بابِ کویت …
مرزا عمیر بیگ کا افسانہ … ایک توانا آواز
کئی برسوں قبل کویت کی ایک ادبی محفل میں جب ڈاکٹر مرزا عمیر بیگ صاحب سے پہلی شخصی ملاقات ہوئی تو ذہن میں ان کا نام سنتے ہی ایک شناسائی برق سی دوڑ گئی۔ ان کے افسانے بیش تر مختصر، کئی بار نظر سے گزر چکے تھے۔
اس کے بعد ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کی شخصیت کی مقناطیسی کشش بار بار متاثر کرتی رہی۔ وہ جتنے اچھے ادیب ہیں، اتنے ہی باذوق اور سخن فہم ادب شناس بھی ہیں۔ ان کی فی البدیہہ تقاریر بھی بے حد متوازن اور معنی خیز ہوتی ہیں۔ اس طرح کویت میں ایک معتبر ادبی اور علمی نام ہے۔ ان کی کتابیں ’’یگ یگ کی بات‘‘ اور ’’سنگ ریزے‘‘ قبولیتِ عام حاصل کر چکی ہیں۔
عمیر بیگ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، مہذب اور علومِ سائنس سے بہر مند ادیب ہیں اس لیے ان کی فکر کی گہرائی ان کی تخلیقات سے مترشح ہوتی ہے۔ انھوں نے نئی زندگی کا عکاسی کے لیے افسانہ کے فارم کو منتخب کیا ہے اور اس واسطہ اظہار سے اپنی سوچ کو قاری تک پہچانے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں بہ شرط یہ کہ ان کے قاری کا فکری نسب نما ان کے اظہار کے زاویہ سے مترادف ہو!
عالمی ادب میں میرے خیال میں اردو افسانہ سب سے زیادہ فعال افسانہ ہے، دوسری زبانوں کے مقابلے میں تعداد، فارم اور تجربات کے حوالہ سے اردو افسانہ ممتاز بھی ہے اور ممیز بھی۔ صنف افسانہ کے تمام پرتو اردو کے دامن میں اپنی خوبیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ایسے افسانے بھی ہیں جو سراسر کہانی سے قریب اور پلاٹ کے تابع ہیں۔ تو وہ افسانے بھی ہیں جو تحریری فکر سے احساسات اور ترسیل کے درمیان پل باندھتے ہوئے ملتے ہیں۔ یا پھر وہ افسانے جو مختصر اور واحد سطح یا اکہرے واقعہ یا خیال پر مبنی ہیں۔
عمیر بیگ کے افسانے سماجی حقائق اور اظہار ذات کے دشوار مراحل کو زیادہ کہانی کے انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہے۔ وہ بالکل غیر ژولیدہ پلاٹ پر سارے اظہار کے ڈھانچے کو حکیمانہ طور پر وجود میں لاتے ہیں۔ اس عمل میں نہ تو طویل تاثر انگیز منظر نگاری سے مدد لی جاتی ہے نہ ہی بے جا عمق پیدا کرنے کے لیے ڈرامائی پیچیدگی اور ابہام ارادہ کے ذریعے راست بیان کو بالواسطہ کرنے کی نہج اختیار کی جاتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کہانی کار اپنے فکری ارژنگ میں کئی صورتیں وارداتیں اور منتج ہونے والے انجام کا ایک ذخیرہ رکھتا ہے۔ جب یہ ارژنگ کسی افسانہ کے طور پر کھلنے لگتا ہے تو لحظہ لحظہ اس ماحول ’’نام‘‘ کردار اور حالات ایک خاص ترتیب سے پیش ہوتے ہیں۔
عمیر ایک خاص رفتار سے اپنے فن پارہ میں کرداروں اور ان پر محیط مناظر پر سے پردہ ہٹاتے ہیں۔ ان مناظر میں کئی متحرک اور ان کے ساتھ جامد علامتیں بھی ہیں جو اظہار کے تلازمہ کا کام کرتی ہیں۔
ان کی ہر کہانی ایک سوانحی عنصر رکھتی ہے، وہ بھی آپ بیتی جیسا، یہ نہیں معلوم کہ مصنف نے یہ انداز اتفاقی طور پر اختیار کیا ہے یا اختیاری طور پر۔
ان کی افسانوی نثر میں چھپی ہوئی نازک سی حسیت ایسے ہی قاری تک پہنچ سکتی ہے جو اس کی اصلیت سے آگاہ ہو اور اس احساس سے آشنا بھی ہو۔
عمیر بیگ کے سب افسانے (بالعموم) نئی زندگی اور نئے ماحول کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ انھوں نے قصہ گوئی اساطیری انداز اور مصنوعیت سے اجتناب برتا ہے۔ ساری کہانیاں عمومی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور اطراف و اکناف سے متعلق ہیں۔
وہ اپنی عبقری صلاحیت سے ایسے موضوعات اور مناظر زندگی کے جنگل سے چن لیتے ہیں جو نا آسودہ شب و روز گرسنہ مزاج ماڈرن زندگی پر فرد کی وجودی نامکملیت اور اطوار کی بے ربطی کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ موضوعات اور مناظر مل کر ایک تخلیقی اکائی کی تشکیل کرتے ہیں جس میں کرب ایک زیریں رو کی طرح ساری رہتا ہے۔ وہ اس تمثیل یا استعارے کے دورانیہ میں کرداروں کا ربط و ضبط بھی دکھاتے ہیں اور ان کے درمیان قرب و فصل کی کیفیت کی تصویر کشی بھی کرتے ہیں۔
اس طرح کہ ان کا افسانہ ایک متوازن ناظر کی زبان سے بیان ہوتا ہے جو کہانی کے اندر ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں پر ایک غیر محسوس سا تبصرہ بھی کرتا رہتا۔
اس تمام عمل کے دوران تخلیق کار ایک خاص فکری مناسبت سے منظر کشی اور کلیدی افراد کے تعارف کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ واقعہ ہمارے بہت قریب سے ہو گزرا ہے!
عمیر کا افسانہ بالکل راست طرز اظہار سے دامن نہیں بچاتا۔ وہ کوئی ایسا فنی تجربہ نہیں کرتے جو ترسیل اور ما فی الضمیر کی ادائیگی میں آڑے آئے۔ تکرار اور غیر ضروری حاشیہ آرائی سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ وہ بلا کم و کاست گرانی کا تاثر دیے بغیر اپنے قاری تک پہنچنا چاہتے ہیں اور اس طریق کار میں کامیاب بھی ہیں۔
ان کا مشاہدہ عمیق ہے وہ کردار کو تجزیہ کی مختلف سطحوں پر مختلف الوان میں منشرح کرتے ہیں۔ لفظوں اور عبارت کی سنگ و خشت میں کردار ان کے ہاں ایک زندہ جیتی جاگتی علامت بن کر ابھرتا ہے۔ جس سے قاری اپنے آپ کو منطبق اور متعلق کر پاتا ہے۔ اُنھوں نے زبان و بیان کو ان کی بنیادی معنویت سے پرے لے جانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ وہ سلیس اور سہل بیانیہ عبارت سے ایک ایسا افسانوی ماحول بناتے ہیں جو قاری کے لیے محال نہ ہو۔ نرم و نازک جذبات کو اس ہی سبک انداز میں دکھاتے ہیں جو اس اظہار کے متحمل ہوں وہ اپنے منتخبہ انداز کے لیے کوئی تفصیلی بیانیہ یا مدافعتی سہارا نہیں پیش کرتے۔ یہ نرم و نازک جذبات سے مملو لمحہ مصنف بڑی مہارت سے وضع کرتا ہے۔ لیکن اس خوبی کے ساتھ کہ یوں لگے گویا یہ لمحہ از خود وقوع پذیر ہو گیا ہے۔ ایسے کچھ دلکش مناظر سے آپ بھی لطف اندوز ہوں:
تمھیں کس نے روک رکھا ہے؟
تو آؤ اس پتھر پر آج کے دن یاد نقش کر دیں۔
اس نے خاموشی سے میرا نام پتھر پر لکھ دیا اور میں نے اس کا، اور وہ پھر اٹھی اور خدا حافظ کہہ کر چلی گئی (شام کا مسافر)۔
’’شام کتنی خوبصورت ہوتی وہ مجھے شرماتے ہوئے ٹہلتی اٹھ جاتیں۔ اب کام پر نہیں جانا؟ میں چونک اٹھا۔ سناٹے کا جگر چیرنے والی سرگوشی میرے اندر سے اٹھنے والی آواز تھی۔ ورنہ یہاں تو بیکراں سناٹا ہی چھایا تھا۔ مضمحل سا بستر سے اٹھا اور میز پر پڑے ہوئے کاغذ پر ان ٹکڑوں کو جوڑ کر پنسل سے اس کی ناپ بنائی۔‘‘ (چوڑی)
عمیر کے افسانے روح کی طرح ایک سماجی حکمت پوشیدہ رکھتے ہیں گو کہ وہ ادب کو خالصتاً اظہاروں کا وسیلہ بنائے رکھتے ہیں۔ ایک اور بات جو ان کے افسانوں کو ممیز کرتی ہے وہ کلیدی کرداروں کا محدود ہونا، بے جا کرداروں کے آمد و رفت سے کہانی کو بے سمت نہیں کیا گیا ہے۔
ان افسانوں میں ابتذال اور رکاکت کہیں بھی نہیں ملتی، نہ ہی تلذذ پرستی اور پُر اسراریت کے ذریعے عوامی دلچسپی کو پیش رکھا ہے نہ ہی سستی جذباتیت کو راہ دی ہے۔
انھوں نے ایسے کردار چنے ہیں جو ایک خاص طبقہ کی بہ آسانی صورت گری کر سکیں کوئی کردار وطن سے باہر بسے ہوئے فرد کا استعارہ ہے تو کوئی دفتری طبقہ کا کوئی آزاد مزاج بے پروا معاشرہ کا نمائندہ ہے تو کوئی بے حد تنہا آزردہ فرد۔ ہر افسانہ اسی طرح منتخب طبقہ کی جھلک دکھاتا ہے بین طور پر بھی اور تشکیل اور لہجہ کے ذریعے بھی لیکن زبان و بیان کو منفی طور پر متاثر کیے بغیر وطن سے دور بسنے والوں کے تجربات و مسائل کو اور اس زندگی کی دو رنگی کو خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ منعکس کیا گیا ہے۔ یہ زندگی بھی عجیب ہے کہ اختیاری فراق اور معاشرتی اجنبیت کے درمیان معاشی جد و جہد اور بقا کے لیے ایک مجہول سرخروئی کے حصول میں رواں دواں ہے۔
ہم اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اپنے افسانے کے زماں و مکاں میں عموماً شریک محفل ہونے کے علاوہ مصنف / ناظر ایک اجنبی آنکھ سے سارے مناظر کو دیکھتا، برتا اور پرکھتا ہے۔ اس طرح افسانہ اس کے بنیادی تحلیل اور سوچ کا ترجمان رہتا ہے۔
ان افسانوں میں رومانی نوع کے افسانے گہری وابستگی اور جنون کی حد تک بڑھتے ہوئے عشق کے مقابلہ میں قریبی مراسم، ذہنی یکسانیت اور مانوسیت سے پیدا شدہ تعلقات کو اور ان کے ثبات کی کمی کو بحث میں لاتے ہیں لیکن غیر محسوس طور پر اور اس سماجی سانحے کو غور سے دیکھتے ہیں۔ یہ سطحی الفتوں سے معنون زندگی بالکل عجیب سی پہچان رکھتی ہے، مثال کے طور پر شام کا مسافر میں انور آشی اور پھر شیریں کے تعلقات اور اس تناظر میں انور اور آشی کا یہ مکالمہ:
’’اس سے پہلے یہاں میرا اپنا تھا کون؟ آج میں اکیلی کب ہوں تم بھی تو ہو۔ اپنا گھر بار چھوڑ آنے کے بعد ہم سب اس گھریلو ماحول کے لیے ترستے ہیں جو ہمارے کلچر کا خاصہ ہے تم مجھے باتوں میں نہ الجھاؤ آج میں جانے بغیر نہ مانوں گی۔ آخر میرا بھی تو کچھ حق ہے؟‘‘
’’تم اس راکھ کو کیوں کریدنا چاہتی ہو جس کے نیچے چنگاریاں چھپی ہیں۔‘‘
ایک بوند پانی میں سریواستو اور سروج کا تعلق اور پھر یہ پیراگراف۔
’’دوسرے دن سروج جاتے وقت سرجن سریواستو سے ملنے گئی۔ وہ آپریشن تھیٹر جا رہے تھے ان کے چہرے پہ پھر سے اعتماد کی لکیریں ابھر آئی تھیں۔ معمول کے خلاف آج بے داغ سفید قمیض کی جگہ انھوں نے بڑے بڑے پھولوں والی شرٹ پہن رکھی تھی جیسے پیاسی دھرتی بارش کے پہلے چھینٹے سے سیراب ہو کر اپنے چہرے پر غنچے کھلا لے۔
سورج کے ہونٹوں پر ایک مطمئن مسکراہٹ عود کر آئی اور وہ اپنے سفر پر چل پڑی‘‘
اور کچھ اسی طرح ’’گڈ بائی گرل‘‘ کا مکمل افسانہ بھی اس کیفیت کو کامیابی سے منشرح کرتا ہے۔
مرزا عمیر کے افسانوں میں کردار سازی کے عمدہ نمونے ملتے ہیں انھوں نے عبارت کو گنجلک رکھ کر کچھ اس طرح کرداروں میں نفسیاتی اور سماجی عناصر پنہاں کر دیے ہیں کہ ان کی باریک بینی اور عمرانیات پر گہری نظر کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
عمومی زندگی میں ایسے کردار بکھرے پڑے ہیں جو عام نظر کی گرفت میں نہیں آتے۔ لیکن عمیر ان ہی کرداروں سے ایک غیر محسوس رنگ آمیزی کے ذریعے نادر علامات پیدا کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر سفید ابوا کا کردار یہ ایک عجیب مادرانہ شفقت سے مالا مال ہستی ہے جو ملازمہ کی شکل میں وارد ہوئی ہے۔ جس کا بنیادی شوق مفید عمل کرنا اور بے لوث طور پر اپنے چاہنے والے مالک کے لیے کام کرنا ہے وہ کام کرنے میں ہی اپنے وجود کی شناخت پیدا کرتی ہے اور اس حد تک کام کرتی ہے جب تک اس کی شناخت قائم ہے جیسے ہی اس کی اہمیت کم ہوئی یا افادیت کم ہوئی وہ عضو معطل بننے کو قبول نہیں کرتی اور چپ چاپ اپنے موصوف سے (مالک سے) دامن کش ہو جاتی ہے مرزا عمیر کی افسانوں کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نرم و نازک رشتوں کو بے حد سبک انداز پیش کرتے ہیں مختصر اشارتی جملوں میں بڑی معنی خیز بات کہہ جاتے ہیں ان کا افسانہ ’’سکوں سے لکھی عید‘‘ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں ملک سے دور بسنے والے ایک شخص کی مختلف یادوں کے شذرات اور گوشے افسانے کے در و بست کو قائم کرتے ہیں۔
اس افسانے میں (جس کو میں نے اتفاقی طور پر چنا ہے) مرزا عمیر بیگ نے کئی تصویریں مدغم کر کے ایک فن پارہ تخلیق کیا ہے۔ جس کے حسب ذیل کردار اور مشاہدے قابل غور کاری گر موت: دس دس پیسے اور آٹھ آٹھ آنے کے عوض فن بیچنے والی شریف عورت فن کے لیے اہم ترین جس ’’آنکھ‘‘ کی کمزوری اور سوشیل سیکیوریٹی کا عدم اس کاری گر عورت سے متکلمہ کا حسی اور دلی ربط اور اس سے پیدا ہونے والی یادیں اس سارے تعلق میں بٹن اور کرتے کی غیر محسوس اہمیت جیسے ایک جامد اور بے جا سی شے متحرک ہو گئی ہو۔
متکلم کی بیوی جو اس فن کے تناظر میں یاد کے پردہ پر چھا جاتی ہے (جو کاریگر عورت کی شناخت ہے) پھر بٹن کے تلازمے میں ہجر زدہ احساسات کا تموج۔
خلیج کی زندگی دوست داری کی تہہ میں چھپی گرسنہ مزاجی وطن کی چھاؤں سے فاصلہ اور اس کی کسک وطن کی عید کی جھلکیاں۔
فون اور مواصلاتی رابطہ سے نا آسودہ تعلق خاطر۔
اور پھر افسانے کے مقطع کے طور پر مصنف کا یہ نکیلا جملہ کہ ’’اور سکوں سے لکھی ہوئی عید شاید اسی طرح گزرتی ہے۔‘‘ اس طرح یہ افسانہ ایک زُود تشکیلی (Multi-faceted) آرٹ کی طرح ابھرتا ہے۔
بلا شبہ اس لحاظ سے مرزا عمیر بیگ کا افسانہ ہم عصر زندگی اور جدید حسیت کے حوالہ سے بے حد توانا تخلیقی سوچ کا آئینہ دار ہے اور ان سے اس طرح گہر سفتنی کے عمل کو جاری رکھنے کی امید ہے کہ اردو ادب کا قاری ان فن پاروں کا منتظر ہے۔
٭٭٭