“مس ایمان آج آپ کو ڈسچارج کیا جا رہا ہے۔۔ مگر خیال رہے کہ پورے دو ماہ آپ کو مکمل بیڈ ریسٹ کرنی ہے۔۔ کوئی لاپرواہی نہیں ہونی چاہئے۔۔ ورنہ درد پھر زور پکڑ لے گا۔۔ خیال رکھئے گا۔۔” ڈاکٹر کاغذات پر چند دستخط کرتے مصروف سے اسے مطلع کر رہے تھے۔۔
سبھی اس وارڈ میں موجود تھے۔۔ قمر صاحب اور احمد کو سیدھا کام پہ پہنچنا تھا۔۔ جب کہ شاہ نے طاہرہ اور ایمان کو گھر لے جانے کا ذمہ اٹھایا تھا۔۔ ٹھوڑی تلے انگلی ٹکائے کھڑا وہ پیشانی پر بل ڈالے ڈاکٹر کی ہدایات ذہن نشین کر رہا تھا۔۔
“آپ کو ابھی ڈرپس اور انجکشن کا ایک کورس مکمل کرنا ہے۔۔ I Hope you will not show any carelessness” فائل بند کرتے نرس کو تھمائی۔۔ اک مسکراہٹ ایمان کی جانب اچھالتے وہ کمرے سے روانہ ہو گئے۔۔
انہیں گھر پہنچے دس منٹ بیت چکے تھے۔۔ جب وہ دوائیوں والا لفافہ تھامے بیڈ کے قریب بیٹھا دوائیاں ترتیب دے رہا تھا۔۔
“یہ کیا کر رہے ہو شاہان؟”
بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی وہ الجھ کر پوچھنے لگی۔۔ “تمھاری دوائیاں ترتیب دے رہا ہوں۔۔ میں آج ہوں۔۔ کل ہوں۔۔ مگر کچھ دن بعد مجھے ٹریننگ پہ جانا ہے، میں نہیں چاہتا کہ مجھے وہاں تمہاری فکر ستاتی رہے۔۔” دوا کی ڈوز تیار کرتے وہ مصروف سا ایمان سے مخاطب تھا۔۔ وہ محض اسے دیکھے گئی۔۔ شاہ اس سے کس قدر محبت کرتا تھا۔۔ وہ اس کی پروا کرتا تھا۔۔ فکر ظاہر کرتا تھا۔۔ کیا محبت ایسی ہی ہوتی ہے؟ شاہ سے رشتہ جڑنے کے بعد اسے ہر شے جیسے مزید حسین لگنے لگی تھی۔۔
“سلیکشن لیٹر آ گیا؟”
“ہممم۔۔” دوا ہاتھ میں تھامے وہ بستر پر پڑے صفحے سے تصدیق کرتا محض ہنکار بھر سکا۔۔ اس کی مکمل توجہ دوائیوں کی ترتیب کی جانب تھی۔۔ ایمان محض سرد آہ بھر کر رہ گئی۔۔ کاش وہ نہ جاتا۔۔ مگر پھر شاہان کے خواب کا تصور ذہن کے پردے پر دھوڑ جاتا۔۔ اس کے بچپن کے خواب کو تعبیر مل گئی تھی۔۔ وہ خوش تھا، اسے بھی خوش ہونا تھا۔۔ محض شاہان کی خاطر۔۔!
* * * * * * *
حال
ایمان پر غنودگی کا غلبہ طاری ہو چکا تھا۔۔ سو فلوقت مجھے اس کے نیند سے جاگنے کا انتظار کرنا تھا۔۔ دوپہر سے ایک ہی جگہ بیٹھے کمر جیسے اکڑ گئ تھی۔۔ اپنا بیگ اسی وارڈ میں محفوظ جگہ پر رکھتی میں کمرے سے باہر آ نکلی۔۔
“آپ؟” کمرے سے برآمد ہوتے ہی علی نامی شخص میرا راستہ روکے استفسار کرنے لگا۔۔
“باہر کھلی ہوا میں جا رہی ہوں۔۔ بے فکر رہیں۔۔ میرا بیگ اندر ہی ہے۔۔ میں وآپس آؤں گی۔۔ سینے پر ہاتھ باندھے ایک مسکراہٹ اس سنجیدہ نوجوان کے چہرے پہ ڈالتی قدم آگے بڑھی۔۔ “اور ایک بات۔۔” مڑ کر کہتے علی کے قدم بھی جیسے تھم گئے۔۔ پیشانی پہ بل ڈالے وہ میرے بولنے کا منتظر تھا۔۔ “ایمان اس شخص کی محبت میں مقید ہے، تبھی وہ اس تکلیف کے زیراثر ہے۔۔ لیکن مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ اللّہ نے اس کے نصیب میں ایسے شخص کا ساتھ لکھا ہو گا جو اس کو اس قفس سے رہائی دلوائے گا۔۔”
علی کے کندھے ڈھلک گئے۔۔ سر کو جنبش دیتے اس نے “انشاءاللہ” کہا تھا۔۔
“پریشان نہ ہوں۔۔ اللّہ ہیں نہ۔۔” اس نے سرد آہ بھری۔۔ ہونٹ بھینچے وہ وآپس مڑتا الٹے قدموں چلتا گیا۔۔ میں اس کی پشت گھور کر رہ گئی۔۔ اس شخص میں کچھ تو تھا جو اسے خاص ظاہر کر رہا تھا۔۔ مگر وہ “کچھ” کیا تھا ابھی اک “راز” تھا۔۔
آسمان پر شام کی سیاہی کے برعکس اندھیرا سا پھیلا تھا۔۔ ہاتھ میں پہنی گھڑی پر نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ ابھی تو شام کے سات بجے تھے۔۔ شاید بادلوں کے باعث رات کی سیاہی کا احساس ہوتا تھا۔۔ ہوا میں عجب سی خوشگواریت تھی مگر ذہن ایمان کی کہانی کی سمت الجھا تھا۔۔ جانے ایسا کیا ہوا تھا؟ جانے ان کی محبت کو کس کی نظر لگ گئی تھی؟ ایمان کی اس حالت کے پیشِ نظر شاہان کو پہلی فرصت میں یہاں آنا چاہئے تھا مگر جانے وہ کہاں تھا؟
کیا اس نے ایمان کو محبت کی راہوں میں تنہا چھوڑ دیا تھا؟ کیا ایمان آج بھی شاہان کی منتظر تھی؟ “کیا آپ کی کہانی مکمل ہو گئی؟” عقب سے آتی آواز نے جیسے خیالوں میں لپٹے میرے وجود کو حقیقت سے روشناس کروایا تھا۔۔ یقیناً معمع کچھ اور ہی تھا۔۔ خیر۔۔!
“جی نہیں۔۔ ابھی باقی ہے۔۔” سادہ سا جواب دیتے میں وآپس ہسپتال کے باہر واقع اس چھوٹے سے لان میں لگے پودوں کو دیکھنے لگی جو ہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے۔۔ وہ ڈاکٹر تھا جو اب سینے پر ہاتھ باندھے میرے پہلو میں کھڑا تھا۔۔ صبح والے کڑے تیوروں کے برعکس اس کا چہرہ مسکراہٹ لئے تھا۔۔
“آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں۔۔؟” میں نے نگاہیں موڑیں تو اسے اپنی جانب متوجہ پایا۔۔ “اگر اسکا تعلق مجھ سے وابستہ ہے تو۔۔”
“ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ میں بس ایمان کے لئے پریشان ہوں۔۔”
“ہمممم۔۔ ہم سب ان کے لئے بہت پریشان ہیں مگر انہیں کسی کا احساس نہیں۔۔ خیر اس میں ان کا بھی قصور نہیں ہے۔۔ ان کی زندگی نے انہیں بہت بدترین وقت سے گزارا ہے۔۔” اس کے لہجے میں چھپی فکر دیکھ مجھے احساس ہوا، یقیناً وہ سب جانتا تھا۔۔ میری کھوجتی نگاہوں کو محسوس کئے وہ پھر سے کہنے لگا۔۔
“ہم کسی کا دل صرف اس صورت توڑ سکتے ہیں جب وہ ہمارے ہی لئے دھڑکتا ہو۔۔ ایمان کا دل صرف اور صرف شاہان کے لئے دھڑکتا تھا۔۔ لیکن شاہان۔۔” افسوس سے سر ہلایا۔۔ “وہ ایمان کو چھوڑ کر چلا گیا۔۔” میں الجھی۔۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔ “اتنی دور جا چکا ہے شاہان کہ ہم چاہ کر بھی اس سے رابطہ نہیں کر سکتے۔۔”
” کہاں؟ کہاں گیا ہے وہ؟” وہ کہنے لگا اور مجھے لگا میرے کان سائیں سائیں کرنے لگے ہیں۔۔ آس پاس کی تمام آوازیں آنا بند ہو گئیں۔۔ فقط کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔۔ وہ مزید کچھ کہہ رہا تھا۔۔ مگر میرے کان سننے سے قاصر تھے۔۔
* * * * * * *
ماضی
اسے گھر آئے آج کئی دن بیت چکے تھے۔۔ شاہان کو چند دن میں ٹریننگ سنٹر رپورٹ کرنا تھا تبھی گھر والوں کی باہمی رضامندی سے منگنی کی چھوٹی سی رسم ادا کی گئی تھی جس میں محض گھر کے فرد ہی شامل تھے۔۔ سب خوش تھے مگر شاہان کی دوری کا سوچتے دل میں کہیں نہ کہیں درد بھی اٹھتا تھا۔۔
“تم خوش ہو۔۔” منگنی کی رسم کی ادائیگی کے بعد رات میں اسے شاہان کی کال موصول ہوئی۔۔ چھوٹتے ہی وہ پوچھنے لگا۔۔
“بہت زیادہ۔۔ اور تم؟” آوارہ لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑستی وہ کھڑی سے باہر آسمان پر پھیلی چودھویں کے چاند کی چمکتی چاندنی دیکھ مسکرا رہی تھی۔۔ دوسری جانب شاہان بستر پہ لیٹا پاؤں کی قینچی بنائے، کشن بازو تلے رکھے دلچسپی سے اسے سن رہا تھا۔۔
” میرے دل کی دھڑکنوں سے سن لو۔۔” ایمان الجھی، دوسری جانب سے دل کے دھڑکنے کی مدھم آواز اسپیکر سے ابھری۔۔ “ایمان۔۔” شاہ کے پکارنے پہ اس کے حواس بحال ہوئے جو ان دھڑکنوں میں کھو سی گئی تھی۔۔
“MY HEART BEATS FOR YOU”
اطراف میں عجب سی مسحورکن خوشبو پھیل گئی تھی جس نے ایمان کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا تھا۔۔ وہ خوشبو شاہ کے وجود کی تھی۔۔ یوں محسوس ہوا جیسے وہ اسی کمرے میں آ موجود ہوا ہو۔۔ “مت کرو مجھے اپنا عادی کے پھر گزارا مشکل ہو جائے۔۔”
“کیوں بھئی۔۔ ایسی کیا مصبیت آن پڑی ہے کہ تمھیں میرے بغیر گزارہ کرنا ہے؟” اس کے تیور بگڑے تھے۔۔
“ٹریننگ۔۔” ایمان برے دل سے بولی۔۔ اسپیکر کے پار شاہ کا بلند بانگ قہقہہ گونجا تھا اور وہ اس آواز کے سحر میں جکڑی دھیمے سے سرکتی گہری سیاہ رات کی تاریکی میں چمکتے چاند کی چاندنی دیکھنے لگی۔۔
* * * * * * *
اور بالآخر وہ دن آن پہنچا تھا۔۔ شاہان کی اگلے صبح سے ٹریننگ شروع کی جانی تھی۔۔ ایمان رات کے اس پہر اس کے ہمراہ شاہ کے کمرے میں موجود اسے سامان باندھتا دیکھ رہی تھی۔۔ کھڑکیوں پہ پردے درست کئے تھے مگر پھر بھی چاند کی چاندنی اوٹ سے جھانکتی اس کے بجھے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔
شاہ نے مصروف سی نگاہ ایمان کے چہرے پہ ڈالی تو دونوں کی نگاہیں ملیں۔۔ وہ مسکرایا۔۔ ” کیا ہوا۔۔؟”
“مت جاؤ۔۔” ایمان کے لہجے میں آس تھی۔۔ شاہ کے حلق میں گلٹی سی ابھری۔۔ کوئی اور موقع ہوتا تو شاید وہ اسے انکار ہرگز نہ کر پاتا مگر یہ موقع مختلف تھا جو شاید کوئی شخص نہ گنوانا چاہے۔۔ خوابوں کی تعبیر سے محض چند قدم دور۔۔! شاہ نے اس لمحے کا اک عرصہ انتظار کیا تھا۔۔
“یہاں آؤ۔۔ میرے پاس بیٹھو۔۔” بیگ پیک ہٹاتے شاہ نے اسے اپنے پہلو میں جگہ بناتے اسے آنے کا اشارہ کیا۔۔ وہ چپ چاپ آٹکی۔۔ شاہ نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام لئے۔۔ “کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو۔۔؟”
“ہاں۔۔” سر کو اثبات میں خم دیتے وہ فوراً بولی۔۔
“کیا تم مجھے خوش دیکھنا چاہتی ہو؟” شاہ کے چہرے پہ سنجیدگی در آئی۔۔
” ہاں۔۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔۔”
” کیا تم مجھے پرسکون دیکھنا چاہتی ہو؟”
“ہاں۔۔”
“تو پھر مجھے جانے دو۔۔” ایمان کے لبوں پر گہری چپ تھی۔۔ وہ کتنے لمحے کچھ کہہ نہ سکی۔۔ شاہ کی منتظر واجازت طلب نگاہیں اس کے چہرے پہ ٹکی تھیں۔۔ اسے دل بڑا کرنا تھا۔۔ وہ شاہ سے محبت کرتی تھی۔۔ اسے خوش وخرم دیکھنا چاہتی تھی۔۔
تھوک نگلتے ایمان نے گلا تر کیا پھر خود کو کہتے سنا۔۔ ” ٹھیک ہے۔۔ جاؤ۔۔” اور یہ وہ آخری الفاظ تھے جو ایمان نے اپنی محبت کی آنکھوں میں دیکھتے ادا کئے تھے۔۔ کسے معلوم تھا کہ ایمان اس لمحے کے بعد شاہ کے دیدار سے محروم ہونے والی ہے۔۔۔
* * * * * * *
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...