دھماکا اتنا زبردست تھا کہ پورا شہر لرز گیا۔ پولیس اسٹیشن پر موجود فوجیوں کے اعضاء ہوا میں بکھر گئے۔ چاروں طرف ہاہاکار مچ گئی۔ سب کے چہروں پر ایک ہی سوال تھا، وہ کون تھا؟۔۔
۔۔سردی کی رات اور بھی طویل ہو جاتی ہے جب آنکھوں میں نیند نہ ہو۔ عبد اللہ بھی بیوی اور دو جوان ہوتے ہوئے بچّوں کے ساتھ سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ پورا شہر تاریکی میں ڈوب چکا تھا۔ ماؤں، بچّوں اور بوڑھوں کی سسکیاں اندھیرے میں کھو گئی تھیں۔ جنگ کے خاتمے کے اعلان کو کئی ماہ بیت چکے تھے لیکن گولیوں کی آوازیں اب بھی اندھیروں کو چیرتی ہوئی سنائی دیتی تھیں اور ان گولیوں کی آوازوں سے ہر خُرد و کلاں سہم جاتا تھا۔ ہر گولی ہر فرد کو اپنی جانب آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ خوف اتنا کیوں تھا، زندگی اتنی تنگ کیوں ہو گئی تھی۔ حملہ آوروں نے کہا تھا کہ ہم نے تمہارے ملک کو آزاد کرانے کے لئے یہ قدم اُٹھایا ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے جہاں زندگی گناہگار کی قبر کی طرح تنگ ہو گئی ہے۔ یوسف نے عبد اللہ سے استفسار کیا:
’’بابا کیا ہم پہلے غلام تھے؟‘‘
’’نہیں تو‘‘ عبد اللہ نے بستر پر لیٹے ہوئے جواب دیا۔
’’لیکن سمندر پار سے آنے والی فوج نے کہا تھا کہ ہم تمہیں آزادی دلانے آئے ہیں۔‘‘
یوسف کی اس بات پر عبد اللہ خاموش رہا۔ شاید اُسے دیواروں کے کانوں کا علم تھا۔ سکینہ یوسف کی، بہن جو سونے کی کوشش کر رہی تھی، کہنے لگی:
’’بابا اب ہمارا حاکم کون ہے؟ معز ول حاکم تو فوج کی گرفت میں ہے۔‘‘
عبد اللہ اب بھی خاموش رہا۔ یوسف پھر کہنے لگا:
’’سکینہ تم نے یونان کے بادشاہ سکندر کا وہ قصہ سنا ہے؟‘‘
’’کون سا؟‘‘
’’جب اس نے ہند کے بادشاہ پورس کو گرفتار کیا تھا‘‘
’’ہاں ہاں مجھے یاد ہے جب وہ زنجیروں میں جکڑ کر سکندر کے سامنے لایا گیا تو سکندر نے اس سے سوال کیا۔ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔‘‘ سکینہ قصّہ دُہرانے لگی۔ یوسف نے مکمل کیا:
’’پورس نے جواب دیا تھا کہ جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے اور سکندر نے اس بات پر اس کی حکومت واپس کر دی تھی۔ بابا آجکل ایسے بادشاہ کیوں نہیں ہوتے؟‘‘
’’وہ سکندر اعظم تھا، بہادر تھا اور بہادروں کی قدر کرتا تھا۔‘‘ عبد اللہ نے بزرگانہ انداز میں کہا۔
’’ہاں پہلے فوج میدان جنگ میں لڑا کرتی تھی اب شہروں کو بموں کے ذریعہ تباہ کیا جاتا ہے۔ اب آدمی کی آدمی سے نہیں، آدمی کی مشین سے لڑائی ہے۔ اب بہادروں کی نہیں، بزدلوں کی لڑائی ہے۔‘‘ یوسف نے فلسفیانہ طرز اختیار کیا۔ سکینہ تھوڑا سا اُٹھ کر راز دارانہ انداز میں کہنے لگی:
’’سنا ہے سمندر پار والا فاتح حاکم پوشیدہ طور پر رات کے اندھیرے میں کچھ دیر کے لئے ہمارے ملک میں آیا تھا۔ اگر وہ فاتح ہے اور دنیا کا سب سے بڑا طاقتور ہے تو پھر رات کے اندھیرے میں کیوں؟‘‘
’’خاموش رہو۔ تم لوگ بولتے بہت ہو۔ یہاں بولنے کی آزادی نہ پہلے تھی، نہ اب ہے۔‘‘ عبد اللہ نے اس آہستگی سے تنبیہ کی کہ آواز دیواروں تک نہ پہنچے۔
’’ہم سب اس وقت بہت مشکل میں ہیں۔ ہمارا شہر بھی اسلامی حکومت کا مرکز تھا، اب یتیم و یسیر پڑا ہے۔ بھائی بھائی کو مارنے پر آمادہ ہے۔ معلوم ہے عید الضحیٰ کے دن کتنے لوگ مارے گئے۔ کبھی اس شہر میں، کبھی اس شہر میں۔ قابض فوج کا ایک آدمی مرتا ہے، تو ہمارے پچاس کی موت ہوتی ہے۔ وہ صرف ایک سال میں پانچ سو کی موت سے پریشان ہیں، ہم نے اس مدّت میں ہزاروں بچّے ، بوڑھے جوان کھو دیئے، پورا ملک تباہ ہو گیا۔‘‘
عبد اللہ کی ان باتوں سے اندھیرا اور گہرا ہو گیا۔ یوسف اور سکینہ تقریباً اُٹھ کر بیٹھ گئے۔
عبد اللہ کہہ رہا تھا:
’’جب کوئی خود کش حملہ ہوتا ہے تو ہمارے بھائی مارے جاتے ہیں اور جب فوج کی گولیاں چلتی ہیں، تو ہمارے بھائی مارے جاتے ہیں، نقصان تو ہر حال میں ہمارا ہے۔ خدا جانے کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ تعاون اور عدم تعاون دونوں ہی حالات میں موت کا سامنا ہے۔ یہی حال رہا تو بھوکے مر جائیں گے۔‘‘
’’بابا خود کش حملہ کیوں ہوتا ہے۔‘‘ سکینہ نے بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا۔
’’بے بسی اور مجبوری کی حالت میں‘‘
’’لیکن خود کشی تو حرام ہے‘‘
’’سب جانتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا احتجاج ہے‘‘
’’لیکن احتجاج کے بہت سے طریقے ہیں۔ اس طرح تو اپنی جان بھی جاتی ہے۔‘‘
سکینہ جس کے چہرے پر خود کش حملے کے تصور ہی سے خوف کی لہر اُبھر آئی تھی، کہنے لگی:
’’ہاں بیٹا اس طرح بہت دردناک موت ہوتی ہے۔ جسم پُرزے پُرزے ہو کر بکھر جاتا ہے۔‘‘
عبد اللہ کے اس بیان سے سکینہ اور سمٹ سی گئی۔
’’اس کے ساتھ تو بہت سے بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں۔ کتنے فلسطینیوں نے اس طرح اپنی جانیں دے دیں لیکن نتیجہ کیا نکلا‘‘
یوسف کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ اس طریقۂ احتجاج کے حق میں نہیں تھا:
’’خود کش حملہ کمزوری کی علامت ہے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو لیکن جب دشمن بہت طاقتور ہو اور براہ راست مقابلے کی قوت نہ ہو تو مجبور اور بے بس آدمی یہی طریقہ اختیار کرتا ہے۔‘‘
عبد اللہ نے سمجھانے کی کوشش کی:
’’لیکن بابا یہ کام بہت ہمت اور حوصلے کا ہے۔‘‘ سکینہ کہنے لگی
’’اور کیا۔ تمہارے بس کا نہیں ہے۔ یاد ہے ایک بار تمہارا ہاتھ جل گیا تھا تو تم نے کتنا شور مچایا تھا۔ عبد اللہ کی اس بات پر سب ہنسنے لگے۔ یوسف نے سکینہ کی نرم دلی کی ایک اور مثال پیش کی۔
’’بابا آپ کو یاد ہے ایک بار اس کی مٹّی کی گڑیا کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا تو کتنا روئی تھی۔ پھر آپ نے اُسے جوڑا تھا۔‘‘
’’کیوں میری مٹّی کی گُڑیا کا مذاق بنا رہے ہو، تم سب سے بہادر ہے۔‘‘ سکینہ کی ماں جو خاموش لیٹی سب کی باتیں سن رہی تھی، کہنے لگی۔ سکینہ کی ہنسی میں بھی کچھ خوف سا تھا، کہنے لگی:
’’تکلیف میں سبھی شور مچاتے ہیں، روتے ہیں، مجھے تو تصویروں میں بھی لاشیں دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ موت سے تو سبھی ڈرتے ہیں۔ کیا یہ فوجی نہیں ڈرتے ہوں گے؟‘‘
’’فوجی تو سب سے زیادہ ڈرتے ہیں، ان کی بہادری اس وقت تک ہے جب تک ان کے پاس ہتھیار ہیں۔ بغیر ہتھیار کے کبھی باہر نہیں نکلتے‘‘ یوسف نے کچھ جوشیلے انداز میں کہا
’’اور نہتے لوگوں کو قابو میں کرتے ہیں‘‘ عبد اللہ نے بات مکمل کی۔
رات آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔ عبد اللہ اور اہل خانہ باتیں کرتے کرتے سونے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوران جنگ اور بعد جنگ یہی ان کا معمول تھا۔ ہر گھر سے خواب آور نیند رخصت ہو گئی تھی۔ لوگ نیند کے عالم میں بھی جاگتے اور چونکتے رہتے تھے۔ جنگ کے بعد سے عبد اللہ کی نوکری چھوٹ گئی تھی۔ یوسف اور سکینہ کی تعلیم منقطع ہو چکی تھی۔
ہر دن اور ہر رات یہ خوف غالب رہتا تھا کہ کہیں تعاون اور عدم تعاون کا شکار نہ ہو جائیں۔ رات کے اندھیرے فوجیوں کے بوٹوں کی آوازیں دل دہلا دیتیں۔ ایک رات جب یہ آوازیں اس کے دروازے پر آ کر رُکیں، تو سب سہم گئے۔ اچانک دروازہ توڑنے کی حد تک پیٹا گیا۔ ڈرتے ڈرتے عبد اللہ نے دروازہ کھول دیا۔ کئی فوجی بندوقیں لے کر گھر کے اندر گھس آئے اور پھر وہی ہوا جو اور گھروں میں ہوا تھا۔ عبد اللہ اور یوسف کو کھدیڑتے ہوئے ہتھیاروں سے لیس فوجی باہر لے گئے۔ سکینہ اور اس کی ماں چیختی چلّاتی رہ گئیں۔ کئی ماہ بیت گئے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے عبد اللہ اور یوسف زد و کوب کئے جاتے رہے۔ انھیں اپنا جرم معلوم نہیں تھا۔ شاید ان کا جرم ان کی معصومیت تھی۔ سکینہ اور اس کی ماں پولیس اسٹیشن اور جیل کے اطراف چکّر لگاتے لگاتے تھک گئیں۔ باپردہ رہنے والی خواتین بے پردہ ہو گئی تھیں۔ ہر ایک سے مدد مانگتی تھیں، لیکن ہر شخص خوفزدہ تھا کہ کہیں ہمدردی کا اظہار کر کے وہ بھی فوج کے عتاب کا شکار نہ ہو جائے۔ بے بسی اور مجبوری کی حالت میں سکینہ کی عجیب کیفیت ہو گئی تھی۔ اُسے اپنا حال، مستقبل سب کچھ تاریک دکھائی دینے لگا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ بڑی ہو گئی اور غصّہ کی آگ میں جھلس رہی ہے۔
غصّہ دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ ایسی لاچاری پہلے تو کبھی نہیں تھی۔ یہ آزادی کی کون سی شکل ہے۔ وہ بڑی حسرت سے اپنی ماں کو دیکھتی تھی، چند ماہ میں وہ کتنا ٹوٹ چکی تھی۔ بیٹے کے غم نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ شاید سکینہ کے مستقبل کا بھی اُسے دکھ تھا۔ تھکاوٹ کے سبب لیٹے لیٹے وہ سو گئی تھی۔ اس کے چہرے پر عجیب ویرانی سی تھی۔ ماں کی یہ حالت سکینہ سے دیکھی نہ گئی۔ اچانک اُسی غصّہ کی حالت میں اپنی تمام ہمّت کو یکجا کر کے وہ گھر سے نکل گئی۔
۔۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی ایک دھماکا ہوا۔ دھماکے کی آواز سے سکینہ کی ماں چونک گئی۔ چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ سکینہ نہیں تھی۔ اُس نے دیکھا کہ الماری سے گر کر سکینہ کی مٹّی کی گڑیا ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئی ہے۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...