انہوں نے بیچ راستے میں ہمیں روک لیا ۔وہ سارا سامان لے گئے انہوں نے سب کو مار دیا میں بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا ہوں
لڑکے کی بات پر اس آدمی کا چہرہ غصے سے سرخ ہوا
کون تھے وہ ؟ اس آدمی نے غصے سے پوچھا
پتا نہیں سر ۔ انہوں نے سیاہ چغے پہن رکھے تھے اور نقاب کیا ہوا تھا ۔ اس لڑکے نے ڈرتے ہوئے کہا
آ آ آ آ آ آ ——وہ آدمی چلایا
زالان حیدر ۔ اس نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچیں ۔
زالان حیدر کون ہے اسکندر ؟ ان تینوں میں سے ایک آدمی نے کہا
اسکندر نے گہری سانس لی اور بتانا شروع کیا
————– ——-
سامان تیار ہے تو نکلتے ہیں ۔ اسکندر نے پاس کھڑے لڑکے سے کہا
جی سر آئیں ۔ اس لڑکے نے کہا
وہ لوگ گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی چل پڑی ۔شہر سے نکل کر گاڑی اب گاوں کی کچی پگڈنڈی پر چلنے لگی تقریبا ایک گھنٹے بعد گاڑی ایک گھر کے قریب رکی ۔اسکندر اپنے آدمیوں کے ساتھ گاڑی سے نیچے اترا ۔ اس کے ہاتھ میں چھوٹی سی پسٹل تھی جبکہ اس کے گارڈز کے پاس بڑی بڑی رائفلز تھیں ۔ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے وہ اس گھر کے کھلے دروازے سے اندر چلے گئے ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں اور ساتھ ہی چیخ و پکار کی ۔ تقریبا دس منٹ تک فائرنگ چلتی رہی اور پھر خاموشی چھا گئی ۔ اسکندر اپنے آدمیوں کے ساتھ باہر نکلا ۔
سب کو بتادو کہ آئندہ اگر کسی نے ہمیں ہمارے کام کا پولیس کو بتانے کی کوشش کی تو اس کا انجام بھی انہی جیسا ہوگا ۔ اسکندر نے کھڑے گارڈ سے کہا ۔اور گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ ان کی گاڑی مٹی اڑاتے ہوئے اب دور جارہی تھی ۔ اس گھر کے باہر کھڑے بارہ سالہ اس بچے کی آنسو بھری آنکھوں نے ان کا دور تک پیچھا کیا تھا ۔ ایک عزم کے ساتھ ، انتقام کے جذبے کے ساتھ ۔
————– ——-
انتقام لینے کے چکر میں زالان نے ایک طاقتور گینگ بنا لیا ہے ۔ ظاہری طور پر یہ ایک ڈرگز گینگ ہے لیکن اس کا مقصد دوسرے گینگس کی سپلائی کو روکنا اور ان کے آدمی مار کر ان کی تعداد کو کم کرنا ہے ۔ ہماری اسمگلنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ زالان حیدر ہے ۔ ہم لوگ جہاں ڈرگز سپلائے کرنے جارہے ہوتے ہیں وہ ہم سے پہلے وہاں موجود ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے اس کے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں ۔
لیکن ایک اکیلا لڑکا یہ سب کیسے کر سکتا ہے ؟ اسکندر کے خاموش ہونے کے بعد ایک آدمی نے پوچھا
شاید کوئی بڑی طاقت اس کے ساتھ ہو ۔ اسکندر نے سوچتے ہوئے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خــوش مزاجــی مشہــور ہــے ہمـاری سـادگــی بھی کـمال ہــے…
ہـــم شــرارتــی بھی انتہا کـے ہیں اور سنجیدگــی بھی بــے مثـال ہــے…
ہادیہ کل آرہی ہے ۔ رات کو کھانا کھاتے ہوئے عائشہ نے ارسا کی بہن کے بارے میں بتایا
اچھا ۔ وہ سنجیدگی سے کھانا کھاتے ہوئے بولی
تمہاری جاب کیسی جارہی ہے بیٹا ۔ ہاشم نے ارسا سے پوچھا
اچھی جارہی ہے ۔ آج ہی ایک مرڈر کیس آیا ہے اسے ریڈ کر رہی ہوں ۔ اس نے موبائل پر لگے عبداللہ کو دیکھتے ہوئے کہا
ہمممم۔دھیان رکھا کرو بیٹا ۔ ہاشم نے دھیمے لہجے میں کہا
جی ۔ وہ کرسی سے اٹھی اور سامنے بیٹھے عبداللہ کے ہاتھ سے موبائل لے لیا
کھانا کھاؤ ۔ اس نے عبداللہ کو گھورتے ہؤے کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔ جبکہ پیچھے بیٹھے عبداللہ نے شکایتی نظروں سے ہاشم کو دیکھا تو انہون نے کندھے اچکائے اور کھانا کھانے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سانس گراں لگے
یہ وجود وہم و گماں لگے
میں تلاش خود کو کروں کہاں
میری ذات خواب و خیال ہے
اندھیرا آہستہ آہستہ چھا رہا تھا ۔ یہ ایک بڑی سی بلڈنگ تھی جس کے آس پاس شاپنگ مال تھے ۔ لوگوں کی تعداد حسب معمول زیادہ تھی ۔ اس بلڈنگ کی پہلی عمارت کی لفٹ کے اندر ایک پیزا بوائے داخل ہوا ۔ لفٹ کے پانچویں فلور پر رکتے ہی ایک لڑکا باہر نکلا ۔ گرین شرٹ کے اوپر بلیک جیکٹ پہنے ، خاکی پینٹ اور خاکی ہی جاگرز پہنے آنکھوں پر گاگلز لگائے اس نے راہداری سے گزرتے ہوئے ایک کمرے کا دروازہ بجایا ۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اندر کی جانب بڑھ گیا ۔ یہ ایک چھوٹا سا آفس نما کمرا تھا ۔ جہاں بیچ میں ایک ٹیبل پڑی تھی اور ٹیبل کے اس پار کرسے پر ایک لڑکا بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا ۔ اندر داخل ہوتے اس لڑکے کو دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔
کیسے ہو زالان ؟ اس لڑکے نے مصافحہ کرتے ہوئے پوچھا
جیسا دکھ رہا ہوں ۔ زالان نے سنجیدگی سے کہا ۔ اور پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا
۔Amor vicnit omina یعنی محبت فاتح عالم ۔ محبت ہمیشہ جیتتی ہے ۔ میں نہیں مانتا ہادی ۔ زالان نے گاگلز اتارتے ہوئے کہا
میری زندگی میں محبت ہار گئی ۔ نفرت نے محبت کو مات دے دی ۔ بارہ سال کی عمر میں اپنی ماں باپ بہن بھائی کا قتل ہوتے دیکھا تھا ۔ میری محبت اسی دن ہار گئی تھی ۔ میں نے جن سے محبت کی انہیں کھودیا ۔ اپنی آنسو بھری آنکھوں سے اپنے گھر کے دروازے کے پیچھے کھڑے ہوکر ان قاتلوں کے چہرے یاد کیئے تھے ۔ اور لوگ کہتے ہیں محبت فاتح عالم ۔ اس نے طنز بھرے لہجے میں کہا
غلط بالکل غلط ۔ اس کی بات سن کر ہادی نے تھوڑی دیر کے بعد کہا
تم بھول رہے ہو کہ یہ نفرت تمہاری محبت کی وجہ سے ہے ۔ تمہاری اپنے والدین سے محبت نے ہی تمہارے دل میں ان قاتلوں کے لیئے نفرت پیدا کی ہے amor vicnit omina محبت فاتح عالم ۔ جیت ہمیشہ محبت کی ہی ہوتی ہے چاہے وہ تمہاری زندگی ہی کیوں نہ ہو ۔ ہادی نے سمجھانے والے انداز میں کہا
اسکندر کی طرف سے کوئی جوابی کاروائی نہیں ہوئی ۔ زالان نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا
مجھے تو یہ کسی بڑے طوفان سے پہلے کے خاموشی لگتی ہے ۔ ہادی نے ٹھنڈی سانس خارج کی ۔ وہ جانتا تھا کہ اب زالان حیدر دوبارہ اس موضوع پر نہیں آئے گا ۔ وہ ہمیشہ سے ہی ایسا تھا ۔ اپنی بات کہ کر دوسرے کی سن کر بحث کرنے کے بجائے خاموش ہوجانے والا ۔
اتنے میں زالان کا موبائل بجنے لگنا ۔ اس نے موبائل اٹھا کر کان سے لگایا ۔
کل رات اسکندر خود ڈرگز بارڈر تک پہنچائے گا اور وہ وہی گاوں والا راستہ اختیار کرے گا ۔ زالان نے کال سننے کے بعد ہادی سے کہا
تو تم کیا کرو گے ؟ ہادی نے پوچھا
وہی جو ہمیشہ کرتا ہوں ۔ انکے بارڈر تک پہنچنے سے پہلے ان تک پہنچوں گا ۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
زالان ! تمہیں نہیں لگتا کہ اسکندر کا خود یہ کام کرنا کسی خطرے کی علامت ہے ۔ہادی نے پریشانی سے کہا
جب اس کے آدمی روزانہ مریں گے تو اسے یہ کام خود کرنا پڑے گا ۔ تم فکر نا کرو سب ٹھیک ہوگا انشاءاللہ ۔ زالان نے اٹھتے ہوئے کہا
اچھا سنو ! وطن کے جانباز تمہیں یاد کر رہے ہیں ۔ زالان کے چہرے پر ایکدم جوش کےآثار نظر آنے لگے
ہیڈ کوارٹر سے بلاوہ آیا ہے آپ کا ۔ ہادی نے مسکراتے ہوئے کہا
پھر میں ابھی نکلتا ہوں کل مجھے تیاری کرنی ہے حملے کی ۔ زالان نے جوش سے کہا
زالان میری ایک بات یاد رکھنا سب سے پہلے وطن پھر باقی چیزیں ۔ ہادی نے سنجیدگی سے کہا
ٹھیک ہے میرے باپ ۔ زالان نے ہنستے ہوئے کہا اور باہر چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری کمزور بندی ہوں ، مجھے دے دے یقین ایسا
گھڑے بھی ہوں سبھی کچے چنابوں سے نکل جاوں
رات کے بارہ بج رہے تھے ۔ آسمان پر اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ چاند ہمیشہ کی طرح آج بھی یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔یہ ایک بڑا سا کمرا تھا جس کے بیچ میں بیڈ رکھا تھا ۔ ایک کونے میں ڈریسنگ ٹیبل پڑی تھی ۔ سائیڈ میں کچھ کبڈ بنے تھے ۔ بیڈ کے بالکل سامنے دیوار پر ایک شیشے کا شوپیس ٹائپ کالا دل لگا ہوا تھا اس کے برابر میں ایک نظم پینٹ کی ہوئی تھی
سنا تھا ہم نے لوگوں سے ۔۔
محبت چیز ایسی ہے ۔۔
چھپائے چھپ نہیں سکتی۔۔
یہ آنکھوں میں چمکتی ہے
یہ چہروں پہ دمکتی ہے
یہ لہجوں میں جھلکتی ہے
دلوں تک کو گھلاتی ہے
لہو ایندھن بناتی ہے
اگر سچ ہے ۔۔!!
تو پھر آخر ہمیں ۔۔
اس ذات حق سے
یہ بھلا کیسی محبت ہے ؟؟
نہ آنکھوں سے جھلکتی ہے ،
نہ چہروں سے ٹپکتی ہے۔۔
نہ لہجوں میں سلگتی ہے
دلوں کو آزماتی ہے
نہ راتوں کو رلاتی ہے
کلیجہ منہ کو لاتی ہے
نہ فاقوں ہی ستاتی ہے
نہ یہ مجنوں بناتی ہے۔۔
عجب !۔۔۔۔ایسی محبت ہے ۔۔
فقط دعوی سجھاتی ہے۔۔
نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے۔۔
نہ غار ثور میں چپکے سکینت بن کے چھاتی ہے۔۔
حرا تک لے بھی جائے تو قدس سے نظریں چراتی ہے !
ہم اپنے دعوی حق محبت پر ہوئے نادم
تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر
کہیں سے بجلیاں کوندیں ، صدا آئی ۔۔!
ذرا سی آنکھ کے دم بھر منتظر رہنا
وہاں خود جان جاو گے محبت کی حقیقت کو ۔۔!
وہ بلاشبہ کمرے کی سجاوٹ کے معاملے میں بہت ذوق رکھتی تھی
شیشے کی کھڑکی کے اس پار بیڈ کے کراون سے ٹیک لگائے ، ٹانگیں لمبی کیئے لیپ ٹاپ کو گود میں رکھے وہ تیزی سے اس پر انگلیاں چلا رہی تھی ۔ لیپ ٹاپ کی اسکرین میں جھانکو تو اس پر کالے حروف سے کچھ لکھا آرہا تھا ۔ آئیے پڑھتے ہیں :
آج میں نے ایک بات پڑھی کہ کبھی کبھی انسان خود سے ہار جاتا تو میرے خیال سے یہ بات غلط ہے ۔ انسان خود سے ہارتا نہیں ہے بلکہ وہ ہار مان مان لیتا ہے وہ اس ہار کو قبول کرتا ہے جو اسے ملی ہی نہیں ہوتی جو اس کے ماننے کے بعد اسے ملتی ہے ۔ ایک مکڑی جو اپنا جالا بن رہی اور ہوا کا جھونکا جو کہ اس جالے کو بار بار گرا دیتا ہے ۔مکڑی دوبارہ جالا بنتی ہے ہوا اسے دوبارہ گرا دیتی ہے بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے آخر وہ مکڑی ہار مان لیتی ہے ۔ تو یہاں پر اگر وہ مکڑی اپنی کوشش جاری رکھتی تو وہ ہوا کو ہرا سکتی تھی لیکن اس نے اس ہار کو مانا جو اسے ملی ہی نہیں تھی ۔
” اس نے قبول کی مات اور جلد ہی ہوا دے دے گی اسے شہ مات ” ۔
مجھے لگتا ہے ہماری زندگیوں میں بھی بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہےاللہ نے ہمیں اس دنیا میں اپنی عبادت کے لیئے بیجھا ۔اللہ نے ہمیں جس کام کے لیئے اس دنیا میں بیجھا ہم وہ کام نہیں کر رہے ہم وہ ہوا کا جھونکا بن ریے ہیں جو مکڑی کے جالے کو گرا دیتا ہے ۔ لیکن اللہ تعالی اس امید پر قائم ہے کہ ایک نہ ایک دن اس کے بندے اس کی طرف لوٹ آئیں گے ۔ تو کیا ہم لوٹ رہے ہیں ۔
اس کی انگلیوں کی حرکت رک گئی مطلب اب وہ اور نہیں لکھے گی ۔ اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور اسے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر لائٹ بند کر کر سونے کے لیئے لیٹ گئی ۔ کھڑکی سے جھانکتے چاند کی نظر اس کے سر کے اوپر دیوار پر لگی لال رنگ کی اس پینٹنگ پر پڑی جس پر لکھا تھا کہ :
” اگر آپ قبول کریں گے مات تو بہت جلد آپ کو ملے گی شہ مات ”
اور کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی ان لفظوں کا مطلب جاننے کے لیئے
————– ———-
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...