’’عائشہ،مجھے ایسا لگتا ہے جیسے زندگی بس ایک نقطے پر آ کر ٹھہر سی گئی ہے۔۔۔۔‘‘ سکینہ کی وفات کے کافی دن کے بعد وہ آج عائشہ اور رامس کے ساتھ لنچ پر اکھٹے تھے۔رامس کو اسی ریسٹورنٹ میں اپنے کچھ دوست مل گئے تھے اس لیے وہ ان سے ایکسکیوز کر کے ان کی جانب بڑھ گیا ۔
’’وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’کچھ عرصے سے کوئی بھی چیز ،دل کو خوشی نہیں دیتی ۔۔۔۔۔‘‘ وہ بڑے بے بس انداز سے بولے ۔
’’لیکن ایسا کیوں ہے، میں نے خود بھی محسوس کیا ہے کہ آپ کے اندر کچھ دنوں سے بڑی واضح تبدیلی آئی ہے۔ موحد کی شادی پر بھی آپ نہیں آئے۔پتا نہیں کس چیز سے آپ بھاگ رہے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے بہت غور سے ڈاکٹر خاور کا مضطرب انداز دیکھا۔
’’یقین کرو،میں خود بھی نہیں سمجھ پا رہا۔۔۔۔‘‘ انہوں نے اعتراف کیا۔
’’جب کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے سکینہ کی وفات نے آپ کو بہت ڈسٹرب کیا ہے۔۔۔‘‘ وہ عائشہ کی بات پر چونکے اور بڑی کھوجتی نگاہوں سے اُس کا سادہ اور بے ریا چہرہ دیکھا اور پھر مطمئن ہو کر گویا ہوئے۔ ’’ہاں کہہ سکتی ہو،شاید ایسا ہی ہو۔۔۔۔‘‘ انہوں نے ادھورا سا جواب دیا۔
’’لیکن ایسا کیوں ہے،آپ نے تو اپنی ہمت سے زیادہ اُس کے لیے کیا اور اب تک کر رہے ہیں،سکینہ ٹرسٹ قائم کرنے کا ارادہ کرناکوئی معمولی بات نہیں۔‘‘ عائشہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے سامنے بیٹھے شخص کے چہرے سے ساری اُداسی کھرچ کر اُتار دے۔
’’سچ بتاؤں،کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جیسے اُس کی موت کا ذمے دار میں ہوں۔۔۔۔‘‘ ان کی بات پر سوپ کے لیے بڑھتا عائشہ کا ہاتھ فضا میں معلق ہوا۔
’’ کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس نے استعجابیہ نگاہوں سے اپنے سامنے بیٹھے بندے کو دیکھا جس کے وجود میں عجیب سی بے چینی آ بسی تھی۔
’’مجھے لگتا ہے سکینہ کو میری محبت نے مار ڈالا۔وہ جو جسمانی معذوری کا دکھ تو برداشت کر گئی لیکن زہر آلود جملوں نے اُس کی روح کو داغدار کر دیا۔ڈاکٹر زویا نے اُسے میری وجہ سے اتنا کچھ کہا اور وہ بیچاری کسی سے بھی شکوہ کیے بغیر چلی گئی۔‘‘ ڈاکٹر خاور آج اپنا وہ دکھ کہہ ہی گئے جو ان کے اندر دن بہ دن پل کر جوان ہوتا جا رہا تھا۔
’’کم آن علی، بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور اُسے ،اُسی دن آنا ہے۔میں مانتی ہوں کہ ڈاکٹر زویا نے غلط کیا ،لیکن اس کے باوجود سکینہ کی موت اللہ نے ایسے ہی لکھی تھی اور اُس نے ایسے ہی مرنا تھا۔۔۔۔‘‘عائشہ نے نرمی سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ کتنی حیران کن بات ہے عائشہ ،وہ ساری زندگی جس بیماری کے خلاف لڑتی رہی ، اُس کی وجہ سے اُسے کچھ نہیں ہوا اور موت اُس کی برین ہیمبرج کی وجہ سے ہوئی ۔جس کے لیے کبھی اُس نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔‘‘ڈاکٹر خاور حقیقتا، اُس کی موت کی وجہ سے ذہنی طور پر ڈسٹرب تھے۔اس کا اندازہ عائشہ کو آج ہی ہوا ۔
’’علی،یہ سب تقدیر کے فیصلے ہیں ،ہم ان سے نہیں لڑ سکتے ،آپ اُس کے والدین کو بھی تو دیکھیں،انہوں نے سکینہ کی موت کوکیسے صبر اور شکر کر کے قبول کر لیا اور ایک دفعہ بھی اللہ سے شکوہ نہیں کیا۔‘‘عائشہ کی یاد دہانی پر وہ جبراًمسکرائے۔
’’درد کا احساس تو ہر شخص کو ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔جو اللہ کے پیارے لوگ ہوں اللہ انہیں صبر بھی جلد دے دیتا ہے جب کہ ہم جیسے لوگ بس شور مچاتے رہ جاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے تلخ لہجے میں کہا۔اس سے پہلے کہ عائشہ کوئی جواب دیتی،ماہم کی آواز اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’ہائے ایوری باڈی۔۔۔۔!!!‘‘ ماہم اچانک ہی اُس ریسٹورنٹ میں کہیں سے نکل کر سامنے آئی تھی۔شاکنگ پنک جینز پر پرپل لونگ سویٹر پہنے وہ دونوں کو بہت عجیب سی نگاہوں سے گھور رہی تھی۔عائشہ اور ڈاکٹر خاور اُسے اچانک ہی اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوئے۔
’’ارے ماہم،تم، آؤ ناں،بیٹھو۔۔۔۔‘‘عائشہ اُسے دیکھ کر ہلکا سا بوکھلائی جب کہ ڈاکٹر خاور کے چہرے کا اطمینان دیدنی تھا۔
’’بہت چالاک ہو تم لوگ،تمہاری صلح ہو گئی اور مجھے بتایا ہی نہیں۔۔۔۔‘‘وہ خود کو سنبھال کر اب بڑی ڈھٹائی سے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی
’’ہماری لڑائی کب ہوئی تھی۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کی بات پر ماہم کو دھچکا سا لگا۔اُس نے الجھن بھری نگاہوں سے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جو عائشہ کے چہرے کو بڑی محبت سے دیکھ رہا تھا۔اشتعال کی ایک لہر ماہم کو اپنے پورے وجود میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’ کیوں ،پھر آپ کیا میرے ساتھ ڈرامہ کر رہے تھے۔۔۔۔‘‘ماہم نے تیکھی نگاہوں سے علی کو دیکھا تو وہ مسکرا دیے۔
’’اس شہر میں اگر بیسٹ ایکٹینگ پر کوئی ’’آسکر ایوارڈ‘‘ہوتا تو یقین کریں ماہم منصور وہ آپ کے علاوہ کوئی نہیں لے سکتا تھا۔۔۔۔‘‘رامس بھی اچانک ہی اس منظر کا حصّہ بنا۔اُس نے دُور ہی سے ماہم کو عائشہ لوگوں کی ٹیبل کی طرف بڑھتے دیکھ لیا تھا اس لیے وہ خود کو وہاں آنے سے روک نہیں سکا۔
’’تم۔۔۔۔۔۔‘‘ماہم کے لہجے میں عجیب سی رعونت در آئی۔
’’جی ،میں،مجھے رامس علی کہتے ہیں۔۔۔۔‘‘اُس نے بڑے طنزسے اپنے سر کو جنبش دے کر اپنا تعارف کروایا۔ماہم نے اپنے شانوں پر بکھرے اپنے سلکی بالوں کو جھٹکا سا دے کر ڈاکٹر علی کو دیکھا جو بہت دلچسپی سے یہ منظردیکھ رہے تھے۔
’’ڈاکٹر علی، یہ رامس علی ہے،جس کا میں نے آپ کو بتایا تھا۔۔۔۔‘‘اُس نے اپنی کاجل بھری آنکھوں میں زمانے بھر کی معنی خیز ی سمو کر ڈاکٹرعلی کی طرف دیکھا۔
’’علی بھائی ،یہ وہی سائیکلوجسٹ ماہم منصورہیں،جن کا میں نے آپ سے کبھی ذکر نہیں کیا۔۔۔‘‘رامس کے ذومعنی انداز پر ماہم کی سنہری آنکھوں میں ناگواری در آئی اور خوبصورت پیشانی پر بے شمار شکنوں کا ایک جال سا ابھر آیا۔جب کہ اُس کے تعارف کروانے کے انداز پر عائشہ اور ڈاکٹر خاور کھل کر مسکرائے۔
’’بائی داوے،آپ نے علی بھائی کو میرے بارے میں کیا بتایا تھا۔۔۔؟؟؟‘‘وہ ماہم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر طنزاً بولا۔ ماہم کو پہلی دفعہ کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا۔
’’آپ رامس کو کیسے جانتے ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ماہم کا چہرہ تناؤ کا شکار ہوا۔اُس نے الجھن بھرے انداز سے علی کو غور سے دیکھا اور سٹپٹا گئی ۔
’’یہ تو مجھے اُس دن سے جانتے ہیں جس دن میں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی، لیکن بائی داوے آپ میرے بھائی کو کیسے جانتی ہیں۔؟؟؟‘‘ کیا ان کے ساتھ بھی کوئی محبت کا گھٹیا سا کھیل،کھیلنے کا ارادہ ہے آپ کا۔۔۔۔؟؟؟ رامس کی بات پر ماہم کو سو واٹ کا کرنٹ لگا۔وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی اور شدید صدمے اور بے یقینی کی کیفیت میں رامس کو دیکھتی رہ گئی۔
’’یہ دیکھیں معاف کر دیں ہمیں۔۔۔۔‘‘ رامس نے باقاعدہ اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر تلخی سے کہا۔
’’پہلی فرصت میں کسی اچھے سائیکاٹرسٹ سے اپنا علاج کروائیں۔آپ توخود اچھی خاصی سائیکک ہیں،اللہ جانے لوگوں کا علاج کیسے کرتی ہیں۔یہ جو آپ کے دماغ میں احساس برتری کا خلل بھرا ہوا ہے ناں ۔اس کی وجہ سے آپ کا خوبصورت چہرہ بعض دفعہ حد درجہ مکروہ اور غلیظ لگنے لگتا ہے ،لیکن آپ کو اس چیز کا احسا س نہیں ہوتا۔۔۔‘‘ رامس کو آج اپنی بھڑا س نکالنے کا موقع مل ہی گیا ۔عائشہ اور ڈاکٹر خاور بوکھلا گئے۔دونوں کو ہی اندازہ نہیں تھا کہ رامس اس قدر مشتعل ہو جائے گا۔
’’شٹ اپ ،جسٹ شٹ اپ۔۔۔‘‘ ماہم چیخی، ڈاکٹر خاور نے بے ساختہ رامس کا بازو پکڑ کر اُسے بیٹھانے کی کوشش کی۔
’’مجھے آج اس گھٹیا لڑکی کو اس کی اوقات بتا لینے دیں۔یہ جو پوری دنیا کو پاگل اور بے وقوف سمجھتی ہے ناں ،اسے آئینہ دِکھا لینے دیں۔‘‘ رامس ایک دم آپے سے باہرہوا۔عائشہ نے خوفزدہ نگاہوں سے ماہم کا غصّے کی زیادتی سے سیاہ ہوتا چہرہ دیکھا۔
’’ماہم پلیز ،تم جاؤیہاں سے۔۔۔۔‘‘عائشہ نے اُس کا بازو پکڑ کر باہر کی جانب دھکیلا۔
’’شٹ اپ،ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔‘‘ وہ حلق پھاڑ کر چیخی ،ریسٹورنٹ میں موجود کافی سار ے لوگ ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔اچھی خاصی اکورڈ پوزیشن بن گئی ۔
’’گھٹیا فطرت کی بدصورت گدھ، جو مردہ جسموں کا گوشت کھاتی ہے۔کبھی شیشہ دیکھنا ،تمہیں اپنے چہرے کی بجائے ایک گدھ کا چہرہ دِکھائی دے گا۔‘‘ رامس ہذیانی انداز سے چیخ رہا تھا۔ ماہم نے اُسے دیکھا وہ اب نفرت سے زمین پر تھوک رہا تھا۔وہ بجلی کی سی سرعت سے باہر نکلی۔اُس کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔ وہ پاگلوں کی طرح اپنی گاڑی کی طرف بھاگی،اُسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن رامس کے جملے کسی بھوت کی طرح اُس کا تعاقب کر رہے تھے۔ایک موڑ کاٹتے ہوئے اُس کی گاڑی پوری قوت سے پٹرول کا ذخیرہ لے کر آتی گاڑی سے ٹکرائی۔فضا میں گاڑی کے شیشوں کے ٹوٹنے کی آواز کے بعد ہی زور دار دھماکہ ہوا ۔ماہم کی گاڑی کے پرزے سڑک پر دُور تک پھیلتے گئے۔
***************
’’عائشہ کیسی طبیعت ہے ماہم کی۔۔۔۔‘‘ وہ ابھی ابھی ہسپتا ل سے واپس آئی تھی ۔صوفے پر بیٹھ کر اُس نے ابھی سانس ہی لیاتھا کہ ماما بڑی تیزی سے سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئیں۔
’’بہت خوفناک حادثہ تھا ماما۔۔۔۔‘‘ عائشہ نے افسردگی سے کہا۔
’’ہاں بیٹا،میں نے ٹی وی پر دیکھا، قیامت خیز منظر تھا۔شکر ہے ماہم کی جان بچ گئی۔۔۔۔‘‘ ماما نے اُس کے سامنے بیٹھتے ہوئے گفتگو میں حصّہ لیا۔
’’امّی کیا فائدہ ،ایسی جان کا۔۔۔۔‘‘ وہ حد درجہ مضطرب تھی۔
’’کیا مطلب بیٹا۔۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماما نے بے چینی سے پہلو بدلا اور عائشہ کی نم آنکھوں کو دیکھا۔
’’ماما ،وہ اس حادثے میں اپنی دونوں ٹانگیں ہمیشہ کے لیے کھو چکی ہے۔۔۔‘‘ عائشہ کی آواز کپکپا رہی تھی ۔ماہم کی تکلیف اُسے اپنے دل پر محسوس ہو رہی تھی۔وہ ایسی ہی تھی دوست اور دشمن ،سبھی کے غموں پر پریشان ہونے والی، ماہم کے ایکسیڈنٹ کی خبر نے اُس کی راتوں کی نیند اڑا دی تھی۔
’’اللہ معاف کرے بیٹا،مکافات عمل ہے۔۔۔‘‘ ماما نے قدرے جھجک کر کہا تو عائشہ نے گلہ آمیز نگاہوں سے انہیں دیکھا۔
’’بہت بُری بات ہے ماما، آپ اور موحد بھائی دونوں ہی بہت سخت دل ہیں۔۔۔۔‘‘
’’تمہاری موحد سے بات ہوئی ،کب آ رہا ہے پاکستان۔۔۔؟؟؟‘‘ ماما نے نظریں چراتے ہوئے دانستہ موضوع تبدیل کیا۔
’’ابھی تو وہ اپنی بیگم کے ساتھ ماشاء اللہ بہت خوش ہے۔ان دونوں کا امریکہ سے پیرس جانے کا ارادہ ہے۔۔۔‘‘ عائشہ نے انہیں موحد کے بارے میں بتایا اور تھکے تھکے انداز سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔ واش روم سے منہ ہاتھ دھونے کے بعد وہ اپنے بیڈ روم میں آئی تو سامنے میز پر رکھا اُس کا سیل فون بج اٹھا۔اُس نے چونک کر ایل سی ڈی پر علی کا نام دیکھا۔
’’عائشہ کہاں ہو یار۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور علی کی پریشانی میں ڈوبی آواز اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’کیا ہوا علی،خیریت ہے ناں۔۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے دوپٹے سے اپنا منہ صاف کرتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔
’’یار، رامس نے بہت تنگ کررکھا ہے سخت ڈسٹرب ہے وہ ماہم کے حادثے سے،میرے اور ماما کے تو کسی صورت بھی قابو نہیں آر ہا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور بڑے عجلت بھرے انداز سے اُسے اپنی پریشانی بتا گئے۔
’’میں آتی ہوں ،آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔‘‘ اُس نے گاڑی کی چابی اٹھائی۔آدھے گھنٹے کے بعد وہ ڈاکٹر خاور علی کے گھر میں تھی۔
’’عائشہ ،رامس نے سخت پریشان کر رکھا ہے۔پہلے اپنے بابا کی ڈیتھ کے بعد بھی یہ ایسا ڈیپریس ہوا تھا ،اب کل سے پھر گم سم ہے،میری اور خاور کی تو بالکل بھی نہیں سن رہا۔‘‘ ماما اُسے دیکھتے ہی شروع ہو گئیں۔
’’آنٹی ،آپ پریشان نہ ہوں،میں بات کرتی ہوں اُس سے۔۔۔۔‘‘ وہ رامس کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ،جہاں پہلے سے بیٹھے ڈاکٹر خاور اُسے دیکھ کر فوراً کھڑے ہوئے۔
’’ٹمپریچر سے پورا جسم جل رہا ہے اس کا، مگر میڈیسن لینے پر آمادہ نہیں ہو رہا،اتنا بڑا ہو گیا ہے اور عادتیں بالکل بچوں جیسی ہیں اس کی۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے بھی شکایتوں کا رجسٹر کھول لیا
’’مجھے بہت بھوک لگی ہے،آپ ماما سے کہیں ،میرے لیے کھانا بجھوائیں۔۔۔۔‘‘اُس نے تھکے تھکے سے لہجے میں ڈاکٹر خاور سے کہا تو وہ ایک دم شرمندہ ہوگئے۔
’’آئی ایم سوری عائشہ،ہم لوگ واقعی تمہیں بہت تنگ کرتے ہیں۔۔۔‘‘ انہوں نے خفت زدہ انداز سے کہاتو عائشہ نے گھو ر کر دیکھا۔
’’یہ فارمل گفتگو بعد میں کر لیجئے گا،بلیو می،مجھے بہت بھوک لگی ہے،آپ نے ہوسپٹل جانا ہے تو بے شک چلے جائیں،میں رامس کے پاس ہوں۔‘‘ عائشہ نے ان کی آدھی سے زیادہ پریشانی کو کم کیا ۔وہ مشکور نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگے۔
’’کون سی میڈیسن ہے اس کی۔۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ نے سائیڈ میز سے چند ٹیبلٹس اٹھائیں اور رامس کی طرف بڑھی۔
’’ اک دفعہ میں نے تمہیں کہا تھا ناں کہ تم میرے لیے موحد کی طرح ہو۔۔۔‘‘وہ خفا خفا سے انداز سے بیٹھے رامس کی ٹھوڑی کو اپنی انگلی سے اونچا کر کے بولی۔وہ چونکا۔
’’اگر تم بھی مجھے موحد کی طرح اپنی بہن سمجھتے ہو تو مجھ سے بحث مت کرنا، یہ میڈیسن کھاؤ۔۔۔‘‘ اُس نے پانی کا گلاس اور چند ٹیبلٹس زبردستی رامس کے ہاتھ میں پکڑائیں۔وہ الجھن کا شکار ہوا۔
’’بس ،بس مزید ڈرامے بازی نہیں،ایک دو تین، فورا کھاؤ۔۔۔‘‘ عائشہ نے زبردستی گلاس اُس کے منہ سے لگایا اور وہ ایک لمحے میں منہ بناتا ہوا ساری دوائی نگل گیا۔ڈاکٹر خاور نے سکون کا سانس لیا اور کمرے سے نکل گئے۔
’’بائے گاڈ عائشہ میں ایسا بالکل نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔‘‘وہ تین گھنٹے کی کوشش کے بعد اتنا ہی بولا تھا۔اُس کے لہجے اور لفظوں میں دکھ اور شرمساری کی فراوانی تھی۔جبکہ چہرہ سرخ انگارہ ہو رہا تھا۔
’’مجھے معلوم ہے رامس ،تم ایسا بالکل بھی نہیں چاہتے تھے لیکن ہم چاہتے یا نہ چاہتے ،تقدیر اُس کی قسمت میں ایسا حادثہ لکھ چکی تھی۔‘‘عائشہ کی بات پر رامس نے نگاہ اٹھا کر دیکھا اُس کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔
’’مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔‘‘اُس کی آواز بھرا گئی۔
’’اگر تمہیں ایسا لگ رہا ہے تو بالکل غلط لگ رہا ہے۔ماہم کی زندگی میں یہ حادثہ اُس دن کی تاریخ میں ایسے ہی ہونا تھا۔‘‘ عائشہ نے تحمل بھرے لہجے میں جواب دیا۔
’’تم اگر کچھ ایسا سوچ رہے ہو تو بالکل غلط سوچ رہے ہو رامس۔۔۔۔‘‘ عائشہ نے اُس کے کمرے کی کھڑکی کے پٹ وا کیے ،ٹھنڈی ہوا کا ایک یخ جھونکا رامس کے چہرے سے ٹکرایا۔اُس نے جھر جھری سی لی۔
’’ہم لوگ اپنی زندگیوں کو ایسی سوچوں سے خوامخواہ مشکل بنا دیتے ہیں۔انسان تو ایک پتا بنانے پر قادر نہیں۔ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے پیچھے صرف اور صرف ایک ہی طاقت کارفرما ہے ۔پھر ہمارے چاہنے یا سوچنے سے اتنے بڑے حادثے کیسے ہو سکتے ہیں۔؟؟؟‘‘عائشہ کی بات پر رامس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔اُس کے چہرے پر بڑا واضح تغیر رونما ہوا ۔وہ اب آہستہ آہستہ پرسکون ہو رہا تھا۔
’’چلو اٹھو، نابیہ سے مل کر آتے ہیں،وہ ثنائیلہ بھابھی کے جانے سے کافی اداس ہے، پھر اچھا سا کھانا کھائیں گے۔‘‘ عائشہ نے بازو سے پکڑ کر اُسے اٹھایا۔وہ اب آرام سے بیٹھا اپنے جوگرز کے تسمے باندھ رہا تھا۔
*****************
نفسیاتی اور ذہنی امراض کے ہسپتال کے کمرہ نمبر چودہ سے آنے والی یہ چیخیں کسی کا بھی دل دہلانے کو کافی تھیں۔اس کمرے کی مریضہ کو زیادہ تر ادویات کے زیر اثر نیند میں ہی رکھا جاتا تھا،حادثے میں اپنی ٹانگیں کھونے کے بعد ماہم کی ذہنی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔اُس کا دماغ اس چیز کو قبول کر نے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔
’’ہم لوگ سوچ رہیں ہیں کہ ماہم کو علاج کے لیے باہر لے جائیں۔۔۔‘‘اُس دن ثمن آپی نے عائشہ کو بتایا۔وہ جو ماہم کی عیادت کے لیے بلاناغہ آرہی تھی۔ ان کی بات پر چونک گئی۔ماہم کے حادثے نے ثمن آپی کو بھی بہت تبدیل کر دیا تھا۔ان کے مزاج میں واضح طور پر انکساری ،عاجزی اور خوف خدا کے رنگ جھلکنے لگے تھے۔
’’انسان کتنا عجیب ہے ناں، نیکی کی طرف بھی کسی حادثے کی وجہ سے ہی مائل ہوتا ہے۔۔۔‘‘اُس دن ہسپتال سے نکلتے ہوئے عائشہ نے ڈاکٹر خاور سے کہا۔
’’اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے عائشہ کی طرف دیکھا۔
’’کیا ماہم کا قصور اتنا بڑا تھا کہ اُسے اتنی بڑی سزا ملی۔۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے ڈاکٹر خاور سے پوچھا۔
’’یہ تو اوپر والی ذات جانتی ہے ،اور ہمیں کیا پتا کہ یہ سزا ہے یا کوئی آزمائش۔۔۔؟؟؟‘‘ڈاکٹر خاور نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور مین روڈ پر لے آئے۔’’ہاں اس کی حد درجہ حسن پرستی اور اللہ کی مخلوق کا مذاق اڑانے والی عادت سے بعض دفعہ مجھے خوف آتا تھا کہ اللہ کہیں کسی لفظ پر پکڑ نہ لے اور اللہ کی پکڑ بہت شدید ہوتی ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے گاڑی کی رفتا ر تیز کرتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
’’اس چیز سے تو میں بھی اکثر اُسے منع کرتی تھی ،خیرچھوڑیں یہ بتائیں ،رامس کیسا ہے۔۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ کو اچانک خیال آیا۔
’’رامس ماشاء اللہ بہت بہتر ہے ،میں نے امّی سے کہا ہے کہ بس فورا ا س کی شادی کریں،نابیہ اچھی لڑکی ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے اُس کے گھر کی جانب اپنی گاڑی موڑتے ہوئے اُسے بتایا تو وہ مسکرا دی۔
’’پھر آنٹی نے کیا کہا۔۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ بڑے کی موجودگی میں چھوٹے بیٹے کی پہلے کیسے کر دوں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور تھوڑا سا شوخ ہوئے تو عائشہ کے دل کی دھڑکنیں بے ربط ہوئیں اور اُس نے نگاہیں جھکا لیں۔
’’میں نے کہا کہ میرے اکلوتے سالے صاحب کا ہنی مون ٹرپ لمبا ہی ہوتا جا رہا ہے اور ایک اکلوتی سالی کینیڈا میں ہے،یہ دنیا بھر میں پھیلے بہن بھائی اکھٹے ہونگے تو مجھ غریب کی سنی جائے گی۔‘‘ڈاکٹر خاور کی بات پر وہ کھلکھلا کر ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی۔
’’لیں جناب،آپ کی منزل آ گئی۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے اُس کے گھر کے گیٹ پر اپنی گاڑی روکی۔
’’اندر آئیں ناں ،آپ کو اچھی سی چائے پلاتے ہیں۔۔۔‘‘ عائشہ نے خوشدلی سے آفر کی۔
’’نہیں جناب ،پھر سہی ،میرے پیشنٹ ،میرا ویٹ کر رہے ہونگے۔۔۔۔‘‘ انہوں نے سلیقے سے منع کیا تو عائشہ بھی لاپرواہی سے کندھے اچکا کر رہ گئی۔اس بات کا تو اُسے بھی اچھی طرح علم تھا کہ ڈاکٹر خاور اپنے پروفیشن کے معاملے میں کتنے حساس ہیں اس لیے وہ کبھی بھی ان کی پیشہ وارانہ ذمے داریوں کی راہ کی رکاوٹ نہیں بنی۔
***************
’’سکینہ کے ابّا،یہ کاکے کو پکڑ، کیسے ٹیوب ویل کی طرف بھاگا جا رہا ہے۔۔۔‘‘اپنے پنڈ والے گھر کے صحن میں رکھی چارپائی پر بیٹھی جمیلہ مائی نے اللہ دتے کمہار کو ننھے فہد کی طرف متوجہ کیا۔خود وہ بڑی توجہ سے ساگ کاٹنے میں مصروف تھی۔
’’اوئے،ٹھہر جا، کیسے خرگوش کی طرح بھاگا جا رہا ہے۔۔۔۔‘‘اللہ دتے کمہار نے جاجی کے چھوٹے بیٹے کو پیار سے ڈانٹا اور اپنا حقہ چھوڑ کر اُس کے پیچھے بھاگا۔
’’دیکھ سکینہ کی ماں یہ کتنا شوخا ہے، قابو ہی نہیں آتا۔۔۔‘‘اللہ دتا کمہار پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ اُس ڈھائی سالہ بچے کو بمشکل پکڑ کر لایا تھا جو ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی میں نہانے کو مچل رہا تھا۔
’’امّاں، اس کو بھی سنبھال لے ،میں جلدی جلدی چولہے میں لکڑیاں جلا لوں،جاجی کے آنے کا ویلا ہو رہا ہے،ہانڈی ابھی پکی نئیں۔۔۔۔‘‘ جاجی کی بیوی نے چار سالہ سکینہ کو اپنی ساس کی گود میں زبردستی بیٹھایا۔
’’پتر، سکینہ کو تو بخار لگ رہا ہے۔۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے اپنی چار سالہ پوتی کا گرم ماتھا چھو کر فکرمندی سے کہا تو وہ لاپرواہی سے بولی۔
’’ہاں ناں امّاں،سارا دن تو کھیتوں میں ننگے پاؤں پھرتی ہے اتنی ٹھنڈ میں،تاپ نہیں چڑھے گا تو اور کیا ہوگا۔۔۔‘‘ جاجی کی بیوی نے اپنی ساس کو شکایت لگائی اور خود سوکھی لکڑیاں چولہے میں رکھ کر آگ جلانے لگی۔
’’پتر تو ہانڈی پکا،میں سکینہ کے دادے کے ساتھ جا کر حکیم سے دوائی لے آؤں،میری دھی رانی کا متھا، کسی تندور کی طرح تپ رہا ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے جھٹ سے اپنی چادر اٹھائی اور سکینہ کو اللہ دتے نے اٹھایا اور دونوں باہر نکل آئے۔
’’دیکھ بھلیے لوکے،اللہ سوہنے نے تیرا خوا ب سچاّ کر دیا،تو نے پنج(پانچ) سال پہلے خواب دیکھا تھا ناں کہ ہمارے پنڈ والے ویہڑے میں بچے ہیں پر سکینہ نئیں۔۔۔‘‘ پنڈ کی کچی گلیوں سے گذرتے ہوئے اللہ دتے کمہار کو پانچ سال پہلے کی بات یاد آئی۔
’’لیکن ہمارے ویہڑے میں تو ہماری سکینہ بھی ہے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے ہنس کر یاد دلایا تو اپنے کندھے پر چار سالہ سکینہ کو اٹھائے اللہ دتا اپنی بیوی کی معصوم سی شوخی پر ہنس دیا۔
’’اللہ ہمارے جاجی کو زندگی اور صحت دے، اُس نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔ہمارے لیے اپنی بے بے کے سامنے ڈٹ گیا۔جب سے سکینہ فوت ہوئی ہے اُس نے ایک دن بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا۔آخر کار اس کی محبت کے آگے اُس کی بے بے کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے۔۔۔‘‘اللہ دتا کمہار حکیم کی دکان کی طرف بڑھتے ہوئے بڑے فخر سے مسکرایا۔
’’یہ سب اللہ سوہنے کا کرم ہے،وہ اپنے بندے کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔‘‘جمیلہ مائی کا اللہ پر یقین اور بڑھ گیا تھا۔ جاجی نے اپنی بیٹی کا نام سکینہ کے نام پر رکھ کر انہیں اپنی محبت کا ہمیشہ کے لیے مقروض کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے اُس کی بیوی بھی اچھی تھی اور وہ دونوں میاں بیوی کی دل سے عزت کرتی تھی۔
’’ہاں بھلیے لوکے،مجھے یاد آیا،ڈاکٹر خاور کا فون آیا تھا ،اُس نے اپنی دھی کے نام پر جو معذور بچوں کا ادارہ بنایا ہے ،اس کی چوتھی سالگرہ ہے،ہمیں خصوصی طور پر بلوایا ہے،کہتا ہے کہ ایک اور وارڈ بنایا ہے ،اُس کا فیتہ ہم سے کٹوائے گا۔‘‘ اللہ دتے کی بات نے جمیلہ مائی کو حوشگوار حیرت میں مبتلا کیا۔اگلے دو دن وہ اسی بات کو سوچ کر مسکراتی رہی۔
***************
’’بہت تھک گیا ہوں یار،اچھی سی چائے تو بنوا کر بھیجو۔۔۔۔‘‘ اپنے اسٹڈی روم کی طرف جاتے ہوئے ڈاکٹر خاور نے عائشہ سے فرمائش کی تو وہ مسکرا دی۔
’’میں چائے بجھواتی ہوں،اس کے بعد مجھے امّی کی طرف جانا ہے ،موحد بھائی کے بیٹے کی سالگرہ ہے آج۔۔۔‘‘ عائشہ نے تیزی سے پرفیوم کا چھڑکاؤ اپنے اوپر کرتے ہوئے مصروف انداز سے کہا۔موحد اور ثنائیلہ اپنے بیٹے کے ساتھ بہت خوشگوار زندگی بسر کر رہے تھے۔
’’میری طرف سے بھی وش کر دینا اسے۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کے مصروف انداز پر وہ مسکرائی اور کمرے سے نکل گئی۔ ان دونوں کی شادی کو ساڑھے چار سال کا عرصہ ہوچکا تھا۔ساڑھے تین سالہ ابتہاج اور ایک سال کی انوشے نے ان کی فیملی کو مکمل کر دیا تھا وہ دونوں ایک بھرپور ازداوجی زندگی گذار رہے تھے۔رامس ،نابیہ سے شادی کے بعد دوبئی شفٹ ہو گیا تھا۔ماہم پچھلے پانچ سال سے مختلف ہسپتالوں میں تھی۔اُس کی ذہنی حالت بگڑ گئی تھی۔
’’آج پھر اکتیس دسمبر ہے۔۔۔۔‘‘ انہوں نے کیلنڈر پر اکتیس دسمبر کے گرد سرخ حاشیہ غور سے دیکھا ایک ایسا ہی حاشیہ ان کے دل کے گرد بھی لگا ہوا تھا۔وہ چائے کا کپ اٹھائے اسٹور روم میں چلے آئے جہاں واڈروب کے ایک خانے میں لوہے کی وہ ڈرمی آج بھی محفوظ تھی۔انہوں نے اسٹور کا دروزہ بند کیا اور واڈروب سے وہ گرد آلود چھوٹی سی ڈرمی باہر نکالی اُس پر لگے چھوٹے سے تالے کی چابی بھی انہوں نے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔عائشہ کی ایک اچھی عادت تھی کہ وہ خوامخواہ تجسس میں نہیں پڑتی تھی ۔اُس نے ایک آدھ دفعہ اُس کے بارے میں پوچھا لیکن ڈاکٹر خاور ٹال گئے اور اُس کے بعد اُس نے بھی کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔
انہوں نے ڈرمی کھولی اور اُس کے اندر موجود اشیاء کو بڑی عقیدت کے ساتھ باہر نکالنے لگے۔ یہ وہ ساری اشیاء تھیں جنہیں سکینہ اللہ دتا اپنی زندگی میں بہت سنبھال سنبھال کر رکھتی تھی۔ان اشیاء میں ڈاکٹر خاور کا ایک چشمہ، تین چار بال پوانٹس، ایک رومال، کی چین، اور کچھ خشک پھول تھے۔ ایک ڈائری جس میں ڈاکٹر خاور کی ایک پاسپورٹ سائز تصویر جو اللہ جانے اُس نے کہاں سے لی تھی ۔کچھ کتابیں جو ڈاکٹر خاور نے اُسے وقتا فوقتا گفٹ کی تھیں۔اس کے علاوہ اُس کی اپنی ایک خشک فئیر اینڈ لولی، سستی سی لپ اسٹک، کاجل ، چوڑیاں اور ہار سنگار کی چند معمولی سی اشیاء جو اس لڑکی کی زندگی میں ایک قیمتی متاع کی حیثیت رکھتی تھیں۔جن کو ہر سال اکتیس دسمبر کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر خاور کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا جاتیں۔وہ کئی گھنٹے اس اسٹور میں ان پرانی یادوں کا سوگ مناتے،اور پھر اگلے سال کے لیے اُسے سنبھال کر رکھ دیتے۔۔۔۔۔
ڈاکٹر خاور کی نگاہیں سکینہ کی ڈائری پر تحریر اُس نظم پر پھسلنے لگیں۔
محبت ایک دیمک ہے۔۔۔۔۔
جو کھا جاتی ہے سب کچھ یوں۔۔۔۔۔
کہ جیسے شب سیاہ ہو کوئی۔۔۔۔۔۔
گناہوں کو نگل جائے۔۔۔۔۔۔۔
یا جوں دنیا کے اندھے لوگ۔۔۔۔
دنیا کو ڈبوتے ہیں۔۔۔۔۔
محبت ایک دیمک ہے۔۔۔۔۔
یہ جس دل میں اتر جائے۔۔۔۔
اُسے تو خار دیتی ہے۔۔۔۔۔
کسی صحرا میں لے جا کر۔۔۔۔۔
پیا سا مار دیتی ہے۔۔۔۔۔
خبر ،اس کی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
کہ کب گھیر لے یہ کس کو۔۔۔۔
اسے نہ زندگی سمجھو۔۔۔۔۔
کہ سفر دشوار ہے اس کا۔۔۔۔
سراب زندگی سمجھو۔۔۔۔
محبت ایک ،دیمک ہے۔۔۔۔
مجھے بھی یہ لگی تھی جب۔۔۔۔۔
اُسے دل میں بسایا تھا۔۔۔۔
حیات جاوداں سمجھا۔۔۔۔۔
اُسے اپنا، بنایا تھا۔۔۔۔۔
کہ اب تو یوں یہ جیتی ہے۔۔۔
مجھے مردہ بنا کر بس۔۔۔۔
جگر کا خون پیتی ہے۔۔۔۔
جگر کا خون پیتی ہے۔۔۔۔
*****************
وہ فیصل مسجد سے جمعہ کی نما ز پڑھ کر با ہر نکلے تو مو سم نے اسی وقت انگڑائی لی اور ما رگلہ کی پہا ڑیو ں پر ایک سیا ہ بد لی نے بسیر ا کر رکھا تھا۔مو سم زبر دست تھااور اسی لمحے ٹھنڈی ہوا کا
نم آلو د جھونکااْن کے چہر ے سے ٹکرا یا لیکن دل میں اْداسی کا ڈیر ہ تھا اِس لیے کسی قسم کی خو شگوا ریت کا کو ئی احسا س نہیں جا گا تھا۔چہر ے پر رہنے والی د ھیمی مسکر ا ہٹ آ ج نا پید تھی۔شفا ف پیشا نی پر تفکرکی لہر یں ،آنکھو ں میں رنجیدگی او ر لبو ں پر خا مو شی کا را ج تھا۔چلتے ہو ئے اْن کے قد مو ں میں محسو س کی جا نے والی شکستگی کا احسا س نما یا ں تھا۔وہ نڈھا ل قد موں سے پا ر کنگ کی طر ف جا رہے تھے۔را ستے میں خو ش با ش لو گوں کے بے فکر ی کی دو لت سے ما لا مال چہرے اْن کے لیے با عث رشک تھے۔
’’ا نہو ں نے اپنی سیا ہ ہنڈا سو ک کا دروا زہ ابھی کھو لا ہی تھا کہ اچا نک ایک بو ڑھی عو رت نے اپنا ہا تھ اْن کے آگے پھیلا یا۔انہو ں نے بو سید ہ خا کی سے رنگ کی چا درمیں اْس بو ڑ ھی
بھکا رن کو دیکھا۔آج جمعے کی و جہ سے فیصل مسجد کے با ہر فقیر وں کی تعد اد میں خا صا اضا فہ تھا۔اْن کے سا منے کھڑ ی خا تو ن کی رنگت سیا ہی ما ئل،جسم میں کمر کے مقا م پر اچھا خا صا خم اورآنکھو ں کے نیچے حلقے تھے۔ اْ س کے چہر ے کی جھرّ یو ں میں زما نے کی سختی کے نقش ثبت تھے۔
’’بیٹا، اللہ سا ئیں دل کا سکو ن دے ،اْس کے صد قے اِس بڑھیا کی کچھ مد د کر تا جا۔‘‘ اْس کی آواز میں صد یو ں کا دْکھ ٹھا ٹھیں ما ر رہا تھا۔
اِس دعاپر اْن کے دل کو جھٹکا لگا۔وہ ایک دم سا کت رہ گئے۔بد ن کے ہر مسا م سے گو یا پسینہ پھو ٹ پڑا تھا۔ایسے لگا جیسے اْن کا دل کسی نے مٹھی میں پکڑ کر بھینچ دیا ہو۔یا پھر کو ئی ٹرین تیز
رفتا ری سے اْن کے وجو د سے گذر کر اْن کے پر خچے اْڑا گئی ہو۔اْن کے تنفسّ کی رفتا ریکبا رگی بڑ ھ گئی تھی۔غیر ارا دی طو ر پر انہو ں نے اپنا وا لٹ نکا لا اور بغیر دیکھے ایک نیلا نوٹ با ہر کھینچا اور اْس بھکا رن کی طر ف بڑھا دیا۔لیکن اْس نے لینے کے لیے ہا تھ نہیں بڑھا یاتھا۔اْس کے چہر ے پر تذبذب کے آثا ر تھے۔
’’صا حب !کھلے پیسے نہیں ہیں میر ے پا س۔۔۔۔۔‘‘انہو ں نے قد رے الجھ کر اْسے دیکھاجو سا نس رو کے ہزار کے نو ٹ کو دیکھ رہی تھی۔انہو ں نے پھیکی مسکر اہٹ کے ساتھ کہا۔
’’دل کا سکو ن اتنی آسا نی سے اور اتنا سستا تو نہیں ملتا۔‘‘
اتنی با ت کہ کر اْنہو ں نے پیسے اْسے پکڑا ئے اور فو راََ گا ڑی میں بیٹھ گئے۔اس وقت ان کے چہر ے پر پھیلی تا ریکی صا ف دکھا ئی دے رہی تھی جبکہ اس عو رت کو لگتا تھا کسی غیر مر ئی طا قت نے جکڑ لیا تھا۔اْن کی گا ڑی اب بڑ ی سر عت سے اسلا م آبا د کی سڑ کو ں پر دوڑ رہی تھی۔ کچھ ہی منٹو ں کے بعد وہ اسلا م آبا د کے سیکٹر ایچ ایٹ کی طر ف گا مز ن تھے۔ان کی گا ڑی کی پچھلی نشست پر سفید رنگ کے شا پر میں ڈھیر سا ر ی گلا ب کی پتیا ں تھیں۔ جن کی خو شبو پو ری گا ڑی میں پھیلی ہو ئی تھی۔
’’اْن کی گا ڑی ایچ ایٹ سیکٹر کے قبر ستا ن کے سا منے آ کر رْک گئی تھی۔یہ وہ شہر خمو شا ں تھا جہا ں ادب کے کئی نا مو ر ستا رے مثلاََ قدرت اللہ شہا ب، ممتا ز مفتی اور پر وین شا کر و غیرہ مٹی
اوڑ ھ کر سو ئے ہو ئے تھے یہ وہ نا م تھے جن کی تحر یر و ں میں کبھی زند گی کا دل دھڑکتا تھا۔اب وہ صر ف لفظو ں میں زند ہ تھے۔اِن سب خا ص لو گو ں کے پا س ایک سفید ما ربل کی ایک عا م سی قبر تھی۔ جس میں کسی زند ہ شخص کا سا را سکو ن دفن تھا۔
اْس قبر پر کیکر کے درخت کی چھا ؤ ں تھی اور کیکر کے پتیّ پو ری قبر پر پھیلے ہو ئے تھے۔انہو ں نے سب سے پہلے ہمیشہ کی طر ح فا تحہ پڑھی اور پھر سا ری پتیا ں وہا ں بکھیر دیں ۔پو ری قبر اب گلا ب کی پتیو ں کالبا د ہ اوڑھ چکی تھی۔وہ اب اطمینا ن سے بیٹھ کر سو رہ یسین اپنی جیب سے نکا ل کر پڑھ رہے تھے۔اس وقت قبر ستا ن میں اکا دْکا لو گ تھے۔جیسے جیسے وہ تلا وت کر ر ہے تھے اْن کے پو رے دل میں سکون کی لہر یں اپنی جگہ بنا رہی تھیں۔وہ پچھلے چھ سال سے سکینہ کی برسی پر یہاں آتے تھے،لیکن ان کی شریک حیات اس بات سے بے خبر تھیں ۔’’سکینہ ٹرسٹ‘‘کو سسٹر ماریہ بہت کامیابی سے چلا رہی تھیں۔ جمیلہ مائی کے علاوہ وہ واحد خاتون تھیں جو جانتی تھیں کہ اس ٹرسٹ کو بنانے کے پیچھے کون سا جذبہ کارفرما ہے۔ڈاکٹر خاور چاہنے کے باوجود کبھی بھی عائشہ کے ساتھ یہ راز شئیر نہیں کر سکے اور ویسے بھی وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ بعض باتیں دل کے نہاں خانوں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔
فا ر غ ہو کر وہ گا ڑی میں بیٹھے تو ان کی نظر سا منے ڈیش بو رڈ پر پڑ ے سیل فو ن پر پڑی،انہو ں نے فو ن اٹھا کر دیکھا اْس پر پو ری بیس مسڈ کا لز تھیں۔اور وہ دیکھے بغیر جا نتے تھے کہ یہ کا لز بس ایک ہی نمبر سے آ ئی ہونگی۔اور اْس نمبر سے وہ بخو بی و ا قف تھے۔جی ہاں یہ نمبر ان کی شریک حیات عائشہ خاور کا تھا جس نے انہیں گذشتہ ساڑھے پانچ سالوں میں ازدواجی زندگی کی ڈھیروں خوشیاں دیں لیکن ان تمام خوشیوں کے باوجود ڈاکٹر خاور کے دل کا ایک کونہ ہمیشہ اُداس ہی رہا۔وہاں کسی کی یاد کا جلتا چراغ ایک کسک کا باعث بنتا رہا ۔ وہاں ایک ایسی لڑکی کی یادیں دفن تھی جسے زمانے کی تلخ اور بے رحم حقیقتوں کی دیمک کھا گئی تھی۔
جی ہاں۔۔۔!!!! مشہور و معروف ،پرکشش شخصیت کے حامل ڈاکٹر خاور علی جن کی فہم و فراست اور قابلیت ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر تھی ۔انہیں کبڑے پن کی بیماری کا شکار سکینہ اللہ دتا سے اُس کی موت کے بعد محبت ہوگئی تھی۔
******* ختم شد********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...