہ کام میاں ،بیوی میں لڑائی کروانا ہے۔
اسی لیے آج کے انسان نما شیطان اس رشتے کو توڑنے میں لگے رہتے۔۔
ارسل نے عائشہ کو اپنی بانہوں میں لیا تھا۔۔
گال پر چٹکی کاٹتے وہ اسکے منہ کے پاس جا کر سرگوشی کے انداز میں بولا تھا۔
آئی لو یو”””
تم میری زندگی کا سب سے حسین تحفہ ہو۔
سارا دن کام کرتی بیوی کے لیے شوہر کی محبت کے دو بول ہی بہت ہوتے ہیں۔
وہ شرماتے ہوئے ادھر أدھر دیکھتی ہے اور جلدی سے ارسل کی گرفت سے آزاد ہوتی ہے۔
آپ فریش ہوں جب تک میں کھانا لگاتی۔
اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے وہ جلدی سے کچن کی طرف جاتی ہے۔
اس وقت وہ ارسل کی محبت کو وقت نہیں دے سکتی تھی۔۔
اسے جاتا دیکھ کر وہ بھی ہنستا ہوا گنگناتا واش روم کی جانب چلا گیا۔
یہ بارشیں ہیں نور کی”
جو مل گیا ہے جو مل گیا ہے،
ساتھ تیرا،،،،
ہوئے جی ہوئے،عشق میں ہم پاگل”
🧡🧡🧡🧡🧡🧡?🧡🧡🧡
حرا کو بس ارسل کو اپنے پیار کا ثبوت دینا تھا ہر حال میں جس کے لیے وہ آگے کی پلاننگ کرنے لگی تھی۔
میں تمہیں حاصل کر کے رہوں گی۔۔
غصے سے گلاس نیچے زمین پر مارتے ہوئے وہ تیز سانسوں کو بحال کرتی ہے۔
مگر اسکے غصے میں کمی نہیں آتی۔۔
کانچ کا ایک ٹکرا اس کے پاؤں میں لگتا ہے۔
جس سے اسکے جسم میں شدید درد کی لہر ڈورتی ہے۔
اور خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔
ہاتھ سے کانچ کا ٹکڑا نکال کر وہ شدت سے ارسل کو یاد کر کے رونے لگ جاتی ہے۔
یہ شدتیں ستم گر تیرے لیے ہی ہیں”
تو جو ہو میسر،تو گلہ کیسا؟؟
🧡🧡🧡🧡🧡🧡🧡
عائشہ کی ساس سکینہ بیگم اسے بے حد پسند کرتی ہے۔
سکینہ بیگم کافی ہمت والی اور گھریلو خاتون اور پرانے خیالات کی مالک ایک نہایت شریف عورت ہمیشہ دوسروں کا بھلا چاہتیں۔۔
ان کی ہمیشہ سے یہی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے بھی ایسی ہی کوئی لڑکی لے کر آئیں، جو گھر میں رہہ کہ ان کا اور ان کے بیٹے کا خیال رکھے۔
اور سب مل کر رہیں۔۔
سکینہ بیگم کو ہمیشہ سے ماڈرن لڑکیوں سے نفرت تھی جو باہر جاتی اور نوکریاں کرتی ہیں ۔
انکا بھی سب کی طرح یہی ماننا تھا باہر کام کرنے والی لڑکیاں بہت چالاک ہوتی ہیں۔۔
بس جس دن یہ سوچ بدل گئی معاشرے کے بہت سے لوگ ایک اچھی زندگی گزاریں گے۔۔
🧡🧡🧡🧡🧡🧡🧡🧡🧡🧡
____کھانے کے میز پہ سب بیٹھے کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ ہنسی مذاق میں مصروف تھے۔۔
ارسل، عائشہ کو تنگ کرنے کے لیے اپنی امی کو کہتا ہے کہ آپ کی بہو تو کھانا بالکل اچھا نہیں بناتی اور کن آکھیوں سے اس کی طرف دیکھ کر اسے چڑاتا ہے۔
کمرے میں کی گئ حرکت پر وہ عائشہ پر مصنوعی غصہ نکال رہا تھا۔۔
خبردار میری بہو کو کچھ کہا تو۔
یہ تو ہیرا ہے لاکھوں میں ایک۔ ارسل کے والد(الطاف صاحب) جلدی سے بولتے ہوئے اسے تنبہہ کرتے ہوئے وارن کرتے ہیں۔
میری بہو کے ہاتھ کا کھانا بہت لذیز ہوتا ہے۔
جس پر سکینہ بیگم الطاف صاحب کو گھور کر دیکھتے ہوئے مسکراتی ہیں۔
ویسے کبھی ہماری بھی تعریف کردیا کریں۔
الطاف صاحب یا صرف بہو ہی اس قابل ہے۔
سکینہ بیگم بھی آج مزاح کے موڈ میں تھیں۔
الطاف صاحب اور ارسل اس بات پر اونچی اونچی آواز میں ہنستے ہوئے کھانا کھاتے ہیں اور سکینہ بیگم بھی انکا ساتھ دیتیں ہیں۔
جبکہ عائشہ ارسل کی بند ہوتی زبان دیکھ کر دل ہی دل میں ہنستی ہے۔۔اور ساتھ ہی اتنی محبت پر سرشار ہوکر شکر بھی ادا کررہی ہوتی ہے۔
جو اسے اتنا اچھا گھر اور پیار کرنے والے لوگ ملے۔۔
اچانک ارسل کے موبائل پر رنگ ٹیون سب کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔۔
🧡🧡🧡🧡🧡🧡🧡🧡🧡🧡
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...