(Last Updated On: )
مونا لیزا کی مسکراہٹ میں کیا بھید ہے؟
اس کے ہونٹوں پر یہ شفق کا سونا، سورج کا جشن طلوع ہے یا غروب ہوتے ہوئے آفتاب کا گہرا ملال؟ ان نیم وا متبسم ہونٹوں کے درمیان یہ باریک سی کالی لکیر کیا ہے؟ یہ طلوع و غروب کے عین بیچ میں اندھیرے کی آبشار کہاں سے گر رہی ہے؟ ہرے ہرے طوطوں کی ایک ٹولی شور مچاتی امرود کے گھنے باغوں کے اوپر سے گزرتی ہے۔ ویران باغ کی جنگلی گھاس میں گلاب کا ایک زرد شگوفہ پھوٹتا ہے۔ آم کے درختوں میں بہنے والی نہر کی پلیا پر سے ایک ننگ دھڑنگ کالا لڑکا ریتلے ٹھنڈے پانی میں چھلانگ لگاتا ہے اور پکے ہوئے گہرے بسنتی آموں کا میٹھا رس مٹی پر گرنے لگتا ہے۔
سینما ہال کے بک سٹال پر کھڑے میں اس میٹھے رس کی گرم خوشبو سونگھتا ہوں اور ایک آنکھ سے انگریزی رسالے کو دیکھتے ہوئے دوسری آنکھ سے ان عورتوں کو دیکھتا ہوں جنہیں میں نے فلم شروع ہونے سے پہلے سب سے اونچے درجوں کی ٹکٹوں والی کھڑکی پر دیکھا تھا۔ اس سے پہلے انہیں سبز رنگ کی لمبی کار میں نکلتے دیکھا تھا اور اس سے پہلے بھی شاید انہیں کسی خواب کے ویرانے میں دیکھا تھا۔ ایک عورت موٹی، بھدی، جسم کا ہر خم گوشت میں ڈوبا ہوا، آنکھوں میں کاجل کی موٹی تہہ، ہونٹوں پر لپ سٹک کا لیپ، کانوں میں سونے کی بالیاں، انگلیوں پر نیل پالش، کلائیوں میں سونے کے کنگن، گلے میں سونے کا ہار، سینے میں سونے کا دل، ڈھلی ہوئی جوانی، ڈھلا ہوا جسم، چال میں زیادہ خوشحالی اور زیادہ خوش وقتی کی بیزاری، آنکھوں میں پرخوری کا خمار اور پیٹ کے ساتھ لگایا ہوا بھاری زرتار پرسدوسری لڑکیالٹرا ماڈرن، الٹرا سمارٹ، سادگی بطور زیور اپنائے ہوئے، دبلی پتلی، سبز رنگ کی چست قمیض، کٹے ہوئے سنہرے بال، کانوں میں چمکتے ہوئے سبز نگینے، کلائی میں سونے کی زنجیر والی گھڑی اور دوپٹے کی رسی گلے میں، گہرے شیڈ کی پنسل کے ابرو، آنکھوں میں پرکار سحرکاری، گردن کھلے گریبان میں سے اوپر اٹھی ہوئی، دائیں جانب کو اس کا ہلکا سا مغرور خم، ڈورس ڈے کٹ کے بال، بالوں میں یورپی عطر کی مہک، دماغ گزری ہوئی کل کے ملال سے نا آشنا، دل آنے والی کل کے وسوسوں سے بے نیاز، زندگی کی بھر پور خوشبوؤں اور مسرتوں سے لبریز جسم، کچھ رکا رکا سا متحرک سا، کچھ بڑبڑاتا ہوا۔ اس دودھ کی طرح جسے ابال آنے ہی والا ہو۔ سر اینگلو پاکستان، لباس پنجابی، زبان انگریزی اور دل نہ تیرا نہ میرا۔
بک اسٹال والا انہیں اندر داخل ہوتے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کٹھ پتلی کی طرح ان کے آگے پیچھے چکر کھانے لگا۔ اس نے پنکھا تیز کر دیا۔ کیونکہ لڑکی بار بار اپنے ننھے ریشمی رومال سے ماتھے کا پسینہ پونچھ رہی تھی۔ موٹی عورت نے مسکرا کر پوچھا۔
“آپ نے “لک” اور وہ “ٹریو سٹوری” نہیں بھجوائے۔
سٹال والا احمقوں کی طرح مسکرانے لگا۔
“وہ جب اب کے ہمارا مال راستے میں رک گیا ہے۔ بس اس ہفتے کے اندر اندر سرٹنلی بھجوا دوں گا۔” موٹی عورت نے کہا۔
“پلیز، ضرور بھجوا دیں۔”
لڑکی نے فوٹو گرافی کا رسالہ اٹھا کر کہا۔
“پلیز اسے پیک کر کے گاڑی میں رکھوا دیں۔”
بک سٹال والا بولا۔
“کیا آپ انٹرول میں جا رہی ہیں۔”
موٹی عورت بولی۔
“یسپکچر بڑی بور ہے۔”
انہوں نے ساڑھے تین روپے کے ٹکٹ لئے تھے۔ پکچر پسند نہیں آئی۔ لمبی کار کا دروازہ کھول دیا اور کار دریا کی پرسکون لہروں کی طرح سات روپوں کے اوپر سے گزر گئی۔ وہ سات روپے جن کے اوپر سے لوہاری دروازے کے ایک کنبے کے پورے سات دن گزرتے ہیں۔
اور لوہاری دروازے کے باہر ایک گندہ نالہ بھی ہے۔ اگر آپ کو اس کنبے سے ملنا ہو تو اس گندے نالے کے ساتھ ساتھ چلے جائیں۔ ایک گلی دائیں ہاتھ کو ملے گی۔ اس گلی میں سورج کبھی نہیں آیا لیکن بدبو بہت آتی ہے۔ یہ بدبو بہت حیرت انگیز ہے۔ اگر آپ یہاں رہ جائیں تو یہ غائب ہو جائے گی۔ یہاں صغراں بی بی رہتی ہے۔ ایک بوسیدہ مکان کی کوٹھڑی مل گئی ہے۔ دروازے پر میلا چیکٹ بوریا لٹک رہا ہے، پردہ کرنے کے لئے جس طرح نئے ماڈل کی شیور لیٹ کار میں سبز پردے لگے ہوتے ہیں۔ صحن کچا اور نم دار ہے۔ ایک چارپائی پڑی ہے۔ ایک طرف چولہا ہے۔ اوپلوں کا ڈھیر ہے۔ دیوار کے ساتھ پکانے والی ہنڈیا مٹی کا لیپ پھیرنے والی ہنڈیا اور دست پناہ لگے پڑے ہیں۔ ایک سیڑھی چڑھ کر کوٹھڑی کا دروازہ ہے۔ کوٹھڑی کا کچا فرش سیلا ہے۔ در و دیوار سے نم دار اندھیرا رس رہا ہے۔ سامنے دو صندوق ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہیں۔ صندوق کے اوپر صغراں بی بی نے پرانا کھیس ڈال رکھا ہے۔ کونے میں ایک ٹوکرا لٹا رکھا ہے۔ جس کے اندر دو مرغیاں بند ہیں۔ دیوار میں دو سلاخیں ٹھونک کر اوپر لکڑی کا تختہ رکھا ہے۔ اس تختے پر صغراں بی بی نے اپنے ہاتھ سے اخبار کے کاغذ کاٹ کر سجائے ہیں اور تین گلاس اور چار تھالیاں ٹکا دی ہیں۔ اندر بھی ایک چارپائی بچھی ہے۔ اس چارپائی پر صغراں بی بی کے دو بچے سو رہے ہیں۔ دو بچے اسکول پڑھنے گئے ہیں۔ صغراں بی بی بڑی گھریلو عورت ہے۔ بالکل آئیڈیل قسم کی مشرق عورت۔ خاوند مہینے کی آخری تاریخوں میں پٹائی کرتا ہے تو رات کو اس کی مٹھیاں بھرتی ہے۔ وہ لات مارتا ہے تو صغراں بی بی اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیتی ہے۔ کہیں خاوند کے پاؤ ں کو چوٹ نہ آ جائے۔ کتنی آئیڈیل عورت ہے یہ صغراں بی بی یقیناً ایسی ہی عورتوں کے سر پر دوزخ اور پاؤں کے نیچے جنت ہوتی ہے۔ خاوند ڈاکیہ ہے۔ ساٹھ روپے کی کثیر رقم ہر مہینے کی پہلی کو لاتا ہے۔ پانچ روپے کوٹھڑی کا کرایہ، پانچ روپے دونوں بچوں کے اسکول کی فیس، بیس روپے دودھ والے کے اور تیس روپے مہینے بھر کے راشن کے باقی جو پیسے بچتے ہیں ان میں یہ لوگ بڑے مزے سے گزر بسر کرتے ہیں۔ کبھی کبھی صغراں بی بی ساڑھے تین روپوں والی کلاس میں بیٹھ کر فلم بھی دیکھ آتی ہے اور اگر پکچر بور ہو تو انٹرول میں اٹھ کر لمبی کار میں بیٹھ کر اپنے گھر آ جاتی ہے۔ بک سٹال والا ہر مہینے انگریزی رسالہ “لک” اور “لائف” اسے گھر پر ہی پہنچا دیتا ہے۔ وہ کھانے کے بعد میٹھی چیز ضرور کھاتی ہے۔ دودھ کی کریم میں ملے ہوئے انناس کے قتلے صغراں بی بی اور اس کے خاوند ڈاکئے کو بہت پسند ہیں۔ کریم کو محفوظ رکھنے کے لئے انہوں نے اپنی کوٹھڑی کے اندر ایک ریفریجریٹر بھی لا کر رکھا ہوا ہے۔ صغراں بی بی کا خیال ہے کہ وہ اگلی تنخواہ پر کوٹھڑی کو ائرکنڈیشنڈ کروا لے کیونکہ گرمی حبس اور گندے نالے کی بدبو کی وجہ سے اس کے سارے بچوں کے جسموں پر دانے نکل آتے ہیں اور رات بھر انہیں اٹھ اٹھ کر پنکھا جھلتی رہتی ہے۔ صغراں بی بی نے ایک ریڈیو گرام کا آرڈر بھی دے رکھا ہے۔
مائی گاڈ وھاٹ اے لولی ہوم از دس۔ ہوم! سویٹ ہوم!
(My God! What a lovely home is this۔ Home، Sweet Home!)
صغراں بی بی کا رنگ ہلدی کی طرح ہے اور ہلدی ٹی بی کے مرض میں بے حد مفید ہے۔ اس کے ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں ہیں۔
مہینے کے آخر میں جب اس کا خاوند اسے پیٹتا ہے تو ان میں سے اکثر ٹوٹ جاتی ہیں۔ چنانچہ اب وہ اس ہر ماہ کے خرچ سے بچنے کے لئے سونے کے موٹے کنگن بنوا رہی ہے۔ کم از کم وہ ٹوٹ تو نہیں سکیں گے۔ صغراں بی بی کے چاروں بچوں کا رنگ بھی زرد ہے اور ہڈیا ں نکلی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے انہیں کیلشیم کے ٹیکے لگاؤ۔ ہر روز صبح مکھن، پھل، انڈے، گوشت اور سبزیاں دو۔ شام کو اگر یخنی کا ایک ایک پیالہ مل جائے تو بہت اچھا ہے اور ہاں انہیں جس قدر ممکن ہو گندے کمروں، بد بو دار محلوں اور اندھیری کوٹھڑیوں سے دور رکھو۔ صغراں بی بی کا خیال ہے کہ وہ اگلی سے اگلی تنخواہ پر گلبرگ یا کینال پارک میں کسی جگہ ان بچوں کے لئے زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا لے کر وہاں ایک چھوٹا سا تین چار کمروں والا مکان بنوا لے گی۔ دو چھوٹے بچے اب اسکول بھی نہیں جاتے لیکن انشاءاللہ تعالیٰ وہ بھی ایک دن سکول جانا شروع کر دیں گے اور جو دو بچے مزید پیدا ہوں گے وہ بھی سکول ضرور جائیں گے۔ اب کی دفعہ وہ انہیں کانونٹ میں داخل کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جہاں وہ ہر صبح خدا کے بیٹے کی دعا پڑھیں۔ صغراں بی بی کو ممی کہیں، فرفر انگریزی بولیں اور اردو فارسی پڑھ کر تیل بیچنے کی بجائے مقابلے کے امتحان میں بیٹھیں اور اونچا مرتبہ اور لمبی کار اور چوڑے لان والی کوٹھی پائیں۔
کیلشیم کے ٹیکوں کا پورا سیٹ بیس روپے میں آتا ہے۔ یہ تو معمولی بات ہے۔ اب کی وہ اپنے خاوند سے کہے گی کہ ڈاک خانے سے پہلی تاریخ کو گھر آتے ہوئے دو سیٹ لیتے آؤ۔ اپنی کوٹھڑی والا ریفریجریٹر اس نے لال لال سیبوں، سرخ اناروں، موٹے انگوروں، مکھن کی ٹکیوں، تازہ انڈوں اور گوشت کے قتلوں سے بھر دیا ہے۔ بچے سارا مہینہ مزے سے کھائیں گے اور موج اڑائیں گے لیکن خدا کی دی ہوئی ہر نعمت کے ہوتے ہوئے بھی صغراں بی بی کے رخسار کی ہڈیاں باہر کو نکلی ہوئی ہیں۔ کمر میں مستقل درد رہتا ہے، چہرہ زرد ہو کر پیلا پر گیا ہے۔ آنکھیں پھٹی پھٹی سی، ویران ویران سی رہتی ہیں۔ ان آنکھوں نے کیا دیکھ لیا ہے؟ اس کی عمر پچیس سال سے زیادہ نہیں۔ مگر اس کا جسم ڈھل گیا ہے۔ اندر ہی اندر گھل گیا ہے۔ ہاتھ کی نسیں ابھر آئی ہیں۔ کنگھی کرتے ہوئے ڈھیروں بال جھڑتے ہیں۔ ہاتھ پیر ہر وقت ٹھنڈے رہتے ہیں جس طرح ریفریجریٹر میں کریم، پھل اور گوشت ٹھنڈا رہتا ہے۔ صغراں بی بی کی شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں اور خاوند نے اسے صرف چار بچے عطا کئے ہیں۔ خدا اسے سلامت رکھے ابھی اور بچے پیدا ہو ں گے۔ ہر پہلی تاریخ کو اس کے خاوند کو صغراں بی بی سے محبت ہو جاتی ہے۔ جب بیس روپے دودھ والا لے جاتا ہے تو محبت کے اس تاج کا ایک برج گرتا ہے۔ پانچ روپے کرایہ جاتا ہے تو دوسرا برج گرتا ہے۔ پھر بچوں کی فیسیں، کاپیاں، پنسلیں، کتابیں، راشن، دال، آٹا، نمک، مرچ، ہلدی، اوپلے، کپڑا، پریشانی، تفکرات، وسوسے، ملال اور نا امیدیاں اور یہ تاج محل گنبد سمیت زمین کے ساتھ آن لگتا ہے اور خاوند اپنی محبت کی پٹاری میں سے ڈنڈا نکال کر اپنی پہلی تاریخ کی محبوبہ کی پٹائی شروع کر دیتا ہے۔
ونڈر فول ہوم!
“ڈیڈی! آج آپ کامک نہیں لائے!”
“او ممی! یہ جیلی گندی ہے اسے پھینک دیں۔”
“کم آن ڈارلنگ صغراں بی بی! آج الحمرا میں کلچرل شو دیکھیں۔ ڈانس، میوزک، وھاٹ اے تھرل! ہنی! بس یہ وائیٹ ساڑھی خوب میچ کرے گی اور اس کے ساتھ بالوں میں سفید موتیے کے پھولوں کا گجراما ئی مائی! یو آر سویٹ ڈارلنگ صغراں بی بی!”
ندی کنارے یہ کاٹیج کس قدر خوبصورت ہے۔ سرسبز لان، ترشی ہوئی گھاس، قطار میں لگے ہوئے پھولوں کے پودےایک ملازم غسل خانے میں لکس صابن سے کتے کو نہلا رہا ہے۔ اس کے بعد تولیے سے اس کا جسم خشک کیا جائے گا۔ کنگھی پھیری جائے گی۔ گلے میں ایپرن باندھا جائے گا اور اسے دو آدمیوں کا کھانا کھلا جائے گا اور پھر فورڈ کار میں بیٹھ کر مال روڈ کی سیر کروائی جائے گی۔ آج اگر گوتم بدھ زندہ ہوتا تو وہ جانوروں کے ساتھ انسانوں کی اتنی شدید محبت کو دیکھ کر کتنا خوش ہوتا۔ آج اسے انسانی دکھوں اور مصیبتوں کو دیکھ کر محل چھوڑ کر جنگل میں جا بیٹھنے کی کبھی بھی ضرورت محسوس نہ ہوتی بلکہ وہ محل ہی میں اپنی بیوی بچے اور اور لونڈیوں کے ساتھ رہتا۔ کتوں کی ایک پوری فوج رکھتا، شام کو کلب میں جا کر دوستوں کے ساتھ تاش کھیلتا، سینما دیکھتا اور بچوں کو ساتھ لے کر انہیں کار میں سیر کرواتا۔ اس کے بچے رنگ دار قمیض اور جینز پہن کر گردن اکڑا کر، چھوٹی سی چھاتی پھلا کر، پتلی سی کمر مٹکا کر، کالج والے بس سٹاپوں، اعلٰی ہوٹلوں اور ناچ گھروں کے چکر لگاتے۔ وہ رات کو ایک بجے سوتے اور صبح منہ اندھیرے گیارہ بجے اٹھتے اور دانت صاف کئے بغیر چائے پیتے، اخبار میں فلموں کا پروگرام دیکھتے۔ گرمیاں کبھی مری اور کبھی سوئٹرز لینڈ میں بسر کرتے اور اپنے باپ کا نام روشن کرتے اور اسے کبھی بال منڈوا کر شاہی لبادہ پھینک کر ننگے پاؤں نروان حاصل کرنے کے لئے جنگل کا رخ نہ کرنے دیتے۔
اف! مائی گڈنس! لوہاری دروازے کی اس گندی گلی میں کس قدر حبس ہے۔ یہ لوگ کیسے چارپائی گندی نالیوں پر ڈال کر سو رہے ہیں۔ وھاٹ اے پٹی! مجھے ان لوگوں سے بڑی گہری ہمدردی ہے۔ میں ان کے تمام مسائل سے واقف ہوں۔ میں ہر ہفتے ان کی پھیکی اور بے رس زندگی پر ایک افسانہ لکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں ان لوگوں کی زندگی پر ایک پر مغز تحقیقی مقالہ لکھ کر سبمِٹ کروا دوں۔ بڑا ونڈر فل سبجیکٹ ہے۔ ڈاکٹریٹ تو وہ پڑی ہے جس طرح وہ کھری چارپائی پڑی ہے، جس پر تین پھنسیوں زدہ بچے اور ایک بچہ زدہ ماں سو رہی ہے۔ میں ناک پر رومال رکھے، پرنالوں سے اپنے اجلے کپڑے بچاتا، ان لوگوں کا گہرا مطالعہ کرتا بدبو دار گلی سے باہر نکل آیا ہوں۔
لاہور میں قیامت کی گرمی پڑ رہی ہے لیکن اس ہوٹل کی فضا کس قدر خنک ہے، ائیرکنڈیشنر بھی خدا کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ آج ہوٹل میں بڑی رونق ہے۔ سایہ دار دھیمے قمقموں کی ملائم روشنی میں لوگوں کے چہرے کتنے خواب آور دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ کہیں خواب ہی تو نہیں۔ میرا خوابصغراں بی بی کا خواب، اس کے ڈاکئے خاوند کا خواب! ہر ی اوم! وہ پونی ٹیل والی لڑکی کتنی پیار ی ہے اور وہ بلیک ٹشو کی چست قمیض والی دوشیزہ جس کے بالوں میں ریل کے گجرے ہیں، کانوں میں زہریلے رنگ کے نگینے ہیں اور جس کا چہرہ باقاعدہ اور قوت بخش غذاؤں کے اثر سے کھانا کھانے والے چاندی کے چمچ کی طرح چمک رہا ہے اور وہ مرغن چہرے والی موٹی عورت جس کی آدھی آستینوں والی قمیض بازوؤں پر گوشت کے اندر دھنس گئی ہے۔ اس عورت کا چہرہ موم کے بت کی طرح ہے۔ بے حس اور ٹھنڈا۔ اس کی گاڑی چودہ گز لمبی ہے اور غسل خانے کا فرش بارہ مربع گز ہے۔ اس نے ریڈیو گرام جرمنی سے منگوایا ہے۔ قالین ایران سے، عطر فرانس سے، کیمرہ امریکہ سے، خاوند پاکستان سے حاصل کیا ہے۔ جتنے پیسوں کا صغراں بی بی کے ہفتے بھر کا راشن آتا ہے اتنے پیسے یہ بیرے کو ٹپ کر دیتی ہے۔ اس کے بنگلے میں چار کتے اور سات بیرے رہتے ہیں۔ یہ ہمیشہ چاندی کے کافی سیٹ میں کافی پیتی ہے۔ چاندی کے برتنوں میں بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ایک تو انہیں زنگ نہیں لگتا دوسرے وہ نان پوائزنس ہوتے ہیں۔ ایک سیٹ اپنے گھریلو استعمال کے لئے لوہاری دروازے کی گلی والے ڈاکئے کو بھی خرید لینا چاہئے۔
یہ ہوٹل تو بالکل جنت ہے۔ ایک جوڑا سب سے الگ بیٹھا ہے۔ لڑکی دبلی پتلی سی ہے۔ چست کپڑوں نے اسے اور دبلا بنا دیا ہے۔ بال ماتھے پر ہیں۔ ناخنوں پر ریڈ انڈین گلابی رنگ کا پالش چمک رہا ہے۔ اسی شیڈ کی لپ اسٹک کی ہلکی سی تہہ پتلے پتلے ہونٹوں پر ہے۔ چہرے پر نسوانی نزاکت کے ساتھ ساتھ جذبات کا دھیما دھیما ہیجان سا ہے۔ کان اپنے ساتھی کی باتوں پر ہیں اور بے چین آنکھیں موقع ملنے پر ایک ایک میز کا جائزہ لے رہی ہیں۔ لڑکے کی گردن کالی بو اور بارڈر کالر میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ ان کے سامنے کولڈ کافی کے گلاس ہیں۔
“روشی ڈارلنگ! میں پرومس کرتا ہوں کل سے صنوعی کے ساتھ کوئی کنسرن نہیں رکھوں گا۔”
“شٹ اپ بگ لائرتم مجھ سے فلرٹ کر رہے ہو۔”
“فار گاڈ سیک ڈونٹ تھنک لائیک دیٹآئی نو یو ڈارلنگ!”
“لائیجھوٹ، بالکل جھوٹ۔”
“میں یو کے سے واپس آتے ہی تم سے شادی کر لوں گا۔”
“تم وہاں شادی کر کے آؤ گے۔”
“نونیورتم خود دیکھ لو گی۔ پھر ہم دونوں یو کے چلے جائیں گے اور وہیں جا کر سیٹل ہو جائیں گے۔ میں اس گندے شہر سے بور ہو گیا ہوںبیرا!”
“یس سر۔”
“ایک کریم پف”
“یس سر۔”
“ووڈ یو لائیک مور ڈارلنگ؟”
“نو تھینک یو”
میں بھی سوچ رہا ہوں کہ یو کے جا کے سیٹل ہو جاؤں۔ میں بھی اپنی گندی گلیوں سے بور ہو گیا ہوں۔ شاید میں صغراں بی بی اور اس کی گلی میں کھڑی چارپائی پر ماں کے ساتھ سونے والے پھنسی زدہ بچوں کو بھی لیتا جاؤں۔
“بیراتھری سکویش مور۔”
اوپر گیلری کو جانے والی سیڑھیوں کے پاس والی میز پر تین میڈیکل سٹوڈنٹ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ گفتگو برشی باردوت کے کولھوں، ایگا تھا کرسٹی کے ناولوں اور پکاڈلی کی پر اسرار گلیوں سے ہو کر میڈیکل پیشے میں آ کر ٹھہر گئی ہے۔
“یار! میں تو فائنل سے نکل کر سیدھا لندن چلا جاؤں گا۔ یہاں کوئی فیوچر نہیں ہے۔”
“بالکلمیں بھی وہیں جا کر پریکٹس کروں گا۔ برادر وہاں پیسہ بھی ہے اور مریض بھی بڑے پالشڈ ہوتے ہیں۔”
“یار میں تو یو کے جا کر کینسر ٹریٹمنٹ میں سپیشلائز کروں گا۔ یہاں کینسر سپیشلسٹ کے بڑے چانسز ہیں۔ بیس روپے فیس رکھوں گا اور ایک سال بعد اپنا کریم کلر کی ففٹی ایٹ ماڈل شو ہو گی اور گلبرگ میں ایک کوٹھی”
“بھئی یار تم نے ہل مین کیوں بیچ دی؟”
“چھکڑا ہو گئی تھی۔ آئل بڑا کھانے لگی تھی۔”
“شی!مس قریشی آ رہی ہے۔”
“صدیقی! تم نے اس کی بڑی بہن مسز ارشاد کو پرسوں گرفن میں دیکھا تھا؟ ارے بھئی۔ تم ساتھ ہی تو تھے۔ کیا کلاس ون عورت ہے۔”
“نو ڈاؤٹبالکل لولو بریجڈا”
سب لوگ پاکستان سے باہر جا رہے ہیں۔ کوئی برشی باردوت کے پاس، کوئی لولو بریجڈا کے پاس، کسی کو بیوی لئے جار ہی ہے، کوئی بیوی کو لئے جا رہا ہے، کسی کو پیسہ کھینچ رہا ہے اور کسی کو پالشڈ قسم کے مریض۔ ہم لوگ کہاں جائیں؟ میرا بھائی ڈاکیہ کہاں جائے گا؟ صغراں بی بی کہا ں جائے گی؟ اس کے بیمار بچوں کا علاج کون کرے گا؟ مثانے کی بیماری میں نیم حکیم سے گردے کی درد کی دوا کھا جانے والے دیہاتی کہاں جائیں گے؟ ان لوگوں کا علاج پاکستان میں کون کرے گا؟ کونے والی میز پر ایک پاکستانی آدمی امریکیوں کی طرح کندھے اچکا کر اپنے ساتھی کو کہہ رہا ہے۔ “بڑی پرابلم بن گئی ہے۔”
“کیسی پرابلم؟”۔
سب ڈرائینگ روم لورز ہیں، ٹھنڈی نشست گاہوں میں، انناس کے قتلے اور کولڈ کافی کا گلاس سامنے رکھ کر محبت کی سرد آہیں بھرنے والے عاشق ہیں۔ یوکلپٹس کی پتیوں کا فرنچ عطر کانوں پر لگا کر کہانیاں لکھنے والے افسانہ نگار ہیں۔ قوم، مذہب، ملت اور سیاست کے نام پر اپنی گاڑیوں میں پٹرول ڈلوانے والے اور اپنی کوٹھیوں میں نئے کمرے بنوانے والے درد مندانِ قوم ہیں۔ عشرت انگیزی ہے، تصنع آمیزی ہے، زر پرستی ہے، خود پسندی ہے، جعلی سکے ہیں کہ ایک کے بعد بنتے چلے جا رہے ہیں۔ روشنی کے داغ ہیں کہ ایک کے بعد ایک ابھرتے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں صغراں بی بی کے بچوں کی پھنسیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ انہیں اس کے ڈاکیے خاوند کے تاج محل کی بربادی کا کوئی علم نہیں۔ انہیں کھرّی چارپائی پر گندے نالے کے پاس رات بسر کرنے والوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ دھان زمین میں اگتا ہے یا درختوں پر لگتا ہے انہیں کوئی خبر نہیں۔ یہ اپنے ملک میں اجنبی ہیں۔ یہ اپنے گھر میں مسافر ہیں۔ یہ اپنوں میں بیگانے ہیں۔ چیک بک، پاسپورٹ، کار کی چابی، کوٹھی اور لائسنسیہی ان کا پاکستان ہے۔ یہ وہ باسی کھانے ہیں جن کی تازگی ریفریجریٹر بھی برقرار نہ رکھ سکا۔ یہ دو سورجوں کے دمیان کا پردہ ہیں۔ یہ کھلے ہوئے متبسم لبوں کے درمیان تاریک لکیر ہیں۔ یہ اس غار کے منہ پر تنا ہوا جالا ہیں جہاں چاند طلوع ہو رہا ہے
اب رات آسمان کی راکھ میں سے تاروں کے انگارے کریدنے لگی ہے۔ لوہاری دروازے کی تنگ و تاریک گلی میں حبس ہے، بدبو ہے، گرمی ہے، مچھر ہیں، پسینہ ہے، ٹوٹی پھوٹی کھڑی چارپائیوں کی بینگی ٹیڑھی قطاریں ہیں، نالیوں پر جمی ہوئی گندگی ہے۔ چارپائیوں سے نیچے لٹکتی ہوئی گلی کے فرش پر لگی ہوئی ٹانگیں ہیں۔ کمزور باسی چہرے ہیں۔ پھٹے پھٹے ہونٹ ہیں۔ صغراں بی بی اپنے چاروں بچوں کو پنکھا جھل رہی ہے۔ کوٹھڑی میں حبس کے مارے دم گھٹا جا رہا ہے۔ گندے نالے والی کھڑکی میں گرم ایشیائی رات کے سبز چاند کی جگہ اوپلوں کا ڈھیر پڑا سلگ رہا ہے۔ اس کاڈاکیہ خاوند پاس ہی پڑا خراٹے لے رہا ہے۔ پنکھا جھلتے جھلتے اب صغراں بی بی بھی اونگھنے لگی ہے۔ اب پنکھا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑا ہے۔ اب کمرے میں اندھیرا ہے۔ خاموشی ہے۔ چار بچوں کے درمیان سوئی ہوئی مٹی کی مونا لیزا کے ہونٹ نیم وا ہیں۔ چہرہ کھنچ کر بھیانک ہو گیا ہے۔ آنکھوں کے حلقے گہرے ہو گئے ہیں اور رخساروں پر موت کی زردی چھا گئی ہے۔ اس پر کسی ایسے بوسیدہ مقبرے کا گمان ہو رہا ہے، جس کے گنبد میں دراڑیں پڑ گئی ہوں، جس کے تعویذ پر کوئی اگر بتی نہ سلگتی ہو اور جس کے صحن میں کوئی پھول نہ کھلتا ہو۔