کمرے میں خاموشی تھی۔
اور یہ خاموشی طویل ہوتی جا رہی تھی۔
عبیر کی باتیں سننے کے بعد برہان سوچ میں پڑ گیا تھا۔
وہ اس کی ذہنی حالت سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہا تھا۔
کیونکہ پرانی عبیر میں اور آج والی عبیر میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
اس کے چہرے پر آج وہ معصومیت نہیں تھی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔
آج اس کے چہرے پر بے انتہا سختی تھی۔
اسے لگ رہا تھا اس کے سامنے عبیر احسان نہیں بلکہ کوئی پتھر کی مورت بیٹھی ہوئی ہے۔
” آپ اپنے شوہر کا قتل کرنے کے بعد اپنے گھر کیوں نہیں گئیں میرے پاس کیوں آئیں؟”
طویل خاموشی کو توڑتے ہوئے برہان نے کہا۔
” قاتل قتل کرنے کے بعد چھپتا ہے۔کہ کہیں کوئی اسے تلاش نہ کر لے۔ وہ ایسی جگہ چلا جاتا ہے جس جگہ کا کسی کو بھی علم نہیں ہوتا۔ ”
عبیر نے کہا۔
” اپنے شوہر کا قتل کرتے ہوئے ایک پل کو بھی آپ کو یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ آپ سے کتنی محبت کرتا ہے؟ اس نے آپ کے لئے اتنا کچھ کیا۔۔۔ ”
برہان نے پوچھا۔
وہ جانتا تھا کہ وہ غلط سوال کر رہا ہے لیکن وہ جان بوجھ کر یہ غلط سوال کر رہا تھا۔
” وہ مجھ سے نہیں اپنے آپ سے محبت کرتا تھا۔اس نے میرے لئے جو کچھ بھی کیا صرف اس لئے کیا تھا کہ اسے خوشی مل سکے۔ اگر اسے واقعی مجھ سے محبت ہوتی تو وہ کرتا جس میں میری خوشی تھی۔ محبت کے اصول میں نے آپ سے ہی سیکھے ہیں سر۔کیسے بھول سکتی ہوں۔۔۔ وہ باتیں نہیں ایک توانائی تھی جو آپ نے میرے اندر بھر دی تھی۔ آپ نے ہی تو مجھے سکھایا ہے کہ کب اور کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔”
عبیر نے کہا۔
” میں نے آپ کو قتل کرنا تو ہرگز نہیں سکھایا تھا مس عبیر احسان۔”
برہان احمد نے کہا۔
” سر میں آپ کے پاس آج سیشن لینے نہیں آئی ہوں۔۔۔ میں آپ کے پاس پناہ لینے آئی ہوں۔ ”
عبیر نے اُمید سے کہا تو برہان سوچ میں پڑ گیا۔۔
_____________
زندگی آرام سے رواں دواں تھی۔
سب کچھ نارمل چل رہا تھا۔
سدرہ نے عبیر کے متعلق سوچنا چھوڑ دیا تھا۔
علی اپنی جاب اور دیگر سرگرمیوں میں مشغول تھا۔
احسان احمد سرکاری افسر تھے۔ علی کو کسی پرائیویٹ فرم میں جاب مل گئی تھی۔ بہت اچھا گزر سفر ہو رہا تھا اس گھر کے مکینوں کا۔
عبیر نے دل لگا کر پڑھنا شروع کر دیا۔
اسے احساس تھا کہ جتنی مشکل سے اسے پڑھنے کی اجازت ملی ہے یونیورسٹی میں تو بہت اچھے طریقے سے پڑھنا ہے.
اب وہ آرام سے یونیورسٹی آتی جاتی تھی۔اس کی گھبراہٹ تقریبا ختم ہو گئی تھی اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔وہ حریم کے ساتھ ہوتی تھی۔وہ دونوں ہی کسی اور سے بات نہیں کرتی تھیں بلا ضرورت۔
اُدھر شہیر شیرازی عبیر کے متعلق سوچ سوچ کے ہلکان ہوگیا تھا۔
” صاحب کیا بات ہے آج کل آپ پریشان لگ رہے ہیں؟” وہ لاؤنج میں صوفے سے سے ٹکائے گہری سوچ میں غلطاں تھا کہ اُس کے ملازم رشید نے پوچھا۔
” بس کسی نے پریشان کر دیا ہے رشید۔” وہ اپنی کنپٹی کو مسلتے ہوئے بولا۔
” صاحب اگر کوئی پریشانی ہے تو آپ مجھے بتا دیں آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔”
رشید نے کہا۔
” تمہارا بہت شکریہ رشید۔۔۔ لیکن بات کسی کو بتانے والی نہیں ہے بس میرے حق میں دعا کرو۔”
شہیر نے کہا۔
( وہ بہت معصوم ہے۔اور ابھی نئی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اُسے یونیورسٹی کی ہوا نہیں لگی ہے۔ اور صاف ظاہر ہے کہ ابھی تک اس کی زندگی میں کوئی آیا نہیں ہے۔مجھے جلدی پہل کرنی ہوگی ورنہ۔۔۔ وہ اتنی خوبصورت ہے کہ بہت جلد اس کی زندگی میں کوئی آجائے گا۔اسے دیکھ کر نظر انداز کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ اس سے پہلے کی کوئی اور میرے حق پر ڈاکہ ڈال دے مجھے ہمت کرنی ہوگی۔)
شہیر شیرازی فیصلہ کر چکا تھا۔
وہ صرف اس انتظار میں تھا کہ کسی دن حریم یونیورسٹی نا آئے اور وہ اکیلی ہو تو اس سے بات کرے۔
اور یہ وقت بہت جلدی ہی آ گیا تھا۔
________________
” حریم کی طبیعت صحیح نہیں ہے آج وہ یونیورسٹی نہیں جائے گی۔ابا آپ مجھے ڈراپ کر دیں آج.”
ناشتے کی میز پر ڈرتے ہوئے اس نے احسان احمد سے کہا۔
” جب حریم نہیں جا رہی ہے تو تمہیں بھی جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔گھر پر رہو آرام سے۔”
احسان احمد نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
” ضروری لیکچرز ہیں۔میں انھیں مس نہیں کرنا چاہتی۔ بلاوجہ پڑھائی کا لوڈ بڑھ جائے گا۔ ”
عبیر پھر بولی۔
” جب ایک بار میں نے کہہ دیا ہے کہ تم نہیں جاؤں گی تو بس نہیں جاؤ گی۔ جب حریم کی طبیعت صحیح ہو جائے اور وہ یونیورسٹی جانا شروع کر دے تو اس کے ساتھ جانا۔”
احسان احمد کہتے ہوئے نکل گئے آفس کے لیے۔
” علی پلیز تم مجھے لے جاؤ۔بہت ضروری لیکچرز ہیں خواہ مخواہ میں چھٹی کرنے سے کیا ہوگا۔”
علی سے کسی نیکی کی امید تو نہیں تھی لیکن پھر بھی بولی۔
” تین چار دن چھٹی کر لو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔”
علی کہتا ہوں اٹھا اور باہر کی جانب بڑھنے لگا تو عبیر اس کے پیچھے بھاگی۔
” پلیز علی مجھے ڈراپ کر دو میں چھٹی نہیں کرنا چاہتی میں محنت سے پڑھائی کر رہی ہو۔یقین کرو میرا مقصد صرف پڑھائی کرنا ہے۔”
اس نے معصومیت سے کہا تو علی رک گیا وہ دونوں کار پورچ میں کھڑے تھے۔
” ایک شرط پر۔” علی بولا۔
” ہر شرط منظور ہے۔” وہ فوراً بولی۔
” مجھے حریم کا نمبر دو۔” علی نے رازداری سے کہا۔
” پتہ تھا ۔۔۔ پتہ تھا مجھے ۔۔۔ سمجھ گئی تھی میں تمہاری نیت۔ جاؤ بس۔” وہ واپس جانے لگی تو علی نے اُسے روک لیا۔
” اچھا آجاؤ ۔۔۔ ڈراپ کر دیتا ہوں تمہیں۔۔۔ کیا یاد کرو گی۔” علی نے کہا تو وہ خوش ہوگئی۔
علی کو کمپنی کی طرف سے نئی گاڑی ملی تھی۔ وہ اُس میں بیٹھ گئی۔
” میں سنجیدہ ہوں۔” علی ڈرائیو کرتے ہوئے بولا۔
” کس بارے میں؟” عبیر نے پوچھا۔
” حریم کے متعلق۔ شادی کرنا چاہتا ہوں اُس سے۔” علی بولا۔
” ایسا سوچنا بھی مت۔” عبیر نے کہا۔
” کیوں میں ایسا کیوں نہیں سوچ سکتا تمہیں کیا مسئلہ ہے؟” علی نے کہا۔
” وہ میری واحد دوست ہے۔اس کے علاوہ مجھے کسی پر بھروسہ بھی نہیں ہے۔اس کے علاوہ کوئی میرا ساتھ بھی نہیں دیتا ہے۔اگر وہ میری بھابھی بن گئی تو عجیب ہی رشتہ ہوجائے گا ہم دونوں کے بیچ۔دوستی میں دراڑ آجائے گی۔یہ سسرالی رشتے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ میں اس کی سسرالی رشتہ دار بن گئی تو پھر اسے مجھ سے نفرت ہو جائے گی۔اگر تم نے حریم سے شادی کر لی تو میں اپنی واحد دوست ہمیشہ کے لئے کھو دو گی اور میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔” عبیر نے کہا۔
” تم سے کس نے کہا کہ تمھاری بھابھی بننے کے بعد وہ تمہاری دشمن بن جائے گی؟ میرے خیال سے تو تمہیں خوش ہونا چاہیے اس بات پر کہ وہ ہمارے گھر میں آجائے گی اور تم جتنی باتیں اس کے ساتھ کرنا چاہو کر سکتی ہو۔ میں بہت پہلے سے پسند کرتا تھا لیکن میری جاب نہیں لگی تھی اور میں خود کو اس کی قابل نہیں سمجھتا تھا۔مگر چونکہ اب میری جاب لگ گئی ہے اور میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ہو تو مجھے شادی کر لینی چاہیے میرے والدین کی بھی یہی خواہش ہے ۔ایک ہی تو بیٹھا ہوں میں ان کا۔” علی بولا۔
” میرا مشاہدہ یہی ہے کہ جب دو بیسٹ فرینڈز نند بھابی بن جاتی ہیں تو ان کی دوستی ختم ہو جاتی ہے اور ایک عجیب سا حسد اور نفرت والا تعلق ان کے بیچ میں پیدا ہو جاتا ہے یہ میں نے ایک ناول میں پڑھا تھا۔” عبیر نے کہا۔
عبیر حریم کے جذبات سے بھی اچھی طرح سے واقف تھی۔ جب وہ علی کا ذکر کرتی تھی تو اس کے گال بلش ہو جاتے تھے۔اس کا چہرہ کھل اٹھتا تھا عبیر نے محسوس کیا تھا کہ وہ بھی علی سے خاموش محبت کا شکار ہے۔ حریم نے کبھی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن عبیر سمجھ سکتی تھی۔
حریم اس کی بچپن کی سہیلی تھی لیکن جوانی میں داخل ہوکر اس دوستی کو قائم رکھنے کے پیچھے یہی وجہ تھی کہ حریم کو علی سے محبت تھی۔بچپن سے ان کے گھر آتی جاتی تھیں کبھی کبھار علی سے ٹاکرا ہو جاتا تھا دونوں کا بحث مباحثہ بھی ہوتا تھا اور دونوں ہی اس بحث مباحثے کو انجوائے کرتے تھے۔
ہوں ہی مذاق مذاق میں دونوں کو محبت ہو گئی تھی شاید اور اب یہ جذبہ چھپائے نہیں چھپ رہا تھا۔
” ایک تو ان ناولز نے لڑکیوں کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ضروری نہیں ہے کہ اگر ایک ناول میں ایسا ہوا ہوں تو ہر گھر میں ایسا ہوگا۔ان جھوٹی کہانیوں کو خود پر سوار نہ کرو۔اسی لئے ابا تمہیں آزادی دینے سے ڈرتے ہیں۔کیونکہ تمہارا دماغ چھوٹا سا ہے۔جھوٹی کہانیاں پر جلدی یقین کر کے انہیں حقیقت سمجھنے لگتی ہو۔ حقیقت سے سیکھنے کی بجائے کہانیوں سے سیکھتی ہو۔” علی نے کہا۔
یونیورسٹی آ گئی تھی۔
باتوں باتوں میں پتہ ہی نہیں چلا۔
لیکن اب عبیر کو پھر سے گھبراہٹ نے گھیر لیا تھا۔
اتنے دنوں میں آج پہلی بار تھا کہ حریم اس کے ساتھ نہیں تھی۔
لیکن وہ جان بوجھ کر آئی تھی تاکہ اپنے اندر تھوڑی سی خود اعتمادی پیدا کر سکے۔ حریم کے بغیر بھی آنا جانا سیکھ لے۔ اسے معلوم تھا کہ حریم ساری زندگی اس کے ساتھ نہیں ہوگی اس لئے اس نے اکیلے ہی آگے بڑھنا ہے اب۔
کلاس شروع ہونے میں ابھی وقت تھا۔وہ بینچ پر آ کر بیٹھ گئی اور کلاس شروع ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
وہ چاہتی تھی جلدی سے کلاس شروع ہو جائے تاکہ اسی سکون ملے۔
آتے جاتے تمام لوگ اسے گھور رہے تھے۔
وہ اکیلی بیٹھی تھی اس لئے سب کی توجہ کا مرکز بن رہی تھی۔
آنے جانے والے اسٹوڈنٹس اس پر ایک نظر ڈال رہے تھے کہ آج وہ اکیلی کیوں ہے۔
سب کی نظروں سے اسے الجھن ہو رہی تھی تو وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ایسے کونے میں جا کر بیٹھ گئی جہاں اُسے کوئی دیکھ نہ سکے۔
وہ کافی دير وہاں بیٹھی رہی۔ کلاس اب آٹھ منٹ بعد شروع ہونے ولی تھی۔
شہیر شیرازی جیسے ہی اندر سے باہر آیا تو اس کی نظر بینچ پر بیٹھی ہوئی عبیر پر پڑی۔
اس کو یوں تنہا پریشان دیکھ کر اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ آج اس کی سہیلی اس کے ساتھ نہیں تھی اور یہی بہترین موقع تھا۔
وہ اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔
عبیر نے سر جھکایا ہوا تھا۔ اس کی نظر سامنے کھڑے ہونے والے شخص کے جوتوں پر گئی۔
عبیر کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
” اسلام علیکم مس عبیر، کیسی ہیں آپ؟ ” شہیر شیرازی نے کہا۔
موقع اچھا تھا۔ اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا۔ کوئی اُن دونوں کو دیکھ نہیں سکتا تھا آسانی سے۔
عبیر ایک دم کھڑی ہوئی۔
” میری کلاس شروع ہونے والی ہے۔” شہیر کے سوال کا جواب دیے بغیر ہی وہ بولی اور آگے بڑھنے لگی لیکن شہیر نے اس کا راستہ روک لیا۔
” ریلیکس مس عبیر، آپ اتنی گھبراہٹ کا شکار کیوں ہو رہی ہیں میں آپ کا ٹیچر ہوں۔ آپ کو مجھ سے خوف زدہ ہونے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے۔مجھے آپ سے ضروری بات کرنی تھی اسی لئے آپ کے پاس آیا ہوں۔”
شہیر شیرازی نے اسے آرام دہ کرنے کے لیے کہا۔
اس کے گھر والوں نے اسے لڑکوں سے بات کرنے سے منع کیا تھا لیکن یہ تو اس کا استاد تھا۔۔۔ وہ سوچنے لگی۔
” جی سر بولیں۔” اس نے ہمت کر کے کہا۔
” مس عبیر ، میں آپ سے ” نکاح” کرنا چاہتا ہوں۔”
بنا کوئی تحمید باندھے وہ مطلب کی بات پر آیا تو عبیر حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی۔
شہیر شیرازی کی بات سن کر اس کی آنکھوں کے سامنے جیسے اندھیرا چھانے لگا تھا۔
وہ پہلے ہی کمزور اعصاب کے مالک تھی اور اب اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔
اگر کوئی معمول کی بات ہوتی تو وہ ہمت کر لیتی لیکن آگے سے اس شخص نے بات ہی ایسی کر دی تھی کہ اسے کچھ ہوش نہیں رہا اور اگلے ہی پل وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوکر نیچے گر پڑی۔
” مس عبیر، شہیر پریشان ہوگیا۔ اور اُسے تھام کر اُس کا گال تھپتھپانے لگا۔
جلدی ہی اُسے ہوش آگیا۔
” عبیر آپ ٹھیک تو ہیں؟” وہ بولا۔
عبیر ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی۔
” م م مجھے گھر جانا ہے ” وہ پریشانی سے بولی۔
” نہیں آپ کو ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔” شہیر نے کہا۔
” نہیں ۔۔۔ مجھے گھر جانا ہے ” وہ پھر بولی۔
” آپ کی صحت صحیح نہیں لگ رہی ہے چلیں آئیے میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں۔” وہ بولا
” نہیں ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔ میری کلاس ہے۔” عبیر نے کہا اور وہاں سے نکلنا چاہا۔
” مس عبیر ۔۔۔ میں نے کوئی غیر اخلاقی بات تو نہیں کی ایک جائز بات کی ہے اس پر اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ آپ سوچ کر جواب دے دو مجھے میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔ ” وہ بولا اور وہاں سے تیزی سے نکل گیا۔
اُسے خوف تھا کہ کوئی اُسے عبیر کے ساتھ ایسے دیکھ نہ لے۔ اور یہ کے وہ عبیر سے پہلے جانا چاہتا تھا۔۔۔
_________________
گھر جانا کافی مشکل تھا کیونکہ اس کے پاس ذریعہ نہیں تھا اس وقت گھر جانے کا اور علی اُسے لینے آئے گا نہیں۔ اور احسان احمد کو وہ بتانا نہیں چاہتی تھی۔
اس نے اپنے اندر ہمت جمع کی اور کلاس اٹینڈ کرنے کے لیے آئی۔
اسے اپنے آپ پر شدید غصہ آ رہا تھا۔
( ابا صحیح کہہ رہے تھے مجھے نہیں آنا چاہیے تھا اکیلے۔ آج اکیلے آگئی تو اتنا مسئلہ ہوگیا ایک ساتھ ۔ حریم ساتھ ہوتی تو یہ سب نہ ہوتا۔ والدین جو بھی کہتے ہیں ہماری بھلائی کے لئے کہتے ہیں۔پتا نہیں کیوں ہم بچے والدین سے ضد لگا بیٹھے ہیں اور ذلیل ہوتے ہیں جیسے کہ آج میں ہو رہی ہوں۔)
وہ خود کو کوستی جا رہی تھی۔
آخری لیکچر شہیر شیرازی کا تھا اور اس کے دل کی دھڑکنیں ایک بار پھر سے بے قابو ہو گئی تھیں۔
کلاس کے دوران وہ مسلسل اسے گھور رہا تھا۔
اس کے گھورنے کا انداز الگ تھا۔
وہ اپنی نظریں اس کی نظروں میں پیوست کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ عبیر گھر جائے تو اس کی نظروں کے حصار میں رہے۔
_______________
وہ گھر واپس آئی تو کھوئی کھوئی سی تھی۔
” کیا بات ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا یونیورسٹی میں کچھ ہوا ہے کیا؟” سعدیہ بیگم نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
ہمیشہ یہ خوف سعدیہ بیگم کے اندر تھا کہ یونیورسٹی میں کچھ گڑ بڑ نہ ہو جائے۔
اور آج عبیر کی یہ حالت دیکھ کر وہ کافی پریشان ہو گئی تھیں۔
پہلے تو اس کا دل کیا کہ اپنی ماں کو سب کچھ بتا دے لیکن ماں بیٹی کے مابین اتنی دوستی نہیں تھی۔ایک جھجھک تھی جو بچپن سے ان دونوں کے درمیان تھی۔
اور جب ماں بیٹی کے مابین دوستی نہیں ہوتی ہے تو یہ سب سے خطرناک سچویشن ہوتی ہے ماں اور بیٹی دونوں کے لیے۔
ستم یہ کی بہن سے بھی دوستی نہیں تھی تو مسئلہ اور پیچیدہ تھا۔
جس سے دوستی تھی وہ بیمار پڑی تھی اور اسے بتا کر وہ فی الحال پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
حریم کو ملیریا ہوا تھا اور اس کی حالت غیر تھی۔عبیر نے فون کیا لیکن اس سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا ملیریا کا بخار ہوتا ہی ایسا ہے۔
یعنی سارا ہفتہ اسے اکیلے ہی یونیورسٹی جانا تھا۔
پہلے تو اس نے سوچا کہ وہ بھی ہفتہ چھٹی کر لے جب تک حریم ٹھیک نہیں ہو جاتی لیکن اس طرح پڑھائی کا حرج ہوگا اور برڈن زیادہ ہو جائیگا۔
” عبیر میں کچھ پوچھ رہی ہوں تم سے۔” سعدیہ بیگم نے اس بار سختی سے کہا۔
” تھک گئی ہوں امی آج پڑھائی بہت زیادہ تھی۔آرام کرنا چاہتی ہوں۔” اُس نے کہا۔
رات کو سونے کیلئے لیٹی تو شہیر شیرازی کا جملہ اس کی کانوں میں گونجنے لگا۔
(۔ میں آپ سے ” نکاح” کرنا چاہتا ہوں۔)
ہزاروں مرتبہ یہ جملہ اس کے ذہن میں کوئی دہرا رہا تھا۔
وہ پہلو بدل بدل کر تھک گئی تھی مگر اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔
جس لڑکی نے کبھی کسی لڑکے سے بات بھی نہ کی ہو اچانک ہی سے ایک شخص اس کے سامنے آ کر اس طرح کی بات بول دے تو وہ لڑکی کیسے پرسکون رہ سکتی تھی۔
( مس عبیر، میں آپ سے ” نکاح” کرنا چاہتا ہوں۔)
اس ایک جملے نے عبیر کا چین سکون چھین لیا تھا صرف چند گھنٹوں کے اندر ہی۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...