صنعتی کیپٹلزم کے دور کے فاتح کون تھے؟ وہی جو اس سے پچھلے مرحلے یعنی کہ جنگی کیپٹلزم کے دور کے فاتح تھے اور اس کی وجہ تھی۔ جنگی کیپٹلزم اپنے پیچھے بہت تنوع چھوڑ گیا تھا۔ کئی ریاستیں مضبوط تھیں کئی کمزور۔ کمزور ریاستوں کے پاس انفراسٹرکچر، انتظامی اہلیت اور صنعتوں کے لئے حفاظت کے طریقے نہیں تھے۔ کچھ ریاستوں نے اشیا کی مینوفیکچرنگ کی حیرت انگیز صلاحیت بنا لی۔ جبکہ میں پری انڈسٹریل دور کی گھریلو صنعتیں رہیں۔ یورپ کے عالمی غلبے کا اس میں ایک کلیدی کردار رہا۔
اس نکتے کو سب سے زیادہ واضح مصر کی مثال کرتی ہے۔ شروع میں ایسا لگتا تھا کہ یہ علاقہ باقی افریقہ سے ہٹ کر یورپی راستے پر ہے۔ یہاں پر صنعتکاری لئے تمام موافق حالات موجود تھے۔ خام کپاس تک رسائی تھی جو مقامی طور پر بڑی مقدار میں اگتی تھی۔ ٹیکسٹائل کی تیاری کی طویل تاریخ تھی۔ ہنرمند موجود تھے اور صنعتی انقلاب سے قبل اٹھارہویں صدی میں مصر فرانس کو ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا تھا۔ اس کے پاس برٹش ٹیکنالوجی کی رسائی بھی تھی اور مصر میں سرمایے کی قلت بھی نہیں تھی۔ لیکن 1850 میں مصر ان ممالک میں نہیں تھا جو صنعتی انقلاب کے دور سے گزر رہے تھے۔
مصر کے لئے اس کا آغاز اچھا ہوا تھا۔ کاروباری سوچ رکھنے والے محمد علی پاشا کو صنعت لگانے کا شوق تھا۔ ان کا خیال تھا کہ صنعت سے خوشحالی بھی آئے گی اور ملٹری طاقت بھی اور عثمانیوں سے حاصل کردہ خودمختاری بھی زیادہ مضبوط ہو گی۔ محمد علی پاشا نے بھی اس کو یورپی طرز پر شروع کیا۔ برٹش مصنوعات کی درآمدات پر ڈیوٹی عائد کی۔ سیریا کے کرسچن اس کاروبار میں پہلے تھے۔ انہیں مصر آ کر فیکٹریاں لگانے کی دعوت دی گئی۔ کاٹن ویونگ کی پہلی فیکٹری 1815 میں جبکہ سپننگ کی 1818 میں لگی اور جلد ہی دوسری لگنا شروع ہو گئیں۔
صنعتکاری کی ٹیکنالوجی برطانیہ سے لائی گئی۔ (ویسے ہی جیسے ہر دوسرے ملک نے کیا تھا)۔ شروع میں محمد علی پاشا نے سپننگ مشینیں برطانیہ سے درآمد کیں، برٹش مکینک منگوائے گئے کہ وہ اس کی تنصیب کریں۔ بعد میں فرانس سے انجینر بلوائے گئے۔ یہی طریقہ یورپ، امریکہ اور میکسیکو میں رہا تھا۔
مصری کاٹن کی صنعتکاری کا عروج 1835 میں تھا جب تیس کارخانوں میں پندرہ سے بیس ہزار مزدور کارم کرتے تھے۔ زیادہ تر مصنوعات لوکل مارکیٹ میں بکتی تھیں لیکن یہ برآمدات ترکی، شام میں بھی کی جاتی تھیں۔ سوڈان اور انڈیا میں بھی۔ جرمن اخبار آوسلینڈ نے 1831 میں لکھا، “یہ دلچسپ چیز ہے کہ ایک بربر چند سالوں میں اتنا کچھ کر گیا ہے جو نپولین اور یورپ صدی کے شروع سے اب تک نہیں کر سکے ہیں۔ یعنی برٹش مصنوعات سے کامیابی سے مقابلہ کرنا”۔ اور اس میں زیادہ مبالغہ نہیں تھا۔ صنعکاری کے حساب سے مصر دنیا میں پانچویں نمبر پر تھا۔ مشینی تکلے فی ہزار کی آبادی کا عدد برطانیہ میں 588 تھا۔ سوئیٹزرلینڈ میں 265، امریکہ میں 97، فرانس میں 90۔ مصر میں یہ 80 تھا جبکہ میکسیکو میں 17۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلکتہ میں برٹش تاجروں کو مصر سے آنے والی مصنوعات کی وجہ سے تشویش تھی۔ ایشیاٹک جرنل سے “اس کے دھاگے کی کوالٹی اور مضبوطی برٹش دھاگے سے کم نہیں۔ مصر کے کم فاصلے کا مطلب ہے کہ یہ مارکیٹ کا زیادہ شئیر حاصل کر سکتا ہے”۔
ایسے ہی تاثرات کئی جگہوں پر ملتے ہیں۔ 1843 میں فرنچ صنعتکار جولس پولین نے مصری کاٹن ملز کی سٹڈی کر کے اپنے تاثرات محمد علی پاشا کو پیش کئے اور اسی سفر کو جاری رکھنے کا کہا۔ “صنعت قوموں کی دولت ہے۔ مصر اپنی کپاس خود اگانے کی وجہ سے اس صنعت میں فرانس اور انگلینڈ سے بھی آگے نکل سکتا ہے۔ فرنچ انڈیا میں پانڈی چری میں کامیاب ہوئے ہیں (جہاں انہوں نے ایک مل کھولی تھی) تو کوئی وجہ نہیں کہ مصر میں مصری کامیاب نہ ہوں۔ مصر کو دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہاں لیبر سستی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور لیبر کا ہی سوال تھا، جہاں یہ کہانی الگ راستے پر چلی جاتی ہے۔ یورپی ریاستوں کی طرح ہی مصر نے بھی جنگی کیپٹلزم کا راستہ چلنا تھا اور اس میں جبر بہت زیادہ تھا۔ مزدوروں سے زبردستی کام لیا جاتا تھا۔ جب قاہرہ میں پہلی ٹیکسٹائل ورشاپ کھولی گئی تو اس میں مشینیں اور ماہر کاریگر یورپ سے آئے۔ جبکہ ایک سے دو ہزار مزدور یا تو سوڈان سے لائے گئے غلام تھے یا پھر بہت کم اجرت پر کام کرنے والے مصری۔ ان سے زبردستی کام لیا جاتا۔ فوج ان پر کڑی نگرانی کرتی۔ ان کی مارپیٹ معمول تھا۔ یہ طریقہ دنیا میں اس وقت رائج محنت کے نظاموں سے زیادہ مختلف نہیں تھا جہاں حکومت صنعت کو سپورٹ دیتی تھی اور یتیم بچوں کو فیکٹریوں میں مشقت پر مجبور کیا جاتا تھا۔ لیکن مصر میں یہ جبر زیادہ تھا۔ اور محمد علی پاشا نے دکھایا تھا کہ جنگی کیپٹلزم کم از کم مختصر مدت میں صنعتکاری کا انقلاب ممکن کر سکتا تھا۔ سوال یہ تھا کہ کیا صنعتی کیپٹلزم تک جایا جا سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصر میں صنعت کی ابتدا تو ہوئی اور یہ پہاڑ سے جذبے سے ہونے والا ایک بہت مشکل کام تھا لیکن یہ طویل عرصہ نہیں رہا۔ 1850 کی دہائی میں مصری کاٹن انڈسٹری قصہ پارینہ بن چکی تھی۔ اس ک دیہات میں کارخانے کھنڈر بننے لگے تھے۔ مصر اداروں کا فریم ورک لانے میں کامیاب نہیں ہوا جو جنگی کیپٹلزم سے صنعتی کیپٹلزم کی طرف جانے کے لئے درکار تھی۔ حتیٰ کہ اجرت کے نظام جتنی بنیاد چیز بھی نہ آ سکی۔ کپاس کے کھیتوں اور کپاس کے کارخانوں میں جبری مشقت کروانے کا طریقہ طویل مدت میں ناکام رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ صنعتکاری کے نتیجے میں مصر کی اپنی صارفین اور مارکیٹ نہیں بڑھی۔ نہ ہی مصر اپنی مارکیٹ کی محفوظ رکھ سکا۔ برٹش ٹیکنالوجی میں ترقی کا مطلب پیداواری لاگت میں کمی تھا۔ 1838 میں اینگلو عثمانی معاہدے میں محصولات طے ہوئے۔ عثمانیوں نے امپورٹ ڈیوٹی صرف آٹھ فیصد پر طے کی اور اس کا مطلب مصر میں برٹش مصنوعات کی آمد تھی۔ مصر خود ان سے مقابلہ نہیں کر سکا۔
ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ ریاست خود ایفی شنٹ طریقے سے کارخانے نہیں چلا سکی۔
ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ بھاپ سے چلنے والے کارخانوں کے لئے ایندھن کی قلت تھی۔ نہ ہی مصر میں برطانیہ کی طرح کوئلے کی بہتات تھی اور نہ ہی میکسیکو یا امریکہ کی طرح بڑے درختوں کی۔
اگلا مسئلہ یہ تھا کہ محمد علی پاشا کے جانے کے بعد ان کے پیشرو صنعت میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان سب کا ملا کر اثر یہ ہوا کہ مصر کی مشینی ٹیکسٹائل انڈسٹری ختم ہو گئی۔ ایک طرف سے جنگی کیپٹلزم کے نقصانات اور دوسری طرف سے برٹش امپریل ازم کی طاقت۔ عالمی اکانومی میں مصر برطانیہ سے مات کھا گیا۔
مصری صنعتی انقلاب مختصر مدت کا رہا۔ صنعتی کیپٹلزم کے فاتحین میں مصر نہیں تھا۔
ساتھ لگی تصویر میں آرٹسٹ نے محمد علی پاشا کی بنائی ہے۔ اس میں وہ روایتی عثمانی لباس پہنے ہوئے تجارتی جہازوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ تصویر ان کی شہرت سے مطابقت رکھتی ہے، جو اپنی قومی روایات اور کلچر کی قدر کرنے والے جدت پسند ریفارمر کی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...