(3)
مرزا شاہرخ چلتے چلتے کجلی بن کے قریب پہونچ گئے اور انھوں نے دیکھا کہ زمین کا رنگ اور اس کی مٹی ہمارے ملک کی زمین اور مٹی سے الگ ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس سرزمین پر کبھی انسانوں کا گزر ہی نہیں ہوا ہے۔ میدان ہیں تو ویران ہیں، جھاڑیاں ہیں تو سنسان۔ جابجا ندیاں ہیں اور نالے ہیں مگر نہ کسی ندی کا گھاٹ ہے نہ اتار ہے۔ کشتی اور ناؤ کہاں سے آئی، کوئی بستی کوئی گاؤں دور دور تک نہیں ہے۔
میرسنگی صاحب نے صاحب عالم کو مشورہ دیا کہ اجنبی جگہ ہے آج دوپہر دن سے کسی جگہ ڈیرا کیا جائے اور چار سوار چار طرف بھیجے جائیں، اگر کوئی بستی پائیں تو اپنے ساتھ دو ایک آدمی اس بستی کے لائیں اور ان لوگوں سے کجلی بن کا ٹھیک رستہ معلوم کرکے آگے بڑھا جائے اور یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ کجلی بن کے اندر کوئی جا سکتا ہے یا نہیں اور شیر ہاتھی اس میں کہاں کہاں رہتے ہیں۔ ان کا شکار کس طرح کیا جائے گا۔ صاحب عالم نے میر سنگی صاحب کی رائے کو پسند فرمایا اور چار سوار چار طرف دوڑائے گئے اور چار پانچ کوس آگے بڑھ کر ایک ندی کے کنارے ڈیرا کیا گیا۔ مغرب سے کچھ پہلے تین طرف سے تین سوار ناکام پلٹ کر آئے اور انھوں نے کہا ہمیں کوئی بستی کوئی گاؤں اور کوئی آدمی نہیں ملا اور نہ ہم نے کسی سے رستہ پایا۔ ہم درختوں اور جھاڑیوں میں پھنس پھنس کر نکلے ہیں اندازاً بیس بیس میل تک کوئی آبادی نہیں ہے۔ مگر چوتھا سوار پورب کی طرف سے جو آیا تو اپنے ساتھ دو آدمیوں کو لایا۔ صاحب عالم کے حضور میں دونوں آدمی اور وہ سوار پیش کیا گیا۔ دونوں آدمی لنگوٹی باندھے ہوئے تھے، ان کی صورت پر وحشت برستی تھی۔ ان سے بات کی تو وہ عجب طرح کی بھاشا بولتے تھے اور وہ بہت کم سمجھ میں آتی تھی۔ اور جو کچھ ان کی باتیں سمجھ میں آئیں وہ یہ ہیں۔
انھوں نے کہا اس جگہ سے دس کوس پر ہمارا گاؤں ہے۔ ہم کھیتی برائے نام کرتے ہیں، اس جنگل کی جڑی بوٹیاں اور ترکاریوں سے اور شکار کے گوشت سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ یہاں سے ہمارے گاؤں تک کجلی بن میں گھسنے کا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ چھوٹے بڑے درخت ایسے پاس پاس ہیں اور ان کے ٹہنے نیچے نیچے سینکڑوں ہزاروں برس کی عمر کے ایسے بچھے ہوئے ہیں کہ آدمی یا گھوڑا یا بکری تو بکری گیدڑ اور خرگوش اور مور بھی اندر نہیں جا سکتا نہ اندر سے باہر آ سکتا ہے۔ ہمارے گاؤں سے پچاس کوس پر ایک گاؤں اور بستا ہے، وہ بڑا گاؤں ہے اس کے پاس ہی ایک کجلی بن کا دروازہ ہے۔ دروازے سے یہ مراد ہے کہ وہاں جا کر بَن کچھ چھدرا چھدرا ہوگیا ہے۔ اس گاؤں کا نام پلا ہے اور پلا میں ایک راجپوت رہتا ہے۔ وہ شیر کا شکار کھیلتا ہے اور کجلی بن کے اندر جایا کرتا ہے۔ آپ یہاں سے پلا جائیے اور اس راجپوت کو بلائیے اور اسے ساتھ لے کر کجلی بن جائیے اور شیر کا شکار کیجیے۔ مگر حضور آپ رات کو یہاں نہ ٹھہریں کیونکہ یہاں رات بجتی ہے۔صاحب عالم نے فرمایا رات کیونکر بجا کرتی ہے۔ گنواروں نے رات کا بجنا سمجھایا بھی مگر ان کی بولی ایسی اکھڑ تھی کہ رات بجنے کا مطلب کوئی نہ سمجھ سکا ۔ ان سے کہا گیا تم رات کو اردوئے معلی میں رہو ۔ صبح ہم بھی تمھارے ساتھ گاؤں کو چلیں گے اور وہاں سے پلا کو جائیں گے ۔ مگر وہ کسی طرح نہ ٹھہرے اور یہی کہتے رہے ہم یہاں ہرگز نہ ٹھہریں گے یہاں تو رات بجتی ہے اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔
میر سنگی صاحب نے جمعدار کو بلا کر سمجھا دیا کہ آج رات کو معمول سے زیادہ پہرا رہے، گنوار کہہ گئے ہیں کہ رات بجتی ہے اس سے زیادہ ان کا کہنا سمجھ میں نہیں آیا۔ مگر وہ جو پتہ توڑ کر بھاگے ہیں اس سے خیال ہوتا ہے کہ رات کو یہاں کوئی جوکھوں ضرور ہے۔ جمعدار نے کہا، حضور! جہاں ڈر ہے وہاں سپاہی کا گھر ہے۔ پہرا بھی دوہرا کیے دیتا ہوں اور رات بھر خود بھی کمر باندھے کھڑا رہوں گا۔ مجھے دیکھنا ہے کہ رات مردار کیونکر بجتی ہے، صاحب عالم کے اقبال سے ہم تو اپنے آگے فلک کی ہستی نہیں سمجھتے۔ البتہ کجلی بن کا پاس ہے، شیر لگتے ہوں گے یا ہاتھی ستاتے ہوں گے تو ہماری تلوار کے آگے وہ کیا ٹھہریں گے ۔ غرض جمعدار یہ کہہ کر سپاہیوں کو وردی پہنانے چلا، اس میں آفتاب غروب ہو گیا اور آس پاس کے درختوں پر ایسے پرند اور چڑیوں نے بسیرا لیا جو اس سے پہلے مرزا شاہرخ اور ان کے ساتھیوں نے نہ دیکھے تھے، ان کی آوازیں بھی کانوں کو الگ معلوم ہوتی تھیں۔ تھوڑی دیر میں چاروں طرف اندھیرا چھا گیا ۔ رات عشا کی نماز پڑھ کر چھپر کھٹ میں جا کر لیٹ گئے۔ پاچپی کرنے والا پاچپی کرنے لگا ۔ داستان کہنے والے نے داستان شروع کر دی اور گھڑیالی نے رات کے دس بجائے جو یکایک ان کے کان میں جھانجھ بجنے کی آواز آئی جو بہت سریلی اور دل کش تھی۔ اس اجاڑ جنگل میں جھانجھ کی آواز بڑھی اور دم بدم بڑھنے لگی اور صاحب عالم چھپر کھٹ پر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا میر سنگی صاحب ہم سمجھے ان گنواروں نے جو کہا تھا کہ رات بجتی ہے ۔ وہ اسی آواز سے مراد تھی۔ میر سنگی صاحب اور سب مصاحبوں نے کہا حضور نے بجا فرمایا، رات بجنے کا ان کا اسی آواز سے مدعا تھا اور ایک گھنٹے میں تو یہ معلوم ہونے لگا کہ جنگل ہزاروں اور لاکھوں جھانجھوں سے بھرا ہوا ہے اور ان کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ صاحب عالم گھبرا کر خیمے سے نکل کر باہر آ گئے ہیں اور حیرت میں مبتلا ہیں۔ رات کے بارہ بجے تو یہ آواز اس قدر بڑھی کہ صور قیامت کی تصدیق ہو گئی۔ آواز کی رفتار اس طرح تھی کہ ایک بار معلوم ہوتا تھا کہ جھانجھ آسمان پر سے بجتے چلے آتے ہیں اور آتے آتے سر پر آئے اور پھر کانوں کے اندر گھس گئے۔ پھر کانوں سے نکلے، سر پر پہونچے اور سر پر سے اونچے ہوکر آسمان کو اڑ گئے۔ جب وہ صدا اوپر جاتی تھی تو کچھ دھیمی معلوم ہوتی تھی اور جب نیچے آتی تھی تو کان کے پردوں کو پھاڑتی معلوم ہوتی تھی۔ اب کوئی آدمی ایک دوسرے کی بات بالکل نہ سن سکتا تھا۔ صاحب عالم میر سنگی صاحب کے کان میں بات کہتے تھے اور میر صاحب صاحب عالم کے کان میں مگر پھر سمجھ میں نہ آتی تھی اور اس شور اور ہولناک آواز نے دلوں میں دھڑکن پیدا کردی۔ ہر شخص کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ گھڑی دو گھڑی میں دم نکل جائے گا ۔ گھوڑوں نے اگاڑیاں پچھاڑیاں توڑ ڈالیں اور اردوئے معلی سے نکل کر بھاگ گئے۔ ایک ہاتھی اور ہتنی ساتھ تھی وہ دونوں تھر تھر کانپ رہے تھے، دو ایک گھوڑے زمین پر گرپڑے اور مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے۔ ان مسافروں کے لیے یہ رات قیامت کی رات بن گئی۔ صاحب عالم نے حکم دیا کہ تمام لشکر میں خوب روشنی کی جائے تاکہ ایک دوسرے کی صورت تو دیکھتا رہے مگر یہ حکم اشاروں میں دیا گیا۔ رات کے دس بجے سے رات کے دو بجے تک رات اسی دھوم دھام سے بجتی رہی اور انسانوں کے حواس خمسہ کھوتی رہی۔ صاحب عالم اور میر سنگی صاحب دوات قلم لے کر بیٹھ گئے اور لکھ لکھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے۔ رات ڈھلنے کے ساتھ رات بجنے کی صدا بھی دھیمی ہونے لگی یہاں تک کہ صبح کے وقت بالکل موقوف ہو گئی۔
شاہ خاور مشرقستان سے نکل کر صاحب عالم کے لیے اردوئے معلی میں حاضر ہوا تو خاص و عام نے ایک دوسرے کی صورت دیکھ کر کہا تمھاری صورت بالکل زرد ہوگئی ہے۔ صاحب عالم نے اور میر سنگی صاحب نے جو آئینہ دیکھا تو فی الحقیقت اپنے اپنے منہ یرقان زدہ پائے یا ہلدی کا اوبٹنا ملا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ رات بھر کوئی انسان حیوان سویا نہ تھا اور نہ کسی نے آرام پایا تھا، اس واسطے سب پر سستی کاہلی چھائی ہوئی تھی۔ میر سنگی صاحب نے صاحب عالم سے کہا کہ فورا کوچ کا حکم دیا جائے کیونکہ یہ مقام زہر ہے، ایک رات رہنے سے آدمی اور جانور مردہ ہو گئے ہیں اگر دو ایک دن یہاں اور رہے تو شاید سب کا کام تمام ہوجائے۔ صاحب عالم نے فرمایا آپ درست فرماتے ہیں اور اسی وقت روانگی کا حکم دے دیا۔ اردوئے معلی پہلے سے چلنے کا بندوبست کر چکا تھا، صاحب عالم کے حکم کے ساتھ ہی سب وہاں سے چل دیے اور بھاگا بھاگ اس گاؤں پر پہونچ کر ڈیرے ڈال دیے جس سے کل دو گنوار پکڑے آئے تھے ۔ گاؤں والوں نے کہا بہت اچھا ہوا آپ وہاں سے اٹھ آئے، اس جگہ کا خاصہ ہے کہ باہر کا جو چرند پرند یا کوئی آدمی وہاں آ کر ٹھہر جاتا ہے تو اس آواز کو سن کر تین دن میں اس کا خون خشک ہو جاتا ہے اور تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔ میر سنگی صاحب نے ان سے کہا تم آخر پاس کے رہنے والے ہو تم نے بھی سمجھا کہ یہ آواز کیسی ہے اور کہاں سے آتی ہے؟ ان لوگوں نے کہا ہم کیا ہمارے بڑے ہزاروں برس سے اس گاؤں میں رہتے چلے آئے ہیں مگر یہ بھید کسی کو نہ معلوم ہوا کہ رات کیوں بجتی ہے اور رات ڈھلنے کے ساتھ اس کی آواز کیوں کم ہوتی جاتی ہے، اسی وجہ سے ہم لوگوں نے اس کا نام رات بجنا رکھ لیا ہے کہ باجن بجتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔