(Last Updated On: )
محبت کے ابد آباد میں اک گھر بنانا چاہتا ہوں
بنانا جس کا ممکن تو نہیں ہے، پر بنانا چاہتا ہوں
یہ لامحدود آزادی مگر میرے مقدر میں نہیں ہے
کہ میں دیوار میں دیوار جتنا در بنانا چاہتا ہوں
یہ آنسو جو بہت شوریدہ سر ہے، ضبط میں رکھا ہوا ہے
میں اس کی پرورش کر کے اسے گوہر بنانا چاہتا ہوں
کہیں امکان سے باہر نہ ہو یہ خواہش تعمیر میری
کہ میں دنیا کو دنیا سے ذرا بہتر بنانا چاہتا ہوں
زمیں پیرانہ سالی میں جھکے افلاک سے تنگ آ گئی ہے
نیا سورج، نئے تارے، نیا امبر بنانا چاہتا ہوں
یہ دنیا ان گنت اصنام کا اک بت کدہ لگتی ہے مجھ کو
انہیں مسمار کر کے ایک ہی پیکر بنانا چاہتا ہوں
٭٭٭