“ہمت کیسے کی اُس بدبخت نے سردار اکبر خان کے پوتے پر ہاتھ اٹھانے کی،، نوشاد کو بولو چار آدمی لے کر جائے اور ہمارے دشمنوں کو اُن کی اوقات یاد دلا کر آئے”
تیمور خان روشانے کو لے کر شہر نہیں گیا تھا بلکہ واپس حویلی لے آیا تھا،، کبریٰ خاتون نے اپنے پوتے کی حالت دیکھی تو جلال میں آتی ہوئی سردار اسماعیل خان سے بولی
“اماں حضور پہلے پوری بات تو معلوم ہو، شمشیر جتوئی کے پوتے نے ایسا کیوں کیا، جبھی کوئی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔۔۔ ایسے کیسے چار آدمیوں کو اُن کی طرف بھیج دو، پہلے مجھے تیمور سے پورا قصّہ معلوم کر لینے دیں”
سردار اسماعیل خان کبریٰ خاتون کا غصہ ٹھنڈا کرتا ہوا بولا،، اسماعیل خان اپنے باپ کی طرح صلح جو اور نرم طبیعت رکھنے والا آدمی تھا ہر بات کو سمجھنے بوجھنے کے بعد فیصلہ کرنے والا جبکہ اس کا بیٹا تیمور خان بالکل کبریٰ خاتون کا پرتو تھا
“اسماعیل خان شیر اگر بوڑھا ہو جائے تو اُسے دبک کر نہیں بیٹھنا چاہیے،، جنگل میں اسی کا قانون چلنا چاہیے تم سمجھ رہے ہو ناں میری بات”
کبریٰ خاتون اپنے بیٹے کو آنکھیں دکھاتی ہوئی بولی
“دادی حضور یہ بات بابا حضور کو سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔۔۔ ویسے بھی اُس ضیغم جتوئی نے سردار تیمور خان سے ٹکر لی ہے اور تیمور خان معاف کرنے والوں میں سے یا درگزر کرنے والوں میں سے بالکل نہیں ہے،، میں نے معلوم کروا لیا ہے وہ شہر میں کس جگہ رہتا ہے اس کا آفس کہاں ہے۔۔۔ ایسے نہیں چھوڑوں گا میں اُسے”
تیمور خان کبریٰ خاتون کے کمرے میں آتا ہوا اس سے بولا جس پر کبریٰ خاتون خوش ہوکر اُسے دیکھنے لگی جبکہ سردار اسماعیل خان خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ کیوں کہ وہ کبریٰ خاتون کے سامنے تیمور خان کو سمجھانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا مگر اس نے سوچا تھا بعد میں وہ اپنے بیٹے کو سمجھائے گا کہ بات کو بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں
کمرے میں اس وقت کبریٰ خاتون اور تیمور خان موجود تھے تب روشانے بات کرنے کے غرض سے کبریٰ خاتون کے کمرے میں آئی مگر وہاں تیمور خان کو دیکھ کر سوچ میں پڑ گئی کہ بات کرے یا نہیں کرے
“اے لڑکی، اپنے منہ سے کچھ بولے گی بھی یا یونہی مٹی کے بُت کی طرح کھڑی رہے گی”
کبریٰ خاتون جو کہ روشانے کے بولنے کے انتظار میں تھی اُسے خاموش دیکھ کر سخت لہجے میں گویا ہوئی
“دادی حضور میں شہر جانا چاہتی ہو،، ورنہ پڑھائی کا کافی حرج ہو جائے گا آپ اگر اجازت دیں تو آج شام ڈرائیور کے ساتھ نکل جاؤ”
روشانے سرجھکا کر آہستہ آواز میں کبریٰ خاتون سے بولی اس وقت اُس نے تیمور خان کو دیکھنے سے مکمل گریز کیا تھا جو اُس کے جھکے ہوئے سر کو غُصے میں دیکھ رہا تھا
“دشمن چوکُنا ہو چکا ہے، گھر میں ایک طوفان آیا پڑا ہے اور تجھے اپنے سیر سپاٹوں سے فرصت نہیں مل رہی، شام تو ہو چکی ہے، اب کیا آوارہ عورتوں کی طرح رات گئے نکلنا ہے خوبصورت جوان جہاں لڑکی کو ایسے ہی بھیج دو۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اب ہفتہ بھر گھر سے باہر جانے کی”
کبریٰ خاتون روشانے کو اچھی طرح گُھرکتی ہوئی بولی روشانے اپنا سا منہ لے کر کمرے سے باہر جانے لگی
“چائے بنا کر میرے کمرے میں لے کر آؤ”
روشانے نے سر اٹھا کر دیکھا تیمور خان حکم دینے والے انداز میں اسی سے مخاطب تھا وہ جی کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل کر کچن میں چلی آئی
اسے معلوم تھا اب اسے شہر نہیں جانے دیا جائے گا اس کی پڑھائی تک روک دی جائے گی اسے کیا معلوم تھا تیمور خان کی پٹائی کرنے والا اس کے خاندان کا کوئی دشمن تھا اور اب وہ اس کی پڑھائی کا بھی دشمن بن جائے گا۔۔۔ وہ تیمور خان کے لئے چائے بناتی ہوئی آنسو بہانے لگی
“روشی بچے یہاں کیا کر رہی ہو،، پورے گھر سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں تمہارے موبائل پر حمنہ کی کال آئی تھی پوچھ رہی تھی کہ آج کالج کیوں نہیں پہنچی،، بتایا نہیں تم نے اُسے۔۔۔۔ یہاں دیکھو میری طرف رو کیو رہی ہو ایسے”
زرین جو روشانے کو کچن میں دیکھ کر بات کرتی ہوئی اس کے پاس آئی مگر روشانے کو روتا ہوا دیکھ کر حیرت سے اس سے پوچھنے لگی
“بتا دیں آپ کال کر کے حمنہ کو کہ اب روشانے کبھی بھی کالج نہیں آئے گی”
رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں ایک دم سے سرخ ہو چکی تھی روشانے زرین کو دیکھتی ہوئی بولی
“ارے میری بچی کیا ہوا ہے تمہیں بتاؤں تو مجھے”
زرین اپنے دوپٹے سے اُس کے آنسو صاف کرتی ہوئی پوچھنے لگی
“دادی حضور نے منع کر دیا ہے کالج جانے کے لیے،، کہہ رہی ہیں ایک ہفتے کے بعد جانا۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ہفتے بعد بھی مجھے کالج جانے دیں گی”
زرین کو بتاتے ہوئے روشانے کو مزید رونا آنے لگا
“اور تمہیں لگتا ہے میں تمہاری تعلیم ایسے ہی ادھوری چھڑوانے دوگی۔۔۔ صبح تک صبر کر لو بڑے خان کو کہتی ہوں کل وہ تمہیں خود شہر چھوڑ کر آئیں گے،، اب رونے کی ضرورت نہیں ہے جاو اپنے کمرے میں جاکر چائے پیو”
زرین اُسے پیار سے بہلاتی ہوئی بولی
“یہ تو میں نے خان کے لیے بنائی ہے انہیں پینی تھی چائے”
روشانے چائے سے بھرا ہوا کب پکڑتی ہوئی اسے بتانے لگی، ساتھ ہی اسے تھوڑا سا اطمینان بھی ہوا تھا کہ اسماعیل خان کبریٰ خاتون سے بات کرکے خود اُسے کل شہر لے جائے گا
“ارے تو فوراً لے کر جاؤ ناں، معلوم نہیں ہے پانچ منٹ دیر ہوئی تو غصہ آ جانا ہے اُسے”
زرین روشانے سے کہہ کر خود کچن سے باہر نکل گئی
*****
“سنا ہے ٹھکائی ہوگئی ہے”
وہ غُصے میں اپنے کمرے میں ٹہلتا ہوا روشانے کا انتظار کر رہا تھا تب ژالے اس کے کمرے میں آتی ہوئی بولی اس کی دل جلانے والی مسکراہٹ پر تیمور خان نے غُصے میں گھورتے ہوئے اسکی طرف قدم بڑھائے
“میرا مطلب تھا تمہاری گاڑی ٹھوک دی کسی نے، ویسے کون تھا وہ جی دار آدمی جس نے دن دہاڑے چھوٹے خان سے پنگا لے لیا”
ژالے اس کے تیور دیکھ کر ایک دم تمیز کے دائرے میں آتی ہوئی سنجیدگی سے اُس سے پوچھنے لگی
“تم میرے کمرے سے خود جاؤ گی یا میں تمہیں دھکے دے کر اپنے کمرے سے نکالو”
ژالے کا مذاق اڑاتا ہوا ہے لہجہ تیمور خان کا خون کھولنے لگا تبھی تیمور خان دانت پیستا ہوا ژالے سے پوچھنے لگا
“اففف یہ پھٹا ہوا ہونٹ، یہ سُوجھا ہوا گال۔۔ اس پر یہ بلا وجہ کا روعب یونہی تھوڑی نہ پاگل بناتے ہو تم مجھے”
ژالے کے بولنے کی دیر تھی کہ تیمور خان ژالے کو بازو سے پکڑ کر کمرے کے دروازے کے قریب لایا
“عزت شاید تمہیں راس نہیں، دھکے دے کر ہی اپنے کمرے سے نکالنا پڑے گا۔۔۔ ہر وقت میرے سامنے یہ اپنا شوخا پن مت دکھایا کرو”
تیمور خان نے غصے میں بولتے ہوئے دروازہ کا ہنڈل گھمایا
“ارے چھوڑو میرا بازو نہیں دکھا رہی تمہیں کوئی شوکا پن،، اچھا سوری بابا اب غصہ تو تھوک دو”
تیمور خان کو غصے میں دیکھ کر ژالے اُسے مناتی ہوئی بولی،، مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ اسے غصے میں ہی پیارا لگتا تھا جبھی وہ اسے ہر بات پر غصہ دلاتی تھی
“وہ کام کی بات بولوں جس کے لئے تم میرے کمرے میں آئی ہو”
تیمور خان ژالے کا بازو چھوڑتا ہوا ابھی بھی سنجیدگی سے ژالے سے پوچھنے لگا
“بڑے خان کا میسج دینے آئی ہو انہوں نے اپنے کمرے میں فوراً بلایا ہے تمہیں”
ژالے اُسے سردار اسماعیل خان کا میسج دینے لگی
“بابا حضور سے جاکر بول دو دس منٹ میں آ رہا ہوں”
تیمور خان کی بات سن کر ژالے اس کو مسکرا کر دیکھنے لگی
“اب کیا ہوا کس بات پر دانت نکل رہے ہیں اب تمہارے”
تیمور خان ژالے کو مسکراتا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگا
“تصور میں تمہیں پٹتا ہوا دیکھ کر سوچ رہی ہوں، کیا مزے دار سین ہوگا جو میں نے مِس کر دیا،، مجھ سے لکّی تو اپنی روشانے رہی جس نے پورا سین انجوئے کیا ہوگا”
ژالے تیمور خان کا مذاق اڑاتی ہوئی بولی تھی کمرے کا دروازہ وہ پہلے ہی کھول چکی تھی اپنی بات مکمل کرکے،، بغیر تیمور خان کے تاثرات دیکھے وہ پُھرتی سے کمرے سے نکل گئی
****
“خان یہ کیا کر رہے ہیں دوپٹہ چھوڑیں میرا”
روشانے تیمور خان کے کمرے میں چائے رکھتی ہوئی پلٹنے لگی تبھی اپنے پیچھے کھڑے تیمور خان کو دیکھ کر سائیڈ سے نکلنے لگی، تمیور خان نے اس کے سر سے دوپٹہ کھینچا تو روشانے بےساختہ بولی
“دل نہیں لگتا تمہارا حویلی میں، کون انتظار کر رہا ہے شہر میں، جواب دو”
تیمور نے روشانے کا دوپٹہ چھوڑ کر اُسے دیوار کی طرف دھکا دیا، وہ دیوار سے جا لگی۔۔۔ تیمور خان لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے پاس آیا اور اس سے پوچھنے لگا
“خان کیسی باتیں کر رہے ہیں،، میں تو شہر کالج کے لیے۔۔۔۔”
روشانے نے اپنے دفاع میں بولنا چاہا تو تیمور نے اس کے بالوں کو مٹھی میں جکڑا
“اس کمینہ کے سامنے گاڑی سے باہر کیوں نکلی تم”
تیمور خان کڑے تیوروں سے روشانے گھورتا ہوا پوچھنے لگا
“آپ کو بچانے کے لیے خان،، قسم لے لیں”
وہ اپنے بالوں کو تیمور خان کی مٹھی سے آزاد کرواتی ہوئی ہمت کر کے اپنے دفاع میں بول پائی
“مجھے بچانے کے لئے یا اس کے ہاتھوں مار کھاتا دیکھنے کے لئے”
تیمور خان اس کے بالوں کو زور سے جھٹکا دیتا ہوا بولا۔۔۔ وہ آج صبح اپنی ہونے والی دھلائی اور تھوڑی دیر پہلے ژالے کی باتوں کا غصہ اس معصوم پر اتارنے لگا۔۔۔ روشانے نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلایا،، اسے نہیں معلوم تھا کہ تیمور خان اسے اپنے کمرے میں بلا کر اس پر اسطرح غُصہ کرے گا
“چہرہ کیوں نہیں چھپایا اس سے اپنا،، کیسے دیکھ رہا تھا وہ کمینہ”
تیمور خان غُصے میں اس کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لاتا ہوا پوچھنے لگا
“آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی خان، پلیز مجھے جانے دیں”
اُسے اب تیمور خان سے ڈر لگنے لگا تھا، نہ جانے وہ غصے میں اُس کے ساتھ کیا کردے۔۔۔ روشانے ڈرتی ہوئی تیمور خان سے بولی
“اگلی بار اگر ایسی غلطی کی تو یہ خوبصورت چہرا کسی دوسرے کے تو کیا،، تمہارے خود کے دیکھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ وہ کمینہ اگر زندگی میں دوبارہ سامنے آیا تو غلطی سے بھی اُسے اپنا چہرہ مت دکھانا۔۔۔ اس چہرے کو دیکھنے کا حق صرف اور صرف تیمور خان کا ہے کسی دوسرے کا نہیں”
تیمور خان نے بولتے ہوئے اس کے بالوں کو جھٹکے سے چھوڑا وہ دیوار سے جڑ کر روتی ہوئی نیچے بیٹھتی چلی گئی جبکہ تیمور خان اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتا ہوا چائے پینے لگا
“ہاں ہاں آج کا پروگرام ڈن ہے۔۔۔ سنا ہے مینا بائی نے کچھ نیا مال منگوایا ہے چیک کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔ ہاہاہا نہیں فل الحال دور سے ہی چیک کرنے کا ارادہ ہے،، بس رات میں دو تین گھنٹے کے لیے آ رہا ہوں”
صوفے پر بیٹھا وہ چائے پیتا ہوا اپنے دوست سے موبائل پر بات کر رہا تھا جبکہ روشانے اُس کی ایسی گفتگو پر ملامت بھری نظروں سے اُسے دیکھنے لگی اتنے میں کمرے کا دروازہ کُھلا اور اسماعیل خان کمرے میں آیا
“تم یہاں ایسے کیوں بیٹھی ہو، کیا ہوا ہے تیمور تم نے کچھ کہا ہے اسے”
سردار اسماعیل خان جو کہ تیمور خان سے بات کرنے کے لیے آیا تھا وہاں روشانے کو سامنے دیوار سے چپک کر نیچے بیٹھے دیکھ کر حیرت سے بولا پھر اپنے بیٹے سے پوچھنے لگا
“سبق سکھایا ہے اسے بابا حضور،، بہت شوق چڑھ رہا تھا اسے شہر جا کر رنگ رلیاں منانے کا”
تیمور خان اپنا موبائل ایک طرف رکھ کر آرام سے سردار اسماعیل خان کو بولنے لگا
“بکواس بند کرو اپنی تیمور، آج کل رنگ رلیاں کون منا رہا ہے اس بات کو میں اچھی طرح جانتا ہوں، یہ الٹی سیدھی دوستاں ترک کرکے اپنے راستے درست کرلو اور خبردار جو تم نے شمشیر جتوئی کے پوتے کو کوئی نقصان پہنچایا۔۔۔ روشانے کمرے میں جاکر اپنا سامان پیک کر لو کل صبح مجھے ضروری کام سے شہر جانا ہے تمہیں خود چھوڑ کر آؤں گا اماں حضور سے بات کرلی ہے میں نے”
سردار اسماعیل خان کی بات پر تیمور خان کے ماتھے پر شکنیں واضح ہوئی جبکہ روشانے سعادت مندی سے سر ہلا کر تیمور خان کے کمرے سے نکل گئی
****
ایک ضروری میٹنگ کے سلسلے میں وہ اور شمروز جتوئی آفس سے کافی لیٹ اٹھے تھے شمروز جتوئی ضیغم کو تھوڑی دیر میں آنے کا کہہ کر خود فائل دیکھنے لگ گیا جبکہ ضیغم بیسمینٹ میں آکر گاڑی میں بیٹھنے ہی لگا تب وہ آہٹ کی آواز پر مڑا۔۔۔
اس کے پیچھے چار آدمی کھڑے تھے اور چاروں کے ہاتھوں میں ڈنڈے موجود تھے۔۔۔ آفس کے سارے ورکرز اور کلائنٹس تقریباً سب جاچکے تھے اس لئے بیسمینٹ خالی تھا
“ایک اکیلے کو مار کر ہیرو سمجھنے لگ گیا ہے خود کو، ذرا ہم سے مقابلہ کر کے دکھا”
ان میں سے ایک آدمی ضیغم کو بولا تب وہ سمجھ گیا وہ کس کی بات کر رہے ہیں اور یہ سب آدمی کس نے بھیجے ہیں۔۔۔ وہ چاروں آدمی ایک ساتھ اس کی طرف بڑھے
ضیغم نے ایک آدمی کو لات مار کر اپنا بچاؤ کرتے ہوئے،، ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے ڈنڈا چھینا وہ باقی تینوں آدمیوں سے اکیلا مقابلہ کرنے لگا۔۔ وہ تعداد میں زیادہ تھے ضیغم زیادہ دیر تک ان کا مقابلہ نہیں کر سکا ایک آدمی نے کافی زور سے، اس کو ڈنڈا مارا جو کہ اس کے سر پر لگا اور اس کی آنکھوں کے آگے ایک دم اندھیرا چھا گیا۔۔۔ دوسرا ڈنڈا اس کے کندھے پر لگا جس سے اس کے ہاتھ میں موجود ڈنڈا نیچے زمین پر گر پڑا
اب دو آدمی اس کے بازووں کو پکڑ کر اسے قابو کر چکے تھے ضیغم کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور وہ بہت مشکلوں سے اپنی آنکھیں کھول پایا تھا
تیسرے آدمی نے اپنی جیب سے ایک تیز دھار کا چاقو نکالا تبھی کسی گاڑی کے تیز بجنے والے ہارن نے پورے بیسمنٹ میں شور برپا کیا جسے سن کر وہ چاروں وہاں سے بھاگ نکلے ان کے وہاں سے جانے کے بعد شمروز جتوئی گاڑی کے ہارن سے ہاتھ ہٹاکر بھاگتا ہوا ضیغم کے پاس آیا جو کہ اس وقت نیچے گرا ہوا تھا وہ ضیغم کو سہارا دے کر گاڑی میں بٹھانے لگا
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...