بے کیف سے دن گزر رہے تھے۔ ماہین اور زری یونیورسٹی جانا شروع کر چکی تھیں۔ انہیں یونیورسٹی جاتے ہوئے مہینہ ہونے کو آیا تھا۔
زری کی اس فون کال کے بعد ابان سے پھر کبھی بات نہیں ہوئی۔
“السلام علیکم تائی جان۔۔۔۔” آج زری کافی دنوں کے بعد لغاری ہاوس آئی تھی کیونکہ دو دن سے آغا جان پارک نہیں آرہے تھے۔ وہ ان کی خیریت دریافت کرنے چلی آئی۔
وعلیکم سلام محترمہ! صد شکر کے تمہیں بھی اپنے آغا جان کا خیال آیا ۔
ایسی بات نہیں ہے تائی جان میں آنا چاہتی تھی، لیکن امی کی بھی طبیعت خراب تھی جس کی وجہ سے میں آ نہ سکی۔
لائیے مجھے دیں میں یہ کپڑے دھو دیتی ہوں۔۔۔ آمنہ بیگم کپڑوں کی مشین لگائے ہوئے تھی۔
ٹھیک ہے تم کپڑے دھو دو میں کھانا بنا دیتی ہوں، ویسے بھی آج ماہی اپنی خالا کی طرف گئی ہوئی ہے۔
تائی جان آپ ایسا کریں آپ آرام کریں میں مشین لگانے کے بعد کھانا بھی بنا دوں گی۔
ٹھیک ہے پھر اپنے آغا جان کیلئے سوپ بھی بنا دینا وہ یہ کہہ کر اندر کی طرف بڑھ گئیں۔
وہ اکثر ان کے کام کر دیا کرتی تھی۔
ابھی وہ مشین لگا کر فارغ ہوئی تھی کہ دروازہ کھٹکنے کی آواز آئی۔
واؤ۔۔۔۔۔ تم اور گھر میں یقیناً آغاجان سے ملنے ہی آئی ہوگی۔ ہانیہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔۔۔۔ وہ دروازہ بند کرنے کو تھی جب ہانی بول پڑی، رکھو! یاسر اورسمیعہ(خالہ زاد) بھی آئے ہیں۔
اسلام علیکم یاسر نے اندر داخل ہوتے ہوئے سلام کیا جبکہ سمیعہ بغیر سلام کیے اندر کی طرف بڑھ گئی ۔
زری نے سلام کا جواب دیا اور کچن کی طرف چل دی، کیونکہ اسے ابھی آغاجان کیلئے لئے سوپ بنانا تھا اور دوپہر کا کھانا بھی تیار کرنا تھا۔
زری تم کچن میں کیوں آگئی۔ اب میں بنا لوں گی۔ تم جاؤ سمیعہ اور یاسر بھائی کو کمپنی دو۔
نہیں تم ریفریشمنٹ تیار کرو میں آغا جان کے لئے سوپ بنا کر انہیں دے کر آتی ہوں، پھر مل کر ان کے پاس بیٹھیں گے۔ وہ یہ کہہ کر اپنے کام میں مگن ہوگئی۔ ۔۔۔۔۔ کیونکہ اس طرح اسے اکیلے یاسر کے پاس بیٹھنا نامعقول لگا تھا۔
ماہی کے لیے تو چلو وہ اس کا خالہ زاد بھائی تھا لیکن زری کے لیے تو ایک نامحرم تھا۔ اور وہ یاسر بھائی کی نظروں کو بھی جانتی تھی جس میں احترام کے ساتھ ساتھ ہمدردی کے جذبے پائے جاتے تھے۔ اور زری کو ہمدردی نام سے ویسے ہی چڑ تھی۔
اور ایسے وہ ایک بھرپور تھکا دینے والا دن گزار کر اپنے گھر واپس آگئی تھی۔
__________
تو یہ اس کے ساتھ غلط کر رہا ہے، تو اسے بتا کیوں نہیں دیتا کہ تیرے ڈیڈ تجھے واپس آنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ ابان نے غصے سے کہا۔۔۔۔۔۔
یار تو سمجھ کیوں نہیں رہا۔ یہ میرے لئے بہت مشکل ہے۔
جیسے میرے لیے تو بہت آسان ہے تیری روٹھی محبوبہ کو منانا اور منا کر پاکستان لے کر آنا وہ بھی اپنے ساتھ۔ کیا یہ تیرے لیے مذاق ہے، وہ برہمی سے بولا تھا۔
یار پلیز تو اپنے دوست کے لئے اتنا نہیں کرسکتا اور ویسے بھی تجھے پاکستان آنا تو ہے۔ ہم اپنا بزنس وانڈاپ کر چکے ہیں اور انشاء اللہ جلد ہی پاکستان والی برانچ میں دوبارہ سے سب شروع کریں گے۔
اگر وہ مانی تو ٹھیک ہے، اسے اپنے ساتھ لے آؤنگا ورنہ میرا کہنا تو یہ ہے کہ تو پہلے اپنے موم، ڈیڈ کو راضی کر لے اس کے بعد اس مسئلہ کا کوئی حل نکالتے ہیں۔
ٹھیک ہے اور سناؤ کب کی فلائٹ ہے؟ تجھے لینے آوں۔
نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے میں خود آ جاؤں گا میری فلائٹ نائٹ کی ہے، دو دن بعد کی۔۔۔
__________
ہائے! کیسی ہیں آپ؟ یہ ان کی کلاس کا لڑکا دانیال تھا۔ جو کہ یونی کا ٹوپر تھا۔
بھائی مجھے آپ کے نوٹس چاہیے تھے۔ زری نے ہی بات کا آغاز کیا۔ کیونکہ وہ ماہی کے منہ پھٹ انداز کو اچھے طریقے سے جانتی تھی۔
ہاں کیوں نہیں ضرور، وہ میرے دوست کے پاس ہیں جو دو دن بعد دینے کا کہہ رہا تھا وہ جیسے ہی دیتا ہے میں آپ کو دے دوں گا۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔
ویسے ایک بات پوچھنی تھی میرے نوٹس سے صرف آپ ہی فائدہ اٹھاتی ہیں یا آپ کی دوست بھی اٹھاتی ہے؟ ویسے مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی فائدہ لیتی ہوں گئی۔ وہ ہانیہ کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔
آپ کو اس سے کیا کہ میں پڑھوں یا نا پڑھوں، آپ اپنے کام سے کام رکھا کریں۔
ویسے بھی زری تمہیں اس سے نوٹس لینے کی کیا پڑی ہے، دو دن بعد بھائی آرہے ہیں۔ انہوں نے بھی بزنس ہی پڑا ہے تو تم انہی سے سمجھ لینا۔۔۔۔ مقابل کو جواب تو دینا تھا۔
ویسے زری تمہاری بہن کافی غصے میں رہتی ہے اسے کچھ ٹھنڈا کھلایا پلایا کرو۔۔۔۔۔ وہ مسکراتا ہوا بولا اور ماہی وہاں سے چل دی ۔
ٹھیک ہے بھائی اللہ حافظ۔۔۔۔ ماہی رکو مجھے تو ساتھ لیتی جاؤ۔۔ وہ تیز قدم اٹھاتی ماہی کے ساتھ ہولی۔
ویسے اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی کیا تک تھی کہ تمہارے بھائی دو دن بعد آرہے ہیں۔ معصوم لوگوں کے معصوم دل کا کچھ خیال کیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کو ہنسانے کے لئے بولی تھی۔
میں جھوٹ نہیں کہہ رہی کل بھائی کا فون آیا تھا انہوں نے ہی بتایا ہے کہ وہ دو دن بعد آرہے ہیں۔ ویسے میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے شکریہ، کہ آپ کافی کمزور دل کی پائی گئی ہیں کہ ان کے آنے سے ہی آپ کے دل کو جھٹکے لگ رہے ہیں سوچو جب وہ آجائیں گے تو تمہارا کیا ہوگا۔
اچھا بس اپنی فضول بکواس اپنے پاس رکو۔ میں تو صرف تمہارا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے سب کہہ رہی تھی۔۔۔
اس ستمگر کے آنے کی خبر نے اسے مشکل میں ڈال دیا تھا ۔
قاصد میں جل رہا ہوں تو ان کو جلا کہ آ
ان کے بغیر زندہ ہوں___ ان کو بتا کے آ
___________
ٹھیک ہے پھر جب تم اپنا مائنڈ سیٹ کرلو تو ہمیں انفارم کر دینا۔ کم ازکم اس سے ایک بار بات تو کر لو۔ عاشی وہ بہت مشکل میں ہے۔ پاکستانی ماں، باپ کو سمجھانا بہت مشکل کام ہے۔
وہ جانے سے پہلے ایک بار اس سے مل کر اسے سمجھا کر جانا چاہتا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں اتنی بڑی غلطی نہ کرے آخر وہ اس کی بہترین دوست جو تھی۔۔۔۔
میں بیک اوف نہیں کر رہی، لیکن مجھے سمجھنے میں، اپنی فیملی کو سمجھانے میں کچھ ٹائم تو لگے گا اور میں اپنے آپ کو تھوڑی سپیس دینا چاہتی ہوں۔
ٹھیک ہے پھر بہت جلد پاکستان میں ملاقات ہوگئی۔
اوکے، ایک شرط پر اگر تم مجھے پاکستان میں اس خوبصورت لڑکی سے بھی ملاؤگے جسے تم نے اپنے دل میں جگہ دے رکھی ہے۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔ تم کیوں اس معصوم لڑکی کے پیچھے پڑ گئی ہو۔
یقیناً وہ معصوم ہی ہوگی۔ جو چار سال سے انتظار میں ہے کہ کب اس کے سیاں جی آئیں گے۔وہ شریر لہجے میں بولی۔۔۔۔
آہ!!! انتظار۔۔۔۔۔۔۔۔معصومیت کی تم نے خوب کہی۔ اس معصوم نے مہینہ پہلے میری کال کاٹی وہ بھی میرے منہ پر۔۔۔۔۔ اس کی معصومیت کا اندازہ اسی سے لگا لو کہ وہ کس قدر معصوم ہے۔ اگر تم اسے معصومیت کہتی ہو تو اللہ بچائے مجھے ایسی معصومیت سے۔۔۔۔وہ شرارت سے ہنستے ہوئے بولا۔
تم بھی اتنے معصوم نہیں ہو یقیناً تم ہی نے کچھ غلط کہا ہو گا، جسے سن کر اس نے فون کاٹ دیا ہوگا۔اب وہ دوسروں سے مختلف تو ہوگی بھی اپنے ابان لغاری کی بیوی جو ٹھہری۔ اگر تھوڑی سی ضد، اکڑ اس میں بھی پائی جائے تو کچھ برا نہیں ہے۔ آخر کو اسے ابان لغاری کا مقابلہ کرنا ہے۔
تمہاری باتیں ختم نہیں ہوگئی اور مجھے لیٹ ہو رہا ہے مجھے ابھی گھر والوں کیلئے شاپنگ بھی کرنی ہے۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے ابان لغاری تمہاری ایشین بیوٹی کو دیکھنے عروشے سفیان ضرور آئے گی۔
_____________
آغا جان ایسا مت کریں یار۔۔۔۔۔۔۔ اب میں آ تو گیا۔ اپنی صحت کا کچھ خیال کریں آپ پہلے سے کافی کمزور ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔ یہ خیال رکھتی تھی آپ کی پوتی، ویسا تو کچھ دکھائی نہیں دیا جیسا آپ فون پر بتاتے تھے اپنی پوتی کے قصے کہ وہ میرا ایسا خیال رکھتی ہے۔۔۔۔ روز صبح ورزش کرواتی ہے۔۔۔ یہ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے خلاف تم کچھ مت بولو تو بہتر ہے کیونکہ اگر وہ ہمارے درمیان آئی تو لڑائی ضروری ہے۔
اب داداَ پوتا میں لڑائی ہوا کرے گی وہ بھی ایک لڑکی کی وجہ سے۔
وہ صرف لڑکی نہیں ہے، ہماری پوتی ہے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تم سے تو بہت گہرا تعلق نکلتا ہے اسکا تو اس لئے ذرا سوچ سمجھ کر بولو برخودار۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ میں دیکھ رہا ہوں۔ آپ کب سے اسی کی سائیڈ لیے جارہے ہیں جو کہ یہاں وجود بھی نہیں ہے۔
اس کی نا موجودگی تمہاری وجہ سے ہے برخودار۔۔۔۔
مطلب اب میں ہمیشہ یہں رہنے والا ہوں تو کیا ایک بار بھی نہیں آئے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شرارت سے بولا تھا۔
ویسے آج میں حیران ہوں آپ اتنی رات تک میرا انتظار کر رہے تھے جبکہ میں آپکو منع کر چکا تھا کہ میری فلائٹ رات کی ہے آپ آرام کریے گا۔۔۔
جو آرام تمہیں دیکھنے کے بعد مل رہا ہے اس آرام کا کوئی جواب نہیں۔۔۔
انہی باتوں سے دل جیت لیتے ہیں۔۔۔۔ وہ ان کے گلے لگتے ہوئے بولا۔
اب تم جاؤ اپنے کمرے میں۔ کچھ آرام کرو فریش ہو جاؤ اور پھر تمہیں صبح اپنی ماں، بہن، باپ سے بھی ملنا ہے جو کہ کافی ناراض ہیں تم سے ۔
___________________
بھائی آپ بہت برے ہیں۔ آپ کو صرف چار سال کے لیے بھیجا تھا اور آپ پانچ سال لگا کر آئے ہیں۔ ماہی نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
اچھا ٹھیک ہے اگلی بار جتنا ٹائم بتا کر جاؤں گا، اتنے ٹائم میں ہی واپس آؤں گا۔
خوش فہمی ہے جناب کی، اب ہم کبھی آپ کو جانے نہیں دیں گے۔ جتنا پڑھنا تھا، پڑھ لیا آپ نے۔۔۔۔ میں صحیح کہہ رہی ہوں نا آغا جان؟
ہاں ہماری بیٹی ٹھیک کہہ رہی ہیے۔ اب اس نالائق کو دوبارہ کبھی نہیں بھیجیں گے۔
آغا جان ایسا کرتے ہیں ان کا نکاح تو ہو ہی چکا ہے تو اب کیوں نہ شادی کردی جائے بھائی کی۔۔۔۔ ماہی چہکتے ہوئے بولی تھی۔
اپنے مشورے اپنے پاس رکھو، لڑکیاں اتنا فضول نہیں بولا کتیں۔۔۔۔۔ کچن میں جاؤ گھیر کو دیکھو، اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے فریج میں کھو۔۔۔ ما ہی اپنی ماں کی کڑی باتیں سننے کے بعد وہاں سے چلی گئی۔
بہو میری پوتی ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔ ویسے بھی تمہارے بیٹے کا نکاح ہوچکا ہے تو شادی کرنے میں کیا حرج ہے۔ آج نہیں تو کل یہ فرض سر انجام دینا ہی ہے، تو پھر تیری کیسی۔۔۔۔؟
آغا جان ابھی میں نے اس کے بارے میں نہیں سوچا پہلے میں ماہی کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی ہوں۔
موم آپ اتنا غصہ مت کیا کریں آپ جیسا چاہتی ہیں ویسا ہی ہوگا۔ پہلے ماہی کے فرض سے سبکدوش ہونگے، پھر آگے کے بارے میں سوچیں گے۔ وہ اٹھ کر اپنی ماں کے گلے لگتا ہوا بولا۔
آغاجان وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔۔۔
چلو میں نے تمہارے لئے بہت مزے کا ناشتہ تیار کیا ہے۔۔۔ وہ اپنے بیٹے کو پیار کرتی ہوئی بولی تھیں۔
آپ چلیں میں آغا جان کو لے کر آتا ہوں۔۔۔۔۔
______________
دروازہ نوک ہوا تھا۔۔۔۔
آپ لوگ ناشتہ کریں میں دیکھ کر آتا ہوں۔ ابان یہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھا۔ اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے زری کو دیکھ کر دو پل کے لیے تھم گیا۔
نیلے رنگ کا سوٹ پہنے، وائٹ کیپری اور وائٹ ہی دوپٹہ اچھے طریقے سے سر پر سیٹ کیے یونیورسٹی کا بیگ پہنے،۔۔۔۔ شاید وہ یونیورسٹی جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔
وہ کیسے بھول گئی کہ آج تو اس ستمگر نے آنا تھا۔ وہ بلیک ٹی شرٹ پہنے، بلیک ہی ٹراؤزر پہنے اور قینچی چپل پہنے ہوئے تھا۔ وہ اس عام سے حولیے میں بھی دل میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ پانچ سال بعد اسے دیکھ رہی تھی۔ جس میں سحرانگیز تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں ۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبرو ہوگیا تھا۔ مقابل کو اپنی طرف کھینچنے پر مجبور کر دینے والا۔
السلام علیکم۔۔۔ اس نے ہچکچاتے ہوئے سلام کیا۔ لیکن مقابل دروازہ کھول کر سلام کا جواب دیے بغیر اندر کی طرف بڑھ گیا۔ وہ بھی اس کے پیچھے ہی چل دی۔
السلام علیکم!!!! زری نے سب کو مشترکہ سلام کیا۔
وسلام!!!! آج تو میری بیٹی آئی ہے؟ آغا جان نے پیار سے کہا۔۔۔
زری آؤ رک کیوں گئی؟ سوری یار میں تمہیں بتانا بھول گئی آج یونیورسٹی نہیں جاؤ گی۔ ماہی اور زری ہمیشہ اکٹھی یونیورسٹی جایا کرتی تھیں۔ ماہی تیار ہو کر زری کو لے کر یونیورسٹی کے لیے نکلتی تھی۔ لیکن آج وہ نہیں آئی تھی، جس کی وجہ سے زری اسے خود لینے آئی تھی۔
آؤ۔۔۔ بیٹا ناشتہ کرو ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔
نہیں آغا جان میں ناشتہ کر کے آئی ہوں۔ اس نے ایک نظر ابان پر ڈالتے ہوئے جواب دیا جو بے نیازی سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔ واپس مڑنے ہی لگی تھی کہ آغاجان کی آواز پر رک گئی۔
زری فبیٹا اکیلے کیسے جاؤ گی، دو منٹ رک جاؤ ابان ناشتہ کرلے پھر وہ تمہیں چھوڑ آئے گا۔
اس سے پہلے زری کچھ بولتی ابان بول پڑا۔۔۔۔ “آغا جان میرے پاس ٹائم نہیں ہے مجھے فہد سے ملنا ہے۔ وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔”
اتنی بھی کیا جلدی ہے برخوردار بچی کو چھوڑتے ہوئے چلے جانا۔۔۔۔ آغا جان اپنی بات کہہ کر چل دیئے۔
لو۔۔۔ آئے ہوئے ایک دن نہیں ہوا اور بوجھ پہلے ہی لاد دیا میرے بیٹے پر۔۔۔۔۔ آمنہ بیگم نحوست سے کہتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئیں۔
زری کو اپنا وہاں کھڑے رہنا بے معنی لگا تھا وہ بغیر کچھ کہےیا سنے باہر کی طرف قدم بڑھا چکی تھی۔
________________
وہ ابھی تھوڑی ہی دور چلی تھی کہ گاڑی کا حارن سنائی دیا۔ لیکن شاید حارن دینے والا پاگل ہو چکا تھا جو مسلسل دیے ہی جا رہا تھا۔
جب اس نے غصے سے مڑ کر پیچھے دیکھا تو وہ دشمن جان گاڑی سے اتر چکا تھا اور اسی کی طرف بھڑ رہا تھا۔
گاڑی میں بیٹھو! وہ یہ کہہ کر خود گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔
زرفشاں کچھ نہ بولی اور فرنٹ سیٹ پر اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ زری نے ایک نظر اس شخص کو دیکھا، جسے دیکھنے کا وہ پورا حق رکھتی تھی۔
ہم دل کے ہاتھوں بہت بے بس ہوجاتے ہیں کیونکہ ہمارا اس پر اختیار نہیں ہوتا یہ دل جس کی محبت اپنے اندر بسا لے تو اس کے علاوہ اسے کوئی اور نظر کی کہاں آتا ہے یہ نہیں جانتا کہ نظر انداز ہونے کی اذیت کیا ہوتی ہے۔ بس اسے تو اپنی پسندیدہ شخص کی طلب ہوتی ہے پھر چاہے اس کے حصول میں ہم خود ہی کیوں نہ ٹوٹ جائے۔ یہی سب زری کے ساتھ ہو رہا تھا۔
وہ پورے راستے کچھ نہیں بولا تھا، لیکن اس کی نظریں خود پر محسوس کر سکتا تھا، جو گاہے بگاہے اسے ہی دیکھی جا رہی تھی۔
اترو۔۔۔۔ اس نے سخت لہجے میں کہا۔
جی۔۔۔۔ اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ کیسا عجیب شخص ہے کبھی خود ہی کہتا ہے بیٹھو اور کبھی بیچ راستے میں کہہ دیتا ہے اترو۔ ابھی وہ اسے بے یقینی سے دیکھ ہی رہی تھی کہ وہ بول پڑا۔
یہی یونیورسٹی ہے نا تمہاری؟ یونیورسٹی آجکی ہے تو عزت مآب منکوحہ محترمہ آپ اترنا پسند کریں گی؟ کیونکہ آپ کی ڈرائیوری کے علاوہ مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں۔
اس نے اردگرد نگاہ دوڑائی تو اس کی یونیورسٹی آ چکی تھی۔ لیکن وہ ہونز اسی کو دیکھے جا رہی تھے۔ کیسا شخص تھا کبھی اس کے سلام کا جواب تک نہ دینا پسند کرتا تھا اور اب ایسے باتیں کر رہا تھا جیسے اس سے بات کرنے کے علاوہ کوئی اور کام ہو ہی نہ۔۔۔۔
زرفشاں بی بی آپ کی یونیورسٹی، اس نے اسے اپنی طرف تکتا پاکر یونیورسٹی کی طرف اشارہ کیا زری کو ایک دم اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا اور جلدی سے دروازہ کھول کر اتر گئی۔
وہ بغیر کچھ کہے زن سے گاڑی لے گیا۔ زری اندر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔
____________
وہ فہد سے ملنے کے بعد، اپنے آفس کی برانچ کا وزٹ کرنے آیا تھا۔ لیکن اس کو ایک پل سکون نہیں مل رہا تھا۔
زری کے چہرے کی معصومیت، اس کی آنکھوں میں محبت کے دیپ، کچھ بھی بھلا دینے کے مترادف ہی تو تھا۔
تیرے سوا کوئی وہم و گماں میں ہی نہیں
کوئی دوسرا تو میری داستان میں ہی نہیں
میں کسی اور کا ہو جاؤں یہ کیسے ممکن ہے
یہ حوصلہ تو جاناں، اس بےجان میں ہی نہیں
وہ اپنی بے چینی کا حل جانتا تھا اسی لیے چابی اٹھائی اور آفس سے باہر نکل گیا اب اس کا رخ اس کی یونیورسٹی کی طرف تھا۔
یونیورسٹی پہنچ کراسنے اوف ٹائمنگ کے بارے میں پوچھا تو ابھی ایک گھنٹہ پڑا تھا، اسے اپنی بیوقوفی پر افسوس ہوا۔ اگر وہ اس سے اس کی اوف ٹائمنگ پوچھ لیتا تو اسے انتظار نہ کرنا پڑتا۔
ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد آخر اس کو وہ یونیورسٹی سے نکلتی ہوئی نظر آئی۔۔۔۔
جیسے ہی اس نے اردگرد دیکھا تو کافی لڑکیاں اسی کی طرف متوجہ تھی، جو تھری پیس سوٹ پہنے، کافی خوبصورت لگ رہا تھا۔
ہیلو!!!!! اس نے ابھی اسی کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ اسے دانیال رستے میں مل گیا وہ شاید اسے نوٹس دینے آیا تھا۔ جس کا مطالبہ وہ دو دن پہلے اس سے کر چکی تھی۔ سلام کے بعد اس کی طرف نوٹس بڑھائے تھے اور ہانیہ کے بارے میں بات کی گئی تھی جس پر وہ دونوں مسکرائے تھے۔ اور دور کھڑے اس نفوس کو آگ ہی تو لگ گئی تھی۔
وہ گاڑی میں چپ چاپ آکر بیٹھ گئی۔ اس کے سنجیدہ تاثرات دیکھ کر اسے خود پر غصہ آیا کہ وہ اسے بتا دے آیا وہ صرف اس کا کلاس فیلو ہے اور کچھ بھی نہیں۔ لیکن اس کے کہے گئے الفاظ وہ آج تک بھلا نہیں پائی تھی وہ تزلیل بھری باتیں جو اس کی فون پر اس سے آخری گفتگو تھی۔
وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا، بنا کچھ کہے، بنا لڑائی کیے، بس روٹ جانا اسے آتا تھا۔ اس نے کبھی منانا سیکھا ہی نہیں تھا، اپنی غلطی ماننا یہ تو اس کی سرزش میں ہی نہیں تھا۔ اب بھی وہ بنا کچھ پوچھے یا بغیر کچھ کہے سنجیدگی سے گاڑی چلا رہا تھا۔
اب وہ کیسے بتاتی اس ستمگر کو کہ۔۔۔۔۔۔
مجھے تب بھی محبت تھی
مجھے اب بھی محبت ہے
تیرے قدموں کی آہٹ سے
تیری ہر مسکراہٹ سے
تیری باتوں کی خوشبو سے
تیری آنکھوں کے جادو سے
تیری دلکش اداؤں سے
تیری قاتل جفاؤں سے
مجھے تب بھی محبت تھی
مجھے اب بھی محبت ہے
تیری راہوں میں رکنے سے
تیری پلکوں کے جھکنے سے
تیری بےجا شکایت سے
تیری ہر ایک عادت سے
مجھے تب بھی محبت تھی
مجھے اب بھی محبت ہے
_____________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...