پھوپو آپ کے بال کتنے روکھے ہوگئے ہیں آئیں میں آپ کو تیل لگادوں۔‘‘ تزکیہ نے شبانہ بیگم کے لمبے مگر روکھے اور بے رونق الجھے بالوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور ان کو تکیے کا سہارا دے کر تھوڑا سا اونچا کرکے بیٹھایا اور آہستہ آہستہ ان کے سر میں تیل کی مالش کرنے لگی نرم وملائم ہاتھوں سے تیل جذب کررہی تھیں۔ شبانہ بیگم کو سکون محسوس ہورہا تھا ان کی آنکھیں بند ہونے لگیں کتنا اچھا لگ رہا تھا ایسی مالش توکبھی بھی کسی نے نہیں کی اور کرتا بھی کون ایک بہو تھی وہ بھی نک چڑی‘ بدتمیز اور زبان دراز اور کوئی تھا نہیں۔ پھر تزکیہ نے شبانہ بیگم کا منہ دھلوایا‘ بالوں کی چٹیا بنائی صاف ستھری ہوکر شبانہ بیگم خود کو فریش محسوس کررہی تھیں۔ سامنے بیڈ پر لیٹی خاتون سوتے جاگتے خاموشی سے دیکھ رہی تھیں ان کے ساتھ آنے والا لڑکا شاید دوائیں وغیرہ لینے گیا ہوا تھا۔ تزکیہ نے دیکھا تو وہ ہولے سے مسکرائیں۔
’’السلام علیکم۔‘‘ تزکیہ نے حسب عادت سلام کردیا۔
’’وعلیکم السلام بیٹی۔‘‘ انہوں نے نحیف لہجے میں جواب دیا۔
’’آنٹی آپ اکیلی ہیں؟‘‘ تزکیہ نے سوال کیا۔ ’’آپ کے ساتھ جو صاحب تھے وہ چلے گئے کیا؟‘‘
’’نہیں بیٹی میرا بیٹا نیچے گیا ہے آتا ہوگا۔‘‘ انہوں نے جواب دے کر سوال کر ڈالا۔ ’’یہ تمہاری والدہ ہیں؟‘‘ اشارہ شبانہ بیگم کی جانب تھا۔
’’نہیں یہ میری بھتیجی ہے‘ میرے چھوٹے بھائی کی بچی۔‘‘ تزکیہ کے جواب دینے سے پہلے شبانہ بیگم بولیں ان کے لہجے میں ستائش تھی۔
’’ماشاء اللہ اللہ سلامت رکھے۔ بہت خدمت گزار اور پیاری بچی ہے۔‘‘ انہوں نے تعریفی نظروں سے تزکیہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں الحمدللہ۔۔۔ اللہ پاک نصیب اچھے کرے آمین۔‘‘ شبانہ بیگم نے کہا اسی وقت ان خاتون کا بیٹا آگیا اور تزکیہ شبانہ بیگم کے بیڈ کے پاس آگئی اور پردہ برابر کرکے اپنا پورشن سیپرٹ کر لیا تھا۔ سارا دن وہ پھوپو کے ساتھ رہی ان سے مزے مزے کی باتیں کرتی رہی۔ کھانا اوردوا وقت پر دیتی رہی۔ شبانہ بیگم کچھ دیر کے لیے سو بھی گئیں شام تک اس طرح مصروف رہی شام کو ناظمہ بیگم کو لے کر الیاس صاحب اور خالد صاحب بھی آگئے تھے۔ ناظمہ بیگم آئیں تو خاتون سے سلام دعا کی اور تھوڑی بہت بات چیت کی تو پتہ چلا کہ وہ خاتون سلمیٰ بیگم جن کا کوئی قریبی رشتے دار نہ تھا وہ بیوہ خاتون تھیں شوہر اچھے خاصے پیسے والے تھے اور پھر ان کا بیٹا ابریز بھی کسی غیر ملکی کمپنی میں اچھی اور معقول جاب کرتا تھا۔ مغرب ہوچکی تھی ابریز کو جانے کی فکر بھی تھی والدہ کو دیکھنے کے لیے کوئی خاتون نہ تھیں تب ناظمہ نے اس کو تسلی دی۔
’’بیٹا فکر مت کرو میں ہوں ناں۔ میں تمہاری والدہ کو بھی دیکھ لوں گی۔ ویسے بھی مجھے رات کو نیند نہیں آتی۔‘‘
’’شکریہ آنٹی‘ بہت مہربانی ہوگی آپ کی۔‘‘ ابریز نے تشکرانہ لہجے میں کہا۔
’’ارے نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں ہے اگر ہم کسی کے کام آجائیں تو یہ ہماری خوش نصیبی ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے ہم سے نیکی کا کام لیا ہے۔‘‘
’’اوکے پھوپو اب اجازت دیں کل پھر آجائوں گی صبح آپ کو تنگ کرنے کے لیے۔‘‘ تزکیہ سر پر چادر اوڑھ کر واپسی کی تیاری کرکے شبانہ بیگم کے پاس آکر شرارت سے بولی۔
’’اوکے آنٹی صبح ملیں گے۔ ان شاء اللہ سلمیٰ بیگم کو اپنی جانب متوجہ پاکر تزکیہ نے ان کو بھی مخاطب کیا۔ ان شاء اللہ سلمیٰ بیگم مسکرا دیں۔
سلمیٰ بیگم اچھی ملنسار خاتون تھیں ان کو تزکیہ اچھی لگی تھی معصوم ملنسار اور پر خلوص لڑکی تھی سلمیٰ بیگم کی طبیعت میں دو دن میں بہتری آگئی تھی۔ ان کی شبانہ بیگم اور ناظمہ بیگم سے کافی باتیں ہوئیں ان کو یہ دونوں خواتین اچھی لگی تھیں سلمیٰ بیگم نے اپنا موبائل نمبر دے کر دونوں کا نمبر لے لیا تھا۔
تزکیہ دن میں آئی تو شبانہ بیگم کے ساتھ ساتھ سلمیٰ بیگم کے بھی چھوٹے موٹے کام کردیتی ان کا بھی خیال رکھتی اور بدلے میں سلمیٰ بیگم اسے ڈھیروں دعائیں دیتیں۔ سلمیٰ بیگم نے اپنے بارے میں بتایا تھا کہ ان کی لومیرج ہوئی تھی جس کی وجہ سے اپنے خاندان سے بالکل تعلق ختم ہوچکا تھا۔ کچھ سال پہلے ان کے شوہر کی وفات ہوگئی تھی ان کی رہائش پوش ایریا میں تھی سلمیٰ بیگم کی دیکھ بھال کے لیے ایک کل وقتی ملازمہ بھی رکھی ہوئی تھی وہ چاہتی تھی کہ ابریز شادی کرلے مگر۔۔۔ پھر سلمیٰ بیگم کی طبیعت ٹھیک ہوئی تو ان کو ڈسچارج کردیا گیا۔ ان کو شبانہ بیگم کی فیملی اچھی لگی تھی جو رشتوں کی قدر کرنا جانتے تھے جس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کردیا تھا۔
’’نہیں میں نے آپ کے یہاں محبت خلوص اور رشتوں میں سچائی دیکھی ہے میں تو ساری زندگی رشتوں کے لیے ترستی رہی ہوں۔‘‘ سلمیٰ بیگم کی آواز رندھ گئی۔ تزکیہ نے جلدی سے بوتل سے پانی نکال کر گلاس میں ڈالا اور ان کو پلایا۔ شبانہ بیگم نے ان کی جانب دیکھ کر ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’سلمیٰ بہن آپ سے ان شاء اللہ ہم رابطے میں رہیں گی‘ میرے بھائی بھاوج اور اس کی بچیاں بہت اچھی ہیں اللہ پاک ان کو اجر دے وہ لوگ بھی آپ سے رابطے میں رہیں گے۔‘‘ سلمیٰ بیگم سر ہلا کررہ گئیں۔
’’پھوپو سلمیٰ آنٹی بیچاری کتنی دکھی اور اکیلی ہیں ناں۔۔۔؟ ایک بیٹا ہے وہ بھی ظاہر ہے اپنے کام میں بزی رہتا ہوگا نوکروں کے ساتھ بھلا کیا باتیں کرتی ہوں گی مجھے بہت ترس آیا ہے ان پر۔‘‘ سلمیٰ بیگم کے جانے کے بعد تزکیہ نے دکھ بھرے لہجے میں شبانہ بیگم کو مخاطب کرکے کہا۔
’’ہاں بیٹی یہ دنیا ہے یہاں ہر قسم کے لوگ ہیں کہیں پیسہ ہے تو سکون نہیں‘ کہیں سکون ہے نا تو پیسہ نہیںغربت اور افلاس سے تنگ آکر لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کہیں بے تحاشہ دولت ہے مگر بے اولاد ہوتے ہیں اور کہیں۔۔۔ وہ ایک لمحے کے لیے رکیں اور ٹھنڈی سانس بھری تزکیہ نے بغور ان کے دھواں دھواں چہرے کی جانب سوالیہ نگاہ اٹھائی۔ ’’کہیں یہ سب کچھ ہے لیکن۔۔۔ وہ سکھ نہیں‘ محبت اور اپنائیت نہیں‘ اولاد کے دلوں میں ماں باپ کی محبت نہیں۔‘‘ ان کا لہجہ حد درجہ ٹوٹا ہوا تھا۔ تزکیہ چونکی نویدہ اور فاران بھی تو ایسی اولاد میں شامل تھے اور چند دنوں میں تزکیہ نے اندازہ لگا لیا تھا کہ پھوپو کی بہو کتنی بے حس اور بدتمیز ہے۔
’’ارے واہ پھوپو دیکھیں تو کتنے مزے کا میسج آیا ہے۔‘‘ تزکیہ نے پھوپو کو اداس دیکھ کر فوراً ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔ شبانہ بیگم اس پیاری لڑکی کو دیکھنے لگی جو چند دنوں میں کس طرح سے چہرہ پڑھنا سیکھ چکی تھی اور اندرونی کیفیت کو سمجھنے لگی تھی۔ دوسرے دن شبانہ بیگم کو ڈسچارج کردیا گیا۔ ڈاکٹر نے دواؤں کے ساتھ ساتھ بہت ساری ہدایات اور احتیاط بھی بتائی تھی۔
’’آپا ایک بات کہوں۔‘‘ ناظمہ بیگم نے سامان سمیٹتے ہوئے شبانہ بیگم کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’ارے ناظمہ۔۔۔ بھلا تمہیں اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے؟ تم۔۔۔ تم نے تو مجھے خرید لیا ہے۔ مجھے معاف کردینا ناظمہ میں نے۔۔۔ میں نے ساری عمر تم سے اور تمہاری بچیوں کے ساتھ سرد مہری برتی‘ کبھی بھی خلوص اور محبت بھری ایک نگاہ بھی نہ ڈالی اپنے رشتہ اور بڑے پن کا کہیں بھی کبھی بھی ثبوت نہیں دیا‘ ہمیشہ طنز کا نشانہ ہی بنایا۔ کبھی بھی تم لوگوں سے ہمدردی کے دو بول نہ کہے مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ ان چند دنوں میں تم نے اور تمہاری بچیوں نے جس طرح میرا خیال رکھا‘ میری ضرورتوں کو کہے بنا سمجھا اور پورا کیا‘ اپنی نیند‘ چین قربان کرکے مجھے جس طرح سنبھالا‘ اس وقت جب کہ میں مجبور‘ بے بس اور لاچار تھی۔ اس وقت تم لوگوں نے میرا ساتھ دیا۔ نہ میرے تلخ رویے کو یاد کیا نہ میری سرد مہری کو جواز بنا کر مجھ سے کنارہ کشی اختیار کی۔۔۔ میری اولاد سے زیادہ میرا خیال رکھا۔۔۔ دل کرتا ہے تمہارے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگوں۔‘‘
’’ارے ارے آپا۔۔۔ خدا کے لیے ایسی باتیں نہ کریں۔۔۔ مجھے شرمندہ نہ کریں‘ جو ہوگیا ہے سو ہوگیا ہے اس کا ذکر کرکے یا معافی مانگ کر ہمیں شرمندہ نہ کریں۔ اگر آپ نے کچھ کہا بھی تو بھائی کی محبت میں کہا‘ اگر آپ کی جگہ میں ہوتی تو۔۔۔ شاید میں بھی ایسا سوچتی۔‘‘
’’نہیں ناظمہ۔۔۔ میں نے حقیقت میں زیادتی کی۔۔۔ اب تو اﷲ پاک سے دعا ہے اﷲ پاک تمہاری بچیوں کو لمبی زندگی عطا کرے‘ ان کے نصیب بلند کرے‘ تمہاری بیٹیاں تو قابل فخر ہیں‘ میرے لبوں پر ہر دم ہی دعا رہتی ہے۔ اﷲ پاک سب کو خیر سے اپنے اپنے گھر کا کردیں اور شاد آباد رہیں (آمین)۔‘‘
’’بس آپا۔۔۔ دعائیں ہی چاہیں اور کچھ نہیں۔‘‘ ناظمہ بیگم جذب سے بولیں پھر سر پر ہاتھ مار کر بولیں۔
’’ارے دیکھیں جو بات کہنی تھی وہ تو درمیان میں رہ گئی۔
________
’’ہاں ہاں بولو۔‘‘ شبانہ بیگم نے کہا۔
’’آپا۔۔۔ میں یہ کہہ رہی تھی کہ اگر آپ یہاں سے کچھ دن کے لیے ہمارے گھر میں چلیں خالد بھائی سے اجازت لے لیں‘ ویسے بھی وہ آپ کا اپنا گھر ہے اور آپ کے بھائی اور بچیوں کو بھی بہت اچھا لگے گا۔‘‘ ناظمہ کی بات پر شبانہ نے حیرت سے انہیں دیکھا۔
’’ناظمہ۔۔۔ مجھے تمہارے ساتھ جانے میں دلی خوشی ہوگی مگر تم لوگ پہلے ہی میرے لیے اتنا کچھ کرچکے ہو۔‘‘ شبانہ بیگم نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’آپا۔۔۔ کیسی باتیں کررہی ہیں آپ۔۔۔؟ ہمیں تو بہت خوشی ہوگی۔ میرا تو ہمیشہ سے بہت دل کرتا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہیں۔‘‘ ناظمہ بیگم کا لہجہ آزردہ ہوگیا۔
’’شبانہ۔۔۔ کچھ دن کے لیے چلی جاؤ۔‘‘ خالد صاحب جو تھوڑی دیر پہلے ہی روم میں داخل ہوئے تھے درمیان میں بولے۔
’’میں روز آجاؤں گا تمہاری خیریت لیتا رہوں گا۔‘‘ ناظمہ بیگم نے گھر کال کرکے تزکیہ اور تقدیس کو بتایا کہ پھوپو کو لے کر آرہی ہیں پھوپو کے لیے بستر لگادو۔
تزکیہ نے برآمدے سے تخت اٹھوایا اور تقدیس کی مدد سے اسے اپنے کمرے میں بچھا کر گدا ڈال دیا۔ نئی چادر نکال کر اس پر بچھا دی۔ تکیے پر غلاف چڑھایا۔ نیا تولیہ نکال کر لٹکادیا۔ چھوٹا سا اسٹول تخت کے ساتھ لگا کر رکھ دیا تاکہ پھوپو کی دوائیں اور دوسرا سامان وہاں پر رکھ دیں۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق پھوپو کے لیے چکن سوپ‘ پورچ تیار کردیا۔ دونوں کو پھوپو کے آنے کی خوشی ہورہی تھی پہلی بار پھوپو آرہی تھیں۔ اب ایک خوش گوار تعلق قائم ہوچکا تھا۔ پھر شبانہ بیگم کو لے کر ناظمہ اور خالد صاحب آگئے۔ ان کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں اس گھر میں جب بھی آتیں دل میں بغض رکھ کر ہی آتی تھیں مگر دلوں کی رنجیشیں ہوچکی تھی۔ شبانہ بیگم کے آنے سے گھر میں غیر معمولی خوش گوار چہل پہل ہونے لگی تھی۔
سیرت بھی چکر لگالیتی۔ خالد صاحب بھی روزانہ آجاتے۔ الیاس صاحب زبردستی ان کو کھانے پر روک لیتے۔ دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے۔ تقدیس اور تزکیہ شبانہ بیگم کے آگے پیچھے لگی رہتیں۔ کھانے کا‘ دوا کا‘ صفائی کا خیال رکھتیں ان کے پیر دباتیں‘ سر میں تیل لگا کر مالش کرتیں۔ شبانہ بیگم کی آنکھیں نم ہوجاتیں۔ کتنی محبت سمیٹ رہی تھی وہ یہاں آکر سکون اور اطمینان کا احساس ہوتا۔ شبانہ بیگم تقریبا ہفتہ بھر رہیں خوب رونق لگی رہی۔ الیاس صاحب کو بھی بہت اچھا لگتا تھا بڑی بہن تھیں دل صاف ہوچکے تھے یہی اچھی بات تھی۔ شبانہ بیگم نے جاتے جاتے بھاوج اور بھتیجیوں کو دامن پھیلا پھیلا کر دعائیں دیں۔
تزکیہ اور تقدیس کے پیپرز بھی ہونے والے تھے۔ پھوپو کے جانے کے بعد دونوں نے پڑھائی پر دھیان دینا شروع کیا۔ پڑھنے میں ویسے بھی اچھی تھیں نمایاں کامیابی حاصل کرتیں پھر بھی ایگزامز کے زمانے میں دونوں کو کسی چیز کا ہوش نہ رہتا۔ کھانے پینے تک کاخیال نہ رہتا۔ ناظمہ بیگم بھی ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتیں۔ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتیں اور دونوں بس پڑھائی میں ہی مگن رہتیں۔ آخر اﷲ اﷲ کرکے امتحان ختم ہوئے تو ان دونوں کے ساتھ ساتھ الیاس احمد اور ناظمہ بیگم نے بھی سکھ کا سانس لیا۔
اس روز موسم بہت خوش گور تھا۔ آج الیاس صاحب کی بھی چھٹی تھی۔ صبح سے ہی آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی ہواؤں اور ہلکی بارش نے موسم کو مزید حسین بنادیا تھا۔ ناظمہ بیگم نے الیاس صاحب کی فرمائش پر پکوڑے تیار کیے تھے۔ ساتھ ہی تزکیہ جو نت نئی ڈشز ٹرائی کرتی رہتی تھی اس نے کچوریاں اور چٹنی بنائی تھی۔ برآمدے میں بیٹھے سب لوگ موسم کے ساتھ ساتھ چائے اور ساون کے پکوان سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ ناظمہ بیگم کا فون بجنے لگا۔ تزکیہ نے دیکھا اسکرین پر سلمیٰ آنٹی کا نمبر تھا۔
’’اماں سلمیٰ آنٹی کی کال ہے۔‘‘ تزکیہ نے قدرے حیرانی سے دو بارہ اسکرین کو غور سے دیکھا اور سیل ناظمہ بیگم کی طرف بڑھایا۔ٹھیک ہیں۔۔۔؟ جی۔۔۔ اچھا۔۔۔ ضرور ضرور۔۔۔ میں ایڈیس سینڈ کرواتی ہوں۔‘‘ جتنی دیر ناظمہ نے بات کی اتنی دیر الیاس صاحب کے ساتھ ساتھ تزکیہ اور تقدیس بھی ان کو غور سے دیکھتے رہے آخری جملے پر سب نے حیرانگی سے انہیں دیکھا۔
’’جی جی۔۔۔ ان شاء اﷲ ضرور۔۔۔ اﷲ حافظ۔‘‘ ناظمہ بیگم نے بات ختم کرکے موبائل آف کیا۔
’’کیا ہوا اماں۔۔۔؟‘‘ تزکیہ نے سب سے پہلے سوال کیا۔
’’ارے بھئی وہ سلمیٰ بیگم تھیں بہت اچھی ہیں بے چاری۔ اتنا پیسہ ہے مگر نام کو غرور نہیں ہے کل شام کو ہمارے یہاں آنے کا کہہ رہی تھیں۔ تم لوگ ذرا چائے کے ساتھ کچھ اہتمام کرلینا۔‘‘ ناظمہ بیگم نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ الیاس صاحب نے سوالیہ نظریں بیوی پر ڈالیں۔
’’دراصل بے چاری تنہائی کا شکار ہے۔ خاندان سے کٹی ہوئی ہے اسپتال میں اچھی دوستی ہوگئی تھی ان سے تب ہی نمبر لے کر کہا تھا کہ آپ ہمارے گھر ضرور آئیں۔ میں تو بھول بھی گئی تھی مگر انہوں نے یاد رکھا۔‘‘ ناظمہ بیگم نے تفصیلاً کہا تو الیاس صاحب سر ہلا کر رہ گئے۔
’’چلو آپا۔۔۔ کل تم کوئی نئی ڈش تیار کرلینا۔ ویسے بھی آج کل تم تجرباتی ڈشز تیار کرتی ہو۔‘‘ تقدیس نے شرارتی لہجے میں کہا۔
’’اچھا۔۔۔ کیا میں تجرباتی کھانے کھلا رہی ہوں بدتمیز لڑکی۔‘‘ تزکیہ نے غصے سے تقدیس کو گھور کر کہا۔
’’ویسے بھئی یہ بات تو ماننے والی ہے کہ سارے تجربے خوش گوار اور خوش ذائقہ ہی ہیں اب تک۔‘‘ الیاس صاحب نے درمیان میں مداخلت کرتے ہوئے کہا تو تزکیہ نے اترا کر منہ بنایا۔
’’اونہہ۔۔۔ دیکھ لیا ناں تم نے چٹوری بلی۔‘‘ تقدیس مسکرادی۔
دوسرے دن اتفاق سے سیرت بھی آگئی۔ اس کا بیٹا کافی شریر تھا۔ سیرت آجاتی تو تزکیہ کی کچن سے چھٹی ہوجاتی۔
’’ارے اماں۔۔۔ اتنی امیر خاتون کیوں آرہی ہیں بھئی۔۔۔؟‘‘ سیرت نے سنا تو شاکی لہجے میں پوچھا۔
’’آپا سلمیٰ آنٹی بہت اچھی ہیں۔ دھیمے لہجے میں بات کرنے والی اور سوبر سی خاتون اتنا پیسہ ہے مگر لہجے میں انکساری اور عاجزی ہے تم بھی ملو گی ناں تو اچھا لگے گا۔‘‘ تزکیہ نے کہا تو سیرت چپ ہوگئی۔ شام کو سلمیٰ بیگم اپنے ڈرائیور کے ساتھ آئیں۔
ناظمہ بیگم نے سیرت کا تعارف کروایا۔ تقدیس اور تزکیہ کو وہ اسپتال میں دیکھ چکی تھی۔ تقدیس تو ایک بار ہی آئی تھی۔ جب کہ تزکیہ نے تو کافی وقت اسپتال میں گزار ا تھا بلکہ سلمیٰ بیگم کے بھی بہت سے چھوٹی موٹے کام کردیتی ان کا بھی خیال رکھتی تھی۔ ناظمہ بیگم ان کو لے کر ڈرائنگ روم میں آگئیں۔ چھوٹا سا مگر صاف ستھرا سا ڈرائنگ روم جس کے کونے کونے میں ثبوت مل رہا تھا کہ یہ سگھڑ مکینوں کا گھر ہے۔ عام سے مٹیریل کے دو صوفوں کے سیٹ پڑے تھے۔ درمیان میں شیشے کی میز اور دیواروں پر شیلف بنے تھے۔ شیلف پر ہاتھ کے بنے ہوئے خوب صورت شو پیز رکھے تھے۔ جب کہ میز پر بھی واز اور ٹشو بکس ہینڈ میڈ تھا۔ دیواروں پر لگی پینٹنگز بھی بچیوں نے ہی بنائی تھی۔
’’ماشاء اﷲ ناظمہ بہن۔۔۔ آپ کا ڈرائنگ روم بہت خوب صورت طریقے سے سجایا گیا ہے سچ پوچھیں تو مجھے بہت اچھا لگا ہے یہاں ایک ایک چیز ہینڈ میڈ ہے۔‘‘ سلمی بیگم نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کھلے دل سے تعریف کی تھی۔’’جی شکریہ۔۔۔ یہ سب میری بچیوں کا سلیقہ ہے۔ خاص طور پر تزکیہ تو کچھ نہ کچھ کرتی ہی رہتی ہے۔ آج کل کھانا پکانا سیکھ رہی ہے۔‘‘ ناظمہ بیگم نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
’’ہاں۔۔۔ مجھے اسپتال میں اندازہ ہوگیا تھا کہ آپ بھی کچھ کم سگھڑ نہیں ہوں گی۔ بیٹی اچھی۔۔۔ فرمان بردار‘ سلیقہ شعار اور نرم مزاج والی ہو تو اس کی ماں کی فطرت اور تربیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ بیٹی کا چال چلن‘ بات چیت‘ رہن سہن اور اس کے عمل سے ہی اس کی تربیت کا پتہ لگ جاتا ہے اور میں نے اسپتال میں تزکیہ کو اور آپ کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ آپ نے اپنی بچیوں کی تربیت کس نہج پر کی ہے۔ اور آج یہاں آکر میرے اندازے کو یقین میں بدل دیا اور۔۔۔ اور۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ تزکیہ کو اپنے اکلوتے بیٹے کی دلہن بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لے جاؤں جس طرح وہ یہاں پر ہے ویسے ہی میرے گھر کو بھی اپنے سلیقے‘ محبت اور پیار سے سجائے‘ سنوارے اور میرے گھر کی اداسی کو دور کردے اور میں اسی مقصد سے آج آپ کے پاس آئی ہوں۔‘‘
’’جی۔۔۔ جی۔۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔؟‘‘ ناظمہ بیگم نے حیرت اور غیر یقینی سے سلمی بیگم کی جانب دیکھا۔ ابریز کو ناظمہ بیگم نے دیکھا تھا۔ خوب صورت‘ ہینڈ سم اور امیر نوجوان تھا۔
’’ناظمہ بہن۔۔۔ آپ اچھی طرح سے سوچ سمجھ لیں۔۔۔ بھائی صاحب سے‘ شبانہ آپا سے مشورہ کرلیں ابریز کو آپ نے دیکھا ہوا ہے۔ میں آپ کے سامنے ہوں۔ آپ اگر مطمئن ہوجائیں تو ہمارے گھر آئیں اچھی طرح تسلی کرکے فیصلہ کریں۔ بس اتنا یقین رکھیں کہ میں تزکیہ کو اپنی بیٹی بنا کر رکھوں گی۔ میرے گھر میں اس کی حیثیت شہزادیوں جیسی ہوگی۔‘‘
’’جی۔۔۔ جی سلمی بہن‘ میں آپ کو بتادوں گی سب سے مشورہ کرنے کے بعد۔‘‘ ناظمہ بیگم نے کہا تب ہی تزکیہ چائے اور دیگر لوازمات کی ٹرے سنبھالے آگئی۔ سیرت اور تقدیس بھی آگئیں اور باتیں کرنے لگیں۔ کچھ دیر بعد سلمیٰ بیگم نے اجازت چاہی۔ سلمی بیگم چلی گئیں‘ تزکیہ ٹرے میں بچا ہوا سامان رکھ کر اٹھا کر کچن میںآگئی۔ سیرت اور تقدیس وہیں ناظمہ بیگم کے پاس تھیں۔
’’اماں واقعی۔۔۔ سلمی آنٹی تو بہت ڈیسنٹ اور سوبر خاتون ہیں۔‘‘ سیرت نے کہا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘ ناظمہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا اور ساتھ ہی سلمیٰ بیگم کے آنے کا مقصد بھی بیان کیا۔
’’ہائیں۔۔۔! سچ اماں۔۔۔؟‘‘ سیرت نے حیرت اور غیر یقینی کی ملی جلی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے پھر تصدیق چاہی۔
’’ہاں سیرت۔۔۔ انہیں ہماری تزکیہ بہت پسند آئی ہے۔‘‘ ناظمہ بیگم نے دوبارہ کہا تو تقدیس جو منہ پھاڑے دونوں کی باتیں سن رہی تھی خوشی سے چلا کر نعرہ لگایا۔
’’یاہو۔۔۔‘‘ اور سیدھی کچن کی طرف بھاگی جہاں تزکیہ چائے کے برتن دھو کر شیلف میں رکھ رہی تھی۔ تقدیس نے جا کر تزکیہ کو پیچھے سے پکڑ کر گھما ڈالا۔
’’ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ تقدیس پاگل ہوگئی ہو کیا۔۔۔؟ یہ کیا بدتمیزی ہے ابھی میرے ہاتھ سے کپ گر کر ٹوٹ جاتا تو۔۔۔‘‘ تزکیہ نے جھنجھلا کر اسے پیچھے دھکیلا تھا۔
’’ارے میری پیاری آپا۔۔۔ میں جو گڈ نیوز سن کر آرہی ہوں تم بھی سنو گی تو ناچنے لگو گی۔‘‘ تقدیس نے اس کے ہاتھ سے کپ لے کر دوبارہ سنک میں رکھ کر معنی خیز انداز میں کہا۔’’کیا نیوز ہے۔۔۔ کیا سیرت آپا ماں بننے جارہی ہیں۔۔۔؟‘‘ تزکیہ نے پوچھا۔
’’نہیں جناب۔۔۔ لگتا ہے کہ آپ کو سیرت آپا کی جگہ کچھ دنوں بعد یہی نیوز بتانی ہوگی۔‘‘ تقدیس کی بے باک شرارت پر تزکیہ کا دماغ گھوم گیا۔
’’دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔۔۔؟ گرمی کا اثر ہوگیا ہے دماغ پر۔۔۔ جو دل میں آئے بولے چلی جارہی ہو۔۔۔ کچھ شرم لحاظ ہے کہ نہیں۔۔۔؟‘‘
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...