کبھی راستوں میں تنہا
کبھی ہوں گرد سہرا
میں جنوں کا ہمسفر ہوں
میرا کوئی گھر نہیں ہے
ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا۔ جسے چاند اپنی روشنی سے کم کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ لیکن قدرت کا قانون ہے کہ ہر چیز اپنے حصے کا کام کرتی ہے وہ کسی اور کے کام میں دخل اندازی نہیں کرسکتی ۔کالی رات اپنے ساتھ اگر اندھیرا لاتی ہے تو اس کے ساتھ اس اندھیرے کو کم کرنے کے لیے چاند ہوتا ہے۔ جس طرح ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے یا ہر کالی رات کے بعد ایک روشن صبح ہے۔
سڑکوں پر گزرتی گاڑیوں کی ہیڈ لائیٹس چمک رہی تھیں ۔ اگر نگاہ اٹھا کر اوپر دیکھا جائے تو چاند آج بھی اس کی کھڑکی سے جھانک رہا تھا ۔ جہاں وہ مزے سے بیڈ پر بیٹھی تھی ۔ ہلکے سبز رنگ کی کرتی پہنے کالا دوپٹہ گلے میں ڈالے وہ کمبل میں دبکی ہوئی تھی ۔ گھنے براؤن بالوں کا ڈھیلا جوڑا بنا ہوا تھا ۔
کام ہوگیا ارسا آپی ۔ عبداللہ ہاتھ میں چاکلیٹس کے پیکٹ پکڑے کمرے میں داخل ہوا۔ارسا نے مسکرا کر اسے دیکھا
اس بار کیا کیا زینب کے ساتھ؟ اس نے اسے بیڈ کمبل دیتے ہوئے کہا ۔
اللہ جھوٹ نہ بلوائے میں نے کچھ بھی نہیں کیا بس پتا نہیں زینب کے نوٹس کیسے میری سائیڈ ٹیبل کی دراز میں آگئے ۔ پھر جب وہ لینے آئی تو میں نے بدلے میں چاکلیٹس طلب کیئے اور ایسے ایک بار پھر آپ کا کرائم پارٹنر چاکلیٹس کے میدان میں فتح کا جھنڈا گاڑھ کر آیا ہے ۔ اس نے بڑی بیبیوں کی طرح کہا ۔ ارسا نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا ۔
ایک بات تو بتائیں ارسا آپی ! عبداللہ نے چاکلیٹ کا ریپر اتارتے ہوئے کہا
ہمم۔ بولو۔
یہ محبت کیا ہوتی ہے جس کا آج کل کے لوگوں پر بھوت سوار ہے ؟ چاکلیٹ کھاتے ارسا کے ہاتھ تھامے تھے ۔ اس نے ایک گہری سانس لی ۔
محبت جیت ہوتی ہے
مگر یہ ہار جاتی ہے
کبھی دلسوز لمحوں سے
کبھی بیکار رسموں سے
کبھی تقدیر والوں سے
کبھی مجبور قسموں سے
مگر یہ ہار جاتی ہے
کبھی یہ پھول جیسی ہے
کبھی یہ دھول جیسی ہے
کبھی یہ چاند جیسی ہے
کبھی یہ دھوپ جیسی ہے
کبھی یہ مسرور کرتی ہے
کبھی یہ روگ دیتی ہے
کسی کا چین بنتی ہے
کسی کو رول دیتی ہے
کبھی یہ پار جاتی ہے
کبھی یہ مار جاتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے
مگر یہ ہار جاتی ہے
شعر پڑھ کر اس نے عبداللہ کو دیکھا جو توجہ سے اسے سن رہا تھا ۔۔
خیر چھوڑو یہ سب تو ایویں ہی فضول باتیں ہیں ۔ غور سے اس کی شاعری سنتے ہوئے عبداللہ بدمزہ ہوا ۔
پتا ہے آج کل کے لوگوں کی نظر میں محبت کیا ہے ۔ جو عام روٹین میں سب کو سب سے ہوجاتی ہے ۔ I love you یا I love you too ۔بس اسے محبت کہتے ہیں اور ایک بندہ ایک دن میں ہزاروں لوگوں کو یہ جملے بولتا ہے ۔ لیکن پتا ہے محبت کیا ہے ؟ محبت وہ ہے جو ہم خود سے جڑے رشتوں سے کرتے ہیں ۔ اپنے ماں باپ بہن بھائی جیسے رشتوں سے جڑی فیلنگز کو محبت کہتے ہیں ۔اور محبت وہ ہے جو ہم اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں ۔ ہم عام انسان ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے صرف محبت ہی کرسکتے ہیں کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی بات کبھی مانتے ہیں کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں ۔ لیکن جو درویش ہوتے ہیں نا وہ اللہ سے عشق کرتے ہیں وہ چودہ چودہ سال درختوں کی لکڑیاں کاٹتے ہیں صرف اللہ سے عشق کرنے کے لیئے ۔ بہت سے مصائب اور آزمائشوں سے گزرتے ہیں درویش پھر جا کر ان کی مراد پوری ہوتی ہے ۔ لیکن آج کل جو محبت کی جاتی ہے وہ ایسے ہوتی ہے کہ جیسے ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں ہو چیز پہلی نظر میں ہی ہمیں اچھی لگتی ہے پھر ہم اس پر غور کرنا شروع کرتے ہیں تو اس چیز کی بہت سی خوبیاں اور خامیاں ہمیں نظر آتی ہیں لیکن ہماری نظر میں اس چیز کی خوبیاں اس کی خامیوں پر برتر ہوجاتی ہیں اور پھر وہ چیز ہماری پسندیدہ بن جاتی ہے ۔ اور ہم اسے جلد از جلد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں کوئی انسان اچھا لگتا ہے ہم اس پر غور کرتے ہیں اس کی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہیں پھر ہمیں اس سے محبت ہوجاتی ہے اور ہم اسے جلد از جلد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔اس نے لمبی سانس لے کر اپنی بات ختم کی۔۔
تو پھر محبت سے بچنے کا کیا طریقہ ہے ؟ عبداللہ نے پوچھا ۔
اپنی نظروں کو اپنے قابو میں رکھنا ۔ جس طرح ہم بازار جاتے ہیں تو ہمیں جو چیز لینی ہوتی ہے ہم اسی کو دیکھتے ہیں اسی پر توجہ دیتے ہیں اگر نظریں بھٹک جائیں تو دل کرتا ہے ہر اچھی چیز خرید لیں ۔ یہ دنیا بھی ایک بازار کی طرح ہے یہاں آپ جس کام کے لیئے آئے ہیں وہ کریں اور چلے جائیں ۔ اپنی نظروں کو اپنے قابو میں رکھیں اس سے آپ بہت بڑے بڑے نقصانات سے بچ جائیں گے ۔ بولتے ہوئے اس کی نظر بیڈ پر بڑے چاکلیٹس پر بڑی
موٹے سارے چاکلیٹس کھا گئے ۔وہ چلائی ۔
مجھے پتا ہی نہیں چلا بے دھیانی میں گیا ۔ عبداللہ نے معصومیت سے کہا
بھاڑ میں جاو تم ۔ اس نے غصے سے کہا ۔ کھڑکی سے جھانکتا چاند مسکرایا ۔
محبت جیت ہوتی ہے
مگر یہ ہار جاتی ہے
فضا میں ایک آواز گونجی تھی ۔ ہر چیز لہرا اٹھی تھی ۔۔
————– ———-
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے۔۔
یور آنر پوسٹ مارٹم کی نئی رپورٹس میں یہ بات واضح ہو گئی ہے میرے معزز دوست کی پیش کی گئی رپورٹس جعلی ہیں ۔ مقتول کو گولی قریب سے ہی لگی ہے ۔ پراسیکیوٹر کی بات سن کر زالان نے حیرت اے چہرہ اٹھایا تھا ۔ ارسا نے اپنے ہونٹ بھینچے تھے ۔ انٹیلیجنس یہ کیس کمزور کرنا چاہتی تھی لیکن وہ کورٹ کو شک میں بھی نہیں ڈال سکتی تھی ۔
یور آنر یہ رپورٹس جعلی ہیں ۔ وکیل چلایا تھا۔
وکیل صاحب کیا آپ عدالت کی طرف سے کروائے گئے پوسٹ مارٹم پر شک کررہے ہیں ۔ پراسیکیوٹر نے کہا۔ زالان کا وکیل بے بسی سے اپنی جگہ سے اٹھ کر کٹہرے کے قریب آیا۔
یور آنر پراسیکیوٹر نے میرے موکل اور مقتول کے جس جھگڑے کے بارے میں بتایا اور جو جگہ بتائی تو یور آنر میرا موکل اس وقت اس جگہ نہیں تھا ۔ ہمارے پاس باقاعدہ ایلی بائی ہے جو پراسیکیوٹر کی بات کی نفی کرتا ہے ۔ میری عدالت سے گذارش ہے کہ وہ میرے موکل کے ایلی بائی کو حاضر ہونے کی اجازت دے۔ ارسا نے اثبات میں سر ہلایا۔
دروازہ کھلا اور ایک لڑکی اندر داخل ہوئی۔ اسے دیکھ کر ارسا کی رنگت سرخ ہوئی تھی ۔ اس نے حیرت اور غصے کے ملے جلے تاث سے زالان کو دیکھا جو اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا ۔بیلو جینز پر سفید شرٹ پہنے بیلو اپر پہنے آنکھوں پر گاگلز لگائے کھلے بالوں کو جھٹکتے ہوئے وہ ارسا کی دائیں جانب والے کٹہرے میں کھڑی ہوگئی ۔
آپ کی تعریف مس ؟ ۔ وکیل نے پوچھا
آئی ایم مشال اسفند ۔ اس نے بالوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔
مس مشال اسفند ! زالان حیدر کے ساتھ آپ کا کیا تعلق ہے ؟ مشال نے زالان کو دیکھا
ہی از مائی فرینڈ۔ زالان نے ارسا کو دیکھا ۔ جو کہ سرخ رنگت لیئے فائل کے کاغذات ادھر ادھر کر رہی تھی۔
آپ مسٹر زالان کو کب سے جانتی ہیں ؟ پہلی دفعہ آپ لوگ کہاں ملے تھے ؟وکیل نے پوچھا
تقریبا ایک سال سے ۔ پہلی بار ہم ایئر پورٹ پر ملے تھے ۔ میں ترکی جارہی تھی ۔ ہماری سیٹس ساتھ تھیں زالان بھی ترکی جارہا تھا تب ہی ہماری فرینڈ شپ ہوئی تھی ۔ مشال نے دھیمے لہجے میں کہا
یور آنر ایئر پورٹ کے سی سی ٹی فوٹیج کی کاپی اور مس مشال اور ملزم کے پاسپورٹ اور ٹکٹس ۔وکیل نے ارسا کی طرف کچھ کاغذات بڑھائے ۔ ارسا نے مشال کو دیکھتے(گھورتے) ہوئے وہ کاغذات تھامے ۔
مس مشال آپ دسمبر کی اٹھائیس تاریخ کو شام 6:20 پر کہاں تھیں ۔ وکیل نے کچھ کاغذات کو دیکھتے ہوئے کہا
میں زالان کے ساتھ لاہور کے ایمپوریئم مال گئی تھی شاپنگ کرنے ۔ مشال نے لاپرواہی سے کہا
آپ مال سے باہر کب نکلے ؟
تقریبا نو بجے ۔ مشال نے کندھے اچکائے ۔
کیا آپ کو یقین کہ اس سارے ٹائم میں زالان آپ کے ساتھ تھا ؟ وہ کہیں ادھر ادھر گئے ؟ وکیل نے کہا
نو ۔ وہ میرے ساتھ ہی تھا ۔ ارسا نے آئبرو اچکائی ۔
یورآنر سی سی ٹی وی فوٹیج ایمپوریم مال کی ۔ وکیل نے فوٹیج ارسا کی طرف بڑھائی ۔ ارسا نے فوٹیج لے کر ٹیبل پر رکھ دی ۔ زالان نے بغور اسے دیکھا
یورآنر گواہ کے بیانات سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ مقتول اور میرے موکل کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ واضع ہے کہ یہ میرے موکل پر الزام ہے ۔ وکیل پراسیکیوٹر کی طرف بڑھا
یور ٹرن ۔ پراسیکیوٹر نے اثبات میں سر ہلایا ۔ اور مشال کے پاس آیا
مس مشال زالان حیدر آپ کے فرینڈ ہیں رائٹ ؟ مشال نے اثبات میں سر ہلایا
کیا آپ دونوں کے درمیان کوئی فیلنگز یا اٹیچمینٹ ؟ زالان نے ہونٹ بھینچے تھے ۔ سفید رنگت سرخ ہورہی تھی ۔ یہ عدالت تھی یہاں بات کردار کی ہوتی تھی ۔
جی ہاں ۔ مشال نے بنا کسی گھبراہٹ کے کہا ۔ ارسا نے گہری سانس لی ۔
ہم دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیئے دوستی کی فیلنگز ہیں ۔ آفٹر آل وی آر بیسٹ فرینڈز ۔ پراسیکیوٹر نے گہری سانس لی ۔
کچھ اور سوالات کے بعد پراسیکیوٹر واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔
کیا آپ کے پاس کوئی اور گواہ ہے مسٹر زالان جو کہ یہ بات ثابت کر سکے کہ یہ قتل آپ نے نہیں کیا ۔ ارسا نے پوچھا
یورآنر میری عدالت سے گذارش ہے کہ ہمیں کچھ وقت دیا جائے تاکہ ہم گواہ لاسکیں ۔ زالان کے وکیل نے کہا
ارسا کچھ دیر خاموش رہی ۔ پھر اس نے کیس ڈائری لکھوا کر ریڈر سے کچھ کہا ۔
یہ عدالت وکیل کو حکم دیتی ہے کہ وہ اگلی تاریخ پر گواہ کو عدالت میں لائیں ۔ ارسا نے باآواز کہا
آپ کو اگلے مہینے کی پہلی تاریخ دی جاتی ہے ۔ ریڈر نے کہا
عدالت برخاست ہوتی ہے ۔ یہ کہ کر وہ باہر کی جانب بڑھ گئی ۔ زالان نے ایک گہری سانس لی ۔ اور کٹہرے سے اتر گیا ۔۔
کورٹ روم سے باہر نکل کر اپنے آفس جانے کے بجائے وہ کارپورچ کی طرف بڑھی ۔ کارپورچ پہنچ کر اس نے اپنی نظریں ادھر ادھر دوڑائیں ۔ کچھ دور پولیس کانسٹیبل زالان کو کے کر پولیس موبائل کی طرف جارہے تھے ۔ ارسا نے بھی اپنے قدم اس طرف بڑھائے ۔ تیز تیز چلتی وہ زالان کے قریب پہنچی ۔
دوست اچھی ہے تمہاری ۔ خیال رکھنا کہیں یہ فرینڈ شپ ٹوٹ نہ جائے ۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا اور آگے بڑھ گئی ۔ زالان جو کہ سر جھکائے اپنے خیالوں میں چل رہا تھا ۔ اس نے چونک کر ارسا کی پشت کو دیکھا ۔ جو اب تیز تیز چلتی دور جا چکی تھی ۔ اس نے ناسمجھی سے اس کی پشت کو دیکھا تھا ۔
————- ——–
تو میرا حوصلہ تو دیکھ داد دے کہ اب مجھے
شوق کمال بھی نہیں خوف زوال بھی نہیں
لاہور کے اس ائیر پورٹ پر لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی ۔ جگہ جگہ لائیٹس جگمگا رہی تھیں ۔ ائیرپورٹ کے پچھلےحصے کے گارڈن میں وہ دونوں کھڑے تھے ہمیشہ کی طرح سیاہ عبایا پہنے لانگ کوٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے وہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اس کے برابر میں کھڑا حدید ایک ٹانگ کو ترچھی کر کے دیوار سے لگا کر ہاتھ میں موبائل لیئے بیلو شرٹ پر کالا اپر پہنے سنجیدگی سے کھڑا تھا ۔
پتا ہے حدید ! آج تمہاری چہیتی مشال کورٹ آئی تھی ۔ ارسا نے اس کی طرف مڑ کر کہا ۔
وہ انٹیلیجنس کا جو بندہ تھا زالان اس کی ایلی بائی بن کر آئی تھی ۔ دل تو کر رہا تھا اس کا گلا دبا دوں ۔ یا کورٹ سے باہر پھینک آؤں ۔ مطلب کورٹ کو فیشن شو سمجھ رکھا ہے ان لوگوں نے۔ مجھے تو لگتا ہے کسی دن تمہاری چہیتی کسی قاتل یا چور ڈاکو کی بھی ایلی بائی بن کر آجائے گی ۔ اس نے چڑتے ہوئے کہا لیکن دوسری طرف سے جواب ندارد ۔ جیسے کہ رہا کو کہ معزز صارف آپ کا مطلوبہ شخص اس وقت مصروف ہے ۔
مسٹر تم سن رہے ہو۔ ارسا نے اس کے آگے چٹکی بجائی۔حدید نے نفی میں سر ہلایا
کیوں کوئی مسئلہ ہے؟ حدید نے اثبات میں سر ہلایا
کیا ہوا؟ اس نے اپنا چہرہ نیچے کر کے حدید کا جھکا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی۔
مجھے سوری کہو۔ حدید نے موبائل اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتے ہوئے کہا
کیاا؟کیوں ؟ اب میں نے کیا کیا؟۔اس نے ایک ساتھ کئی سوال کیئے
تم نے مجھے الو کہا سب کے سامنے۔اس نے معصومانہ اندا، میں کہا
اور ؟ وہ مسکرائی
تمہاری وجہ سے گائیڈ میری شکایت کرے گا سلیمان ہمدانی سے ۔ وہ رونہاسہ ہوا
اور؟ حدید نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا
تم میری دشمن ہو وہ گائیڈ بھی میرا دشمن ہے۔ ارسا کی ہنسی چھوٹ گئی
یہ لائف تمہاری دشمن ہے جینا چھوڑ دو ۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا
تمم۔۔۔۔۔تمم بہت ڈیش ہو ۔ وہ چلایا ۔ ارسا کا نے بمشکل ہنسی ضبط کی ۔
اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتی ۔ بہت سے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ وہ دونوں سیدھے ہو کر کھڑے ہوگئے ۔ ایک ادھیڑ عمر شخص بارعب انداز میں چلتا ہوا سامنے آیا ۔ اس کے پیچھے پولیس کی وردی پہنے بہت سے گارڈز تھے ۔ روشنی میں اس کا چہرہ جگمگا رہا تھا ۔ وہ سلیمان ہمدانی تھا چیف جسٹس آف پاکستان ۔
اسلام و علیکم سر ۔سلیمان ہمدانی کے قریب آتے ہی ان دونوں نے بیک وقت کہا
وعلیکم سلام ۔ آپ دونوں بچے یہاں کیا کر رہے ہیں ۔ ارسا نے حیرت سے حدید کو دیکھا
سر حدید نے مجھے کہا کہ آپ نے کوئی ارجنٹ میٹنگ رکھی ہے ہمیں ایئر پورٹ جانا ہوگا ۔ ارسا نے وضاحت دی
سر جب آپ نے بتایا کہ آپ ایئرپورٹ سے سیدھا میٹنگ پلیس پر آئیں گے تو میں نے سوچا کہ ہم دونوں آپ کو ویلکم کریں ۔سلیمان ہمدانی نے آنکھیں سکیڑ کر حدید کو دیکھا
مسٹر حدید آپ کی شکایت مجھے گائیڈ سے مل چکی ہے اگر آپ کو لگتا ہے کی اس طرح میری خوشامد کر کے آپ ڈانٹ سے بچ جائیں گے تو آپ غلط ہیں ۔ یہ ناممکن ہے۔ حدید کا چہرہ سرخ ہوا۔ ارسا نے اپنی ہنسی ضبط کرنے کے لیے اپنا چہرہ نیچے کر لیا۔سلیمان ہمدانی نے ان دونوں کو ایک نظر دیکھا اور اپنے گارڈز کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ گئے۔ ارسا نے اپنے پیچھے کھڑے گارڈز کو اشارہ کیا وہ بھی ان کے پیچھے چلے گئے۔ ان کی جاتے ہی ارسا کا قہقہ بلند ہوا۔
حدید سیریئسلی ؟ تم ڈانٹ سے بچنے کے لیئے یہاں آئے تھے؟ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ حدید نے غصے سے اسے دیکھا
تمہاری تو سب کے سامنے عزت کا جنازہ نکل گیا ۔ وہ مسلسل ہنس رہی تھی ۔
تم تم واقعی الو ہو ۔
تم بہت بڑے بے وقوف ہو ۔اس نے ہنستے ہوئے حدید کو دیکھا جو غصے سے اسے گھور رہا تھا ۔ اس کی ہنسی کو بریک لگے ۔
اوکے اوکے نہیں ہنستی ۔لیکن سچ میں یہ بہت فنی تھا۔ وہ دوبارہ ہنسنے لگی ۔ اور اس بار اس کی ہنسی کو بریک فائرنگ کی آواز سن کر لگے تھی ۔ دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا ۔ حدید نے اپنی پینٹ کی پاکٹ سے گن نکالی ارسا نے بھی اسے دیکھ کر اپنے لانگ کوٹ کی پاکٹ سے گن نکالی ۔ اور دلوں میں کسی کو کھو دینے کا خوف لیئے وہ دونوں باہر کی جانب بڑھے۔ فائرنگ کی آوازیں مسلسل بڑھ رہی تھیں ۔ کالی سڑک پر سلیمان ہمدانی اور پولیس کی کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں ۔ جن کی دوسری طرف حدید کی گاڑی تھی ۔ فائرنگ سڑک کے کنارے پر لگے درختوں کی اوٹ میں چھپے کچھ نقاب پوش کر رہے تھے ۔ پولیس کے زیادہ تر گارڈز بھگدڑ کی وجہ سے سلیمان ہمدانی کو کور کرنے کے بجائے جوابی فائرنگ کرنے میں مصروف تھے ۔
ارسا میں سلیمان ہمدانی کے پاس جارہا ہوں۔ حدید نے جلدی جلدی کہا تھا ۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور سلیمان ہمدانی کی طرف بھاگتے حدید کی طرف سے جوابی فائرنگ کرنے لگی ۔ اسی اثناء میں وہ سڑک کی دوسری طرف حدید کی گاڑی کے قریب آگئی تھی جہاں کوئی گارڈ نہیں تھا ۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس کی نظر درخت کی اوٹ میں بیٹھے سلیمان ہمدانی کا نشانہ لیتے سنائپر پر پڑی ۔ اس نے گھبرا کر گارڈز کے بیچ میں کھڑے سلیمان ہمدانی کو دیکھا ۔ پھر ہاتھ میں پکڑی اپنی پسٹل کو ۔
اللہ تعالیٰ مجھے معاف کیجئے گا لیکن یہ ضروری ہے ۔ اس نے سرگوشی کی اور سنائپر کی ٹانگ کا نشانہ لینے لگی ۔ بیک وقت دونوں نے ٹریگر دبایا تھا ۔ پسٹل سے گولی نکل کر سنائیپر کی ٹانگ میں لگی ۔۔ لیکن تب تک اس کی گن سے نکلی گولی گارڈز کا دائرہ چیرتے ہوئے سلیمان ہمدانی کے سر میں لگی ۔ خون کا فوارہ نکلا تھا ۔ ارسا نے بے یقینی سے یہ منظر دیکھا ۔ وہ سن ہوگئی تھی ۔ تمام آوازیں کہیں دور چلی گئیں تھیں ۔
ارسا وہاں سے ہٹو ۔ حدید چلایا تھا ۔ لیکن وہ سن نہ سکی۔ اس کی آنکھیں حیرت سے سلیمان ہمدانی کی ساکت لاش کو دیکھ رہی تھیں ۔
ارسا ہٹو وہاں سے ۔ حدید دوبارہ چلایا تھا ۔ اس کی آنکھ سے ایک آنسو پھسلا تھا ۔ حدید اس کی طرف بھاگا تھا ۔ٹریگر دبایا گیا ۔ گن سے نکلی گولی اس کی طرف بڑھی تھی ۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں تھیں ۔
————– ———-
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...