ریسٹورنٹ کی فضا کافی خوشگوار تھی رش بھی کافی زیادہ تھا وہ دونوں ریسٹورنٹ میں قدرے سائیڈ پر بیٹھے ہوئے تھے
“اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے اور مجھے یہاں کیوں بلایا ہے ” ثانیہ نے عجلت میں پوچھا،ان لوگوں کو آئے ہوئے دس منٹ تو گزر چکے تھے اس ٹائم کے روران ثانیہ تقریباً ہزار مرتبہ اس سے یہ سوال پوچھ چکی تھی لیکن ہر دفعہ احسن نے اسے صبر کا ہی کہا اور پہلے کچھ کھا پی لیں پھر بتاتا ہوں “پر گزارا کیا
“ہاں اب سنو ، لیکن اس ساری سچویشن میں میرا مذاق اڑایا تو تمہارا سر میں پھوڑوں گا ”
“ارے ارے اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ فنی سچویشن ہی ہے ” ثانیہ نے ہنستے ہوئے کہا تو احسن کا دل کیا کہ وہ اسے کچا ہی چبا دے
احسن کو جو کہنا تھا اس نے بڑے تحمل سے کہا تھا اور پھر مشورہ لیا تھا اور جو مشورہ لیا تھا وہ بس اب تکمیل تک پہنچنے والا ہی تھا
******** **********
فاطمہ انتہائی گرمی میں وہ بھی کسی کو بتائے بغیر احسن کا پیچھا کرتی رہی، جہاں وہ لوگ ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے ان کے ٹیبل سے دوتین ٹیبل چھوڑ کر وہ بھی وہیں موجود تھی
احسن پریشان تھا لیکن پھر پتہ نہیں ان دونوں کے درمیان کیا مکالمہ ہوا تھا کہ وہ بلکل ٹھیک ہو گیا ، یہی بات فاطمہ کو ہضم نہیں ہو رہی تھی
جب احسن اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جا رہا تھا تبھی فاطمہ نے بھی رکشہ کروایا تھا ، لیکن وہ خود بھی سوچ رہی تھی کہ آخر وہ احسن کے پیچھے آئی ہی کیوں ؟
———————————
رات کچھ زیادہ نہیں ہوئی تھی سب لوگ سونے کی تیاریوں میں مصروف تھے جب احسن بھی اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا تھا لیکن اسے نیند نہیں آرہی تھی کروٹ پہ کروٹ لیتا وہ مسلسل اک ہی بات کو سوچے جا رہا تھا جب اس کے موبائل کی رنگ ٹون بجی تھی احس نے حیرانگی سے موبائل کو اٹھایا کہ نجانے اس وقت کس کی کال ہو ، اسکرین پر بیسٹی کے نام سے جگمگاتا نمبر دیکھ کر اس نے سیٹی کے سے انداز میں ہونٹوں کو گھمایا اور کال پک کی
“ثانیہ کیا تمہیں اس ٹائم کال کرنا زیب دیتا ہے ” احسن نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا لیکن دوسری طرف ذرا بھی اثر نہیں ہوا تھا بلکہ وہ ڈھیٹ بن کر اس سے پوچھ رہی تھی
“بتاؤ پھر کیا ہوا ”
“ثانیہ کیا ہو گیا ہے ابھی کچھ ہی گھنٹے تو ہوئے ہیں تم سے مل کر آ رہا ہوں ،اتنی جلدی کیسے بتا دوں کیا ہوا ہے ”
“اچھا اچھا ٹھیک ہے لیکن جیسے ہی کوئی بات ہوئی مجھے ضرور بتانا اور ہاں یہ جو بات تم نے کہی ہے نا کہ میں نے اس ٹائم کال کیوں کی ہے تو ذرا دھیان کرو کل اسی ٹائم تم نے مجھے کال کی تھی اور ابھی تو تمہاری شادی بھی نہیں ہوئی ، ہوئی ہوتی تو نجانے مجھے کیا کیا سننا پڑتا ” ثانیہ نے تو کھری کھری سنا دی تھی ، احسن نے موبائل کو کانوں سے ہٹا کر گھورا اسے ایسے لگ رہ تھا جیسے ثانیہ موبائل میں سے نکلے گی اور اس کی کلاس لینا شروع ہو جائے گی
“بس بس کیا ہو گیا ہے ، مذاق کر رہا تھا یار ریلیکس پلیز اور صبح میری کال کا انتظار کرنا ، الله حافظ ” احسن نے کال بند کر دی تھی ، لیکن نیند تھی کہ کوسوں دور ۔۔۔ جب آدھے گھنٹے بعد بھی نیند نہ آئی تو پانی پینے کے لیے کچن کا رخ کیا
گھر کی تمام لائٹس آف تھیں صرف کچن کی روشنی نکل نکل کر باہر آ رہی تھی اور اس بات کا گمان تھا کہ کچن میں کوئی موجود ہے چونکہ اس کی بھی روشنی قدرے کم تھی لیکن گھر میں اندھیرا ہونے اور باقی سب لائٹس بند ہونے کی وجہ سے زیادہ روشنی لگ رہی تھی ، احسن نے اپنے ہی دھیان میں فریج کا دروازہ کھولا تھا اور پانی کی بوتل کو منہ لگایا ، کچن میں کوئی تھا نہیں،شاید کوئیلائٹ آف کرنا بھول گیا تھا ، احسن نے لائٹ بند کر دی تھی ابھی وہ کچن سے نکلا ہی تھا جب وہ کسی سے ٹکرایا ، دوسری طرف فاطمہ تھی جو پانی ہی پینے کچن میں آئی تھی لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے احسن سے ٹکڑا گئی ،
فاطمہ کوسمجھ نہیں آئی تھی کہ ہو کیا گیا ہے ، نا سمجھی میں بس وہ چیخیں ہی مار سکتی تھی ، احسن نے اسے بازو سے پکڑ کر سائیڈ پہ کیا اور اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ، فاطمہ مسلسل چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی کیوں کہ ابھی تک وہ کسی چور کے گمان میں ہی تھی ، احسن نے اپنی پاکٹ میں سے موبائل نکالا اور ٹارچ آن کی ، روشنی کو فاطمہ کے چہرے پر ہی مرکوز رکھا تھا ، لیکن وہ اپنی جگہ پہ ساکت ضرور ہوا تھا ، موٹی کال آنکھوں میں ہراس اورخوف کی واضح جھلک تھی لیکن اس جھلک میں بھی وہ اس کا دل دھڑکا گئی تھی ، اب اس نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا تھا لیکن ابھی تک فاطمہ نے احسن کا چہرہ نہیں دیکھا تھا ، چور چور کرتی وہ کسی اور کو جگاتی اس سے پہلے ہی احسن نے گھبرا کر ایک دفعہ پھر اس کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھا تھا ،
“پاگل لڑکی میں ہوں احسن ، ” کہنے کے ساتھ ہی اس نے ٹارچ کی روشنی اپنی طرف گھمائی تو پھر اسے سکون آیا ، اور اس کا وہ بھاری بھرکم ہاتھ جو ناقابل برداشت لگ رہا تھا فاطمہ نے اپنے دانتوں کے جوہر دکھاتے ہوئےاس کے ہاتھ پر اپنے دانت گاڑھ دیے ، احسن درد کی شدت سے بلبلا اٹھا تھا
“افف بہت جنگلی بلی ہو تم ”
“تو آپ بھی کم نہیں ہیں ، ہٹیے رستے سے ” فاطمہ نے اپنے بازو کا زور لگاتے ہوئے اسے سائیڈ پر کرنا چاہا لیکن اتنا آسان نہیں تھا
” اچھے خاصے ہٹے کٹے ہیں پتہ نہیں مامی آپ کو کیا کھلاتیں ہیں ” فاطمہ بڑبڑائی تھی لیکن احسن نے سن لیا تھا اس کی مسکراہٹ محظوظ کن تھی ، فاطمہ جا رہی تھی جب احسن نے اس کے دوپٹے کا پلو پکڑ کر روکا ،
” کیا مسئلہ ہے آپ کو ؟ چھوڑیں ، حد ہوتی ہے ویسے ،کیا کہنا ہے آپکو ؟” فاطمہ کو اب صحیح معنوں میں غصہ آیا تھا
“اچھا سنو تو ”
“فرمائیں”
“جنگلی بلی ہو تم قسم سے ”
“اور آپ بھی ”
“کیا؟”
“ہٹے کٹے جنگلی بلے ”
اس کی بات پر احسن ہنسا تھا ،فاطمہ کہہ کر رکی نہیں تھی بلکہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ احسن وہیں کھڑا ابھی تک سوچ رہا تھا، ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھی اور ایک ہاتھ دل پہ تھا
———————————–
احمد صاحب اور آنسہ بیگم لاؤنج میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز
ہو رہے تھے احسن کو آتے دیکھا تو فورا الرٹ ہو گئے
“مجھے تو سب کچھ اچھا لگا ہے آنسہ بیگم ، باقی آپ رقیہ سے بھی بات کریےگا اور انہیں سمجھائیے گا ” احمد صاحب نے سنجیدگی سے اخبار پڑھتے ہوئے کہا
“جی آپ پریشان نہ ہوں میں کہہ دوں گی ”
بات تو احسن نے سن لی تھی اس لیے اس نے دونوں کو اچھنبے سے دیکھا
” کیا بات ہو رہی ہے بابا”
“کچھ نہیں ہم عبداللہ والے پروپوزل کے متعلق غور کر رہے تھے ہمیں تو ہر چیز اچھی لگی ہے بچہ بھی مزاج کا اچھا ہے بس اب تھوڑی ہی دیر میں ہم نے بھی ہاں کر دینی ہے ” احسن تلملاتا جہاں بیٹھا تھا وہی بیٹھا رہا اس نے کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا اور نہ ہی اس نے ان کی بات پر کوئی رسپانس دیا تھا
کچھ تو کرنا ہی تھا ، بابا بھی اپنے مشن پرچل پڑے تھے سو کچھ عمل کرناہی بہتر حل تھا
————————————
“ماما مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے ” آنسہ بیگم کچن کے کاموں میں مصروف تھیں جب احسن اچانک کچن میں آیا تھا ، آنسہ بیگم نے حیرانگی سے احسن کو دیکھا ،کیونکہ اس دن بھی وہ کچن میں ہی اپنی مرضی سنانے آیا تھا اور آج پتہ نہیں کونسا مژدہ سنانے والا تھا
“ہاں بولو آج کیا کہنا ہے ماما کو ”
“ماما بابا نے کیا ڈیسائڈ کیا ہے پھر “احسن پوچھتے ہوئے ایک بار ہچکچایا تھا
“کس بارے میں؟”آنسہ بیگم نے اسی سے سوال داغ دیا
“رشتے کے بارے میں ” احسن نے سر کھجاتے ہوئے کن اکھیوں سے ماں کی طرف دیکھا
“اچھا ہاں وہ۔۔۔۔ وہ تو میں نے تمہارے بابا کو منع کر دیا تھا کہ احسن اس رشتے کے لیے راضی نہیں ہے آپ فاطمہ کا کہیں اور رشتہ طے کر دیں اور اب وہی بات عبداللہ کے ساتھ چل تو رہی ہے ” آنسہ بیگم نے بات جان بوجھ کر دوسرے رخ پر پھیری تھی ،احسن سن کر جھنجھلایا،
“ماں میں یہی پوچھ رہا ہوں کہ کیا آپ نے فاطمہ کا رشتہ وہاں طے کر دیا ؟” اب وہ اصل لائن پر آیا تھا اور آنسہ بیگم تو یہ بات بخوبی جانتی تھیں
” نہیں ابھی فاطمہ کی مرضی لینا باقی ہے ، اس پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ وہ کیا کہتی ہے ؟” آنسہ بیگم نے ایک اور تاش کا پتا پھینکا تھا
“اس کا مطلب ابھی انکار نہیں کیا” احسن سوچتے ہوئے بڑبڑایا تھا لیکن آنسہ بیگم نے سن تو لیا ہی تھا
“کیا مطلب ہے بیٹا جی ؟”
“ماما وہ پہلے میں نے ہی آپ کو منع کیا تھا نا کہ میں راضی نہیں ہوں ، اب میں یہ کہنے آیا ہوں کہ میں راضی ہوں آپ اور بابا کی مرضی ہے جہاں چاہے رشتہ کر دیں میرا مجھے اب کوئی اعتراض نہیں ” کس ہوشیاری سے وہ والدین کی فرمانبرداری کر رہا تھا واہ بھئی واہ ،
آنسہ بیگم نے دل ہی دل میں بیٹے کو داد دی تھی یعنی کہ باتیں اسے بھی بنانا آ ہی گئی تھیں
“نہیں بیٹا جی آپ کے ابو نے اور میں نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی مرضی کی بغیر کچھ بھی نہیں ہو گا”
“”لیکن اماں میں کہہ رہا ہوں میں راضی ہوں فاطمہ سے شادی کرنے کے لیے “احسن نے شادی پر زور دیتے ہوئے کہا
“تم پہ کوئی زبردستی نہیں ہے احسن ”
“ماما بس آپ پاپا کو کہہ دیں کہ میں راضی ہوں ” احسن نے ضدی لہجے میں کہا تو آنسہ بیگم نے اپنے بیٹے کے لب و لہجے پر غور کیا
” اور اب اگر وہ نہ مانے تو ؟” انہوں نے ایک اور سوال اٹھایا تھا
“تو انہیں آپ منائیں گی ” احسن نے آنسہ بیگم کے گلے میں بازو حمائل کرتے ہوئے کہا تو وہ بھی محظوظ کن طریقے سے ہنس دیں
“اچھا مکھن نہ لگاؤ ،کرتی ہوں کچھ، یہ تو تمہیں انکار کرنے سے پہلے سوچنا چاہئیے تھا نا ”
“اس وقت اندازہ تھوڑی ہی تھا ” احسن نے دھیمے لہجے میں کہا اور گنگناتے ہوئے کچن سے نکل گیا جبکہ آنسہ بیگم وہیں کھڑی اس کے کہے ہوئے آخری جملے پر ہی غور کرتی رہیں جو کہ بلکل غیر معمولی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ لان میں کھڑی گلاب کے پھول توڑ رہی تھی ، جب احسن بالکونی پر کھڑا اسے مسلسل دیکھ رہا تھا
پہلے کبھی بھی اس نے فاطمہ کو اتنے غور سے نہیں دیکھا تھا جتنا وہ آج دیکھ رہا تھا وائٹ کلر کے سادہ سے سوٹ میں وہ بلکل اسے ایک نوخیز کلی کی مانند لگی تھی ، پھول توڑ کر وہ اندر جانے لگی تھی جب اس کی نظر بالکونی میں کھڑے احسن پر پڑی تھی جو یک ٹک اسے ہی دیکھے جا رہا تھا
فاطمہ نے اسے گھوری سے نوازا تھا اور اندر ہال میں چلی گئی جبکہ احسن کہ لبوں پر مسکراہٹ تھی
ایک گہری مسکراہٹ ، مطلب وہ غصے میں بھی پیاری لگ رہی تھی ، دل جب کسی کو چاہنے لگتا ہے تو ایسے ہی بات بات پہ ہنسی آتی ہے وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فاطمہ اس طرح اسے اچھی لگنے لگے گی حالانکہ وہ جب جب بات کرتے تھے لڑتے ہی تھے لیکن احسن نے جان لیا تھا کہ وہ بہت جلد اس سے ہار گیا تھا اور ابھی مزید اسے ہارنا بھی تھا، محبت کے بعد ایک اور منزل بھی آتی ہے جو محبت کو مضبوط کر دیتی ہے اور احسن کو وہ منزل حاصل کرنا ہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“احمد آپ کا لاڈلا سپوت خود آ کر مجھے کہہ گیا ہے کہ وہ فاطمہ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہے ” آنسہ بیگم نے ہنستے ہوئے یہ خبر جب احمد صاحب کو سنائی تو وہ کھلکھلا ہی اٹھے
“واہ بھئی یہ تو اچھی خبر سنائی ہے آپ نے ، میں جانتا تھا کہ وہ ضرور مانے گا ، لیکن یہ یاد رہے کہ کوئی زبردستی تو نہیں اسے ؟” احمد صاحب کو پھر بھی فکر لاحق ہوئی تھی
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں بلکہ وہ مجھے بار بار انسسٹ کر رہا تھا کہ میں آپ سے بات کروں ”
اس کا مطلب ہمارا ڈرامہ کام کر گیا ” احمد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا تو آنسہ بیگم بھی مسکرا اٹھیں
“ہاں لیکن احسن کو اس بارے میں خبر نہیں ہونی چاہئیے ”
“آپ بے فکر رہیں ” انہوں نے آج سکون کا سانس لیا تھا کہ اس فرض سے وہ سبکدوش ہونے والے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہاں ثانیہ میں نے ماما کو کہہ دیا ہے کہ وہ بابا کو بتا دیں ” احسن نے ثانیہ کو کال کر کے بتایا تھا
“چلو یہ تو اچھا ہو گیا اب آگے کا کام ان کا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں اوردوسری بات یہ کہ فاطمہ کی بھی مرضی ہونی چاہئیے ،اس کا بھی پتہ کرو نا”
“ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو ، یہ بھی بندوبست کرتے ہیں کچھ ” احسن نے کال ڈراپ کی اور خود نیچے آ گیا،
نیچے کی تو سچویشن ہی بدلی ہوئی تھی ، لاؤنج میں مہمان بیٹھے ہوئے ، عبداللہ کے ساتھ اس کی ماما اور بابا دونوں موجود تھے ، احسن کو جب معاملے کی نوعیت کا احساس ہوا تو اس کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئ تھیں ، آنسہ بیگم اس کے اشارہ کرنے پر کچن کی طرف آئی تھیں
“ماما جب میں نے آپ سے کہہ دیا تھا تو یہ لوگ یہاں کیوں آئے ہیں ” احسن نے اپنے لہجے کو دھیما کرتے ہوئے قدرے حیرت اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں پوچھا
“ریلیکس کرو احسن ، ابھی وہ لوگ بات ہی کرنے آئے ہیں ہم کوئی مناسب جواب دے دیتے ہیں ، ” انہوں نے احسن کے غصے کو ٹھنڈا کیا تھا اور خود وہ احمد صاحب کو ان کے کمرے سے بلانے گئیں
“احمد ڈرامہ تو اب شروع ہو رہا ہے ، وہ لوگ سچی میں فاطمہ کے رشتے کے لیے آ گئے ہیں اور احسن کے بھی سوال جواب شروع ہو گئے اوپر سے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی ،آپ پلیز نیچے آئیں اور سچویشن کو ہینڈل کریں ” آنسہ بیگم نے پریشانی میں کہا جبکہ پریشان تو احمد صاحب بھی ہو گئے تھے
___________
لیکن پھر بھی انہوں نے آنسہ بیگم کو تسلی دیتے ہوئے نیچے بھیج دیا تھا جبکہ فریش ہو کر وہ خود بھی نیچے آ رہے تھے
خوشگوار ماحول میں بات ہوئی تھی ، جبکہ احمد صاحب نے بڑے آرام اور معذرت کن لہجے میں انکار کیا تھا کہ احسن اور فاطمہ کا نکاح وہ لوگ کر چکے ہیں اور رخصتی وہ لوگ کرنے ہی والے ہیں اگرچہ انہوں نے جھوٹ بولا تھا لیکن مصلحت کی خاطر کہ اس طرح عبداللہ کی فیملی بھی ڈس ہارٹ نہیں ہو گی ، ان سب باتوں سے فاطمہ کو بہت اعتراض تھا کہ ماموں نے ایسا کیوں کہا ہے جبکہ احسن بہت خوش تھا ، مہمانوں کے جانے کے بعد احمد صاحب نے سب کو تیاری کرنے کا کہہ دیا تھا کہ احسن اور فاطمہ کا نکاح وہ لوگ چند دنوں کے بعد کر دیں گے کیونکہ مجیب اور اسکے بیٹے ثاقب سے چھٹکارے کا حل بھی یہی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احسن آفس سے آ کر ابھی فریش ہی ہوا تھا جب فاطمہ تنتناتی ہوئی اس کے کمرے میں آئی تھی ،اسےاپنے کمرے میں دیکھ کر احسن بہت حیران ہوا تھا ،وہ تولیے سےگیلے بال خشک کر رہا تھا
“مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ” فاطمہ نے اپنا چہرہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا
“ہاں ہاں کہو ” احسن نے تولیہ بیڈ پر پھینکا تھا اور پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوا تھا
“ماموں کو آپ انکار کر دیں ” فاطمہ نے دو ٹوک بات کی تھی
“کس بارے میں ” احسن نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا حالانکہ اسے علم ہو چکا تھا
“آپ نا یہ ایکٹنگ کم کریں اور انہیں منع کر دیں ہمارے نکاح کے لیے ”
“اچھا تو یہ بات ہے ، تم خود کیوں نہیں منع کر لیتی ” احسن نے اس کا گہری نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے کہا
“کیوں میں کیوں منع کروں اور بات یہ ہے کہ جب آپ نے پہلی دفعہ انکار کیا تھا تو اب انکار کرنے میں کیوں ہچکچا رہے ہیں ” فاطمہ نے جو باتیں سنی تھیں اس حوالے سے زکر کیا تھا احسن ایکدم چونک گیا تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ فاطمہ اس کے انکار سے واقف ہو گی
” سوری میں انکار کر کے بابا کے سامنے برا نہیں بننا چاہتا تم کر دو ” ” میں کیسے کر دوں انہوں نے مجھ سے پوچھا ہی نہیں کہ میری مرضی کیا ہے ” فاطمہ کا بس نہیں چل رہا تھا
“مطلب تم راضی نہیں ہو اور بندوق میرے کندھے پر رکھ کر چلانا چاہتی ہو ” احسن نے سوالیہ لہجے میں پوچھا تو وہ گڑبڑا گئی
“ہاں میں راضی نہیں ہوں ، اورمیں نہیں چاہتی میں انکار کروں لہذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ منع کر دیں ماموں کو “احسن نے اس کی بات نہیں سنی تھی بلکہ وہ تو اس کی طرف دیکھ رہا تھا جس کا غصہ حد سے زیادہ بڑھی جا رہاتھا احسن تھوڑا قریب ہوا تھا ،جبکہ وہ اس کے تیور دیکھ کر پریشان ہوتے ہوئے اپنے قدم اسسے تھوڑے پیچھے کر چکی تھی ، وہ آگے بڑھ رہا تھا لیکن اب کی بار فاطمہ الماری کے ساتھ لگ چکی تھی ، احسن نے آہستہ آہستہ ہاتھ بڑھایا تو وہ ڈر گئی ، اور پھراس نے بڑے آرام سے اس کے بالوں میں سے گلاب کی پتی نکالی تھی اور اس کے سامنے کرتے ہوئے اپنے ابرو اچکائے تھے جیسے کہہ رہا ہو کہ یہ ہٹا رہا تھا
فاطمہ نے وہاں سے جانا چاہا تھا لیکن احسن نے اس کے گرد اپنے دونوں بازو باندھ کر اس کو جانے سے روک دیا تھا
“اب بتاؤ تم کیوں چاہتی ہو کہ میں انکار کروں ” اس نے اتنی آہستہ آواز میں پوچھا تھا کہ وہ بمشکل سن پائی تھی جبکہ خود اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا
“پیچھے ہٹیں اور مجھے جانے دیں ” فاطمہ نے اس کا بازو ہٹانے کی کوشش کی تھی لیکن گرفت مضبوط تھی
“نہیں ایسے نہیں پہلے جواب دو ” احسن مسلسل اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا جبکہ فاطمہ کو شدید کوفت ہو رہی تھی
“ویسے ہی جیسے آپ نے انکار کیا تھا ”
“مطلب تم میرے انکار کو لے کر پریشان ہو ” احسن بات کو ہیر پھیر کر رہا تھا تھا
“جو بھی مطلب ہو آپ کو کیا ؟”
“ارے واہ یہ خوب کہی تم نے ،تم نہیں جانتی سارے مطلب مجھ سے ہی تو ہیں ” احسن نے اس کے چہرے پر جھولتی لٹ کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر کان کے پیچھے کرنا چاہا تھا لیکن فاطمہ نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا اور اس کے سینے پر دونوں ہاتھوں سے دباؤ ڈالتی وہ اسے پیچھے کر چکی تھی
” میں یہ شادی نہیں کروں گی ،سنا آپ نے؟ ” فاطمہ اسے انتہائی غصے میں انگلی اٹھاتے ہوئے وارن کر گئی تھی جبکہ احسن کے چہرے پر ایک واضح مسکراہٹ تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...