خالہ جان آپ۔۔کب آئیں ترکی سے۔۔
سب اس وقت ڈائینگ ایریا میں بیٹھے کھانا کھا رہے۔دانین کی اماں کو دیکھ کر چونک پڑے۔۔اساور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ان سے ملنے کے لیئے آگے بڑھا۔۔
کچن سے نکلتی دانین بھی ساکت ہو گئ تھی اپنی ماں کو دیکھ کر۔۔
چٹاخ۔۔۔۔تھپڑ کی گونج سب کے کانوں میں پڑی تو اپنی اپنی جگہ سے سب اٹھ کھڑے ہوۓ۔۔
خالہ جان۔!! اساور گال پر ہاتھ رکھے جہاں تھپڑ اپنا نشان چھوڑ گیا تھا بےیقینی سے اپنی خالہ کی طرف دیکھا۔۔
اساور تم نے بہت مایوس کیا مجھے بہت ذیادہ۔میری بیٹی کو کیا سے کیا بنا دیا خالانکہ تم محبت کے دعویدار تھے۔۔دانین کی اماں کے چہرے پر تکلیف واضح تھی۔۔۔۔
دانین نشان زدہ چہرے کے ساتھ سر جھکا گئ تھی جلے ہوۓ ہاتھ کو جلدی سے پیچھے کر کے چھپایا مگر اماں دیکھ چکیں تھیں۔۔
کتنی خودغرض ہیں آپ خالہ اپنی بیٹی کی تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر وہ جو ہمارے کلیجے چھلنی چھلنی ہیں وہ نہیں دکھتے آپ کو۔وہ آپ کا لاڈلا ہمارا سکون چھین کر جو لے گیا ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔اساور بھی سارے لخاظ بالاۓ طاق رکھ چکا تھا۔۔
میں سعدی کی بات کرنے آئ ہوں نہ امان کی یہاں دانین موضوعِ بخث ہے ۔۔سعدی یا امان کی لڑائ سے اس کا کیا لینا دینا۔یہ تو تمہاری منگیتر تھی نہ اسے ہر حال میں تمہارے پاس آنا تھا پھر تم اسے کیوں سزا دے رہے ہو۔۔اماں تکلیف اور افسوس سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔جو مرجھایا ہوا پھول ہو گئ تھی۔۔
تو کیوں بھاگا آپ کا لاڈلا اب یہی آپشن ہے میرے پاس پل پل تڑپاؤں دانین کو اور پھر تو وہ بھاگا چلا آۓ گا۔۔
وہ تو آ جاۓ گا اپنی بہن کی تکلیف دیکھ کر محبت آنے پر مجبور کر دیتی ہے مگر تم نہیں کر سکتے اس کی تکلیف محسوس بہت افسوس کے ساتھ مگر”لعنت ہے تمہاری محبت پر” ۔”_اماں کا بس نہ چلتا تھا اساور کو کہیں پھینک دیں۔۔
محبت تو امان کے ساتھ ہی مر گئ خالہ ۔۔ ۔
اساور کا لہجہ دھیما ہو گیا تھا۔۔
رخشندہ بھابھی کھا جانے والی نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔۔
سائرہ کا اپنا خون کھول رہا تھا۔۔
سومو سر جھکاۓ کرسی پر بیٹھی ٹیبل کو تَک رہی تھی۔۔
مجھے تو اندھیرے میں رکھا میری بیٹی نے میں پوچھتی تو کہتی” کہتی کہ اماں اساور سے سے ذیادہ کون چاہے گا مجھے میں بہت خوش ہوں۔اور میرے بھی ماں ہونے پر تُھو ہے میں اس کی تکلیف اس کے بِنا بتاۓ سمجھ کیوں نہ پائ۔مجھے خود سمجھنا چاہیئے تھا اساور کاظمی محبت کے دعویدار کی محبت مر سکتی ہے”_
مجھے قفیراں نہ بتاتی تو میں جان بھی نہ پاتی اور میری بیٹی کو تم لوگ مار کر اسی خویلی میں کہیں دفنا دیتے۔۔مگر اب اور نہیں اساور اور نہیں۔۔
میں نے دانین اور اساور کی پرورش کی ہے میں نے تربیت کی ہے ان کی سعدی کو بھلے میں نے جنم نہیں دیا مگر وہ خون تو میرا ہی ہے نا۔۔
میں نے نے ہر رشتے کا تقدس اور اخترام ان کو گھول کر پلایا تھا پھر تم نے کیسے کہہ دیا میرا بیٹا اور بیٹی۔۔ ۔ ۔ کہتے کہتے وہ رک گئ سر جھٹکا کہ اس سے آگے کی بات وہ نہیں کر سکتیں تھیں۔۔
تو فقیراں نے پل پل کی خبر دی ہوئ ہے جاسوس تھی وہ یہاں آپ کی۔۔رخشندہ بھیگم غصے سے چلائ تھیں۔۔
ہاں اور اب میں دانین کو لینے آئ ہوں چلو دانین ۔۔اماں دانین کی طرف دیکھ کر بولیں تھیں۔۔۔
کبھی نہیں خالہ کبھی بھی نہیں جب تک سعدی خود کو میرے خوالے نہیں کر دیتا دانین یہاں سے ایک قدم بھی باہر نہ نکالے گی۔۔اساور ان کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
دیکھتی ہوں میں بھی میری بیٹی کو میرے ساتھ جانے سے کیسے روکتے ہو۔۔خالہ جان نے سختی سے کہا۔۔
خالہ مجھے مجبور مت کریں میں سارے لخاظ بھول جاؤں۔۔اساور بدتمیزی سے بولا تھا۔۔
ان کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا تھا یہ وہ اساور تو نہ تھا جسے انہوں نے اپنی بہن کے مرنے کے بعد بچوں کی طرح پالا تھا یہ وہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔
یہ اگر اساور نہیں تھا تو کون تھا پھر۔۔؟؟ وہ اسے دیکھے گئیں۔۔
دل میں درد کی ایک شدید لہر اٹھی۔نظر اٹھا کر دانین کو دیکھا تو وہ لہر دریا بن گئیں تھیں اور وہ آنکھوں میں بےیقینی لیئے زمین پر ڈھے گئیں۔۔
اساور نے حیرانی سے گرتی ہوئ خالہ کو دیکھا۔۔دانین بھی تیزی سے ان کی طرف بڑھی۔۔
اماں۔۔!! اماں۔۔!! وہ زمین پر پڑی ماں کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چلائ تھی۔۔سومو بھی تیزی سے پاس پہنچی اور ان کی نبض ٹٹولنے لگی پھر ایک دم اس کا چہرہ فق ہوا تھا دانین نے سومو کو دیکھا اور پھر سامنے بےجان پڑی اپنی ماں کو ۔۔۔۔۔۔
خالہ خالہ!! ۔۔اساور بھی ان کے طرف بڑھا تھا۔۔
بس دور رہو میں نے کہا دور رہو میری ماں سے۔۔ دانین خلق کے بل چلائ تھی اتنا تیز کے کاظمی حویلی کی درودیوار کانپ کر رہ گئیں۔۔
اساور کے بڑھتے ہاتھ رکے تھے۔۔
خوش ہو جاؤ اساور کاظمی خوش ہو جاؤ تم سب میری ماں مر گئ۔۔باری باری سب کو دیکھتی وہ آنسوؤں سے بھرے چہرے کے ساتھ بولی تھی۔۔
رخشندہ اور سائرہ نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔اساور لڑکھڑاتا ہوا ڈھے گیا تھا۔۔اسے لگا اس کا پورا وجود شل ہو گیا ہے۔۔
وہ حیرانی سے سامنے مردہ پڑی اپنی ماں جیسی خالہ کو دیکھ رہا تھا۔۔
نہیں اماں مجھے چھوڑ چھوڑ کر مت جائیں مت جائیں اماں۔۔دانین کی آواز پر وہ جو ٹیرس پر کھڑا تھا تیزی سے اس کی طرف بھاگا وہ نیند میں بڑبڑا رہی تھی ۔جسم پسینے سے شرابور تھا۔وہ کانپ رہی تھی۔۔۔
دانین دانین۔!! اساور نے اس کو کندھے سے ہلایا تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔وہ بہت ڈری ہوئ تھی سہمی ہوئ تھی۔۔
کیا ہوا دانین ٹھیک ہو تم۔۔اساور نے فکرمندی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔۔
وہ اماں جا رہی ہیں انہیں کہو مت جائیں پلیز نہیں نہیں۔۔ ۔ وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔
اساور کو پچھتاوے نے پھر سے آن گھیرا وہ جانتا تھا ماضی کا کون سا واقعہ اسے بار بار خواب بن کر ستاتا ہے۔۔
اس نے دھیرے سے دانین کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگایا۔۔
ڈری سہمی سی دانین بنا کچھ کہے اس کے سینے میں منہ چھپا کر رو دی تھی۔۔
وہ اس کے بال سہلا رہا تھا اسے تسلی دے رہا تھا مگر دانین کے رونے میں شدت آ چکی تھی اساور کی شرٹ کو دانین کے آنسوؤں نے بھگو دیا تھا۔۔
کچھ پل ایسے ہی گزرے تھے۔۔پھر ایک جھٹکے سے دانین نے سر اٹھایا اور اس سے دور ہوئ تھی۔۔
آنکھوں میں نفرت اور سردمہری لوٹ آئ تھی۔۔
جاؤ یہاں سے جاؤ۔۔دانین چلائ تھی غصے کی شدت سے۔۔
دانین ۔۔!!!
شٹ اپ اینڈ گیٹ آؤٹ۔۔تم ذمہ دار ہو اس سب کے ۔میری ماں تمہاری وجہ سے مری تھی ۔۔میں تم سے نفرت کرتی ہوں شدید نفرت ۔۔
اساور آنکھیں میچتے اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔۔
پیچھے وہ لمبے لمبے سانس لیتی سر ہاتھوں میں دیئے روۓ چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔
ننھی زارا ان کی آوازیں سن کر اٹھ گئ تھی اب وہ بستر میں دبکی اپنی روتی ہوئ ماں کو دیکھ رہی تھی۔۔
کیا اس کی ماں پاگل ہے ۔۔؟؟کیسے پاگل ھو گئ۔۔؟؟
____________________________________________________________________________________________________________________________________
اماں آپ نے بات کی تھی طیب سے۔۔سائرہ رخشندہ بھیگم سے پوچھ رہی تھی جو اذان کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں۔۔
ہاں کی تھی کہہ رہا تھا بزی ہے فارغ ہو کر آۓ گا۔۔رخشندہ بھیگم نے اذان کے سر پر بھوسہ دیا اور بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔۔
اندر داخل ہوتی سومو نے بہت غور سے اپنی بہن کو دیکھا جیسے کچھ کھوجنا چاہتی ہو۔۔
وہ کہاں بزی ہو سکتا ہے اماں ٹال رہا ہے۔۔سائرہ دھپ سے صوفے پر بیٹھ گئ۔۔
وہ کیس جیت گۓ ہیں ان کی فیکٹری انہیں واپس مل گئ ہے کمپنی بھی اپنی حاصل کر چکے ہیں وہ تو بہت کام ہوتا ہے انہیں بزی ہوں گے۔۔کیا آپ نہیں جانتی۔۔؟؟سومو نے نظریں سائرہ پر ٹِکائ ہوئ تھیں جو سر جھکاۓ فرش کو دیکھ رہی تھی۔
سومو سر جھٹک کر اذان کے پاس بیٹھ گئ۔اذان اسے دیکھ کر کھلے دل سے مسکرایا تو سومو نے اس کے گال پر بھوسہ دیا۔۔
برسوں بعد اسے امان کا لمس محسوس ہوا تھا۔۔
کون کہتا ہے امان مر گیا ہے امان تو زندہ ھے۔۔اذان کو دیکھتے سومو نے دل میں سوچا تھا۔۔
پتہ ہے مجھے وہ اپنا کاروبار واپس لے چکا ہے مگر کیا وہ مجھے واپس لے جاۓ گا۔۔سائرہ کی سوئ وہیں اٹکی ہوئ تھی۔۔
میں نہیں جانتی آپی طیب بھائ کیا سوچ رہے ہیں یا کیا فیصلہ کریں گے مگر میں یہ ضرور جانتی ہوں “برے وقتوں میں ساتھ چھوڑ دینے والوں کو اچھے وقتوں میں پلٹ کر بھی نہیں دیکھا جاتا”_
جیون ساتھی وہ ہوتا ہے جو جیون بھر ساتھ رہے۔ہوا کے زور پر چھت اڑنے کو ہو تو اپنے ساتھی کا ہاتھ تھام کر خوصلہ دلاۓ، طوفان آئیں تو ہمت کا مظاہرہ کرے،ہر طرح کے حالات میں کہے”کچھ بھی ہو جاۓ میں تمہارے ساتھ ہوں”،،_
مرد اپنی عورت کی سہولت کے لیئے ہر سختی برداشت کرتا ہے بدلے میں کیا چاہتا ھے وہ بس اتنا جب تھکا ہارا گھر واپس آۓ تو اس کی عورت مسکراتے ہوۓ اس کا استقبال کرے،وہ اسے اپنی پریشانیاں بتاۓ تو وہ اس کا ہاتھ تھام لے مظبوطی سے اور جب وہ کرائسز سے گزرے تو اسے دھتکارے نہ بلکہ شانہ بشانہ اس کے ساتھ کھڑی ہو کیونکہ “ہر رات کے بعد صبح ہوتی ہے”_اور ایک جیون ساتھی میں یہ خوبیاں ہونی چاہیئے آپ کا شوہر ڈیزرو کرتا ہے یہ سب۔۔
آپ خود سے پوچھیں آپ نے کیا کیا ہے۔۔؟؟ سومو سائرہ کو سوچتے ہی چھوڑ کر کمرے سے نکل آئ تھی۔۔
سائرہ نے نظریں اٹھا کر ماں کو دیکھا تو وہ نظریں چرا گئیں۔۔
اماں آپ نے کیوں نہ بتایا مجھے کیا صیح ہے کیا غلط۔۔؟؟اس کی آنکھوں میں بہت سے سوال تھے۔۔
سومو کو بھی تو اماں نے کچھ نہیں بتایا وہ خود سب سمجھنے لگی غلط اور صیح کا فرق قصور تو میرا ہے۔۔۔
____________________________________________________________________________________________________________________________________
بچے ماں باپ کی عادتیں لے کر پیدا نہیں ہوتے وہ ماں باپ کی عادتیں اپناتے ہیں ہیں چاہے پھر اچھی ہوں یا بری۔
“سائرہ انہی لوگوں میں سے تھی اس نے ماں کی عادتیں اپنا لیں تھیں۔
اس نے خود کو اتنا بلند کر لیا کہ دوسرے لوگ اسے چھوٹی مخلوق لگنے لگے تھے۔اس نے ماں کی زبان کا زہر چرایا اور اس سے تلخی کا مکسچر بنا کر نگل لیا ۔اور وہ تلخی کا مکسچر وہ اب لوگوں کی زندگی میں گھولتی تھی۔
بعض اوقات ماں باپ ذیادتی کر جاتے ہیں بچوں کے ساتھ۔انہیں لاڈ پیار کر کے سب سے برتر کر کے ۔انہیں صیح کو غلط اور غلط کو صیح دکھا کے۔۔
جس کی جیب میں پیسہ ہے اس کے لیئے سب جائز ہے”” یہ بات بگاڑ پیدا کرتی ہے۔۔۔۔
ایک عورت پر پوری سوسائیٹی ڈیپینڈ کرتی ہے ۔۔ ایک عورت طے کرتی ہے اس کا معاشرہ کیسا ہو گا اور پھر اس کی تربیت معاشرے کو اس کی سوچ کے رنگ میں ڈھالتی ہے۔۔
اگر عورت منہ میں زہر لے کر پھرے گی تو کیسے معاشرہ زہر سے پاک ہو گا۔۔
معاشرہ عورت کے شعور اور اس کی تربیت کا عکس ہوتا ہے۔۔
بعض اوقات کچھ لوگ اپنے اندر شعور کی ایک ننھی سی کونپل لے کر پیدا ہوتے ہیں پھر ان کا دماع ڈیسائیڈ کرتا ہے کونپل کو درخت بنانا ہے یا سوکھا دینا ہے۔۔
زائرہ کاظمی عرف سومو اور امان اللہ کاظمی بھی انہی لوگوں میں سے تھے۔۔وہ شعور رکھتے تھے اس سے بھی بہتر شے وہ اپنے اندر محبت رکھتے تھے۔۔
یہ کاظمی حویلی کے تین پھول تھے جنہیں کھلنا تھا مگر۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “”__
____________________________________________________________________________________________________________________________________
کمرے میں سکوت چھایا ہوا تھا گہرا سکوت ایسے میں اساور کی سانسوں کے چلنے کی آواز آ رہی تھی۔۔
دم گھٹنے کی وجہ سے وہ زور زور سے سانس لینے لگتا تھا۔اور اس کا یہ دم پچھلے کچھ دنوں سے گھٹ رہا ھے۔۔
پچیوں اور دانین کا دور ہونے کا احساس بہت جان لیوہ تھا۔۔
اساور نے اٹھ کر کھڑکی کے پٹ وا کیئے کہ وہ دم گھٹنے کی وجہ سے مر سکتا تھا۔۔
مجھے معاف کر دو اساور میں نے بہت ذیادتی کر دی تیرے ساتھ۔۔رخشندہ بھیگم صوفے پر سر جھکاۓ بیٹھی تھی اساور سے نظریں ملانے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔۔
انسان اپنے ہر اچھے اور برے فعل کا خود ذمہ دار ہوتا ہے کوئ بھی آپ پر ذیادتی نہیں کر سکتا اور میں انہی بندوں میں سے ہوں۔۔اساور پلٹا نہیں تھا وہ ہنوز باہر ہی دیکھ رہا تھا۔
جہاں زارا اور سارہ سومو اور سعدی کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔۔
زارا بیچ میں کسی بات پر کھلکھلا اٹھتی تھی اور یہ پہلی بار تھا اس نے زارا کو یوں ہنستے ہوۓ دیکھا تھا۔۔
سیاہ بالوں کی چوٹی بناۓ بازو کے نیچے بال پکڑے وہ اسے بہت جانی پہچانی سی لگی تھی۔۔
بات کرتے ہوۓ وہ دو انگلیوں سے آنکھ کا کونا چھو کر ٹیڑھی نظر سے دیکھتی تھی۔۔اساور کو جھٹکا لگا تھا وہ زارا نہیں تھی وہ تو اس کا بچپن تھی ڈِٹو اس کی کاپی اسے وہ کبھی کبھی کسی سے مشابہت رکھتی لگتی تھی مگر وہ غور نہیں کر پایا تھا۔۔
سارہ نے اس کے بغل میں رکھی بال کو زور کا مکّا مارا تو وہ تھوڑی دور کیاری میں جاگِری۔
زارا غصے سے سارہ کی دیکھتی کیاری کی طرف بال لانے گئ تھی۔۔
اساور کو ایک اور جھٹکا لگا تھا وہ غصے میں ایک آئ برو کو اونچا کر بلکل اسی کی طرح دیکھتی تھی چال بھی ایک دم اساور کے جیسے تھی۔۔
اساور کی سانس دھونکنی کی مانند چلنے لگی تھی۔اس نے کھڑکی زور سے بند کی اور پانی کا گلاس منہ سے لگاتے وہ صوفے پر ڈھے گیا۔۔
رخشندہ بھیگم نے خیرانی سے اسے دیکھا۔۔جس کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئ تھیں۔۔
کسی نے اس سے کہا تھا۔۔
“اولاد کے وجود میں پنہاں سبز موسموں کو والدین کی اعمال کی دھوپ جھلسا دیتی ہے اور پھر وہ جھلسے بچے قیامتیں لاتے ہیں۔۔
وہ اس سوچ کو جھٹکنے لگا تھا۔۔
وہ میرے جیسی ہے کیا وہ سچ میں میرے جیسی ہو گی۔۔اساور کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔۔وہ اٹھا اور تقریباً بھاگتے ہوۓ ہی باہر نکلا تھا۔۔
رخشندہ بھیگم اس کی بدخواسی کی وجہ نہ جان پا رہی تھیں۔۔
میں نے ناکردہ گناہوں کی سزا دانین کو دی اب کیا میرے گناہ ۔۔۔۔ ۔ ۔ نہیں نہیں۔۔وہ سوچوں کو جھٹکتا باہر لان میں آیا۔۔
سارہ اس کو دیکھتے ہی دوڑ کر پاس چلی آئ۔سومو اور سعدی بھی ان کی طرف متوجہ ہوۓ۔۔
زارا بیٹا اِدھر آؤ۔۔اساور نے جھک کر سارہ کو گود میں بٹھایا اور اب وہ زارا کو پکار رہا تھا مسکراتے ہوۓ۔۔
سعدی اور سومو بھی مسکرا کر ان تینوں کو دیکھ رہے تھے مگر زارا کے سرد ہوتے تاثرات صرف اساور دیکھ پایا تھا۔
بال کو سائیڈ پر پھینکتے آئ برو ریز کر کے ترچھی نظر سے دیکھتے زارا اندر کی طرف بھاگ گئ تھی۔۔
سعدی اور سومو کی مسکراہٹ سمٹی۔اساور نے ایک کرب اپنے رگ و جاں میں اترتا محسوس کیا تھا۔۔
کیا وہ واقعی میرے جیسی ہے۔۔بند آنکھوں کے ساتھ اس نے سوچا تھا۔۔تبھی گال پر کسی کا لمس محسوس کر کے اس نے آنکھیں کھولیں۔۔
آئ لو یو بابا۔۔!!۔ سارہ اس کے گال پر بھوسہ دیتے ہوۓ بولی۔۔
آئ لو یو ٹو بابا کی جان۔۔!؛ اساور نے تمام سوچوں کو جھٹکتے سارہ کو مسکرا کر دیکھا۔۔
اور اندر اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی دانین نے یہ سارا منظر دیکھا تھا۔۔
اب اس کا دھواں دھواں ہوتا چہرہ دیکھا جا سکتا تھا۔۔
کیا سارہ اپنے باپ کو چھوڑ کر میرے ساتھ نہیں جاۓ گی۔۔؟؟ وہ کھڑکی سے ہٹ گئ اور گہرے گہرے گہرے سانس لینے لگی۔۔
اگر ایسا ہوا تو میں کیا کروں گی۔۔؟؟ تکلیف کی شدت سے اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔
اسے فیصلہ کرنا تھا اور فیصلے کی گھڑی بہت کھٹن ہوتی ہے ۔۔۔
ہاں فیصلہ کرنا موت کی شاہراہ پر چلنا ہے۔۔
____________________________________________________________________________________________________________________________________
وہ سر ہاتھوں میں دیئے صوفے پر بےدم سی بیٹھی تھی۔دروازہ کھلنے کی آواز پر سر اٹھا کر دیکھا اور وہ پھر سے اسی پوزیشن میں بیٹھ گئ۔۔
قدموں کے چاپ اسے اپنے قریب محسوس ہوئ ۔۔
وہ اس کے پاس آ کر رک گیا تھا۔۔پھر وہ دانین کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اس کے پاس کارپٹ پر بیٹھ گیا۔۔
دانین ہِلی نہیں تھی وہ اسی پوزیشن میں سر ہاتھوں میں دیئے بیٹھی رہی۔۔
دانین۔۔!! سومو نے مجھے کہا تھا میں محبت ڈیڑرو نہیں کرتا واقعی یار میں محبت ڈیزرو نہیں کرتا،، اس نے کہا تھا مجھے ڈرنا چاہیٔے اور یار میں آج ڈر گیا ہوں بہت ذیادہ۔۔وہ رو رہا تھا۔”اساور کاظمی رو رہا تھا”
میں نے تم سے محبت کی اور تمہیں ہی اذیت بھی دی اب میں اس اذیت سے نہیں نکل پا رہا۔۔تمہارے دور جانے کا خوف دیمک بن کر چاٹ رہا ہے مجھے ۔۔ تم مجھ سے لڑو جھگڑو مگر چھوڑ کر مت جاؤ یار۔۔ آنسو اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔
تم نے بہت تکلیف دی مجھے بہت اذیت دی زندگی دو ماہ پہلے تمہیں سچ کا سامنا کروا دیتی اور تم آ کر مجھ سے معافی مانگ لیتے تو تھوڑا روتی تم سے جھگڑتی اور پھر تمہارے سینے میں خود کو چھپا لیتی اور پھر ساری زندگی ہم ساتھ رہتے کیونکہ تم نے مجھے اذیت دی مگر میری جگہ کسی کو نہیں دی۔۔
اور پھر تم نے میری جگہ کسی کو دے دی تو اس دن تم پورے دل سے اتر گۓ۔۔
یہ دو ماہ نہ آتے بیچ میں تو سب صیح تھا مگر اب کچھ صیح نہیں ہے ۔۔
بےوفائ کرنے کے لیئے میں تمہیں معاف نہیں کر سکتی انفیکٹ بےوفائ کی معافی ہوتی ہی نہیں ہے۔۔دانین بھی رو رہی تھی ہچکیوں کے ساتھ۔آنکھوں سے آنسو گر کر گود میں رکھے اساور کے ہاتھوں کو بگھو رہے تھے۔۔
میں پچھتا رہا ہوں یار۔ ۔ ۔۔ یہ کافی نہیں ہے۔۔
اگر سعدی کی سچائ تمہیں تاعمر پتہ نہ چلتی تو تم تاعمر نہ پچھتاتے تم اپنی زندگی خوشی سے جیتے۔۔جہاں تک معافی کی بات ہے تو میں نے کہیں سنا تھا”بےوفاؤں کو معاف نہیں کیا جاتا بس پچھتاوے کی زندگی دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے”__دانین نے دونوں ہاتھوں سے آنکھیں رگڑ کر آنسوؤں کو روکنا چاہا۔۔
غلطی ہو گئ دانین غلطیوں کی معافیاں ہی تو ہوتی ہیں۔۔
معافی غلطیوں کی ہوتی ہے اساور کاظمی بےوفائ کی نہیں۔_”دانین کا لہجہ سرد تھا جیسے پورا سیاچن اس کے لہجے میں سمٹ آیا ہو۔۔
بےوفائ بھی تو غلطی ہوتی ہے۔۔اساور نے کمزور سی دلیل دینی چاہی۔۔
نہ نہ نہیں نہیں۔۔بےوفائ غلطی نہیں ہوتی بےوفائ گناہ ہوتی ہے۔۔دانین نے اس کے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے جھٹک کر اس سے فاصلہ رکھنا چاہا۔۔
گناہ ہو گیا یار مانتا ہوں تم بھی مان لو ۔گناہوں کے کفارے ہوتے ہیں دانین میں کفارہ ادا کروں گا۔۔اساور نے دانین کے دونوں ہاتھ تھامے۔۔
تو کر دو ادا کفارہ مجھے طلاق دے دو نہ بھی دو تو کوئ مسئلہ نہیں پر میں مزید تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔”،بےوفاؤں کی صحبت خطرناک ہو سکتی ہے”_
دانین۔۔۔ ۔ !!!
بس کر دو اساور ہم دونوں کے لیئے یہی بہتر ہے کہ راضی و خوشی ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں ورنہ اس الگ ہونے کی گونج ایک زمانہ یاد رکھے گا۔۔دانین فیصلہ کر چکی تھی چاہے فیصلہ موت کی شاہراہ ہو۔۔
اساور نے بےبسی سے سر دانین کی گود میں رکھ دیا۔۔اس کے آنسو دانین کی گود گیلی کرنے لگے تھے۔۔
فیصلہ ہو گیا تھا ان دونوں کو الگ ہو جانا تھا ایک دوسرے سے راضی و خوشی۔۔
دانین کے آنسو بھی روانی پکڑ رہے تھے۔۔
دونوں پھوٹ کر رو رہے تھے مگر وہ ایک دوسرے کی انسو نہیں صاف کر سکتے تھے۔۔
دانین نے اپنا سر اپنی گود میں رکھے اساور کے سر پر رکھ دیا۔۔
دونوں کی آنسو مزید شدت سے بہہ رہے تھے۔۔
بےوفائ میں معافی نہیں ہوتی جدائ لازم ہوتی ہے۔۔
____________________________________________________________________________________________________________________________________
“”””””””””””قیوم رانا پڑھائ کے سلسلے میں ترکی گۓ تھے پھر پڑھائ کے بعد اپنی کلاس فیلو سے شادی کر کے وہیں اپنی چھوٹی سی دنیا بسا لی تھی۔۔
ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ راشدہ جمشید(دانین اور ثانیہ کی ماں) اور ساجدہ کاظمی (اساور اور ناظم کی ماں)تھیں۔۔
اور ایک بیٹا رئیس رانا(سعدی رانا کے والد) تھا۔۔
رئیس رانا(سعدی کے والد) کی شادی اس کی خالہ زاد سے ہو گئ تھی جو اپنے ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کے پاس ہی رہتی تھی۔۔
شادی کے دو سال بعد ان کے ہاں سعدی کی پیدائش ہوئ تھی۔۔
پھر کچھ ایسا خادثہ ہوا کہ سعدی کے ماں باپ انتقال کر گۓ۔۔وہ خادثہ نہیں قتل تھا یہ بات تب پتہ چلی جب سعدی کے گھر پر کسی نے قبضہ کر لیا۔
راشدہ بھیگم کو بھائ کی موت نے صدمہ دیا تھا مگر وہ بھتیجے کو نہیں کھونا چاہتی تھیں اس لیئے سب چھوڑ چھاڑ کر پاکستان اپنے گھر آ گئیں۔۔
راشدہ (دانین کی ماں) کی شادی ان کی اپنی مرضی سے ان کے کلاس فیلو جمشید علی سے ہو گئ تھی۔جو کہ ترکی پڑھنے گۓ تھے اور پھر پڑھائ مکمل کر کے راشدہ بھیگم کو لیئے پاکستان آ گۓ اور گورمنٹ جاب کر لی۔۔
راشدہ بھیگم اور جمشید علی کی دو بیٹیاں تھیں۔_”_ثانیہ جمشید جس کی شادی جمشید علی کے جاننے والوں میں ہو گئ تھی جو کہ ترکی میں ہی رہائش پزیر تھے۔۔اور چھوٹی دانین جمشید عرف ڈی۔جے تھی۔جو وکالت کا خواب آنکھوں میں سجاۓ ہوۓ تھی۔۔جمشید علی کی جان دانین اور سعدی میں بسنے لگی تھی اور وہ ان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیئے ان کے ساتھ کھڑے تھے پھر ایک دن ہارٹ اٹیک سے وہ بھی مر گۓ۔۔
پنشن ملتی تھی جس سے گزارہ ہو جاتا تھا۔۔
ساجدہ کی شادی ایک امیر پاکستانی فیملی میں ہوئ تھی جن کا اپنا بزنس تھا۔۔اللہ نے انہیں دو بیٹوں کی نعت کے نوازا۔ناظم کاظمی اور شادی کے ک بیس سال بعد جب ناظم اٹھارہ سال کا تھا ان کے ہاں اساور کا جنم ہوا۔۔
اساور جب دس سال کا تھا تو اس کے ماں باپ گزر گۓ۔۔بھائ اسے اپنا بٹا بنا لیا تھا خود ناظم کاظمی کی ایک بیٹی تھی جو اساور سے چار سال چھوٹی تھی۔۔
پھر بہت منتوں مرادوں سے ان کے ہاں امان کا جنم ہوا تھا۔۔
منتوں سے مانگی اولاد میں جان بند ہوتی ہے یہی حال تھا سب کا ۔۔امان ان کے گھر کا لاڈلا تھا پھر اس کا پیار بانٹنے زائرہ (سومو) آ گئ۔۔
وہ ہنستی مسکراتی زندگی کو جینے والی فیملی تھی۔۔
____________________________________________________________________________________________________________________________________
گھر میں سومو اور سعدی کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
دانین نے سعدی کی شادی کے بعد ترکی چلے جانا تھا سعدی اور سومو کے ساتھ ہی۔۔
سعدی کے والد صاحب کا گھر تھا وہاں جس پر زبردستی کسی نے قبضہ کر لیا تھا مگر اب وہ گھر سعدی کی ملکیت تھا ۔۔
سومو کو رخصتی کے بعد اسی گھر ترکی جانا تھا۔۔
آج سعدی کا نکاح تھا جس کا انتظام گھر پر ہی کیا گیا تھا۔۔۔
اسٹیج کو بہت خوبصورتی سے لال اور سفید پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔۔۔
جس پر ہلکے گلابی رنگ کی میکسی پہنے سومو بیٹھی ہوئ تھی اور ساتھ سفید شیروانی پہنے سعدی بیٹھا ہوا مسکرا رہا تھا۔۔
دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مطمئن خوش اور مکمل لگ رہے تھے۔۔
سائرہ بار بار گیٹ کی طرف دیکھ رہی تھی اسے طیب کا بہت شدت سے انتظار تھا۔۔اور انتظار سولی پر لٹکاتا ہے۔۔
اساور ہاتھ میں فائل پکڑے اِدھراُدھر نظریں گھماۓ دانین کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔زارا اور سارہ سومو اور سعدی کے پاس بیٹھی ہوئ تھیں۔۔
عینا رخشندہ بھیگم کے ساتھ مہمانوں سے مل رہی تھیں۔۔
اذان سائرہ سے باتیں کرتا اس کا دھیان بٹا رہا تھا۔۔
سب تھے وہاں صرف دانین نہیں تھی۔۔
وہ فائل تھامے اپنے کمرے کی طرف بڑھا جانتا تھا دانین کہیں نہیں ھے تو وہیں ہو گی۔۔
دروازہ کھولتا وہ اندر داخل ہوا ۔۔
دانین گِرے کلر کی میکسی پہنے بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے میچنگ جیولری پہنے بہت سے بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔
ایک نظر اساور پر ڈال کر وہ پھر سے اپنا دوپٹہ سیٹ کرنے لگی۔۔
اساور تو وہیں کھڑا اسے مبہوت سا دیکھے گیا۔۔
پھر قدم قدم چلتا اس کی پشت پر آ کھڑا ہوا ۔۔دانین کو آئینے میں اپنے پیچھے کھڑا وہ لمبا چوڑا مرد نظر آ رہا تھا۔۔اور اس کی مبہوت ہوتی نظریں بھی۔۔۔
آہم۔۔!:؟: دانین نے گلا کھنکار کر اس کا ارتکاز توڑا۔۔
وہ میں یہ دینے آیا تھا تمہیں۔۔اساور نے ایک دم چونک کر اسے دیکھا اور ہاتھ میں پڑی فائل اس ک سامنے کی۔۔
کیا ہے یہ ڈیوارس پیپرز۔۔دانین نے اس کے ہاتھوں سے فائل لی اور پڑھنے لگی جیسے جیسے پڑھتی گئ اسے حیرت ہوتی گئ۔۔
یہ تو تم نے جلا دیئے تھے۔۔دانین نے ہاتھ میں پکڑے پیپرز کی طرف اشارہ کیا۔۔
تھوڑا مشکل تھا مگر دوبارہ بنوا دیئے میں نے تمہارا خواب ہے یہ پورا ہونا چاہیئے۔۔اساور جان بوجھ کر اِدھراُدھر دیکھنے لگا۔۔وہ دانین کو دیکھتا تو وہ اپنا فیصلے سے مکر جاتا اور وہ دانین کو کوئ اور دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔۔
شکریہ۔۔دانین نے فائل دراز میں ڈال دی۔۔۔۔۔۔۔۔
اور کچھ۔۔اس کی نظریں خود پر ٹِکی دیکھ کر دانین نے پوچھا۔۔
بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔اساور نے ایک ہاتھ سے اس کے گال کو ہلکا سا چھوا۔۔دانین نے ناگواری سے دیکھا تو وہ سوری کہتا ہوا تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔
____________________________________________________________________________________________________________________________________
سائرہ کا انتظار جب تھکنے لگا تو وہ آ گیا اس کا طیب آ گیا اس کے ساتھ ایک سہج سہج کر سر جھکاۓ سفید لانگ فراک میں ملبوس لڑکی چلی آ رہی تھی۔۔
سائرہ تو ساکت ہوئ مگر اگلے پل خود کو کمزور سی دلیلیں دیتی وہ طیب کی طرف بڑھی جو اساور سے مل رہا تھا۔۔
پھر لڑکی نے بھی مسکراتے ہوۓ سلام کیا تو اساور نے سر کو خم دے کر جواب دیا۔۔۔۔
وہ سب سے مل رہا تھا اسے نظرانداذ کر کے اور یہ بات اسے کھا رہی تھی۔۔
نکاح کی تقریب ختم ہوئ مہمان کم ہوۓ تو سب گھر والوں کو اکٹھا ہونے کا موقع ملا تھا۔۔
طیب تمہارے ساتھ یہ لڑکی کون ہے۔۔سب ایک ٹیبل کے گرد بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔۔جب مہمانوں کو رخصت کر کے سائرہ اس کے سر پر پہنچ گئ۔۔
میری بیوی۔۔!! طیب نے بےنیازی سے کہا تھا۔۔سائرہ شل ہوئ۔سومو نے دھواں دھواں ہوتی اپنی بہن کو دیکھا اور پھر سے اپنی پلیٹ میں جھک گئ۔۔
دانین زارا کو کھانا کھلا رہی تھی پل بھر کو رکی اور پھر سے کھانا کھلانے لگی۔۔
اساور چکن پیس کا ٹکڑا توڑ کر سارہ کو کھلانے لگا۔۔رخشندہ بھیگم نے نظریں چرائ تھیں۔۔
کیا یہاں بیٹھا کوئ نفوس نہیں جانتا تھا۔۔؟؟ نہیں سب جانتے تھے اب رکے سائرہ کا ری ایکشن دیکھنے کے لیئے تھے۔۔۔۔
سائرہ نے ایک نظر طیب پر ڈالی اور پھر ساتھ بیٹھی معصوم سے نقوش والی اس کی بیوی پر جو پزل ہوتے ہوۓ مسلسل اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔۔
میں نے اماں کو مجبور کیا تھا کہ وہ اساور چاچو کی شادی کروا دیں تمہاری تکلیف آج محسوس ہوئ دانین ۔۔
جو ظلم تم پر کیا اس کی سزا ہے یہ نا تمہاری بددعا ہے یہ نا۔۔سائرہ کی آنسو آنکھوں سے بہنے لگے۔۔کاجل کی پتلی سی لکیر اس کے گال پر آ ٹھہری۔۔
میں بددعا نہیں دیتی سائرہ ۔۔اماں کہتی تھیں بددعا دشمن کو بھی نہ دو تم دشمن تو نہیں ہو میری۔۔دانین کے لہجے میں سائرہ کے لیئے واقعی کوئ نفرت نہیں تھی۔۔۔
مجھے تم سے کوئ شکوہ نہیں ہے طیب ۔۔سومو نے ٹھیک کہا تھا جو تم ڈیزرو کرتے ہو وہ میں نہیں دے سکتی میں محبت ڈیزرو نہیں کرتی۔۔
سائرہ میری بات۔۔۔۔۔ ۔ ۔ طیب نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔
نہیں طیب تم خوش رہو تم نے ٹھیک کیا بلکل ٹھیک۔۔بھری ہوئ آواز میں کہتی وہ اندر کی طرف بھاگ گئ جہاں بیٹھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی۔۔
____________________________________________________________________________________________________________________________________
کاظمی حویلی میں سوگواریت چھائ ہوئ تھی۔۔شادی کے ہنگامے ختم ہو چکے تھے سب مہمان اپنے گھروں کو رخصت ہو گۓ تھے اب مسافر بھی اپنی منزل کو روانہ ہونے کے لیئے تیار تھے۔۔
دانین بچا کھچا سامان پیک کر رہی تھی زارا پاس ہی بیٹھی دانین کی ساری کاروائ دیکھ رہی تھی۔۔
سارہ کا وہاں نہیں تھی اور دانین جانتی تھی وہ کہاں ہو گی۔۔؟؟اساور سے چمٹی بیٹھی ہو گی کہیں۔۔
بیگ سائیڈ پر رکھتی وہ سارہ کی چیزیں سمیٹ کر اکھٹی کرنے لگی تھی۔۔
ماما سارہ نہیں جاۓ گی ہمارے ساتھ۔۔؟؟ زارا کو صرف سارہ کی فکر ہو رہی تھی جو اکثر ہی ہوتی تھی۔۔
نہیں بیٹا وہ یہیں رہے گی وہ۔۔دانین نے کرب سے آنکھیں میچی۔۔آنسوؤں کو خلق میں دھکیلا وہ زارا کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔۔
مگر اس کی مامتا تڑپ رہی تھی۔۔سارہ نے جانے کا سن کر گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔۔وہ اپنے باپ کو نہیں چھوڑ سکتی تھی مگر وہ دانین کو چھوڑ سکتی تھی ۔۔
زارا اب چپ چاپ بیٹھی ماں کا چرہ پڑھ رہی تھی وہ اکثر یہی کرتی تھی۔۔
تبھی دروازہ کھلا تھا۔۔لال آنکھیں لیئے اساور اندر داخل ہوا۔۔زارا کو دیکھ کر پھیکا سا مسکرایا تھا۔۔
صوفے پر بیٹھی زارا ترچھی نظر سے اسے دیکھتی دروازہ کھول کر کمرے سے چلی گئ تھی۔۔
اساور نے صدمے سے اسے جاتے دیکھا ۔۔اس کے اندر کے واہمے اسے کاٹ رہے تھے۔۔
دانین ڈریسنگ مرر کے سامنے جھکی دراز سے کچھ نکال رہی تھی۔۔
اساور قدم قدم چلتا اس کے پاس آ کر رک گیا مگر دانین نے کوئ نوٹس نہیں لیا اور سیدھی ہو کر اپنا ضروری سامان اٹھانے لگی۔۔
اساور اسی کو دیکھ رہا تھا یک ٹک نظریں جماۓ۔۔مگر دانین مسلسل نظرانداذ کر رہی تھی۔۔
اساور نے پیچھے سے بازو دانین کے گِرد حمائل کر کے اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے کر سر اس کے کندھے پر ٹکا دیا۔۔
دانین اس کی جرات پر سُن ہی تو ہو گئ تھی۔۔وہ دونوں ہمیشہ کے لیئے ایک دوسرے سے الگ ہو رہے تھے اور اساور کو رومینس سوجھ رہا تھا۔۔
دانین کا سکتہ ٹوٹا تو اس نے بےخود ہوتے اساور کے حصار سے زور لگا کر خود کو آزاد کیا۔۔
اساور نے پلکیں چھپکائیں جیسے ہوش میں آیا ہو۔۔
دانین تیز نظر سے اسے دیکھتی ہاتھ میں پکڑی اشیاء لیئے بیڈ پر پڑے اپنے سوٹ کیس کے طرف بڑھی۔۔
دانین سوری یار پلیز۔۔اساور نے باقائدہ ہاتھ جوڑے تھے۔۔
بےوفائ کے بہت سے موقعے تمہیں فراہم کیئے جاتے اور تم ان موقعوں کو ضائع کر دیتے تب میں کہتی “اٹس اوکے”_””کیونکہ محبت میں چوٹ کھایا دل کسی سوری کے جواب میں اٹس اوکے نہیں کہتا محبوب کی گلی سے چوٹ کھا کے نکلے تو پلٹ کر نہیں دیکھتا””دانین ہنوز بیگ پر جھکی ہوئ تھی وہ اساور کو نہیں دیکھ رہی تھی شائد دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔۔
دانین ہم ماضی کو اپنی محبت پر آئ مصیبت جان کر بھول بھی تو سکتے ہیں۔۔اساور آہستہ سے کہا تھا۔۔
تمہاری میری محبت بھی تو ماضی ہے۔۔دانین نے رک کر اس کی طرف دیکھا۔۔اور مصیبت تو واقعی آئ تھی محبت پر اور مصیبت اس لیئے آتی ہے کمظرف لوگ محبت نہ کرتے پھریں۔۔
____________________________________________________________________________________________________________________________________
دس سال بعد۔۔
سکول سے آ کر اس نے بھیگ صوفے پر پٹخا اور یونیفارم میں ھی جوتوں سمیت لیپ ٹاپ لیئے بیڈ پر بیٹھ گئ۔۔
وہ تیرہ چودہ سال کی گوری رنگت والی بچی تھی ۔بالوں کی اونچی پونی بناۓ وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔۔
لیپ ٹاپ پر وہ تیزی سے کچھ ٹائپ کرنے لگی۔۔تھوڑی دیر میں اسکرین نے تیز روشنی اور سامنے کسی کا اکاؤنٹ دکھائ دینے لگا۔۔
اساور کاظمی۔۔اکاؤنٹ پر لکھے نام پر اس نے کلک کیا اور تصویریں دیکھنے لگی۔
سکول فنکشن ،پارٹیز،برتھ ڈے،ہوٹلنگ، اور سیر و سیاحت کی بہت ساری تصویریں کھلتی چلی گئیں۔۔
اس کی ہم عمر ہی ایک لڑکی اساور کے ساتھ ہر جگہ دکھائ دے رہی ہے مسکراتے ہوۓ خوش شائد بہت خوش۔۔
اس کے اندر بہت کچھ ٹوٹا تھا ۔آئ برو اونچا کیئے وہ تِرچھی نظر سے سکرولنگ کرتی تمام تصاویر دیکھ رہی تھی۔۔
ایک دم سے اس کی آنکھیں جلنے لگیں تھیں شائد اسکرین کی گئی تیز روشنی سے یا اس لڑکی مسکراہٹ سے۔۔
زارا زارا کہاں ہیں آپ بیٹا۔۔!! دانین کی آواز پر اس نے ایک سلگتی ہوئ نظر اساور کے مسکراتے چہرے پر ڈالی اس نظر میں بہت کچھ تھا جو بیان سے باہر تھا۔۔
دانین کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ لیپ ٹاپ بند کرتی چھلانگ لگا کر باتھ روم میں گھس گئ۔۔
دانین سے سے بخث کرنے کا اس کا کوئ موڈ نہیں تھا۔۔
ہاں مگر وہ ایک طویل بخث چاہتی تھی اساور کاظمی سے اور اسے لاجواب کرنا چاہتی تھی۔۔
واش روم مرر کے سامنے کھڑے اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ اساور سے ملے ضرور ملے گی اور ایسی کہ وہ پھر ملنے جوگا نہ رہے گا۔۔
“”بدگمانیوں کی گود میں جنم لیتے انتقام اور بدلے کا چکر کبھی نہیں رکتا۔انتقام نسل در نسل وراثت کی طرح منتقل ہوتا ہے۔۔
اور اس چکر کو چلاتا انتقام کا وارث بربادیاں لاتا ہے۔۔””
__________________________________________________________________________
ختم شد۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...