ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو
کبھی تو رنگ میرے ہاتھوں کا حنائی ہو!
کوئی تو ہو جو میرے تن کو روشنی بھیجے
کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو!
’’کیاواقعی جو میں چاہتی ہوں وہی ہو گا ؟آپ واقعی مجھے اپنا نام دیں گے ؟‘‘وہ بے یقینی سے نوید صبح محسوس کرنے لگی ۔
’’تم نے مجھے سڑک چھاپ سمجھ لیا تھا ؟میں لوفر ہوں ؟ تمہارے پیچھے یونہی آ رہا ہوں؟ تمہاری زندگی برباد کر دوں گا اور تمہیں چھوڑ دوںگا؟ اگر میں نے یہ ہی کرنا ہوتا تو سکول ختم ہونے کے بعد بھی تم سے کیوں چپکا رہتا۔تم نے مجھے کوئی رسپانس نہیں دیا پھر بھی میں تمہارے پیچھے ہی آتا رہا۔میں نے اگر فلرٹ کرنا ہوتا تو جو پکے ہوئے پھلوں کی طرح جھولی میں گر رہی تھیں ان سے ہی کرتا۔ تمہاری ہزار دفعہ کی بے رخی جھیلنے کے بعد بھی تمہارے در پہ کشکول پھیلائے کیوں کھڑا ہوتا ؟کسی سڑک چھاپ عاشق میں اتنے گٹس نہیں ہوتے کہ وہ اپنے قیمتی سال یوں ضائع کر دے جس طرح میں کررہاہوں۔ میری شکل پر مر مٹنے والی ہزاروں لڑکیاں ہیں جو میرے ساتھ چلنا چاہتی ہیں ان میں سے کئی کو میرے گھر کی چمک دمک بھی متاثر کرتی ہے مگر مجھے تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی ایک بھی لڑکی’ لڑکی‘ نہیں لگتی ۔میں تمہیں تمہارے لیے نہیں اپنا رہا، اپنے لیے اپنا رہا ہوں۔ اللہ نے اگر جوڑوں کی شکل میں ہمیں آسمان سے زمین پر اتارا ہے تو میرا جوڑا تمہارے علاوہ کسی کے ساتھ جڑ ہی نہیں سکتا ۔‘‘گزرے مہینوں کا غبار ا سکے لہجے کی آنچ میں جھلسنے لگا ۔نجانے کتنی راتیں اس ماہ جبین کو سوچتے گزاری تھی ۔اب بھی نہ کہتا تو ضبط کی انتہا اپنے اندر ہی پارکر دیتا ۔
پاکیزہ نے کھڑکی کے پاس جا کر کھڑکی کھول دی ۔ٹھنڈی ہوا نے اس کے گالوں پر نرمی سے گدگدی کی اور وہ خوشی سے جامد ہوتے دماغ کو بڑی مشکل سے مرتکز کر کے دوبارہ گویا ہوئی ۔
’’آپ کیا واقعی مجھے اپنا نام دیں گے ؟‘‘سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’ہاں نام تو تمہیں اپنا ہر صورت دینا ہے لیکن اس سے پہلے ہمیں سب چیزیں کلئیر کر لینی چاہیے۔ میں کسی قسم کا شک یا گنجائش نہیں چھوڑنا چاہتا۔ مجھے میرے ایک سوال اک جواب دو ؟‘‘
’’ہاں جی پوچھیں۔ ‘‘ خوشی کے مارے پاکیزہ کے قدم زمین پر نہیںٹک رہے تھے ۔عجیب سی بے چینی نے اس کے دل میں اتھل پتھل مچا رکھی تھی ۔ چاند نیج ھک کر دیکھا ،زمین پر کوئی چہرہ چاند سے بھی زیادہ روشن تھا !
’’تمہیں اللہ کی فکر زیادہ ہے یا دنیا کی ؟‘‘ اس کے سوال میں تجسس ٹھاٹھیں مار رہا تھا ۔
’’اچھا سوال ہے آفتاب میں بھی عام سی لڑکی ہوتی تو شاید مجھے فرق نہیں پڑتا۔ کبھی نماز پڑھتی کبھی چھوڑ دیتی تو میرے دل سے یوں آوازیں نہ آتی ۔مسئلہ یہ ہے کہ میرے اللہ جی نے مجھے عام سی لڑکی رہنے ہی نہیں دیا۔ میرے اللہ جی نے مجھے عام سی لڑکی بنایا ہی نہیں ! اللہ جی نے اگر مجھے یتیم بنایا، حساس پیدا کیا تو ساتھ اعتماد اور صلاحیتیں بھی عطاکیں۔ مجھے ہمیشہ میری اوقات سے بڑھ کر نوازا۔ مجھے نماز کے لیے چن کر رکھا ۔ مجھے اپنے آپ سے جوڑ کر رکھا۔ میں کیسے اس اللہ جی کو چھوڑ کرکسی اور طرف متوجہ ہو جاوْں ؟ میں جب جب اللہ جی کو صدا دیتی ہوں وہ میری پکار سنتے ہیں ۔ابھی بھی تو دیکھیں میں دل ہی دل میں آپ کے نہ ہونے کا رونا رو رہی تھی۔ اللہ جی نے مجھے آسانی دکھا دی۔ ‘‘چاند سے روشن لڑکی کو سارا آسمان روشن لگ رہا تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ روشنی نے قوسِ قزح کے سارے رنگ اوڑھ لیے ہیں اور اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے رنگین کر دیا ہے ۔
محبت کا اظہار لڑکی کو کبھی متاثر نہیں کرتا،وہ محبت کا سہارا لے کر جتنی مرضی سیڑھیاں چڑھے۔ اس کے نصیب میں تھکاوٹ لکھ دی جاتی ہے ۔یہ جو کسی لڑکے کی طرف سے شادی کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے، وہ متاثر کرتا ہے۔وہ تھکاوٹ کو آرام میں بدلتا ہے۔ ا سکے بعد کسی سہارے کی ضرورت نہیںپڑتی ۔۔۔دنیا روشن لگنے لگتی ہے ۔
وہ بھی اس وقت اوپر سے اوپر سفر کر رہی تھی ۔ اس کی ساری باتیں سن کر وہ کسی ٹرانس میں بندھتا گیا ۔ اسے ایسی ہی لڑکی چاہیے تھی جو غلط کرتی تو اس کے اندر سے آوازیں آتی۔ اس نے گھر میں عام سی لڑکیاں دیکھی تھیں ۔ اپنی بھابھیاں بغور دیکھی تھیں جن کے لیے انسان صرف وہ خود تھیں اور باقی سب قابل تحقیر۔۔۔ وہ ان قابل تحقیر کیڑے مکوڑوں کی صف سے اپنی ماں کو نکالنا چاہتا تھا ۔ اس سمے اسے یقین ہوا کہ یہ بالکل درست انتخاب ثابت ہونے والا ہے ۔
پاکیزہ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تمہارا ہاتھ تھام کر زندگی کو سکون سے گزار سکوں ۔ تمہارے خواب دیکھ کر اس زندگی کے بعد کی زندگی کو روشن کر سکوں۔ فجر کے لیے تمہارے اٹھانے پر اٹھوں اور عشاء ہم ساتھ پڑھ کر سوئیں ۔ یہ زندگی کیا زندگی ہے ۔۔۔ا س میں کیا رکھا ہے؟ میں تم سے ا س رنگا رنگ زندگی کی کوئی بات نہیں کرتا ۔میں صرف ہمیشہ سے ہمیشہ تک کے لیے تمہارا ساتھ چاہتا ہوں ۔میں تمہیں لندن ،تھائی لینڈ گھمانے لے جانے کا وعدہ نہیں کرتا۔ میں تم سے تمہارے محرم کی حیثیت سے تمہارے ساتھ حج کرنے کی اجازت مانگنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا نکاح ہو جائے۔‘‘ گھمبیر لہجے میں سیدھے سبھاوْبولتا وہ پاکیزہ کے دل میں اتر گیا ۔
پاکیزہ کے کانوں کی لوئیں سرخ ہو چکی تھیں ۔سر دوپٹے کی قید سے آزاد تھا اور بالوں کی آوارہ لٹیں فضا میں رچی موسیقی کے ساتھ تھرک رہی تھیں ۔وہ رب کی مہربانی پر حیران تھی۔ وہ اس طلسم ہوش ربا کا مرکزی کردارنبھانے پر پریشان تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کس سلطنت کا شہزادہ ہے۔ ایک عام سی لڑکی سے عام ہونے کی آخری زنگ آلود سوئی کو الگ کرنے آیا ہے۔اسے فرینڈ اور گرل فرینڈ کی کیٹگری سے نکال کر وہ بیوی بنانے کی بات کر رہا تھا۔
اگر آفتاب سامنے ہوتا تو شاید وہ اس کے چوڑے شانے میں سمٹنے کی کوشش کرتی۔ اپنی سوچ کی بلوغت پر وہ حیا سے گلنار ہو گئی اور دل ناداں کو سختی سے ڈپٹا۔
’’میں بھی آپ سے نکاح ہی کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘نچلے لب کا کونادانتوں تلے داب کر بڑی ہی مشکل سے بولی۔خاموشی نے بولنا فرض کر دیا تھا۔
’’پاکیزہ اب میری بات غور سے سنو ۔‘‘ وہ الرٹ ہوا تھا۔
’’ایک منٹ ۔۔۔ایک منٹ ۔۔۔پہلے یہ بتائیں کے آپ گھر والوں کو کب بھیجیں گے ؟‘‘ تیز ہوا سے پاکیزہ کا دوپٹہ کھڑکی کی سلاخوں میںاٹکا تھا تو اسے جاگ آئی تھی ۔
’’ہاں وہی بتا رہا ہوں بابامیں نے امی سے ساری بات کر لی ہیں ۔وہ راضی ہیں ۔ان کے خیال میں اس گھر کوفورا ایسی لڑکی کی ضرورت ہے جو خود کو اس گھر کی مالکن نہ سمجھے بلکہ بیٹی سمجھے ۔‘‘
پاکیزہ کا دل اتنی اچھی خبر سن کر دھڑکنا بھول گیا تھا ۔کیا دنیا اتنی اچھی ہوتی ہے ؟ دنیا کا اچھا ہونا منظر نامے کو اتنی جلدی اتنا اچھا کر دیتا ہے ؟ وہ حیران ہو رہی تھی اس دن پھوپھو نے مجھ پر کیسے کیسے الزام لگائے ۔ جب ان کو پتا چلے گا تو ان کا ری ایکشن کیسا ہو گا ؟ وہ سوچ سوچ کر محظوظ ہو رہی تھی ۔ آفتاب اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا ۔
’’لیکن امی نے کہا ہے رشتہ ابھی نہیں لے جا سکتے۔ ابھی بڑی بھابھی نے گھر میں گھڑاک ڈالا ہوا ہے ۔ امی نے مجھے یقین دلوایا ہوا ہے کہ جہاں چاہوں گا شادی وہی ہو گی ۔‘‘
’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی آفتاب۔۔۔ پھر ابھی بات کرنے کا کیا مقصد ہے ؟ میں کیسے یقین کر لوں کہ آپ کی امی نے یہی کہا ہے ۔ ‘‘ دوپٹہ ابھی تک کھڑکی میں الجھا ہوا تھا ۔ وہ موبائل کو کندھے کے ذریعے سہارا دے کر دوپٹہ چھڑوانے میں جت گئی ۔اسے آفتاب کی اس بات سے الجھن دوپٹہ اٹکنے سے کہیں ذیادہ ہورہی تھی ۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے میری امی ایسے ہی مان گئی ہوں گی ؟ تم نے اتنا آسان سمجھ رکھا ہے ان کا مان جانا ؟ وہ آفتاب نور کی ماں ہیں جس طرح آفتاب نور کو کوئی عام سی چیز نہیں بھاتی ۔ اس طرح ان کو بھی محبت کے زبانی دعوے متاثر نہیں کرتے ۔ انہوں نے میری بات تو مان لی ہے لیکن ساتھ ایک شرط بھی رکھی ہے ۔‘‘
’’کیسی شرط ؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دسترس سے اپنی ،باہر ہو گئے
جب سے ہم ان کو میسر ہو گئے
ہم جو کہلائے طلوعِ ماہتاب
ڈوبتے سورج کا منظر ہو گئے
شہرِخوباں کا یہی دستور ہے
مڑ کے دیکھا اور پتھر ہوگئے
وہ بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی۔ اس کے جسم پر دوپٹہ موجود تھا لیکن وہ اپنا مقصد پورا کرنے میں قطعا کامیاب نہیں تھا ۔ٹخنوں سے خون رس رہا تھا ۔ ابھی تک زخم ہرے تھے ۔آنکھ کی پتلیاں ساکت ہوئیں شاید زخموں کی شدت کا ہی اندازہ لگا رہی تھی ۔
ہاتھ بے جان تھے یوں جیسے مر گئی ہو ۔
وہ سانس لیناچاہتی تھی لیکن اسے سانس نہیں آ رہی تھی۔
اس کا دم گھٹ رہا تھا ۔سیلن زدہ کمرے کی بو لگتا تھا ۔۔۔شریانوں میں گھس گئی ہے ۔
اس نے کچھ سوچنے کی خواہش کی لیکن سوچ نہ سکی۔
اس کا دل چاہا کہ اپنے اوپر گزرنے والی قیامت پر ایک آنسوہی بہا لے لیکن اسکی پلکیں خشک رہی ۔
’’آپا کچھ تو بولو ؟‘‘ چھوٹا اس کی ہتھیلی کو سہلا رہا تھا۔
’’آپا تم نے تو وکیل بننا ہے اور وکیل تو بہت بولتے ہیں ۔تم ایسے چپ نہیں کر سکتی۔‘‘چھوٹے سے آپا کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ آنسو ٹوٹ کر بے جان ہتھیلیوں پر گرے ۔وہ ذرا سا کسمسائی۔
’’تم ادھر نہ جانا، ادھر وہ رہتے ہیں۔ ‘‘ وہ بولی بھی تو کیابولی۔
’’آپا میں نہیں جاوْں گا۔ آپ فکر نہ کریں۔‘‘چھوٹا خود آپا کی باتوں سے ہراساں ہوا ۔
’’وہ مجھے سکول نہیں جانے دیتے، میرا راستہ روک لیتے ہیں جیسے ہی میں سکول کی گلی کی طرف قدم بڑھاتی ہوں۔ وہ مجھے نظر آنے لگتے ہیں۔ میرے قدم آگے نہیں بڑھنے دیتے ۔یہ دیکھو انہوں نے میرے سارے پیر ہی زخمی کر دئیے ۔‘‘ اب آپا بول رہی تھی۔ زخم ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے تھے ۔
چھوٹے نے ایک نظر ان کے زخموں پر ڈالی اور دوسری نظر زنگ آلودپنکھے کی طرف جس کے چلنے سے کمرے میںبین کی سی آوازیں آ رہی تھی۔ ایک ماتم تھا جو ڈر کی وجہ سے جاری تھا ۔ڈر نے چھوٹے کی ریڑھ کی ہڈی شل کر دی ۔
’’آپا اب وہ نہیں آئیں گے ۔‘‘ چھوٹے نے مری ہوئی آواز میں تسلی دی۔
’’وہ آئیں گے۔ اب وہ ہر وقت آئیں گے۔ دیکھ دیکھ وہ ابھی بھی آ رہے ہیں ۔وہ حاضر ہونے والے ہیں ۔وہ مجھے نوچ کھائیں گے ۔‘‘ آپا جنونی ہو گئی تھی۔ اکڑوں بیٹھ کر اپنے دائیں ہاتھ کے ناخن سے بائیں ہاتھ کی پشت پر خراشیں ڈالنے لگی۔
’’آپا نہ کرو نا۔ آپا نہ کرو۔‘‘ وہ آپا کے ہاتھوں کو تھامنے کی نا کام سعی کرنے لگا ۔
اب وہ رو رہا تھا آواز کے ساتھ رو رہا تھا لیکن آپا کا بین جاری تھا۔ وہ مسلسل اپنے ہاتھوں کو نوچ رہی تھی۔ اب اس کے ہاتھوں کی پشت سے خون نکلنے لگ گیا ۔
دو دن سے یہ دکھ اس چھوٹے سے گھر میں ایک مستقل کرب کی شکل اختیار کر چکا تھا ۔ چھوٹے کی بے بسی اور کوشش عروج پر تھی۔ آنسو بھی رواں تھے۔ آپا اب ہاتھ سے نکلنے والی تھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے آپا کے ہاتھ پاوْں مڑ گئے تھے اور وہ سیدھی بستر پر چت گر گئی۔ آنکھیں کھلی ہوئی ساکت تھی اور ہاتھ پاوْں مڑے ہوئے تھے ۔تکیے نے ڈھلکے ہوئے سر کو سہارا دے رکھا تھا تب ہی اس میں ایک نمکین قطرہ آ کر جذب ہوا۔
چھوٹے نے بے بسی سے دروازے کی طرف دیکھا ۔ماں ابھی تک نہیں آئی تھی ۔وہ سولہ سالہ آپا کے سکول میں بیماری کی درخواست جمع کروانے گئی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند اُتر آیا ہے گہرے پانی میں
ذہن کے آئینے میں جیسے عکس ترا
کیسے ان لمحوں میں ترے پاس آؤں
ساگر گہرا،رات اندھیری،میں تنہا
’’وہ چاہتی ہیں کہ میں کوئی کاروبار کر کے فورا اپنے پیروں پر کھڑاہو جاوْں۔ اس کاروبار کے لیے وہ مجھے چالیس ہزار ایڈوانس رقم بھی دے چکی ہیں ۔انہوں نے مجھے فی الفور موبائل شاپ کھولنے کا کہا ہے۔مزے کی بات انہیں مرغبانی پر بھی اعتراض نہیں ۔‘‘
’’سیریسلی آفتاب۔۔۔؟ آپ مرغبانی کریں گے یا دکان پر بیٹھیں گے ؟‘‘
’’تمہارے لیے تو میں گٹر بھی صاف کر سکتا ہوں ۔ گلا چاک کر کے گلیوں کی خاک بھی اپنے سر میں ڈال سکتا ہوں۔ دکان پر بیٹھنا تو بہت عزت دار کام ہے۔ اپنے ہاتھ کی کمائی میں برائی کیسی ؟ محنت میں کیا شرم کرنا؟‘‘
آفتاب کے کہنے پر پاکیزہ خاصی شرمندہ ہو گئی ۔وہ شاید نام کی ہی اچھی تھی۔ اس سے کہیں اچھی سوچ تو آفتاب کی تھی۔ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھانا چاہتا تھا ۔ اس میں برائی ہی کیا تھی ؟
ہم اپنے ملک میں ریڑھی لگانے دکان پر بیٹھنے کو برا سمجھتے ہیں لیکن باہر کے ملکوں میں گٹر صاف کرتے ہوئے دانت نکوستے ہیں ۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن نکاح کی بات تو وہیں رہ گئی۔ ‘‘ اس نے جو خواب دیکھے تھے لگتا تھا ان کی مدت پوری ہو چکی ہے ۔سو دفعہ امید جڑ رہی تھی اور سو دفعہ ٹوٹ رہی تھی۔ہر دفعہ امید کے ساتھ دل بھی کچھ ٹوٹ سا جاتا۔
’’تمہیں لگتا ہے میں نکاح کی بات رہنے دوں گا؟ میں نکاح کی بات کوجانے دوں گا ؟تم ابھی تک بے یقینی کے سمندر میںغوطہ زن ہو۔ جس طرح پرانے زمانے میں لوگ رسول کو رسول اور نبی کو نبی نہیں مانتے تھے ، تمہارے اندر سے بھی میرے متعلق شک کا کیڑا نہیں نکل رہا ۔ ایک دفعہ آنکھیں بند کر کے میرا یقین کرو۔ میں تمہاری آنکھوں کے سامنے کا منظر بدل دوں گا ، آنسو چرا کر مسکراہٹ لا دوں گا ، تمہاری آنکھوں میں خوابوںکی اتنی تتلیاںبھر دوں گا کہ زندگی چمن زار لگنے لگے گی۔‘‘
’’بس بس اتنی گاڑھی اردو۔۔۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ ‘‘پاکیزہ کی ہنسی میں سراہے جانے کی کھنک تھی ۔آفتاب جو باتیں کر رہا تھا وہ واقعی سننا چاہتی تھی اور ساری زندگی ہنستے رہنا چاہتی تھی لیکن پہلے اسے جواز چاہیے تھا۔ حجاب بے حجاب چاہیے تھا ۔ اتنے ماہ خود پر قید اس لئے نہیں
لگائی تھی کہ وہ آئے، لفظوں کی مالا پہنائے اور یہ لبیک کہتی ہوئی اس کے پیچھے چل پڑے ۔
’’یار تمہارے فراق میں اردو فارسی سب رٹ لی ہے۔ اتنے ماہ کا جو غبار اکٹھا ہوا ہے ۔اسے آج کی رات ہی نکل جانے دو ۔ ایسا کرو ابھی مجھ سے نکاح کر لو۔ ‘‘ وہ یوں بولا جیسے اتنا ہی آسان تھا نکاح کرنا ۔
پاکیزہ نے گڑبڑا کر کھڑکی کی جانب دیکھا۔رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے ۔گرمیوں کی بارش بھی ہواوْں میں خنکی بڑھا دیتی ہے ۔پاکیزہ کو صحیح معنوں میں احساس ہو رہا تھا جون کی رات اس کے لئیے یخ بستہ ثابت ہو رہی تھی ۔اسے اندر باہر سے ٹھنڈا کر رہی تھی۔
’’اس وقت ؟ وہ کیسے ؟ پاگل تو نہیں ہو گئے آپ ؟‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں میں نے شادی تم سے ہی کرنی ہے یہ تو طے ہے۔ ابھی اپنے رشتے کو جائز بنانے کے لیے ہم کم از کم نکاح تو کر ہی سکتے ہیں ۔‘‘
’’لیکن ابھی نکاح کیسے ممکن ہے ؟‘‘
’’نکاح کیا ہوتا ہے تمہارے خیال میں ؟‘‘ وہ اس سے ایسے پوچھ رہا تھا جیسے نکاح کوئی نئی دریافت ہو ۔
’’جب دو لوگ اپنے بڑوں کی موجودگی میں ایک دوسرے کو اپنے بڑوں کی رضا سے قبول کر لیتے ہیں تو وہ نکاح کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں ۔‘‘ اس نے اپنے خیال کو الفاظ کا پیرہن پہنایا۔
’’تمہارا بڑا کون ہے ؟‘‘ وہ جوابا سوال پوچھ رہا تھا
’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی آپ بات کو کہاں سے کہاں لے کر جا رہے ہیں؟‘‘
افوہ پاکیزہ اگر تم باتیں کرتی رہو گی اپنے سوالات جاری رکھو گی تو میں کبھی اپنی بات سمجھا نہیں سکوں گا ۔تم فی الوقت صرف میرے سوالوں کا جواب دو۔ جوسوال تمہارے دماغ میں کلبلا رہے ہیں ان کا جواب تمہارے میرے سوالات کے جوابات میں پوشیدہ ہیں۔‘‘
’’ایک منٹ آفتاب پہلے ایک وعدہ کریں آپ نے پہلے مجھ سے جتنے بھی وعدے کیے ہیں آپ ان پر پورا اتریں گے ،مجھے واقعی اپنائیں گے ۔‘‘
’’اگر تم مجھے بولنے دو تو میں تمہیں ابھی پنا لوں گا۔ ‘‘وہ دوبدو گویا ہوا۔
’’اور اس اپنانے میں کوئی کھوٹ ہوئی تو ؟‘‘شک نے پھر سر اٹھایا۔
’’تو میں اپنی ماں کا مرا ہوا منہ دیکھوں ۔‘‘وہ ایک لمحے کے وقفے کے بغیر بولا۔
’’آفتاب ! کیسی فضول بات کر رہے ہیں؟‘‘وہ ہل کر رہ گئی۔
’’اب تمہیں میرے خیال سے یقین آ گیا ہے۔ اگر آ گیا ہے تو بات آگے بڑھائیں۔ ‘‘
’’پہلے آپ وعدہ کریں کہ آپ ایسی بات دوبارہ نہیں کریں گے،‘‘
’’ارے بابا میں خود کون سا کرنا چاہتا ہوں ایسی بات ؟ میری زندگی میں امی ابو اور تمہارے علاوہ ہے ہی کون؟ لیکن تمہاری بے اختیاری کو قرار دینا بھی تو ضروری ہے ورنہ بات آگے کیسے بڑھے گی ۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ یہ بات نہیں دہراوْں گا ۔ اب بتاوْ تمہارا بڑا کون ہے ؟‘‘
’’میری بڑی تسکین پھوپھو ‘‘
’’ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین ہے
یا کچے رنگوں کی ساری پہنے
گھنے درختون کے نیچے کوئی شریر لڑکی
شریر تر پانیوں سے اپنا بدن چرائے۔۔چرا نہ پائے!
’’کس چیز کی درخواست ہے یہ ؟‘‘ کرسی پر بیٹھی ہوئی میڈم نے اٹھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے آنکھ اٹھا کر ہاتھ میں تھامے کاغذ کو دیکھے بغیر پوچھا۔
’’میری بچی بیمار ہے ۔براہ مہربانی اسے دس دن کی چھٹی دے دیں ۔‘‘
’’کیا بیماری ہے اسے ؟ میڈیکل ساتھ لگائیں۔ساتھ تو کوئی پرچی بھی نہیں لگی‘‘۔
’’وہ جی ۔۔ میری بیٹی کو جن پڑتے ہیں‘‘۔
عینک اب آنکھوں سے اتر چکی تھی۔ میڈم حیرت سے منہ کھولے اکیسویں صدی کی معصوم ماں کو دیکھ رہی تھی۔
’’آپ کو کیسے پتا کہ آپ کی بیٹی کو جن پڑتے ہیں ؟‘‘
’’میں ایک سیانے بابا جی کے پاس لے کر گئی تھی ۔ انہوں نے بتایا جن نے خود بتایا ہے کہ شاہ نور نے اس پر تھوکا ہے اس لیے وہ پیچھے پڑا ہے ۔‘‘ ضعیف الاعتقادی کی آخری حد کوئی تھی تو یہی تھی۔
’’اور شاہ نور نے جن پر کہاں تھوکا؟ ‘‘ بڑی میڈم کی حیرت ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔
’’یہیں آپ کے سکول کی کینٹین میں ۔۔۔ میری شاہ نور تو گھر میں بھی بار بار سب کو یہی کہتی ہے ادھر نہ جاوْ ادھر جن رہتے ہیں ۔‘‘عورت نے اس سادگی سے کہا کہ میڈم کو واقعی خوف آ گیا ۔
’’آپ نے کلاس ٹیچر سے بات کی ہے؟ ‘‘ وہ اب اس کیس کو فوری ختم کرنا چاہ رہی تھی۔کم از کم یہ کیس اب ا کمرے سے باہر چلا جانا چاہیے تھا۔
’’چوکیدار نے دس دن کی چھٹی دیکھ کر سیدھا آپ کے پاس بھیج دیا۔‘‘ عورت بے چارگی سے بولی اسے وہ ڈر یاد آ گیا جو اس دفتر میں داخل ہونے سے پہلے اسے لگ رہا تھا۔
’’آپ جا کر شاہ نور کی ٹیچر سے مل لیں۔ وہ مناسب سمجھیں گی تو چھٹیاں دے دیں گی۔ ویسے مشکل ہے کیوں کہ آج کل امتحانات سر پر ہیں۔ ‘‘
میڈم نے اس بے چاری سے فورا جان چھڑوائی۔ دفتر کے بہت سے معاملات ان کے منتظر تھے ۔وہ اس طرح کے چھوٹے موٹے کیس اگر دیکھنے لگ جاتی تو رات شاید ادھر ہی ہو جاتی ۔
شاہ نور کی ماں اب کلاس کی طرف قدم بڑھا رہی تھی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھی کرسی پر بیٹھی میڈم کے پاس پہنچی۔
’’میڈم میڈم !شاہ نور کی امی آئی ہیں۔ ‘‘ بچیوں نے غالبا شاہ نور کی والدہ کو دیکھ رکھا تھا، فوراََ اپنی استانی کو مطلع کیا۔
استانی صاحبہ فورا چونک گئی۔
’’یہ شاہ نور کی چھٹی کی درخواست ۔۔۔‘‘ ابھی بات منہ میں ہی تھی کہ میڈم نے کہنی سے پکڑ کر انہیںکلاس سے باہرجا کر کھڑا کیا۔
’’آپ کی بیٹی خیریت سے گھر پہنچ گئی ہے ؟‘‘ میڈم سوال پوچھ رہی تھی اور عورت کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا تھا۔
’’جی پہنچ گئی ہے۔ دو دن سے کچھ کھانہیں رہی ۔میں بڑی پریشان ہوں۔ سکول میں آیا کی نوکری کرتی ہوں۔ باپ میرے بچوںکا ہے نہیں ۔بڑا بیٹا حادثے میں مر گیا ۔اب میری ساری امیدیںاسی بیٹی سے وابستہ ہیں ۔ اس نمانی کو بھی اب جن پڑنے لگ گئے ہیں۔‘‘ عورت نے میلے دوپٹے کی کناری سے آنکھ سے آئے آنسوکو صاف کیا ۔
’’جن ؟کیا مطلب ؟‘‘ میڈم جی بھر کر حیران ہوئی۔
’’آپ کو نہیں پتا آپ کی بیٹی ایبٹ آباد گئی تھی ؟‘‘ انہوں نے اچنھبے سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’جی مجھے پتا ہے۔ مجھے سب پتا ہے ۔اس کو جو چیزیں نظر آتی ہیں وہ اسے سکول نہیں آنے دیتی ۔وہ اس بے چاری کو جانے کہاں کہاں گھماتی رہتی ہیں ۔میری بچی کود اپنے بس میں نہیں ہوتی ۔ میرا شوہر عظیم کہتا تھا بانو یہ میری گڑیا ہے ۔باپ نہ رہا تو گڑیا رل گئی۔ میرے عظیم کی گڑیا رل گئی ۔‘‘ بانو کا رونا تھمنے میں نہیں آ رہا تھا۔
میڈم کے چہرے کے تاثرات بدل چکے تھے ۔خطرناک حد تک غصے کی وجہ سے ناک کی پھنگ پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے ۔
’’جھوٹ بول رہی ہے وہ ۔میں آپ کو بتاتی ہوں۔ ا س کو کون سے جن نظر آتے ہیں ۔‘‘
بانو نے بے چارگی سے میڈم کو دیکھا۔ اس کا دل پتے کی طرح لرزنے لگا جو بس شاخ سے گرا ہی چاہتا تھا۔ گھر کی عزت چوک میں تار تار ہونے والی تھی۔
میڈم نے بانو کو ساتھ لیا اور اپنے کیبن میں لے آئی ۔
’’آپ کی بیٹی ڈیٹ پر گئی تھی۔ ‘‘انہوں نے انکشاف کیا ۔
’’دیکھیں جی میری بیٹی پر الزام نہ لگائیں۔‘‘بانو نے بہت کمزور سا احتجاج کیا ۔اتنا کمزور کہ حقیقت سے واقف لگتا تھا۔
’’آپ کچھ نہیں بولیں ۔اب صرف سنیں ! آپ کی بیٹی ہفتے میں تین چھٹیاں لازمی کرتی ہے۔ میں نے بہت سمجھایا اور بہت پوچھا ۔ سمجھانے کا اثر نہیں ہوا پوچھنے پر جواب ملا کہ امی بیمار ہیں۔ گھرکے سارے کام میں نے کرنے ہوتے ہیں ۔ امی کی دیکھ بھال بھی کرنی ہوتی ہے۔ میں نے اسے کہا پڑھائی زیادہ ضروری ہے۔ ‘‘ میڈم ایک مخصوص سپیڈ سے شروع ہو چکی تھی۔
بانونے بڑی مشکل سے میڈم کے سانس لینے کا انتظار کیا ۔
’’لیکن میڈم میں تو نوکری پر جاتی ہوں تین چھٹیاں کروں میری تو نوکری ہی چھوٹ جائے ۔۔۔وہ چھٹیاں کس کے لیے کرتی رہی؟ ‘‘ بند دروازے کی طرف تکتے ہوئے بانو کے لیے اب اپنا سانس لینا مشکل ہو گیا۔
’’میں سب جانتی ہوں آپ خاموشی سے فقط میری بات سنیں ۔ بیچ میں برائے مہربانی کچھ نہ بولیں۔ ‘‘ میڈم نے نرمی سے بانو کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر دبایا اور دوبارہ گویا ہوئی۔
’’شاہ بانو نے میری باتوں پر زیادہ توجہ نہ کی ۔میں اس وجہ سے لحاظ کرتی رہی کہ چلو بچی کی والدہ بیمار ہیں۔ خیر ایک دن دوسرے سیکشن کی بچی نے مجھے آ کر بتایا کہ شاہ نور سکول کے پاس پہنچتے ہی کہنے لگی میں نے آج میم سے چھٹی لی تھی اب اگر سکول گئی تو وہ ناراض ہوں گی۔ یہ کہہ کر وہ واپس مڑ گئی اور سکول نہیں آئی ۔
اگلے دن میں نے شاہ نور سے پوچھا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگ گئی ۔ میں نے آپ کے پی ٹی سی ایل نمبر پر کال کی ہمیشہ کی طرح گھنٹی بجتی رہی ۔کسی نے فون نہیں اٹھایا ۔ایک دو دفعہ ایسا ہوا کہ سکول آتے آتے وہ کسی گلی میں مڑ گئی۔ میں نے سکول کے چوکیدار کو آپ کے گھر بھیجا آپ کے گھر پر تالہ لگا ہوا تھا۔
کل مجھے شاہ نور کی سہیلیوں نے بتایا کے شاہ نور ڈیٹ پر گئی تھی کسی لڑکے سے ملنے۔۔۔ اور وہاں جانے کیا ہوا کہ واپس آئی تو بیمار ہو گئی ہے ۔ ہاتھ پاوْں مڑنے والی کہانی بھی بچی بتا چکی ہے ۔شاید وہ کل آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے گھر بھی گئی تھی ۔ اسے میں نے اسی لیے بھیجا تھا کہ وہ آپ کو بلا لائے لیکن شاہ نور نے اسے بھگا دیا ۔جو بچی کل آپ کے گھر گئی تھی ا س نے یہ بھی بتایا کہ شاہ نور ایک لڑکے سے ملنے گئی تھی اور آگے پانچ نکلے ٹخنوں پر آنے والے زخم سوزوکی میں بار بار گھسیٹے جانے کی وجہ سے ہیں۔ شکر کریں کہ آپ کو آپ کی بچی زندہ مل گئی ورنہ آج کل تو صرف لاشیں ملتی ہیں ‘‘۔
بانو سسکیاں لے کر رونے لگی ۔اسے رہ رہ کر پی ٹی سی ایل کی اتری ہوئی تار یاد آ رہی تھی جو ہر دفعہ صفائی پر اس کا منہ چڑاتی تھی اور بانو حیران ہو تی تھی کہ یہ اتر کیسے جاتی ہے۔ آج اسے سب سمجھ آ رہا تھا۔
’’میڈم جی میں نے اسے لاکھ منع کیا تھا کہ دوستوں سے موبائل لے کر نہ آ لیکن مجھے کہتی تھی موبائل پر پڑھتی ہوں۔ اب میں غریب کیا کرتی ۔ صبح سویرے اس کا ناشتہ تیار کر کے سکول کے لیے نکل جاتی تھی ۔میرا سکول پہلے لگتا ہے ورنہ خود اسے چھوڑنے آتی ۔تھوڑا شک تو مجھے بھی پڑا تھا لیکن مجھے لگتا ہے اس دفعہ واقعی کسی جن نے واردات کی ہے۔ میری بچی بے چاری کل سے کچھ کھا نہیں رہی۔ ‘‘ ماں کا دل ابھی بھی رو رہا تھا ۔
’’بے چاری وہ نہیں بے چاری آپ ہیں۔ چھوڑ دیں اسے اس کے حال پر۔ دو تین دن میں خود ٹھیک ہو جائے گی ۔ اپنی غلطی سے گری ہے اٹھ بھی جائے گی۔ اب میں اسے اور گرنے نہیں دوں گی۔ اس کی فکر چھوڑ دیں ۔ اپنا خیال رکھیں ۔اولاد ہے ہی بے وفا۔ اس کے پیچھے اپنی ہڈیاں گلانا چھوڑ دیں۔ آپ بس یہ مہربانی اس پر کریں کہ صبح جاتے وقت سکول چھوڑ جائیں اور واپسی پر خود لے لیں ۔‘‘ میڈم نے بانو کی دھنسی ہوئی آنکھوں پر رحم کی نظر کی ۔
’’میرا سکول سات بجے لگتا ہے۔ اس کا ساڑھے سات آدھ گھنٹہ پہلے کیسے چھوڑ دوں۔‘‘ بانو کی پریشانی اپنی جگہ قائم تھی۔
’’میں کل سے سات بجے آ جایا کروں گی ۔ آپ سکول جانے سے پہلے اسے میرے حوالے کر کے جائیں جب تک آپ چھٹی ٹائم نہیں آئیں گی۔ میں اس کے ساتھ ہی رہو گی۔ ‘‘میڈم نے تسلی دی ۔
’’حق ہاہ! چھوٹا کہتا ہے آپا وکیل بنے گی ۔اماں آپا سے کام نہ کروا۔ دیکھ آپا کیسے وکیل بن گئی ہے ۔۔۔خود ہی مریض بنی خود ہی چارپائی پر پڑی۔‘‘ بانو ابھی بھی رو رہی تھی ۔
’’اس کی دو سال بعد شادی کروا دیں۔‘‘
’’شادی کیا خاک کرواوْں؟ اس کو کام کرنا نہیں آتا۔ ‘‘
’’جو اس کو آ گیا ہے اس کے بعد صرف شادی ہی ہو سکتی ہے ۔آپ بات کو سمجھیں ۔۔۔جب بچیوں کے دماغ بالغ ہو جائیں تو انہیں گھر بیٹھا کر چاند چڑھنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ۔غلطی آپ کی بچی کی بھی نہیں ہے ۔ آپ ایک دفعہ اس سے موبائل لے کر پوچھتی تو سہی کہ وہ کیا پڑھ رہی ہے۔ اسے وکیل بنانا تھا تو اس کے سکول آ کر اس کی پڑھائی کی خیر خبر لیتی لیکن تب آپ سوئی رہی۔ خیر دو دن میں بچی کو سکول لے کر آئیں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ جو سبق اسے زندگی سے ملا ہے ۔ اسی سبق کا ستعمال کر کے اس کی زندگی کو پازیٹیو سمت میں ڈھال دوں ۔اگر نہ ڈھال سکی تو بس اتنی سی درخواست ہے کہ گھر میں جو پہلا رشتہ آئے اور بچی کی مرضی شامل ہو بچی کو رخصت کر دیجئیے گا‘‘۔
’’دل تو کرتا ہے گھر جا کر چار چوٹ لگاوْں۔ ‘‘ آنسووْں کی جگہ اب غصے نے لے لی ۔
’’چار چوٹ کھا کر آئی ہے آپ نے مزید چار چوٹ لگائی تو اسے چار چوٹ کا نشہ پڑ جائے گا ۔ چار چوٹ کھانے پھر باہر نکل جائے گی اس زہر کا تریاق کرنا ہے تو چوٹ پر مرہم رکھیں‘‘۔
’’اچھا بہت شکریہ میڈم جی! آپ پلیز اس بات کو اپنے تک رکھئیے گا ۔‘‘ آنکھوں میں درخواست جوش مار رہی تھی۔
’’وہ میری اپنی بچی ہے۔ میری بیٹیوں کی جگہ۔۔۔ آپ بے فکر ہو جائیں۔‘‘ میڈم نے اٹھ کر بانو کو گلے لگا لیا تھا ۔
’’ہم نے تو اولاد کو سب کچھ دیا۔ اپنے منہ کا نوالہ دیا۔ اپنے اوڑھنے پہننے کی فکر نہیں کی۔ ان کی سب چیزیں پوری کی اور آج یہی اولاد ہمیں کیا دے رہی ہے۔۔۔ صرف اور صرف تکلیف اور اذیت! میں میٹرک پاس تھی تو مجھے سکول میں ملازمت مل گئی۔ آنے والے دور میں تو کوئی میٹرک پاس سے جوتے بھی صاف نہ کروائے ۔اسی اولاد کی بہتری کے لئیے چاہتی ہوں کہ یہ پڑھ جائیں ۔کمی ہماری طرف سے نہیں ہے۔ ان کا اپنا ہی دل نہیں ہے پڑھنے کا۔‘‘ بانو روتے ہوئے جلے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھی ۔
’’بانو معاف کیجئیے گا ۔اولاد کو صرف رہنے کی جگہ ، کھانے کی خوراک اور پہننے کو لباس نہیں چاہئیے ہوتا ۔اسے توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم بچوں کی جسمانی ضروریات پوری کر دیتے ہیں لیکن ان کی جسمانی ضروریات کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔آپ کے گھر میں ٹی وی ہے۔ ٹی وی بذات خود کیا ہے ایک خالی ڈبہ ۔۔ اس بے جان ڈبے کو جب بجلی فراہم کرتے ہیں تو رنگا رنگ دنیا کی عجیب و غریب چیزیں ہمارے سامنے آ جاتی ہے اسی طرح ہماری اولاد ہے۔ ہماری اولاد تو بے جان بھی نہیں ہے ۔ہم جب اپنی اولاد کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تو وہ بھی بہت سی چیزوں کو جذب کرتی ہے۔ سب باتوں کا اظہار ممکن نہیں ہوتا۔ اپنے تئیں وہ جو محسوس کرتے ہیں ہمیں بتانا چاہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں رہنے دو ، تمہاری تو فضول ہی باتیں ہیں۔ ایسے وقت میں اگر ان بڑھتے ہوئے بچوں کی فضول سی باتوں کو کوئی سامع مل جائے چاہے وہ ان کو صحیح سمجھے یا غلط سمجھے لیکن کم ازکم ان کو سن لے تو وہ سامع اولاد کو والدین سے زیادہ عزیز ہو جاتا ہے ۔یہ گھر کا، گھر کے ماحول کا، گھر والوں کا دیا گیا خلا ہوتا ہے جسے باہر کی دنیا پُرکرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ابھی بھی آپ کے پاس وقت ہے ۔گھر جائیں ۔اپنی بچی کی بات سننے کی کوشش کریں ۔اگر آپ نہیں سنیں گی وہ دوسروں کو سنائے گی۔ آپ اس غلطی کو اس کی آخری غلطی بھی بنا سکتی ہیں اگر اس کو اپنے پیٹ سے کاٹ کر دیئے گئے نوالوں کے ساتھ شیر سی نظرمیں رکھیں ۔‘‘ بانو کے کندھے کو تھپتھپاتی ہوئی وہ بہت نرم لہجے میں اسے سمجھا رہی تھی ۔
بانو کی نظروں میں وہ تمام مناظر سما گئے تھے جب جب اس نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے ماہ روش کو جھڑکا تھا ۔وہ بھوکی نظروں سے ماں کی توجہ کی متلاشی رہتی اور ماں کہیں سب جھجک نہ مٹ جائے کا ڈر لیے اسے جھڑکتی رہتی ۔
’’کاش میں بھی خوب پڑھی لکھی ہوتی ۔‘‘ بانو کے منہ سے بس یہی نکل سکتا تھا۔
’’سمجھدار ہونے کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اب آپ فکر نہ کریں ۔جو ہونا تھا ہو گیا ۔کل کی سوچیں۔‘‘ میڈم نے بانو کو تسلی دی۔
بانو سسک پڑی اور آنسو پونچھتی کمرے سے نکل گئی ۔میڈم نے بانو کی نظروں سے نظریں چرائی تھی ۔
اگر محبت دھوکے کا نام ہے تو توبہ ایسی محبت سے ۔۔۔
اگر محبت رشتے کھونے کا نام ہے تو میں تائب ایسی محبت سے ۔۔۔
محبت کب تک دھوکہ بن کر سچے رشتے نگلتی رہے گی ؟
محبت کب تک آہ بن کر ماضی کی صورت یاد آتی رہے گی ؟
محبت کب تک زنجیر بن کر گھروں میں باندیاں بڑھاتی رہے گی؟
آخر اس دھوکے باز محبت کا پیٹ بھر کیوں نہیں جاتا؟
اس پتھر محبت سے کانچ سی لڑکیوں کا دل اوب کیوں نہیں جاتا؟
وہ کیوں نہیں کہتی ۔۔
نہیں!
محبت اب اور نہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک پری ہے گھاس پر لیٹی ہوئی
اور دھند میں سوئی ہوئی
اور میں اس کی سمندر جیسی گہری گہری آنکھوں کے
کسی سپنے میں ہونا چاہتا ہوں
رات بھر شبنم میں رونا
گھاس کی نرمی بونا چاہتا ہوں
سانس اپنی
اس کی پلکیں اپنی آنکھوں میں ڈبونا چاہتا ہوں
میں بھی سونا چہتا ہوں
نیند اس کی
خواب اس کا
میں بھی ہونا چاہتا ہوںَ
’’شرعی حیثیت ۔۔ شرعی حیثیت تو کوئی نہیں ۔۔‘‘ بہت سوچ کر پاکیزہ کے پاس دینے کو یہی جواب تھا۔
’’کہیں تم نے سنا کہ لڑکوں کے لیے بھی ولی کی شرط ہوتی ہے یا سم تھنگ ایلس لائک دز؟‘‘ وہ بڑی سنجیدگی سے اگلا سوال کر رہا تھا۔
’’لڑکے تو جب چاہتے ہیں اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں ۔لڑکیو ں کے لیے ہی ولی کا سین سنا ہے۔ لڑکے تو اہل کتاب سے بھی نکاح کر سکتے ہیں ۔‘‘ پاکیزہ کو ان سوالات کی سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی لیکن وہ جواب دے رہی تھی ۔
’’یعنی میں تم سے ابھی نکاح کر سکتا ہوں۔ ‘‘ وہ حتمی لہجے میں بولا۔
’’ابھی ۔۔۔ نکاح ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے آفتاب اور میں ایسے نکاح کیسے کر سکتی ہوں۔ نکاح کے لیے گھر والوں کا ماننا ضرور ی ہے۔ گواہ ضروری ہیں ۔کل کو اگر آپ کے گھر والوں نے مجھے تسلیم ہی نہ کیا تو میں کہاں اسٹینڈ کروں گی؟‘‘ پاکیزہ کے سر پر افتاد پڑی تو وہ بغیر سوچے سمجھے بلبلا اٹھی۔
’’اگر ہمارے پاس نکاح نہیں ہو گا تو ہمارے پاس جواب باقی رہے گا۔ تم بار بار مجھ سے روٹھو گی مجھ سے دور جاوْ گی اور میں تمہیں روٹھا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ میں تمہیں خود سے دور نہیں دیکھ سکتا ۔پاکیزہ گواہ میرے پاس ہیں۔ نکاح ایجاب و قبول ہی تو ہے۔ مولوی کا نکاح پڑھانا لازم و ملزوم نہیں ہے ۔ایجاب و قبول بس ضروری ہے۔ ‘‘ آفتاب نور کے انداز میں قطعی پن کا گہرا رنگ تھا۔
’’آفتاب یہ سچ ہے کہ میں آپ سے بار بار روٹھتی ہوں لیکن جو حل آپ لے کر آئے ہیں وہ نا قابل عمل ہے ۔میری سمجھ میں آپ کی جنونیت نہیں آ رہی ۔‘‘ پاکیزہ سر ہاتھوں میں گرا کر وہیں بیٹھ گئی جہاں کھڑی تھی۔
’’تم مجھ سے پیار کرتی ہو یا نہیں ؟‘‘ سوال ہٹ دھرمی سے پوچھا گیا۔
’’میں آپ سے۔۔۔ محبت کرتی ہوں لیکن ‘‘ بہت مشکل سے شرم سے لاج سے اقرار نکلا۔
’’لیکن ویکن کچھ نہیں اصل میں تم محبت ہی نہیں کرتی۔ محبت میں کرتا ہوں ۔میری محبت میں تو کبھی لیکن ویکن نہیں آتا۔تمہاری محبت میں کیوں آتا ہے؟ آج فیصلہ ہو گا۔ میں اس وقت مسجد کے باہر بیٹھا ہوں۔ میرے پاس کانچ کی تین بوتلیں پڑی ہیں ۔تم مجھے ہاں کہو گی ۔ اگر ہاں نہیں کہو گی تو میں بوتل اپنی بازو پر توڑ کر اپنی شہہ رگ کاٹ لوں گا۔ جب تک یہاں کوئی آئے گا تب تک مجھے اس زندگی سے نجات مل چکی ہو گی جس میں تم میرے ساتھ نہیں ہو۔ ‘‘ وہ انتہائی دو ٹوک لہجے میں باور کرا رہا تھا کہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ کر بھی سکتا ہے۔
وہ ڈر گئی۔جو شخص ماں کا مرا ہوا منہ دیکھنے کی بات کرسکتا تھا وہ کچھ بھی کرسکتا تھا۔کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔
’’آپ خود کو کچھ نہیں کریں گے ۔بالکل کچھ نہیں کریں گے ۔جو آپ چاہیں گے بالکل و ہی ہو گا۔ اگر میری محبت کا ثبوت یہی ہے تو یہی سہی ۔میں نے بھی زندگی آپ کے ساتھ گزارنی ہے۔ آج ہی فیصلہ کر لیتے ہیں۔‘‘ پاکیزہ آنسو پرے دھکیلتے ہوئے بولی۔
ایک یہ الزام کہ میں محبت نہیں کرتی ۔ دوسرا یہ جرم کے مجھے ان کی زندگی سے فرق نہیں پڑتا حالانکہ میں نے صرف اسی ایک شخص سے محبت کی ہے آج انہیں بھی پتا چل جائے کہ مجھے ان سے واقعی محبت ہے ۔
پاکیزہ خود کو کہہ رہی تھی۔
کتوں کے بھونکنے کی آواز بتا رہی تھی کہ آفتاب نور واقعی گھر سے باہر ہے۔
’’یعنی تم نکاح کے لئیے راضی ہو ؟‘‘ سوال پھر دہرایا گیا
’’ہاں راضی ہوں لیکن گواہ کہاں ہیں ؟‘‘ پاکیزہ نے کڑوا گھونٹ بھرا۔
’’اب تمہیں یہ بھی سمجھانا پڑے گا ۔یہ بتاوْعورت کی گواہی کیسے کنسیڈر ہوتی ہے اور مرد کی کیسے ؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔
’’مرد کی ایک اور عورت کی آدھی۔ ‘‘ پاکیزہ کو اب آفتاب کی ذہنی حالت پر شک ہوا۔
’’اللہ کی گواہی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ‘‘ وہ بہت میٹھے لہجے میں بولا تھا۔
’’کیا مطلب؟ ‘‘حیرت نے لب وا کر دئیے ۔
’’دیکھو مرد کی ایک گواہی ارو عورت کی آدھی تو سب سے اچھا نکاح وہ جس کا گواہ اللہ ہو۔ ‘‘ وہ رسان سے سمجھا نے لگا۔
’’کیا اس طرح نکاح ہوتا ہے ؟‘‘ وہ شبے میں پڑی تھی۔
’’تمہیں لگتا ہے میں ہوائی باتیں کر رہا ہوں؟ میں پاگل لگتا ہوں ؟ اگر تمہیں میرے خلوص پر شک ہے تو ہاں نہ کہو۔ میں نے اپنے اسلامیات کے ٹیچر سے تفصیل سے پوچھا ہے تب ہی اتنی بڑی بات کر رہا ہوں۔ ‘‘ وہ تھوڑا سا تلخ ہوا۔
’’ میرا مطلب ہے نکاح کے لیے بالغ ہونا بھی ضروری ہے میرا تو آئی ڈی کارڈ ہی نہیں بنا اور پھر حق مہر بھی تو ہوتا ہے وہ موجل اور غیر موجل شاید؟‘‘ دل میں کچھ کھٹک رہا تھا۔
’’پاگل ہم حکومت پاکستان کے لیے نکاح نہیں کر رہے۔ ہم اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل بنا رہے ہیں ایک دوسرے کو۔ اسلامی لحاظ سے تو ہم بالغ ہی ہیں۔ حق مہر کا مسئلہ بھی حل کر لیتے ہیں۔ ‘‘ وہ بڑے تحمل سے بول رہا تھا۔ سارا ہوم ورک کر کے آیا تھا ۔
’’اب آپ پلیز کاروبار والے پیسے مجھے دینے کا مت سوچ لینا ۔‘‘ پاکیزہ زچ ہوئی۔
’’تمہیں وہ پیسے دینے کا نہیں سوچا لیکن اگر تم لینا چاہو تو وہ بھی میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں ۔جو تم چاہو گی وہی ہو گا۔ جو میرے دماغ میں حق مہر کو compensate کرنے کا طریقہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایک ہینڈسم اماوْنٹ سوچ لیتے ہیں۔فرض کیا بیس ہزار۔۔۔ ایک نکاح ہمارا شادی کے وقت سب کے سامنے بھی ہو ۔گا بیس ہزار میں سے دس میں اس وقت دے دوں گا اور دس تم مجھے معاف کر دو اگر چاہو تو بیس کے بیس لے لینا ۔وہ دس جو تم معاف کرو گی وہ ابھی کا حق مہر سمجھ لو‘‘ وہ بڑے آرام سے سب طے کر کے بیٹھا تھا۔
’’آپ صبر نہیں کر سکتے؟ میں جوا ز نہیں ڈھونڈوں گی ۔ یہ سب بہت جلدی ہو رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کے کچھ غلط نہ ہو جائے۔‘‘ ایک کمزور سا احتجاج بلند ہوا۔
دوسری طرف مکمل خاموشی چھا گئی ۔ساتھ ہی چھناکے کی آواز ابھری۔ کانچ کی بوتل ٹوٹ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا تو جانے کون سی تھی
ذہن میں نہیں
بس اتنا یاد ہے
کہ دو ہتھیلیاں ملی ہوئی تھیں
جن میں ایک میری تھی
اور اک تمہاری !
پاکیزہ کی چیخ نکل آئی۔ اس شخص کو وہ ایک دفعہ انکار کر چکی تھی جب اس نے کہا تھا وہ غلط کام کرے گا کیوں کہ تب تک پاکیزہ کے دل میں کچھ بھی نہیں تھا۔ تب اسے فرق نہیں پڑا تھا ۔آج اسے اس شخص سے فرق پڑتا تھا۔ بہت فرق پڑتا تھا ۔اس کی ساری زندگی میں وہی تھا۔ بس وہی تھا جو سارا جہاں تھا، سامع تھا ، دوست تھا ، غمخوار تھا۔ وہ اس کو ہاتھ سے جانے دیتی پھر کیا کرتی ؟ پھر اس کی زندگی میں کیا رہ جاتا اور اگر جو یہ شخص زندہ ہی نہ رہتا تو پھر کیا ہوتا؟
کیا وہ یہ غم برداشت کر سکتی تھی کہ یہ شخص صرف اس کی اپنی وجہ سے ہی دنیا سے چلا جائے ؟
دل نے چلا کر کہا نہیں۔۔۔!
نہیں ۔۔۔!
’’پلیز نہیں ، پلیز آفتاب نہیں اپنے آپ کو کچھ نہیں کرنا۔آپ جو کہیں گے میں اس کے لیے تیار ہوں۔‘‘ سسکتے ہوئے اس نے اپنے دماغ کو سلایا تھا۔
دل دھڑکنے لگا ۔آفتاب نے بہت نرمی سے اس کی آنکھوں کی نمی کو پیا اور پو پھٹنے سے پہلے ہی نسیمِ سحر نے’’ قبول ہے ‘‘ کہا اور ’’قبول ہے ‘‘ سنا۔
’’اب تم مجھ سے دور نہیں جا سکو گی۔ ‘‘ آفتاب اطمینان سے کہہ رہا تھا۔
’’میں پہلے بھی دور نہیں جانا چاہتی تھی ۔‘‘ اس نے پیار بھرا اعتراف کیا ۔
’’نہیں جانا چاہتی تھی پھر بھی گئی تھی۔ تمہیں اندازہ نہیں میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔ ‘‘
’’کتنا پیار کرتے ہیں ؟‘‘ شرارتی انداز میں سوال پوچھا گیا۔
’’اتنا پیار کرتا ہوں کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا ۔اتنا پیار کرتا ہوںکہ مرتو سکتا ہوں لیکن تمہیں چھوڑ نہیں سکتا ۔اتنا پیار کرتا ہوں کہ تم چاہو بھی تو تو بھی تم سے دور نہیں رہ سکتا۔‘‘ اسے جیسے کسی نے چھیڑ دیا تھا۔
پاکیزہ نے شکر کے کلمات ادا کئیے۔
دنیا میں اللہ نے ا س کے لیے کتنا اچھا ساتھی چنا تھاجسے وہ آخرت کے لیے بھی مانگ سکتی تھی۔ ایسا ساتھی جو اس کے شکوک کو نظر انداز نہ کرتا بلکہ ختم کرتا تھا۔جس کے لیے پاکیزہ کی اہمیت تھی ۔
یہ اہمیت انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے ۔۔۔اہمیت حاصل کرنے کے چکر میں لوگ دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ محبت کے گھٹنے پکڑتے ہیں۔ علم کی چوکھٹ پر دھرنا دیتے ہیں۔ آخر میں یہ اہمیت اہمیت نہیں رہتی ۔روزمرہ زندگی کا حصہ بن جاتی ہے ۔اس بات کا ادراک ہوتے ہی جب انسان مزید اہمیت کی کوشش کرتا ہے تو وہ ملیا میٹ ہو جاتا ہے پھر کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی ۔جو باقی رہتا ہے اسے کتبہ کہتے ہیں!
آفتاب کے سریلے سر سنتے سنتے پاکیزہ نے نیند کی وادی میں قدم رکھ دئیے۔
ساری رات حسین خواب اس کی آنکھوں کے لیے امید لاتے رہے۔
خوش گمانیوں کے پھول اس پر خوشبو نچھاور کرتے رہے۔
پیار کے موسم اس کی بلائیں لیتے رہے
اور
جواز اپنا سر پٹختا رہ گیا !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دشتِ غربت میں جس پیڑ نے
میرے تنہا مسافر کی خاطر گھنی چھاؤں پھیلائی ہے
اس کی شادابیوں کے لئے
میری سب انگلیاں۔۔۔
ہوا میں دعا لکھ رہی ہیں۔
آپ تیز چل رہے ہیں یا آہستہ زندگی آپ کو دیکھنے کے لیے نہیں رکتی ۔ آپ کے چلنے رکنے یا گرنے سے زندگی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔زندگی نے دو سال ایک ہی جست میںطے کر لیے لیکن پاکیزہ پیچھے مڑ کر دیکھ سکتی تھی کہ زندگی نے اسے کیا دیا ہے ۔کتنے ہی قیمتی لمحات تھے جو ا س کی گود میں نگینے کی طرح دمک رہے تھے ۔
وہ ابھی بی ایس کیمسٹری کر رہی تھی۔ اسے یہی کرنا تھا میڈیکل میں داخلہ نہ ہو سکا تو اس نے ایک سال مزید محنت کرنے کا اردہ ترک کردیا۔ وہ محنت کر کے وقت کو کیوں ضائع کرتی ۔ اس نے پوری ایک نسل کی تربیت کرنی تھی۔ بی ایس کیمسٹری کے تیسرے سال میں پہنچ کر وہ آفتاب نور کو ایسے ہی دیکھتی تھی جیسے ا س نے کھڑی سے نیچے جھانکتے ہوئے دیکھاتھا۔ حسین مجسمے کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا وہ اور بھی خوبصورت ہو گیا تھا ۔یہ اور بات کے پاکیزہ آج بھی ا سکے لیے مقدس صحیفہ تھی۔
کبھی کبھی وہ پاکیزہ کو بنگالی حسینہ کہہ کر بلاتا وہ چھڑ جاتی تو اسے بتاتا کہ حسن کا جو سوز بنگال میں پایا جاتا ہے وہ اندھی محبت جیسا ہے۔ جب سر چڑھتا ہے تو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔
خود آفتاب نور بی کام کر رہا تھا۔تین چار سپلیاں تھیں لیکن وہ تو آنی تھیں ۔ وہ صرف پڑھتا تو نہیں تھا اپنے خواب سینچتا تھا۔ چھوٹا سا پولٹری فارم کھول کر سارا دن مرغیوں کے حساب کتاب میں مصروف رہتا ۔جلد سے جلد اپنے پاوْں پر کھڑا ہونا چاہتا تھا تاکہ جس لڑکی کے اتنے سالوں سے خواب دیکھ رہا ہے اسے حقیقت میں ساتھ دیکھ سکے ۔
پاکیزہ نے پینٹنگ چھوڑ دی تھی ۔ہر مقابلہ ہی ایساتھا جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی ہوتے تھے ۔وہ اپنا شوق پروان چڑھاتی یا اپنا رشتہ ۔۔۔ رشتہ بہر کیف ہر شے سے زیادہ ضروری تھا۔ شوق اکثر دل کے راستے انگلیوں میں آتا اور پوریں کھجانی پڑ جاتیں ۔ ایسے میں وہ بڑی خاموشی سے اپنے کمرے میں آنکھیں تصویر کرنے لگتی ۔ اسے صرف آنکھیں تصویر کرنا اچھا لگتا ۔ وہی دو آنکھیں ۔۔۔شرافت سے جھکی ہوئی، کبھی تقدس سے بھری ہوئی ،محبت کا اظہار کرتی ہوئی، کبھی شرارت سے اصرار کرتی ہوئی۔۔۔!
وہ ان دو آنکھوں کو اتنی دفعہ تصویر کر چکی تھی کہ اسے کچھ بھی اور بنانا بھول گیا تھا ۔وہ اسی میں خوش تھی کیوں کہ وہ بھی اسی میں خوش تھا۔
کوئی غلط مطالبہ نہیں تھا صرف محبت تھی ۔۔۔ ایسی محبت جو آج کل نہیں ہوتی جو شاید کرہ ارض پر اس سے پہلے بھی کسی نے نہیں کی ہو گی ۔
پاکیزہ آنکھیں موند کر دیکھتی تو دو سالوں کے دامن سے لپٹی وہ واحد خوبصورت ملاقات گلاب کی کلی جیسی لگتی عید آئی تھی ۔
وہ پاکیزہ کے سر ہوا تھا۔
’’میرے نام کی مہندی لگاوْ تم ۔‘‘
’’مرغیوں کے ساتھ مہندی کا بھی کاروبار کر لیا ؟‘‘ محبت کی ایک ادا شوخی بھی تو ہے۔
’’تم چاہو تو عین ممکن ہے یہ بھی کر لوں۔ ‘‘اس نے سر خم کیا۔
’’جی پہلے تین سپلیاں ہیں پھر تین اور آ جائیں گی۔ ‘‘
’’تم مجھے طعنہ دے رہی ہو ؟‘‘
’’ارے نہیں بابا ۔‘‘
’’تم طعنہ دے چکی ہو ۔پاکیزہ تمہارے سامنے ہے اکثر گھر لیٹ جاتا ہوں۔ جتنا وقت ہوتا ہے پڑھتا رہتا ہوں۔ ‘‘وہ سچ کہہ رہا تھا۔
’’ان دو سالوں میں سے کوئی ایسی رات بتائیں جب آپ کے گھر پہنچنے سے پہلے میں سو گئی ہوں ؟ جب میں نے آپ کے گرد آیت الکرسی کا حصار کھینچ کر آپ کو گھر نہیں بھیجا ۔مجھے آپ کے خلوص اور آپ کی نیت پر چک ہوتا تو آج تک ہم ساتھ نہ ہوتے ۔‘‘جھوٹ وہ بھی نہیں بول رہی تھی۔
’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ آج تک کوئی صبح تمہارے میسج کے بغیر نہیں ہوئی۔ کسی رات میں تم سے بات کیے بغیر نہیں سویا ۔تم کناراہو میرا۔ زندگی کی بے رحم موجوں سے تمہارے ہی سہارے لڑ رہا ہوں۔ بھائی گھر چھوڑ کر چلے گئے ۔دادی کی ڈیتھ ہوئی لیکن تمہارے ساتھ ہونے سے کوئی غم غم نہ رہا ۔ہمارا رشتہ جتنا نازک ہے اتنا ہی مضبوط بھی ہے ۔ ایک بات تمہیں بھی ماننی چاہیے کہ میں تمہاری وجہ سے ساتھ نہیں ہوں۔ تم میری وجہ سے ساتھ ہو ۔تمہارے بس میں ہوتا تو بھاگ جاتی ۔‘‘
’’آپ پھر خود کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’چلو کریڈٹ تم رکھ لو۔ اپنا آپ مجھے سونپ دو۔ ‘‘
’’آفتاب !‘‘آواز میں تنبیہہ تھی۔
’’مہندی لگا رہی ہو نا پھر؟ ‘‘ وہ فورا سنجیدہ ہواتھا۔ احتیاط وہ بھی کرتا تھا صرف وہ نہیں کرتی تھی۔
’’جی لگانے لگی ہوں۔ ‘‘
فون رکھ کر بڑی مشکل سے اس نے مہندی کے بیل بوٹوں میں آفتاب کا نام چھپایا تھا۔
’’تصویر ایم ایم ایس کروں؟ ‘‘ وہ پوچھ رہی تھی۔
’’ میں خود دیکھوں گا ‘‘ اس نے مختصر جواب دیا۔
پاکیزہ نے آگے سے ضد نہیں کی وہ یہی چاہتی تھی۔ آفتاب کا تو یہ حق بھی تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چہرہ میرا تھا ،نگاہیں اس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اس کی
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوتی ہوئی سانسیں اس کی
آرٹس کونسل میں حسب تقریب گہما گہمی تھی۔ لوہے کی باڑ کے کٹاوْ میں سے دھوپ چھن کر گھاس پر سنہری نقش و نگار بنا رہی تھی۔ کچھ لوگ ذوق بڑھانے کو کچھ لوگ شوق کی دکان چمکانے کو اس ایگزبیشن میں آئے تھے ۔کچھ چہروں پر یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ زبردستی لائے گئے ہیں ۔ وہ آہنی دروازے سے داخل ہو کر ایک طرف کھڑی ہو چکی تھی۔
کالے گھٹنوں تک آتے فراک میں وہ اپسرا لگ رہی تھی۔ بنگالی حسینہ کے نمکین بازو عیاں ہوتے دل آویز محسوس ہو رہے تھے۔ اس کے چہرے پر پہلا قدم اٹھانے کی تکلیف رقم تھی۔ جھجک سے اس کی ہتھیلیاں پسینے میں تر ہونے لگی ۔ سر پہ ہلکا سا اوڑھا دوپٹہ اچانک پھسلا۔ دوپٹہ ٹھیک کرنے کو نظریں اٹھائیں تو دشمن ِجاں سامنے تھا ۔وقت نے ا س کے نقوش کو حسین تر بنایا تھا۔ آنے والے کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اس کے خیال میں حسن نے اپنی فیاضی پری پیکر پر زیادہ ہی کی ہے ۔بنگالی حسینہ کے گال کچھ زیادہ ہی لال ہو گئے۔
’’السلام علیکم! ‘‘ سلام میں پہلا آفتاب نے کی ۔
’’وعلیکم السلام۔ ‘‘ پاکیزہ نے جواب دینے سے زیادہ تھوک نگلا۔
’’آوْ چلیں۔ ‘‘ وہ بڑی نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر گیلری میں لے گیا تھا بالکل ایک معمول کی طرح۔
پاکیزہ کا دل چاہا کہ وہ لڑکھڑا کر گر جائیں اور اس کو تھامنے والا ہاتھ اپنی ساری مضبوطی سے اسے سمیٹ لے وہ ایسا نہ کر سکی۔ اسے چلتے ہی رہنا تھا ۔
’’بہت خاموشی سے مکمل آرٹ گیلری گھوم کر وہ باہر بینچ پر بیٹھ گئے۔ کسی تصویر کے بارے میں انہوں نے یک لفظی تبصرہ بھی پیش کیاتھا ۔ بڑے سکون سے وہ دونوں ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کرتے رہے، پیتے رہے۔ جب مد ہوشی اتنی غالب آ گئی کہ لڑکھڑانے پر یقین آ گیا تو وہ گھبرا کر بیٹھ گئے ۔ عید کا تیسرا دن تھا۔ مہندی کا رنگ پھیکا نہیں پڑا تھا ۔کچھ اور ہی گہرا ہوا تھا ۔
آفتاب کی امی پہلی بہووْں سے اتنی بد گمان تھیں کہ پاکیزہ کے سچے جذبوں کے سامنے بڑی جلدی ہار جاتیں پھر وہ اپنی ساس کی بیٹی جیسی بہو کیوں نہ بنتی۔ اگر بیٹی جیسی بہو بنتی تو پھر رنگ کیسے گہرا نہ آتا۔
خوبصورت ہاتھوں والی لڑکی نے یہی سوچ سوچ کر اپنی ہتھیلیوں کی مہک کو سانسوں سے اندر کھینچا تھا ۔
’’مہندی دکھاوْ ‘‘ فرمائش کی گئی ۔
پاکیزہ نے اپنی ہتھیلیاں پھیلا دیں۔
’’اتنا پسینہ کیوں آیا ہوا ہے تمہیں؟ ‘‘ وہ ہاتھوں کی نمی دیکھ کر محظوظ ہو۔ا
’’مجھے کوئی پسینہ نہیں آیا۔ ‘‘آفتاب کی شوخی سے تھوری سی ہمت ا سکے اندر سرایت کرنے لگی ۔
ہتھلیاں کھلیں تو نمی خود ہی خشک ہونے لگی۔
’’میں اپنا نام ڈھو نڈوں؟ ‘‘آفتاب نے اس سے پوچھا۔وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔
جواب کا انتظار کرنے سے پہلے ہی وہ اس کی ہتھیلی پر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کی پور رکھ چکا تھا ۔ اب وہ انگلی کی پور کو انگلیوں سے مس کرتا ہوا اپنا نام ڈھونڈ رہا تھا۔
پاکیزہ کے اندر طوفان چل رہے تھے۔ اس کی سانسوںمیں اتھل پتھل اتنی زیادہ ہو گئی کہ ہوا نے ا س کی سانسوں کی آواز محفوظ کر لی۔ ہتھیلی کے عین درمیان میںآخر اسے اپنا نام مل گیا۔
’’یہ رہا میرا نام۔ ‘‘ ا س کی انگلی ٹھہری تو پاکیزہ کی منتشر دھڑکنیں بھی سنبھل گئی ۔ا س نے صحیح معنوں میں سکھ کا سانس لیا ۔
’’چلو مجھے انعام دو؟ ‘‘ وہ اپنی ہتھیلی پھیلا کر اب اس سے کہہ رہا تھا ۔
’’نام بھی میں لکھوں اور انعام بھی میں دوں؟ ‘‘ پاکیزہ نے آنکھیں حیرت سے پھیلا کر پوچھا ۔
ساتھ ہی آنکھیں جھکا لی ۔جھکانا ضروری تھا۔
’’دوبارہ دیکھو نا ؟ ادھر دیکھو میری طرف۔ ایک دفعہ تو دیکھو پلیز۔ ‘‘ وہ اب تنگ کر رہا تھا۔
’’آفتاب ‘‘ اس کا نام لے کر دوبارہ تنبہیہ کی گئی۔
’’اچھا میں دیتا ہوں عیدی ۔‘‘ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا اور اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔
اسی لمحے پاکیزہ کو معلوم ہوا کہ آفتاب نے گرے پینٹ اور گرے کوٹ کے ساتھ سفید ٹی شرٹ پہن کر آیا ہے۔ نظریں پہلے ا س کے لباس پر گئی ہی کہا ں تھیں ؟ نظریں تو بس اس کے چہرے پر جاتی تھیں ۔ اس کے نین نقش چومتی تھیں ۔ اس کی آنکھوں سے محبت کے موتی چراتی تھیں اور دل کے سیپ میں چھپا لیتی تھیں ۔وہ وجہیہ تھا۔خوبصورت تھا۔پاکیزہ نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر تسلیم کیا۔
کوٹ سے ہاتھ نکلا تو کھلے پیسے تھے دس بیس کے نوٹ بھی اور پچاس سو کے بھی۔۔
’’یہ لو۔ ‘‘ وہ ا سکی ہتھیلی پہ رکھ چکا تھا۔
پاکیزہ نے پیسے لیے اور حیرت سے دیکھا۔
’’مجھے کھلے پیسے دے رہے ہو ؟واپسی کا کرایہ ہے میرے پاس! ‘‘اب وہ شریر ہوئی۔
’’ میںتمہیں کھلے پیسے نہیں دے رہا۔ اپنی محنت دے رہا ہوں ۔ خون پسینہ دے رہا ہوں ۔یہ پولٹری فارم سے ہونے والی پہلی کمائی ہے۔ اس پر مجھ سے بھی کہیں زیادہ تمہارا حق ہے ۔اتنے عرصے سے اس لیے سنبھال کر رکھی تھی کہ موقع ملتے ہی تمہیں دے سکوں‘۔‘
اس کی بات پر پاکیزہ کی آنکھوں میں متشکر نمی آ گئی ۔
’’ میں ان پیسوں کو سنبھال کر رکھوں گی۔ ‘‘ وہ جذب سے بولی تھی ۔
’’نہیں نہیں یہ تمہیں خرچ کرنے کے لئیے دئیے ہیں ۔تم انہیں خرچ کرو گی تو میری محنت وصول ہو جائے گی۔ ‘‘ اس نے ا صرار کیا ۔پاکیزہ نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
پاکیزہ اسے بتا نہ سکی کہ جس رات وہ موتیے کے پودے کی جڑوں سے پیسے نکال کر لے کر گیا تھا۔ اس سے اگلی صبح پاکیزہ نے پودے کے عین اسی جگہ سے تھوڑی مٹی نکال کراپنے پاس محفوظ کر لی تھی۔ وہ اس مٹی کو بھی اگنور نہیںکر سکتی تھی، خرچ نہیں ہونے دے سکتی تھی۔ جسے وہ چھوتا تھا۔ یہ تو پھر اس کی محنت کی کمائی تھی ۔
’’میرا دل کرتا ہے میں تمہارے لیے گھڑی خریدوں۔ ‘‘ وہ قفے قفے سے زندگی کا ذائقہ چکھنے کو اس کے چہرے کی چاشنی چرا رہا تھا۔
حیا کے لبادے میں لپٹی ہوئی وہ تھوڑا سا چونکی۔
’’آفتاب گھڑی نہیں لینا۔ ‘‘
’’کیوں؟ ‘‘ وہ اتنے صاف انکار پر حیران ہوا۔
’’ میں گھڑی پہننا پسند نہیں کرتی ۔‘‘ وہ قطعیت سے بولی ۔
اس کے ناک کی پھنگ ٹھیک ویسے چمک اٹھی جیسے سکول پر اپنے موقف پر ڈٹ جانے پر چمکتی تھی ۔
’’کوئی خاص وجہ ؟‘‘ وہ اس کی چمک میں ڈوبنے لگا تھا۔
’’ میں وقت کو کلائی پر نہیں باندھنا چاہتی ۔میں اس کو مٹھی میں رکھتی ہوں۔‘‘ وہ مسکرا کر چمکتی آنکھوں سے اس کے دل کا چین لوٹتی ہوئی بولی۔ آفتاب نے رشک سے اس کے ہاتھ کو مٹھی بناتے ہوئے دیکھا تھا ۔
’’ میں گھڑی خرید کر دوں گا پھر تو پہنو گی نا ؟‘‘ آفتاب نے بندمٹھی اپنے ہاتھ میں لے لی ۔ مضبوط ہاتھ میں مٹھی یوں آ گئی جیسے موتی سیپی میں سماتا ہے ۔
انکار کی گنجائش ہی نہیں بچی تھی ۔جو موتی سیپ میں چھپا تھا اس کی چمک دمک آنکھوں میں اتر آئی ۔گالوں پر اترے حیا کے رنگ جھلملانے لگے۔ محبت نے زمین سے آسمان تک حصار طاری کر رکھا تھا، وہ دونوں محصور تھے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانس جیسے موم بتی کانچ پر رکھی ہوئی
زندگی ہے ہلکی ہلکی آنچ پر رکھی ہوئی
میرا سرمایہ ہے تھوڑی روشنی تھوڑا دھواں
’’میں گھر بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی ہوں۔ ‘‘ وہ اس کی سب کچھ جان چکی تھی اور سب کچھ مان چکی تھی۔ اب سب کچھ اسی سے کہتی تھی ۔
کالج کے دو سال پر لگا کر اُڑ گئے ۔زندگی نے ان دو سالوں میں بہت سے سبق دئیے ۔ان سارے اسباق کو سبھی یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر واقعی یاد رکھ سکتے ہوتے تو زندگی جہدِ مسلسل نہ ہوتی ۔
’’گھر سے باہر مجھ سے مل لو۔ ‘‘ اس نے شرارت سے کہا۔
’’پاگل ہیں آپ۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں کچھ کرنا چاہتی ہو ں ۔‘‘ اس نے واضح انداز میں بات شروع کی ۔اس سے اجازت لینا ضروری تھا۔
وہ اسے بیوی کہتا تھا اور وہ اسے شوہر سمجھتی تھی ۔
’’تمہیں معلوم ہے مجھے لڑکیاں صرف گھر کے کام کرتی اچھی لگتی ہیں۔ ان کا تحفظ مرد کی ذمہ داری ہے۔ ان کی ضروریات پوری کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ تمہیں گھر سے نکل کر جھک مارنی پڑے ۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا اور وہ اس کے لہجے میں جھلکتی فکر کو محسوس کر رہی تھی۔
اس نے باپ نہیں دیکھا تھا لیکن اب وہ باپ بن گیا تھا۔ اسے پال رہا تھا ۔تحفظ دے رہا تھا۔
اس نے بھائی بھی نہیں دیکھا تھا لیکن وہ اس کا بھائی بن گیا تھا۔ نوک جھونک رکھتا اسے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا ہوا تھا۔
مرد ذات سے جتنے رشتے تھے سب اس شخص سے منسوب ہوئے تھے ۔وہی اول تھا ،وہی آخر تھا۔
کوئی عام سی لڑکی ہوتی تو فوراََ ڈھیر ہو جاتی۔ اپنے ارادوں سے دستبردار ہو کر اس کی مرضی کے دھارے پر بہہ جاتی لیکن وہ عام سی لڑکی نہیں تھی۔ اس کے ارادے مضبوط تھے ۔وہ بہہ نہیں سکتی تھی ۔وہ ڈھے نہیں سکتی تھی ۔اس نے سوچ لیا تھا وہ اس بات کو ایسے ہی نہیں جانے دے گی۔ اگر زندگی میں کچھ کرنا چاہتی ہے تو اس کا کچھ نہ کچھ حصہ تو ضرور منوائے گی ۔
’’میں جھک مارنے نہیں جانا چاہتی ۔میں کچھ کرنا چاہتی ہوں ۔ ایکچوئلی ہمارے سکول کے سر کی کال آئی تھی۔ سر کہہ رہے تھے کہ انہیں ڈرائنگ ٹیچر کی ضرورت ہے۔ میں نے انہیں منع کرنے کی کوشش کی بتانا چاہا کہ آگے یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا تو صبح میں پڑھانا تقریباََ ناممکن ہی ہو جائے گا۔ انہوں نے پھر مجھے ایک اور آفر کی ہے آپ کہیں تو بتاوْں۔ ‘‘ پاکیزہ کی بات کے دوران آفتاب چپ رہا تھا ۔پاکیزہ کو اس کی ناراضگی کا ڈر لاحق ہو ا۔
’’بتاو؟ْ ‘‘ یک لفظی جواب ملا لیکن اس ایک آواز سے سکون نے پاکیزہ کے اندر قلقاریاں ماریں۔
’’سر چاہتے ہیں کہ میں شام میں اکیڈمی آ کر بچوں کو ڈرائنگ سکھا دوں۔ جو آرٹس کی اسٹوڈنٹ ہیں ان کو ٹرین کر دوں اور ا س کے علاوہ جو اچھے سائنس سبجیکٹس کے اسٹوڈنٹس ہیں ان کی ڈرائنگ بھی اچھی ہو جائے تاکہ پریکٹیکل نوٹ بک بنانے اور پیپر دینے میں وہ مار نہ کھائیں۔‘‘ وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہو گئی۔
’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ وہ سمجھ چکا تھا پاکیزہ اپنی آئی پر آ گئی ہے ۔
’’میں جانا چاہتی ہوں ۔خود پر انحصار کرنا آ جائے گا۔ چار پیسے کمانے کا خرچ کرنے کا سلیقہ آ جائے گا۔‘‘ اس نے بڑی آسانی سے بات بنائی۔
’’ٹھیک ہے جاوْ لیکن یاد رکھنا جتنے دن تم اکیڈمی جاوْ گی۔ اتنے دن میں تم سے رات کو بات نہیں کروںگا۔ ‘‘ آفتاب نے پاکیزہ سے کہیں زیادہ آسانی سے بات بنا لی ۔
وہ اس کا نشہ توڑ رہا تھا! اسے بری طرح اس شخص کی آواز کی عادت ہو گئی تھی۔ جب تک وہ اسے خواب نہ دکھاتا وہ خوابوں کی دنیا میں نہ جاتی ۔ وہ حیران رہ گئی۔ اتنا شدید ردِعمل تو متوقع ہی نہ تھا۔ دل کے اندر کہیں یقین تھا کہ سو باتیں ہو جائیں۔ آفتاب تو اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ۔ اس یقین کے سہارے اس نے اپنی حیرت کو کنڈلی مارنے پر مجبور کیا۔
وہ بڑے آرام سے بولی’’ٹھیک ہے نہیں کریں گے بات !‘‘
’’اوکے اللہ حافظ!‘‘ وہ فون رکھ چکا تھا۔
بے یقینی سے پاکیزہ نے موبائل دیکھا ۔اس کے گھٹنوں کے عین نیچے سے ساری جان نکل گئی تھی۔ وہ اپنا وجود سنبھال نہیں پا رہی تھی۔ بڑی ہی دقت سے اس نے مسکرا کر گلاب کے پودے میں کھلی نو خیز کلی کو دیکھا ۔
خزاں تو جانے کے لیے آتی ہے اور بہار ہمیشہ ٹھہر جاتی ہے ۔وہ بہار ثابت ہو گا! اسے واثق یقین تھا اور اس یقین میں کوئی دو رائے نہیںتھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارا کہنا ہے
تم مجھے بے پناہ شدت سے چاہتے ہو
تمہاری چاہت
وصال کی آخری حدوں تک
مرے۔۔۔فقط مرے نام ہوگی
مجھے یقیں ہے۔۔۔مجھے یقیں ہے،
مگر قسم کھانے والے لڑکے!
تمہاری آنکھوں میں ایک تِل ہے!
اسے لگتا تھا کے آفتاب نے بس یونہی بات کر دی وہ ایک دو روز میں بھول جائے گا لیکن یہ اس کی بھول تھی۔ وہ نہیں بھولا تھا۔ میسجز پر سلام دعا ہوں ہاں تک جوابات محدود ہو گئے اور رات کو فون پر بات کرنا تو گویا قصہ پارینہ ٹھہرا ۔پاکیزہ کی ضد کے باوجود رونے کے باوجود وہ اس ایک بات پر نہیں آیا تھا کہ رات کو فون پر بات کر لے۔ مہینہ ہو چلا تھا۔ سب آنسو ضائع ہو گئے تھے ۔پاکیزہ نے سوچا وہ ضدی ہے تو میں ضد کیوں دکھاوْں۔ وہ نہیں جانتا مانتا تو میں ہی ہار مان جاوْں۔ اس نے اکیڈمی چھوڑدینے کا فیصلہ کر لیا ۔ بس تین چار دن رہ گئے تھے۔ اپنے فیصلے سے آفتاب کو آگاہ کرنے کے لئیے وہ بہت پرجوش تھی ۔ فورا بتانا چاہتی تھی۔ آفتاب کو بتانے سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ راتوں کو سرور لوٹ آئے گا ۔
اس نے گھر آتے ہی اسکارف اتارا اور آفتاب کو بتانے کے لئیے موبائل کی جانب لپکی ۔سائلنٹ ہوا موبائل پہلے سے ہی کسی کال کی اطلاع دے رہا تھا۔ آنے والی کال دشمنِ جاں ہی کی تھی ۔
’’ہیلو آ گیا سکون؟ ‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔
’’ہاں۔ بہت سکون آ گیا۔ آپ کی آواز سن کر پتا نہیں کیوںاتنا سکون آ جاتا ہے۔‘‘ وہ تسلیم کر رہی تھی۔
’’باہر دس لوگوں کو دیدار کروا کر تو ویسے ہی سکون آ جانا چاہیے‘‘۔ لہجہ مختلف تھا ۔پاکیزہ ٹھٹک گئی ۔
’’کیا ہوا آفتا ب؟‘‘ وہ پریشان ہو ئی۔
’’مجھے کیا ہوا سکون تو تمہیں ملا ہو گا۔ تمہارا گھر سے نکلنے کا مقصد جو پورا ہو گیا ہے۔ ‘‘ لہجہ زہریلا تھا۔
’’کیسا سکون ؟ آپ کیا بول رہے ہیں ؟مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔‘‘ اس کی سماعتوں میں واقعی سوئیاں چبھنے لگیں۔
’’حمزہ کی فون آئی تھی مجھے۔ بہت چسکے لے کر بتا رہا تھا کہ ا س نے آج تمہیں دیکھا ہے۔ تمہارا حلیہ، کپڑوں کا رنگ، ہاتھ میں تھامے بیگ کی وضع قطع ،چوڑیوں کی کھنک سب بتا رہا تھا۔ تمہیں پتا ہے میں تمہیں شیئر نہیں کر سکتا ۔میرا دماغ خراب ہوتا پھر بھی تم باہر جاتی ہو تاکہ لوگ تمہیں دیکھیں، تمہیں سراہیں۔ تمہارے لیے ایک میں کافی نہیں ہوں۔‘‘ وہ ضرورت سے زیادہ تلخ ہوا۔
پاکیزہ کی سماعتوں پر بھاری بھرکم بوجھ پڑ رہا تھا ۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا ۔یہ سب ا س کے بارے میں بول رہا تھا۔ اپنی جان اپنی پاکیزہ کے بارے میں کہہ رہا ہے۔ وہ چپ ہو گئی۔ مکمل چپ آفتاب کو کسی انہونی کااحساس ہوا۔
’’تمہیں معلوم ہے پاکیزہ ۔ تمہیں میں نے بتایا ہے ۔میں کچھ نہیں ہوں ۔میں خالی ہاتھ ہوں۔ میرا متاعِ حیات تم ہو ۔میری زندگی کا سرمایہ تم ہو۔ مجھے تم میری لگتی ہو صرف میری ۔ تمہارے اوپر میرے علاوہ کسی کا کوئی حق نہیں ہے ۔کوئی تمہیں دیکھ نہیں سکتا ۔کوئی تمہیں چھو نہیں سکتا۔ تم صرف میری ہو ۔میرے اندر باہر آگ لگ جاتی ہے جب مجھے پتا چلتا ہے تمہیں کسی نے دیکھا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے اس شخص کو بھسم کر دوں جس کی آنکھیں تمہاری طرف اٹھیں ۔میں تمہارا بال بھی کسی کو دیکھنے نہیں دینا چاہتا ۔‘‘
وہ بول رہا تھا۔ پاکیزہ ابھی بھی خاموش تھی۔ وہ سن رہی تھی۔
اس کے دماغ پر واپسی کا منظر جگمگا رہا تھا ۔ جب اسے لگا تھا بائیک پر پاس سے گزرنے والا حمزہ ہے لیکن یہی بات اس کے لیے کتنی عام سی تھی اور کسی اور کے لیے کتنی خاص بن گئی تھی ۔وہ سوچ رہی تھی۔ اپنی سوچوں کے تانے بانے سلجھاتے اس نے سرا ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا ۔وہ خاموشی کو تھام کر کھڑی تھی۔
آفتاب کو اپنے الفاظ کی سنگینی کا خیال ہو گیا تھا۔ آواز ر ندھ گئی تھی۔ آنسو بہنے لگے تھے ۔ وہ متاع حیات کو کھو نہیں سکتا ہے۔ وہ زندگی کے سرمائے کو ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا تھا ۔وہ التجاوْں پر اتر آیا ۔
’’پاکیزہ پلیز کچھ تو بولو۔ تم میری بیوی ہو۔ میری بیسٹی ہو نا ؟ مجھے سمجھتی ہو نا ؟ تمہیں معلوم ہے نا میرا ۔پلیز پاکیزہ میری حالت کو سمجھو۔ مجھ سے ناراض نہ ہو ۔ میں نکاح کے باوجود تمہیں دیکھنے پرا صرار نہیں کرتا لیکن کوئی اور اگر تمہیں یوںہی دیکھ لے اتنی آسانی سے دیکھ لے تو مجھے تکلیف تو ہو گی نا؟ پلیز پاکیزہ مجھے معاف کر دو۔ میری دیوانگی معاف کر دو۔ ایسے خاموش نہ ہو۔ ‘‘ وہ طالب تھا، سر اٹھا ہی نہیں سکتا تھا۔
’’آئی ایم سوری آفتاب !غلطی آپ کی نہیں میری ہے۔ مجھے خود کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے ۔ چہرہ نہیں ڈھانپ سکتی تو زینت کی چیز چوڑیاں تو سمیٹ لوں ۔آپ کو پورا حق ہے کہ آپ مجھ سے خفا ہوں میں۔ آپ سے ناراض نہیں ۔‘‘ وہ واقعی دل سے کہہ رہی تھی۔
لڑکیاں جس کو دل میں جگہ دیتی ہیں وہ زبان کے معیار سے نیچے گر جائے یا سوچ سے۔۔۔ اس کے گرنے سے فرق نہیں پڑتا ۔وہ روزِ اول کی طرح دل کی مسند پر براجمان رہتا ہے ۔۔۔پوری تمکنت کے ساتھ۔۔ اس کی ناک اُٹھی ہی رہتی ہے۔
آفتاب کی ناک تو ویسے بھی ستواں تھی۔
’’شکریہ پاکیزہ ۔تم بہت اچھی ہو ۔جب سے حمزہ نے مجھے بتایا میرا دل چاہ رہا ہے تمہیں دیکھ لوں۔‘‘
’’دیکھ لیں۔ ‘‘ فراخدالی سے اجازت دی گئی۔ وہ چیز ہی ا س کی تھی۔
’’کل سے تمہیں اکیڈمی سے گھر میں چھوڑا کروں گا۔ ‘‘
’’میں پیدل آتی ہوں ۔‘‘
’’میں بھی پیدل ہی چلوں گا ۔ہم سفر تم جیسا ہو تو سفر طویل ہونا چاہیے۔ ‘‘
’’مجھے منظور ہے ۔‘‘
’’ابھی نہیں مل سکتی؟‘‘
’’ابھی کیسے ملوں ؟‘‘
’’کھانا وانا کھا لو ۔فری ہو کر میسج کرنا پھر بتاوْں گا۔ ‘‘ وہ انتہائی شوخی سے گویا ہوا۔ بے باکی عروج پر تھی ۔
’’شرم کریں۔ ‘‘ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی ۔حیا سے گلنار ہو چکی تھی ۔
’’کون سا سچ میں ملوں گا ۔۔۔ خوابوں میں تو اجازت دو ۔آخر تمہارا شوہر ہوں۔ ‘‘ آٹھ مہینے بعد اسے جتانا یاد آیا تھا ۔وہ جتا رہا تھا ۔
’’اچھا میں آ رہی ہوں ۔‘‘ وہ فوری رضامند ہوئی۔
خوابوں کی دنیا اتنی ہی حسین لگتی ہے۔ سمجھ بھی نہیں آتی اور چاروں شانے چت ہو جاتے ہیں ۔جو کبھی نہیں کیا اور کبھی نہیں ہوا کو جان لینے کی جستجو باوْلا کر دیتی ہے۔ طلب پوری ہو جاتی ہے لیکن تشنگی بڑھ جاتی ہے ۔ وہ پیاس ہی کیا جو بجھ جائے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعد مُدت اسے دیکھا ،لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا ،لوگو
وہ ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں تھاما تھا لیکن ساتھ ہونے کا احساس پاکیزہ کی پلکیں بھاری کر چکا تھا ۔اس کا محبوب اس کا عاشق اس کا محرم اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ وہ بلاشبہ حسین تھا ۔بہت حسین تھا ۔حسن سے کہیں زیادہ شرافت تھی جو اس شخص کا دیوانہ بناتی تھی۔ وہ نکاح کو وجہ بنا کر جو چاہے ا س سے کروا سکتا تھا لیکن وہ نہیں کرواتا تھا ۔کیونکہ اس نے محبت کی تھی۔
سچی محبت بے غرض ہوتی ہے، بے لوث ہوتی ہے۔ دنیا کی ہر شے جھوٹی ہو سکتی ہے لیکن ان جھکی نظروں والے شخص کی محبت سے سچا کچھ نہیں ہو سکتا۔
پاکیزہ فخر سے سر اٹھا کر چل رہی تھی۔ دو گلیاں ختم ہوئی تو سامنے سڑک آ گئی۔ اب سڑک پار کرنی تھی۔ آفتاب نے جس سمت سے گاڑیاں آ رہی تھیں اس سمت اپنے آپ کو کر لیا اور پاکیزہ کی طرف دیکھے بغیر اس کا نازک سا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔پاکیزہ کے دل پر کیا گزر رہی تھی یہ وہی جانتی تھی۔یہ لمس اسے دیوانہ کرتا تھا۔ اسے لگتا تھا وہ کوہ قاف کی پری ہے اور ا س کے خوابوں کا شہزادہ اس کا ہاتھ تھامے ہمیشہ قائم رہنے والی جنت میں لے جا رہا ہے۔ سڑک پار ہوئی تو آفتاب نے ہاتھ چھوڑ دیا ۔اس کا دل بھی جیسے طوفان کی کھڑکی کے شیشے بجنے سا برداشت کر رہا تھا۔
اکیڈمی بس سامنے ہی تھی۔ پاکیزہ نے نظر اٹھا کر آفتاب کو دیکھا ۔
یہ شخص اب دیکھتا بھی نہیں ہے اس وجہ سے کم ازکم میں تو سکون سے اس کو دیکھ سکتی ہوں ناں ۔وہ آفتاب کو دیکھ رہی تھی اور آفتاب سڑک پار کر چکاتھا ۔یہ سڑک پاکیزہ روز پار کرتی تھی۔ اسے سڑک پار کرنے سے ڈر لگتا تھا ۔
یہ مشینی گاڑیاں انسان تو ہیں نہیں ۔ان کے سینے میں دل بھی نہیں دھڑکتا ۔کوئی آہ و فغاں ان پر اثر نہیں کرتی۔ یہ آرام سے کچل کر چلی جاتی ہیں ۔مرنے والی روحوں کی باقی خواہشیں زمین و آسمان کے درمیان بین کرتی رہ جاتی ہیں ۔
اسی سڑک کو آفتاب نے پاکیزہ کے لیے گلزار بنا دیا تھا۔ وہ ہاتھ تھام کر چلا تھا۔ زندگی کو تبدیل کر چکا تھا۔ اس کے لمس کی خوشبو دھڑکنوں میں اتر آئی تھی۔ پاکیزہ نے اپنے ہاتھ کو چہرے کے قریب کیا اور اکیڈمی کے اندر داخل ہوتے ہی بہت مشکل سے ہتھیلی کو چوما۔
یہ ہاتھ جب پہلی دفعہ پکڑا گیا تھا ۔کتنا برا لگا تھا یہی ہاتھ اب ایک رشتے کے بعد پکڑا گیا تو لگتا ہے ا حساسات ہی بدل گئے ہیں۔
محبت زندگی کو بدلے یا نہ بدلے انسانوں کو ضرور بدل دیتی ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شُکر سمجھو اسے ،یا کوئی شکایت سمجھو
اپنی ہستی سے ہوں بیزار ،کہوں یا نہ کہوں ؟
دل کے ہاتھوں سے ،کہ ہے دشمنِ جانی میرا
ہوں اک آفت میں گرفتار کہوں یا نہ کہوں ؟
آفتاب نے ایک تھپڑ کھینچ کر اس کے منہ پر ماراتھا ۔تھپڑ مار کر بھی دل نہیں بھرا۔ اتنا حوصلہ تو تھا نہیں کہ ا س پر پل پڑتا۔ سو کرو ۔۔۔جی دار نہیں تھا۔ دس دوستوں کے گھیرے میں ایک شخص کو تھپڑ مارنا کوئی بہادری کی بات نہیں بلکہ دیکھا جائے تو سرا سر بزدلی ہے۔ اس نے اپنے دوستوں کو اشارہ کیا۔ وہ بھی اپنے خون کی گرمی نکالنے لگے ۔تھوڑی تھوڑی گرمی سے ہی شکار کا حشر ہو چکا تھا۔
شکار کی غلطی کیا تھی؟ صرف یہ کہ روز کی طرح آفتاب پاکیزہ کو اکیڈمی چھوڑنے آ رہا تھا ۔موصوف نے آگے بڑھ کر پاکیزہ سے پوچھ لیا ۔
’’میم ہم آج سٹل پینٹنگ کریں گے؟‘‘ آفتاب نے اس وقت کینہ توز نظروں سے گھورا۔
باقی پروگرام بعد کے لئیے ملتوی کر دیا ۔پاکیزہ بھی گڑبڑا گئی جی کہہ کر جان چھڑوا لی۔
آفتاب نے اکیڈمی کے باہر رک کر بس اتنا پوچھا۔
’’یہ کون تھا ؟‘‘
ہفتم کلاس کا ارسلان تھا ۔میرا سٹوڈنٹ ہے۔ ‘‘ جواب دے کر وہ غڑاپ سے اندر گھس گئی۔
آفتاب معصوم شکل لیکن مردانہ ڈیل ڈول والے ارسلان کو ذہن سے محو نہ کر سکا ۔وہ حمزہ حماد وغیرہ کو فون کر کے بلا چکا تھا۔ ارسلان کے اکیڈمی کے قریب پہنچتے ہی آفتاب اور اس کے دوستوں نے بے چارے کی وہ حجامت کی کہ معصوم چہرہ داغدار ہو گیا ۔شور شرابے کی وجہ سے اکیڈمی سے سر برہان بھی باہر آ چکے تھے۔ سر برہان کے باہر آتے آتے قصہ تمام ہو چکا تھا ۔
شکاری چلے گئے تھے۔ شکار باقی تھا ۔ مظلوم کے ساتھیوں نے پاکیزہ کا روز ساتھ آنا بھی گوش گزار کر دیا۔ سر برہان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
وہ سکول کی ہونہار طالبہ تھی خیر وہ ایک طرف کی سن کر مکمل ڈھے نہیں گئے۔ حواس باقی تھے ۔ارسلان کو بمشکل فرسٹ ایڈ دی دو گلاس جوس کے پلائے اور ایکسیڈنٹ کی خبر گھر پہنچانے پر راضی کیا ۔اچھا بچہ تھا مان گیا ۔
کمرے میںبیٹھی پاکیزہ کو خبر بھی نہ تھی کہ باہر ا س کا نام چوراہے پر لیا جا رہا ہے۔ وہ ارسلان کے راستے میں نظر آنے اور سکول نہ آنے پر معمولی سی متفکر تھی۔ صرف اتنی سی پریشانی تھی جس کا کوئی روزن اس کی اپنی ہستی میں نہ کھلتا تھا اور اگر پریشانی کا روزن اپنی ہستی میں نہ کھلتا ہو تو سانس لینے میں گھٹن محسوس نہیں ہوتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل ،کیوں نہ ہو ؟
یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی! کہ اُس کافر کا خنجر تیز ہے
گھر واپس آ کر اس نے ہمیشہ کی طرح آفتاب سے بات کی۔ وہ ا س کا معمول بن چکا تھا ۔کچھ کھویا کھویا آفتاب بھی اسے اچھا لگا ۔بے تحاشا روشنی وہ دیکھ چکی تھی۔ اب بادلوں کی اوٹ سے ہوا دیدار بھی نظروں کو سیراب کر دیتا تھا ۔اسے معلوم تھا آفتاب کے کھونے کی وجہ رسلان ہی ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے آفتاب پاکیزہ کے پاکیزہ کردار پر شک نہیں کر سکتا اس لیے اگر کچھ روٹھا روٹھا بھی ہے تو ٹھیک ہو جائے گا ۔پچھلی نا راضگی کے بعد جب ملا تو یوں ملا تھا جیسے کبھی بچھڑا نہ ہو۔
اس شخص کا محبت کے بغیر گزارا نہیں۔ مسکراتے ہوئے پاکیزہ نے سوچا اور اپنے آپ کو اگلے دن کے حوالے کر دیا۔
وہ جو بھی کررہی تھی زندگی میں سب بے معنی تھا۔ وہ کس رنگ کے کپڑے پہنتی ہے ،کس سے ملتی جلتی ہے ، کتنا پڑھتی ہے، کیا کھاتی پیتی ہے، کیا سوچتی ہے، یہ سب سوال اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ اب صرف یہ اہمیت رکھتا تھا کہ آفتاب سے کتنی دیر بات ہوئی ہے۔ کتنی باتوں پر جھرنے سی ہنسی پھوٹ بہتی ہے اور کتنی باتوں پر وہ اپنے لب دانتوں میں دبا کر سانس کو روک لیتی ہے ۔
اگلے دن ا کیڈمی جانے کے لیے آفتاب پھر راستے میں حاضر تھا ۔آج ا س نے پاکیزہ سے ا س کا اسکارف مانگا تھا۔ وہی اسکارف جو وہ اکثر استعمال کیا کرتی تھی ۔
پاکیزہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا بس تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں۔
پاکیزہ نے اصرار کیا کے دھو کر دوں گی لیکن پھر اسکارف میں نمکین سی لڑکی کی خوشبو کیسے باقی رہتی ۔۔۔وہ ضد تھام کر بیٹھ گیا۔ جس نے دل جھکا دیا تھا ،سر بھی جھکا دیا ۔اسکارف کو سلیقے سے لپیٹ کر شاپر میں ڈال کر لے آئی اور چلتے ہوئے آفتاب کو تھما دیا ۔
سر برہان نے اپنی آنکھوں سے منظر دیکھا اور یقین نہ کر پائے۔ فوراََ دو گلاس پانی پیا اور کمرے میں آدھے گھنٹے سے آئی پاکیزہ کو بلاوا بھیجا۔ کو آرڈینیٹر کو ہدایت کی جا چکی تھی کہ دفتر میں کوئی نہیں آئے ۔
’’پاکیزہ بیٹا ‘‘ وہ گہری سوچ میں کھوئے ہوئے تھے۔
’’جی سر! ‘‘ وہ مطمئن تھی کوئی پریشانی نہیں تھی ۔
’’کل سکول کے باہر ایک جھگڑا ہو گیا آپ کے اسٹوڈنٹ ارسلان کا ‘‘ انہوں نے صرف ایک پتا پھینکا۔
’’سر کل وہ مجھے بھی راستے میں نظر آیا تھا لیکن سکول میں نہیں آیا۔‘‘ اطمینان ہنوز قائم تھا۔
’’آپ جانتی ہیں کہ اس کا جھگڑا کس سے ہوا؟‘‘ دوبارہ پاکیزہ کو جانچا گیا۔
’’نہیں سر! ‘‘ طمانیت نے کوئی کروٹ نہ لی تھی ۔
’’وہ آپ کا ایک ا یورج سا کلاس فیلو تھا کیا نام تھا اس کا ۔۔۔ نور ۔۔۔ آفتاب نور ۔ہاںآفتاب نور۔اس کے کچھ دوستوں نے پکڑ کر مارا ہے۔ ساتھ وہ خود بھی تھا۔ ‘‘ وہ ٹیبل پر پڑے گلوب کو انگلی سے گھماتے ہوئے پُر سوچ انداز میں بولے ۔
رنگ بدلے جا چکے تھے۔ اطمینان رخصت ہو چکا تھا اور پریشانی ہویدا تھی۔
کیوں کہنا بے معنی تھا۔ وہ وجہ خود بھی جانتی تھی ۔
’’پاکیزہ میں آپ کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ ‘‘ وہ اس کے لیے فکر مند تھے۔
’’سر ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے اللہ کو اپنے تئیں مطمئن کر دیا تھا۔ نکاح ہو گیا تھا سر کو وہ کیسے بتاتی ۔
’’بات جو بھی ہے۔ انگلیاں ہمیشہ لڑکیوں کے کردار پر اٹھتی ہیں ،لڑکوں کے گھر تک کوئی نہیں جاتا۔ سو ال لڑکیوں کے گھر والوں سے پوچھے جاتے ہیں ۔تم یا تمہارے گھر سے کوئی لاجواب ہو میں یہ نہیں چاہتا۔ ‘‘
سر کہہ رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی سر کو کیسے بتائے کہ جو آواز بدل کر فون کرنے کی جرات رکھتا ہے ۔روز ایک گھنٹہ خاموشی محسوس کر سکتا ہے وہ سب کچھ کرتا ہے لیکن لاجواب نہیں کر سکتا لاجواب ہونے نہیں دے سکتا۔
’’اب ایشو یہ ہے کہ ارسلان کے گھر والے ایف آئی آر کٹوانا چاہتے ہیں۔ ارسلان کوکافی چوٹیں آئی ہیں ۔‘‘ وہ پانی کی گہرائی ماپنا چاہتے تھے ۔
’’سر ایسے کیسے ؟‘‘ وہ حواس باختہ ہو گئی۔صحیح معنوں مین پیروں تلے کی زمین کھسکی تھی۔
’’ دو آپشنز ہیں ۔۔۔ارسلان کے کزنز کہتے ہیں یا تو وہ اس لڑکے آفتاب کو پکڑ کر اسی طرح ماریں گے جیسے ا س نے ارسلان کو پٹوایا یا پھر قانونی کاروائی ہو گی ۔‘‘
پلیز سر کچھ کریں یہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس پاگل نے میری وجہ سے ایسا کیا ورنہ وہ ایسا لڑکا نہیں ہے ۔ اسے لگا ہو گا ارسلان کوئی اسٹرینجر ہے ۔ا س لیے ا س نے ایسا کیا ۔میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔ آفتاب کو کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘ اس کی آنکھیں متورم تھیں۔ پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اور دونوں ہاتھ حقیقتاََجڑے ہوئے تھے ۔
سر برہان کو اس پر رحم آیا لیکن خاموش رہے۔
’’پلیز سر میں اس کو منع کر دوں گی۔ وہ دوبارہ کبھی نہیں آئے گا ۔وہ اس راستے میں ہی نہیں آئے گا۔ اس دفعہ اسے اس مصیبت سے نکالیں۔اس کے لیے کچھ نہ کریں۔ میرے لیے کر دیں۔ سر میرا نام بھی بیچ میں آئے گا ۔میرا نام بد نام ہو گا۔ ‘‘
اسے بچانے کے لیے وہ پردے ڈال رہی تھی۔ سچ جھوٹ ملا رہی تھی۔’اُن ‘کو اُس کہہ رہی تھی۔ سر برہان سوچ رہے تھے۔ نام تو چوراہے پر لیا جا چکا تھا ۔پاکیزہ کا ریکارڈ انہیں اسے مزید رُلانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا ۔
’’اچھا بیٹا میں کوشش کرتا ہوں ۔آپ کوشش کرو ان معاملات سے دور رہو۔ ‘‘ سر برہان نے ہلکی سی تنبیہہ کر کے اسے جانے دیا۔
وہ بہتے آنسووْں کے ساتھ و اپس کلاس میں نہیں گئی بلکہ مین گیٹ سے نکل کر گھر کی راہ پر قدم رکھ دئیے تھے۔ رستہ طویل ہو گیا تھا۔ گلے میں پھانس سی اٹک گئی۔ اس نے آج پہلی مرتبہ ہاتھ جوڑے تھے اور کون جانتا ہے کہ ہاتھ سب ہی کو جوڑنے پڑتے ہیں جو اپنی خوشی سے نہیں جوڑتا اس سے تقدیر ہاتھ جڑواتی ہے۔ جو اللہ کے سامنے نہیں جوڑتا اسے بندوں کے سامنے جوڑنے پڑ جاتے ہیں ۔
سر برہان نے اسے گھر جاتے ہوئے تاسف سے دیکھا وہ جانتے تھے اب یہ کبھی واپس نہیں آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک خوشبو
جو میرے وجود کے اندر
صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اتری ہے
کرن کرن میری سوچوں میں جگمگاتی ہے
آفتاب گھر آیا مٹھی میں شاپر چھپا ہوا تھا۔وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اپنے کمرے میں جا پہنچا ۔دروازے کی چٹخنی چڑھائی اور اپنی ہانپتی کانپتی سانسوں کو بمشکل قابو کرنے کی کوشش کی ۔ہاتھ میں دبا کر رکھے ہوئے شاپر کو چہرے کے قریب لے کر گیا تو کسی کی خوشبو نے بمشکل قابو ہوئی سانسوں میں پھر سے طغیانی کو دعوت دے دی ۔
وہ بیڈ کے آخری سرے پر بیٹھاتھا۔ اسے لکڑی بھی چبھتی ہوئی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ اگر وہ چاہتا تو پاوْں والی طرف بیٹھنے کے بجائے نرم بستر پر بیٹھ جاتا لیکن اس میں تو وقت لگتا تھا صبر کہاں سے آتا۔ کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے شاپر سے اسکارف نکالا ۔
پسینے کے ننھے قطرے اس کی پیشانی پر چمک رہے تھے۔ صبیح رنگت شدتِ ضبط سے سرخ ہو رہی تھی۔ اس کے محسوسات بدل رہے تھے ۔اس نے شاپر سے اسکارف کو نکال کر دونوں مٹھیوں میں بھینچ رکھا تھا ۔وہ اسے اپنے چہرے کے قریب لے جانا چاہتا تھا لیکن لے جا نہیں پا رہا تھا۔ اسکارف سے ٹھیک ویسی ہی خوشبو اٹھ رہی تھی جو اس کے وجود سے آیا کرتی تھی۔
جب وہ اس کے پاس آرٹ کونسل میں بیٹھی تھی تو گہرے گہرے سانس لے کر وہ اسی خوشبو کو زائل کر رہا تھا ۔
اسی خوشبو کا سحر تھا جو اس کی آنکھیں نم کر دیتا اور وہ کمرے سے نکل جاتا تھا ۔
اسی خوشبو کی ڈالی ہوئی لگام تھی کہ ا س کا رخ پیکرِخوشبو کے سوا کہیں نہ جاتا ۔
یہ خوشبو ہی تھی جو اسے پاگل کر دیتی تھی ۔
مد ہوش کرنے والی خوشبو۔۔۔ رگوں میں بہتے خون میں شامل ہوتی خوشبو ۔۔۔ سر پر چڑھتی ہوئی خوشبو۔۔۔سر چڑھ کر بولتی خوشبو!
اس نے مٹھیوں میں بھینچے اسکارف کو اپنے چہرے کے قریب کیا اور لمبے لمبے سانس بھرنے لگا۔ اب ا س کی ستواں ناک اور اسکارف کے درمیان ہوا بھی حائل نہ تھی۔
کمرہ جماعت سے وہ باہر نکل سکتا تھا ۔آرٹ کونسل میں لمبے لمبے سانس بھر سکتا تھا لیکن یہاں سے کہاں جاتا۔ اپنے بند کمرے سے کہاں جاتا ۔اس نے خود کو خوشبو کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اسے احساس ہوا کے نکاح اس نے ڈھائی سال پہلے چھ جون کی رات کوکیا تھا لیکن بالغ آج ہوا ہے ۔
پاکیزہ نے اس کی ساری بے چینیاں سن کر نچلے لب کو دانتوں سے اتنی زور سے کاٹا کہ وہ رسنے لگ گیا ۔اتنی دیوانگی سننے کے بعد وہ جتا کچھ نہیں سکتی تھی ،صرف بتا سکتی تھی ۔
ڈھکے چھپے لفظوں میں اس نے سر برہان سے ہوئی گفتگو بتا دی۔ اب ان دونوں کی زندگی سے سکول نکل گیا تھا ۔
وہ جگہ جہاں وہ دونوں پہلی بار ملے تھے ۔۔۔وہ جگہ اب درمیان میں نہیں تھی۔
اب وہ دونوں تھے۔۔۔
فقط وہ دونوں۔۔۔
ہواوْں سے اوپر ۔۔۔
کہیں دور۔۔۔
بادلوں کی گود میں۔۔۔
ایک ساتھ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔