وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی ۔۔ تو زینیہ جو کب سے اس کی منتظر تھی ۔۔
اپنی بیٹی کی بکھری حالت دیکھتی ۔۔۔ اس کے قریب آئی تھی ۔۔
” ایلا کہاں گئی تھی تم ؟؟”
لیکن ایلا اس کے ہاتھ جھٹکتی ۔۔ آگے بڑھ گئی ۔۔ زینیہ نے بےحد حیرت سے ۔۔ اس کی چال کو دیکھا تھا ۔۔
جس طرح سے وہ چل رہی تھی ۔۔ زینیہ کو حیران کر رہی تھی ۔۔ تبھی پھر سے اسے آواز دی تھی ۔۔
” ایلا ۔۔ ایلا ۔۔ ”
لیکن جواب ندارد ۔۔ وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔۔ جب زینیہ تیزی سے اس کے سامنے آئی تھی ۔۔
” ایلا کیا حالت ہے تمہاری ۔۔ کہاں سے آ رہی ہو تم ؟؟”
اور ایلا نے سر اٹھا جیسے ہی اسے دیکھا تھا ۔۔ زینیہ کی چیخ اس کے حلق میں ہی ۔۔ کہیں دب گئی تھی ۔۔
آنکھوں کے گرد کی جلد سیاہ پڑ رہی تھی ۔۔۔ اور آنکھیں جیسے پتھر کی سی لگ رہی تھی ۔۔۔
ہونٹوں کے کنارے سے ۔۔ خون کی لکیر سی بہہ رہی تھی ۔۔ گردن پہ بھی دھبوں کے نشان تھے ۔۔۔
” یہ ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ ایلا ”
زینیہ چلائی تھی ۔۔
” موت ۔۔۔ ایلا کی موت ہے یہ ۔۔ ”
اور جب بولی تو آواز بھی پہلے سے بھاری تھی ۔۔
” ک۔۔۔ کہاں تھی تم ۔۔ ایلا ”
زینیہ نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی ۔۔ جسے اس نے جھٹک دیا ۔۔
” موت کے کنویں میں ۔۔ ”
اپنی بات کہہ کے ۔۔ وہ پھر سے مڑی تھی اور اوپر سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔۔۔ زینیہ نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھ لیا تھا ۔۔ اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھ کے ۔۔ اس کا دل جیسے کٹ سا گیا تھا ۔۔۔
اچانک ایلا کے چیخنے کی آواز آئی تھی ۔۔ وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئی ۔۔۔
اور جیسے ہی ایلا کے کمرے کا دروازہ کھولا ۔۔۔ تو ایلا ہوا میں تیر رہی تھی ۔۔۔ اور کمر کے حصے سے ۔۔ اس کے جسم میں موڑ سا آیا ہوا تھا ۔۔۔
بکھرے بال لہرا رہے تھے ۔۔ جبکہ ایلا یونہی گردن پیچھے کی طرف کیے چیخ رہی تھی ۔۔۔
پورا کمرا اس کی آواز سے گونج رہا تھا جبکہ زینیہ حیرت سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھی ۔۔
” ایلا ۔۔۔ ”
اور ایلا نے تیزی سے مڑ کے اسکی طرف دیکھا تھا ۔۔ اور پھر ہنسنے لگی تھی ۔۔۔
” آ گئی تم ۔۔۔ آخر آ ہی گئی ۔۔۔ ”
” یہ کیا حالت بنائی ہے ایلا ۔۔ نیچے آؤ میری بچی ۔۔ ”
زینیہ نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔
” نا ۔۔ وہ مجھے آنے نہیں دیتا نیچے ۔۔ ”
وہ کمرے کے دوسری طرف ۔۔۔ ہاتھ سے اشارہ کرتی بولی ۔۔
زینیہ نے خوفزدہ نظروں سے باتوں طرف دیکھا ۔۔ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔
اور ایلا جھٹکے سے ۔۔ دیوار سے لگ کے چلنے لگی ۔۔۔
” میاؤں ۔۔۔ میاؤں ۔۔۔ میں شیطان ہوں شیطان ۔۔۔ میں بھسم کر دوں گی سب کو ۔۔ ”
وہ کہتے کہتے ہنسنے لگی ۔۔
اور زینیہ تیزی سے کمرے سے نکل کے ۔۔ دروازہ لاکڈ کر دیا تھا ۔۔
اپنے کمرے کی طرف جلدی سے جاتی ۔۔ وہ رو رہی تھی ۔۔ اسے ساحر کو بتانا تھا ۔۔ ساحر سے مدد لینی تھی اسے ۔۔۔ اپنی بیٹی کو اس حالت میں وہ نہیں دیکھ سکتی تھی ۔۔
وہ ابھی کال کرنے کا سوچ رہی تھی ۔۔ جب خلیل اندر آئے تھے ۔۔ زینیہ کے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں دیکھ کے ۔۔ وہ سرد لہجے میں پوچھنے لگے ۔۔
” کسے کال کر رہی ہو تم ؟؟”
زینیہ تیزی سے مڑی تھی ۔۔
” خلیل ۔۔۔ آپ آ گئے ۔۔ وہ ۔۔۔ وہ ایلا ۔۔۔ ایلا اپنے روم میں ۔۔”
ہکلاتے ہوئے اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہے ۔۔ آنکھوں سے آنسو بھی جاری تھے ۔۔
” اب کون سی قیامت ٹوٹی ہے تم پہ ۔۔ ”
خلیل جھنجھلائے تھے ۔۔ جب زینیہ ان کا ہاتھ پکڑ کے ۔۔ انھیں کمرے سے باہر لے کے ۔۔ ایلا کے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔
جبکہ خلیل لب بھینچے اس کے ساتھ جا رہے تھے ۔۔۔ لیکن جیسے ہی ایلا کے کمرے کا دروازہ کھولا ۔۔ تو سامنے کا منظر ہی بدلا ہوا تھا ۔۔ ایلا بیڈ پہ سو رہی تھی ۔۔
زینیہ تیزی سے کمرے میں آئی تھی ۔۔ ایلا کو جگانے لگی ۔۔
” ایلا اٹھو ۔۔۔ اٹھو ایلا ۔۔ ”
جب خلیل نے آگے بڑھ کے ۔۔ اسے جھٹکے سے روکا تھا ۔۔
” کیا کر رہی ہو زینیہ ۔۔ پاگل عورت کیا کر رہی ہو تم ۔۔ ”
وہ غرائے تھے ۔۔
اور اس کا ہاتھ کھینچتے کمرے سے باہر گئے تھے ۔۔ دروازہ بند کر کے ۔۔ گھور کے زینیہ کو دیکھا تھا ۔۔
” کیا کرنا چاہ رہی ہو تم اپنی ہی بیٹی کے ساتھ ۔۔ دشمن ہو یا ماں ”
وہ چلائے تھے ۔۔ جبکہ زینیہ انھیں بھیگی آنکھوں سے دیکھنے لگی ۔۔
” میں سچ کہہ رہی ہوں خلیل ۔۔ ایلا ہوا میں تیر رہی تھی ۔۔ دیوار پہ چل رہی تھی ۔۔ اس ۔۔ اس کو چہرہ ۔۔ ”
” بس ۔۔ ”
خلیل کی دھاڑ نے اسے چپ کرا دیا تھا ۔۔ وہ خاموشی سے لب کاٹنے لگی ۔۔ جبکہ خلیل سر جھٹک کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے ۔۔
جبکہ زینیہ خوفزدہ نظروں سے ۔۔ ایلا کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھنے لگی ۔۔۔ کانپتا ہاتھ آگے بڑھا کے ۔۔ اس نے ہینڈل گھمانا چاہا ۔۔۔
جب سرگوشی ہوئی تھی ۔۔
” زینیہ ۔۔ اندر آؤ ۔۔ ”
اور پھر ہنسی کی آواز گونجی تھی ۔۔ زینیہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا ۔۔
ایلا کمرے کے دیوار پہ ۔۔ چڑھی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔
اور زینیہ نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا ۔۔ دھڑکتے دل کے ساتھ ۔۔ وہ تیزی سے باہر کی طرف گئی تھی ۔۔
” بہنام کہاں ہے ؟؟ کیوں نہیں ہے وہ یہاں ؟؟”
ڈیلاویئر سب پہ نظر ڈالتا ۔۔۔ چلایا تھا ۔۔۔
” ہوگا اپنے کاموں میں مصروف ۔۔ یہاں تو مفت کا بادشاہ بنا ہوا ہے ۔۔ پوری لائف تو اس کی دوسری دنیا میں گزر رہی ہے ۔۔ ”
یہ ژامبون تھا ۔۔ رامبر نے اسے آنکھیں دکھائی تھی لیکن وہ نظرانداز کرتا ۔۔ ڈیلاویئر کو دیکھ رہا تھا۔ ۔
” ایسا کچھ نہیں ہے ژامبون ۔۔ بہنام کسی ضروری مسلے میں مصروف ہوگیں ۔۔ ”
یہ انٹاسیا تھی اور ژامبون نے گھور کے اسے دیکھا تھا ۔۔
” آپ چپ ہی رہئے انٹاسیا ۔۔۔ وہ آپ کو کھبی نہیں اپنائے گا ۔۔ وہ پاگل ہوا پھر رہا ہے دوسری دنیا کی لڑکی کے لئے ۔۔ ”
” تمیز کے دائرے میں رہئے ژامبون ۔۔ انٹاسیا کے ساتھ بدتمیزی کر رہے ہیں آپ ۔۔ ”
ڈیلاویئر گرجے تھے ۔۔ انٹاسیا خاموش ہو گئی تھی جبکہ رامبر لب بھینچے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
دل کر رہا تھا کہ ژامبون کو منہ توڑ دیں ۔۔ اس کی اس بات کے لئے ۔۔
لیکن خود پہ ضبط کیے رکھا ۔۔۔
” رامبر ۔۔ ”
ڈیلاویئر اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔۔
” جی بابا جان ۔۔ ”
رامبر ان کے قریب آیا تھا ۔۔
” جاؤ اور بہنام کو ڈھونڈئیے ۔۔ ان تک میرا پیغام پہنچا دیں کہ ہمیں ان سے ضروری بات کرنی ہے ۔۔ ”
ڈیلاویئر کی بات پہ ۔۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔۔
” جیسا آپ کا حکم۔ ۔ ”
رامبر کہتا ۔۔ ایک گہری نظر انٹاسیا پہ ڈال کے ۔۔ ژامبون کے قریب آیا تھا ۔۔
” آئندہ انٹاسیا سے تمیز میں رہ کے بات کرنا ۔۔۔ ”
اسے تنبیہہ کرتا وہ باہر کی طرف بڑھ گیا جبکہ ژامبون نے غصے سے ۔۔ اس کی پشت گھوری تھی ۔۔
ژاویلا اور ڈاریون کی موت کے بعد ۔۔۔ وہ اکیلا ہی رہ گیا تھا ۔۔۔ اکیلے ہی اسے اب سب کنٹرول کرنا تھا ۔۔۔ ایلا کے وجود کو تسخیر کر کے ۔۔۔ اپنے بس میں کر لینے کے بعد ۔۔۔ وہ خوش تھا کہ ایلا کو وہ بہنام سے دور کر چکا ہے ۔۔۔ لیکن شاید یہ اس کی بھول تھی ۔۔ تبھی آج بہنام وہاں اس کے سامنے تھا ۔۔
” کاوش ۔۔۔ ”
بھاری آواز پہ اس نے مڑ کے دیکھا تھا ۔۔۔ آگ سے بھڑکتا ہوا وجود اس کے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔
” بہنام ۔۔۔ ”
” تمہیں کیا لگا تھا کہ مجھ سے مقابل کرنا اتنا آسان ہے کاوش ؟؟؟ تم ژاویلا کے شیطانی چیلے ہو بس ۔۔ تمہیں ختم کرنا میرے لئے بلکل مشکل امر کھبی نہیں رہا ۔۔۔ ”
بہنام غرایا تھا ۔۔۔ جبکہ کاوش قہقہہ لگانے لگا ۔۔۔
” مجھے ناکام ہونا بلکل نہیں پسند بہنام یاوش ۔۔۔ شاید تم بھول رہے ہو میں شیطان ہوں شیطان ۔۔ ”
اپنی بات کر کے ۔۔۔ وہ بہنام کی طرف آنے لگا ۔۔۔
” ہزاروں روپ بدل بدل کے ۔۔ اس دنیا میں بھٹکتے پھر رہے ہو ۔۔ لیکن تمہاری اتنی طاقت نہیں ہوئی ابھی کہ تم میرا مقابلہ کر سکو بہنام ۔۔ تمہاری طاقتیں ابھی بھی ادھوری ہیں ۔۔ جو میں کھبی پوری نہیں ہونے دوں گا ۔۔ ”
کاوش نے اس پہ جھپٹنے کی کوشش کی تھی ۔۔ جسے بہنام ناکام بناتا ۔۔۔ اسے دھکا دے چکا تھا ایک مکے سے ہی ۔۔
آگ کاوش کے کپڑوں کو لگی تھی ۔۔ جسے وہ اتار پھینک چکا تھا ۔۔
” اوپس ۔۔۔ تم تو آگ ہو بہنام ۔۔۔ ایلا موم ہے ۔۔۔ جھلسا دو گیں اسے تم تو ۔۔ کیسے ؟؟ کیسے پا سکو گیں اپنی طاقت اس سے ۔۔۔ آدھی ادھوری آگ ہو تم ۔۔ آدھا ادھورا جسم ہو تم ۔۔۔ ”
بہنام لب بھینچے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” بہتر یہی ہے اپنی دنیا میں جاؤ ۔۔ اور اپنے جیسے کسی آگ سے کھیلو ۔۔۔ ایلا کا خیال ہی چھوڑ دو ۔۔۔ اسے میرے حوالے کر دو ۔۔ اس کے وجود کو تسخیر کر کے ۔۔ میں اس دنیا کو فتح کر لوں گا ۔۔ ”
” ایلا کہاں ہے ؟؟”
بہنام غرایا تھا ۔۔۔
” ایلا کو ڈھونڈ نہیں پا رہے ؟؟ دکھ ہوا بہت مجھے ”
کاوش بتیسی کی نمائش کرتے بولا ۔۔
جبکہ بہنام غراتے اس کی طرف بڑھا تھا ۔۔ لیکن کاوش نے اسے ہاتھ کے اشارے سے ۔۔ وہیں روک دیا ۔۔
” وہیں رہو ۔۔ تمہارا یہاں آنا کوئی فائدہ نہیں پہنچا پائے گا تمہیں ۔۔ کیونکہ ۔۔۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔۔۔ کچھ بھی نہیں ۔۔ جاؤ ایلا کو ڈھونڈو ۔۔۔ اپنی طاقتیں پوری کرو ۔۔ اور پھر مجھ سے مقابلہ کرنے آنا ۔۔۔ میں انتظار کروں گا ۔۔ ”
اس کی آنکھوں میں شیطانی چمک تھی ۔۔ جبکہ بہنام غصے سے پاگل ہوتا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
” ایلا کہاں ہے کاوش ۔۔۔ ؟”
وہ غصے سے دھاڑا تھا جبکہ کاوش نے پرسکون انداز میں کندھے اچکائے تھے ۔۔
” ڈھونڈو ۔۔۔ ”
وہ آنکھ ونک کرتا ۔۔ پھر سے اپنے صوفے کی طرف بڑھا تھا ۔۔ جبکہ بہنام نے آگ کے شعلوں کی مانند سرخ ہوتی آنکھوں سے ۔۔ اس شیطان کو گھورا تھا ۔۔۔
ایلا کے پاس اس کا دیا ہوا لاکٹ نہیں تھا ۔۔ وہ پھر سے کھو چکا تھا شاید ایلا کو ۔۔۔ اس کی بےچینی بڑھتی گئی اور وہ ہوا میں تحلیل ہوتا غائب ہوا تھا ۔۔
” ایلا ۔۔۔ ”
ساحر بنا کسی ہچکچاہٹ کے ۔۔۔ اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا ۔۔۔ ایلا جو کھڑکی کے پاس کھڑی ۔۔ باہر دیکھ رہی تھی ۔۔
مڑ کے پیچھے دیکھنے لگی ۔۔۔
” ساحر آپ ۔۔۔ ”
ساحر مسکرانے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔ ساحر کی نظر اس کے گردن پہ گئی تھی ۔۔۔ جو لکیر کی صورت سیاہ ہو چکی تھی ۔۔۔۔ اس نے لب بھینچے تھے ۔۔۔
لیکن اچانک ایلا کا چہرہ بدلا تھا ۔۔۔ اور وہ ہنسنے لگی تھی ۔۔۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے سے بڑھنے لگے تھے ۔۔۔
” تم آ ہی گئے میرے چنگل میں ۔۔۔ ”
ایلا دانت پیستی کہہ رہی تھی ۔۔ جبکہ ساحر کے ماتھے پہ بل آئے تھے ۔۔۔
” مجھ سے محبت کرو ناں ساحر ۔۔ ”
اس کا لہجہ اب میٹھا سا ہوا تھا ۔۔ آنکھیں پٹپٹا کے وہ ساحر کو دیکھ رہی تھی ۔۔
” بہت ساری محبت ۔۔۔ ڈھیر ساری محبت ۔۔۔ ”
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ساحر کی طرف آ رہی تھی ۔۔۔
جبکہ ساحر مبہوت سا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
” قریب آؤ ناں ۔۔ مجھے محبت کرو ۔۔ ”
وہ اس کے مقابل کھڑی تھی اب ۔۔ اور ساحر کی گردن میں اپنے دونوں بازو حائل کر دیے تھے ۔۔۔
اور ساحر نے بےاختیار اسے بانہوں میں بھر کے ۔۔ اپنے سینے میں بےحد سختی سے بھینچا تھا ۔۔۔
ایلا کی چیخیں ابھری تھی ۔۔۔ لیکن ساحر اسے مضبوطی سے تھامے کھڑا رہا تھا ۔۔۔
ایلا کی چیخوں کے ساتھ ۔۔ اب مزید عجیب و غریب چیخیں تھی ۔۔۔ جو اس کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔ یہاں تک کہ چیختے چیختے ایلا بےہوش ہو گی ۔۔ اس کا سر ساحر کے کندھے پہ ڈھلکا تھا ۔۔۔
ساحر کے لبوں پہ خفیف سی مسکراہٹ ٹھہری تھی ۔۔۔ اور وہ ایلا کے ساتھ وہاں سے غائب ہوا تھا ۔۔۔
” میری بیٹی کہاں ہے زینیہ ؟”
ڈیلاویئر کی دھاڑ سے ۔۔ زینیہ خوفزدہ ہو چکی تھی ۔۔
وہ خوفزدہ نظروں سے کمرے کے درواث کو دیکھنے لگی ۔۔۔ اور پھر ڈیلاویئر کو ۔۔
” جاؤ یہاں سے ۔۔ خلیل آ جائے گا ۔۔ پلیز جاؤ ڈیلاویئر ۔۔ ”
وہ منت کرنے لگی ۔۔
” میں تم سے ملنے نہیں آیا یہاں زینیہ ۔۔ میری بیٹی کہاں ہے ؟؟” ۔
ڈیلاویئر نے لب بھینچے سرد لہجے میں کہا تھا ۔۔
” ایلا میری بیٹی ہے ۔۔ تمہاری بیٹی نہیں ہے ”
زینیہ چلائی تھی ۔۔ اور ڈیلاویئر کے دماغ میں جھماکا ہوا تھا ۔۔۔
” ایلا ؟؟؟ بہنام ۔۔۔ ؟؟”
وہ زیر لب بڑبڑایا تھا ۔۔
اور پھر زینیہ کو دیکھنے لگا ۔۔
” ایلا کہاں ہے ۔۔۔ میری بیٹی ہے وہ ۔۔ تمہاری نہیں ہے ۔۔ نہ خلیل کی ہے وہ ۔۔۔ میری بیٹی کہاں ہے ؟؟”
دروازہ کھلا اور خلیل اندر آیا تھا ۔۔۔ ایک لمحے کو ٹھٹھکا تھا ۔۔۔ زینیہ دیوار کی طرف منہ کیے ۔۔ کچھ بڑبڑا رہی تھی ۔۔ انھوں نے دیوار کی طرف دیکھا تھا ۔۔
وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔۔
” کیا کر رہی ہو تم زینیہ ؟”
وہ چیختا اس کے قریب آ کے ۔۔ اس کے بال جکڑ چکا تھا ۔۔ زینیہ کی چیخ ابھری تھی ۔۔۔
ڈیلاویئر نے بےحد ناگواری سے خلیل کی اس حرکت کو دیکھا تھا ۔۔۔
” کون ہے وہاں ؟؟”
خلیل پھر سے چیخے تھے ۔۔ جبکہ زینیہ درد سے بلبلا تی اپنے بال چھڑانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔
” ک ۔۔۔ ک ۔۔۔ کوئی نہیں ہے خ۔۔۔ خلیل۔ ۔ چھوڑئیے میرے بال ۔۔۔”
اور پھر جھٹکے سے ۔۔۔ خلیل پیچھے دیوار سے جا لگا تھا۔۔ اسنے حضرت سے زینیہ کو دیکھا اور پھر جھٹکے سے اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی ۔۔ ۔
” تمہاری اتنی جرات ۔۔۔ ”
لیکن وہ پھر دیوار سے پن ہوا تھا ۔۔ اور جیسے اس کی گردن کسی مضبوط گرفت میں لیا جا چکا تھا ۔۔
” ک ۔۔۔ کون ہو تم ۔۔۔ ”
خلیل خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا ۔۔۔ زینیہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔
” یہ تمہیں مارتا ہے ۔۔ تم پہ ہاتھ اٹھاتا ہے زینیہ ۔۔ ”
وہ دھاڑا تھا ۔۔ اور زینیہ رو پڑی تھی ۔۔ اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں تھا ۔۔۔
اور پھر جیسے وہ آگ کا شعلہ بن گیا تھا ۔۔
خلیل کو اپنے وجود میں درد بڑھتا محسوس ہو رہا تھا ۔۔ وہ زخمی ہو رہا تھا ۔۔ اس کے زخموں سے خون رس رہا تھا ۔۔۔
یہ سب دیکھ کے ۔۔۔ زینیہ کی چیخ نکلی تھی ۔۔۔ وہ بےجان سا نیچے گر پڑا تھا ۔۔ اور ڈیلاویئر اب زینیہ کے مقابل تھا ۔۔۔
اب کے آنکھوں میں غصہ نہیں تھا ۔۔ اب کے آنکھوں میں نرمی تھی ۔۔۔
پہلے دنوں کے جیسے ۔۔۔ وہی نرم سا احساس تھا ۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کے ۔۔ زینیہ کے آنسو اپنے انگلی کی پور پہ چنے تھے ۔۔
” اب یہ کھبی تمہیں مارنے کے قابل نہیں رہے گا زینیہ ۔۔ ”
آواز میں نرمی اور مہربانی تھی ۔۔ زینیہ دھڑکتے دل کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” کسی بھی مجبور کے تحت ۔۔ اس شخص کے ساتھ تمہیں رہنے کی ضرورت نہیں ہے زینیہ ۔۔۔ خود کو اس کے شر سے آزاد کر کے ۔۔ اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو ۔۔۔ ”
زینیہ نے ایک نظر زخمی پڑے خلیل کے وجود پہ ڈالی تھی اور پھر ڈیلاویئر کو دیکھنے لگی ۔۔
” اپنا خیال رکھنا ۔۔ ”
اور پھر وہ غائب ہوا تھا ۔۔ زینیہ وہیں ساکت کھڑی خلیل کو دیکھتی رہی ۔۔۔ جو اٹھنے کی کوشش میں بار بار گر رہا تھا ۔۔۔
” وہاں کھڑی کیا دیکھ رہی ہو ۔۔ تم کیا سمجھ رہی ہو کہ مجھ سے بچ پاؤ گی ۔۔۔ ”
وہ چلایا تھا ۔۔ لیکن زینیہ پھر بھی یونہی کھڑی رہی ۔۔۔
اسے اب ڈر نہیں لگ رہا تھا خلیل سے ۔۔۔ اس کے الفاظ اب اسے نہیں مار رہے تھے ۔۔ اسے اب خود سے عار محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔ اور نہ ہی وہ اپنے کیے پہ اب شرمندہ تھی ۔۔
وہ دو قدم قریب آئی تھی ۔۔ خلیل اسے کی غضب ناک نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
اس کے زخمی وجود پہ ۔۔ تھوک کے وہ پیچھے ہوئے تھی ۔۔
” میں نے جو گناہ کیا تھا ۔۔۔ میرا جسم جو گناہ کر چکا ۔۔۔ اس کے لئے میں اپنے خدا کی گنہگار ہوں خلیل ۔۔ تمہاری نہیں ۔۔ اور انسان اپنے کیے گناہ پہ نادم ہو ۔۔ اور اپنے رب کے سامنے گڑگڑا کے ۔۔۔ توبہ کر لیں۔ ۔ تو بیشک وہ رب معاف کر دیتا ہے ۔۔ لیکن تم جیسا اخلاق سے گرا انسان ۔۔۔ جب مجھے بار بار ٹارچر کرتا ہے ۔۔ تب یہی سوچتی ہوں کہ ایک بداخلاق ۔۔ بدکردار انسان ۔۔ میری کردار کشی کرتا ۔۔ کھبی تو سوچتا بھی نہیں ہوگا کہ وہ اللہ کے قائم کردہ حدود کتنی دفعہ پار کر چکا ہے ۔۔۔ ”
وہ کچھ دیر کھڑی ۔۔ خلیل کو دیکھتی رہی ۔۔ اور پھر سر جھٹک کے کمرے سے باہر نکلی تھی ۔۔۔
” بچ ۔۔ ”
خلیل زیر لب بڑبڑاتا ۔۔ اٹھنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔
اس کی بند پلکوں کو ۔۔۔ ساحر بغور دیکھ رہا تھا ۔۔۔ وہ تب سے بےہوش تھی ۔۔ اور ابھی تک اسے ہوش نہیں آیا تھا ۔۔۔
اور پھر اس کی پلکوں میں لرزش ہوئی تھی ۔۔ وہ ہوش میں آ رہی تھی ۔۔
ساحر اس کے قریب ہوا تھا ۔۔
” ایلا ۔۔۔ ”
اس نے نرمی سے سرگوشی کی تھی ۔۔ پلکوں کے بار اٹھے تھے ۔۔ اور وہ بےحد حیرت سے ساحر کو اپنے اتنے قریب دیکھ رہی تھی ۔۔
” آپ ۔۔ ”
وہ تیزی سے اٹھ بیٹھی تھی ۔۔ جبکہ ساحر زیر لب مسکراتا ۔۔ اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
” میں یہاں ؟؟ یہ ۔۔ یہ کون سی جگہ ہے ۔۔ ؟؟ اور یہ سب ؟؟”
وہ حیران نظروں سے کمرے کو دیکھ رہی تھی ۔۔
جسے بےحد خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا ۔۔
” اور آج وہ لمحہ آن پہنچا ہے ایلا ۔۔ جب تم مکمل میری ملکہ بنو گی ۔۔”
ساحر گھمبیر لہجے میں ۔۔ محبت سے چور نظروں سے اسے دیکھتا کہہ رہا تھا جبکہ وہ بدک کے پیچھے ہوئی تھی ۔۔
” ک ۔۔ ک ۔۔ کیا مطلب ۔۔۔ مجھے جانا ہے یہاں سے ۔۔ ”
ساحر گہرا مسکرایا تھا ۔۔
” کب سے ان لمحوں کا منتظر تھا میں ایلا ۔۔ تم کیسے مجھے خود سے دور کر سکتی ہو ؟؟”
وہ مزید ایلا کے قریب ہوا تھا ۔۔ اس کے دونوں طرف ۔۔ اپنے دونوں بازو رکھے ۔۔ اس کی طرف جھکے ۔۔ وہ ایلا کے فرار کے راستے بند کر چکا تھا ۔۔
جبکہ وہ بےچینی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔۔۔ وہ مخصوص مدھم خوشبو اسے اپنی سانسوں میں اترتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔
” بہنام ۔۔ ”
بےاختیار اس نے نام لیا تھا ۔۔
” جان بہنام ۔۔ ”
ساحر کی مبہم سرگوشی پہ ۔۔ وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔۔ اور دیکھتے دیکھتے وہ بہنام کے روپ میں آیا تھا ۔۔۔
” بہنام ۔۔ ”
ایلا دھڑکتے دل کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ جبکہ وہ زیر لب مسکرا رہا تھا ۔۔
ہاتھ بڑھا کے وہ ایلا کی گردن کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے سہلانے لگا ۔۔
” بہنام ۔۔ کہاں تھے تم ؟؟”
وہ اس کے سینے سے لگی تھی ۔۔ اور بہنام نے اسے بانہوں میں بھر لیا تھا ۔۔
” تم میں ہی کہیں موجود تھا میں ۔۔ ”
بہنام کی مدھم سرگوشی پہ ۔۔۔ اس نے گہرا سانس لیا تھا ۔۔
بہنام نے اسے خود سے الگ کیا تھا ۔۔ اور گہری نظروں سے ۔۔ اسے دیکھنے لگا ۔۔ جبکہ ایلا دھڑکتے دل کے ساتھ ۔۔ ان نظروں کا مفہوم سمجھتی پلکیں جھکا گئی تھی ۔۔
” آج تمہارے ساتھ اپنے ادھورے پن کو مکمل کرنا ہے ایلا ۔۔ کیا تم ساتھ دو گی ؟؟ کیا ہماری دنیا میں جاؤ گی میرے ساتھ ؟؟ ہمیشہ کے لیے ۔۔ ”
وہ کہہ رہا تھا جبکہ ایلا اپنے سینے میں اٹکتی سانسوں کو بحال کرنے کی کوشش میں ۔۔ گہری سانسیں لے رہی تھی ۔۔
” ایلا ۔۔ ”
وہ پھر سے سرگوشی کر رہا تھا ۔۔ اور ایلا اس کے کندھے پہ اپنی پیشانی ٹکا گئی تھی ۔۔
” ب۔۔۔ بہنام ڈر لگ رہا ہے ۔۔ ”
گہری سانسیں لیتی وہ کہنے لگی اور بہنام گہرا مسکرا دیا تھا ۔۔
” ہمارا پاکیزہ بندھن برسوں سے ۔۔ ہمارے بیچ پنپتا آ رہا ہے ایلا۔ ۔۔ اور اس پاک بندھن کو مکمل کرنا ہیں ہم نے ۔۔ ”
” مجھے خود میں جذب کر لو بہنام ۔۔ مجھے اپنے جیسا بنا دو ۔۔ مکمل اپنے جیسا ۔۔ تمہاری دنیا میں جانے سے پہلے میں تمہارے جیسا ہی بننا چاہتی ہوں ۔۔ ”
وہ بہنام کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔۔
” تم میری ہی ہو ایلا ۔۔ اور میں تمہارا ہوں مکمل ۔۔ ”
بہنام محبت سے چور لہجے میں کہہ رہا تھا جبکہ وہ نفی میں سر ہلا گئی تھی ۔۔
” تمہارے جیسے بننا ہے مجھے بہنام ۔۔ تمہارے جیسا ۔۔۔ ”
” تم غلط کرو گی اگر ایسا چاہو گی تو ”
بہنام نظریں چرانے لگا ۔۔۔ جبکہ وہ اس کے قریب ہوئی تھی ۔۔ کہ اس کی سانسیں بہنام کے چہرے کو چھو رہی تھی ۔۔ اور بہنام کو اس کی پرحدت سانسیں پاگل سا بنا رہی تھی جیسے ۔۔
” ایلا میں تمہیں پین میں نہیں دیکھ سکتا ۔۔ پلیز سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔ تم میری ملکہ ہو ۔۔ میرے سلطنت کی ملکہ ہو ۔۔ میں مکمل تمہارا ہوں ۔۔ لیکن جو تم چاہ رہی ہو وہ ناممکن ہے ۔۔ ”
ایلا نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کے ۔۔ اس کا چہرہ اپنی طرف کیا تھا ۔۔
” کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری دنیا کا ہر شخص ۔۔۔ مجھے دھتکارے ۔۔ یا مجھے خود سے کمتر سمجھے ۔۔ ؟؟ مجھے مکمل کردو بہنام ۔۔ میں مکمل تمہارے جیسی ہو کے ۔۔ تمہارے وجود سے تاخیر ہونا چاہتی ہوں پلیز بہنام ۔۔ ”
بہنام لب بھینچے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ جو آس بھری نظروں سے بہنام کو ہی دیکھ رہی تھی ۔۔
اور پھر بہنام نے ۔۔۔ سائیڈ ٹیبل سے ۔۔۔ فروٹ باسکٹ میں رکھی چھری اٹھائی تھی ۔۔۔ اپنے دل کے قریب ۔۔۔۔ اس نے کٹ کا نشان لگایا تھا ۔۔ جہاں سے خون بہنے لگا تھا ۔۔۔
وہ لب بھینچے ایلا کو دیکھنے لگا جو مسکراتی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔
” یہ غلط ہے ایلا پلیز ۔۔۔ ”
اور ایلا نے اس کے لبوں پہ اپنے لب رکھے تھے ۔۔
” ہشششششش ۔۔۔ ”
آنکھیں موندے وہ بہنام کے دل کے مقام پہ اپنے لب رکھ چکی تھی ۔۔ اور بوند بوند وہ بہنام کا خون پینے لگی ۔۔۔
پہلے پہل بہنام کو درد کا احساس ہوا تھا ۔۔ وہ لب بھینچ گیا تھا ۔۔ اور پھر اس نے ایلا کے گرد ۔۔ اپنے بازوؤں کا حصار بنا کے ۔۔۔ اسے خود میں بھینچا تھا ۔۔۔
ایلا نے رک کے ۔۔ ایک نظر بہنام کو دیکھا تھا ۔۔ جو اسکے لبوں کے کنارے پہ لگے ۔۔ اپنے ہی خون کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
ایلا پھر سے ۔۔ اس کے دل کے قریب اپنے لب رکھ کے بوند بوند اس کا خون پینے لگی تھی ۔۔
بہنام اس کے گداز لبوں کا وہ لمس ۔۔ اپنے وجود میں پھیلتا محسوس کر رہا تھا ۔۔۔
اور بلکل اچانک ۔۔ وہ ایلا کو بالوں سے پکڑ کے ۔۔ اس کے لبوں پہ جھکا تھا ۔۔۔
اور اس کی سانسوں کو ان ہیل کر کے ۔۔ وہ بوند بوند اس میں جذب ہو رہا تھا ۔۔۔ ایلا بھی بےچینی سے ۔۔ اس کی گردن میں اپنے بازو حائل کر چکی تھی ۔۔۔
وہ مکمل ایکدوسرے میں گم ہو رہے تھے ۔۔۔ بہنام کی شدتیں تھی اور ایلا کی گہری سانسوں کا مدھم رقص ۔۔۔
لبوں سے سفر ۔۔ گردن تک جا رہا تھا ۔۔ اور گردن سے سفر گہرائیوں میں جا رہا تھا ۔۔۔
بہنام کے ہر شدت بھرے لمس کے ساتھ ۔۔۔ ایلا اس کی بانہوں میں بوند بوند بکھرتی جا رہی تھی ۔۔۔ اور بہنام جیسے ۔۔ اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ رہا تھا ۔۔
پہلو سے ہوتا ۔۔ وہ ایلا کے وجود کی خوشبو سے اپنی سانسیں مہکا رہا تھا ۔۔۔
” ب۔۔ بہنام ۔۔ ”
بےساختہ ایلا کے لبوں سے ادا ہوا تھا ۔۔۔ اور بہنام کے لمس میں شدت آئی تھی ۔۔۔
اس کی تھائیز کو اپنی انگلیوں سے ۔۔۔ نرمی سے چھوتا ۔۔۔ وہ جیسے ایلا کو بےجان سا کر رہا تھا ۔۔۔
وہ پھر سے اس کے چہرے پہ جھکا تھا ۔۔
” میرے جسم کا خون پی کے ۔۔ مجھ میں خود کو جذب کر کے ۔۔کیا سمجھ رہی تھی تم ایلا ۔۔ کہ میں تمہیں بخش دوں گا ۔۔۔ ”
ایلا آنکھیں کھول کے ۔۔ مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔
” اور میں یہی تو چاہتی ہوں بہنام کہ تم مجھے کھبی نہ بخشو ۔۔ ”
بہنام نے آبرو اچکائے تھے ۔۔ جب ایلا اٹھ کے ۔۔۔ اس کے اوپر آئی تھی ۔۔
” تمہارے وجود کے ہر لمس پہ ۔۔۔ صرف میرا حق ہے بہنام ۔۔ ”
وہ سرگوشی کرتی ۔۔ اس پہ جھکی تھی ۔۔
اور پھر بہنام کو بہکنے میں سیکنڈ لگا تھا ۔۔۔ وہ پھر سے ایلا اپنے حصار میں لے چکا تھا ۔۔
لمحوں کی تکمیل ہو رہی تھی ۔۔ محبت کی تکمیل ہو رہی تھی ۔۔ وہ لمحہ لمحہ ۔۔ ایکدوسرے میں محو ہوتے ۔۔۔ مکمل ہو رہے تھے ۔۔۔
بےچینیاں ایکدوسرے کے وجود میں انڈیلتے ۔۔ وہ پرسکون ہو رہے تھے ۔۔۔
ایلا بہنام کے جیسا بن چکی تھی ۔۔اور بہنام بھی مکمل ایلا کو پاچکا تھا ۔۔
” کوئی کام تھا آپ کو مجھ سے ؟؟”
انٹاسیا سوالیہ نظروں سے رامبر کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جو اس کے سامنے کھڑا کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔
” جی انٹاسیا ۔۔ مجھے آپ سے بات کرنی تھی ۔۔ ”
” جی کہئے ۔۔ ”
انٹاسیا اس کی طرف مکمل متوجہ ہو چکی تھی اب ۔۔
” میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں انٹاسیا ۔۔ ”
رامبر نے بلکل اچانک کہا تھا اور انٹاسیا حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔۔ یہ کیا کہہ رہا تھا وہ ۔۔ جبکہ رامبر اب پرسکون سا ۔۔ اس کے جواب کا منتظر تھا ۔۔
” رامبر یہ ۔۔ ”
وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی اپنی جگہ سے ۔۔
” شاید آپ کو کھبی وہ احساس ۔۔ وہ محبت نظر ہی نہیں آ پائی ۔۔ جو میرے دل میں ہمیشہ سے آپ کے لئے تھی انٹاسیا ۔۔۔ لیکن آج مجھے کہہ دینا چاہئیے ۔۔ تبھی آپ کے سامنے کھڑا ہوں ۔۔ انٹاسیا میں نے ہمیشہ آپ سے محبت کی ہے ۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ نے کھبی اس احساس کے تحت مجھے دیکھا ہی نہیں۔ ۔۔ پھر بھی آپ سے محبت کی ہے ۔۔ اور آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ آپ پہ کوئی زور و زبردستی نہیں ہے آپ کا ہر جواب میرے لئے قابلِ احترام ہی ہوگا ۔۔ ”
رامبر اپنی بات کہہ کے ۔۔ اب انٹاسیا کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
انٹاسیا اپنے لب کاٹتی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ جو آنکھوں میں ڈھیروں محبت اور آس لیے جواب کا منتظر تھا ۔۔۔
جو احساس وہ بہنام کی آنکھوں میں اپنے لئے دیکھنا چاہ رہی تھی ۔۔ وہ احساس رامبر کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی وہ ۔۔
” اٹس اوکے انٹاسیا ۔۔ اگر آپ کے لئے مشکل ہے تو میں اپنے قدم پیچھے لے لیتا ہوں ۔۔ آپ یوں سمجھئے گا کہ جیسے ہمارے بیچ کھبی ایسی کوئی بات ہوئی پی نہیں ۔۔ نہ میں نے آپ سے کوئی سوال کیا نہ آپ سے کوئی جواب مانگا۔ ۔ ”
رامبر اپنی بات کہہ کے ۔۔ مڑنے لگا تھا ۔۔ جب انٹاسیا کی آواز پہ اس کے قدم رکے تھے ۔۔
” میں آپ سے شادی کے لئے تیار ہوں رامبر ۔۔ ”
اور وہ بےحد حیرت سے مڑ کے ۔۔۔ انٹاسیا کو دیکھنے لگا ۔۔ جبکہ وہ مسکرا کے پلکیں جھکا گئی تھی ۔۔ کہ یہی قسمت ہے اس کی ۔۔ رامبر کی محبت ۔۔ اس کی قسمت میں لکھی جا چکی ہے ۔۔ اور وہ قسمت سے کھبی منہ نہیں موڑ سکتی ۔۔
کاوش کی لاش سامنے پڑی تھی ۔۔ اور ڈیلاویئر لب بھیںنچے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
وہ نہ صرف بہنام اور ایلا کے لیے خطرناک تھا بلکہ وہ سب کے لئے خطرناک ہوتا جا رہا تھا ۔۔
اور بہتر یہی تھا ۔۔۔ کہ وہ ختم ہو جاتا ۔۔ تا کہ پھر کوئ شیطان سر نہ اٹھا سکے ۔۔
وہ ہوا میں تحلیل ہوتا ۔۔ وہاں سے غائب ہوا تھا ۔۔ اور اب زینیہ کے مقابل کھڑا تھا ۔۔۔
” زینیہ ۔۔ ”
وہ جو نماز پڑھ کے ۔۔ اب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے آنکھیں موندے ہوئی تھی ۔۔ جب ڈیلاویئر کی آواز پہ چونک کے ۔۔ آنکھیں کھول کے اسے دیکھنے لگی ۔۔
” ڈیلاویئر ۔۔ ؟؟”
وہ مسکراتا ۔۔ اس کے قریب بیٹھ چکا تھا ۔۔۔ اس کے دونوں ہاتھ تھامے تھے اس نے ۔۔ اور سب نرم نگاہوں سے زینیہ کے دوپٹے میں لپٹے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔۔
” تمہارے چہرے پہ یہی سکون دیکھنا چاہتا تھا میں زینیہ ۔۔ جو آج دیکھنے کو مل رہا ہے اور دل پرسکون ہو رہا ہے ۔۔ ”
زینیہ خاموشی سے نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔
” بہنام اور ایلا ایکدوسرے کے لئے ہی بنے ہیں زینیہ ۔۔ انھیں ایکدوسرے سے الگ مت کرو ۔۔ وہ بہنام کے وجود کا حصہ بن چکی ہے ۔۔ وہ جو رشتہ کی سال پہلے ۔۔ ان کے بیچ بنایا تھا ہم نے ۔۔ اس کی تکمیل ہو چکی ہیں اب ۔۔ زینیہ تمہاری اجازت سے ۔۔ میں ایلا کو بہنام کے سلطنت کی ملکہ بنانا چاہتا ہوں ۔۔ اسے اپنی دنیا میں لے جانا چاہتا ہوں ۔۔ تم اس بات کی اجازت دو گی ناں ؟؟”
وہ نرم لہجے میں بات کر رہا تھا جبکہ زینیہ رو پڑی تھی ۔۔
” میری بچی ۔۔ میری ایلا ۔۔ ”
ڈیلاویئر نے اسے خود سے لگایا تھا ۔۔۔
” وہ اپنی دنیا میں جا رہی ہے زینیہ ۔۔ بہنام کے بنا وہ ادھوری ہے ۔۔ تبھی اسے جانا ہوگا ۔۔ وہ اسی دنیا کی ہے ۔۔ یہ دنیا عارضی تھی اس کے لئے ۔۔ اب اگر میں یا تم اسے روکنا بھی چاہے تو نہیں روک سکتے ۔۔ کیونکہ وہ ملکہ ہے ۔۔ وہ بہنام کی ملکہ ہے ۔۔ تم ساتھ دو گی ناں ؟؟”
زینیہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ اور پھر سر اثبات میں ہلایا تھا ۔۔۔ کہ سچ تو یہی تھا کہ وہ ہمیشہ سے بہنام کی ہی تھی ۔۔ اور بہنام ہی اس کی حفاظت کر سکتا تھا ۔۔ ڈیلاویئر نے اسے پھر سے سمیٹ لیا تھا ۔۔ جبکہ وہ اس کے کندھے سے لگی رو رہی تھی ۔۔ شاید دل کی بھڑاس کو نکالنے کا موقع جو مل گیا تھا ۔۔
اور آج جشن کا سماں تھا ۔۔ ہر طرف ۔۔ رنگ و بو کی محفل تھی ۔۔ اور اس محفل کی جان ایک طرف بہنام اور ایلا تھے تو دوسری طرف رامبر اور انٹاسیا تھے ۔۔
جہاں ایلا اور بہنام کے رشتے کو مکمل معنی مل رہے تھے تو وہیں ۔۔ رامبر اور انٹاسیا کا رشتہ مکمل اور پائدار بننے جا رہا تھا ۔۔۔
سب خوش تھے ۔۔ اپنے بچوں کو خوش دیکھ کے ۔۔ سب خوش تھے ۔۔ پرسکون تھے اور مطمئن تھے ۔۔
کہ اب ان کی زندگی کی ہر مشکل کو خاتمہ ملا تھا ۔۔ اور اب ایک خوشگوار زندگی ان کی منتظر تھی ۔۔۔
” میرے سلطنت کی ملکہ عالیہ ۔۔ خوش آمدید میری زندگی میں ۔۔ ”
بہنام آنکھوں میں ڈھیر ساری محبت لیے ۔۔ اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ اور ایلا مسکرا کے نظریں جھکا گئی تھی ۔۔۔ اس کے سینے پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھے ۔۔ وہ اس شاہانہ لباس میں ۔۔ باربی ڈول ہی لگ رہی تھی ۔۔۔
” اور ہر لمحہ ۔۔ تمہارے سنگ اپنی زندگی کے ہر موسم میں ۔۔۔ محبت کے رنگ ہی دیکھنا چاہوں گی ۔۔ اور جینا چاہتی ہوں ۔۔ ”
بہنام مدہوش سا ۔۔ اس کے لبوں پہ جھکا تھا ۔۔ اور اپنی سانسوں کو اس کی سانسوں میں گڈمڈ کرتا ۔۔ اپنی سانسیں اس کی خوشبو سے مہکانے لگا ۔۔
محبت ۔۔ عشق۔۔۔ عبادت ۔۔
تکمیل ہو چکی تھی ۔۔ وہ دونوں اب ساتھ تھے ۔۔ ایکدوسرے کے سنگ ۔۔ بےحد خوش اور مگن ۔۔ اپنی آئندہ زندگی کے لئے پرامید تھے ۔۔