داؤد مشوانی آج اپنے آفس میں موجود تھا۔
تین سالوں نے اسے بلکل بھی نہیں بدلا تھا، وہ آج بھی پہلے کی طرح بھرپور وجاہت کا مالک تھا۔
وہ آج ایسے ہی بے دھیانی میں بیٹھا پین گھمائے جا رہا تھا، جب اسکی سیکرٹری اندر داخل ہوئی۔
“سر! آپکے کینیڈا میں قیام کے دوران ایک لڑکی آفس آئی تھی اور آپ سے ملنا چاہ رہی تھی۔” روبینہ نے کہا۔
“کیا انھوں نے اپنا نام بتایا تھا؟” مشوانی نے پوچھا،
“انھوں نے نام تو بتایا تھا لیکن ابھی نام میرے ذہن میں نہیں آ رہا۔ میں آفس کی فوٹیج میں سے انکی تصویر نکال کر دکھاتی ہوں۔” روبینہ نے کہا اور باہر نکل گئی۔
تھوڑی دیر بعد مس روبینہ اپنا لیپ ٹاپ اٹھائے اندر آئیں اور داؤد مشوانی کے سامنے رکھتے ہوئے بولیں:
“سر یہ آئیں تھیں۔”
مشوانی نے لیپ ٹاپ سکرین پر مہمل کا چہرہ دیکھا تو ایک دم چوکنا ہوتے ہوئے بولا:
“کیا کہا تھا انھوں نے؟”
” سر وہ آپ کا نمبر مانگ رہیں تھیں لیکن میں نے نہیں دیا۔ کیونکہ آپ نے اپنا ذاتی نمبر کسی کو بھی دینے سے منع کیا ہے۔” مس روبینہ نے کہا۔
“اوہو! ٹھیک ہیں آپ جائیں مس روبینہ!” مشوانی نے کہا اور خود سوچ میں پڑ گیا کہ کیا وہ اسکے پاس جائے یا نا جائے۔
ان گزرے تین سالوں میں وہ ایک بار بھی اسے نہیں ملا تھا اور اب وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔
دل و دماغ میں ایک جنگ سی جاری تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
نور کی گاڑی یوسفزئی حویلی میں داخل ہو چکی تھی۔نور گاڑی سے باہر نکلی تو میر سامنے سے چلتا ہوا آ رہا تھا۔
“السلام علیکم ڈاکٹر شاہ!” نور نے آگے بڑھ کر کہا۔
“وعلیکم السلام! امید تو نہیں تھی کہ آپ یہاں آئیں گی مگر خوش آمدید!” شاہ نے مسکرا کر کہا۔
“کیوں میں کیوں نہیں آتی؟” نور نے سوال کیا۔
بس ایسے ہی مجھے لگا تھا شاہ نے اسے کہا اور وہ اندر کی طرف بڑھنے لگی۔
“ویسے کیسی لگی ہماری حویلی آپ کو؟” شاہ نے اس سے پوچھا۔
“اچھی ہے مگر۔۔۔۔” نور نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا۔
“مگر کیا؟” شاہ اسے زرینہ گل کے کمرے کی طرف لے کر جا رہا تھا۔
“مگر یہ کہ خونی لگتی ہے بہت سے راز ہیں اسکے اندر جنکو جاننے کا مجھے تجسس ہے کیا آپ مدد کریں گے میری انھیں جاننے میں؟” نور نے رک کر عجیب سے انداز میں کہا۔
شاہ بھی اسکی بات پر اسے دیکھنے لگا۔
آج کافی عرصے بعد شاہ کو اسکی آنکھوں میں وہی سرد تاثر اور وحشت نظر آئی تھی جو انٹرویو کے وقت اس نے نوٹ کی تھی۔
” سوری میں کچھ بھی کہیں بھی بول دیتی ہوں۔ ” نور نے معذرت کی تو شاہ سر جھٹکتا آگے بڑھا۔
“مورے!” شاہ نے زرینہ گل کو پکارا۔
“ارے میر بیٹا تم اور یہ کون ہیں؟” زرینہ نے نور کو دیکھ کر سوال کیا۔
“مورے یہ ڈاکٹر نور ہیں۔ اسوہ کی شادی میں شرکت کرنے آئیں ہیں۔” شاہ نے بتایا تو وہ آگے بڑھی اور نور کے سر پر ہاتھ پھیرا، جبکہ نور اس سارے معاملے کے درمیان خاموشی سے کھڑی تھی۔
“نور یہ میری والدہ ہیں زرینہ گل!” شاہ نے نور سے تعارف کروایا تو وہ بمشکل ایک پھیکی سی مسکراہٹ دے سکی۔
“آپ سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا اچھا ہوا آج ملاقات ہو گئی ان شاء اللہ ابھی بہت سی ملاقاتیں باقی ہیں۔” نور نے کہا تو وہ مسکرا دیں۔
اس سب کے بعد شاہ نے نور کو ملازمہ کے ساتھ مہمان خانے میں بھیج دیا تا کہ وہ آرام کر سکے۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
مہمل نے دروازہ کھولا تو سامنے ایمبولینس کھڑی تھی۔
رقیہ بیگم روتی ہوئی اتریں تھیں اور انکے پیچھے اسفر اسکے والد کی میت کو لا رہا تھا۔
وہ اپنی جگہ پتھر ہو چکی تھی۔
اسے اپنے باپ سے بہت محبت تھی۔ یہ ایک حقیقت تھی کہ مفلوج ہونے کے بعد وہ اسے پیار نہیں کر پاتے تھے، لیکن اسنے انکی آنکھوں میں ہمیشہ اپنے لیے پیار کو محسوس کیا تھا۔
اسے ہمیشہ وہ آنکھیں پیار کا، محبت کا، شفقت کا دریا لگتی تھیں۔
اس کے لئے ان آنکھوں سے بڑھ کے محبت کہیں تھی ہی نہیں لیکن آج محبت لٹانے والی، پیار بانٹنے والی وہ آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو چکی تھیں۔
جہانگیر خان کا سفر ختم ہو چکا تھا۔
مہمل رقیہ بیگم نے اسے ہلایا لیکن وہ تو ساکت کھڑی تھی اسے ہوش نہیں تھی۔
رقیہ بیگم نے اسے پکڑ کر دروازے سے ہٹایا تا کہ میت کو گھر کے اندر لایا جا سکے۔
وہ ایک دیوار کے ساتھ کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔محلے کی عورتیں گھر میں آ رہیں تھیں۔ رقیہ بیگم کے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔ جنکی وجہ سے رقیہ بیگم نے اپنے خاندان کو چھوڑ دیا تھا، جنکے لیے ہر تکلیف برداشت کی تھی، آج وہ سہارا نہیں رہا تھا۔ آج رقیہ بیگم دوسری بار ٹوٹی تھی۔ پہلی بار اپنی دو اولادوں کی موت پر اور دوسری بار اپنا سہارا چھن جانے پر۔
عورتیں اس سے لپٹ کر رو رہی تھی، لیکن اسکی آنکھوں سے ایک آنسو نہیں ٹپکا تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی اور ڈری سہمی سی مہمل لگ رہی تھی۔
کسی نے آج سے پہلے اسے ایسے کمزور نہیں دیکھا تھا۔ محلے والوں کو تو وہ منہ پھٹ لگتی تھی اور سب سوچتے تھے کہ اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی لیکن آج تو سب اسے دیکھ کر رہ گئے تھے۔
آج مہمل خان کے حوصلے میں، اعتماد میں دراڑ آئی تھی۔آج اسکا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔
“مہمل اری او مہمل روتی کیوں نہیں ہو؟ کیوں چپ کھڑی ہو؟ باپ نہیں رہا تمہارا میری بچی!” شبنم خالہ اسے جھنجھوڑ رہیں تھیں۔
اسنے ایک دم جہانگیر خان کی میت سے نظر ہٹا کر شبنم خالہ کو دیکھا۔ آنکھوں میں ایک اس تھی کہ خالہ کہہ دیں کہ تیرا باپ زندہ ہے لیکن خالہ اسے ساتھ لگا کر بولی:
“نا کر ایسے! نہیں ہے جہانگیر خان اب تمہارے ساتھ! چلا گیا ہے وہ! رب نے اسکی مشکل آسان کر دی ہے۔ آج رو لے میری بچی کھل کے!”
“خالہ!!!” مہمل کی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
“ہاں بولو بیٹا!” شبنم خالہ نے اسکا چہرہ تھاما۔
بچپن میں جب رقیہ بیگم لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں اور کپڑے سلائی کرتی تھیں، تو مہمل شبنم خالہ کے پاس چلی جاتی تھی کہ میرے ساتھ کوئی باتیں نہیں کرتا اور وہ ہمیشہ ایسے ہی اسکا چہرہ تھام کر اس سے باتیں کرتی تھیں۔ شبنم خالہ اس محلے میں واحد تھیں جن سے اسکا دل کا رشتہ تھا۔
“خالہ ابو کو کچھ نہیں ہوا نا وہ ابھی اٹھ جائیں گے نا؟” مہمل نے بڑی امید سے خالہ سے پوچھا۔
“مہمل!” خالہ سے اس سے آگے بولا نہیں گیا تھا اور وہ اسے گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔
“خالہ آپ نہیں روئیں۔” مہمل نے انھیں تیزی سے خود سے الگ کیا تھا ۔
مہمل تیز تیز سانس لے رہی تھی اور اسکی نظریں جہانگیر خان پر تھیں جنکی سانسوں کی ڈور رات کو ٹوٹ چکی تھی۔
وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ اسکا دوپٹہ زمین پہ لگ رہا تھا اور یہ تو سچ ہے کہ جب سر سے باپ کا سایہ اٹھ جائے تو بیٹیوں کے سر پر چادر دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پھر وہ زمانے کی ٹھوکریں کھانے کے کیے اکیلی رہ جاتی ہیں۔
باپ چاہے مفلوج ہی کیوں نہ ہو، باپ کا سایہ ہی غنیمت ہوتا ہے، ایک بیٹی کی ہمت ہوتا ہے، بیٹی کا حوصلہ ہوتا ہے اور مہمل آج وہ سب کھو چکی تھی۔
مہمل جہانگیر خان تب نہیں بکھری تھی جب اسکے بہن بھائی قتل ہوئے تھے یا جب اسکا باپ مفلوج ہوا تھا۔
مہمل جہانگیر خان آج بکھری تھی کیونکہ آج مہمل جہانگیر خان یتیم ہو گئی تھی، آج مہمل جہانگیر خان کے پاس جہانگیر خان نہیں رہا تھا۔
“ابو، ابو!” مہمل نے چارپائی کے پاس نیچے بیٹھتے ہوئے کہا۔
“ابو اٹھیں نا ابو مہمل آپ کی مومی بلا رہی ہے آپ کو ابو ابوووو!” مہمل اب کی بار زور سے چیخی تھی۔
رقیہ بیگم نے اسے پکڑنا چاہا لیکن اسنے ایک جھٹکے سے خود کو آزاد کرایا تھا۔
وہ اب چیخ چیخ کر رو رہی تھی اسے دیکھ کر آج ان عورتوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے جو مہمل کو نا پسند کرتی تھیں۔
“ابو اٹھیں آپ کی مہمل بلا رہی ہے میرے بلانے پہ بھی آپ اٹھ نہیں رہے۔ مجھے پتہ ہے آپ ناراض ہیں کیونکہ میں کل آپ کے پاس نہیں رکی نا لیکن وعدہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ ابو اٹھیں نا ابو دیکھیں نا مجھے۔” مہمل کسی کے قابو میں نہیں آ رہی تھی۔ رقیہ بیگم کا دل کانپ رہا تھا اسکی باتیں سن کر، وہ خود ایک درد سے گزر رہیں تھیں۔
“ابو ابوووو!!” مہمل کہ چیخیں درو دیوار کو چیر رہیں تھیں۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“ہیلو مشوانی!” شاہ نے اسے کہا۔
“ہاں بولو!” مشوانی جو اس وقت الجھن میں تھا کہ وہ مہمل کے پاس جائے یا نا جائے شاہ کا فون دیکھ کر چونکا تھا۔
“پہلے سوچا کہ نہ بتاؤں لیکن پھر سوچا کہ بتا دیتا ہوں کل کو گلہ نہ کرو۔” شاہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
“کیا ہو گیا ہے شاہ ایسے کیوں بات کر رہے ہو؟” صاف صاف بتاؤ مشوانی نے تیز لہجے میں کہا۔
“جہانگیر خان یوسفزئی یعنی مہمل کے والد اور میرے چچا اس دنیا میں نہیں رہے۔” شاہ نے کہا تو مشوانی ایک دم کھڑا ہوا تھا۔
“یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟” مشوانی کی آواز کانپی تھی۔
“سچ کہہ رہا ہوں ابھی انکی میت انکے گھر ہے شام کو جنازہ ہوگا۔ میں تو نہیں جا رہا لیکن خان بابا جائیں گے۔” شاہ نے کہا لیکن مشوانی نے پوری بات سنے بغیر فون کاٹا اور بھاگتے ہوئے گاڑی میں بیٹھا تھا۔
اسنے ساتھ ہی اپنے داجی کو فون ملایا۔
“داجی آپ کراچی میں ہی رہیں واپس پشاور مت جائیں۔ جہانگیر خان کا انتقال ہو گیا ہے ڈرائیور کو بولیں وہ آپ کو انکے گھر لے جائے گا۔” مشوانی نے جلدی سے بتایا تو داجی یعنی مظفر مشوانی جو داؤد مشوانی کے والد تھے وہ بھی حیران و پریشان رہ گئے تھے۔
مشوانی مہمل کے گھر پہنچا اور جب وہ گھر کے اندر داخل ہوا تو ایک لمحے کو تو اسے بھی یقین نہیں آیا تھا۔
آج پہلی بار اسنے ضدی، اکھڑ مہمل کو روتے دیکھا تھا وہ جو کبھی بھی روتی نہیں تھی آج چیخ چیخ کے رو رہی تھی۔
بلکل بچی لگ رہی تھی وہ جو اپنے ابو کو بلاتی ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ایک بچی اپنے ابو کو پیار سے بلاتی ہے اور ابو آ جاتے ہیں۔ لیکن مہمل تو چیخ چیخ کے بلا رہی تھی لیکن جواب نہیں مل رہا تھا کیونکہ ایک انسان کا سفر تمام ہو چکا تھا۔
وہ ابھی دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا کہ جہاندار خان کی گاڑی آ کر رکی اور وہ اپنے ازلی رعب کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔
انھوں نے ایک تنقیدی نظر مشوانی پہ ڈالی جو انھیں چبھتی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور پھر رقیہ بیگم پر ناگوار نظر ڈال کر مہمل کو مخاطب کیا۔
“مہمل میری بھتیجی میری بیٹی۔۔۔!” جہانداد خان کا جملہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ مہمل جو رو رہی تھی ایک دم کھڑی ہوئی۔
“بس جہانداد خان بس میرے باپ کی موت پر تو بخش دو ہمیں! کیا چاہتے ہو اب کونسا نیا تماشہ لگانا ہے۔” مہمل غصے سے چیخ رہی تھی۔
“مہمل جہانگیر میرا بھائی ہے۔ میرا چھوٹا لاڈلا بھائی!” جہانداد خان نے مہمل کو کہا اور جہانگیر خان کا چہرہ دیکھنے کے لیے آگے بڑھے تو مہمل فوراً چارپائی کے آگے آگئی اور بولی:
“کوئی بھائی نہیں ہے آپ کا یہ میرے باپ کا گھر ہے۔ کسی جہانداد خان کے بھائی کا نہیں۔ آپ کوئی حق نہیں رکھتے کہ جہانگیر خان کا چہرہ دیکھیں۔ چلے جائیں یہاں سے!”
“مہمل بچے میری بات سنو۔۔۔” انھوں نے کہا جب اچانک مہمل خان نے انکا گریبان پکڑا تھا۔
وہاں موجود سب لوگ حیران و پریشان تھے کہ ایک فوتگی والے گھر میں یہ کیا ہو رہا ہے!
“مہمل!” مشوانی ایک دم آگے بڑھا تھا جب مہمل نے اسے ہاتھ اٹھا کر روک دیا تھا۔
سب مہمل کو دیکھ رہے تھے جو غصے میں پاگل ہو رہی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
وہ اس حویلی کی دوسری منزل پر بنے مہمان خانے میں مقیم تھی۔
اپنے سیاہ بالوں کو ٹیل پونی میں مقید کیے چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی، آنکھیں آج بھی سرد تاثر لیے ہوئے تھیں۔
“کیا ہم بات کر سکتے ہیں؟” پیچھے سے آواز آئی تو وہ جو لیپ ٹاپ پہ کام کر رہی تھی، چونک گئی۔
“ارے اسوہ آپ؟ کیوں نہیں بیٹھیں۔” نور نے اسوہ کے لیے صوفے پر جگہ بناتے ہوئے کہا۔
“لگتا ہے آپ کو زیادہ باتیں کرنا پسند نہیں ہے۔” اسوہ بھی اسکی آنکھوں سے اسکے بارے میں اندازہ لگا رہی تھی۔
“سنا تو آپ کے بارے میں بھی یہی تھا۔” نور نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھا۔
“شاید پہلے خود پر ایک بوجھ سا محسوس ہوتا تھا لیکن اب پرسکون ہوں، اور آپ نہیں سمجھ سکتی میری کیفیت کیونکہ آپ کچھ نہیں جانتی میرے بارے میں۔” اسوہ کے انگ انگ سے خوشی ظاہر ہوتی تھی۔
“میں آپکے ماضی سے واقف ہوں اسوہ! اور حقیقت یہ ہے کہ آپ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔”نور نے سارے لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے دانت پیس کر کہا تھا۔
“آپ کو لگتا ہے مجھ سے بات کرنا اچھا نہیں لگ رہا۔” اسوہ کا چہرہ ماند پڑا تھا۔
“نہیں میں ایسے ہی بات کرتی ہوں۔” نور کا لہجہ ہر احساس سے عاری تھا۔
“اوہ! مجھے لگا شاید میرے ماضی کی وجہ سے میں آپ کو اچھی نہیں لگی۔” اسوہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
“اسوہ یوں شرمندہ ہونا چھوڑ دو تمہیں بچپن میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا اور ہاں یاد رکھنا یہاں کسی کا ماضی خوشگوار یادیں نہیں رکھتا۔ کچھ نہ کچھ ظلم ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسکے ذمہ دار آپ ہیں۔ اس لیے خود کو مجرم سمجھ کر سزا نہ دو۔ اگر سزا دینی ہی ہے تو اس شخص کو دو جو تکلیف کی وجہ بنتا ہے۔” نور اب کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو چکی تھی۔
“کوشش کرونگی کہ آپ کی باتوں پر عمل کروں لیکن اس سب کے بعد مجھے ایک بات تو معلوم ہو گئی ہے کہ۔۔۔ ” اسوہ نے بات ادھوری چھوڑی تو نور نے مڑ کر اسے سوالیہ انداز میں دیکھا۔
“کہ آپ کبھی اپنے کسی مجرم کو معاف نہیں کرنے والی اور یہ کہ لالہ کو آپ کیوں اچھی لگیں اس لیے کہ انھیں اپنے حق کے لیے اٹھنے والی لڑکیاں پسند ہیں۔” اسوہ نے بات مکمل کی اور کمرے سے نکل گئی۔
وہ جا چکی تھی مگر اسکے لفظوں کا فسوں نور پر چھا چکا تھا۔وہ سوچ میں گم تھی کہ کیا واقعی وہ کسی کو معاف نہیں کر سکتی۔ لیکن پھر وہ مسکرا دی کیونکہ ایسا ہی تھا بچپن سے لے کر آج تک اسنے کسی کو معاف نہیں کیا تھا۔
جہاں تک دوسری بات ہے وہ یاد کر کے اس کے ہونٹوں پر ایک مبہم مسکراہٹ آئی تھی، کیونکہ اگر وہ میر یوسفزئی المعروف ڈاکٹر شاہ کو اچھی لگی تھی تو پلان کامیاب جا رہا تھا۔
اپنی کامیابی کا سوچ کر اسے سب اچھا لگ رہا تھا۔ پشاور کا موسم تو حسین تھا ہی لیکن اسکے اندر بھی کہیں سکون کی لہر دوڑی تھی۔ آخر کو اتنے لمبے سفر کے بعد وہ منزل کے قریب تھی بس اسے تھکنا نہیں تھا۔
کھڑکی سے نیچے دیکھا تو میر یوسفزئی عمیر یوسفزئی کے ساتھ محوِ گفتگو تھا۔
نجانے کتنی دیر وہ انہماک سے میر یوسفزئی کو دیکھتی رہی پھر اچانک میر کی نظر اوپر اٹھی تو ایک لمحے کو ان کی نظر ملی تھی مگر وہ کھڑکی سے ہٹ گئی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“مہمل یہ کیا کر رہی ہو؟” رقیہ بیگم جو کب سے چپ چاپ سر جھکائے آنسو بہا رہیں تھیں، اسے روکنے کے لیے آگے بڑھیں تو مہمل نے انھیں بھی روک دیا۔
“نجانے کس پر گئی ہو؟ تمہارے ماں باپ تو ایسے ظالم، ہٹ دھرم نہیں ہیں۔” جہانداد خان نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔
“میں اپنی تائی اور تایا پر گئی ہوں۔” مہمل نے چبا کر لفظ ادا کیے تھے۔
“جہانداد خان اس وقت کہاں تھے آپ جب آپ کے بھائی کو مفلوج کیا گیا تھا؟ جب آپ کے بھائی کے بچوں کو قتل کیا گیا تھا؟ جب مجھے بجلی کے جھٹکے دیے گئے تھے؟ جب ہم بے سرو سامان تھے؟ اس وقت آپ ہمارے پاس موجود نہیں تھے! اور بہتر یہی ہوگا کہ اب بھی آپ ہمارے اردگرد کہیں موجود نہ ہوں۔” مہمل نے ان کا گریبان چھوڑا دیا تھا۔
“میں مانتا ہوں میری غلطی ہے اور میں شرمندہ ہوں۔” جہانداد خان یہ کہتے ہوئے چارپائی کی طرف بڑھے تو مہمل بھاگ کر چارپائی کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
“دور رہیں یہاں سے!” اس وقت مہمل کے چہرے سے وحشت عیاں تھی۔
مشوانی کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔
جہانداد خان نے جب دیکھا کہ اچھا بننے سے مہمل نہیں سننے والی تو انھوں نے گارڈز کو اشارہ کیا وہ مہمل کی طرف بڑھے اس سے پہلے کے وہ آگے بڑھتے مشوانی کے گارڈز درمیان میں آ گئے۔
“دیکھو داؤد بچے تم دو قبیلوں کی لڑائی کا سامان مت کرو۔ مجھے صرف اپنے بھائی کا چہرہ دیکھنا ہے اور بس۔” جہانداد خان نے اسے کہا۔
“مہمل جو چاہے گی وہی ہوگا اگر وہ اجازت دے دے تو میں کیوں روکوں گا آپ کو۔” مشوانی آرام سے بولا۔
اسے لمحے مظفر مشوانی یعنی داؤد کے داجی اندر داخل ہوئے۔
جہانداد خان کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی انھیں ناکام لوٹنا پڑا کیونکہ پہلے شاید وہ لڑ بھی لیتے لیکن مظفر مشوانی کی موجودگی میں وہ زیادہ مزاحمت نہ کر سکے۔
جنازے کو اٹھانے کا وقت ہو رہا تھا مگر مہمل چپ چاپ چارپائی کے ساتھ لگی باپ کا چہرہ تکتی جا رہی تھی۔ کتنا وجیہہ چہرہ تھا نا، جوانی کے دنوں میں تو اس چہرے کو دیکھ کر انسان فدا ہو جائے۔ آج اس پر لاتعداد جھریاں تھیں لیکن اس چہرے کی وجاہت آج بھی کم نہیں ہوئی تھی۔ مہمل کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کسی طرح بھی جہانگیر خان کی آنکھوں میں اپنی تصویر دیکھے۔ کتنے سالوں سے یہی تو کرتی تھی وہ انکے سامنے جا کر بیٹھ جاتی اور وہ اسے دیکھتے رہتے۔
لیکن آج مہمل پاس بیٹھی تھی مگر وہ آنکھیں بند ہو چکیں تھیں۔ مہمل اٹھنے کو راضی نہیں تھی، بچپن سے وہ جہانگیر خان کے ساتھ زیادہ لگاؤ رکھتی تھی اور دیکھنے والے بھی یہی کہتے تھے کہ وہ ہوبہو باپ پر گئی ہے اور رقیہ بیگم کے بقول وہ باپ کی طرح ضد کی پکی تھی۔
جب جنازہ اٹھایا گیا تو سب کو لگتا تھا وہ چیخے گی چلائے گی لیکن اس کے منہ سے تو ایک آہ تک نہ نکلی تھی۔ وہ یک ٹک سب دیکھے جا رہی تھی آنکھوں میں ایک حسرت تھی کہ کاش زندگی یوں نہ ہوتی لیکن کسی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
وہ بھاگ کر دروازے پر گئی جب تک جہانگیر خان کی میت آنکھوں سے اوجھل نہ ہوئی۔ وہ دیکھتی رہی لیکن جب باپ کی میت آنکھوں سے اوجھل ہوئی اسے یقین ہو گیا کہ اب دوبارہ اپنے باپ کو کبھی نہیں دیکھ پائے گی تو وہ وہیں دھڑام سے گری تھی۔
رقیہ بیگم جو پہلے ہی غم سے نڈھال تھیں بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر مزید ٹوٹ رہیں تھیں۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...