زینب اور اس کے میاں اسلم یورپ سے لے کر مشرق وسطیٰ تک کے کئی ملکوں کی سیاحت کر چکے تھے۔ مگر اس بار وزٹ ویزے پر خلیجی ملک تک کا سفر انہیں ایسا لگ رہا تھا گویا ان کے جسم میں دل نہیں بلکہ لاکھوں امنگیں ایک ساتھ دھڑک رہی ہوں۔ زینب ساری تیاریاں مکمل کر کے اپنی بہو اور پوتوں کے تحائف بڑی احتیاط سے پیک کر رہی تھی کہ اس کے بیٹے مون کا فون آ گیا۔
پوچھنے لگا؛ امی جی ! ساری تیاری مکمل ہے نا؟ اچھا آتے ہوئے دو سو کے قریب مٹی کی ٹھوٹھیاں لیتی آئیں۔ کھیر کا اصل مزہ تو مٹی کی ٹھو ٹھی میں ہی آتا ہے۔
وہ کہنی لگی! ارے بیٹا مٹی کی ٹھو ٹھی۔
پھر کچھ یاد کر کے مسکرائی اور کہنے لگی؛ تم انگلینڈ میں پڑھے ‘کینڈین نیشنل ہو…اور کھیر ابھی تک مٹی کی ٹھو ٹھی میں پسند ہے۔ مگر دو سو۔ اتنی کیا کرنی ہیں ؟
رمضان میں افطار پارٹیوں پر کام آئیں گی، مون نے جواب دیا۔
زینب بہت زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی مگر بہت با شعور، مہذب اور وقت کے ساتھ چلنے والی خاتون تھی جو رہتی تو شہر کے پرانے محلے میں تھی مگر ٹھاٹھ باٹھ کسی سے کم نہ تھے۔ میاں بیوی کی بہت اچھی ذہنی ہم آہنگی تھی۔
ان کے خاندان کے کچھ افراد انگلینڈ میں عرصے سے آباد تھے۔ اسلم کے بڑے بھائی بھی وہیں کے ہو رہے مگر سال دو سال بعد اپنی انگریز بیگم کے ہمراہ بسنت پر لاہور ضرور آتے۔
زینب کی جیٹھانی لیزا محلے بھر کی مرکز نگاہ رہتی۔ زینب لیزا سے پنجابی میں بات کرتی اور وہ انگریزی میں جواب دیتی۔ دونوں کی گفتگو دیکھنے والوں کے لیے کسی دلچسپ مکالمے سے کم نہ ہوتی۔ زینب اور اسلم بھی دو بار وزٹ ویزے پر انگلینڈ اور یورپ کی سیر کر چکے تھے۔
انگلینڈ جیسے سرد ملک میں رہنا ان کے لیے ایک آزمائش سے کم نہ تھا۔ زینب کو سمندر سے خوف آتا تھا مگر لیزا ہر ہفتے کسی نہ کسی بیچ کا پروگرام بنا لیتی۔ وہ ہر بار کہتی کہ یہاں جب بھی گھر سے نکلتے ہیں جس طرف بھی جائیں بالآخر سمندر ہی سامنے آ جاتا ہے۔ وہ ساحل سمندر پر بیٹھنے سے اکتاہٹ محسوس کرتی۔ اس کے جیٹھ مسکراتے ہوئے کہتے کی لاہور والوں کا کبھی کہیں اور دل نہیں لگ سکتا۔
ان کے دونوں بیٹے تایا کی مدد سے انگلینڈ کی بہترین درسگاہوں میں زیر تعلیم تھے۔ زینب کے اپنے جیٹھ اور جیٹھانی سے بہت خوشگوار تعلقات تھے۔ وہ جینریشن گیپ کی بڑی مخالف تھی۔ ہمیشہ کہتی کہ بڑوں کو نئی نسل کے مسائل سمجھنا چاہیں اور بات چیت سے، تیزی سے بدلتے وقت کے ساتھ تھوڑا خود کو بھی بدلنے سے یہ گیپ ختم ہو سکتا ہے۔
مگر لیزا کے ساتھ اتنے اچھے تعلقات کے باوجود زینب کے دل میں ایک خلش سی رہتی۔ اسے اپنے جیٹھ کے لا دین ہو جانے کا بہت افسوس تھا۔ لیزا اور اس کی دونوں بیٹیاں پروٹسٹنٹ کرسچیئن تھیں۔ اور زینب کا خیال تھا کہ لیزا سے شادی کے بعد ہی وہ کسی بھی دین کا پیروکار نہ رہا۔
انگلینڈ میں قیام کے دوران ہی اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے بیٹوں کی شادیاں پاکستان میں ہی کرے گی تاکہ وہ جہاں بھی رہیں اپنے مذہب اور ثقافت کو فراموش نہ کریں۔
دونوں بیٹے تعلیم مکمل کرنے کی بعد کینیڈا کی شہریت حاصل کر چکے تھے۔ بڑے بیٹے کو ایک معروف پیٹرو کیمیکل کمپنی میں نوکری ملی تو وہ ایک خلیجی ملک میں منتقل ہو گیا۔ اگرچہ اس بوڑھے جوڑے کا بڑھاپا اکیلے ہی گزر رہا تھا مگر وہ بہت خوش تھے کی اپنے بچوں کو ایک اچھا اور محفوظ مستقبل فراہم کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
زینب اور اسلم کا بیٹے کے پاس جانے میں اصل جوش و خروش اپنے دونوں پوتوں سے ملنے کی خوشی میں تھا۔ دو سال سے وہ لوگ سالانہ چھٹیوں میں لوڈ شیڈنگ سے گھبرا کر پاکستان آنے کی بجائے کینیڈا چلے جاتے تھے۔ جب سے ویزہ آیا تھا ان کا دل بلیوں اچھل رہا تھا ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ اڑ کر پہنچ جائیں۔ اللہ اللہ کر کے انتظار کے دن کٹے اور وہ مٹی کی ٹھوٹھیوں سمیت ہزاروں آرزوؤں کو اپنی بوڑھی گٹھریوں میں باندھے عازم سفر ہوئے۔
وسیع و عریض خطے پر پھیلی تیل کی تنصیبات کے ساتھ منسلک کالونی دنیا کی بہترین سہولیات سے مزین تھی۔ اپنے والدین کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنے کے لیے مون نے اپنے گھر میں ایک بڑے کمرے کی تزئین و آرائش کرائی تھی۔ نیا فرنیچر پردے اور ان کی پسند کی کئی چیزوں کے علاوہ دو قیمتی موبائل فون بھی لا کر پہلے سے ہی رکھ چھوڑے تھے –
اسلم اور زینب کی بہو بیٹے سے ملنے کی خوشی دیدنی تھی۔ جب وہ پہنچے تو رمضان کا مہینہ تھا اور روز ہی کسی نہ کسی گھر سے افطار پارٹی کا دعوت نامہ موجود تھا۔ کتنے ہی برسوں بعد عید اپنے بچوں کے ساتھ منا نے کا جوش خروش الگ سے تھا۔
مون رات گئے گھر واپس آتا اور انہیں جہاں بھی جانا ہوتا، اپنی بہو کے ساتھ جاتے۔ جس نے سارا دن گھر داری کے علاوہ بچوں کو سکول چھوڑنے اور لانے کا کام بھی کرنا ہوتا۔ دونوں بچے امریکن سکول میں زیر تعلیم تھے۔ پردیس کی مصروف زندگی میں کچھ ہی دنوں میں وہ خود کو پھر سے اکیلا محسوس کرنے لگے۔
زینب اور اسلم کو اصل دھچکا تب لگا جب انہیں محسوس ہوا کہ ان کے دونوں پوتے دادا دادی سے دور دور رہتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ اسلم یا زینب انہیں آواز دیتے تو جواب ندارد۔ زینب اسلم کو پھر وہی تسلی دیتی کہ انہیں بدلتے وقت کے تقاضوں کو سمجھنا چاہیے۔ اور انہیں خود بچوں کے ساتھ گھلنے ملنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
بچوں کو ان کے لائے کھلونے کچھ خاص متاثر نہ کر سکے۔ ان کے پاس پہلے ہی ڈھیروں برانڈڈ کھلونے اور ان گنت ویڈیو گیمز تھیں جو ان کو سکول کے بعد مصروف رکھنے کے لیے کافی تھیں۔
مگر اسلم کا جی چاہتا وہ بچوں کے ساتھ کھیلے۔ انہیں پتنگ مین تناواں ڈالنا سکھائے، ہا تھ میں بیٹ پکڑ کر شارٹ لگانا سمجھائے۔ یہ سب خواہشیں اس وقت دم توڑ گئیں جب اسے علم ہوا کہ اس کے دونوں پوتے پنجابی تو درکنار اردو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ تب ان دونوں کو ایسا محسوس ہوا گویا کسی نے مٹی کی ٹھوٹیوں میں کسٹرڈ جما کر ان کے آگے رکھ دیا ہو۔
انگلینڈ میں لیزا کے گھر قیام میں ان دونوں نے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کا جو خواب دیکھا تھا یہ اس کی ایسی تعبیر تھی جس پر نہ وہ رو سکتے تھے نہ خوش ہو سکتے تھے۔
انہوں نے اپنی مدھم ہوتی یاد داشت میں سے جتنے انگریزی کے جملے یاد تھے انہیں گرد جھاڑ جھاڑ کر صاف کیا۔ اور پھر سے ایک بار وہی پرانا تہیہ کیا کہ بچوں کے قدم کے ساتھ قدم ملا چلیں گے۔ کوئی جنریشن گیپ نہیں ائے گا۔
مگر بوڑھی ہڈیوں میں اب ڈھنگ سے چلنے کی سکت کہاں تھی کہ قدم سے قدم ملا کر چلتے۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوتوں سے بات کرنے کی کوشش کرتے تو جوابی الفاظ پلے نہ پڑتے مگر آگے سے روکھا سوکھا لہجہ تو سمجھ آ ہی جاتا تھا…۔ بڑھاپے، بیماری اور لینگیوج گیپ پر وہ خود کو بہت ہی بیکار وجود محسوس کرنے لگے۔
اسلم کے گھٹنوں کی تکلیف ایک دم بہت بڑھ گئی تھی۔ راوی کنارے سے لے کر ٹیمز کے قریب ایک ساتھ بسر ہوئے لمحات دونوں کی آنکھوں میں جہاں جگنو بن کر چمکتے وہیں کسی ایک کی دائمی جدا ئی کا تصور بھی سوہان روح بنا ہوا تھا۔ پندرہ بیس دنوں بعد ہی انہوں نے مون سے کہا کہ واپسی کی ٹکٹیں کنفرم کروا دے۔ گھٹنوں کی تکلیف انہیں یہاں قیام نہیں کرنے دے رہی۔ واپس جا کر کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کرائیں گے۔
وطن واپس روانہ ہوتے وقت دونوں کی عجیب جذباتی کیفیت تھی۔ خود کو خاصا سنبھالتے سنبھالتے بھی زینب پوتے کو پیار کرتے وقت آئی لو یو مائی سن کہتے ہوئے بے اختیار رو دی۔
گھر واپس پہنچے تو اگلے ہی دن کمرے کی صفائی کرتے ہوئے ایک مٹی کی ٹھوٹھی جو شاید پیکینگ کرتے وقت میز کے نیچے پڑی رہ گئی تھی اسے نظر آئی۔ زینب نے خاموشی سے وہ ٹھوٹھی اٹھائی اور قیمتی ڈیکوریشن پیسیز کے ساتھ ڈرائینگ روم میں رکھ دی۔
٭٭٭